مسرت آرا
پی ایچ ۔ ڈی اسکالر ، کشمیر یونی ورسٹی
جدو جہد ِ آزادی میں مولانا ظفر علی خاں کا رول
مولانا ظفر علی خاں نے اس عہد میں ہوش سنبھالا جب ہندستان میں انگریزوں کی حکومت عروج پر تھی ۔ اور ہندستانی عوام مظلومیت اور پستی کا شکار تھی ۔ انگریزوں نے ہندستانی عوام کی بھلائی کے لیے حکومت نہیں کی تھی بلکہ وہ اس حکومت کے زیر ِ اثر اپنے ذاتی مفادات کو پورا کرنا چاہتی تھی ۔ اسی لیے ان کی حکومت کا رخ ایک طرفہ تھا ۔ وہ دراصل تجارت کے سلسلے میں یہاں آئے اور آتے ہی پورے ہندستان پر قابض ہوگئے اور لوٹ کھسوٹ کر کے ملک میں تباہی اور ظلم و ستم کا پرچم بلند کیا ۔۱۸۵۷ کی غدر کے بعد انہوں نے عملاً پورے ہندستان پر باقاعدگی سے حکومت کرنی شروع کی ۔ اس حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے انہوں نے ہندستانی عوام کے اتحاد کو فرقہ پرستی سے بانٹنا شروع کردیا ۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ہندستانی عوام کی ایکتا ان کی حکومت کے خلاف ایک خطرناک ہتھیار ہے ۔ لہذا فرقہ پرستی کے ذریعے ہی اس خطرے کو ٹالا جا سکتا تھا ۔ اور انہوں نے فرقہ پرستی کی طرف باقاعدہ توجہ دی ۔ ۱۹۰۶ ء میں بنگال کی تقسیم کا سانحہ اسی کڑی کا ایک اہم حصہ ہے ۔ اس کے بعد وقتاً فوقتاً اس طرح کے واقعات عموماً رونما ہونے لگے ۔ اس فرقہ پرستی نے ہندستانی عوام کو ہلا کر رکھ دیا ۔ یہاں سے عوام کمزور ہوگئی اور حکمران طبقہ مضبوط ہوگیا ۔ یہی وہ عہد تھا جس میں مظلوم ہندستانی عوام کے اندر آزادی کا جذبہ ابھرنے لگا ۔ انگریزی حکومت کے مظالم اس قدر بڑھ گئے کہ عوام نے مل جل کر حکومت کے خلاف اٹھنے کا ارادہ کرلیا ۔ ایسے میں بہت سارے لوگوں نے عوام کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کی ، تاکہ ایک جٹ ہوکر ظلم کے خلاف لڑیں ۔ اسی اتھل پتھل کے عہد میں مولانا ظفر علی خاں کی پرورش ہوئی ۔ اور چونکہ مولانا ایک دردمندانہ دل لے کر پیدا ہوئے تھے اس لیے جوانی میں ہی جدو جہد آزادی کی طرف راغب ہوگئے ۔ ان کے والد مولوی سراج الدین خود ایک صحافی تھے اور حکومت کے خلاف لڑنے کا جذبہ دل میں رکھتے تھے لہذا انہیں چیزوں نے مولانا کو تحریک آزادی کی طرف متوجہ کیا ۔
مولانا ظفر علی خاں تحریک آزادی اور مسلم لیگ کے سرگرم کارکنوں میں سے تھے ۔ انہوں نے تقریباً چالیس سال تک قلم اور زبان سے برطانوی حکومت کے خلاف جہاد کیا ۔ اور اس پاداش میں ان کو کئی مرتبہ جیل بھی جانا پڑا ۔ مگر اس کے باوجود بھی وہ اپنے مقصد سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے ۔مولانا ظفر علی خاںجب آزادی کے میدان میں پہنچے تو بطور ایک حقیقی انقلابی کے کبھی کسی قربانی سے نہیں ڈرے کیونکہ وہ برطانوی حکومت سے اس قدر تنگ آگئے تھے کہ اس کے خاتمے کے لئے انہوں نے ’’ مر جائو یا مار دو‘‘ جیسے جذبات اپنے ساتھ ساتھ لوگوں کے ذہن میں بھرنے شروع کر دئے ۔ جو ان کی اس نظم ’’ نوید ِ آزادی ہند ‘‘سے پتہ چلتا ہے :
وہ دن آنے کو ہیں آزاد جب ہندوستان ہوگا
مبارک باد اس کو دے رہا سارا جہاں ہوگا
توانا جب خدا کے فضل سے ہم ناتواں ہوں گے
غرور اس وقت انگریزی حکومت کا کہاں ہوگا
اس طرح کے خیالات سے وہ حکومت کی نظروں میں آگئے اور حکومت کے لئے بڑا چیلینج بن گئے ۔ کیونکہ انہوں نے ہندستانیوں کے ذہن میں آزادی کا ایسا بیج بویا جو روزبروز پھیلتا ہی گیا ۔ وہ اپنی نظم ’’ ہندوستان کے مسلمان کا گناہ ‘‘ میں لکھتے ہیں :
میری خطا یہ ہے کہ نہ کیوں میں نے کر دیا
سنگ ِ وفا سے شیش ِ ایماں کوپاش پاش
میرا گناہ یہ ہے کہ کیوں میں نے کردیا
رازِ غلامی صد وپنجاہ سالہ فاش
یہ باتیں انگریزی حکومت کو برداشت نہ ہوئی اور انہوں نے مولانا کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا ۔
ہندستان کی تحریک ِ آزادی میں مولانا ظفر علی خاں کی خدمات ایک زندہ مثال ہے ۔ پہلے پہل تو انہوں نے ہندستان کی آزادی کے لیے بہت جدو جہد کی۔ لیکن بعد میں ان کو اس بات کا احساس ہوا کہ ہندو مسلمانوں کو سازش کا شکار بنا رہے ہیں ۔ ان کے سامنے اس وقت کے مسلمانوں کے حالات تھے کہ وہ کس طرح خواب ِ غفلت میں سو رہے ہیں ۔ وہ اس حقیقت سے بھی واقف تھے کہ اگر مسلمان اسی طرح جمود کی صورت میں رہے تو آگے چل کر ان کے لئے امن سے رہنا دشوار ہوگا ۔ لہذا انہوں نے مسلمانوں کی بیداری کے لیے نظم و نثر کا سہارا لیا ۔ مولانا ظفر علی خان بر صغیر کے مسلمانوں کے لیے دل میں درد رکھتے تھے ۔ وہ ان پر کسی طرح کی عافت نہیں آنے دیتے ۔ ان کا دل مسلمانوں کی غفلت کو دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر روتا تھا ۔ مگر انہوں نے کبھی ہمت نہ ہاری اور ہمیشہ بہادری سے انگریزوں کا سامنا کرتے رہے۔ وہ انگریزوں اور مسلمانوں کے درمیان ایک مضبوط دیوار کی طرح تھے ۔ وہ برطانوی اقتتدار کے خلاف اپنی کی خاطر مسلسل جد و جہد کرتے رہے اور ہندستانی آزادی کے لیے انہوں نے اپنی ذاتی زندگی کو بہت ہی تلخ بنا دیا ۔ لیکن بدقسمتی سے آج کی نسل نے انہیں وہ مقام نہیں دیا جس کے وہ حقدار تھے ۔ حالانکہ ان کی شخصیت اور اہمیت کا عتراف اس وقت کی بڑی اور جامع شخصیات نے کیا ہے ۔ جن میں قاعد ِ اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال شامل ہیں ۔ قاعدِ اعظم محمد علی جناح ان کی قومی ہمدردی سے اس قدر متاثر تھے کہ انہوں نے کہا تھا:
’’ مجھے پنجاب میں ایک دو ظفر علی خان دے دو پھر مسلمانوں کو طاقت شکست
نہیں دے سکتی ۔‘‘
( ڈاکٹر غلام حسین ذولفقار ، ظفر علی خان ادیب و شاعر ، ص ۱۰۴)
اسی طرح علامہ اقبال ان کے متعلق لکھتے ہیں:
’’ ظفر علی خان کے قلم میں مصطفیٰ کمال کی تلوار کا بانکپن ہے ۔ انہوں نے مسلمانانِ
پنجاب کو نیند سے جھنجوڑنے میں بڑے بڑے معرکے سر کیے ہیں ۔ پنجاب کے
مسلمانوں میں سیاسی بیداری اور جوش ایمانی پیدا کرنے کا جو کام مولانا ظفر علی
خان نے انجام دیا وہ تو مثالی ہے ہی لیکن اس سے ہٹ کر دیکھا جائے تو برصغیر
کی تمام قومی و ملکی تحریکیں ان کے عزم عمل کی مرحون منت نظر آئیں گی اور سیاسی
و صحافتی شعرو ادب تو گویا انہیں کی ذات سے عبارت ہوکر رہ گیا ہے ‘‘
مولانا ظفر علی خان نے اپنی سیاسی زندگی کا باقاعدہ آغاز ۱۹۰۶ ء میں مسلم لیگ کے ایک ا جلاس سے کیا ۔ اس وقت ان کی تحریر و تقریر میں اس قدر جوش و ولولہ تھا جو عام انسان کو جذبات کو متاثر کیے بنا نہیں رہ سکتے ۔ رنگون میں مولانا ظفر علی خان نے ۱۹۳۶ ء کو ایک مشہور نظم ’’ نوید آزادی ٔ ہند ‘‘ پڑھی جس کے اشعار ملاحظہ ہو :
وہ دن آنے کو ہیں آزاد جب ہندوستان ہوگا
مبارک باد اس کو دے رہا سارا جہاں ہوگا
توانا جب خدا کے فضل سے ہم ناتواں ہوں گے
غرور اس وقت انگریزی حکومت کا کہاں ہوگا
تحریک آزادی میں مولانا ظفر علی خان کی خدمات زندہ مثال ہیں۔ انہوں نے ملک کی آزادی کے لئے قلم سے جدوجہد کی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب انگریزوں کا ظلم زوروں پر تھا اور انہوں نے پھوٹ ڈالو کی پالیسی کے ذریعے ہندو اور مسلمانوں کے درمیان سخت نفرت پھیلا دی تھی ۔بہر حال اس کے باوجود انگریزوں نے ہندوئوں کی حمایت کی اور مسلمانوں کی مخالفت ۔ مسلمانوں کی پسماندہ حالت کو دیکھ کر سرسید ایک بڑی تحریک چلا چکے تھے مگر کسی پسماندہ قوم کو پائوں پر کھڑا ہونے میں کافی وقت لگتا ہے ۔ بیسویں صدی کے آغاز سے ہی تحریک آزادیبڑی تیزی سے پھیلنے لگ گئی تھی ۔ اس تحریک میں ہندوئوں نے تو بڑھ چڑھ کر حصہ لے لیا تھا مگر مسلمانوں کی بہت کم تعداد اس طرف متوجہ ہوئی ۔ ان مسلمانوں کو جگانے اور تحریک ِ آزادی کو عام کرنے کا کام صرف قلم سے لیا جاسکتا تھا ۔ مولانا ظفر علی خاں نے اسی جذبے کے تحت قلم اٹھایا اور اخبار ’’ زمیندار‘‘ کی ادارت سنبھالی ۔ اس کی ادارت کے لئے انہوں نے کئی ملازمتیں بھی ٹھکرا دیں ۔ اخبار ’’ زمیندار‘‘ نے تحریک آزادی میں ایک اہم رول ادا کیا ۔ جذبہ ٔ آزادی کو عام کرنا ، مسلمانوں اور خاص طور پر پنجابی مسلمانوں کو شعوری طور پر بیدارکرنا ، ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان سے غلط فہمیاں دور کرکے ایک پلیٹ فارم عطا کرنا ، اس اخبارکے نمایاں کارنامے تھے ۔ اس اخبار پر ۱۹۳۴ء میں حکومت نے پابندی بھی عائد کردی تھی مگر انہوں نے حکومت پر مقدمہ کرکے انہیں اپنے احکامات واپس لینے پر مجبور کر دیا ۔ محمود الہی’’ٰ زمیندار ‘‘ کے حوالے سے
لکھتے ہیں کہ :
’’ حریت کامل کے باب میں زمیندار لاہور نے ایک طویل مدت تک ملک و قوم
کی رہنمائی کی ، اس کے اداریے ، اس کے مضامین اور اس کی خبریں کچھ اس طرح
مرتب کی جاتی تھیں کہ وطن کے جانثاروں کو ایک نیا حوصلہ ملتا تھا اور ایسا معلوم ہوتا
کہ اب آزادی کی منزل کچھ اور قریب آگئی ہے ‘‘
’’ انتخاب زمیندار ، مرتبہ پروفیسر عتیق احمد صدیقی ، ۱۹۸۸ء ، ص ۶ )
صحافت کے علاوہ وہ ایک اچھے شاعر بھی تھے ۔ انہوں نے اپنی شاعری سے بھی تحریک آزادی کے جذبے کو عام کیا۔ ۲۳۳ نظموں پر مشتمل ان کا شعری مجموعہ ’’ چمنستان ‘‘ کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ملک کی آزادی کے بڑے مجاہد تھے ۔ اس حوالے سے’’ ہندوستان ‘‘ ، ’’ انقلاب ِ ہند ‘‘،’’ تخت یا تختہ‘‘ ، ’’ فانوس ہند کا شعلہ ‘‘ ، ’’ سخنورانِ عہد سے خطاب ‘‘ ، ’’ محبت ‘‘ ، ’’ جواہر لال نہرو کا فلسفہ ‘‘ ، ’’ شرط آزادی ٔ کامل ‘‘ ، ’’ بزم ِ احباب ‘‘ وغیرہ ان کی اہم نظمیں ہیں ۔ نظم ’’ ہندوستان ‘‘ سے ایک شعر ملاحظہ ہو :
نا قوس سے غرض ہے نہ مطلب اذاں سے ہے
مجھ کو اگر ہے عشق تو ہندوستاں سے ہے
جذبۂ انقلاب کے حوالے سے ان کی نظم’’ انقلاب ہند ‘‘ کے دو اشعار ملاحظہ ہوں :
بارہا دیکھا ہے تو نے آسمان کا انقلاب
کھول آنکھ اور دیکھ اب ہندوستاں کا انقلاب
مغرب و مشرق نظر آنے لگے زیرو زبر
انقلاب ہند ہے سارے جہاں کا انقلاب
منجملہ مولانا ظفر علی خان نے تحریک آزادی میں اپنے قلم کے ذریعے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور سوئی ہوئی عوام کے اندر ایسا جذبہ بھرا کہ عوام کمر باندھ کر آزادی کی راہ پر چل پڑی اور ۱۵ اگست ۱۹۴۷ میں ہندوستان کو آزادی مل گئی ۔
مذکورہ بالا بحث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مولانا ظفر علی خان تحریک آزادی کے ایک سچے جانشین تھے ۔ جنہوں نے قلم کے ذریعے جہاد کیا ۔ انہوں نے صحافت کے ساتھ ساتھ شاعری سے بھی اپنے مقصد کو پورا کرنے کی کوشش کی ۔ تحریک آزادی میں جہاں بڑے بڑے لوگوں کے نام اہمیت کے حامل ہیں وہیں ہم مولانا ظفر علی خان کی کوششوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے ۔
***