
ڈاکٹر گلزار احمد وانی
بلے بازی
(انشائیہ)
اس وسیع و عریض کائنات میں جب بھی انسان اپنی نظر دوڑاتا ہے تو ہر جگہ ایک تشفی کا احساس ہو ہی جاتا ہے ۔اونچے اونچے درختوں کی ٹہنیاں پتوں سے اس قدر لبریز ہوتی ہیں کہ ذرا برابر بھی بار محسوس نہیں کرتی ہیں ۔غنچوں اور گلابوں کی مہک راہوں کے ساتھ ساتھ راہگیرں کو بھی مشک بار کئے ہوئی ہیں ۔ زمین کی کھائیاں اپنی گہرائیوں و گیرائیوں کا عندیہ دے کر اس امر پر انسان کو آمادہ کرتی ہیں کہ زمیں کی مسطح کاری ہر جگہ وہ احساس نہیں جگا دیتی ہے جو یہ گیرائیاں پیدا کرتی ہیں۔ اسی طرح جتنے بھی زندگی کے ہجوم کارواں میں آدمی نظر آتے ہیں وہ اپنی چاشنی اور اپنی ہنر مندی میں اختصاص رکھے ہوئے ہیں۔اس طرح یہ کائنات اپنی رنگا رنگی میں ہر ایک زاوئیے سے اپنی بو اور باس اور اپنی کشش سے دیکھنے والوں کو اپنی اور کھنچ لاتی ہے۔اور انسان کو مسحور کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔
یہ فن اور یہ ہنر مندی ہر ایک سطح پر دیکھنے والے کو ورطہ حیرت میں ڈال کر اس کی قصیدہ خوانی کرنے پر نہ صرف آمادہ کرتی ہے بلکہ ہر لمحے اکساتی رہتی ہے۔اسی طرح آپ نے بھی بارہا دیکھا ہوگا کہ ہر ایک جگہ کوئی نہ کوئی کھلاڑی زندگی کے میچ میں کوئی نہ کوئی ایسی اننگ کھیلنے لگتا ہے جو نہ صرف اسے اس کی عمر کی اننگ کو آگے بڑھاتا ہے بلکہ فتح کے جھنڈے بھی گاڑ دیتا ہے۔وہ بلے باز کے طور پر میچ کی ہر ایک بال کو فل ٹاس سمجھ کر باؤنڈری لائن کے باہر چھوڑنا چاہتا ہے۔اور یوں وہ زندگی کی کریز کو میچ کیے وکٹ سے کچھ قدم باہر آکر اپنی من پسند شارٹ سے نہ صرف مسحور کرتا ہے بلکہ اپنی جرات اور ہمت کا بیش بہا ثبوت فراہم کرکے خود پر نگاہیں رکھنے والوں کا دل جیت لیتا ہے ۔اور نئے آنے والے بیٹسمینوں کے لئے راہیں آسان کر دیتا ہے ایسے میں باؤنڈری لائن میں بیٹھے ہوئے لوگ نہ صرف اپنی تالیوں کی گونج سے زیست کے اسٹیڈیم کو رونق بخشتے ہیں بلکہ ان کے عزم اور حوصلوں کی بھی بخوبی داد دے کر قوت بھی فراہم کرتے ہیں۔
یوں تو بلے بازی زندگی کی ہر ایک پچ (میدان) پر کرنا آسان نہیں رہتی ہے اگر جیون کے میدان میں ذرا بھی نمی موجود ہو تو بلے بازی اتنی ہی مشکل نظر آتی ہے اور جیون مخالف باولر اتنے ہی وحشت ناک نظر آتے ہی۔کہ ان کے رن آپ سے ہی بیٹسمین کا دل کانپ اٹھتا ہے ۔ثبت قدمی اور تجربہ کار بلے باز ہی ان مشکل پچوں پر ٹھہر کر مشکل حالات کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔اور جونہی حالات بیٹنگ کے لئے سازگار ثابت ہو جاتے ہیں تو بلے بازی آہستہ آہستہ اتنی ہی سازگار اور آسان ثابت ہو جاتی ہے۔جونہی زندگی کی پچ سے نمی غائب ہو جاتی ہے تو بلے باز ترقی کی رن ریٹ کو بڑھانے لگتا ہے۔ اور وہ کریز سے باہر آکر شارٹ مار کر حالات کو مسخر اور قابو میں کر لیتا ہے ، مخالف باولر نہ صرف بلے باز کی بلے بازی سے نہ صرف خوف کھاتا ہے بلکہ اس کی ٹانگیں بھی کانپتی ہیں ، اور یوں وہ اپنی گیم ہار کر بلے باز کی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں۔ باؤنڈری لائن پہ وہ تماشائیوں کا شور مخالف ٹیم کی ہار کی پیش گوئی ثابت ہوجاتی ہے۔اپنے بیگانے کچھ دیر کے لئے تالیوں کی گونج سے زیست کے اسٹیڈیم میں جیت کی خوشی کی لہریں دوڑاتے ہیں ۔بلے باز کی بلے بازی کی دھوم مچی ہوئی ہوتی ہے۔مخالف ٹیم بھلے ہی دل سے نہ سہی مگر سپورٹس میںن شپ کے قواعد و قوانین کی لاج رکھ کر بلے باز سے دل کھول کر ہاتھ ملاتے ہیں اور اپنے چہروں پر شکستگی کے آثار ظاہر نہ کرتے ہوئے بھی بلے باز کے کمر کو نہ چاہتے ہوئے بھی تھپتھپا تے ہوئے نظر آتے ہیں۔
اب اس زیست کے سفر کے ساتھ ساتھ ٹیم میں ایک بلے باز کی طرح زندگی کی اننگز کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ایسے بھی زندگی ، ایک بلے باز کی مانند دکھائی دیتی ہے ۔کچھ تو ایسے بھی بلے باز ہیں جو مصائب کی باؤنسر کو نہ جھیلتے ہوئے اپنی زندگی کی وکٹ کیچ آوٹ کو صورت میں گنوا دیتے ہیں۔وہ آنے والے بیٹسمینوں کے لئے نہ صرف رکویرڈ رن ریٹ کو بڑھاتے ہیں بلکہ ان پر نفسیاتی دباؤ بھی بڑھا کر انہیں بیک فٹ پر لا کر کھڑا کر دیتے ہیں۔جو ٹیم کی ہار کا سبب بھی بن جاتا ہے۔ ایک بلے باز کی اچھی بلے بازی وقت کے دھارا کو موڑ سکتی ہے جس کے لئے شرط یہی ہے کہ اس کے اندر جرات ،ہمت ،صبرو استقلال ،عزم و حوصلہ کے پیڈ ، ہیلمٹ اور گلاوز موجود ہوں ۔ان چیزوں کی عدم موجودگی میں بلے باز زخمی بھی ہو سکتا ہے اور اسے زندگی کی باونسر سر میں لگنے کا احتمال بھی ہے۔وہ اپنی تاپڑ توڑ بلے بازی سے اپنی حریف ٹیم کو ناکوں چنے چبانے پر مجبور کر سکتا ہے ۔ جس سے وہ میچ کا پانسہ پلٹ کر میں آف دی میچ کا ایوارڈ بھی جیت سکتا ہے اسے پھر اپنی ٹیم کے بقیہ کھلاڑی اپنے کندھوں پر اٹھا کر اسے پچ میں گھما سکتے ہیں۔اور یوں وہ اخبار کی سرخیوں میں بھی برابر رہ کر اپنی مقبولیت کے جھنڈے گھاڑ کر ہر سو گھی کے چراغ جلا سکتا ہے۔
کبھی کبھار آپ نے اس بات کا بھی بغور مشاہدہ کیا ہوگا کہ جب نا تجربہ کار بلے باز اپنی زندگی کی کریز پر کھڑا ہو جاتا ہے تو اس پر پریشر ہینڈل کرنے کا مادہ کچھ زیادہ نہیں ہوتا ہے وہ پھر سنگل رن چرانے کی صورت میں رن آوٹ بھی ہو جاتا ہے۔اور یوں وہ اپنی زیست کی اننگ کو لمبا نہیں کر پاتا ہے جس سے وہ بہ آسانی اپنی وکٹ گنوا سکتا ہے۔ اس صورت حال میں آنے والے کھلاڑیوں پر بھی نفسیاتی دباؤ برابر رہتا ہے۔ ان کے چہروں سے شکستگی کے آثار نمایا ں ہونے لگتے ہیں جس سے وہ بعد میں پریس کانفرنس میں سوالوں کے جواب بھی آرام سے نہیں دے پاتے ہیں ، اور خفتگی کے عالم میں وہ بہت کچھ چھپانا بھی چاہتا ہیں ۔اس طرح سے وہ اپنی اننگز کو لمبی نہیں کرتے ہیں۔ سارے شائقین ان کھلاڑیوں پر اپنی بھڑاس نکالتے ہیں اور یوں کہیئے کہ کیا کیا قصیدے پھر پڑھے نہیں جاتے ہیں۔جنہیں سن کر انسان آب آب ہو جاتا ہے۔ وہ چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کے قابل ہوتے ہیں ۔اکثر بیشتر ناکام کھلاڑی اپنی نا تجربہ کاری کو چھپاتے ہوئے پچ کو ذمہ دار ٹھہرا کر اپنے آپ کو اور اپنی ٹیم کو نردوش ثابت کرتے ہیں انہیں اس بات کا بخوبی علم بھی ہوتا ہے کہ وہ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا کے مصداق ہوتے ہیں ۔ جس سے وہ اپنی غلطیوں کا ازالہ نہیں کرتے ہیں اور زندگی کے میچ کو جیت کر ہار جاتے ہیں ۔
سمے کی خوشیاں ضروری نہیں کہ ہر وقت کسی کے حصے میں خوشامد کر پائیں ۔اب اس کے لئے کبھی کبھار غم کی کریز سے باہر آکر آدمی کو ایسے مسرتوں کے پل شارٹ مارنے کی ضرورت ہے جہاں سے کھلاڑی کو چار یا چھ رن مل کر مصائب و آلام کی موجودہ رن ریٹ ہائی ہو کر ریکویرڈ رن ریٹ بھی ساتھ میں کم کم ہو جائے اور آدمی اپنی ترقی اور اسکور کے ٹارگیٹ کے پاس آہستہ آہستہ پہنچ جائے ۔جس کے بعد ایک کھلاڑی زیست کے میچ کو اپنے حصے میں کر سکتا ہے شرط یہ ہے کہ میچ جیتنے کی صلاحیت و بیٹنگ کرنے کی تکنیک معلوم ہو ، جس سے حیات خوشیوں سے لبریز ہو تاکہ آدمی کے جیون میں مسرتوں کا خورشید جلوہ گر ہو کر طمانیت اور نشاط سامانیاں خودبخود در آسکتی ہیں اور آدمی سکھ کی نیند بھر سکتا ہے۔