You are currently viewing تذکرہ ٔمیر’’نکات الشعراء‘‘ کی تاریخی و ادبی اہمیت

تذکرہ ٔمیر’’نکات الشعراء‘‘ کی تاریخی و ادبی اہمیت

یاسمین کوثر

ریسرچ اسکالر ،علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ

تذکرہ ٔمیر’’نکات الشعراء‘‘ کی تاریخی و ادبی اہمیت

         اردو میں تذکرہ نگاری کی روایت بہت قدیم ہے۔میرتقی میر کاتذکرہ’’نکات الشعرا‘‘اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے یہ اردو شعراکا فارسی زبان میںپہلا تذکرہ ہے، جواردو تذکرہ نگاری میں تاریخی، تنقیدی اورادبی اہمیت کا حامل ہے۔ تذکرہ’’نکات الشعرا‘‘ کا سن تصنیف ۱۱۶۵ھ بمطابق  ۵۲۔۱۷۵۱ء ہے۔ اس تذکرے میں۱۰۲ شعراکے احوال و کلام درج ہیں اس کا آغازامیر خسرؔو اوراختتام میر تقی میر پر ہوتا ہے۔ یہ تذکر ہ تقریبا ً چارسو سال کے ریختہ گوء شعر اء کے ذکر پر مشتمل ہے جو دلی کے دور سلطنت سے شروع ہو کرشاہان تیموری کے آخری دور پر مشتمل ہے۔ جن میں ۳۲ شعراء دکن اور دیگر شمالی ہند کے ہیں ۔شعرا ے اردو کا یہ تذکرہ انجمن ترقی اردو ہنداورنگ آباد دکن کی جانب سے دو مرتبہ شائع ہوا۔پہلا ایڈیشن ۱۹۲۲ ء میں حبیب الرحمان خان شیروانی کے مقدمے کے ساتھ نظامی پریس بدایوں سے چھپ کر شائع ہوا اور اس کا دوسرا اڈیشن۱۹۳۵ء میں مولوی عبدالحق نے مقدمے کے ساتھ انجمن ترقی اردو اورنگ آباددکن سے شائع کیا۔ایم ۔کے  فاطمی نے اسے اردو زبان میں ترجمہ کیااور ۱۹۶۲ء  میں مقدمہ کے ساتھ دانش محل لکھنؤسے شائع کیا ۔اس تذکرے کو اردو کا اولین تذکرہ بھی تسلیم کیا گیا ہے۔میر جو کہ ’’خدائے سخن‘‘اور اردو شاعری کا سب سے بڑا نام ہیں وہ ہمیں اس تذکرے میں اپنے مختلف انداز میں نظر آتے ہیں اس میں وہ کہیں گپ شپ کرتے ملتے ہیں ۔کہیں میلے ٹھیلوں کے عاشق کے طور پر،عرس وغیرہ میں راتیں گذارتے ہوئے ،بزرگوں کا احترام کرتے اور اپنے مخالفین کے لیے بھی دل میں ایک وسعت اور نرم گوشی رکھتے دکھائی دیتے ہیں ۔اس تذکرہ میں میر کی شگفتہ اور زندہ دل شخصیت سامنے آتی ہے ۔

         میر اپنے تذکرے کی تصنیف کا سبب بتاتے ہوئے تمہید میں لکھتے ہیں کہ:

’’در فن ریختہ کہ شعریست بطور شعر فارسی بزبان اردو معلی شاجہاںآباد دہلی کتابے تا حال تصنیف نشدہ کہ احوال شاعران این فن بص۱فحہ روزگاربماند۔بنا ء علیہ این تذکرہ کہ مسمہ بہ نکات الشعرااست نگاشتہ می شودــــ۔‘‘۱؎

(ترجمہ: فن  ِریختہ میں جو قلعئہ معلہ شاجہاں آباد دہلی کی زبان میں فارسی شاعری کے طرز کی شاعری ہے پوشیدہ نہ رہے

آج تک ایسی کوئی کتاب تصنیف نہیں ہوئی جس سے اس فن کے شاعروں کا حال صفئہ روزگار پر باقی رہے۔اس لیے یہ تذکرہ جس کا نامــ’’نکات الشعرا ‘‘ ہے لکھا جا رہا ہے۔)

نکات الشعرا میں شعرا کے کلام کی خصوصیات کا بیان ترتیب وار کچھ یوں ہے:

۱۔ شاعر کی شخصیت سیرت و ماحول کا بیان

۱۔ واقعہ نگاری

۳۔میرؔ کا نظریہ شاعری

۴۔کلام پر رائے اور تبصرے

۵۔میر کی اصلاحیں

۶۔انتخاب کلام

         ہالانکہ شعراء کی شخصیت ،سیرت اور ماحول کے بیان میں میر نے انتہائی اختصار سے کام لیا ہے لیکن اس میں جامعیت کا دامن کہیں نہیں چھوٹتا۔بقول مصطفی کلام فاطمی:

’’میر کے بیان میں اتنی جامعیت ہے کہ ہم آسانی سے اس شاعری کی شخصیت اس کی افتاد طبع اور اس کے ماحول کا ایک نقشہ اپنے ذہن میں مرتب کر سکتے ہیں ۔‘‘ ۲؎

         اس تذکرے کا طریقئہ کار بھی دوسرے تذکروں سے مشابہت رکھتا ہے یعنی شاعر کی شخصیت اور حالات کا بیان،اصلاح اشعار،کلام پر رائے تنقیدکے ساتھ میر نے مختصراًمگر جامع انداز میں کیا ہے۔ اس تذکرے میں میر نے بعض شعرا کے بارے میں تفصیل بیان کرنے سے اس وجہ سے گریز کیا ہے کے ان کا بیان دوسرے تذکروںمیںتفصیلا ًہو چکا ہے۔میر اپنے تذکرے میں اختصار کے باوجود حالات زندگی،سیرت افتاد طبع اور ذہنی رحجان پیش کرنے میں بڑی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں ۔کلیم الدین نے اردو شعرا کے تذکروں میںاختصار کو ان کی خامی بتایا ہے لیکن میر کے تذکرے کے متعلق ان کی رائے مختلف ہے جس میںاختصار کے باوجود شاعر کی زندگی کے چھوٹے چھوٹے مگر اہم حالات اور زندگی و ادب سے جڑے اہم واقعات کا ذکر پیش کیا گیا ہے ۔

          امیر خسروؔکے بارے میں وہ لکھتے ہیںکہ ان کے حالات و فضائل سب پر’’اظہرمن الشمس ‘‘ہیں۔اس لیے ان کا  تفصیلی ذکر فضول ہے یعنی وہ بہت مشہور و معروف شاعر ہیں۔ان کی شخصیت سے ہرکوئی واقف ہے۔ امیر خسرو کا ایک قطعہ انہوں نے اپنے تذکرے میں درج کیا ہے جواس طر ح ہے ۔

 زر  گر  پسرے  چوں  ماہ  پارا       کچھ  گھڑے   سنوارئے   پکارا

نقد  دل  من  گر فت  و بشکست       پھر  کچھ  نہ  گھڑا  نہ  کچھ  سنوارا

میر کی خود نوشت میں ان کے بیان کے حساب سے ہم پاتے ہیں کہ میر کے خان آرزو کے ساتھ کچھ عرصہ بہترین تعلقات رہے لیکن بعد میں میر کی زندگی میں خان آرزو کے تعلق سے بہت تلخٰی بھی در آئی یہاں ہمیں میر کی اعلی ظرفی کا قائل ہونا پڑتا ہے کہ انھوں نے ادب پر ذاتیات کو حاوی ہونے نہیں دیا ہے ۔میرؔ اپنے پیر و مرشد سراج الدین خاں آرزوؔکی استادی کا احترام کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’آب و رنگ باغ نکتہ دانی،چمن آرائے گلزارمعانی،متصرف ملک روزطلب بلاغت،پہلوان شاعر عرصہ فضاحت،چراغ دودمان صفائے گفتگوکہ چراغش روشن باد،سراج الدین علی خان آرزو سلمہ اللہ تعالی ابداً شاعر زبردست قادر سخن عالم فاضال تا حال ہمچوایشاںبہ ہندوستان جنت نشان بہم نہ رسیدہ بلکہ بحث در ایران می رود  شیہرہ  آفاق ،در سحن فہمی طاق، صاحب تصنیفات دہ پانزدہ کتب و رسالہ ودیوان مثنویات۔حاصل کمالات او شان ازحیزہ بیان بیرون است۔‘‘۳؎

(ترجمہ:سراج الدین علی  خان  آرزو ،آب ورنگ باغ نکتہ دانی، چمن آراے گلزار معانی،بلاغت کے  جس کے لیے (بڑی )قوت درکار ہے،کے ملک کا فرمابردارفصاحت کے میدان کا شہ زورشاعر،صفاے گفتگو سے (دل کو)باغ باغ کر دینے والوں (کے سلسلہ )کا چراغ۔اس کا چراغ یوں ہی روشن رہے خدا تعالی سراج الدین خان آرزوؔ کو ابد تک (زندہ و )سلامت رکھے ہندوستان جنت نشان میں ان جیسازبردست قادرالکلام شاعر،عالم و فاضل آج تک پیدا نہیں ہوا بلکہ یہ

بحث ایران تک چلی جاتی ہے یہ شہرہ آفاق،سخن فہمی میں طاق دس پندرہ کتابوں ،رسالوںدیوان اورمثنویات کا مصنف۔ان کے کمالات کے نتائج بیان کے دائرے سے باہر ہیں۔   ۴؎

          میرؔ نے اپنے تذکر ے سراج الدین خاں آرزو کے بارے میںچند ہی سطروں میں ان کی شاعری ، شخصیت اور علم قیافہ کا فن ان کی عزت و عظمت کا مکمل خاکہ پیش کیا ہے۔اسی طرح مرزا محمد رفیع سوداؔجو میر کے ہم عصر بھی تھے ا ور ان سے میر کی ادبی چشمک بھی تھی لیکن پھر بھی انہوں نے ان کے کلام اور شخصیت پر ایمانداری کے ساتھ رائے دی ہے۔سوداکے بارے میں لکھتے ہیں۔

’’جوانسیت خوش خلق،خوش خوئے گرم جوش یار باش شگفتہ روئے نوکر پیشہ غزل،قصیدہ، مثنوی قطعہ ،مخمس،رباعی ہمہ راہ خوب می گوید سر آمد شعرئے ہندی اوست۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پیش فکرعالیش طبع عالی شرمندہ۔شاعر ریختہ،چنانچہ ملک الشعرائی ریختہ اوراشاید۔۔۔۔۵؎

 (ترجمہ : مرزا محمد رفیع  خدا اسے سلامت رکھے۔المختلص بہ سوداؔ۔نوجوان ہے،خوش

اخلاق اورمزاج،گرم جوش یار باش شگفتہ چہرے والااس کا مولد شاجہاںآباد ہے۔نوکر پیشہ ہے۔ غزل، قصیدہ، مثنوی، قطعہ،محمس اور رباعی تمام اصناف سحن خوب کہتا ہے۔

وہ ہندی شاعروں کا سر تاج ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پرواز فکر کے آگے بلند طبیعتیں شرمسار ریختہ کا شاعرہے ریختہ کی ملک الشعرائی  اسے زیب دیتی ہے۔)۶؎

         میرؔ نے سودا کی سیرت نگاری کو بیان کرتے ہوے ہر چیز کو بلا کم و کا ست پیش کیا ہے ایک طرف انہوںنے سودا کی خوش احلاقی کاذکراور دوسری طرف بلا جھجک ان کو’’ ہندی کا سرتاج‘‘کہا ہے اور انھیںتمام اصناف سخن پر قادر بھی بتایا ہے۔ آخر میں’’ملک الشعرائے ریختہ ‘‘ کا خطاب بھی دیا۔مذکورہ بالا اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ میر نے بہت خوبصورتی اور اختصار کے ساتھ چند ہی سطروں میں ان کی شاعری اور شخصیت کا دلکش خاکہ بیان کیا ہے۔میر نے شعرا کا ذکر کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ ان کے شعری مرتبہ کو متعین کرتے ہوئے ان کے کلام کا مختصراًجائزہ بھی پیش کیا ہے ۔کچھ شعرا کی انہوں نے اصطلاح بھی کی ہے اور یہ رائے بھی پیش کی ہے کہ اگر یوں لکھا جاتا تو بہتر ہوتا۔یہ بات تذکرہ نگاری کی اصولوں کے خلاف ہو سکتی ہے لیکن میر کی دی گئی اصلاحیں حقیقت میںشعر کے حسن میں اضافہ کرتی ہیں۔     مثال کے طورپر ٹیک چند بہادر کا شعر:

تھی   ز لیخا   مبتلا   یوسف  کی   اور  لیلیٰ   کا   قیس

یہ   عجب  مظہر  ہے  جس  کے   مبتلا   ہیں  مرد وزن

         میر نے اس شعر پر یوں اصلا ح دی ہے:

تھی   زلیخا   مبتلا   یوسف  کی  اور  لیلیٰ   کا   قیس

 حسن   کیا   مظہر  ہے  جس  کے  مبتلا  ہیں   مردوزن

         مصطفیٰ خان یکرنگ کا  شعر:

اس  کو  مت  بوجھو  سجن  اوروں  کی  طرح

مصطفیٰ   خاں   آشنا  یکرنگ   ہے

         میرؔ لکھتے ہیں کہ یہ شعراگر میرا ہوتا تو اس کا پہلا مصرع یوں ہوتا۔

مت  تلوّن  اُس میں سمجھیں آپ سا

مصطفیٰ  خاں آشنا یکرنگ ہے

         شرف الدین مضمون کا شعر:

میرا پیغام وصل اے قاصد

کہو سب سے اسے جدا کر  کے

         میر لکھتے ہیں کے مضمون کے اس شعر کو  انہوں نے اپنے ایک جاننے والے کو اسطرح سنایا تھا۔

میرے پیغام کو  تو اے قاصد

کہو  سب  سے  اسے  جدا  کر  کے

         میرؔ نے لفظوں کے معمولی ہیر پھیر سے شعر کی خوبصورتی کو دو بالا کر دیا ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا تنقیدی اور اصلاحی شعور کتنا پختہ تھا۔اس تذکرہ میں میر کا نظریہ شاعری بھی واضح ہوتا ہے وہ شاعری کو گل و بلبل کی حدود تک محدود نہیں کرتے وہ ایہام کے سخت مخالف بھی ہیںاور صاف گوئی سادہ بیانی پرزور دیتے ہیں ۔میر کے شعری نظریات کے متعلق بھی ہمیں اس تذکرے کے ذریعے معلومات ہوتی ہے کہ وہ جبکہ میر نے باضابطہ طور پر شعری تنقید کے حوالے سے کوئی مقالہ تحریر نہیں کیا ۔میر کے خیال کے مطابق شاعری ’’فن شریف ‘‘ ہے جس کے لیے ’’لیاقت‘‘اور ’’شعری سلیقہ‘‘کی خصوصی اہمیت ہوتی ہے۔تجنیس،ترصیح،تشبیہہ،صاف گوئی،فصاحت،بلاغت ،ادا بندی،اور ساتھ ہی خیال کا التزام سے بھرپور ریختہ گوئی کی طرز انھیں محبوب ہے۔میر صرف ان فارسی تراکیب کا استعمال جائز سمجھتے ہیں جو ریختہ کے مزاج سے ہم آہنگ ہوںمیر ایک زبردست تنقیدی شعور کے حامل ہیںانھوں نے شعرا کے کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے بھی اشاروں میں تنقید کی ہے میر کے مطابق:

۱۔شاعر سخن پر قدرت رکھتا ہو

۲۔شعرمیں ربط اور تاثیر ہو

۳۔شاعر خوش فکر ہو

۴۔شعر میں سادگی اور صفائی ہو

۵۔ایہام نہ ہو

۶۔توارد نہ ہو

۷۔شاعر سخن فہم نہ ہو

         تذکرہ نکات الشعرا اپنے عہد کے مجموعی رحجانات کا پابند ہے میر کے تذکرے سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ میر

نے شعرا کی تمام قدیم روایتوں کو الہامی سمجھ کر قبول نہیں کیا بلکہ سنجیدگی سے ان کی تنقید ی نظر ڈالی ہے لیکن اس بات کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہ ان شعراء کے مرتبہ شعری کو کوئی نقصان نہ پہنچے ۔

         ’’نکات الشعرا ‘‘میں کلام پر راے اور تبصرے اس وقت کے تنقیدی معیار کے مطابق ہیںجن میں رنگین بیانی کو کافی دخل ہے لیکن پھر بھی ہمیںمیر ؔ کے ہاںایک بلند معیار نظر آتا ہے۔ان کے ہاںاعلی قسم کی تنقیدی صلاحیت اور صاف گوئی موجود ہے جس نے ان کے لہجے میں کہیںکہیں تلخی پیدا کر کے ان کی تنقید کو نقصان بھی پہنچایا۔ وہ تنقیدی رائے دیتے وقت اپنے ذاتی اختلافات کو کبھی بھی درمیان میں نہیں لاتے۔’’نکات الشعرا ء‘‘میں انتخاب کلام کے وقت میر نے اپنے ذوق شاعری کا ثبوت دیا ہے۔ انہوں نے نہ صرف شعراء کے اچھے اشعار شامل کیے بلکہ کمتر درجے کے اشعار کو انتخاب میں شامل کر کے اس انتخاب کو جامع بنا دیا ہے۔جہاں ان اشعار میں اصلاح کی ضرورت پیش آئی ہے میر نے ان کی اصلاح سے بھی گریز نہیں کیا۔

         ’’نکات الشعرا ‘‘ ہمارے لیے نئی اور مفید معلومات کا ذریعہ بھی ہے۔ اس سے چند نئی معلومات ہمارے سامنے آتی ہیں ۔ مثلاً سب سے پہلے دکن کی ادبی خدمات کا اعتراف، تذکرہ نگاروں میں ولیؔ کے اصل وطن اورنگ آباد کا ذکر، اس زمانے میںدلّی ہی کو عام طور پر ہندوستان سمجھا جاتا تھا،ریختہ کے کچھ اشعار جو شیخ سعدی سے منسوب تھے اصل میںسعدعؔ دکنی کے تھے،مرزا مظہر کا اصل نام جان جاں تھا ان کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی پتا چلتا ہے کہ اردو ادب کی

خدمت میں ہندو اور مسلمان برابر کے شریک تھے۔نکات الشعرا کی تخلیق سے متعلق اس سلسلے میںبھی ناقدین کے اختلاف سامنے آتے رہے ہیں کہ یہ تنقید کے مروجہ اصولوں کی پابندی نہیں کرتا اور اس کی ادبی حیثیت و میر کی تنقیدی صلاحیت پر کئی سوالات کھڑے کیے گئے لیکن اس تذکرے کی سماجی و معاشرتی اہمیت بھی مسلم ہے جس زمانے میں میر نے یہ تذکرہ لکھا اس زمانے کے لحاظ سے اس تذکرے میں تنقیدی عناصر صاف نمایاں ہوتے ہیں۔اس سلسلے میں :

’’نکات الشعراء سے اس زمانے کی طرز معاشرت زبان گفتگو اخلاق و عادات اور رسم و رواج وغیرہ کے بارے میں بہت سی اہم باتیں معلوم ہوتی ہیں اور سیاسی و معاشی حالات اور ادبی ماحول کا بھی بہت کچھ اندازہ ’’نکات‘‘ سے کیا جا سکتا ہے ۔‘‘ ۷؎

          ہمیں نکات الشعراء کے جائزے سے ہمیں اس زمانے کی ادبی تحریکات و رحجانات کا بھی پتہ ملتا ہے ساتھ ہی اس بات کا بھی پتہ ملتا ہے کہ ارد وادب کی خدمت میں ہندو مسلم اتحاد کا بول بالا تھا ۔میر کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ وہ یاس و حرماں میں گھرے ہوئے ایک قنوطی شخصیت کے مالک تھے لیکن جب ہم نکات الشعراء میں انھیں دیکھتے ہیں تو ہم پر میر کی شخصیت کے تمام نئے پہلو آشکار ہوتے ہیں ۔اس کے مطالعے کے بعد میر بچپن سے ہی تکلیف دہ حالات کا سامنا کرتے رہنے کی باوجود یار باش اور ہنس مکھ انسان کے طور پر سامنے آتے ہیں جو یاروں کے یاربھی ہیں اور مستیوں میں مست بھی جس کی زندگی میں محض نا کامیاں محرومیاں اور ناامیدیاں ہی نہیں بلکہ مزاح اور شوخی کا بھی گزر ہے جو انھیں اصل میں میر بناتا ہے ۔

         میر کی زبان میر کا سب سے بڑا اختصاص ہے ۔نکات الشعرا کی زبان ان زمانے کی نسبت سے ہر لحاظ سے موزوں ہے اس دور میں فارسی کا بو ل بالا تھا ۔یہاں زبان سہل ممتنع کے پیرایہ میں ملتی ہے اسی طرح نکات میں ان کی زبان نہایت صاف و سادہ پاکیزہ شیریں وپر لطف فارسی ہے۔میر کی زبان و بیان پر ان کے زمانے کے اثرات صاف طور پر نظر آتے ہیں جس زمانے میں تحریر میں رنگینی پیدا کرنے کی غرض سے مقفع اور مسجح نثر لکھنے کا چلن عام تھا ایسے میں میر کے یہاں نثر کی سادگی انھیں سب سے منفردبناتی ہے۔نکات الشعرا کی زبان اور طرز بیان کے متعلق رقم طراز ہیں:

۰’’میر ؔ نے ’نکات الشعرا‘‘میں اپنی نہایت صاف ستھری،پاکیزہ،لطیف ،رنگین اوربا

محاورہ زبان کا ثبوت دیا ہے۔‘‘

۰میر کا طرز بیان بھی غضب کاہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ الفاظ کا ایک سیلاب ہے جوامنڈتا چلا آ رہا ہے اور اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ۔میر کو زبان پر پوری طرح قدرت حاصل ہے ان کے پاس الفاظ و مہاورات کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہے جسے انھوں نے اپنا ’’خون دل‘‘دے کر حاصل کیا اس لیے وہ صحیح اور جائز مصرف بھی جانتے ہیں۔‘‘۸؎

         المختصر ہم نتیجے کے طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ نکات الشعراء کا اردو تذکرہ نگاری پر اپنے پائدار نقوش مرتب کیے ہیں اور یہ تذکرہ پورے تذکرہ نگاری کے دبستان کی بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے ۔یہ اردو ادب میں سنگ میل کی مانند آنے والی نسلوں کے لیے راہیں روشن کرتا ہے۔

حواشی

۱۔نکات الشعرا :میر تقی میر ۔مرتبہ مولوی عبدالحق :ص۹،انجمن ترقی اردو پاکستان۱۹۷۹ء؁

۲۔اردو تذکروں میں نکات الشعرا کی اہمیت: ایم کے فاطمی :ص۴۷،دانش محل لکھنو، ۱۹۶۲؁ء

۳۔نکات الشعرا: میر تقی میر۔مرتبہ مولوی  عبدالحق :  ص ۱۰ ،انجمن ترقی اردو پاکستان۱۹۷۹؁ء

۴۔نکات الشعرا:مترجم حمیدہ خاتون:ص۱۶ ، جے ۔کے آفیسٹ پرنٹرس دہلی ۱۹۹۴؁ء

۵۔نکات الشعراـ: میر تقی میر۔مرتبہ مولوی عبدالحق:ص۳۱،انجمن ترقی اردو پاکستان۱۹۷۹؁ء

۶۔نکات الشعرا : مترجم حمیدہ خاتون:ص  جے ۔کے آفیسٹ پرنٹر س دہلی۱۹۹۴؁ء

۷۔اردو تذ کروں میں نکات الشعرا کی اہمیت: ایم کے فاطمی :ص۱۱۲،دانش محک لکھنو، ۱۹۶۲؁ء

۸۔اردو تذ کروں میں نکات الشعرا کی اہمیت: ایم کے فاطمی :ص۱۵۱،دانش محل لکھنو، ۱۹۶۲؁ء

Leave a Reply