ڈاکٹر ثریا بیگم محمود خان
اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو
شیواجی کالج ہنگولی
جاں نثار اخترؔکے قطعات
(ایک بھولی ہوئی صنف سخن)
جاں نثار اخترؔ عہد ترقی پسند شاعر ہیں لیکن ان کا لب و لہجہ بڑی حد تک رومانی شعراء سے ملتا ہے دراصل جاں نثار اخترؔ کی تربیت روایت کے زیر سایہ ہوئی اور انھوں نے اپنی شاعری میں روایت کی قوتوں کو بڑی خوبی سے استعمال کیا ہے اور اسی مناسبت سے زبان و بیان سے ایک سادہ اور پر اثر لہجہ اختیار کیا ہے ۔ جاں نثار اخترؔ نے خوبصورت رومانی نظمیں بھی لکھیں انقلابی نظمیں لکھیں رباعیات اور قطعات بھی لکھیں۔
ان کی رباعیات کا مجموعہ ’’گھر آنگن‘‘ اپنے موضوع اور طریقہ اظہار کی وجہ سے کافی اہم مجموعہ سمجھا جاتا ہے۔’’گھر آنگن ‘‘کا ذکر تقریباً ہر نقاد نے کیا لیکن ان کی قطعات کی طرف خاطر خواہ توقع نہیں دی گئی۔ جاں نثار اخترؔ کی اثر انگیزی اور خوبصورت لہجہ کی وجہ سے خصوصی توجہ کے متحریک ہے۔
ان قطعات کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ’’گھر آنگن‘‘ کی رباعیات سے پہلے بھی وہ زندہ اور گھریلو محبت کو غیر معمولی اہمیت دیتے رہے ان قطعات میں ان کا مضمون جیتا جاگتا اور جذبہ محبت سے سرشار ہے اسی کے ساتھ ساتھ شاعر کے فکرو جذبات اور زندگی سے قربت کا احساس ہوتا ہے۔
بانہوں کا سبک ہار لیے آئی ہو
آغوش کا گلزار لیے آئی ہو
ہنستی ہوئی ان کیف بھری آنکھوں میں
اک نشہ بیدار لیے آئی ہو
جاں نثار اخترؔ کا محبوب کوئی مثالی اور تخیلی محبوب نہیں ہے وہ اسی دنیا کی جیتی جاگتی ہستی ہے۔
آنکھیں جو ملیں کچھ ترے کاجل نے کہا
اُڑتا ہوا کچھ زلف کے بادل نے کہا
وہ راز جو کہہ سکا نہ کھل کر کوئی
وہ تیرے لپٹتے ہوئے آنچل نے کیا
کتنی معصوم ہیں تری آنکھیں
بیٹھ جا میرے روبر مرے پاس
ایک لمحے کو بھول جانے دے
اپنے ایک اک گناہ کا احساس
تخیل میں جگمگارہی ہو کب سے
چھپ چھپ کے لویں جلا رہی ہو کب سے
آؤ مرے مقابل آؤ
پچھے کھڑی مسکرار رہی ہو کب سے
محبوبہ کا یہ تصور ہماری پرانی شاعری میں کم ہی ملتا ہے وہ شعراء کے بیان کے مطابق ظالم بے رحم اور غیر سنجیدہ نظر آتا ہے۔ جب کہ جاں نثار اخترؔ کے یہاں دونوں طرف محبت ایک برابری کا درجہ رکھتی ہے۔ محبوبہ کو ظالم نہیں بلکہ خود بھی محبت کرنے والی ہے یہ بات الگ ہے کہ وہ ہماری تہذیب کی حدوں سے آگے قدم نہیں رکھتی وہ اپنی محبت کا اظہار تو کرتی ہے لیکن اشاروں کنایوں اور اپنی معصوم اداؤں کے ذریعہ کرتی ہے۔
آنکھوں میں جو ہوجائیں وہی بات بہت ہے
دستور محبت کا یہی کم سخنی ہے
ہے سایہ مژگان سے گزر گاہ تمنا
ہر بار کیا دل نے یہاں چھاؤں گھنی ہے
کہ دبی دبی اور تہذیب کی حدوں میں محسوس محبت شاعر کے جذبات کو اور بڑھاؤا دیتی ہے۔ کیونکہ شاعر بھی اسی تہذیب کا پرور رہتا ہے جو تہذیب محبوبہ کے دل و دماغ(لب و لہجہ) میں بسی رہتی ہے۔ اس لئے جاں نثار اخترؔ کے یہاں محبت ایک طرفہ نہیں ہے۔ لیکن اسے ہم دونوں طرف آگ برابر لگی بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ محبوبہ اپنی محبت کا اظہار کھولے کھولے انداز میں نہیں کرتی بلکہ اپنے روئے ہوئے انداز سے یہ احساس دلاتی ہے کہ وہ بھی اپنے دل میں ایک حساس دل اور اس دل میں محبت کی چنگاری رکھتی ہے۔
انگڑائی یہ کس نے لی ادا سے
کیسی یہ کرن فضا میں پھوٹی
کیوں رنگ برس پڑا چمن میں
کیا قوس قزح لچک کے ٹوٹی
یہ وہ قطعہ ہے جو پہلے بھی کوٹ کیا گیا ہے۔ لیکن یہاں میں اپنی بات کو مزید واضح کرنے کے لئے اس طرف دوبارہ توجہ دلانا چاہتی ہوں۔
آنکھیں جو ملیں کچھ ترے کاجل نے کہا
اُڑتا ہوا کچھ زلف کے بادل نے کہا
وہ راز جو کہہ سکا نہ کھل کر کوئی
وہ تیرے لپٹتے ہوئے آنچل نے کیا
یہاں بھی نہ کہتے ہوئے بہت کچھ کہہ دیا گیا ہے۔یہاں ہم لکھتے ہیں کہ محبوبہ تو اپنی زبان سے کچھ نہیں کہتی نہ اظہار محبت نہ انکار وفا اس کے باوجود آنکھوں کا کاجل ،اڑتا ہوا زلف کے بادل اور لپٹتے ہوا آنچل وہ سب کچھ کہہ جاتا جو شاید لفظوں میں نہ کہہ سکتے ہیں یہ لب اختیار جاں نثار اخترؔکا عشق وہ ایک مہذب عشق بنا دیتا ہے۔ اور محبوبہ ایک وزادار اور گھریلو لڑکی کی صورت میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ وہ دردوں کا واضح انداز میں شکوہ نہیں کرتی لیکن اس کا چہرہ سب کچھ بتا دیتا ہے ایک کمسن لڑکی کا اکھڑا من جیسے جھلنی کو ہر یہی کہتی کھڑے کے انداز کا جدائی کے غم کا یہ اظہار صرف لڑکی کے چہرہ سے ہوجاتا ہے۔ ہجر کے غم کا واضح اظہار کہیں نہیں ملتا۔کیونکہ یہ محبوبہ تو ایک گھریلو سیدھی سادھی ایسی لڑکی ہے جو کھل کر اپنی بات کہہ دیتی ہے ۔ وہ چاندنی راتوں میں اپنے محبوب کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے قرار تو ہوتی ہے۔ لیکن اس کا انتظار کچھ اس قسم کا ہوں۔
ابر میں چھپ گیا ہے آدھا چاند
چاندنی چھن رہی ہے شاخوں سے
جیسے کھڑکی کا ایک پٹ کھولے
جھانکتا ہو کوئی سلاخوں سے
اور کچھ یہی حال شاعر کا بھی ہے وہ بھی نئے عشق میں غریبی جاب کرتا ہے اورنہ اس کی عظمت و پاکیزی کو داغ دار کرتا ہے ایسے پس منظر کو دیکھ کر اپنے محبوب کا خیال آتا ہے۔
تتلی کوئی بے طرح بھٹک کر
پھر پھول کی سمت اڑرہی ہے
ہر پھر کے مگر تری ہی جانب
اس دل کی نگاہ مڑرہی ہے
تتلی کا پھول کی سمت دوڑنا عاشق کا اس منظر کو دیکھ کر محبوبہ کی یاد میں کھو جانا یہ ایسے استعارے ہیں۔ جس کے پیچھے پوری داستان موجود ہے عشق کا یہ انداز دونوں جانب سے ہی دبہ دبہ اظہار محبت اور اپنے جذبات کا اظہار بجائے کھولے کھولے انداز میں کرنے سے استعاروں تشبہیوں کی زبان میں کرنا اردو میں اس سے پہلے نایاب سے نہیں تو کامیاب ہے۔
جاں نثار اختر نے اپنے ان قطعات کے ذریعے تہذیبی عشق کے آداب سکھائے ہیں اور یہی ان کی شاعری کا بنیادی مزاج ہے۔
***