You are currently viewing ترقی پسند افسانہ نگاروں کے افسانوں میں مشترکہ تہذیب کے عناصر

ترقی پسند افسانہ نگاروں کے افسانوں میں مشترکہ تہذیب کے عناصر

عارف این

ایچ۔ایس۔ٹی،

جی۔ایچ۔ایس۔ایس پُتو پرمب،ملاپرم،کیرلا

 

ترقی پسند افسانہ نگاروں کے افسانوں میں مشترکہ تہذیب کے عناصر

ترقی  پسندافسانہ نگاروں نےپریم  چندؔ اور ان  سےمتاثر افسانہ نگاروں کی قائم کردہ طرز کو اپنایا  “ادب برائےزندگی” کےنظریہ کو اپنا سمجھ کر سماجی حقیقت نگاری کو اپنا شعار بنایا۔ انھوں نےسماجی زندگی کے ہر پہلو کو اپنا موضوع بنایا۔انھوں نے سماجی ناہمواریوں پر سخت تنقید کی اور سماج کے اعلیٰ طبقہ کے ہاتھوں پسماندہ طبقوں پر ظلم و  ستم،جبر اور ان کے استحصال پر صدائے احتجاج بلند کی اور ایک صالح معاشرہ کے قیام  پر زور دیا۔

ترقی پسند افسانہ نگاروں کی سماجی حقیقت نگاری کے وصف نےان کے افسانوں  کو ہم عصر سماجی اور تہذیبی زندگی کا حقیقی ترجمان بنادیا۔ترقی پسند افسانہ نگاروں نے اپنے  افسانوں میں ہندوستان کی سماجی ا و رتہذیبی  زندگی کے ہر پہلو کو پیش کیا۔اور اس پیش کش میں عوامی زندگی اور ان کے مسائل و مصائب کے ساتھ معاشرتی زندگی اور اس کے آداب ،مذہبی عقائد،رسوم و رواج،توہم پرستی،تہذیبی اور ثقافتی اقدار و روایات،مذہبی ،سماجی اور تہذیبی ادارے،حب الوطنی  اور قوم پرستی کے جزبات اور میلےٹھیلے،تہوار،تفریحی مشاغل اور فنون لطیفہ وغیرہ کو مناسب  طریقے سے  ان کی تخلیقات میں جگہ ملی۔غرض کہ ترقی پسند افسانہ نگاروں کی تخلیقات میں مشترکہ ہندوستانی تہذیب کے  تقریبًا ہر پہلو کی جھلکیاں موجود ہیں۔ وقار عظیم ترقی پسند افسانہ نگاروں کے افسانوں میں  ہم عصر  سماجی زندگی اور تہذیبی و ثقافتی عناصر کا تجزیہ  کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

“ترقی پسندی کا سب سے پہلا بے حد صاف اور  صریح مفہوم یہ ہے کہ وہ زندگی کا مصور اور نقاد ہو۔ہمارے نئے افسانہ نے اس مفہوم کو بڑی اچھی طرح سمجھا ہے اور ہمارے اچھے افسانہ نگار  اب  ہندوستان کی زندگی کے  مختلف پہلوؤں کے صحیح مصور اور ترجمان بن کر ادبی دنیا میں آئے ہیں۔”[1]

       ہندوستانی معاشرہ اس اعتبار سے دنیا کا ممتاز معاشرہ ہے کہ ہندوستان کی سماجی  زندگی میں بے شمار رسوم و رواج جاری و ساری ہیں جن کی پابندی  اور پاسداری لازمی تصور کی جاتی ہے۔یہ رسوم و رواج ہندوستان کی تمام  قوموں میں رائج ہیں اور یہ تقریباً سب کے سب  ہندوستانی ہیں جنھیں یہاں رہنے والی تمام قوموں نے  اپنا لیا اور مقدس فریضہ کی طرح انھیں  اداکرتی ہیں۔ہندوستان  کی موجودہ رسوم و رواج  کی داستان اس ملک کی ہزاروں برس کی  مشترکہ تہذیبی تاریخ کی داستان ہے۔ہندوستان آنے والے مسلمانوں نے جہاں ایک طرف  اس ملک کی تہذیب و معاشرت کو متاثر کیا وہیں  دوسری جانب ان کی فکر ،معاشرت،رسوم و رواج اور زندگی کے مختلف شعبے ہندوستان کی تہذیب و ثقافت سے  متاثر بھی ہوئے۔جس کے نتیجےمیں ایک ایسی تہذیب وجود میں آئی جسے ‘ہندو مسلم مشترکہ تہذیب’ یا’مشترکہ ہندوستانی تہذیب’یا’ہند ایرانی تہذیب’کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ  مشترکہ  تہذیب کے عناصر عکاسی  ترقی پسند افسانوں میں موجود ہیں۔وہ اس مقالے میں تعارفی تجزیہ کریں گے۔

       ہندوستانی سماج میں دولت مند اور غریب  دونوں ہی طبقوں میں بچہ کی ولادت  بڑی خوشی کا موقع ہوتا ہے۔اس موقع پر عزیز و اقارب جمع ہوتے ہیں ،دستور کے مطابق رسمیں انجام  دی جاتی ہیں اور خوشیاں منائی جاتی ہیں۔بچے کی ولادت کے موقع پر ادا ہونے والی رسموں کی  ایک خوب صورت جھلک  قرۃ العین حیدرؔ کے افسانہ ‘ہاؤسنگ سوسائٹی’ میں دیکھا سکتا ہے۔ بچہ کی ولادت کی بعد کہ  ایک اہم رسم بچہ کا  نام رکھنے کی ہے۔نو مولود کا نام اکثر خاندان کے بڑے  بزرگ رکھتے ہیں ۔بعض اوقات کسی خاص دن یا مہینےمیں بچےکی ولادت ہونے کی وجہ سے ان کے نام اسی مناسبت سے رکھے جاتے ہیں:

“عیدن بائی آگرے والی چھوٹی عید کو پیدا ہوئی تھی۔یہی وجہ ہے کہ اس کی ماں زہرہ جان نے اس کا نام اسی مناسبت سے عیدن رکھا۔”[2]

         ہندوستانی مشترکہ تہذیبی معاشرہ میں بچہ کی سلگرہ کی رسم بھی بڑی دھوم سے منائی جاتی ہے۔یہ رسم آج بھی ہندوستان میں رائج ہے ۔اس  موقع پر لوگ مبارک باد اور تحفے پیش کرتے ہیں۔مثال ملاحظہ کیجے۔

“میں نے نیو مارکیٹ سے اپنی سب سے چھوٹی بہن کے لئے چند کھلونے خریدے۔ان میں ایک چینی کی گڑیا بہت ہی حسین تھی۔”[3]

         ہندوستانی سماج میں انسان کی ولادت سے لیکر اس کی موت اور موت کے بعد  تک بے شمار رسمیں انجام دی جاتی ہیں۔ایسی رسموں میں شادی بیاہ سے متعلق رسموں کو بے حداہمیت حاصل ہے۔ہر انسان  اپنے مذہبی اور سماجی قوانیں کی پاسداری کرتے ہوئے  رشتہ ازدواج میں منسلک ہو جائے۔ ہندوستان میں یہ دستور رائج ہے کہ چھوٹی عمر میں بچوں کی   شادی کر دی جاتی ہے اور اسے باعث ثواب و نجات  تصور کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ  ایک اور  رسم بھی رائج ہے جس کے تحت ولادت کے فوراً بعد رشتے طے ہوجاتے ہیں۔ترقی پسند افسانہ نگاروں نے شادی بیاہ سے متعلق رسموں کا ذکر اپنے افسانوں میں کثرت سے کیا ہے۔ہندوستانی سماج میں عہد قدیم سے یہ طریقہ رائج ہےکہ بیٹے  یا بیٹی کی شادی کے لئے رشتہ تلاش کرنے میں فریق ثانی کے حسب نسب اور ذات کی خوبی جانچ پڑ تال کی جاتی ہے۔شادی کے رشتہ ہمیشہ اپنی ذات سے  اعلیٰ ذات میں یا اپنے برابر کی ذات میں طے کئے جاتے ہیں۔بعض اوقات مناسب رشتے کی تلاش میں لڑکیوں  کو تیس چالیس سال کی عمر تک گھر میں بٹھائے رکھا جاتا ہے۔حسب نسب اور ذات پات کی جانچ پڑتال کے بعد رشتے کے لئے پغیام دیا جاتا ہے جسے ‘بات’کی رسم کہتے ہیں۔فریق ثانی کے سر پرستوں کی رضا مندی کے بعد  شادی بعد تک بے شمار رسمیں انجام دی جاتی ہیں۔جن میں منگنی،مائیوں بٹھانے کی رسم،ابٹنا کھیلنا،ساچق،شربت پلائی کی رسم ،مہندی،برات،سہرا،آرسی مصحف،جہیز اور چھوتی وغیرہ رسمیں شامل ہیں۔اردو کے ترقی پسند افسانہ نگاروں کی تخلیقات میں  ان تمام رسموں کا ذکر تفصیل   سے ملتا ہے۔جن کے ذریعے ہندوستانی مشترکہ تہذیبی سماج کی ایک اہم پہلو کی بھر پور عکاسی ہوئی ہے۔

       مشترکہ ہندوستانی سماج میں بیٹی کی شادیاس کے والدین کے ساتھ ساتھ پورے گاؤں اور محلّہ کے لئے  بھی عزت ووقار کا سوال ہوتی ہے۔کیوں کہ بیٹی چاہے کسی کی بھی ہوا سے پورے  گاؤں یا محلے بیٹی تصور کیا جا تا ہے۔اس  کی شادی کے موقع پر  ہر شخص بڑھ چڑھ حصہ لیتا ہے۔شادی کے موقع پر رسوم کی انجام دہی اور انتظامات میں گاؤں اور محلے کے بڑے بزرگوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔اور اس موقع پر ان کی موجودگی ضرور خیال کی جاتی ہے۔تمام مسائل چاہے وہ کتنے ہی سنگین کیوں نہ ہو ں آن واحد میں یہ لوگ انھیں چٹکیوں میں نمٹا دیتے ہیں ۔یہ لوگ گاؤں اور  محلے کی بیٹی کی شادی کے موقع کو پورے گاؤں اور محلے کی عزت  ووقار کا سوال مان کرتن من دھن سے شریک ہوتے ہیں اور اپنے  اوپر رات کی نیند اور دن کا چین حرام کر لیتے ہیں۔ایک مثال ملاحظہ کیجے:

“گاؤں کے وہ تمام معزز آدمی جن کے بغیر کوئی شادی کامیاب نہیں ہو سکتی۔جن کی صورتیں منحوس ہوتی ہیں،کپڑےغلیظ اور داڑھیاں الجھی ہوئی۔لیکن جن کا دل   سونے کا ہوتا ہے،اور ہاتھ لو  ہےکی طرح مضبوط ۔”[4]

       سماج میں شادی اور  دیگر مبارک موقعوں ادا ہونے رسموں کی طرح موت سے متعلق بھی بہت سی رسمیں رائج ہیں۔جنھیںمرحوم کی موت کے بعد  تک انجام دیا جاتا ہے۔موت رسومات کے پس پردہ مردے کے ورثا کی یہ غرض کار فرما ہوتی ہے کہ ان رسومات کی ادائیگیکے سبب مردے پر آخرت کا سفر آسان ہو جاتا ہے اور  اس کی نجات اور مغفرت ہو جاتی ہے۔موت سے متعلق رسومات کی مزہبی حیثیت چاہے کچھ بھی ہو لیکن ان کی ادائیگی مذہبی فرائض کی طرح ہی ہوتی ہے۔

       جب کوئی شخص مرض الموت میں مبتلا ہوتا ہےاور اس پر موت کےآثارنمایاں ہونے لگتے ہیں یا اس پر نزع کی کیفیت طاری ہوتی ہےاس وقت مسلمانوں میں یہ طریقہ رائج ہے کہ اس شخص کے قریب  بیٹھ کر  قرآن مجید کی تلاوت کی جاتی ہے۔اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی مقدس آیات کی برکتوں سے جاں کنی کے کرب میں مبتلا شخص کی روح  آسانی سے نکل جائے۔اسی طرح ہندؤں میں بھی یہ طرئقہ رائج ہےکہ جاں کنی کے عالم میں مبتلاشخص کے پاس بیٹھ کر گیتا یا دوسری مقدس کتابوں کا پاٹھ کیا جا تا ہے،تاکہ مرنے والے کی روح آسانی سے نکل جائےاو ر مقدس کتابوں کے اشلوک اس  پر سفر آخرت کو آسان بنا سکین۔افسانہ  لمبی لڑکی میں بیدیؔ اس رسم پیش کیا ہے۔

       جس عورت کا شوہر مر جاتا ہے اس کی موت کے فوراً بعد وہ اپنے سہاگ کی نشانیاں مثلاً چوڑیاں ،زیور،ناک کی کیل وغیرہ اتار دیتی ہے اور اپنی مانگ کا سیندور پونچھ ڈالتی ہے۔رنگیں لباس اتارکر سادہ کپڑے پہن لیتی ہے۔ مثال ملاحظ کیجیے:

“جب حافظ جی نےیکا یک بلند آوازسے کلمئہ شہادت پڑھ کر میاں جی کے دم  توڑنے کا اعلان کیا تھا۔تو  کوٹھے کی دہلیز پر بیٹھی ہوئی  بی بی نے اپنے ناک کی کیل نوچ کر پھینک دی تھی اور چھنن  چھنن سے  اپنے چوڑیاں توڑ  ڈالی تھیں۔”[5]

ہندوستانی سماج میں  یہ دستور ہے کہ والدیں کی موت کے بعد  سب سے بڑا بیٹا ان کی آخری رسومات انجام دیتا ہے۔اس  سبب  سے بیٹیوں کی بہ نسبت بیٹوں کو پیدائش  کو اہم تصور کیا جاتا ہے۔بیدی ؔکے افسانہ ‘اپنے دکھ مجھے دیدو’ میں اپنے پتا  ک موت کے بعد مدنؔ سب سے بڑا بیٹا ہونے حیثیت سے ان کی آخری رسومات ادا کرتا ہے:

“ہندو رواج کے مطابق سب سے بڑا بیٹا ہونے کی حیثیت سے مدن کو  چتا جلانی پڑی۔جلتی ہوئی کھوپڑی میں کپال کریا کی لاٹھی مارنی پڑی۔”[6]

مردے آخری رسومات کے بعد موت کے تیسرے دن تیجایا پھول کی رسم ،دسواں کی رسم اور چالیسواں وغیرہ  کی رسم انجام  دی جاتی ہے۔تمام رسمیں کی ذکر ترقی پسند افسانوں میں ملتے ہیں۔

       اردو  کے ترقی پسند افسانہ نگاروں نے اپنے افسانوں میں ہندوستانی مشترکہ تہذیبی سماج کے  جیتی جاگتی تصویر یں پیش کیے ہیں۔اس مقالے  کا عنوان  “ترقی پسند افسانہ نگاروں کے افسانوں میں مشترکہ تہذیب کے عناصر” ہے۔ یہ ایک وسیع موضوع ہے۔ میں نے اس مقالے میں صرف ایک چھوٹی سی پہلو کی تعارفی تجزیہ کم مثال کے ساتھ پیش کر نے کو کوشش کی۔اس مقالے میں ترقی افسانوں   میں ولادت ،موت اور شادی سے  منسلک رسمیں  پیش کیے ہیں۔

ترقی  پسند افسانہ نگاروں نے اپنے عہد کی عصری حسّیت کو بھر پور طریقہ سے اپنی تخلیقات میں پیش کیا۔انھوں نے اپنے فکر وفن کا رشتہ اپنے عہد ،سماجاور تہذیب سے  ہمیشہ استوار رکھا۔ ترقی پسند افسانہ نگاروں نے  پریم چند کی قائم کردہ  روش اختیار کی اور اس روایت سے فیض اٹھاتے  ہوئے اس کی توسیع کا فریضہ بھی انجام دیا۔انھوں نے پریم چند کی سماجی حقیقت نگاری کی روایت کو مستحکم کیا اور پیچیدہ حقیقت نگاری کی بنیاد ڈالی۔چنانچہ گرد و پیش کی زندگی اور سماج کی عکاسی نیز تہذیبی و سماجی مسائل کے  بیان میں ہندوستان کی مشترکہ تہذیب و ثقافت کے عناصر بھر پور طریقہ سے ان کے افسانے کا حصہ  بنے جو ان کی تخلیقات کو ہندوستان کی تہذیبی  وثقافتی دستاویز کا درجہ عطا کرتے ہیں۔

کتابیات:

  • نیا افسانہ وقار عظیم
  • افسانہ قادر اقصائی سعادت حسن منٹو
  • افسانہ ان داتا                                  کرشن چندر
  • افسانہ زندگی کے موڑپر کرشن چندر
  • افسانہ ماتم احمد ندیم قاسمی
  • افسانہ اپنے دکھ مجھے دیدو                        راجندر سنگھ بیدی
  • ہندوستانی تہذیب اور اردو شبنم سبحانی ایم ۔اے
  • اردو اور مشترکہ ہندوستانی تہذیب کامل قریشی

[1] -نیا افسانہ:وقار عظیم،ص79

[2] -افسانہ قادر اقصائی:سعادت حسن منٹو

[3] -افسانہ ان  داتا۔کرشن چندر

[4] -افسانہ زندگی کے موڑپر:کرشن چندر

[5] -افسانہ ماتم۔احمد ندیم قاسمی

[6] -افسانہ اپنے دکھ  مجھے دیدو۔راجندر سنگھ بیدی

Leave a Reply