You are currently viewing ترقی پسند تنقید اور پروفیسر ش اختر

ترقی پسند تنقید اور پروفیسر ش اختر

ڈاکٹرمحمد طیب شمسؔ

ترقی پسند تنقید اور پروفیسر ش اختر

پروفیسر ش اختر کانام نامی اوردو ادب میں محتاج تعارف نہیں ہے موصوف نابغہ روز گار شخصیت کے مالک ہیں وہ بیک وقت ایک ادیب ، شاعر، صحافی، ناول وافسانہ نگار، محقق اور ناقد کی حیثیت سے اردو ادب کی تاریخ میں اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں، ش اختر 1938ء؁ میں گیا میں پیدا ہوئے ۔ نام سیدصابر حسین ہے بعد میں ش اختر کے قلمی نام سے مشہور ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مدرسے میں ہوئی1962ء؁ میں جب انہوں نے رانچی یونیورسٹی سے ایم اے پاس کیا تو انہیں یوجی سی کی فیلوشپ ملی۔ غالبا وہ ہندوستان کے پہلے فرد تھے جنہیں یہ فیلوشپ ملی تھی۔انہوں نے اردو کی خواتین افسانہ نگاروں کا تقابلی اور تجزیاتی مطالعہ کے عنوان سے اپنا مقالہ اسی فیلوشپ کے تحت مکمل کیاتھا۔ جس پر انہیں ڈاکٹر آف فلاسفی کی ہوگری ملی۔BPSC کے ذریعے ریڈر بنے اور پھر یونیورسٹی پر وفسیر کا عہدہ سنبھالا۔ 1998ء؁ میں پرووائس چانسلر، ایکٹنگ وائس چانسلر اور مارچ 2001ء؁ میں ایک کامیاب وائس چانسلر کی حیثیت سے اپنے عہدے سے سبکدوش ہوئے تھے گذشتہ ۱؍مئی ۲۰۲۱ ء کو آپ کا رانچی جھارکھنڈ میں انتقال ہو گیا ۔ ان لواحقین میں دو بیٹی محترمہ نوید اختر اور محترمہ ناہید اختر اور نواسے نواسیاں ہیں ساتھ ہی ساتھ بے ادبی وراثت بھی ہیں جن کے وہ داعی اور امین تھے۔

ش اختر کو خاندانی ورثے کے طور پر بڑا زبردست پس منظر ملاتھا ش اختر سادات تھے اور انکا تعلق خاندان اجتہاد تھا۔ ان کے والد سید سیف الدین حیدر محکمۂ تعلیم میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ دادا امیر الدین حیدر ایک فقیر انسان تھے۔ ان کا شجرعہ نسل شیخ شرف الدین یحیٰ  منیری سے ملتا ہے ۔ وہ ایک اعلیٰ درجے کے شاعر تھے۔ مسلک ادب انہیں وراثت میں ملاتھا ۔ یہی وجہ ہے کہ موصوف پیشے سے پوسٹ ماسٹر تھے اور امیر تخلص کیاکرتے تھے۔ انکے بڑے بھائی سید سعید اختر (اخترپیامی) چھوٹے بھائی جابر حسین (ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ یافتہ) چھوٹی بہن ذیشان فاطمی وغیرہ کے یہاں بھی، اردو شعر وادب سے گہرا لگا و نظر آتا ہے اور یہ سبھی اپنے عہد کے ترقی پسند ادیب بھی مانے جاتے ہیں۔

اتنی بات تو ہم سبھی جانتے ہیں کہ ترقی پسند تنقید کے آغاز سے ہی اردو تنقید کے افق پر حقیقت نگاری کا رجحان ایک زبردست رجحان بن کر ابھراتھا۔ اردو کے ترقی پسند تنقید نگاروں نے ادب کو عوامی ادب اور اجتماعی زندگی کا ترجمان بناکر پیش کیاتھا۔ جس کا سہرا اختر حسین رائے پوری، سجاد ظہیر، احتشام حسین وغیرہ کے سر جاتا ہے۔ دور اول کے ان ترقی پسند نقادوں نے اپنی تنقیدی نگارشات سے اردو تنقید میں ایک ایسے آبشار کو جنم دیا جن کے دھاروں میں ایک طرف انسانی عظمت کے ترانے گن گنانے لگتی ہے تو دوسری طرف انسانی آہ ، بے کسی اور فریاد رسی کی ہزاروں چیخوں کی گونج سنائی دیتی ہے۔ ترقی پسند نقادوں نے اردو تنقید کو تبصرہ اور جائزہ کے حدود سے نکال کر اردو تنقید کو حکمت ودانائی کا فلسفیانہ اظہار بناکر پیش کیا ہے بقول خلیل الرحمن اعظمی:

’’ترقی پسند تحریک نے شاعری اور افسانہ نگاری کے علاوہ اردو زبان کے جس شعبے کو سب سے زیادہ متاثر کیا وہ ادبی تنقید ہے ۔ اگر یہ کہا جائے تو کچھ بے جانہ ہو گاکہ اس تحریک کی بدولت اردو تنقید کو ایک نیا ذہن ، ایک  نیا مزاج اور ایک منفرد کردار نصیب ہوا۔ اردو میں تنقید کے آغاز کا سہرا حالیؔ کے سر ہے اور’’ مقدمہ شعر وشاعری ‘‘ ہمارے نئے ادبی شعور کی پہلی منزل مگر حالی کے بعدہمارے یہاں کوئی ایسی قد آورادبی شخصیت نہیں ملتی جس نے تنقید کو مکتبی، تشریحی یا تاثراتی پیرایہ بیان سے نکال کر اپنے عہد کے ادبی نقاضوں یا فکری سوالوں سے آنکھیں چار کرنے کے قابل بنانے کی کوشش کی ہو۔‘‘(۱)

ش اخترترقی پسند تنقید کے ہر اول دستے کے فنکار نہ سہی پر اس تحریک سے وابستہ ایک منجھے ہوئے نقاد اور دانشور تو ہیں اور وہ ترقی پسند تنقید کے دوسرے دور کے چند اہم نقادوں میںپروفیسر قمررئیس، پروفیسرسید محمد عقیل رضوی،پروفیسر محمد حسن اورپروفیسر علی احمد فاطمی وغیرہ کے صف میں شامل ہے۔ان کے یہاں ترقی تنقید کے سنجیدہ تنقید ابھر کر سامنے آئے ہیں۔

ش اختر اکھل بھارتیہ اسٹوڈینس فیڈریشن کے مجلس عاملہ کے ممبر اور بہار کے صدر چنئے گئے۔ طالب علمی کے زمانے سے وہ کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوگئے اور اس کے ایک اہم رکن رہے۔ انڈوسویت سوسائٹی ورکنگ کے صدر ہوئے ۔ رانچی میں ترقی پسند مصنفین کی بنیاد رکھی اور انجمن نوجوان مصنفین ان کی قیادت میں بنی اور آل انڈیا ترقی پسند مصنفین کے ممبر رہے۔ 1958ء؁ میں لندن میں ہونے والی عالمی ادبی کانفرنس میں پروفیسر علی احمد فاطمی کے ساتھ ہندوستان کی نمائندگی کی۔

جھارکھنڈ کا علاقہ خصوصا شہر رانچی ترقی پسند تحریک کا البتہ ایک بڑا مرکز رہا ہے انور عظیم ، اختر پیامی، کلام حیدری ، شاہد انور، رفیق جابر، مرنال سین، پرویز شاہدی، امرہندی، وہاب دانش، پرکاش فکری، وحید الحسن اور صدیق مجیبی نے نہ صرف ترقی پسند ادب کی تخلیق کی بلکہ ان لوگوں نے مختلف زبانوں کے ادیبوں اور شاعروں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کی۔ جو فن کار 1953ء؁ کے بعد ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہوئے ان میں ش اختر کا نام سر فہرست ہے یوں تو انہوں نے فنون لطیفہ کے تمام اضاف میں طبع آزمائی کی ہے لیکن ان کا تنقیدی شعور دانشوری کے مرحلے کو طئے کرتی ہے ، انہوں نے ہمیشہ ترقی پسند اصولوں کو اپنے دامن میں سمو یا ہے تہذیب اور کلچرکی مشترکہ روایت کی حفاظت کی ہے اور عام انسانوں کے مفاد کو ترجیح دیاہے ۔ اور علاقائی ادب کی نمائندگی کی ہے۔

رانچی کالج کی زندگی سے ان کی زندگی کے روشن دور کا آغاز ہوا۔انہوں نے باضابطہ طور پر 1958ء؁ سے ترقی پسند تحریک کی سماجی ، سیاسی اور ادبی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا۔ ان کی طالب علمی کا زمانہ چھوٹا ناگپور میں جھارکھنڈ راج کی تحریک کا زمانہ تھا۔ اس وقت کی دو مضبوط سیاسی پارٹیاں اس عوامی تحریک اور آندولن کو  ختم کرنے کے در پے تھی۔ ش اختر اس وقت کمیونسٹ پارٹی کے سرگرم رکن تھے اور ان کی ایماپر پارٹی کی کانفرنس میں جھارکھنڈ کی علاقائی خود مختاری کا ریزولیشن پاس ہوا۔ اسی زمانے میں ہندوستان پر چین نے حملہ شروع کردیاتھا جس کی پاداش میں ہندوستانی کمیونسٹ پارٹی دو حصوں میں بٹ گئی تھی۔ ش اختر نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر CPIM کی رانچی میں بنیاد رکھی۔ لیکن زیادہ دنوں تک وہ اس کے ساتھ نہیںرہ سکے اور انہوں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور خود کو دنیا ئے ادب وتہذیب کے لئے وقف کردیا۔

ش اختر کے ترقی پسند تنقیدی نظریات میںجھارکھنڈ کی قبائلی تہذیب وتمدن ، ان کی مظلومیت اور عوامی ادبیات کے سوتوں کی تلاش وجستجو حاوی ہے۔ زمانہ طالب علمی سے ہی وہ چھوٹا ناگپور کا علاقہ شہر رانچی میں رہتا چلا آرہا ہے۔ ان کی پرورش آدی باسی اور مقامی باشندے کے ماحول میں ہوئی ہے۔ آدی باسی عوام کا بدترین استحصال ہوتا ہوا انہوںنے قریب سے دیکھا ہے یہی وجہ ہے آدی باسیوں کے روز مرہ مسائل ان کی زندگی ان کے رسوم ورواج اور ان کی روایتی سادگی ان کی زندگی کا حصہ بن گئی۔

ش اختر عورتوں کو ایک مظلوم مخلوق کی حیثیت سے دیکھتے ہیں وہ عورتوں کو اپنا ہمدرد، دوست اور رفیق سفر تصور کرتے  ہیں ان کی تمام ادبی اور سیاسی زندگی عورتوں کی بہتری کے لئے وقف ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ انہوںنے اپنا تحقیقی مقالہ’’ اردو میں خواتین افسانہ نگاروں کا تقابلی وتجزیاتی مطالعہ ‘‘ تحریر کیا، جس پرانہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری عنایت کی گئی تھی۔ ان کی تنقیدی کتاب  ’’عدسہ‘‘، ’’شناخت‘‘ اردو افسانوں میں بس بین ازم‘‘ اس مقالہ کی کڑی ہے ۔ شناخت ان کی پہلی باضوابطہ تنقیدی کتاب ہے جس میں انہوںنے تنقید کو تخلیقی انداز میں بیان کیا ہے کہ ادب اور زندگی کاکوئی پہلو اور کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جو خاتون افسانہ نگاروں کے یہاںنہیں ملتا ہے انہوںنے یہ ثابت کیا ہے کہ پریم چند سے قبل صغر ا ہمایوں کا افسانہ ’’مشیر نسواں‘‘ منظر عام پر آچکا تھا بقول ش اختر:

’’پریم چند کا پہلا افسانوی مجموعہ 1907ء؁ میں ’’سو زوطن‘‘ کے نام سے چھپا پریم چند سے پہلے صغر۱ ہمایوں کا افسانوی مجموعہ ’’مشیر نسواں 1904ء؁ میں منظر عام پر آیا، اس طرح یہ ایک نہایت دل چسپ نتیجہ نکلتا ہے کہ اردو کی پہلی خاتون افسانہ نگار پریم چند کے قبل کی ہیں‘‘(۲)

ش اختر نے حجاب امتیاز علی  تاج، مسنر عبدالقادر، ڈاکٹر رشید جہاں، عصمت چغتائی ، ممتاز شیریں، صالحہ عابد حسین ، شکیلہ اختر، تسنیم سلیم چھتاری ، باجرہ مسرور، خدیجہ مستور، قرۃ العین حیدر، جیلانی بانو، صدیقہ بیگم سیوہاروی، سرلادیوی جیسے کل چودہ نمائندہ خاتون افسانہ نگاروں کے تقابلی وتجزیاتی مطالعے اور ان کے فن وشخصیت کی قدر وقیمت کے تعین میں سماجی، اشتراکی، رومانی ، نفسیاتی، ساختیاتی، عملی ، اسلوبیاتی اور شخصیاتی تنقید کا بہترین مظاہرہ کیا ہے ، اس میں جو رنگ غالب ہے وہ تنقید کے سائنٹفک طور طریقہ اور مارکسی  اور ترقی پسند تنقیدی نظریہ خاصے کی چیز معلوم ہوتا ہے۔تمام افسانہ نگار خواتین ایک دوسرے سے زنجیر کی کڑی کی طرح جڑی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور تسلسل بیاں اور روانی فن کے جمالیاتی پہلو سے ہم آہنگ معلوم ہوتی ہے۔

’’اردو افسانوں میں لس بین ازم‘‘ میں مرد وعورت کی شخصیت اور اسٹائل پر فرائڈ کے نقطہ نظر سے متاثر ہو کر بحث کی گئی ہے اور مرد وعورت کی شخصیت میں جداگانہ طرز کی نشان دہی کی ہے خصوصا عورتیں جنسی شعور کو میلان ہم جنسی اور لس بین سے لطف وطمانیت اور آسودگی حاصل کرتے ہیں ۔ ش اختر کے خیال میں میلان ہم جنسی ایک فطری رجحان ہے چنانچہ ش اختر لکھتے ہیں۔

’’جن چار کہانیوں کو پیش نظر رکھ کر اس مقالہ میں بحث کی گئی ہے ، وہ اس بنیادی تصور کی آئینہ داری کرتی ہیں کہ میلان ہم جنسی ، ایک فطری رجحان ہے ، یہ ہر آدمی خواہ وہ مرد ہو یا عورت  کے اندر پایا جاتاہے کوئی قوم اس سے متثنیٰ قرار نہیں دی جاسکتی ہے ۔ لیکن ہر قوم میں اسکی شکلیں بدلی ہوئی ملتی ہیں، ہر فرد کے نظریات ، طور طریقے اور افعال وکردار الگ ہوتے ہیں اس لئے ہم جنسی محبت کے روپ بھی ایک جیسے نہیں ہیں ۔ اس سے شخصیت کی سنجیدگی بڑھتی ہے۔‘‘(۳)

ش اختر کے یہ جنسی شعور ترقی پسند نقادوں کے ما بین اختلاف کا موضوع رہا ہے میلان ہم جنسی کو فطری رجحان قرار دینا اکثر ترقی پسند نقاد خلاف ہیں۔ہم جنسیت کے فروغ سے زندگی کی لکیر ٹیڑھی لکیر میں تبدیل ہوجائے گی اور انسانی نسل بھی متاثر ہوگی، تاہم جواز اور عدم جواز سے قطع نظر ادب میں اسکی اہمیت بالکل بر قرار رہے گی کہ لس بین عورتوں میں پائی جاتی ہے اور اردو کے خواتین افسانہ نگاروں نے اس حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش نہیں کی ہے بلکہ اس کی وجوہات پر بھی بحث کی ہے۔

ش اختر مارکس اور فرائیڈ کے ساتھ مغربی فنکاروں اور دانشوروں میں وکٹیر ہیوگو، یوروفوک، وڈازورتھ، ارسطو اور سوفوکلیز سے متاثر ہوئے۔یونانی ڈرامہ نگار سوفوکلیز سے خصوصی طور پر متاثر ہونے کا نتیجہ ہی ہے کہ انہوں نے سوفوکلیز کے متعلق ایک تنقیدی کتاب قلم بند کیاس اس سے دیہی اور شہری زندگی میں تعمیری منصوبہ بھی دکھائے گئے ہیں۔ سوفوکلیز کی شخصیت اور فکرو فن پر اردو میں یہ پہلی تنقیدی کتاب ہے۔ اس تنقیدی کتاب میں یونان اور ہندوستان کے ثقافتی اور تہذیبی رشتے کی جوشناخت کی گئی ہے وہ دستاویزی حیثیت رکھتی ہے۔

فن ڈرامہ نگاری میں سوفوکلیز کی عظمت اور ان کی مقبولیت نہ صرف یونان میں بلکہ عالمی ادب پر ان کے گہرے نقوش واثرات دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ہمارے ہندوستانی ادبیات پر بھی ان کے المیہ ڈراموں کی پر چھائیاں جابجا نظر آتی ہیں۔ ش اختر نے سوفوکلیز کے ڈراموں کا مطالعہ سائنٹفک طرز تنقید پر کرتے ہوئے ایک اہم نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ سوفوکلیز نے اساطیری قصوں کو فطری اور نیچرل انداز میں بیان کیاہے جس سے ان کافن عظمت وافاقیت کی بلندی پرپہنچ گئی ہے اور ارسطو جیسے عظیم فنکار بھی سوفوکلیز سے متاثر ہوئے بغیر نہیںرہ سکا۔ ش اختر اس ضمن میں لکھتے ہیں کہ:

’’انسان اپنی پیدائش سے موت تک کی منزلوں کی مسافت جذبہ اور عقل کی رہنمائی میں طئے کرتاہے۔ اس لمبے سفر میں اکثر وبیشتر عقل ، جذبہ کی جگہ لے لیتی ہے۔ اور یہی سے مصلحت اندیشوں کے جالے پھیلنے لگتے ہیں ۔ اس لئے ارسطو نے انسانی جذبات میں چھپے ہوئے خلاقانہ اور تعمیری امکانات کو روشن کیا۔ اس کی تمام تر ادبی تنقید سوفوکلیز کے المیوں کے مطالعہ کی دین ہے۔ چنانچہ اس نے جن پانچ اصطلاحوں سے اپنی کتاب ’’بو طیقا‘‘ میں بحث کی ہے یعنی نقل ، پلاٹ، سقم، تزکیہ اور آفاقیت وہ سب کی سب ان المیوں کی روشنی میں سامنے ابھرتے ہیں جو سوفوکلیز کی تخلیق ہیں۔‘‘(۴)

ش اختر کی تنقیدی خوبی یہ بھی ہیکہ وہ تنقید میں نعرہ بازی کو جگہ نہیں دیتے ہیں، ہتھیار اٹھانے کا منصوبہ ان کے یہاں نہیں ملتا ہے، ہیئت اور موضوع میں مطابقت بر قرار رکھنا چاہتے ہیں مغربی فنکاروں سے متاثر ہونے کے باوجود ان کے تنقیدی خیالات میں یک رنگی دکھائی نہیں دیتی ہے بلکہ جدت وندرت اور انفرادیت کا شاہکار نمونہ بنکر ابھر تا ہے اور فن کو جمالیاتی طرز پر برتنے کی کوشش کرتے ہیں اور تخیل اور حقیقت کی آمیزش سے ان کی تنقیدی فکر وآگہی اورعوام کی نمائندگی بن جاتی ہے ڈاکٹر قمر رئیس نے ش اختر کی تنقیدی کارناموں کا جائزہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔

’’مارکسی تنقید اب بڑی حد تک مارکسی تصورات کے ایک رخ، میکانکی اخلاق سے آزاد ہو گئی ہے اب گورکی پلیخانوف ، لوکاچ اور برطوبی بریخت کی کم وبیش ساری تحریریں انگریزی میں دستیاب ہوجاتی ہیں، ان کے علاوہ وی جے جیروم اڈائف، سانکیزدار، کو نیفز، ڈیویڈگریک ، گرائچی اور کڑکیرنن جیسے مارکسی دانشوروں کی کتابیں بھی مل جاتی ہیں۔ جو عالمی اور قومی سطح پر ادب اور تہذیب کے مسائل کی تفہیم میں ایک نئی فلسفیانہ اور تخلیقی بصیرت عطا کرتی ہے ۔ جس کے شواہد نوجوان نقادوں میں محمد علی  صدیقی، اصغر علی انجینئر ، ڈاکٹر عتیق اللہ، آغا سہیل، ڈاکٹر ش اختر، عتیق احمد، ڈاکٹر صادق اور دوسروں کے یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔‘‘(۵)

ش اختر کے تنقیدی رجحان  میں علاقائیت کا رجحان کافی نمایاں طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے، جھارکھنڈ ، لکھنو اور دلی کی طرح اردو کا کوئی مضبوط ادبی مرکز نہیں رہا لیکن رفتہ رفتہ یہاں اردو کے فنکاروں کی ایک بڑی کھیپ جمع ہوتی گئی ، صنعتی اور معدنیاتی ترقی نے لوگوں کی توجہ اس طرف مرکوز کی ، یہ علاقہ ترقی پسند تحریک کی ایک بے حد فعال کرم بھومی رہی ہے اور ش اختر کے ادبی سفر کی مضبوط آماجگاہ بھی ہے، یہاں ہندو پاک کے بہت بڑے مشہور  فنکا رہ چکے ہیں ان میں شکیل الرحمن ، اختر پیامی، انور راہی ، معصوم رضا ، پرکاش فکری ، صدیق مجیبی، وہاب دانش ، امر ہندی، وہاب اشرفی، انور عظیم، کلام حیدری ، رفیق جابر، غیاث احمد گدی، الیاس احمد گدی ، وحید الحسن ، احمدعظیم آبادی، شاہد احمد شعیب ، اختر یوسف ، سمیع الحق ، ابو ذر غثمان ، احمد سجاد ، شاہد انور، منظر شہاب، بی زیڈ مائل، اسلم جمشیدپوری، سید احمد شمیم، نادم بلخی، ہمایوں اشرف وغیرہ فنکار اس سرزمین سے وابستہ رہے۔ش اختر نے جھارکھنڈ کے فنکاروں کی فکری عظمت ، تخیل کی بلند پروازی، فنی ندرت شگفتہ انداز بیاں اور شخصی انفرادیت کو جگ ظاہر کیا ہے ان کی کتاب ’’جھارکھنڈ میں اردو تنقید‘‘ شکیل الرحمن کی جمالیاتی تنقید ، جھارکھنڈ کے نظم گو شعراء‘‘ اسی شناخت کی کڑی ہے ۔ جھارکھنڈ کے نظم گو شعراء اختر پیامی ، احمد عظیم آبادی، شاہد احمد شعیب وہاب دانش ، اختر یوسف کے متعلق ش اختر کا یہ اقتباس کافی دلچسپ ہے کہ۔

’’40-47  سے اس علاقے میں ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا۔ حالی اور سر سید کی ادبی اور علمی تحریکوں کے بعد یہ ہندوستان کی سب سے بڑی اور عظیم الشان تحریک تھی جو ایک بین الاقوامی تحریک کا حصہ تھی اور اشتراکی فکر ونظر کی زیر سایہ پروان چڑھتی رہی ۔ اس تحریک کا ایک سب سے زیادہ روشن پہلو یہ تھاکہ اس نے ادب کا رشتہ زندگی سے جوڑا اور اس تصور سے آزاد کیاکہ شاعری ایک طرح کی ذہنی اور علمی تفریح ہے۔‘‘(۶)

جھارکھنڈ کے علاقائی فنکار ہونے کے باوجود ش اختر کے فن زمان ومکان کی قید سے آزاد ہوکر ابدیت وآفاقیت کا مرحلہ طے کرلیتی ہے اور ان کے ادب نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر بھی پہچان بنا چکی ہے ۔ ان کی تخلیقات کے ترجمے کئی بیرون زبانوں میں بھی کیے گئے ہیں اور ان کی کتابیں داد تحسین حاصل کرچکی ہے اور اعلیٰ تعلیمی نصاب کا بھی حصہ بن چکا ہے ش اختر نے شکیل الرحمن ، وہاب اشرفی وغیرہ کے تنقیدی کارناموں کا جائزہ لیتے ہو ئے ان کے ادب و فن کے نقوش کی نشان دہی کی ہے اور ان کے جمالیاتی حس، تاریخی شعور ، ادبی وتہذیبی شناسائی اور فنی لطف وانبساط کی بازیافت کی گئی ہے شکیل الرحمن کی تنقیدی کا جائزہ لیتے ہوئے ش اختر لکھتے ہیں:

’’میں ان کی تخلیقی صلاحیتوں اور بصیرتوں کا معترف ہوں  اور ان کی تنقید کو تخلیقی تنقید کی اعلیٰ مثال سمجھتا ہوں ۔ یہ خیالات میرے تاثرات کا اظہار نہیں ہیں بلکہ میںنے انکی کتابوں کے مطالعے کے دوران یہ محسوس کیاکہ انہوںنے اردو تنقید کو ایک نئی جہت سے آشنا کرایا۔ ’’مرزا غالب اور ہند مغل جمالیات ‘‘ ایک نئی سمت کی طرف ناقدین ادب کی توجہ مبذول کرنے میں کامیاب ہوئی۔ گذشتہ نصف صدی کا یہ سب سے اعلیٰ تنقیدی صحیفہ ہے۔ غالب شناسی پر اب تک اس سے بہتر کتاب اردو میں نہیں آئی ۔ میں نے اس کتاب کا ایک جائزہ لیاہے اور نئی ترقی پسند تنقید کے اصولوں کی روشنی میں اسے پرکھنے کی کوشش کی ہے ۔‘‘(۷)

ترقی پسند تحریک ایک عالمی تحریک تھی۔ ہندوستان میں اس نے تمام زبانوں کے ادیبوں کو متاثر کیامگر اردو میں اس تحریک کے زیر اثر لازوال تنقیدی کارنامے ہیں۔ اردو تنقید میں بھی دوسرے صنفوں اور دوسری زبانوں کی طرح ترقی پسندی تحریک کے کئی پہلو نمایاں ہوئے، شاخیں ہوئیں ، گروپ بندیاں ہوئیں بعض نے تو ترقی پسند تحریک سے انحراف کرکے جدیدیت کی طرف متوجہ ہوئے یہ ایک فطری عمل تھا۔ کیونکہ کہ کوئی شئے برابر اپنی اصلیت پر قائم نہیں رہ سکتا ہے ۔ ش اختر ترقی پسند تنقید سے نہ انحراف کئے اور نہ ہی کسی مخصوص گروپ کے ہی ہو کر رہ گئے بلکہ انہوں نے ترقی پسندتحریک کو ایک متحرک اور تغیر پذیر نظریہ اورایک نیا فلسفہ بنایا جو مارکسی تصورات کے ہوتے ہوئے بھی جامد نہیں ہے بلکہ اس میں وقت اور حالات کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ اس میں شب وروز اضافے ہوتے رہتے ہیں ، حسن کا جو معیار کل تھا آج نہیں ہے جو آج ہے وہ کل نہیں رہیگا ۔ اسی طرح طرز زندگی ، طرز تخیل طرز فکر اور طرز احساس زمان ومکان کے نئے جلوئے میں جلوہ گر ہوتے ہیں اور تہذیب وادب کا نیالباس لیکر آتی ہے۔ قمر رئیس نے عصری آگہی کے ذریعے ترقی پسند تنقید کو بلندیاں عطا کی تو وہی ش اختر نے تخلیقی تنقید کے ذریعے ترقی پسند تنقید کو مستحکم بنایا ۔

 ترقی پسند تنقید کو کارگر اور متوازن بنانے میں یوں تو ان کی تمام تنقیدی نگار شات اہم ہیں لیکن ان کی کتاب ’’نئی ترقی پسند تنقید‘‘ ایک شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اس سے قبل یہ کتاب’’ فکری غربت کا المیہ ‘‘کے عنوان سے شائع ہواتھا۔ اس کتاب میں کل ۲۲ بائیس مضامین شامل ہیں اور ہر مضامین نئی فکر ، نئی قدر ، نیاسائنسی رجحان ، نیا سماجی طور طریقہ اور نئے احساس کے وجود کے گواہ ہیں  اس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ش اختر نہ صرف ہندوستان اور دنیا میں ہونے والے احوال سے واقف ہیں بلکہ ان کی عقابی نگاہ ان وجوہ پر بھی ہے جن کی بدولت حالات میں تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں اور ملکی اور بین الاقوامی ادب عالیہ اور اس کے سمت ورفتار سے بھی واقف ہیں۔

ش اختر کے ان ترقی پسند نظریہ میں فرد کا سماج سے مثبت رویہ اور سماج کا فردکی ذات سے تقاضا کے تئی ذمہ داری کا احساس دالاتا ہے جو عصری اور سائنسی فکر، ودانائی کے اعلیٰ منزل کی طرف رہنمائی کرتی ہے علی سردار جعفری نے ش اختر کے ان ترقی پسند تنقید کے بلندی سطح کی تعریف یوں کی ہے:

’’آج زندگی ایک جہاں تازہ کی تعمیر کی منتظر ہے ۔ جس کے لئے موسم بہار کی ہوا کے ہر جھونکے کی طرح افکار تازہ کی نسیم جانفراکی ضرورت ہے۔

ہمارے عہد کے ایک مشہور ومعروف دانشور قابل احترام ادیب جناب ش اختر کی زیر نظر تصنیف اسی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے ایک اہم قدم ہے ۔

یہ متفرق مضامین جو مختلف اوقات میں لکھے گئے ہیں، معنوی اعتبار سے مربوط ہیں اور افکار کا ایک ایسا آبشار معلوم ہوتے ہیں ، جو جہالت  اور رجعت پرستی کی تاریک چٹان کو پارہ پارہ کرنے پرتیشے کا کام کرسکتا ہے۔

مصنف کی فکری بنیاد مارکسزم ہے ۔ ایسی صورت میں نقطۂ نگاہ لازمی طور سے ترقی پسند ہوگا۔ اس کے پڑھنے والے اپنے اپنے طور پر لطف اندوز ہونگے۔‘‘(۸)

ان کے تصانیف وتالیفات کے ساتھ ان کے تنقیدی مضامین جو ہند اور بیرونی ہند کے موقر ادبی رسالوں میں شائع ہوئے ہیں جسکا احاطہ تو میں نہیں کر سکا البتہ ان کے کئی مضامین پڑھنے کا موقع ملا جس میں ان کی ترقی پسند ادبی تنقید کے نئے ذوق ووجدان کے اثرات مضمر ہے ’’مومن اور پردہ نشیں ‘‘ میں ش اختر نے عشق کے سماجی محرکات پر بہترین جائزہ لیا ہے انہوںنے اس نقطہ کی طرف توجہ دیا ہے کہ مومن اردو کا پہلا شاعر تھا جنہوں نے اپنے ماحول کی سخت گیروں کے باوجود بھی عشق کی سماجی قدر ومنزلت کا خیال باقی رکھا۔ جس طرح ان کی شخصیت میں خلوص تھا اسی طرح ان کے عشق میں خلوص اور ہمدردی کا احساس تھا چنانچہ اس مضمون میں ش اختر نے ایک فاضل فلسفی کی طرح عشق پر بحث کیاہے لکھتے ہیںکہ :

’’عشق ایک لافانی جذبہ ہے انسان کی سرشت میں اس کو دخل ہے کائنات کی تخلیق بھی اسی ایک جذبہ کا رد عمل ہے، اگر کسی فرد میں یہ صفت نہ پائی جائے یہ احساس نہ ہو تو مجھ کو اس سے کسی قسم کی نیک نیتی کی امید نہ ہوگی۔ ایک اچھا عاشق ہونے کے لئے ایک اچھا انسان ہونا بھی ضروری ہے ، اس کے بغیر اس کی زندگی ادھوری ہے۔ میں عشق کو خالص روحانی نقطہ نظر سے دیکھنے کا بھی قائل نہیں، عشق کا ایک بنیادی محرک جنس ہے جنسیت محض جذبات میں پہچان نہیں پیدا کرتی بلکہ یہ ایک ایسی ہستی کی بھی تخلیق کرتی ہے جو صبح ازل کی طرح معصوم اور حسین ہوتی ہے ، اس عشق کی سماجی اہمیت ہوتی ہے ، اس کا تعلق لیلٰی مجنوں کے روایتی عشق سے الگ ہے یہ ایک صالح اور صحت مند انسان کی تہذیبی اور جمالیاتی ضرورتوں کا رد عمل ہوتاہے ۔ عورت اور مرد فطرت کے بیش بہا تحفے ہیں ایک کے بغیر دوسری کی حقیقت نہیں ، دونوں کے درمیان صرف جنسی رشتہ ہی نہیں بلکہ وہ شئے بھی ہیں جن سے انسان دوستی کے جذبوں کو تقویت ملتی ہے، ہماری معاشی اور سماجی زندگی کی قدریں بنتی اور بگڑتی ہیں۔‘‘(۹)

اسی طرح ان کا ایک معرکۃ الآراء مضمون ’’اردو ادب کا جمہوری کردار‘‘ ہے اس تنقیدی مضمون میں ش اختر نے یہ ثابت کیاہے کہ اردو ادب ہندوستان کا وہ واحد ادب ہے جس میں تمام مذاہب ، تمام مسالک ، قومی اوربین الاقوامی تمام افراد نے اپنی اپنی گرانقدر تحقیقات وتنقیدات پیش کی ہیں اس زبان کا ادب ہمیشہ ہماری جمہوری روایت کا بہترین نمونہ ہے۔ہندوستان کی آزادی میں اس زبان کا انقلابی اور جمہوری رول رہا ہے اور اشتراکی اور سماجی ادب کا انمول رتن پیش کر چکا ہے لیکن بدقسمتی سے  سیاسی شعبدہ بازی کی وجہ سے اردو زبان کو مسلمانوں سے وابستہ کردیاجارہا ہے ش اختر نے اسے ذرا وضاحت کے ساتھ اس انداز میں بیان کیا ہے:

’’اردو ادب ہندوستان کا واحد ادب ہے جس میں انگریز ، ہندو، فرانسیسی، ایرانی، پرتگالی اور چینی تمام افراد نے اپنی اپنی گرانقدر تخلیقات پیش کی ہیں ایک گارساں دی تاسی کی مثال ہی کافی ہے ۔ یہ نام اس بات کا ثبوت ہے کہ اردو والے نے کبھی بھی لسانی تعصب کی طرف پیش قدمی نہیں کی، اس زبان کا ادب ہماری جمہوری روایت کا بہترین نمونہ ہے ۔ ہندوستان کی آزادی میں اس کا ایک اہم جمہوری اور تاریخی رول رہا ہے اس نے ہندوستان میں قومی آزادی کا حوصلہ عام کیا ’’ہوم رول‘‘ کی تحریکیں اس کا ثبوت ہیں، اردوادب نے انقلابی ترانے بخشے ہیں۔ رنگ ، نسل اور ذات کی تفریق کے خلاف زندگی کے ہر موڑ پر آواز بلند کی ہے ۔ ہماری قومی جدو جہد کی تاریخ اردو ادب کے جمہوری کردار کی تاریخ ہے۔‘‘(۱۰)

ش اختر بلاشک وشبہ ترقی پسند ادیبوں اور نقادوں میں ممتاز مقام رکھتے ہیں ۔ جھارکھنڈ کا علاقہ جو پہلے عظیم آباد دبستان کا حصہ تھا انہوںنے اس علاقہ کو سینچنے سنوار نے کاکام کیاہے۔ ان کی کتابیں  ان کے مضامین ، ان کے علوم وفنون وعصری آگہی ، ان کے نظر یاتی وسعت انہیں نئی ترقی پسند تنقید کے فعال ستون کی حیثیت عطاکیاہے ۔ ادب کے عوامی اور سماجی رشتوں کے ساتھ ساتھ ا ن  کا تجزیاتی مطالعہ ، دانشورانہ اقدام اور تخلیقی  تنقید کی جانب مستحسن پیش رفت ان کے وجود کے گواہ رہیںگے۔

حواشی:۔

(۱) خلیل الرحمن اعظمی ، اردو  میں ترقی پسند ادبی تحریک ، ایجوکیشنل بک ہاوس علی گڑھ 2002ء؁ ص: 242

(۲)      پروفیسر ش اختر ، شناخت جلد اول ، ہمارا پریس رسالدار نگر ڈورنڈا، رانچی، 2010ء؁ ص: 44

(۳) پروفیسر ش اختر ، اردو افسانوں میں لس بین ازم رینا ہاوس گیا 1977ء؁ ص: 109، 110

(۴) پروفیسر ش اختر ، سوفوکلیز ایک تنقیدی مطالعہ، ہمارا پریس رسالدار نگر ڈورنڈا، رانچی2010ء؁ ص:202، 203

(۵)ڈاکٹر قمر رئیس ، سردار جعفری اور نیا تنقیدی شعور ، افکار ممبئی نومبر،دسمبر 1991ء؁ ص:460

(۶) پروفیسر ش اختر ،جھارکھنڈ کے نظم گوشعراء، ہمارا پریس رسالدار نگر ڈورنڈا ، رانچی2014ء؁ ص:29

(۷) پروفیسر ش اختر ،شکیل الرحمن کی جمالیاتی تنقید، ہمارا پریس رسالدار نگر ڈورنڈا ، رانچی2012ء؁ ص:7

(۸) پروفیسر ش اختر ،نئی ترقی پسند تنقید کہاں ہم لوگ پبلیکشنز ، رانچی2015ء؁ ص:9,8

(۹) پروفیسر ش اختر ،مومن اور پردہ نشین ، شاعر بمبئی جون 1962ء؁ ص:9

(۱۰) پروفیسر ش اختر ،اردو ادب کا جمہوری کردار شاعر بمبئی خصوصی شمارہ جمہوریت نمبر 1962 ء؁ ص:29

Dr. Md. Taiyab Shams

Asst. Teacher U.H.S. Juhibona, P.o. Agloi,

P.S. Barharwa, Dist. Sahibganj, Jharkhand. Pin 816101,

Mob: 7763961064

Email: taiyabsham678@gmail.com

Leave a Reply