You are currently viewing آزادیِ ہند   میں ترقی پسند تحریک کا کردار

آزادیِ ہند   میں ترقی پسند تحریک کا کردار

محمد عارف

ریسرچ اسکالر

جواہر لال نہرو یونی ور سٹی،نئی دہلی،۱۱۰۰۶۷

آزادیِ ہند میں ترقی پسند تحریک کا کردار

         برطانوی نظام کے تحت جب پورا ہندوستان غلامی کی زندگی جی رہا تھا۔معاشی و معاشرتی طور پر عوام مفلوک الحال ہو چکی تھی کہ جن میں نہ تو تعلیم کی کوئی رمق باقی تھی اور نہ ہی ان میں علمی شغف باقی تھا۔باقی تھی تو بس وہی افسردگی اور مفلسی۔ چند تعلیم یافتہ حضرات نے اس غلامی کے خلاف اندرونے خانہ تحریکات کا سلسلہ شروع کیا مگر یہ اتنا کارگر نہ ہوا کیوں کہ یہ مغربی ظلمی سامراج اتنا مضبوط ہو چکا تھا کہ اس کی بنیادوں کا ہلا دینا کوئی آسان کام نہیں تھا۔اس ظالم حکمرانی کے جڑیں اسی وقت اکھڑ سکتی تھیں کہ جب عوام میں تعلیمی سرگرمیاں پیدا ہوں۔معاشیاتی تنگ دستی سے چھٹکارہ حاصل ہواور آپسی میل جول بہتر ہو۔ آزادی کے لیے ایک طرف ہزاروں ،لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش دیا گیاجوآگے چل کر ایک جنونی کیفیت اختیار کر گیاتودوسری طرف ایسا ادب تخلیق کرنے کی سعی ہوئی کہ جو عوام میں غلامی اور احساس کمتری کو ختم کر سکے۔اس ضمن میں علی گڑھ تحریک نے اہم رول ادا کیا۔ اس تحریک نے جہاں ادب تخلیق کرکے لوگوں کی اصلاح کرنے کی کوشش کی تو دوسری طرف لگاتارلوگوں کے لیے علمی، سماجی اور سیاسی راستوں کو ہموار کیاجس کا مقصد بیک وقت فرد کو تعلیم یافتہ ، ترقی یافتہ بنانا تھا تاکہ وہ خود سے اُن سماجی اورمعاشی الجھنوں کا مداوا تلاش کرسکے جو آنے والی نسلوں کے قویٰ کو مضبوط بنائے۔اس تحریک کا آغاز اگرچہ جنگِ آزادی سے پہلے ہی ہو چکا تھا مگر ۱۸۵۷؁ء کی جنگِ آزادی جو ناکامی کی دلیل بنی جس کی وجہ سے لوگوں کی حالت بد سے بدتر ہو گئی تھی جن میںنہ تو ترقی کی کوئی کرن موجود تھی ناہی معاشیاتی ہم آہنگی تھی ۔ایک بے چارگی کی لہرہر کس و ناکس کے اندر دوڑچکی تھی جس کی وجہ سے لوگوں میں حساسیت معدوم ہو گئی تھی ۔ان چیزوںنے سرسید پرگہرے اثرات مرتب کیے اورساتھ ہی ان حالات کے پس منظر میںجو واقعات و حادثات رونما ہوئے ان واقعات نے اس تحریک کی بنیاد کو مضبوط کیا۔ اس تحریک نے تعلیم کو ترقی کی معراج قرار دیا۔اور ساتھ ہی یہ پیغام بھی عام کیا کہ ظالم کے خلاف لڑنے کے لیے علم ہی وہ واحد ہتھیار ہے جس کا حصول قوم کو منظم اور مستحکم کرکے اس ظلم کا مداوا کرسکتا ہے ۔

         اس آزادی کی بازگشت ہمیںغالب،حالی ،شبلی،ابوالکلام آزاد،مولاناظفر علی خاں،سرسید اور رفقائے سر سید بلکہ اس دور کے ہر ادیب و شاعر کی نظموں،غزلوں اور مضامین میں سنائی دیتی ہے۔ ہر دور کا ادب ادیب سے اس وقت کے حالات کی ترجمانی کرنے پر ابھارتا ہے ۔ اسی لیے آزادی کے حصول کے لیے ادیبوں نے جذبات کو برانگیختہ کرنے والا ادب تخلیق کیا اور جس نے عوام کے دلوں میں اس جذبے کو اور بھڑکا دیا۔علی جوا د زیدی لکھتے ہیں:

         ’’ہر جیتاجاگتاادب اپنے زمانے کے اہم رجحانات اور مقتضیات کا آئینہ دار ہوتاہے۔ ادیب حقیقتاََسوسائٹی کے حساس ترین طبقے کے نمائندئے کی حیثیت سے معاشرے کے احساسات کی ترجمانی پر مجبور ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی تاریخ کا ہر وہ اتار چڑھاوٗجس کا اثر دور رس اور ہمہ گیررہا ہے اردو ادب کی تاریخ کا بھی ایک جزء لا ینفک بن گیا ہے۔ایسی حالت میںہماری آزادی کی داستان سے ہمارے ادب کی تاریخ کے صفحات خالی کیسے رہ سکتے تھے؟۔۔ہماری تحریک آزادی کی تاریخ کافی طویل ہے ۔آزادی کا نعرہ منظم طور سے پہلی بار ۱۸۵۷؁ء میں بلند کیا گیا ۔‘‘۱؎

         دنیا میںجہاں کہیں بھی انقلاب آیا تو وہاں کے ادیبوں نے اپنے لٹریچر اور ادب میں اس انقلاب کے رد و قبول کو تسلیم کرکے ادب تخلیق کیا۔کیونکہ ادیب معاشرے کی حساس ترین شخصیت کا مالک ہوتا ہے اس لیے اس کے ادب میں آزادی کی امنگ ہونا لازمی بات ہے۔ انیسویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک بہت سے انقلاب رونما ہوئے جن میںکچھ کامیاب ہوئے توکچھ کا اثر کچھ دنوں کے بعد ختم ہو گیا۔انھیں میں ایک روسی انقلاب تھا جس نے ہندوستان کے ادیبوں اور ان کے ادب کو بے حد متاثر کیا جو بعد میں آزادیِ ہندکے سور پھونکے کا ذریعہ بنا صرف یہی نہیں بلکہ یہاں کے ادیبوں کا روسی ادیبوں کے ساتھ اچھا خاصا میل جول بھی تھا۔آزادی کے جذبے نے۱۹۳۵ء مین لندن میں ترقی پسند تحریک کی بنیاد رکھی ۔جس نے آگے چل کر ہندوستان کی آزادی میں نمایاں کام انجام دیا ۔اس کے مینی فسٹو میں صاف الفاظ میں کہا گیاتھا کہ ادیب ظلم و زیادتی اور اس سامراجی غلامی کے خلاف آواز اٹھائیں گے۔آزادی اور جذبہ اتحاد کو پیش نظر رکھیں گے۔محنت کش مزدوروں اور کسانوں کے حقوق کی بات کریں گے اورماضی کی عظیم تہذیبی اقدارسے صلح کریں گے،اسی وجہ سے ترقی پسند تحریک کے زیر اثر جو ادب تخلیق ہوا،اس ادب نے آزادی کے شعلوں کو اور تیز بھڑکا کر آزادی کے لیے نئے راستے ہموار کیے۔

         ۱۹۰۰ء کے بعد ہندوستان میںاس سامراج کے خلاف ایک اچھا خاصا ماحول تیارہو چکاتھا۔ساتھ ہی ملک کے حالات تیزی سے بدل رہے تھے۔ علی گڑھ تحریک نے ترقی پسندوں کے لیے آزادی کا جو راستہ ہموار کیاتھا۔ترقی پسندوں نے اسی ڈگر کو مستحسن سمجھا۔بس ادب کی تخلیق کو آزادی سے معلق کر دیا تھا۔اس بدلتے ماحول میں ترقی پسندشاعر وںاور ادیبوںنے آزادی کی شمع کو اور تیز کر کے اپنی شاعری اورنثر دونوں سے حکومت وقت پر ضرب کاری لگانے کا کام کیا۔ہر ایک نے اپنی اہلیت کو سمجھ کر ملک کو آزادی دلانے میں مدد کی،جیسے چکبست ،سرور،تلوک چند محروم نے حب الوطنی کے جذبات سے قوم کو بیداری کا پیغام دیا ،فیض نے انقلاب کا نعرہ بلند کیا۔جوش،مجاز اورعلی سردار جعفری نے غریب کسانوں اور مزدوروں کی حمایت میں نظمیں لکھ کر ان کو بیدار کیا۔علامہ اقبال نے اسی جذبے کو اور سرخی اور گہرائی عطا کی۔اقبال کے بیداری کے پیغام نے پورے ایشیا میں احساس کمتری کو ترک کرکے آزادی کے جذبے کو بڑھانے کی کوشش کی ساتھ ہی ہندوستان میں آزادی کی نئی امنگ پیدا کی۔علی سردار جعفری ،اقبال کو ترقی پسند افکار کا حامل مانتے تھے کیونکہ اقبال بھی اس تحریک کی وقتی طور پر حمایت کرتے تھے اوروہ کہتے تھے کہ مجھے ترقی پسند اور سوشلزم پسند ہے۔

         ترقی پسند تحریک کی متعدد کانفرنسیں منعقدہوئیں جن کانفرنسوں نے ہندوستان کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا۔بہت سی شکست و ریخت کا سامنا کیا،مگرسب ایک سات مل کر اس برطانوی سامراج کے خلاف کھڑے رہے۔ ترقی پسند تحریک کے ایک ممتاز رکن اختر حسین رائے پوری جو اس وقت کافی مشہور تھے جنھوں نے ’ادب اور انقلاب ‘مقالہ لکھ کر آزادی کے لیے آواز اٹھائی تھی جس کو کافی مقبولیت بھی حاصل ہوئی تھی وہ اس مقالے میں ترقی پسندوں کو جُہدِآزادی میں عملی حصہ لینے کی تلقین کرتے ہیں :

’’اگرہم ترقی پسندہیںاورہمارا ادب اپنے فرض کاپابندہے توہمیںاس جنگ میںعملی حصہ لینا ہوگا۔ہماری دعائیں اور بد دعائیں کچھ بنا نگاڑ نہیں سکتیں۔اس انجمن کا کام یہیں پر ختم نہیں ہوتا کہ ہم کبھی کبھار مل بیٹھیںاور بحث مباحثہ کے بعد اپنے اپنے گھر کی راہ لیں اور کان میں تیل ڈال کر سوجائیں ۔اس طرح شخصٰت کی اصلاح تو ممکن ہے لیکن اپنے ماحول کو ہم زیادہ متاثر نہیں کر سکتے۔‘‘۲؎

         ۱۹۳۶ء کی پہلی ترقی پسند کانفرنس میں پریم چند کا خطبہ بہت ہی وقیع اور اہمیت کا حامل ہے جس میں انھوں نے بالکل کھلے الفاظ میں ادب کی ادبیت اور ادب کی تخلیقیت کے مقصدکو زیر بحث لاتے ہوئے کہا تھا:

’’ہماری کسوٹی پر وہ ادب کھرا اترے گا جس میں تفکر ہو ،آزادی کا جذبہ ہو،حسن کا جوہر ہو،تعمیر کی روح ،زندگی کی حقیقتوںکی روشنی ہو،جو ہم میں حرکت ،ہنگامہ اور بے چینی پیدا کرے،سلائے نہیں کیونکہ اب زیادہ سونا موت کی علامت بن چکا ہے ۔‘‘۳؎

         حسرت موہانی جنھوں نے پوری زندگی سیاست سے وابستگی رکھی اورجُہدِآزادیِ ہند میں ساری عمر کھپا دی۔وہ ترقی پسندفکر کے بہت بڑے حامی تھے۔انھوں ہر کانفرنس میں آزادی کے جذبے کو تیز کرنے کے لیے پر اثر تقریریں کیں ۔وہ بھی ادب کی تخلیق کو وقت کے تقاضے کے تحت آزادی کا جوہر سمجھتے تھے۔وہ اس پہلی کانفرنس میں یہ اعلان کرتے ہیں:

’’ہمارے ادب کو قومی آزادی کی تحریک کی ترجمانی کرنی چاہیے ۔اسے سامراجیوں اور ظلم کرنے والے امیروں کی مخالفت کرنی چاہیے ۔اسے مزدوروں اور کسانوں اور تمام مظلوم انسانوں کی طرف داری اور حمایت کرنی چاہیے۔اس میں عوام کے دکھ سکھ ان کی بہترین خواہشوں اور تمناوٗں کا اظہار اس طرح کرنا چاہیے جس سے ان کی انقلابی قوت میں اضافہ ہو اور وہ متحد و منظم ہوکر اپنی جد و جہد کو کامیاب بنا سکیں۔‘‘۴؎

         اس وقت ترقی پسند تحریک کے علاو ہ کانگریس اور دوسری پارٹیوں کی آوازیں بھی اس برطانوی سامراج کے خلاف اٹھ رہی تھیں۔ان کے یہاںبھی اسی طرح کے درد و کرب کی داستانیں تھیںجو ملک کو آزاد کرانے میں مددگار ثابت ہو سکتیں تھیںاسی لیے عوام ان سے بھی متاثر ہو کر جڑ رہی تھی۔ترقی پسند تحریک کی دوکانفرنسیں الہ آباد میںمنعقد ہوئی جو اگرچہ کل ہند کانفرنسیںنہ تھیںمگر اس میںبڑے بڑے ادیب شامل ہوئے ساتھ ہی جواہر لال نہرو نے اس کانفرنس میں تقریر کی اور ٹیگور نے ترقی پسند ادیبوں کے نام ایک پیغام بھیجا تھا۔پنڈت جواہر لال نہرو کی تقریر اس سلسلے میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔ انھوں نے اپنی تقریر کے ذریعے ادیب اور سماج کے باہمی رشتے کو اجاگر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ادیب اپنے دور کے سماج کا نمائندہ ہوتا ہے ۔انھوں نے ادیب کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا:

’’ادیب کی پہنچ جہاں ہوتی ہے وہاں سیاست داں کی نہیں ۔اس کے پاس عام لوگوں کی زبان ہوتی ہے۔اس سے مدد لے کر وہ خیالی دنیا اور موجودہ دنیا کے درمیان ایک پل بناتا ہے جس پر ہو کر عام لوگوں کے دماغ خیالی دنیا تک پہنچ جاتے ہیں۔‘‘۵؎

         آخر میں انھوں نے آزادی کی بابت ایک اہم بات کہی تھی کہ یورپ کی ترقی پسند مصنفین جیسی انجمنوںکا عوامی بیداری اوران میں خودداری کو پیدا کرنے میں بڑا ہاتھ ہے۔اس ایک جملے میں انھوں پوری بات واضح کردی کہ جیسے یوروپین ممالک کی آزادی ایسی ہی فعال تحریکوں کی مرہونِ منت ہے اسی طرح ہندوستان کی آزادی میں ترقی پسند تحریک یہی کام انجام دے سکتی ہے۔ادیبوں کوخطاباََ کہتے ہیں:

’’آنے والے انقلاب کے لیے ملک کو تیار کرنا ،اس کی ذمہ داری ادیب پر ہوتی ہے۔آپ لوگوں کے مسئلوں کو حل کیجیے ،ان کو بتائے لیکن آپ کی بات آرٹ کے ذریعے ہونی چاہیے نہ کہ منطق کے ذریعہ۔آپ کی بات ان کے دل میں اترجانی چاہیے۔‘‘۶؎

         ترقی پسندمصنفین کے ایماپر۱۹۴۰ء کے آس پاس لکھنوٗ سے سبطِ حسن نے آزادی کی نظموں کے عنوان سے ایک مجموعہ مرتب کیا جس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں غالب سے کر ۱۹۴۰ء تک کے شعرا کی وہ نظمیں شامل کی گئیں جو قومی بیداری اور جُہد آزادی کی قوت کو بڑھانے کی صلاحیت رکھتی تھیں ۔جس طرح برطانوی حکومت نے پریم کے افسانوی مجموعہ ’سوزِ وطن‘ کی اشاعت کے بعد اس کی کاپیوں کو جلا دیا تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ادب میں وہ طاقت ہے جو لوگوں کوحقیقت سے آشناکرکے اس سامراج کے خلاف کھڑا کر سکتا ہے اسی طرح اس کتاب کی اشاعت بھی باعثِ فتنہ جان کر فوراََ ضبط کرلی گئی۔اس کا دیباچہ رفیع قدوائی نے لکھا ہے جس میں انھوں نے اردو شاعری کے حوالے سے آزادی کے ارتقائی تصور کی اہمیت سے بحث کرتے ہوئے کہا:

’’آزادی کی نظموں زیر نظر نظموں کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ احساس ِغلامی کے ارتقا کی تاریخ ہے۔مجھے خوشی ہے کہ مرتب نے انتخاب کی بنیاد قومی زندگی کی حقیقتوں پر رکھی ہے ۔اس انتخاب سے اس دعوے کی بھی کہ ادب اور زندگی کا چولی دامن کا ساتھ ہے ،تائید ہوتی ہے۔اگر ان نظموں کو غور سے پڑھا گیا تو نہ صرف آزادی کے تصور کا تدریجی ارتقا واضح ہوجائے گا بلکہ یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ آج ہم کس منزل پر ہیں،ہمارے رجحانات کیا ہیںاور ہماری آئندہ منزل کیا ہوگی۔‘‘۷؎

         دوسری اور تیسری کانفرنس کے دوران یہ تحریک کچھ تعطل کا شکار ہو گئی تھی کیونکہ اس وقت سجاد ظہیر کے علاوہ بہت سے ترقی پسند جیلوں میں قید تھے۔دوسری طرف جنگ عظیم دوم سر پر کھڑی تھی ۔ساتھ ہی(Quit india)تحریک بھی چل رہی تھی جس کی وجہ بہت سے کانگریسی لیڈر بھی گرفتار ہوئے تھے، دوسری طرف جاپان نے اپنی فوجیںہندوستانی سرحدوں تک لا کھڑی کیں،اس طرح پورا ملک درد و کرب اور بے چینی میں ڈوبا ہوا تھا۔سجاد ظہیر اور دوسرے لوگ جب رہا ہوئے تو عالمی سیاسی صورت حال کافی بدل چکی تھی۔ ۱۹۴۲ء میںترقی پسندوں کی تیسری کانفرنس جو کہ دہلی میں منعقد ہوئی تھی تواس کانفرنس میں جنگ کے متعلق یہ پالیسی اور قرار داد اپیش کی گئی کہ تر قی پسند اتحادی اقوام کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہونگے اور فاشزم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں گے ۔ترقی پسندوں کی چوتھی کانفرنس میں اس با ت پر زور دیا گیا کہ اب چونکہ ملک کے حالات کافی سنگین ہو چکے ہیں لہذا ایسے حالات میں ہندوستان کے ترقی پسند مصنفین کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کی حفاظت کے ساتھ ساتھ لوگوں کو بیدار کرتے رہیں،تاکہ اس کے ذریعے قوم کو متحد اور منظم کرکے آزادی کے لیے آمادہ کیا جا سکے۔اس کے بعد ۱۹۴۵ء میں روسی انقلاب رنگ لایا اور انھوں نے اس استبدادی نظام سے خود کو آزاد کرا لیا۔ روس میں ظلم و ستم کی داستان سے سب واقف تھے اس لیے ہندوستان نے بھی روس کی فتح سے دنیا کے ظلم سے ستائی ہوئی انسانیت کو آزادی کے خواب سے تعبیر کیا ۔اس فتح نے ایشیائی ممالک میں بیداری کے جذبے کو جنم دیا ۔ساتھ ہی اب ہندوستان میں آزادی کی لوٗ بہت تیز ہو چکی تھی اور ترقی پسند شاعروں اور ادیبوں کے ادب میں ایک جوشیلا عنصر شامل ہو گیا تھاجس میں آزادی کے خواب کی بُنت تھی۔پھر تلنگانہ تحریک نے زور پکڑا جس کے ذریعے انگریزوں کو اچھے سے سبق سکھایا گیا اور ساتھ ہی ترقی پسندوں نے بھی اس تحریک کی حمایت میں بہت سی نظمیں لکھیں۔

         جوش ملیح آبادی جو کہ سخت گیر ترقی پسند اور اس برطانوی سامراج سے انتہائی نفرت کرتے تھے ،وہ اس کے خلاف نظمیں لکھتے رہے جن میں بڑی گھن گرج تھی۔ ان کی نظم’’ شکستِ زنداں کا خواب‘‘ ایک انقلابی نظم ہے جس میں لوگوں کو بیدار کرنے کی انتہائی صلاحیت موجود تھی ۔اس کے کچھ اشعار ملاحظہ کریں۔

کیا  ہند کا  زنداں کانپ رہا ہے گونج رہی  ہیں تکبیریں

اکتائے  ہیں  شاید کچھ قیدی اور توڑ رہے ہیںزنجیریں

کیا  ان کو خبر تھی زیر  و  زبر رکھتے تھے جو  روح ِ  ملت کو

ابلیں گے زمیں سے مارِ سیہ برسیں گی فلک سے شمشیریں

سنبھلو کہ وہ زنداں گونج اٹھا جھپٹوکہ وہ قیدی چھوٹ گیے

اٹھو کہ وہ بیٹھیں  دیواریں  دوڑو کہ وہ  ٹوٹی  زنجیریں

         جوش اور ساغر نظامی کے مشترکہ خیالات و احساسات، اخبارات میں شائع ہوئے ان کایہ پیغام تھا کہ ہندوستان کی کی کامل آزادی اور ایک سوشلسٹ نظام حکومت ہمارا منتہائے خیال ہے ۔ایک طرف ضمیر کے تقاضات ہیں دوسری طرف بین الاقوامی حالات اس قدر تشویش ناک صورت اختیار کر تے جا رہے ہیں کہ کوئی باہوش اور حساس انسان خاموش نہیں رہ سکتا۔اس کے بعد ترقی پسند وں نے آزادی کی جد و جہد کی لَوٗکو اور تیز کر دیا،مجاز،مخدوم اور اختر انصاری نے اس فاشزم کے خلاف نظمیں لکھنا شروع کیں ۔مجاز کی ترقی پسند تحریک سے گہری وابستگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔انھوں نے ایک طرف ’انقلاب‘’سرمایہ داری‘’آہنگ نو‘’اندھیری رات کا مسافر‘’ایک جلا وطن کی واپسی‘’خواب سحر‘جیسی سیاسی نظمیںلکھیںتو دوسری طرف’ہمارا جھنڈا‘’مزدوروں کا گیت‘’بول ارے او دھرتی بول‘جیسے گیت لاچار مزدوروں کے لیے لکھے۔مجاز کی شاعری کی تشکیل ایسے ماحول میں ہوئی جب سماجی کشمکش اور تہذیب و تمدن میں تیزی سے تبدیلی آ رہی تھی۔ان کی نظم کے یہ اشعار جو فیض نے آہنگ کے دیباچہ میں نقل کیے ،ملاحظہ کریں:

اک نہ اک  در  پر جبینِ شوق گھستی  ہی  رہی

آدمیت  ظلم  کی  چکی  میں  پستی ہی رہی

رہبری  جاری   رہی ،  پیغمبری  جاری  رہی

دین کے پردے میں جنگ ِ زر گری جاری رہی

ذہن  انسانی  نے اب اوہام کے ظلمات میں

زندگی  کی  سخت طوفانی  اندھیری رات میں

کچھ نہیں تو کم سے کم  خوابِ سحر  دیکھا  تو ہے

جس طرف دیکھا نہ تھا ابتک ،اُدھر دیکھا تو ہے

         ان کے ہم عصرانقلابی شاعروںمیں علی سردار جعفری،فیض احمد فیض،کیفی اعظمی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔سردار جعفری کا ماننا ہے کہ اگرحق مانگنے سے نہ ملے تو اسے چھین کر حاصل کرو۔’ایک خواب اور‘ میں لکھتے ہیں:

’’خواب اور شکستِ خواب اس دور کا مقدر ہے ۔اور نئے خواب دیکھنا انسان کا ایک ایسا حق جس سے کوئی طاقت ،کوئی اقتدار اُسے محروم نہیں کر سکتا۔اور شاید یہی انسان اور انسانیت کے مستقبل کی ضمانت ہے۔‘‘۸؎

         ان کی نظمیں ’انقلاب روس‘’جشنِ بغاوت‘اور’سیلاب چین‘باغیانہ اور فاشزم کے خلاف ردِ عمل ہیں۔ان کی زبان عوامی ہے کیونکہ وہ عام انسان کو بیدارکرنے سے عبارت ہے ۔وہ اپنے شعری مجموعے ’امن کا ستارہ‘ میں اپنی شاعری کی مقصدیت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’میری شاعری خواص کے لیے نہیں ہے بلکہ عوام کے لیے ہے اور میری خواہش اور کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اسے سمجھ سکیں ،کارخانوں میں کام کرنے والے مزدور اور کھیتوں میں ہل جوتنے والے کسان۔۔۔میں عام طور سے اچھی شاعری میںبازاری محاوروں اور زبان کا استعمال اچھا نہیں سمجھتا۔لیکن ایک ایسے سماج میں جس کی اکثریت کا بڑا حصہ جان بوجھ کر اَن پڑھ اور جاہل رکھا گیا ہو اگر عوامی شاعری بازاری محاوروں اور الفاظ سے نہیں بلکہ گالیوں سے بھی کام لے تو کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ ہم جس طبقے کے خلاف جد و جہد کر رہے ہیں اس کے کردار و افعال اتنے گھناونے ہیں کہ ہماری زبان کے مہذب الفاظ اس گھناونے پن کو ادا کرنے سے قاصر ہیںاس لیے ان کے خلاف نفرت کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے بازاری محاوروں اور الفاظ کو یہ سماجی فریضہ انجام دینا ہوگا۔‘۹؎

         بہر حال وہ دن آیا کہ ہندوستان آزادی سے ہمکنار ہوایعنی ۱۵اگست ۱۹۴۷ء میں ہندوستان مکمل طور پر اس ظالم حکمرانی کے تسلط سے آزاد ہو گیا۔لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کرکے حکومت وقت کو جھکا دیا گیااور اس غلامی نظام سے نجات پالی گئی بہت سی زبانوں کی بازگشت اس آزادی میں سنائی دیتی ہے وہیںہندوستان کی اس آزادی میں اردو ادب کا کردار واضح دکھائی دیتا ہے جس کی ابتدا سرسید نے کی اور حصول ِآزادی ترقی پسندوں کے حصے میں آئی۔علی جواد زیدی لکھتے ہیں:

’’جنگ ِآزادی کے ہراہم موڑ پر اردو ادب نے ترقی پسند عناصر کا ساتھ دیا ہے۔اردو ادب بھی جنگ آزادی کا ایک اہم سپاہی ہے۔‘‘۱۰؎

         ترقی پسند تحریک نے اس آزادی میں جو کردار ادا کیا تھا وہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔انھوں نے بہت سی صعوبتوں کا سامنا کیا لیکن کبھی بھی اس غلامی کی زندگی کو برداشت نہیںکیا،علی سردار جعفری کا لب و لہجہ کافی سخت ہے اپنی نظموں میں وہ کرداروں کے ذریعے قاری کو ایک ایسے ماحول سے رو بہ رو کرتے ہیںجو اس میں آزادی کی روح پھوکنے کا کام کرتی ہیں۔ وہ اپنی کتاب ’ترقی پسند ادب ‘میں اس کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’یہ تحریک اس اعتبار سے ماضی کی بہترین روایات کا تسلسل ہے کہ یہ انسان دوستی،عقل پسندی،حب الوطنی،سامراج دشمنی اور آزادی کے جذبے کو لے کر آگے بڑھی۔لیکن اس اعتبار سے یہ بالکل نئی تحریک ہے کہ اس نے عوام کی ز ندگی پر ادب اور فن کی بنیاد قائم کی۔‘‘۱۱؎

         اس آزادی سے ہر ایک خوش اور شادمان تھااور ترقی پسندوں نے بھی اس جشن میں خوش و خرم ہوکرحصہ لیا۔ ترقی پسندوں نے اردو ادب کے ذریعے جنگ آزادی کے مختلف مراحل کہ جن میں ان کی نظمیں ضبط ہوئیں،ان کے افسانے جلائے گیے،بذات خود وہ گرفتار بھی ہوئے مگر وہ کسی بھی طرح اس آزادی کو حاصل کرنا چاہتے تھے اور وہ اس میںکامیاب ہو کر رہے۔ترقی پسندوں کا مینو فسٹو کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ عوام سے ہی ان کی توقعات وابستہ تھیں ان کا مشغلہ بھولی عوام کو بیداری کا پیغام دینا تھا اوران کی استحصالی کیفیت کو دور کرنا تھا۔اس طرح اردو ادب نے جنگ ِآزادیِ ہند میں اپنا اہم کردار ادا کیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حواشی

         ۱۔علی جواد زیدی،تعمیری ادب ،ادارہ انیس اردو الہ آباد،۱۹۵۹ء،ص ۱۰۱

         ۲۔اختر حسین رائے پوری،ادب اور انقلاب،ادارہ اشاعت اردو حیدرآباد،۱۹۴۳ء،ص ۱۱۹

         ۳۔بحوالہ ،خلیل الرحمن اعظمی ،اردومیں ترقی پسندادبی تحریک،ایجوکیشنل بک ہاوٗس،علی گڑھ،۴۵

         ۴۔ایضا۔ص ۴۶

         ۵۔ایضا۔ص ۵۳

         ۶۔ایضا ۔ص ۵۴

         ۷۔سید سبط حسن،تعارف ،آزادی کی نظمیں،اترپردیش اکادمی ایڈیشن،۱۹۸۵ء،ص ۱۴

         ۸۔علی سردار جعفری،ایک خواب اور،حلقہ ادب ،ممبئی ،۱۹۶۵ء،ص ۱۳

         ۹۔علی سردار جعفری،امن کا ستارہ ،کتب پبلیشنر لمیٹیڈ،ممبئی،۱۹۵۰ء،ص ۱۰

         ۱۰۔علی جواد زیدی ،تعمیری ادب،ادارہ انیس اردو الہ آباد،۱۹۵۹ء،ص ۱۱۰

         ۱۱۔سردار جعفری،ترقی پسند ادب،انجمن ترقی اردو ہند،نئی دہلی،۲۰۱۳،ص ۱۶۴

***

Leave a Reply