You are currently viewing بابا مجنوں شاہ ملنگ مداری؛ برصغیر کی جنگ آزادی کا ایک گمنام قائد

بابا مجنوں شاہ ملنگ مداری؛ برصغیر کی جنگ آزادی کا ایک گمنام قائد

بابا مجنوں شاہ ملنگ مداری؛ برصغیر کی جنگ آزادی کا ایک گمنام قائد

نام کتاب ………………………….. ‘‘بابا مجنوں شاہ ملنگ مداری؛ برصغیر کی جنگ آزادی کا ایک گمنام قائد’’

مصنف …………………………… انظر عقیل

صفحات …………………………. . 156

قیمت …………………………… . 245

ناشر ……………………………. . نیشنل بُک ٹرسٹ ، انڈیا۔

مبصر …………………………… اسعد اللہ ،ریسرچ اسکالر، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی۔

موبائل ………………………….9918427753

ای-میل ………………………asadullahjnu@gmail.com

زیر تبصرہ کتاب ‘‘بابا مجنوں شاہ ملنگ مداری برصغیر کی جنگ آزادی کا ایک گمنام قائد’’ جناب انظر عقیل کی قلمی کاوش ہے ۔جنہیں صرف تحقیق وتصنیف ،تعلیم وتعلم اور مطالعہ کی دنیا سے وابستگی ہے۔ بیک وقت کئی زبانوں پر عبور رکھتے ہیں جن میں انگریزی،عربی ،فارسی اور اردو کے ساتھ ساتھ ہندی اورانڈونیشین میں کمال حاصل ہے۔آج کل وہ انڈونیشیا کی Universitas Islam Negeri Salatiga سے ریسرچ کر رہے ہیں۔ دو کتابیں اب تک منظر عام پر آکر قارئین سے تحسین حاصل کرچکی ہیں جب کہ مختلف ملکی اور بین الاقوامی رسالوں میں ان کے مضامین ومقالات زینت بنتے رہے ہیں،مزید برآں موصوف کو مختلف کالجز اور یونیورسٹیاں اپنے یہاں خصوصی لیکچر کے لئے مدعو کرتی رہتی ہیں ۔

مذکورہ کتاب Pradhan Mantri-96Mentorships-92s Scheme for Young writersنو جوان مصنفین (PM-YUVA) کا آغازحکومت ہند کی وزارتِ تعلیم نے 29 مئی، 2021 کو 30 سال کی عمر تک کے نو جوان مصنفین کے لئے کیا تھا۔ جس میں پورے ملک سے75 نو جوان مصنفین کے انتخاب کے لئے ایک مقابلے کا انعقاد کیا گیا۔قریب 17ہزارقلمکاروں نے اس مقابلے میں حصہ لیتے ہوئے اپنا مجوزہ خاکہ پیش کیا،75لوگوں کو کامیابی ملی جس میں اردو کے چار مایہ ناز نوجوان قلمکاروں نے اس اہم مقابلے میں اردو دنیا کی قیادت کی۔اس سیریز کے تحت جتنی بھی کتابیں لکھی گئی ہیں وہ تمام کتابیں ہندوستاتی قومی تحریک اور آزادی کے جاں نثار متوالوں کے ارد گرد طواف کرتی ہیں ۔مذکورہ اسکیم کے تحت ہمیں جنگ آزادی کے ایسے ایسے گمنام قائدین کے متعلق جاننے کا موقع ملا جو پردۂ خفا میں تھے۔یہ تمام نوجوان قلمکاروں کی تحقیقی عرق ریزی کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے گمنامی کی چادر سے نکال سے کر تحت الثریا پر براجمان کر دیا جس کے صحیح معنوں میں یہ مجاہدین حقدار ہیں۔اب ہم جناب انظر عقیل کی کتاب پر گفتگو مرکوز کرتے ہیں ۔مذکورہ کتاب پانچ ابواب میں تقسیم کی گئی ہے۔

باب اول: جنگ آزادئ ہند کا ابتدائی پس منظر

باب دوم: قائدین تحریک جنگ آزادئ ہند

باب سوم: بابا مجنوں شاہ ملنگ مداری کی سرگزشت، حیات اور تعارف

باب چہارم: جنگ آزادئ ہند میں بابا مجنوں شاہ کا کردار اور کارنامے

باب پنجم: مجنوں شاہ اور بھوانی پاٹھک کا انگریزوں کے خلاف مشتر کہ رد عمل

فاصل مصنف کے قلم نے مذکورہ بالا ابواب کے تحت ماقبل جنگ آزادی او ر اس درمیان پیش آنے والے اہم نکات کو دلائل کے ساتھ قارئین کے سامنے رکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔عام طور پر یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ جنگ آزاد ی کا تانابانا 1857کے واقعہ کے بعد رونما ہوا جب کہ یہ کلیہ کسی بھی طرح درست نہیں ۔ذرا تاریخی تناظر کے دریچے سے ہم دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا قیام 1600عیسوی میں ملکہ الزیبتھ اول کے عہد میں ہوا جب william Hawkinsپہلی بار 1608میں مغل بادشاہ جہانگیر کے عہد میں ہندوستان آیا۔یہ وہ دور ہے جب یہاں کی سیاسی صورت حال خانہ جنگی کا شکار تھی۔ملک چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہوچکا تھا۔چاروں طرف نوابی اور خود مختاری کی کوّا نوچی نے ہندستان کی حالت غیر مستحکم کردی تھی۔انظر عقیل اس ضمن میں شیکھر بندو اپادھیائے کے حوالے سے رقمطراز ہیں :

‘‘سولہویں صدی عیسوی کے اختتام پر ایسٹ انڈیا کمپنی تجارت کے ارادے سے ہندوستان آئی۔ ایک لمبے زمانے تک معمولی تاجروں کی طرح تجارت کرتی رہی۔ سنہ 1608 ء میں کمپنی کا پہلا سفیر مسٹر ویلیم ہاکنس مغل بادشاہ جہانگیر کے دربار میں کمپنی کا تجارتی مرکز قائم کرنے کی اجازت لینے کے لیے حاضر ہوا۔ بادشاہ جہانگیر نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے سفیر کو سورت میں تجارتی مرکز قائم کرنے کی اجازت دے دی۔ یہاں سے کمپنی نے باضابطہ طور سے تجارت شروع کر دی۔ پھر اس کے سات سال بعد کمپنی کا 1615ء میںSir Thomas Roeدوسرا سفیر جہانگیر ہی کے دربار میں آیا۔ اس بار مغل بادشاہ جہانگیر نے کمپنی کے گودام اور مرکز سورت کے علاوہ احمد آباد، بر ہانپور ممبئی، کولکاتا، مدراس، کھمبات، اجمیر اور آگرہ وغیرہ میں قائم کرنے کی اجازت دے دی۔’’ (تفصیل کے لئے زیر تبصرہ کتاب کا ص4 ملاحظہ فرمائیں۔)

ہندوستان کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا جانااوراس ضمن میں کمپنی کے تمام جزئیات اور اس کے مستقبل میں سیاسی عزائم پر فاضل مصنف نے بحث کرنے کے بعد ،علی وردی، سراج الدولہ ،جنگ پلاسی ،بکسر کی جنگ اور میسور کی دیگر جنگوں پر سیر حاصل گفتگو کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہونچتے ہیں کہ دراصل یہ کمپنی ہندستان میں اپنے ناپاک منصوبوں کو پورا کرنے کے لئے یہاں کے نواب،راجے رجواڑے اور دیگر جاگیر داروں کو دانہ ڈال کر دام ِ فریب میں پھنسانا چاہتی تھی جس میں وہ کامیاب بھی ہوئی۔لیکن ایسی کامیابیاں وقتی موم کی روشنی تو دے سکتی تاہم سورج کی طرح کارگر نہیں ہوتی ۔ہر ملک میں کچھ جانبازجیالے ایسے ہوتے ہیں جنہیں دلوں کے چراغ کوروشن کرنے اوردماغ کو وطن کی مٹی میں رچنے کا ہنربخوبی آتاہے۔ایسے مجاہدین کو پتہ ہوتا کہ انو شیرواں بھلے ہی اپنے لگائے ہوئے پیڑ کا پھل نہ کھا سکے تاہم اس کے گھر،گھرانے کے لوگ ایک دن ضرور فائدہ اٹھا ئیں گے ۔ ان مجاہدین کے دلوں میں یہ نکتہ پیوست ہوتا ہے کہ ان کے وطن کے عوام ہی ان کی زندگی کا سرمایۂ حیات اور ابدی سکون ہیں ۔ایسے متوالے جس ملک کی قسمت میں آتے ہیں اس ملک کی تقدیر خدا کی خصوصی عنایات کا مستحق ہوتا ہے ۔

کتاب کا دوسرا باب ‘قائدین تحریک جنگ آزادئ ہند’کے لئے مختص ہے اس باب میں موصوف نے دریا کو کوزہ میں سمیٹ دیا ہے۔صرف محاورۃنہیں بلکہ قلم کو علمی اصولوں کے مطابق ان مجاہدین کی زندگیوں کوکتابی صفحات کے کینوس پر بکھیر دیا ہے تاکہ قاری اپنی صوابدیدکے مطابق علم کے موتی چن کر اپنے ذہن کی شمع کو روشن کر سکے ۔اس باب کو پڑھ کر ہی بہتر اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔مثال کے طور پر ‘رانی ویلو ناچیار’‘موسیٰ شاہ مداری’‘بھوانی پاٹھک’‘دیوی چودھرانی’یہ وہ نام ہیں جن کی بابت ہم تک بہت کم معلومات بہم پہنچی ہیں ۔اس کتاب کے مطالعہ سے ہی ہمیں مکمل آگہی حاصل ہوتی ہے۔

تیسرے اور چوتھے باب میں ‘‘بابامجنوں شاہ ملنگ مداری’’ کی سر گزشت ،حیات اور جنگ آزادی میں ان کے کردار اور کارناموں پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے ۔زیر تبصرہ کتاب ؛کے مصنف انظر عقیل صاحب نے بذات خود ان جگہوں کا دورہ کیااور وہاں سے بنیادی مأخذات کو اکٹھا کر کے خوبصورت اور تحقیقی پیرایہ میں قارئین کے سامنے پیش کیا ۔اس باب میں نہ صرف ہمیں تاریخی تحریر پڑھنے کو ملتی ہے بلکہ فنون لطیفہ کی ایک شکل تصویر سازی کو بھی بروئے کا ر لاکر مزید وسعت دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ایک طرف بابامجنوں شاہ کا تعلق خطۂ میوات سے ہے تو دوسری طرف ان کی زندگی کابیشتر حصہ جنگ آزادی کے سلسلے میں ملک کے مختلف مقامات میں انگریزوں سے لوہا لیتے گذرا ،کیوں کہ انہیں ایک جگہ ٹھہرنے کا کبھی موقع ہی نہیں ملا۔انگریز جاسوس ان کے پیچھے پڑے رہے ۔ان کی جد وجہد آزادی کے بارے میں روشنی ڈالتے ہوئے انظر عقیل لکھتے ہیں:

‘‘بابا مجنوں شاہ مداری نے بنگال میں 1760 ء سے شروع ہونے والی فقیر سنیاسی مزاحمت کی قیادت کی اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف ایک طویل عرصے تک، تقریبا چھبیس سال تک پر جوش حوصلے کے ساتھ جد و جہد کی۔ کمپنی کی حکمرانی کے خلاف اپنی مسلح مزاحمت میں وہ پچاس ہزار سے زیادہ فقیروں اور سنیاسیوں کو بیک وقت جمع کر سکتے تھے، جو کھلی جنگ میں لڑنا جانتے تھے اور خاص کر گوریلا نوعیت کی کارروائیوں کے ماہرین ہوتے تھے۔ مجنوں شاہ نے اپنے لیفٹیننٹ اور معاونین کے ساتھ مل کر پورے بنگال میں کئی کامیاب کارروائیاں کیں جس سے کمپنی کی کوٹھیوں، ریونیو دفاتر اور کمپنی کے اداروں کو حیران کر دیا اور کمپنی کے حکمرانوں کے وفادار زمینداروں کے ریونیو کچہریوں پر چھاپے مارے گئے اور کمپنی کی فوجوں کو شدید جانی اور مالی نقصان پہنچایا گیا۔ مجنوں شاہ کی شاندار کامیابی کا راز فقیروں اور سنیاسیوں کے اتحاد کو برقرار رکھنے اور حکمراں حکام کے خلاف طویل مسلح جدو جہد کی سا لمیت کو برقرار رکھنے میں چھپا تھا۔ دوران جنگ انھیں ایک مضبوط اورمستحکم جائے پناہ کی ضرورت کا احساس ہوا تو انھوں نے 1776ء میں ضلع بوگرہ میں ایک مستحکم قلعہ تعمیر کیا۔ اس قلعہ کا نام مہا استھان یا مستان گڑھ رکھا۔ ایک مدت تک یہ مقام ان فقیروں کا مرکز رہا۔ کچھ عرصہ بعد انھوں نے ایک اور مستحکم قلعہ بوگرہ کے جنوب میں بارہ میل کے فاصلے پر مدار گنج کے نام سے قائم کیا……….سنہ 1786ء میں مجنوں شاہ نے میمن سنگھ سے ملحقہ علاقوں پر چھاپا مارتے ہوئے کالیشور (Calleswar) کے علاقے میں لیفٹینٹ برین (Lieutenant Brenan) کی قیادت میں کمپنی کی فوج کے خلاف کارروائی میں ہنگامہ برپا کر دیا۔ اس جنگ میں مجنوں شاہ نے اپنے پیروکاروں کی ایک بڑی تعداد کو کھو دیا۔ اور بہت سے پیروکار زخمی ہو گئے’’۔ (تفصیل کے لئے مذکورہ کتاب کا صفحہ نمبر62/63دیکھا جائے )

آگے کے صفحات میں انظر عقیل نے‘ ملنگ ’ کی اصطلاح پر سیر حاصل بحث کرتے ہوئے پورے شجرہ پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ۔تبصرہ کے صفحات کی چاک دامنی کا خدشہ نہ ہوتا توہم کچھ اقتباس پیش کرتے تاہم امید ہے کہ آپ قارئین اس کے مطالعہ کے بعدخودہی ایک نتیجے پر پہونچ جائیں گے ۔اس لئے ہم آپ کے مطالعہ کے حوالے کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں ۔

کتاب کے آخری باب میں فاضل مصنف نے ‘مجنوں شاہ اور بھوانی پاٹھک کا انگریزوں کے خلاف مشترکہ ردّ عمل’ پر بحث کی ہے ۔اس باب میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہندوستانی ریاستوں کے ذمہ داروں کے ساتھ ساتھ رجواڑوں،صوفیوں،سنتوں،یوگیوں اور فقیروں نے مشترکہ طور پر ایک گروہ کی شکل اختیار کی ۔یہ گروہ یاجماعت کیسے اور کیوں کر وجود میں آیا ،ملک کو آزادی دلانے میں انہیں کن کن مصیبتوں ،قید وبند اور جیل کی کال کوٹھری میں رہ کر کس کس حکمت عملی کے تحت ملک کو آزاد چڑیا بنانے اور آزاد فضا میں سانس لینے کے لئے کیا کچھ کرنا پڑا ،انگریز کیوں انہیں کوئی مجمع یا جلسہ کرنے سے روکتے تھے،ان کی فوجی چھاؤنی کہاں تھی ،انہوں نے انگریزوں کے خلاگ بغاوت کا بگل کیوں کر پھونکا جب کہ بنیادی طو ر پر ان کا کام عوام کی روحانی زندگیوں کا اصلاح تھا۔پھر ان کے مابین آپسی پھوٹ کی بیج، کس نے بویا جو آگے چل کر ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر گیا۔ان تمام نکات کی بابت تفصیلی نقطۂ نظر کھل کر ہمارے سامنے آتا ہے جو مطالعہ سے تعلق رکھتا ہے۔کتاب کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں :

‘‘کچھ مؤرخین نے فقیروں اور سنیاسیوں کے اتحاد کو ناممکن قرار دیا ہے مگر کچھ نے شواہد بھی پیش کیے ہیں۔ ان کے کارناموں سے ان کا اتحاد واضح ہے۔ جامنی موہن گھوش نے بھی شواہد پیش کیے کہ سنیاسیوں کو فقیروں نے کبھی کبھار تنخواہ پر کرایے کے سپاہیوں کے طور پر رکھا تھا۔ اتحاد کی وجہ کو جامنی موہن گوش نے بجا طور پر نشان دہی کی کہ شمالی اور مشرقی بنگال کے مختلف حصوں میں فقیروں کے اکٹھے ہونے کے پیچھے مذہبی اسمبلی ایک بڑا عنصر تھا۔ سنیاسیوں اور فقیروں کے درمیان اتحاد ممکن نہیں تھا، مگر ہوا،………. کیوں کہ دونوں کا مشترکہ مفاد زائرین اور عوام سے عطیات و صدقات وصول کرنا تھا۔ بعد میں انگریزی حکومت کے غلط قوانین اور ظلم و بربریت نے دونوں کو متحد کر دیا۔ انگریزوں کے خلاف سنیاسیوں اور فقیروں کی مشترکہ کارروائیوں کی وجہ سے ہندو مسلم اتحاد کی ایک روشن مثال سمجھی جاتی ہے۔’’ (تفصیلی بحث کے لئے کتاب کا صفحہ نمبر 134ملاحظہ فرمائیں)

خلاصہ یہ کہ بابا مجنوں شاہ ملنگ مداری ایسے جاں نثارِ وطن میں شمار کئے جاتے ہیں جن کے کارناموں کے متعلق بہت کچھ نہیں لکھا گیا تھامزید یہ کہ اب تک ان پر کوئی مبسوط اور مفصل کام نہ ہونے کہ وجہ سے وہ تاریخ کی سیاہ وادیوں میں گم تھے لیکن ان کی معنوی اور علمی شاگردوں کی ایک کھیپ موجود ہے ۔زہے نصیب !یہ کام جناب انظر عقیل صاحب کے ہاتھوں انجام پاناتھا ،سو انہوں نے نہایت ہی عرق ریزی کے ساتھ اسے پایہ تکمیل کو پہونچایا اور دادِتحسین وصول کر رہے ہیں ۔اس جواں عمری میں جس طرح انہوں نے تحقیق و تصنیف کو اپنی زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ اور اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے ـ؛وہ دن دور نہیں کہ انہیں علمی حوالے سے ہی دنیا یاد رکھے گی۔ایک ایسے مجاہد آزادی کو دنیا کے سامنے متعارف کرانا جن کے متعلق عوم تو عوام ؛خواص کو بھی نہیں معلوم تھایا معلوم رہا ہوگا لیکن نظر اس طرف گئی نہیں ۔جام و مینا کسی کوتاہ دست کے ہاتھ آتا بھی نہیں ہے اِس کے لئے تو اُسے خود بڑھ کر کوشش کرنی پڑتی ہے۔یہی نہیں بلکہ حکومت ہند کوبھی مبارکباد پیش کرنا چاہئے کہ اس نے اس طرح کے یوامینٹورشپ ترغیبی پروگراموں کو حتمی شکل دی جس سے آج ہندوستان کے کئی کئی گمنام مجاہدین آزادی سے ہم قارئین کو روشناس ہونے کا موقع میسر آیا ۔

کتاب کے فاضل مصنف نے جس جانفشانی کے ساتھ اس کام کو پایہ تکمیل تک پہونچایا ہے یہ بھی انہیں کا خاصہ ہے کیوں کہ جن جن کتابوں کا مذکورہ کتاب میں حوالہ دیا گیا ہے ان میں سے بعض کتب تو ایسی ہیں جو عموما ہر لائبریری میں موجود بھی نہیں ۔مہینوں سفر میں رہنا ،صعوبتیں برداشت کرنا،انٹرویو کے لئے گھنٹوں گھنٹوں انتظار ،ایک ایک واقعہ کی کئی لوگوں سے تصدیق یہ سب کچھ آپ کو اس کتاب کے مطالعہ کرتے وقت شدت سے احساس ہوگا کس حسن خوبی کے ساتھ یہ کتاب لکھی گئی ہے ۔

کتاب ‘‘بابا مجنوں شاہ ملنگ مداری برصغیر کی جنگ آزادی کا ایک گمنام قائد’’اس لائق ہے کہ اِس کا نہ صرف مطالعہ کیا جائے بلکہ یہ کتاب جنگ آزادی کے بعض ایسے خفیہ گوشوں کو اجاگر کرتی ہے جو صرف نہ صرف تاریخی آرکائیوز کی زینت تھے بلکہ کئی سوال ایسے قائم کرتی ہے جن کا جواب انگریزوں کے پاس ملک چھوڑتے وقت بھی بن نہیں آیا۔بس رسمی طور سے انہوں نے یہ ملک یہاں کے باشندگان کے حوالے کیا اور چھوڑ گئے اس کے پیچھے نہ ختم والے کچھ قضیے۔ یہ کتاب ان تمام باریکیوں کامدلل جائزہ پیش کرتی ہے اور ہمیں متعارف کرواتی ہے ایک ایسے قائد سے جسے صرف ملک کی آزادی اور یہاں کے مکینوں سے محبت تھی۔کیوں کہ وہ اس مٹی کادھروہر اور ایسا بیش بہا لعل تھا جو صدیوں میں پیداہواکرتے ہیں ۔کتاب کا ٹائٹل دیدہ زیب اور قیمت بھی مناسب ہے اور ہاں! پروف کی ٖغلطیوں سے بھی مبراہے،مطالعہ کا شوق ہواور آپ دہلی میں ہیں تو کبھی نیشنل بُک ٹرسٹ وسنت کنج گھومتے گھومتے چلے جائیں اور کتاب اپنے ساتھ لیتے آئیں ۔ڈاکٹر شمس اقبال صاحب تو اب وہاں ملنے سے رہے ورنہ وہ چائے بھی پلاتے ؛ہاں اب اُن کی مہمان نوازی کا لطف لینے کے لئے جسولہ میں اردو قومی کونسل کے دفترجانا ہوگا،آج کل وہ وہیں ملتے ہیں ۔شکریہ !!!

Asadullah

Research Scholar,JNU,New Delhi

Mob:9918427753

Leave a Reply