You are currently viewing بلونت سنگھ کے یک بابی ڈرامے :فکر و فن کے تناظر میں

بلونت سنگھ کے یک بابی ڈرامے :فکر و فن کے تناظر میں

ڈاکٹر محمد رضوان انصاری

اسسٹنٹ پروفیسر (یونی ورسٹی آف کالی کٹ)

بلونت سنگھ کے یک بابی ڈرامے :فکر و فن کے تناظر میں

بلونت سنگھ نے ناول اور افسانے کی طرح صنف ڈراما میں بھی طبع آزمائی کی ،لیکن تخلیقی ادب میںان کے ڈراموں کو وہ مقبولیت حاصل نہ ہوئی جو ناول اور افسانے کے حصے میں آئی۔بلونت سنگھ کے ڈرامے کہیں اسٹیج نہیں ہوئے، وہ صرف صفحہ قرطاس کی زینت بنے رہے۔ ان کی کلیات میں محض چھ مختصر ترین یک بابی ڈرامے ملتے ہیں، جس میں انھوں نے سماجی،تاریخی و معاشرتی حالات کا جائزہ پیش کیا ہے۔ ڈرامے کے اقسام میں یک بابی ڈراما بھی ایک ہے، جو طویل ڈرامے کا اختصار نہیں ہے بلکہ فنی خصوصیات کے سبب اسے ایک نمایاں اور امتیازی حیثیت حاصل ہے۔یک بابی ڈرامے کی تعریف کے ضمن میں ڈاکٹر سید معین الرحمن کی مرتبہ کتاب’’اردو ڈراما:تنقیدی اور تجزیاتی مطالعہ‘‘ میں سید وقار عظیم اپنے مضمون’’یک بابی ڈرامے کا فن ‘‘  میں مغربی مصنف کا حوالہ دیتے ہوئے رقم طراز ہیں :

’’پرسیول وائلڈ(Percival Wild) نے یک بابی ڈرامے کے تعریف ان لفظوں میں کی ہے’’یک بابی ڈراما زندگی کی ایک مرتب اور منظم تعبیر ہے جس سے ناظر کے جذبات میں تحریک پیدا ہوتی ہے۔اعلیٰ درجے کی وحدت اور کفایت اس کی فنی خصوصیات ہیں۔اسے اتنے کم وقت میںاسٹیج کیا جا سکتا ہے کہ تماشائی اس سے من حیث الکل ایک واحد تاثر قبول کریں۔‘‘ وائلڈ نے تاثیر کی اس وحدت پر زور دیتے ہوئے ایک جگہ اور لکھا ہے کہ’’وحدت یک بابی ڈرامے کا مقصد ہے ۔ اس کا جسم ہے اور اس کی روح ‘‘ …….. ایک اور مصنف نے یک بابی ڈرامے کے فنی مقصد اور اس کی وحدت خیال پر زور دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر کوئی پوچھے کہ یک بابی ڈراما کی فنی خصوصیات کیا ہیں؟ توجواب یہ ہوگا’’اس کا موضوع ایک ہو،وہ ناظر کے ذہن میں صرف ایک تاثر پیدا کرے ،اس کی بنیاد ایک واقعے پر مرکوز ہو،لکھنے والا ایک کردار یا کرداروں کے مخصوص گروہ کو اپنی توجہ کا مرکز بنائے۔‘‘  1؎

         مندرجہ بالا اقتباس کے پیش نظر یک بابی ڈرامے کی اساس اس کے وحدت تاثر کو قرار دیا گیا ہے ۔جس میںڈراما نگارکسی واحد موضوع کے ذریعے ناظرین کے دلوں میں ایک مخصوص تاثر کو پیدا کرتا ہے ۔جو یک بابی ڈرامے کا فن بھی ہے اور اس کا مقصد بھی اور ان ہی بنیادی خصوصیات کے سبب وہ دوسروں سے ممتاز ہے۔

         یک بابی ڈرامے کا آغاز بھی یونان میںہوا ۔ابتداء میں یونان میں یک بابی ڈرامے کو طویل ڈراموں کے درمیانی وقفہ کو پر کرنے کی غرض سے استعمال کیا جاتا تھا۔اسی طرح ایران اور اٹلی میں بھی اس کا استعمال وقفوں کو پر کرنے کی خاطر کیا جاتا تھا۔لیکن مشینی عہد میں جب طویل ڈرامے سامعین پر گراں گزرنے لگے تو اس تفریحی مشاغل نے ایجاز و اختصار کا راستہ اپنایا جس کے سبب جدید مختصر ڈراما وجود میں آیا اور رفتہ رفتہ انیسویں صدی تک یہ ایکانکی کھیل ایک صنف کی حیثیت سے متعارف ہوئی۔ بر صغیر میں یک بابی ڈرامے مغرب کے زیر اثر ہی وجود میں آئے۔1921میں مولانا ظفر علی خاں کا ڈراما ’’تولہ بھر ریڈیم‘‘کو یک بابی ڈراما کا نقش اول قرار دیا جاتا ہے، جو انگریزی افسانے سے ماخوذ ہے۔ ان کا ایک اور ڈراما ’’نازلی بیگم کا انصاف‘‘ بھی انگریزی افسانے سے ماخوذ ہے۔بعد ازاں 1926میں ڈاکٹر عشرت رحمانی کے دو طبع زاد یک بابی ڈرامے ’’شہید معصیت ‘‘ اور ’’عید کی شام‘‘ملتے ہیں جو رسالہ ’’نیرنگ‘‘ رامپور میں شائع ہوا تھا۔ان کے بعد آغا محمد اشرف،حامد اللہ افسر میرٹھی،پطرس بخاری ،سردار علی جعفری، سید علی ظہیر، حمیدہ برنی،خلیل صحافی،مولانا عبدالمجید سالک،سبط حسن،قدرت اللہ شہاب،سید عابد علی عابد،علی عباس حسینی، مرزا ادیب ، خدیجہ مستور،صالحہ عابد حسین اور احمد ندیم قاسمی وغیرہ نے جدید مختصر ڈرامے کی روایت کو آگے بڑھایا۔

         یک بابی ڈرامے کے فن پر اگر بات کی جائے تو اس کا اختصار ہی اس کی مقبولیت کی ضامن ہے ۔جس کی وجہ سے تماشائی ایک ہی نشست میں ڈرامے کے انجام کو پہنچ جاتے ہیں۔ڈراما نگار اسی اختصار کے تحت جب اپنے موضوع کا انتخاب کرتا ہے تو اسے کئی حد بندیوں کو پیش نظر رکھنا ہوتا ہے۔یعنی وہ جس موضوع کا انتخاب کرے وہ زیادہ پیچیدہ یاالجھا ہوا نہ ہو جس سے کہ ناظرین کے ذہن تک رسائی ممکن نہ ہو بلکہ موضوع بالکل سادہ ہو اورجو وضاحتی نہ ہوکر تاثراتی ہو ۔البتہ موضوع اتنا بھی سادہ نہ ہو کہ اس میں زندگی کی کوئی معنویت پوشیدہ نہ ہو ۔المختصر یہ کہ موضوع ایسا ہونا چاہیے جس میں زندگی کے تمام رچائو موجود ہوں اور اس میں کہانی کو پیچیدہ نہ بناتے ہوئے کم سے کم مکالموں اور کرداروں کے ذریعے اختصار کے ساتھ اثر انگیز بنا یا جا سکے۔

         موضوع کے انتخاب کے بعد ڈراما نگار کرداروں کی طرف توجہ دیتا ہے۔کردار ہی ڈرامے کے نقطہ آغاز اور اس کی اساس ہوتے ہیں جو ڈرامے کو عملی جامہ پہناتے ہیں اورانھیں کے بدولت ڈراما اپنے ارتقائی مراحل کو طے کرتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔یک بابی ڈرامے کی خصوصیت اس کی وحدت ہے اور اس کی حصولیابی کے لیے ڈراما نگار ڈراما ترتیب دیتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھتا ہے کہ اس میں کوئی پیچیدگی یا الجھائو باقی نہ رہے، جس سے کہ ناظرین کو سمجھنے میںدشواری ہو اور ڈراما نگار جو پیغام دینا چاہتا ہے اس کی ترسیل نہ ہونے کے سبب اس کا مقصد بھی فوت ہو جائے ۔اس پریشانی سے بچنے کی ایک صورت یہ ہے کہ ڈرامے میں کرداروں کی تعداد کم سے کم ہو۔یک بابی ڈرامے میں صرف انھیں کرداروں کی گنجائش قابل قبول ہے جن کا وجود عمل کو آگے بڑھانے اور ڈرامائی تاثر کو یقینی بنانے کے لیے نا گزیر ہو۔

         یک بابی ڈرامے کے کردار باتوں سے زیادہ اپنے عمل کے ذریعے اپنی شخصیت اور کیفیت کو اجاگر کرتے ہیںاور فن کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ مکالمے مختصر اور مربوط ہوں ۔کرداروں کی زباں سے ادا کیے گئے تمام مکالمے اپنے پہلے کلام کا فطری و منطقی نتیجہ ہو ۔ایسا نہ ہو کہ کرداربے محل اور بھونڈی گفتگو کرتے نظر آئیں،جس سے کہ ڈرامے کی دلچسپی اور اس کا تاثر ٹوٹے اور مکالمے وہی موثر ہوتے ہیں جو کردار کی سیرت و مزاج اور ان کی ذہنی سطح کے مطابق ہوں ۔ڈرامے کے کرداروں کی گفتگو ماحول کی رعایت کے مطابق ہونا ضروری ہے وگرنہ پلاٹ کتنا بھی دلچسپ کیوں نہ ہو اس فنی کمزوری کے سبب ڈراما ناقص کہلائے گا۔

          ان تمام حدبندیوںکو اپناتے ہوئے ڈرامانگار جب ڈراما ترتیب دیتا ہے تو ڈراما اپنے اروتقاء ،تذبذب، کشمکش اور نقطہ عروج سے گزرتا ہوا ایک لطیف تاثر کے ساتھ پائے تکمیل کو پہنچتا ہے ۔جس سے کہ ناظرین کی دلچسپی بنی رہتی ہے اور وہ کسی کوفت یا الجھن کا شکار ہوئے بنا انجام کو پہنچتا ہے۔

          یک بابی ڈرامے کے فن کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بلونت سنگھ نے چھہ ڈرامے تخلیق کیے ،جن میں بیشتر ڈراموں کا موضوع عشق و رومان ہی ہے۔ ان کے تین ڈرامے ’’قلوپطرہ کی موت ‘‘،’’مرغی‘‘ اور ’’پیامبر‘‘ ان کے پہلے افسانوی مجموعے ’’جگا‘‘ (1944) میں شامل ہیں۔ڈراما’’پامال محبت‘‘(اکتوبر 1948) ، ’’پھانس‘‘(اگست 1949) رسالہ ’’آجکل‘‘ میںاور ڈراما ’’سکہ زن‘‘ رسالہ’’ ادبی دنیا‘‘ کے جلد نمبر 25 میں شائع ہوا۔

         ڈراما ’’قلوپطرہ کی موت ‘‘ ایک تاریخی ڈراما ہے ،جس میں قلوپطرہ کی بے وفائی اور اس کی موت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ قلوپطرہ مصر کی ایک حسین ملکہ تھی ،جس کے محبت کی داستان تاریخ میں امر ہے اور اس کی موت کے تعلق سے بہت سی روایات موجود ہیں۔اس سلسلے میں مختلف ادیبوں نے مختلف طور پر اس کی موت کو بیان کیا ہے۔ کسی نے اس کی موت کی وجہ زہر نوشی بتائی تو کسی نے زہریلے سانپ سے خود کوڈسوا کر خود کو موت کے حوالے کرنا بتلایا۔بالآخر قلوپطرہ کی موت کی حقیقت ابھی تک پردہ خفا میں ہے۔ عنوان کے مطابق بلونت سنگھ نے ڈرامے میں قلوپطرہ کی موت کا واقعہ بیان کیا ہے ،جس میں اس دور کے نامورسیاسی ہستیوں کی حالات زندگی اور اس ملک کی تہذیبی ڈھانچوں پربھی روشنی پڑتی ہے اور یہ ڈراما ہینری رائیڈر ہیگرڈ کی کتاب ’’قلوپطرہ‘‘سے ماخوذ ہے۔فنی نقطہ نظر سے ڈرامے کا پلاٹ گٹھا ہوا ہے ،جس میں ڈرامائی عناصرتمام شد و مد کے ساتھ موجود ہے لیکن بعض جگہوں پر مکالموں کی طوالت اور رانی و باندی کے درمیان آداب کی کمی بھی پائی جاتی ہے جو ڈرامے کے فن کو متاثر کرتی ہے۔محل کی اندرونی فضا اور مرقع نگاری کو دلچسپ اور حقیقت پسندانہ طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔

         بلونت سنگھ نے ڈرامے کی ابتداء میں کرداروں کا تعارف تو پیش کیا ہے لیکن ڈرامے میںان کرداروں کی آمدانھیںخود متعارف کرا دیتی ہے۔وہ اپنی حرکات و سکنات ،ناز و انداز، آرائش و زیبائش سے اپنی شخصیت کا پورا نقشہ پیش کر دیتے ہیں۔اس ڈرامے کے کرداروں میںان کے طرز گفتار و طور طریق بالکل فطری و حقیقی معلوم ہوتے ہیں۔بلونت سنگھ نے انسانی نفسیات کو کرداروں کے ذریعے بخوبی پیش کیا ہے جو پلاٹ کے ارتقاء میں معاون ہیں۔لفظوں کا انتخاب بھی کرداروں کے عین مطابق ہے۔

         ڈرامے کے مرکزی کرداروں میں قلوپطرہ،انطونی ،اولمپس اور چیرمیاں قابل ذکرہیں ۔قلوپطرہ جس میں مصر کی مہارانی ہونے کاجاہ و جلال بھی ہے اور حسن کی مغروریت بھی،ساتھ ہی اپنے حسن کی قیمت وصول کرنے کا ہنر بھی بددرجہ اتم موجود ہے۔جس کے ایک نگاہ غلط سے سلطنت کا خاتمہ ہو جائے۔قلوپطرہ میدان جنگ سے انطونی کو چھوڑ کر فرار ہو جاتی ہے۔اب اسے اس بات کا خطرہ ہے کہ روم واسی اسے بندی بنالیں گے اور سر بازار ذلیل ورسوا کریں گے ،علاوہ ازیں جان سے بھی ہاتھ دھونا ہوگا۔ایسے حالات میں بھی اسے اپنی موت کا غم نہیں ہے بلکہ اپنے حسن کے زائل ہو جانے کی فکر ہے۔لہذا اپنے باندی چیرمیاں کے مشورے کے مطابق بندی بنا لیے جانے سے بہتر زہر پی کر خود کشی کرنا زیادہ بہتر معلوم ہوا۔اس طرح قلوپطرہ نے خودکشی کوترجیح دے کر اپنی حسن کی تحقیر کو خودکشی سے مات دے دی۔

         انطونی جو ایک بہادر جنگجو ہے لیکن قلوپطرہ کے دام عشق میں گرفتار ہو کر اپنے تمام ہتھیار اس کے سامنے ڈال دیے۔اس کے عشق نے اس کے عزم کو کمزور کر دیا۔ اس نے میدان جنگ میں شہید ہو نے کے بجائے زلف یار کے سائے میں مرنے کو زیادہ حسین سمجھا۔قلوپطرہ کے خودکشی کرنے کے پیغام نے اس پر اتنا اثر کیا کہ خود کی جان لینے کے در پے ہوا اور اپنے سینے میںخنجر اتار لیا۔

         اولمپس دراصل ہرمشش ہے جو قلوپطرہ کے حسن کے حملے سے ناکارہ ہو گیاہے اور فی الوقت محل میں ایک شاہی طبیب کی حیثیت سے مقرر ہے۔قلوپطرہ سے دھوکا کھانے کے باوجود بھی اس کے دل میںاس کافرہ کے لیے  محبت کے کچھ جز باقی ہیں لیکن انتقام کے جذبات محبت پر غالب آجاتی ہے اور قلو طرہ کی موت کے وقت وہ اس کے بدی کا خواستگار ہوا۔

         چیرمیاں محل کی ایک داسی ہے جو قلوپطرہ کے زیادہ قریب ہے۔اپنی طرز گفتار سے یہ داسی کم رانی کی سہیلی زیادہ معلوم ہوتی ہے جو گاہے بگاہے اپنے مفید مشوروں سے نوازتی رہتی ہے۔

         ڈرامے کے مکالمے و زبان ہی ڈرامے کی اساس ہوا کرتی ہیںجو ڈرامے کو آگے بڑھانے میں معاون و مددگارہوتی ہیں۔ انھیں کے ذریعے ڈراما اپنے مراحل کو طے کرتا ہوا واقعات کا پیش منظر و پس منظر اور اس کی فضا کو مرتب کرتا ہے۔ڈراما ’’قلوپطرہ کی موت ‘‘ کے مکالموں کی بات کی جائے تواس کے مکالموں میں کوئی الجھائو یا پیچیدگی نہیں پائی جاتی۔سادہ و سلیس زبان کی پابندی کی گئی ہے اور کہیں پر بلا وجہ کی باتوں سے گریز کیا گیا ہے۔ہر جملہ و فقرہ اپنے وقوع پذیر حالات سے مناسبت رکھتا ہے۔جس سے ایک پر تاثیرفضا قائم رہتی ہے۔ڈرامے کے تمام کردار اپنے مرتبے کے مطابق گفتگو کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔لیکن بعض جگہوں پر رانی و باندی کے مابین مکالموں میں احتیاط سے کام نہیں لیا گیا ہے۔

         ڈراما ’’مرغی ‘‘چار سین پر مشتمل ہے اور جو بالخصوص ماموں اکبر کو منسوب ہے۔بمطابق ڈراما نگار انھوں نے یہ ڈراما نظیر حیدر کے کسی مضمون جو مارچ 1940میں شائع ہوا تھاسے متاثر ہو کر لکھا ۔اس تمثیل میں ڈگری کالج کے ہاسٹل میں رہنے والے ان طلبہ کے واقعات کو قلمبند کیاگیاہے جو قوم و ملت کی تحفظ کے لیے متعدد کارہائے نمایاں انجام دیتے ہیں۔

         اس تمثیل میں بلونت سنگھ نے قوم کے ان نوجوانوںکو موضوع بنایا ہے جو قوم و ملت کے شدید جذبات کے چلتے راہ مستقیم سے بھٹک جاتے ہیں اور اپنا اصل مقصد چھوڑ کر جذبات کی نذر ہو جاتے ہیں۔ایسے لوگ نہ صرف خود خسارے میں ہوتے ہیں بلکہ ملت کے لوگوں کو بھی دھرم اور مذہب کے نام پر اکساتے ہیں۔ اس طرح پیغام تو اہم ہے لیکن فن کے اعتبارسے اس کا پلاٹ ڈھیلا دکھائی دیتا ہے،جس میں قصے کی بنیاد کمزور اورکرداروں کے عمل طفلانا ہیں۔اسباب و علل بھی فطری معلوم نہیں ہوتے ۔یک بابی ڈرامے کے فن کے اعتبار سے کرداروں کی کثرت اس کی وحدت کو متاثر کرتی ہے ۔

         ڈراما ’’پیامبر‘‘ تین سین پر مشتمل ایک مختصر ڈراما ہے۔جس میں اسکندریہ کے حکمراں پیرامس اور پندورہ کے فرضی قصے کو پیش کیا گیا ہے۔ ڈرامے میں قصہ بڑی حسن و خوبی کے ساتھ آگے بڑھتاہے جس میں کہیں پر کوئی الجھائو یا پیچیدگی نہیں پائی جاتی، لیکن ڈرامے کے آخر میں پیامبر کا پندورہ پایا جاناکئی باتوں کی طرف توجہ مبذول کراتا ہے ۔ اول یہ کہ پندورہ جو مردانا لباس میں ایک پیامبر کی صورت اختیار کیے ہوئے ہے جس کی وجہ سے اسے پیرامس پہچان نہیں پاتا ،یہ کسی حد تک ممکن ہی نہیںہے کیوں کہ عاشق اپنے محبوب کی تمام ادائوں سے واقف ہوتا ہے ۔وہ ہزار پردہ نشیں کیوں نہ ہو وہ اس کے طرز گفتار سے اس کا پتہ لگا سکتا ہے۔ دوم یہ کہ عورت کس قدر بھی مرد کی مشابہت اختیار کر لے لیکن وہ اپنی نسوانیت کو نہیں چھپا سکتی ۔یہی چند باتیں ڈرامے کے پلاٹ کو متاثر کرتی ہیں ۔

         ڈرامے میں پندورہ کا کردارمتحرک ہے،جس نے اپنی کاوش سے سلطنت کو بچانے کی تدبیر نکالی اور راجہ پیرامس کو تلوار اٹھانے کے لیے مجبور کیا ۔اس کے برعکس پیرامس جو کہ ایک بادشاہ ہے اور کوئی بھی حاکم اپنی رعایہ کو محکوم و تذلیل ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔لیکن ڈرامے میں بادشاہ کی بے معنی ترجیحات اس کے نا عاقبت اندیش ہونے کا پتہ دیتی ہے۔ مکالموں کی بات کی جائے تو ڈراما نگا ر نے کرداروں کے ذہنی سطح کا خیال رکھتے ہوئے مکالمہ نگاری کی ہے۔ مختصر ترین مکالمے سادہ، رواں اور چست ہونے کے ساتھ ساتھ کرداروں کے مرتبے کے عین مطابق ہیں۔

          ڈراما’’پامال محبت‘‘ بہت ہی مختصر اور انوکھا ڈراما ہے ،جس میں صرف دو کردار احمد اورزینت کے مابین کلام کو ڈرامائی انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔ڈرا مے کے مطا لعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس ڈرامے کو ریڈیو پر بھی نشر کیا جا سکتا ہے ،جس میں ریڈیائی ڈرامے کی خصوصیت موجود ہے۔ ڈرامے میں احمد جو اس وقت زینت کے گھر تشریف لایا ہے اور ان کی باتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دونوں عنقریب ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار تھے،بعد ازاں کسی مصلحت کے تحت زینت کی طرف سے مکمل بے اعتنائی برتی جا رہی ہے ۔اس بے اعتنائی کا سبب احمد کی غیر ذمہ دارانہ رویہ معلوم ہوتی ہے،جو ذریعہ معاش کے متعلق غیر سنجیدہ ہے اور اسے صرف محبت کرنے سے کام ہے۔اس ڈرامے کی اہم خصوصیت مکالموں کی اثر انگیزی ہے ۔مختصر مکالموںکے ذریعے کرداروں میں ایکٹ پیدا کیا گیا ہے ، جو ان کی نفسیات کو اجاگر کرتا ہے ۔

         ڈراما ’’پھانس‘‘میں میاں بیوی کے نوک جھونک کے ایک لطیف پہلو کو پیش کیا گیا ہے اور یہ ڈرا ما بھی محض دو کرداروں پر مشتمل ہے ۔فن کے اعتبار سے ڈرامے کے پلاٹ میں کوئی بکھرائو نہیں پایا جاتا۔مکالموں میں ڈرامائی حسن کے ساتھ ساتھ ڈرامائی لطف قاری کو اپنی گرفت میں لیے رہتا ہے۔شوکت اور رفعت کے مابین نوک جھونک کو بلونت سنگھ نے بڑی حسن خوبی سے برتا ہے جو بالکل فطری ہیں ۔ مکالمے تصنع آمیزی سے پاک ہیں جس کی وجہ سے کرداروں کی شخصیت اور ان کے قلبی جذبات بالکل فطری لگتے ہیں۔

         ڈراما ’’سکہ زن‘‘ پانچ کرداروں پر مشتمل ڈراما ہے۔ جس کے ختتام پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے چہرے پر شرافت و ایمانداری کا نقاب لگا کر ایک دوسرے کو ٹھگنے کے فراق میں سرگرداں ہے اور وہ تمام انسانی قدروں کو پامال کرتے ہوئے اس کی پاکیزگی کو مسخ کر رہا ہے ۔فن کے لحاظ سے ڈرامے کا پلاٹ چست ہے،لیکن بعض مقامات پر فطری و فنی کمزوری دکھائی دیتی ہے۔ جیسے کہ ایک جگہ پر ٹھٹھیرا کریم کی بیوی کی غیر موجودگی میں اس کے شان کے خلاف باتیں کرتا ہے جو کہ ایک مہمان یا مسافر کے اوپر زیب نہیں دیتا بلکہ اسے قدرے محتاط ہوکر جملے ادا کرنے چاہیے ۔دوسری جگہ جب مسافر اور کریم کے مابین خود ساختہ پیسوں کے حرام اور حلال ہونے پر بحث ہوئی تو کریم ا ور اس کی بیوی نے اس پیسے کو حرام قرار دیا لیکن بعد میں کریم نے پیسے بنانے کی ترکیب جاننے کے عوض میں ٹھٹھیرے کو معاوضہ دینے کے لیے بھی تیار ہو گیا۔ یہ چند باتیں ڈرامے کے پلاٹ کو متاثر کرتی ہیں۔علاوہ ازیں ڈرامے کے سبھی کرداراہم ہیں۔بالخصوص ٹھٹھیرے کا منفی کرادر ناظرین کے توجہ و ان کی دلچسپی کا مرکز ہے کہ کس قدر اس نے ٹھگنے کی ترکیب اپنائی اور اپنی منطقی باتوں سے ان کو باور کیا۔کریم کی بیوی جو ابتداء میں ایک گھریلو خاتون کے طور پر منظر عام پر آئی لیکن آخر میں ان کے ہاتھوں کی صفائی ناظرین کو حیرت میں ڈال دیتی ہے۔ زبان و بیان کے اعتبار سے مکالمے سادہ و سلیس ہیں ۔چھوٹے چھوٹے مکالموں کے ذریعے کرداروں کی شخصیت اور ان کے قلبی کیفیات و جذبات کوبڑی فنکاری سے ابھارنے کی کو شش کی گئی ہے جو ناظرین و قارئین کے دلوں پر خاطر خواہ اپنا اثر مرتب کرتی ہے۔

         المختصر فنی اعتبار سے بلونت سنگھ کے ڈرامے اہمیت کے حامل ہیں ۔ڈراموں کے پلاٹ میں کوئی کشمکش یا الجھائو پیدا ہونے نہیں دیا،جس سے کہ ناظرین کی دلچسپی میں کمی آئے۔لہٰذا وہ پلاٹ میں ڈرامائی عناصر پیدا کرنے کے تقاضے کو پورا کرتے ہیں۔کردار نگاری کے حوالے سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ان ڈراموں کے کردار بالکل گڑھے گڑھائے نہیں ہیں بلکہ وہ وقت و حالات کی تبدیلی کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔اس طرح ان کے کردار ارتقائی صورت اختیار کرتے ہیں۔کرداروں کے ذریعے ادا کیے گئے مکالموں میں بھی ان کے مرتبے اور ماحول کے مطابقت کا خاص خیال رکھا گیا ہے ۔مجموعی طور پر بلونت سنگھ نے اپنے ڈراموں میں فنی اعتدال کو برتتے ہوئے اس کا رشتہ زندگی سے استوار کرنے کی کوشش کی ہے۔جس میں وہ اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ حرکت و عمل و ڈرامائیت کا بہترین نمونہ پیش کرتے ہیں۔

حواشی:

1۔ (ڈاکٹر سید معین الرحمن ،اردو ڈراما :تنقیدی اور تجزیاتی مطالعہ،یک بابی ڈرامے کا فن ازسید وقار عظیم،1996،ص:92)

***

Leave a Reply