You are currently viewing ترقی پسنداُردو افسانہ

ترقی پسنداُردو افسانہ

ڈاکٹر شیو پرکاش

جواہر لعل  نہرو یونیورسٹی،  نئی دہلی

ترقی پسنداُردو افسانہ

         ترقی پسند تحریک ایک نظریاتی تحریک ہے اور اس کا منبع وماخذ مارکسیت ہے ۔ دراصل یہ کارل مارکس کے فلسفیانہ تصورات کے عمیق اثرات پر مبنی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہرفلسفی اپنے اکابرین کے فلسفہ کو ٓاگے بڑھاتا ہے وہیں ان کے فلسفوں کو رد بھی کرنے کا کام کرتا ہے۔ارسطو اس کی بہترین مثال ہے۔ٹھیک اسی طرح کارل مارکس نے جہاں ہیگل کے بعض فلسفوں کو آگے بڑھایا ہے وہیں انھوں نے ان کی مثالیت پسندی کو رد بھی کیا ہے۔ان کا خیال ہے کہ ان کے اور فائر باخ کے فلسفے حد درجہ میکا نکی ، مجہول مابعد الطبیعاتی اور یک رُخے پن کے شکار ہیں ۔یہ بات نشان خاطر رہے کہ کارل مارکس نے اپنے فلسفے سے دنیا کو ایک نئی بصیرت مندی سے ہمکنار کیا ۔ان کا جدلیاتی مادی فلسفہ ہو یا قدر زائد کا فلسفہ وغیرہ پوری دنیا کو انقلاب سے ہمکنار کیا ہے۔یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ کارل مارکس نے دنیاکو جدلیاتی اور فعال فلسفہ دیا ہے۔ان کے فلسفے میں انسانی زندگی کی حقیقتوں کوآئینہ دکھاتا ہے جس میں آئیڈ یالوجی اور تخلیقی ادب اور آرٹ سبھی کچھ شامل ہیں ۔مارکس کا فلسفہ مختلف صورتوں میں ظہور پذیر ہو کر زندگی کو متاثر کرتا ہے ہے۔ مارکسزم نینہ صرف اُردو شعر و ادب کے لسانی ، ثقافتی اور شعری محاسن سے ہم آمیز ہو کر ترقی پسند نظر یہ و ادب کی تشکیل کی بلکہ اس نے عالمی سطح پر نمایاں ہونے والی بیداری اور غلام ہندوستان میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے ہاتھوں غریب عوام ، کسانوں او ر مزدوروں کے استحصال کو بھی پیش کیا اور اپنے فلسفہ سے انسان دوستی کا پیغام عام کیا۔ ترقی پسند ادبی تحریک ایک واحد ایسی تحریک ہے جس نے سب سے زیادہ انسانی زندگی کے مختلف گوشوں کو روشن کیا ہے۔ معاشرہ اور انسانی زندگی کو فروغ دینا اس تحریک کا خاص مقصد ہے۔اس تحریک کی افادی پہلوئوں سے کوئی بھی نقاد انکار نہیں کرسکتا ہے۔

         ترقی پسند تحریک ایک مثبت اور فعال تحریک رہی ہے۔اس تحریک نے ادبی دنیا کو نہ صرف انقلاب سے ہمکنار ہے بلکہ ان کے وسیلے سے ادب کا دامن نہایت وسیع ہوا ہے۔ترقی پسند ادبی تحریک نے ادیبوں کو زندگی اور سماج کی کہانی لکھنے کی طرف مائل کیا ہے ۔اس تحریک کی ہی دین ہے کہ ادب میں سیاسی،سماجی ،معاشی اور جمالیاتی تمام جہتوں کو پیش کرنے کی کوشش ملتی ہے۔اس تحریک نے عوام میں ترقی پسند سوچ پیدا میں نمایا ں کردار ادا کی اور ادب کو خیالی دنیا سے نکال حقیقی دنیا میں لا کھڑا کیا۔اردو ادب میں ترقی پسند تحریک نے پہلی دفعہ ادیبوں میں روشن خیالی اور ترقی پسند پیدا کرنے کی کوشش کی اور اس میں کامیابی اور کامرانی بھی ملی۔ ڈاکٹر صادق لکھتے ہیں:

’’۔۔۔اردو افسانے  کے میدان میں سارے اہم تجربات  اسی دور میں ہوئے اور اس صنف کوترقی پسند تحریک کے ہاتھوں ایک قلیل سی

مدت میں وہ عروج حاصل ہوا جو کسی بھی ادبی صنف کو  صدیوں میں نصیب ہوا کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔انگارے کی اشاعت اردو افسانے کی تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے، جہاں سے اردو افسانہ نئے ابعاد اور امکانات سے متعارف ہوا ۔انگارے کے مصنفین ( سجاد ظہیر، احمد علی ، رشید جہاں اور محمود الظفر)نئی تعلیم سے بہرہ ور وہ آزادی پسندنوجوان تھے جو ہندوستان کی سیاسی و سماجی صورت حال اور اپنے عہد کے تقاضوں سے با خبر تھے ۔غلامی،جہالت ،عدمِ مساوات،اقتصادی بد حالی ،بھوک اور جنسی گُھٹن کو وہ اپنی ہم عصر زندگی کے لئے کسی عذاب سے کم نہیں سمجھتے تھے۔۔۔۔۔انھوں نے اپنے افسانوں میں عصری زندگی کے مسائل کو جرات مندی کے ساتھ پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ۔ان افسانوں میں  اقتصادی،جنسی ،اور انقلابی رحجانات پائے جاتے ہیں جو حقیقت نگاری کے ہی مختلف روپ ہیں ۔‘‘(۱۔(ترقی پسند افسانے کے پچاس سال ؛از ڈاکٹر صادق ،مشمولہ ۔ترقی پسند ادب ،پچاس سالہ سفر ،مرتبین قمر رئیس اور عاشور کاظمی،ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس،2005 ،ص358-359)

         آزادی سے قبل اردو کے ترقی پسند افسانہ نگاروں نے وقت اور زمانے کے بدلتے ہوئے حالات زندگی کے مسائل اورتکنیکی باریکوں کو اپنے فن میں سمو کر ایک نئی روش قائم کی ۔ اس تحریک سے وابستہ ممتاز افسانہ نگاروں میں کرشن چندر ، راجندر سنگھ بیدی ۔ سعادت حسن منٹو ، عزیز احمد ۔ احمد علی ،رشید جہاں ، حیات اللہ انصاری ،اوپندر ناتھ اشک ، عصمت چغتائی ، اختر اورینوی ، اختر رائے پوری ، اختر انصاری ، دیوندر سیتارتھی ، بلونت سنگھ ، رتن سنگھ ، خواجہ احمد عباس ، احمد ندیم قاسمی ، ہاجرہ مسرور خدیجہ مستور ، غلام عباس وغیرہ تھے جو تقسیم سے قبل ہی  بحیثیت افسانہ نگار شہرت کے بام عروج پر پہنچ چکے تھے اور فن کے اس کارواں کو لئے آگے بڑھ رہے تھے ۔ جن کے سالار پریم چند رہ چکے تھے۔

         اگر یہ کہا جائے تو شاید بیجا نہ ہوگا کہ اردو میں ترقی پسند افسانے سب سے پہلے پریم چند کے ہاں ملتی ہے۔پریم چند کا ہی کمال ہ

ے کہ انھوں نے اپنے افسانوں پہلی بار انسانی زندگی اور انسانی سماج کو پیش کیا ہے۔اور انھوں نے اپنے افسانوں میں مافوق فطری کردار سے گریز کرتے ہوئے حقیقی گوشت پوست کے انسان کو پیش کیا ہے۔انھوں نے ان کرداروں کو پیش کیا ہے جن کا سروکار ہماری زندگی اور ہمارے سماج سے ہوتا ہے۔انھوں نے اپنے افسانوں انسا ن کی عظمت کو پیش کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ انسان کی عظمت کا ادیبوں کو خاص خیال رکھنا ہے۔ہمارے سماج کی تشکیل میں ادنیٰ اور اعلیٰ دونوں انسانوں کا اہم کردار ہے اور اس لئے ہمیں چاہئے کہ جہاں ہم اعلیٰ کرداروں کو پیش کررہے ہیں وہاں اپنے سماج کے ادنیٰ کردار کو بھی مثبت انداز میں پیش کریں۔سماج اور زندگی کی حقیقت کو خوب صورت انداز میں پیش کری ں۔اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ  پریم چند نے اپنی تخلیق میں کسی نظریہ کو حاوی ہونے نہیں دیا ہے ہاں یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ انھوں نے اپنے فکشن میں مقصد کو ضرور پیش نظر رکھا ہے۔ان کا افسانہ ’’کفن‘‘ اس کا بین ثبوت ہے۔ پریم چند کو اردو کا باضابطہ پہلا ا ترقی پسندفسانہ نگار تسلیم کرنا سو فیصد درست ہے۔کیوں کہ ان سے قبل اردو افسانہ کی دنیا میں رومان کا جادو غالب تھا۔انسانی زندگی اور انسانی سماج سے ان افسانوں کا کوئی سروکار نہیں تھا۔

         انگارے میں سجاد ظہیر ،احمد علی ،رشید جہاں اور محمود الظفر کے افسانے تھے۔پانچ سجاد ظہیر نے،دو احمد علی نے ،دو رشید جہاں نے اور ایک محمود الظفر نے لکھے تھے۔سجاد ظہیر کے افسانیکے افسانے ’’دلاری‘‘ اور ’’نیند نہیں آتی ‘‘ میں تعمیری اور باغیانہ خیالات کا اظہار ہے ۔احمد علی کے افسانے ’’بادل نہیں آتے‘‘ اور ’’مہاوٹوں کی ایک رات ‘‘،رشید جہاں کی کہانی ’’دلّی کی سیر ‘‘ عورت کی سماجی آزادی کو پیش کرتی ہے۔محمودالظفر نے مرد کے جھوٹے پندار پر طنز کیا ہے۔سجاد ظہیر کی ایک اور کہانی ’’پھر یہ ہنگامہ ‘‘ میں سرریلسٹ ٹکنیک اور شعور کے رو کا بھی احساس ہوتا ہے۔ان کی کہانیوں مین بوسیدہ مذہبیت ،سماجی رسوم،مختلف کرداروں کی نفسیات اور حقیقت نگاری کے جس رخ کو پیش کیا گیا ہے۔بعد کے افسانہ نگاروں نے ان سے خوب فائدہ اٹھایا ۔

         احمد علی کا شماروں ترقی پسند کے نمائندہ افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔احمد علی نے ہماری گلی ،میرا کمرہ ،اور مارچ کی ایک رات جیسی کہانیاں جیسے صناعانہ افسانے لکھے ۔قید خانہ اور موت سے پہلے میں علامتوں کا استعمال ملتا ہے۔احمد علی چار مجموعے شعلے ،ہماری گلی ،قید خانہ اور موت سے پہلے ہیں ’’انگارے‘‘نے احمد علی کو قبول عام بنایا ۔بعدازاں ان کا دہکتا ہوا ذہن شعلے میں تبدیل ہوگیا۔یہی وجہ ہے انھوں نے پہلے افسانوی مجموعے کا نام’’ شعلے‘‘ رکھا ۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں مٹتی ہوئی تہذیب پر جرأت و بے باکی سے طنز کیا ہے۔اور روایتی قلعے کو پاش پاش کرنے کی کوشش کی۔

         ’’انگارے‘‘ نے ہی ڈاکٹر رشید جہاں کو بھی ایک افسانہ نگار کے طور پر پیش کیا ہے۔ افسانہ ان کی زندگی کا مقصد نظر نہیں آتا ہے۔ عبادت بریلوی ’’ نے ان  کی افسانہ نگاری کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کی ہر بات صنفِ لطیف کا مرثیہ معلوم ہوتی ہے۔رشید جہاں کی اہم کہانیوں میں نئی بہو کے نئے عیب،غریبوں کے بھگوان ،پن اور نئی مصیبتیں وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ ’عورت اور دیگر افسانے ‘ ان کے افسانوی مجموعہ ہے ۔

         اختر حسین رائے پوری کے افسانوں میں آسکر وائلڈ اور موپاساں کا اثر نمایاں نظر آتا ہے۔ان کے افسانوں میں ’’محبت اور نفرت‘‘کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔دراصل ان کے افسانوں میں زندگی کی پیکار اورآویزش واضح نظر آتی ہے علاوہ ازیں ان کے افسانوں میں سیاسی بیداری کا عکس مترشح ہوتے ہیں۔ان کے افسانہ ’’دیوان خانہ‘‘ میں سماجی شعور اور ’’جسم کی پکار‘‘ میں جنسی احساس روشن نظر آتا ہے اور یہ قاری کی داخلی سوچ کو کروٹ دیتے ہیں ۔’’

         کرشن چندر کا نام ترقی پسند افسانہ نگاروں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ان کے افسانوں میں رومانویت ،شعریت ،حقیقت ،انسانیت اور اشتراکیت کا امتزاج ملتا ہے ۔انھوں نے اپنے افسانوں میں سماج کی تلخ حقیقتوں کو نہایت خوب صورتی سے پیش کیا ہے۔ان کے ہاںشدت احساس اور ادراک حقیقت محسوس کیا جاسکتا ہے۔ سماجی حقیقت نگاری ان کے تمام افسانوں کی جان ہے۔کرشن چند کے ہاں مغربی افسانوں کی ٹکنیک کا عمدہ استعمال ملتا ہے۔یہ استعمال ذہن خلاق کا کمال ہے۔ ٹوٹے ہوئے تارے ،حسن اور حیوان ،پورب دیس میں ہے دلّی،شعلۂ بے درد میں اس کا استعمال ملتا ہے۔کرشن چند ر مختصر اور طویل دونوں طرح افسانے لکھے ہیں۔ان کے طویل مختصر افسانے زندگی کے موڑ پر،گرجن کی ایک شام اور بالکونی شامل ہیں۔ان کے افسانوں میں طنز کی کاٹ بہت تیز ہوتی ہے ان داتا،بھگت رام ،موبی ،کالو بھنگی اور برہم پترا وغیرہ کا شمار ایسے ہی افسانوں میں ہوتا ہے۔ان کی رنگین اور دل کش تحریر قاری کو اپنی طرف بہ آسانی مائل کرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کا افسانہ ہر طرح کے قاری کے لئے باعث مطالعہ ہے۔

         راجندر سنگھ بیدی کا شمار اہم ترقی پسند افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ راجندر سنگھ بیدی نے انسانی دکھوں،پریشانیوں اور محرومیوں کو اپنے افسانے کا موضوع بنایا ہے ۔ان کے ہاں مقصدیت کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ گرم کوٹ،گرہن،دوسرا کنارہ ،لاجونتی ،ببّل اورمتھن میںان کی واضح مقصدیت موجود ہے۔ یہ بات بھی نشان خاطر رہے کہ راجندر سنگھ کے ہاں تجربے کو بھی بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ان کے افسانوں میں صداقت کی گہرائی اور معنویت جابجا نظر آتی ہے۔ یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ راجند سنگھ بیدی کے افسانوں میں ہندوستان کی اساطیری روایت کا گہرا احساس ملتا ہے۔راجند سنگھ بیدی جہاں اپنے افسانوں میں انسانی تقاضوں ملحوظ خاطر رکھتے ہیں وہیں فنی امتیاز کا بھی خاص خیال رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں ترقی پسندی کے واضح مقاصد کی تبلیغ نہیں ملتی ہے۔

         خواجہ احمد عباس ایک ایسا افسانہ نگار ہے جو زندگی کی تعبیر صرف ترقی پسند نظریات کی روشنی میں کرتا ہے۔اس کے افسانوں میں سماجی مسائل اور سیاسی کش مکشوں کو اہمیت حاصل ہے۔چنانچہ وہ ہر تازہ واقعے پر افسانہ لکھنے کی اہلیت رکھتا ہے اور اس کے مشاہدے اور تخلیق میں ذرا ساوقفہ بھی نظر نہیں آتا ۔خواجہ احمد عباس ترقی پسند تحریک کا ایسا رپورٹر ہے جس پر افسانہ نگار کا گمان کیا جاتا ہے۔اس کے کردار حقیقی ہونے کے باوجود غیر فطری نظر آتے ہیں۔اور اکثر اوقات تو یہ احساس ہوتا ہے کہ خواجہ احمد عباس افسانے کے واقعات کو بھی نظریاتی فوقیت ثابت کرنے کے لئے ہی استعمال کر رہا ہے۔ایک لڑکی،سردار جی،انتقام ،شکر اللہ کا،چڑھائو اتار وغیرہ افسانے تیزی سے معینہ سمت کی طرف بڑھتے ہیں اور ردّ عمل پیدا کئے بغیر ایک مخصوص منزلِ مراد پر ختم ہو جاتے ہیں۔

         عصمت چغتائی کا شمار اہم افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔انھوں نے اپنے بالخصوص یوپی کے متوسط مسلم کے مسائل کو موضوع بنایا ہے۔ان کے بے باکی اور بولڈ نیس ملتی ہے۔انھوں نے اپنے افسانوں میں جنسی مسائل کو بھی بڑی بے باکی سے پیش کی ۔عصمت سے قبل جنسی مسائل مسائل اردو افسانے میں کم کم دیکھنے کو ملتی ہے۔عصمت چغتائی کی لحاف اس کی بہترین مثال ہے۔بقول عزیز احمد ان کا رجحان منٹو سے بھی زیادہ رجعت پسندانہ اور مریضانہ ہے۔عصمت کی جبلت اس کے اپنے بس میں نظر نہیں آتی۔جنس نگاری کی آڑ میں انھوں نے معاشرتی اقدار کو توڑنے کی کوشش کی۔عصمت بنیادی طور پر حقیقت نگار ہیں لیکن ان کے ہاں ٹھہرائو اور توازن کا فقدان ہے۔عورت ہونے کے ناطے انھیں جنس ِ لطیف کی جذباتی کیفیت بیان کرنے ،نسبتاً گرم جملے لکھنے اور مرد کے جنسی میلانات کو متحرک کرنے کا سلیقہ آتا ہے ۔

         اوپندر ناتھ اشک نے افسانوں میں زندگی کا ارضی پہلو زیادہ نمایاں ہے۔انھوں نے نچلے متوسط طبقے کی معاشی ،سماجی اور جنسی محرومیوں کو اپنے افسانوں میں پیش کیا ہے۔ ناسور،ابال ،کونپل اور چٹان کو اس ضمن میں شمار کیا جاسکتا ہے ۔انھوں نے اپنے افسانوں صحت مند تبدیلیوں کو پیش نظر زیادہ رکھا ہے۔ قفس ،ڈاچی ،اور چیتن کی ماں اس کی بہترین مثالیں ہیں۔پروفیسر قدوس جاوید لکھتے ہیں:

’’اوپندر ناتھ اشک کی اولین پہچان بھی دیہاتی افسانوں سے ہی مرتب ہوئی ہے۔اس کا افسانہ’ڈاچی‘ دیہاتی ماحول اور کردار کا ہی عمدہ افسانہ نہیں ہے بلکہ اس سے دیہات کی معصومیت بھی بڑی خوبی سے اجاگر ہوتی ہے۔اس افسانے میں بڑی بے ساختگی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پکے ہوئے ثمر کی طرح یہ افسانہ تخلیق کی شاخ سے خود بخود ٹپک پڑا ہے۔تاہم اوپندر ناتھ اشک کے دوسرے افسانے پڑھیں تو یہ احساس بھی جڑ پکرنے لگتا ہے کہ ان سے فطرت کی یہ عطا کردہ خوبی بہت جلد چھین گئی۔چنانچہ اشکؔاپنے افسانوں میں ہر قدم اپنے ہونے کا احساس دلاتا ہے۔قاری کو مرعوب کرتا ہے اور اس کاوش میں اس کے ہاں مصنوعی میکانیکی عمل زیادہ کارفرما نظر آتا ہے۔‘‘(متن ،معنی اور تھیوری از قدوس جاوید)

         اختر انصاری دہلوی نے بورژوا سماج کے استبداد اور ظلم کی پرولتاری جماعت کی مظلومیت سے ابھارنے کی کوشش کی۔ان پر بھی نظریاتی مقصدیت غالب ہے اور پلاٹ اور کردار میں فنی امتزاج پیدا نہیں ہوتا۔اختر انصاری کے اس قسم کے افسانوں میں دریا کی سیر،ستارہ اور ڈپٹی صاحب وغیرہ کا تذکرہ کیا جاسکتا ہے۔

         حیات اللہ انصاری کے افسانوں کا بنیادی موضوع ہندوستان کی سماجی پستی اور معاشی بدحالی ہے۔ان کے واقعات حقیقی اور کردار فطری نظر آتے ہیں اور ان دونوں کا امتزاج رنگ کو واقعیت کا رنگ دے دیتا ہے۔آخری کوشش اور شکرگزار آنکھیں وغیرہ افسانے انسانی دکھوں اور پریشانیوں کا حقیقی انعکاس ہے۔ ۔اہم بات یہ ہے کہ حیات اللہ انصاری کا ہموار بیانیہ انسانی بصیرت کو پیش کرتا ہے۔اجالنے کی سعی کرتا ہے اور ان کے افسانوں میں توازن اور اعتدال کابہترین استعمال ملتا ہے۔

         احمد ندیم قاسمی ترقی شاعر اور افسانہ ہیں۔ان کے افسانوں میں سماجی حقیقت نگاری کاعنصر غالب نظر آتا ہے۔ اثر کم اور رومانیت کا اثر

زیادہ ہے۔ان کے شروع کے افسانوںمیں بیکار نوجوانوں کے رومانی خوابوں کا انعکاس ملتا ہے۔ ،احمد ندیم قاسمی کے افسانوں بیکار نوجوانوں کی جدوجہد کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ان کے افسانوں میں دیہی زندگی اور دیہی کی پیش کش خوب صورت طور پر نظر آتا ہے۔علاوہ ازیں ان کے افسانوں میں امیری اور غریبی کی آویزش بھی صاف نظر آتی ہے۔ احمد قاسمی ندیم کے افسانوں میں مقاومت کمترین کا جذبہ اور نامساعد حالات میں مفاہمت کا انداز نمایاں ہے۔اسی قسم کے افسانوں میں طلوع و غروب،الحمد اللہ ،مولوی اُبل ،کنجری اور رئیس خانہ وغیرہ کو اہمیت حاصل ہے۔

          شوکت صدیقی کو بھی ترقی پسند افسانہ نگاروں میں خاص اہمیت حاصل ہے ۔شوکت صدیقی کے افسانوں مثبت رویوں کو پیش کرنے

کا رجحان زیادہ غالب نظر آتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے کردار کی زندگی میں خیر کا پہلو زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔ان کے اہم افسانوں میں خلیفہ جی،وانچو اور نیل کنٹھ مہاراج وغیرہ ہیں۔شوکت صدیقی اپنے بے رنگ بیانیہ میں گہرے اثرات کو پیش کرنے ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں طبقاتی نفرت کو ابھارنے کی کوشش بھی ملتی ہے لیکن یہ کوشش ادنیٰ طبقے کو بیدار کرنے کے لئے ہوتی ہے اور اعلیٰ طبقہ کو تہہ وبالا کرنے کے لئے۔مجموعی طور پر کہا جائے تو یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ شوکت صدیقی کو اپنے آرٹ میں کمال حاصل ہے۔ان کا افسانہ فنی اعتبار سے نہایت عمدہ ہے۔

                  انور عظیم کاشمار اہم ترقی پسند افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے افسانوں دیہی زندگی اور دیہی سماج کا انعکاس واضح طور پر نظر آتا ہے۔اس کی بہترین مثال ’دھان کٹنے کے بعد‘‘ ہے۔اس افسانیمیں بہار کے گائوں میں رہنے والے نچلے اور غریب کسان طبقے کی زندگی کو پیش کیا گیا ہے۔یہ دیہات اس وقت کا ہے جب زمین دار اور ساہوکاروں کا غلبہ تھا۔ کی۔جس دور میں جاگیر دار بھولے بھالے کسانوں پر ظلم وستم کیا کرتے تھے اور ان کی محنت کا جائز محنتانہ نہیں دیتے تھے۔ انور عظیم اس افسانے میں کسانوں کی حقیقی زندگی  اور ان کی بے بسی اور بے چارگی کو خوب سورتی سے پیش کیا ہے۔ب منگرا اس کی بہترین مثال ہے ۔فسانہ نگار نے دیہاتی زندگی کے پس منظر میں ایک طرف تو کسان کی زندگی ،اس کے شب وروز، کھیت، بیل، ہل، گائے، بھینس، بادلوں کا انتظار ،مٹی کے برتنوں کا بنانے کا منظر،اس کی بیوی سکری کی بہت سی آرزئوں کی خواہش میں گزرتی ہوئی زندگی اور گائوں کا پورا نقشہ کھینچا ہے جس سے قاری کو دیہاتی زندگی کا پوری طرح علم ہو جاتا ہے۔ساتھ ہی سماج میں ہونے والی اس طبقاتی کش مکش اور تضاد کا ذکر بھی ساہوکاروں اور زمین داروں کے ظلم سے ظاہر کیا ہے جو اس دور کے دیہاتوں میں عام طور پر پایا جاتا تھا۔انور عظیم نے اس کہانی کے ذریعے دیہات کی ایک سچی تصویر پیش کی ہے جس میں کسی قسم کی تبدیلی کا احساس نہیں ہوتا ہے۔

          علی عباس حسینی ترقی پسندافسانہ میں اپنی الگ شناخت رکھتا ہے۔ان کے افسانوں میںحقیقت پسندی اور ترقی پسندی کی آمیزش ملتا ہے۔ رفیقِ تنہائی،باسی پھول،میلہ گھومنی،آئی سی ایس،ایک حمام میں،ہمارا گائوں،کچھ ہنسی نہیں ہے،سیلاب کی رات وغیرہ ان کے افسانوی مجموعے ہیں۔علی عباس حسینی نے مزدوروں،کسانوں اور عام انسانوں کی زندگی کی سچی تصویر کشی کی ہے۔خاص کر زمین داروں اور مزدور طبقے کے مابین معاشی رسہ کشی کو انھوں نے خوب صورت انداز میں قلم بند کیا ہے۔دیہات کی زندگی کی عکاسی ان کے افسانے،مقابلہ،پاگل،انتقام،کنجی ،ہارجیت میں اپنے عروج پر ملتی ہے۔علی عباس حسینی کا مشہور اور نمائندہ افسانہ میلہ گھومنی ہے۔جو گائوں دیہات کے پس منظر پر لکھا گیا ایک خوب صورت افسانہ ہے۔علی عباس حسینی نے اپنے افسانوں میں عام ہندوستانیوں خاص کر کسانوں کی غربت و افلاس اور معاشی پس ماندگی ،کسانوں کی مظلومیت اور زمین داروں کی چیرہ دستیوں کا نقشہ کھینچا ہے۔یوپی کی دیہاتی زندگی کا نقشہ کھینچنے میں انھیں ید طولیٰ حاصل ہے۔ان کے افسانوں میں ترقی پسند خیالات اور دیہاتی زندگی کے مسائل کا خوب صورت عکس نظر آتا ہے۔

         دیویندر ستیارتھی نے دیہات کو بنجارے کی نظر سے دیکھا ہے۔اس کا اساسی مقصد تونگری نگری پھر کر لوک گیت جمع کرنا ہے تاہم ان گیتوں میں دیہات کی روح بھی موجود ہے۔ان گیتوں میں محنت کش کسانوں اور مشقت اٹھانے والی عورتوں کی مسرتیں ،خواب اور آرزئیں کلکاریاں مارتی پھرتی ہیں اور دیویندر ستیارھی ایک معصوم بچے کی طرح اپنے دامن میں سمیٹ رہا ہے۔چنانچہ جب وہ کسی دیہاتی دوشیزہ’’ٹٹ گئے تریل دے موتی پیلاں پسندی نوں‘‘ یا کسی گھبرو کو’’رت یاریاں لان دی آئی بیریاں دے بیر پک گئے‘‘۔یا کسی بوڑھے کو ندی کنارے’اکھڑا اکھڑا سی امن دامان،ڈگداہو یا بولیا جی دے ناں جہاں‘‘ گاتے ہوئے سنتا ہے تو اس کے سامنے گائوں کی زندگی اپنے تمام نشیب و فراز آشکار کر دیتی ہے۔دیویندر ستیارتھی کے ہاں کہانی کو اس کے لوک گتوں سے دریافت کیا ہے۔اس لئے اس میں صداقت بھی ہے اور گہرائی بھی ہے ۔دیویندر ستیارتھی کے ہاں کہانی اور افسانے کا تاروپود کچھ زیادہ مضبوط نہیں لیکن افسانہ بیان کرنا تو اس کا مقصد ہی نہیں۔وہ تو اس لہو کو تلاش کرتا ہے جو درختوں کی رگوں میں ،انسان کی شریانوا¡ میں اور اس کے جمع کئے ہوئے لوک گیتوں میں یکساں تیز رفتاری سے دوڑ رہا ہے اور اگر یہ سب باہم مل کر ایک افسانے کو جنم دے دیں تو یہ ان کی ایک اضافی خوبی ہے۔دیویندر ستیارتھی کا یہ انداز اس کا اپنا ہے اور ابھی تک اسی انداز میں اس کا کوئی ثانی پیدا نہیں ہوا۔اس کا افسانہ’’دھرتی کے بیٹے‘‘ اس خاص رنگ کی ایک نمائندہ مثال ہے۔

         پنڈت سدرشن ایک اہم اور نمائندہ ترقی پسند افسانہ نگار ہیں۔ان کے پریم چند کا واضح اثر ملتا ہے۔انھوں نے اپنے افسانوں میںدیہی سماج اور دیہی زندگی کو اپنا خاص موضوع بنایا۔چونکہ ان کا دیہاتی ماحول حسینی اور اعظم کریوی کے ماحول سے بالکل مختلف ہے اور اس کا مقصد سیاسی یا رومانی ماحول کی ترجمانی کے بجائے معاشرتی زندگی کی مصوری ہے،اس لیے ان کے افسانے دیہات کے افسانے ہونے کے باوجود دوسروں کے افسانوں سے الگ ہیں۔

         سہیل عظیم آبادی کے افسانوں میں بہار کی دیہی زندگی عام اور سادہ انداز میں جلوہ گر نظر آتی ہے۔ان کے  ہاں پریم چند کا واضح اثر نمایاں ہے۔اس بات کا اعتراف انھوں نے خود بھی کیا ہے۔سہیل عظیم آبادی نے صوبہ بہار کے دیہات کے پس منظر میں ایک ایسا الائو گرم کیا ہے جو ہر وقت سلگتا رہتا ہے اور اپنی انچ ایک نسل سے دوسری نسل کے سپرد کر دیتا ہے۔سہیل عظیم آبادی کا افسانہ’’الائو‘‘دیہات کی سیاسی بیداری کا منظر پیش کرتا ہے اور اس میں دیہات استحصالی طاقتوں کے نرغے میں آکر الائو کا ایندھن بن جاتا ہے۔ ’’الائو‘‘ میں پورا گائوں ایک کردار کی صورت میں ابھرا ہے اور اسے اجتماعی افسانہ قرار دینا مناسب ہے۔ایک الائو گائوں میں سلگ رہا ہے ۔دوسرا دیہاتی کے دل میں ۔سہیل عظیم آبادی کی خوبی یہ ہے کہ اس نے اضطراب کی اس سیمابی فضا کو الائو کی گرمی سے مزید مضطرب کر دیا ہے۔

         اختر اورینوی کا شماراہم ترقی پسند افسانہ نگاروں میںہوتا ہے۔ اختر اورینوی کے افسانوں میں صوبۂ بہار کی دیہی زندگی کی حقیقی اور کامیاب انعکاس ملتا ہے۔انھوں نے صوبہ بہار کی دیہاتی زندگی کو اس کے اصلی خدوخال کے ساتھ بڑے فن کارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔بہار کے گرم و سرد اور طوفانی موسم،قحط،زلزلے اور سیلاب جن کے زد میں آکر آدمی اپنے آپ کو قدرت کے سامنے بے دست وپا ،بے بس اور حقیر جانتا ہے۔اس بے بضاعتی کے عالم میں اس کے جذبات و احساسات کی دنیا جن مراحل سے گزرتی ہے ان پر اختر اورینوی کی گہری نظر ہے۔بہار کے کسان کی زندگی بھی اتر پردیش کے کسانوں کی زندگی سے زیادہ مختلف نہیں۔کیوں کہ وہ بھی اسی فضا میں ہنستے،روتے،جیتے،مرتے نظر آتے ہیں جس میں زمین دار ،مہاجن اور سپاہی ہر دم ان کا خون چوستے رہتے ہیں۔ان انسانی بلائوں کے علاوہ آسمانی بلائیں بھی ہیں،دونوں پر ان کا کوئی اختیار نہیں،دونوں ہی سے بچنے کا کوئی چارہ نہیں پھر ان کے اپنے عادات و اطوارہیں ،دکھ، درد، ہنسی،آنسو، محبتیں،نفرتیں،جھگڑے،لٹھ بازیاں اور مقدمے ہیں اور پھر ان سب سے بڑھ کر بھوک ہے،مفلسی ہے۔پیٹ کا دوزخ بھرنے اور تن کو ڈھانپنے کے بنیادی مسائل ہیں جو اختر اورینوی کے افسانوں میں اپنے حقیقی روپ میں نظر آتے ہیں۔

         اعظم کریوی کے افسانوں کا موضوع بھی دیہات ہیں۔لیکن ان کے دیہات علی عباس حسینی کے دیہاتوں سے مختلف ہیں۔وہ ہندوستان کے ایک ایسے علاقے کے رہنے والے ہیں جہاں سیاست کا قدم دوسرے گائوں سے پہلے پہنچا اور اس لیے وہاں کے باشندوں کی معاشرتی اور اقتصادی زندگی پر اس کا سایہ کسی اور جگہ سے پہلے منڈلایا۔یہی وجہ ہے کہ اعظم کریوی کے افسانوں کا پس منظر بہت سی جگہ سیاسی ہے۔اسی پس منظر میں ہمیں دیہاتوں کے کردار ابھرتے اور آگے بڑھتے نظر آتے ہیں۔سیاست کے علاوہ دیہات کی دوسری چیز جس پر اعظم کریوی کی نظر گئی ہے دیہات کی رومان انگیز فضا اور وہاں کے باشندوں کی رومان پرست فطرت ہے اور اس طرح سیاست،حسن فطرت اور رومان نے مل جل کر ان کے افسانوں کو جو شکل دی ہے وہ انھیں کے لیے مخصوص ہے۔اعظم کریوی کا دیہات مجبوری اور لاچاری کا مجسمہ ہے۔اعظم کریوی کے ہاں محبت بھی ہے۔وہ ملائمیت بھی اور دیہات کی معصومیت کو مچالی انداز میں پیش کرتے ہیں اور اس کی غربت اور بے چارگی پر بے پناہ آنسو بہاتے ہیں۔

         بلونت سنگھ ایک منفرد افسانہ نگار ہیں۔ان کے افسانوں میں سکھوں کی معاشرت کی عکاسی ملتی ہے۔ان کے نمائندہ افسانوں میں جگّا ،سزا ،دیمک ،گرنتھی ،بیمار ،خلا،کرنیل سنگھ وغیرہ اہمیت کے حامل ہیں۔بلونت سنگھ کے افسانے ’کرنیل سنگھ ‘ میں پنجاب کی دیہاتی زندگی میں سکھ جاٹ کی مخصوص طرز حیات کو روشن کیا گیا ہے ۔بلونت سنگھ کے یہاں زندگی اور اس کے مسائل کو سمجھنے سمجھانے،ان پر غوروخوض کرنے،ان کے ساتھ جوجھنے اور انھیں اپنے فن میں پیش کرنے کا رجحان ان کے ابتدائی افسانوں سے ہی دیکھا جا سکتا ہے گو کہ وہ اپنے چند ہم عصروں کی طرح بسیار نویسی کا شکار نہیں ہوئے۔ان کی افسانہ نگاری کی مدت بھی بہت زیادہ نہیں تاہم انھوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ بہت سوچ سمجھ کر لکھا ہے۔ان کے ابتدائی افسانوں میں بھی جو ضبط،توازن اور اعتماد پایا جاتا ہے ۔بلونت سنگھ کے افسانوں کی ایک خوبی ان کا تنوع بھی ہے۔انھوں نے زندگی کو مختلف رنگوں اور شکلوں میں دیکھا ہے۔پنجاب کے دیہاتوں سے انھیں خاص نسبت رہی ہے۔بدحال کسانوں اور جابر زمین داروں کو انھوں نے بہت قریب سے دیکھا ہے۔زراعت کے صدیوں پرانے طریقے،جاگیردارانہ معیشت،جہالت،مفلسی اور ان سب کے پیدا کردہ وہ حالات جن کا دبائو آدمی کو جرائم کے راستے پر لگا دیتا ہے۔بلونت سنگھ کہانی کہنے کے فن سے بخوبی واقف ہیں۔ان کی کہانیوں کی

واضح شناخت ان کا کہانی پن ہے۔ماحول کی پیش کش اور جذبات نگاری میں وہ اپناجواب نہیں رکھتے ہیں۔

         مجموعی طور پر کہا جائے تو ترقی پسند اردو افسانے نے اردو افسانہ نگاری کی پیش رفت اہم کردار ادا کیا ہے۔یہ ترقی پسند تحریک کی ہی دین ہے کہ اردو افسانہ خیالی اور مافوق فطری دنیا سے نکل حقیقی سانس لے رہا ہے۔اب اردو افسانہ کے کردار مافوق فطری نہیں ہوتے ہیں بلکہ ہمارے معاشرے کے جیتے جاگتے کردار ہوتے ہیں۔اور یہ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ کردار ہمارے معاشرے کا عکاس ہوتے ہیں۔

***

Leave a Reply