You are currently viewing ا کیسویں صدی میں اُردو نظم  اور ہماری تہذیب

ا کیسویں صدی میں اُردو نظم  اور ہماری تہذیب

بلال احمد بٹ

  ریسرچ اسکالر

شعبئہ اُردو۔فارسی،گجرات یونی ورسٹی ،احمد آباد۔(گجرات(

ا کیسویں صدی میں اُردو نظم  اور ہماری تہذیب

علاقائی رنگ کے تناظر میں

    دورِ حاضر میں اگر چہ ہندوستان کا شمار ترقی پذیرممالک میں ہوتا ہیں۔مگر اس کی ترقی محض اقتصادیات پر منحصر ہے۔ملک کا معاشرہ اور اس کی تہذیب اور اتحاد کا سِرا دن بہ دن ٹوٹتا جارہا ہے۔اگر ہم اپنے ملک کی بات کریںتو ترقی اور اس کی شناخت صحت مند معاشرہ اور اس کی تہذیب و ثقافت کو قرار دیا جا تا ہے۔اکیسویں صدی میں اردو نظم اور ہماری تہذیب پر سوچنے سے پہلے ہمیں خود کے اندر جھانک کر دیکھنا ہو گا کہ کیا اکیسویں صدی اردو نظم کی صدی ہو سکتی ہے۔کیوں کہ وسطی دور میں بے شمار نظم گوء شعرائوں کے نقش قدم پر آج بھی نظمیں تحریر یں ہو رہے ہیں۔

            جب ہم اردو نظموں میں تہذیب کی بات کرتے ہیں تو ہمیں اپنے ذہن میں سب سے پہلے اپنی پیاری زبان اردو کی جانب جانا ہے کہ جس کی حود کی پیدائش ہی سماجی،معاشی و تہذیبی تقاضوںاور عوام کی ضرورت کے تحت ہوئی ہے۔نیز شروع میں اس کے ادب کا دائرہ محدود ہی رہا ہو لیکن عوام کے جذبات اور تہذیبی و معاشرتی اثرات کی نمائندگی اس زبان کو ہمیشہ سے حاصل رہی ہے۔پروفیسر گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں:۔

’’اردو زبان ہماری پچھلی کئی صدیوں کی کمائی ہے۔ایسی کمائی جس سے کوئی انصاف پسند،نظر نہیں چُرا سکتا ۔اہلِ ظرف جانتے ہیں کہ اردو جینے کا سلیقہ،سوچنے کا ایک طریقہ بھی ہے۔اردو محض زبان نہیں ایک طرزِ زندگی،ایک اسلوب زینت بھی اور مشترکہ تہذیب کا وہ ہاتھ بھی جس نے ہمیں بنایا اور سنواراہے۔اور شکل دی جس سے ہم آج اپنی پہچان کی ایک منزل سمجھتے ہیں۔‘‘  ؎۱

       بہر کیف جہاں تک اردو نظم اور ہماری تہذیب کی بات ہیں ان دونوں کا اتنا تمہید کافی ہے۔جس سے ہمارے معاشرے میں ہر ایک مسلہ نظم کے ذریعے عوام تک پہنچتا ہے۔اور یہ پورے معاشرے کی نمائندگی کرتا ہے۔اور سچ پر ڈٹ کر رہتے ہیں۔آج ہم اکیسویں صدی میں سانس لے رہے ہیں۔اور یہ صدی پورے طور پر سائنس و ٹکنالوجی کی صدی ہے۔پورے معاشرے میں موبائیل،کمپوٹر،انٹر نیٹ،ٹیلی وژن کا دور دورہ ہے۔سائنس کے ان حیرت انگیز انکشافات نے تمام عالم کی تہذیب و معاشرے کو نہ صرف تحریر کیا ہے بلکہ یکجا کر دیا ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ آج ہم صرف انٹر نیٹ کے ایک کلک سے سارے عالم کی معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔

         چوں کہ ہم سب کو یہ علم ہے کہ ہر ملک کی اپنی سماجی اور تہذیبی شناخت ہوتی ہے۔جس سے وہ ہر جگہ جانا اور پہچانا جاتا ہے۔اُردو نظموں میں جن سماجی اور تہذیبی وثقافتی عناصر کو پیش کیا گیا ہے،اِن عناصر کی تلاش و جستجو سے ابتداء میں یہ جان لینا ضروری ہے،کہ وہ کون سے حا لات تھے جن کے تحت نظمیںتحریر کی گیئں۔اردو نظموں   میںسماجی و تہذیبی پس منظر سے قبل ہندوستان کی خاصیت ، یہاں کے لوگوں کی طبیعتں، ماحول ،طرزِ زندگی، خیالات،روایات،رسم و رواج اور طرزِ زظہار وجود میں آیئں۔

       ادب اور تہذیب کا آپس میں گہرا رشتہ ہوتا ہے۔شاعری فقت دلی جذبات کا اظہار ہی نہیں ہوتی بلکہ اپنے عہد کے سیاسی،سماجی،اور تہذیبی حا لات کی آیئنہ دار بھی ہوتی ہے۔یوں تو ہم ادب کی دوسری اصناف میں بھی متعلقہ عہد کی تہذیبی جھلکیاں دیکھ سکتے ہیںلیکن نظم ایک ایسی صنف ہے جس میں اس عہد کی بھر پوُرعکاسی نظر آتی ہے۔اس لیئے جب ہم ہندوستان کے ابتدائی دور کے سماجی اور تہذیبی تناظر پر نظر ڈالتے ہیں۔تو اندازہ ہوتا ہے کہ ملک سیاسی،سماجی،اور تہذیبی سطح پر کس قدر مختلف خطوں میں بانٹ چُکا تھا۔ہر حصے کا الگ الگ حکمران بھی ہوتا تھا ہر علاقے کی لسانی زبان بھی الگ الگ خانوںمیں بٹی ہوتی تھیں،رسم و رواج بھی الگ الگ تھے۔بہر کیف اُردو زبان وادب کی خوب آبیاری ملی۔ابتدائی زبان و ادب کا بیشتر سرمایہ شاعری ہی کی رہینِ منّت ہے۔اس عہد میں زیادہ تر شاعری نظم میں کی گئی۔کیونکہ نظم ایک ایسی صنف تھی۔جس میں کسی بھی واقعے کو تسلسُل کے ساتھ بیان کیا جا سکتا تھا۔اس لیے اُس عہد کی بیشتر نظموں میںسماجی اور تہذیبی صورت حال کا کھُل کر عکاسی کی گئی ہے۔

                 دنیا کی تمام  زبانیں کسی نہ کسی ملک کے تہذیب وتمدن کی پیداوار ہوتی ہے۔ اسی طرح اردو بھی زبان ہی نہیں ہے بلکہ اس میں ایک تہذیب بھی موجود ہے۔جو زبان جس خطے یا علاقے میں بولی جاتی ہے۔اُس میں اس علاقے کی تہذیب وتمدن کی عکاسی ملتی ہے ۔اُردو زبان اپنے کسی بھی سطح پر ہندوستانی ماحول،معاشرے اور مشترک مزاج اور سماج سے بے نیازنہیں ہوئی ہے اردو شروع سے ہی سب کے ساتھ مل کر اور سب کو ساتھ لے کر چلتی رہی ہے اس کے مزاج اور خمیر میں یہ بات واضع ہے کہ اس کی تربیت عناصر ہی ہندو مسلم ہندی اور ہندستانی ہیں۔یہ اخوت ومحبت کی زبان ہے۔اور اتحاد واتفاق کی علامت بھی،وطن دوستی،وطن پرستی ،مساوات،رواداری اور قومی یکجہتی کی ضمانت بھی، اس کا ادب ،اس کی شاعری اسی کی ترجمانی ہے۔لیکن جن اصناف نے اس میں اہم رول ادا کیا ہے ،وہ داستان ہو کہ ناول،افسانہ ہو کہ انشائیہ، طنز ومزاح ہو کہ سفر نامہ ،مرثیہ ہو کہ قصیدہ ،غزل ہو کہ نظم سبھی مشترکہ تہذیب کی آئینہ دار بھی ہیں اور اس زبان کو تقویت پہنچانے کا سبب بھی۔

            مذکورہ بالا میں جتنی بھی اصناف کے نام گنوائے گئے ہیںان سب میںہندستان کی علمی وادبی ،سیاسی وسماجی ،تہذیبی وتمدنی ،معاشی ومعاشرتی ،اخلاقی واقداری ،اقتصادی وثقافتی ،مذہبی وملیّ،قومی ووطنی وغیرہ جیسے عناصربہ کثرت پائے جاتے ہیں۔گویا کہ اردو زبان میں ہندوستانی سماج کی کامیابی اور ترقی کے راز مضمر ہے ۔اور یہ بات کئی معانوں میں درست ہے کہ شاعری میں صنفِ نظم نے سب سے زیادہ ہندو مسلم میں اتحاد ،بھائی چارگی ، باہمی اختلاط،ہمدردی،مساویانہ حقوق ،میل جول اور اپنا پن کے احساس کو نمایاں کرنے میںمعاون کردار ادا کیا ہے۔اردو نظم میں ایسے شعراء کی کمی نہیں ہے جنھوں نے ان موضوعات کو اپنی شاعری کا اہم وسیلہ بنا کر عوام کے دلوں پر راج کیا۔مختلف ادوار میں بعض شعراء حضرات کی آمد نے صنفِ نظم کے دامن کو مالامال کیا۔ بہرِ کیف اگر نظیرؔ اکبر آبادی کی نظموں پر نظر ڈالئے۔توہمیں ہندوستانی سماج اور تہذیب کے ہر رنگ مل سکتا ہیں۔حالیؔ،آزادؔ،سرسیدؔ کی نیچرل نظم ونثر کو پرکھئیے جن میں ہندوستانی گنگا جمنی تہذیب کی حقیقت کے نادر ونایاب جھلکیاں نمایاں طور پر نظر آئیں گی۔ہندوستان میں جب وطنیت اور قومیت کا سیاسی تصّور پیدا ہوا تو شعرائے کرام کے لب ولہجے میں خود بہ خود تبدیلی پیدا ہوئی۔شروع میں اکبر آلہ آبادی ؔ،چکبستؔ،ظفرعلیؔ خان،احسان دانشؔ،ساغر نظاؔمی،علامہ اقبالؔ،جوش میلح آبادؔی، نظیرؔ اکبر آبادی ،اور دوسرے شعرائے کرام کے نام اس سلسلے میں لئے جا سکتے ہیں جن میں علامہ اقبالؔکے ’’نظریہ وطنیت‘‘نے جس کی اساس وطن ِعزیز کی وابستگی پر اپنا ’’ترانہ ہند‘‘پیش کیا اور چمن جھوم کر۔۔۔۔ـــــ۔’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان  ہمارا‘‘گانے لگے۔اور یہ نظم آج بھی ہمارے یہاں اسکولوں میں ہندوستانی طلباء ترنم سے پڑھتے ہیں۔

            اردو ادب کے شعر منظر نامے پر نظیر اکبر آبادی کی بے نظیری اپنی جگہ مسلم ہے، یہ اور بات کہ نظیرکی شاعری ان کے ہم عصروں کو راس نہیں آئی۔انہیں عوامی اور بازاری شاعر سے زیادہ نہیں گردانا۔جبکہ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ وہ زورگو اور برجستہ شاعر تھا۔بہرِکیف ان کی شاعری ہندوستانی تہذیب وثقافت کی مکمل آیئنہ دار ہے اس میں ہر طرح کی دلچسپی کا سامان موجود ہے۔نظیرؔ نے اپنے آپ کو سماج کے اندر جذب کرکے اپنیت کو ایک اجتماعی چیز بنا دیا،اس لیے ان کی شاعری میںزندگی کا کوئی ایسا پہلو نہیں بچا جو موجود نہ ہو، غرض نظیرؔ نے سب کی تفریح کا سامان مہیاکرنے کے ساتھ ساتھ اپنے عہد تہذیبی اور سماج صورت حال کا نقشہ جس طنزیہ طریقے سے کھینچا ہے وہ اس عہد کے دوسرے شعراء میں نہیں ملتا۔اس سلسلے میں ڈاکٹر فیلن نظیر کے حوالے سے کچھ اس طرح رقم طراز ہیں:

                    ’’نہایت وسیع معنوں میں وہ اعلی درجہ کا آزاد ،اعلی درجہ کا موجد،اعلی درجہ کا حکیم،اور اعلی درجہ کا حکیم دوست تھا۔ اس کی ذکاوت کی رنگارنگی ان مضامین میں رنگارنگ سے ظاہر ہوتی ہے جن پر اس نے  طبع آزمائی کی جس قسم کے شاعرانہ خیالات اس نے ان معمولی چیزوں سے پیدا کیے ہیں جن پر اور  ہندوستانی شاعروں نے لکھنا یا کسر شان سمجھانا ان کو لکھنے کی قابلیت ہی نہ تھی۔ ‘‘  ؎۲

     جہاں تک نظم نگاری میں ہندوستانی تہذیب و معاشرت کی عکاسی کے اظہار کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں عادل شاہی اور قطب شاہی عہد کے شعرا سے لے کر نظیرؔاکبر آبادی کے زمانے تک کو اولیت کا مقام حاصل ہے۔یہ زمانہ ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کا عکاس ہے۔نظیرؔاکبر آبادی جو کہ عوامی شاعرکہلاتے ہیں،کا نام کئی لحاظ سے انفرادیت رکھتا ہے۔انہوںنے اپنی شاعری میں ہندوستان کی معاشرت کے دلکش نمونے پیش کر کے یہاں کی ملی وحدت کو قائم کرنے کی بے لوث پہل کی۔اُن کی شاعری میں اس سرِزمیں کی معاشرت اپنی تمام تر رعنایئوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتی نظر آتی ہے۔وہ جہاں مسلمانوں کے مذہبی تہوار پر نظمیں کہتے ہیں وہیں انھیںہندوبرادری سے تعلق رکھنے والی مذہبی رسومات کو پیش کرنے میں مسرت حاصل ہوتی ہے۔ہتہ کہ ان کے دل میں ہندوستان کے ہر ایک طبقے کے لیے محبت تھی،اسی لیے ان کے یہاں مختلف سماجی طبقات کے افراد کے حرکات و سکنات کا خوب میلان نظر آتا ہے۔نظم’’ہولی‘‘کے اس بند میں دیکھئے کہ کس طرح نظیر ہولی کی خوشی کے منظر کو باندھتے ہیں  ؎

                 ہر آن خوشی سے آپس میں سب ہنس ہنس رنگ چھڑکتے ہیں

                  رخسار گلالوں سے گلگوں کپڑوں سے رنگ ٹپکتے ہیں

                کچھ راگ اور رنگ جھمکتے ہیں کچھ مے کے جام چھلکتے ہیں

                کچھ کو دیں ہیں کچھ اچھلیں ہیں کچھ ہنستے ہیں کچھ پکتے ہیں

                  یہ طور یہ نقشہ عشرت کا ہر آن بنایا ہولی نے

        حب الوطنی، قومی،مذہبی ،سماجی ،تہذیبی اورتعمیری نظمیں کہنے یہ رواج آزادی کے بعد بھی جاری رہا۔آزادی کے بعد کے نظم نگار شاعروں کی ایک ذیل فہرست پیش کی جا سکتی ہے جنھوں نے اس نوعیت کے موضوعات کو شاعری میں اپنی شہرت کا ضامن بنایا۔کمارپاشی ،نازش پر بات گڈھی،نیاز حیدر ،مظہر امام، وغیرہ وغیرہ وہ شعراء ہیں جنھوں نے آزادی کے بعد ہندوستان کی قومی یکجہتی،مذہبی رواداری اور قومی میراث جیسے موضوعات پرنظمیں لکھ کر اردو شعر وادب کی دنیا میں اپنی شناخت مظبوط کر لی۔

     ضیاہانی کے شعری مجموعہ’’آیئنہ وطن‘‘میں وہ نظمیں ملتی ہیںجن سے شاعر’’وطنیت اور قومیت‘‘کے بارے میں افکار و خیالات کی نشاند ہی ہوتی ہے غرض اس مقالے میں اُن معروف حیثیتوںکے بارے میں ذکر کیا گیا ہیں،جو دانشور بھی ہیں اور سیاسی رہنما بھی ، جو صوفی بھی ہیں،اورادیب بھی ،عالم بھی ہیں اور شاعر بھی۔بہر کیف اپنی بساط کے مطابق ہر اُس عظمت انسان کے بارے میں لکھا ہے۔جس نے سیاست میں، ادب میں، تصّوف میں یا فن ِ شعرمیں کمال دکھایا ہے۔ان کے نظموں کے بارے میں پروفیسر یونس آگا سکر صاحب کا یہ اقتباس ملاحظ فرمائیے کہ:

                    ’’ایک محب وطن سے ان کی نظمیں ان کے جذبات واحساسات کا پرکشش آئینہ ہیں۔جس میںتہذیبی روایات’’قدیم وجدید‘‘نشانات کے نادرونایاب نمونے نظر آتے ہیں ۔تعمیرِوطن ،ڈل،کملا نہرو پارک،وغیرہ ملاحظ فرمائیے اور خط اُٹھائیے۔‘‘   ؎۳

          نئی نظم کے معماروں میں زبیرؔ رضوی بھی ایک اہم نام ہے۔اور ان کا شمار نظم بانیوں میں کیا جاتا ہے۔اگر چہ ناقدین نے ابھی تک ان کی نظموں میں ہندوستانی سماجی عناصر کی نشاند ہی نہیں کی ہے تاہم ان کی چند نظموں میں اس کی جھلک صاف نظر آتی ہیں ۔ ان کی نظموں میں وطن کی وہ خوشبو ہے،جو یہاں کے گلیوں ،میلوں،بازاروں،اور موسموں کا حال بیان کرتے ہیں۔اُنھوں نے بدلتے موسموں کا ذکر چھیڑا ہے اور ہندوستانی سماج،کلچر اور تہذیبی ثقافت کے گیت بھی گائے ہیں۔انہیںرشتوں کا احساس بھی ہے اور اس کے فاصلے کی چھبن بھی ہے۔زبیرؔ رضوی نے بچوّں کی پسند کا لحاظ بھی رکھا ہے۔اور وطن کا گیت بھی گایا ہے۔

              یہ ہے میرا ہندوستان

              میرے سپنوں کا جہاں

               اس سے پیار ہے مجھ کو                            (یہ ہے میرا ہندوستان،اززبیرؔ رضوی(

             ان کی نظمیں جو ہندوستانی تہذیب کی پاسدار اور امین ہے،میں’’زمین تقسیم ہو چکی ہے‘‘،’’مٹی کی خوشبو‘‘  ’’امن سے دشمنی ‘‘،

   اور’’صادقہ ‘‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔اگر یوں کہیے ،تو غلط نہ ہو گا ۔کہ تہذیب پہلے سماج اور بعد میں قومی تہذیب کے دھارے سے مل کر آفاقیت حاصل کر لیتی ہے۔ایک ہی ملک کے رہنے والے یا باشند ے جو مختلف سماج سے تعلق رکھتے ہیں۔وہ ایک دوسرے کے اثرات قبول کرتے ہیں ۔ایک ملک کے عوام میں مختلف تہذیب کا پایا جاناممکن نہیں بلکہ اس میں کئی رنگ شامل ہوتے ہیں اور ایسا بعض متفرق عوامل کی وجہ سے ہوتا ہے۔جیسے آمدنی،پیشہ ،لسانی فرق ،رہن سہن،کے طریقے ،عقائد،رسمیںغرض زندگی کے اُصول وغیرہ یہ تمام چیزیں مختلف سماج میں ہوتی ہیں ۔ٹی۔ایس ۔ایلٹT.S.Eliot،اس امر بحث کرتے ہیں :کہ

    ’’یہ اصطلاح کسی طبقے کی تمام خصوصی سر گرمیوں اور دلچسپیوں کا احاطہ کرتی ہے۔ڈربی کاون، ہنلے رگیٹHenley RegettaکوزCows،۱۲ویں اگست،کسی کپ Cupکا فائنل،کشوںکی وڈ،ــ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ایلچرکی موسیقی پڑھنے والا اپنی فہرست خود تیار کر سکتا ہے۔‘‘ــ    ؎۴

          یعنی مختلف لوگوں کی مختلف سرگرمیاں اور دلچسپیاں کس قسم کے سماج سے تعلق رکھتی ہے او ر اس سماج کی تہذیب کیا ہے ۔۔بہرکیف اگرہندوستانی سماج میں اردو زبان کی بات کریں تو اس زبان کے خمیر میںہندو مسلم اتحاد اور قومی یکجہتی کی خوشبو رچی بسی ہے۔جب ملک نئے حالات و مسائل سے دو چار ہوا۔تو انگریز وں نے ہمارے ملک قبضہ کو کیا جس کی وجہ سماجی تہذیبی اعتبار سے تبدیلیاں ہونے لگی تو نظم نگاری کے ذریعے اردو شاعری میں ایک خاموش انقلاب کی ابتداہوئی۔اُردو شعراء اور نثر نگار وں نے اپنی تخلیقات کے ذریعے قوم کو سیاسی،سماجی اور تہذیبی قدروں کا احساس دلایا۔اور ہندوستانی سماج و قومی یکجہتی کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔

       ایسےنظم نگار شعروں میں حالیؔ،درگا سہائےؔ،سرورؔجہاں آبادی، حسرت ؔموہانی ، جوشؔ،اقبالؔ،چکبستؔ،جگن ناتھ آزادؔ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ غرض کہ ہندوستانی سماج کے مشترکہ تہذیبی عناصرکی روایت جس کی ابتداء شعرائے متقدین نے ڈالی تھی۔اُس روایت کو برقرار رکھنے اورآگے بڑھانے میں نئے شعراء حضرات نے بھی ایک اہم اور قابلِ فخر ثبوت پیش کیا ہے۔کلیم عاجزؔ یوں کہتے ہیں:

اپنا تو کام ہے کہ جلاتے رہو چراغ

رستے میں چاہیے دوست یا دُشمن کاگھر ملے

 الغرض مختصراً یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اکیسویں صدیؔ کی نظموں میں جو تہذیبی عناصر ابھر کر سامنے آئیے ہیں وہ ایک دوسرے کے قریبی بھی ہیں۔دراصل ہماری معاشی اور روز مرہّ زندگی کسی نہ کسی تہذیبی دائرے میں گزرتی ہے۔اس ضمن میں پروفیسروعتیق اللہ کے اس موقف پر راقم کا مقالہ ختم ہو گا کہ:

  ’’  تہذیبی مطالعہ ، روز مرہّ زندگی، تہذیبی اعمال اور کار گزاریوں ، اقتصادیات، سیاسیات،جغرافیہ،تاریخ،نسل،طبقہ،نسبونژاد،نظریہ و عمل،جنس و صنف،جنسیات اور طاقت وغیرہ پر محیط ہے۔‘‘    ؎۵

      حواشی:

   ؎۱   اردو غزل اور ہندوستانی  ذہن و تہذیب ۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ  ص  ۲

   ؎۲  کلیات نظیرؔ،نظیر اکبر آبادی ،ص:۴۶؎

  ؎۳  اُردو کہانی میں وطنیت اور اتحاد۔ڈاکٹر عبدالرشید خان ،ص:۳۴۳

  ؎۴    تعلیم سماج اور کلچر ،اے کے ہی اوتالے ۔متراجم اختر انصاری،ص:۳۴۔۳۳

  ؎۵     بیسویں صدی میں خواتین اردو ادب۔ پروفیسر عتیق اللہ  ص  ۱

Leave a Reply