You are currently viewing جدیداُردو غزل کی تشکیلِ نو میں  شاعرات کا حصہ:انتخاب و تجزیہ

جدیداُردو غزل کی تشکیلِ نو میں  شاعرات کا حصہ:انتخاب و تجزیہ

عظمیٰ نورین

شعبہ اُردو(گورنمنٹ ویمن یونیورسٹی،سیالکوٹ)

uzmanoreengcwus@gmail.com

محسن خالد محسنؔ

شعبہ اُردو(گورنمنٹ شاہ حسین ایسوسی ایٹ کالج،چوہنگ،لاہو)

mohsinkhalid53@gmail.com

Uzma Noreen

Department of Urdu

Govt.Women College University Sialkot

Mohsin Khalid Mohsin

Department of Urdu

Govt.Shah Hussain Associate College Lahore

جدیداُردو غزل کی تشکیلِ نو میں  شاعرات کا حصہ:انتخاب و تجزیہ

 

The role of poets in the reconstruction of modern Urdu ghazal: selection and analysis

ABSTRACT

In the evolution of Urdu ghazals, where poets have contributed a lot, women poets have also played an important role in advancing its evolution. Instead of traditional themes, women poets have tried hard to present the specific social, political, economic, and moral situation of their era through ghazals and have given the impression through their poetic sensibility that women are more sensitive, conscious, and intelligent than men. Has understanding and a deep understanding of the whole narrative of social change.In this paper, poets from Parveen Shakir to Samina Gul have been critically evaluated, and it has been made to prove that female poets have enriched the genre of ghazal more than male poets and played a key role in its evolution.

Keywords: Urdu Ghazal, Persian Poetic tradition, Social Change, Urdu Poets, Literature, Human Emotions. Feminine Consciousness, Modern Trend, Pakistani Society, Indian Culture

خلاصہ:اُردو غزل  کی تشکیلِ نو میں جہاں شعرا نے بھر پور حصہ ڈالا وہیں شاعرات نے بھی اس کے ارتقا کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ شاعرات نے روایتی موضوعات کی بجائے اپنے عہد کی مخصوص سماجی، سیاسی،معاشی اور اخلاقی صورتحال کو غزل کے توسط سے پیش کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور شاعرانہ حسیت سے یہ تاثر دیا ہے کہ  عورت مرد کے مقابلے میں زیادہ حساس، باشعور  ،تعقل فہم ہے اور سماجی بدلاو کے جملہ بیانیے کا گہرا ادراک رکھتی ہے۔ اس مقالہ میں پروین شاکر سے ثمینہ گل تک شاعرات کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے جس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ شعرا کے مقابلے میں صنفِ غزل کو شاعرات نے زیادہ تقویت بہم پہنچائی ہے اور اس کے ارتقا میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

کلیدی الفاظ: اُردو، غزل ،ایرانی شعری روایت، پاکستانی معاشرہ، جدید رجحانات،داخلی ادراک،،کلاسیکی آہنگ،تانیثی شعور،نسائی جذبات،خواتین شاعرات،انڈین کلچر،معاشرتی جبر،اُسلوب ،پیکر تراشی

اُردو غزل کے ارتقا میں جہاں مر دشعرا نے بھر پور حصہ ڈالا وہاں شاعرات بھی  پیچھے نہیں رہیں۔ ماہ لقا سے لے کر پروین شاکر تک اور پروین سے لے کرفریحہ نقوی  تک خواتین شاعرات نے صنفِ غزل کو عزت دی اور جذبات و احساسات کے جملہ اظہار کے لیے اس صنف کو اختیار کیا۔ ذیل میں اختصار سے خواتین شاعرات کی کاوشات کو اردو غزل کے ارتقا کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔

اُردو غزل میں نسائی آواز کو متعارف کروانے والی ممتاز شاعرہ پروین شاکر کا نام بڑے احترام سے لیا جاتا ہے ۔ پروین شاکر نے اُردو غزل میں ریختی کے بعد پہلی دفعہ نسائی جذبات کو پیش کیا ۔ اُردو غزل میں خواتین کی دبنگ انٹری پروین شاکر سے ہوئی جس نے اُردو غزل کو وہ کچھ عطا کیا جو صدیوں سے غزل کے  حصے میں نہ آیا تھا۔

پروین کی غزل کا رنگ نسوانی جذبات و احساسات کی بھر پور ترجمانی سے مامور ہے۔ ڈاکٹر خالد علوی نے لکھا:” غزل میں نسائی لب ولہجہ کی ابتدا کا سہرا پروین شاکر کے سر بندھتا ہے۔ پروین نے “خوشبو” کے ذریعے اُردو غزل کو نسائی جذبات سے آشنا کیا”۔۱؎پروین شاکر نے غزل میں عورتوں کے روزمرہ استعمال کی اشیا  کا ذکر پہلی بار کیا ہے جس سے ارد وغزل کے نسائی امکان کو وسعت ملی ہے۔

؎         ”اب تو ہجر کے دُکھ میں ساری عمر جلنا ہے/پہلے کیا پناہیں تھیں،مہرباں چتاوں میں

؎         کچھ اتنی تیز ہے سُرخی کہ دل دھڑکتا ہے/کچھ اور رنگ پسِ رنگ ہے گلابوں  میں“

پروین شاکر کی ہمعصر فہمیدہؔ ریاض نے اُردو نظم کو زیادہ برتا۔ آزاد نظم میں انھوں نے ممنوعہ موضوعات پر کھل کر لکھا اور تنقید و تذلیل کی زد میں رہنے کے باوجود اپنے فکری تلازموں اور منفرد سوچ کو سامنے میں جُتی رہیں۔ انھوں نے غزل  میں بھی طبع آزمائی کی ۔

؎         ”وہ واسطے کی طرح درمیاں میں کیوں آئے        خدا کے ساتھ مرا جسم کیوں نہ ہو تنہا

؎         جو میرے لب پہ ہے شاید وہی صداقت ہے       جو میرے دل میں ہے اس حرفِ رائیگاں پہ نہ جا“

زہرہ نگاہ کا شمار عہدِحاضر کی معمر شاعرات میں ہوتا ہے جنھوں نے آزاد نظم کو اپنے شعری افکار سے وقار بخشا۔ انھوں نے ستر کی دہائی میں لکھنا شروع کیا اور ہنوز  تخلیقی سفر جاری ہے۔ ان کی آواز جاندار اور ناقابلِ فراموش ہے۔ زہرہ  نے زبان کی صفائی ،بے ساختگی اور روانی کا خاص خیال رکھا ہے۔ ان کی نظموں کا کینوس بہت ترشا اور مرصع کیا ہوا ہے۔ غزل بہت کم کہی لیکن خوب کہی۔

؎         ”شہرت کے گہرے دریا میں ڈوبے تو پھر اُبھرے نہیں     جن لوگوں کو اپنا سمجھا جن لوگوں سے محبت کی

؎         ستم تو یہ ہے کہ ہر سیلِ بے لحاظ کے بعد  کوئی گہر بھی نصیبوں میں ساحلوں کے نہیں“

پروین فنا سید کا شمار بھی جدید ترین غزل گو شعرامیں ہوتا ہے جنھوں نسائی لب و لہجے کو ایک توانا آواز دی اور ردعمل کی تمام قوتوں کو اپنے شعوری ادراک سے پس پشت ڈال کر تخلیقی سفر جاری رکھا۔ پروین کے ہاں عورت کی زندگی کا زائچہ خانگی معاملات سے  باہر نکل کر آفاق تک پھیلا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ گلہ و شکوہ اور رنج و محن کے موضوعات میں بھی انسانی معراج کے تنزل کو غیر محسوس اندازمیں بیان کرنے کا سلیقہ رکھتی ہیں۔

؎         ” زندگی بھر کے اندھیروں کے عوض   ایک پل آنکھ میں سورج اُترا

؎         شہ رگ سے قریب تر ہے لیکن        یاں اب بھی وہی حجاب شاید“

شاہدہ حسن نے پروین شاکر کے ساتھ تخلیقی سفر شروع کیا جو ہنوز جاری ہے۔ شاہدہ کے ہاں نسائیت کی زد میں آنے والے نسوانی جذبوں کا استحصال مرکزی موضوع کی حیثیت رکھتا ہے۔ شاہدہ نے نظم و غزل میں عورت کو گھر کی چار دیواری سےباہر نکل کر مرد کے شانہ بشانہ متوازی چلنے کی راہ سجھائی ہے۔سمجھوتے اور مظلوم رسیدہ عورتوں کے مخصوص طبقے کا رنگ بھی ان کی غزل کا  فراواں عنصر ہے۔ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد لکھتے ہیں:” شاہدہ نے غزل کے روایتی اور عمومی لفظیات کو گہرائی کے ساتھ معنوی دُنیا عطا کی ہے جس سے غزل کا سراپا فنی  لیاقت کا نمونہ بن گیا ہے۔”۲؎

؎         ”میں خالی ہاتھ یوں بیٹھی ہوں جیسے     مری اک عمر کا دھن کھو گیا ہے

؎         ایک ہی جیسے رات اور دن    گھر پتھرایا جاتا ہے“

کشور ناہید کی شاعرانہ اپج زہرہ نگاہ کی سی وقعت رکھتی ہے۔ کشور نے نظم و غزل کے علاوہ نثرمیں بھی خوب لکھا۔ ان کی زندگی کا انداز بھی باغیانہ تھا اور سوچ کا دھارا بھی شدید ردعمل کا قائل تھا۔ زندگی کے  نشیب و فراز سے متصل حوادث کو کشور نے کمال ہوشیاری سے غزل کے مصرعوں میں چھپایا ہے۔ کشور کی زبان کھردری اور سخت گیر ہے۔ یہ جذباتی ہوئے بغیر بہت کچھ کہہ جاتی ہیں جو بادی النظر میں کہنا آسان نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر فاطمہ حسن لکھتی ہیں:”کشور نے روایت سے بغاوت کو انا کا مسئلہ بنالیا تھا،جدت سے  انسلاک اور تہذیب سے منافرت نے اس کی شاعری کو  تشخص کے  عمومی تفاخر سےمحروم رکھا لیکن نسائیت کے فروغ کے لیے ان کی خدمات صف اول کی متقاضی ہیں۔”۳؎

؎         ”میرے پیچھے میرا سایہ ہوگا            پیچھے مُڑ کر بھی بھلا کیا کرنا

؎         کہیں چراغ،کہیں گُل،کہیں پہ زلفِ دوتا          تری گلی میں تھیں طُرفہ نشانیاں اپنی“

فاطمہ حسن کا شمار اُردو کی ممتاز شاعرات میں ہوتا ہے۔ فاطمہ نے  غزل عمدہ کہی اور نظم میں بھی خوب دستگاہ رکھتی ہیں۔ فاطمہ نے نسائیت پر بنیادی نوعیت کا کام کیا ہے۔ حقوقِ نسواں کے حوالے سے فاطمہ کا تحقیقی اور تخلیقی کام اعلیٰ پائے کا ہے۔ غزل میں موضوعات کا انتخاب معیار پر سمجھوتہ نہیں کرتا۔ شعر عمدہ تراشتی ہیں۔ شعری حسیت سے پوری طرح آگاہ ہیں۔

؎         ”بہت گہری ہے اُس کی خامشی بھی     میں اپنے قد کو چھوٹا پا رہی ہوں

؎         اب گُھل گیا لہو میں تو انجام کچھ بھی ہو   کیا مل سکے گا زہر کی تاثیر دیکھ کر“

مونا شہاب کی غزل کا تانا بانا ہجرت سے متصل مسائل اور روایتی عورت کی خانگی زندگی سے بُنا ہے۔ مونا نے غزل کو عورت کے سراپا داخلی و خارجی چہرے سے متعارف کروانے کے لیے بطور وسیلہ استعمال کیا ہے۔ مونا کی زبان صاف اور دُکھ گہرا ہے۔

؎         ”گھر میرا کھوگیا  ہے مگر یاد ہے مجھے      آنگن میں اس کے ایک شجر سایہ دار ہے

؎         مجھے عزیز ہے پرکھوں کی آن بھی تو کیا    جو میں وارثِ اہل ِ زبان بھی تو کیا“

زیب النسا زیبی کی غزل  بھی اپنے عہد کی ترجمان ہے۔ زیبی نے زندگی کے خفیہ رنگوں کو حوادثِ زمانہ کی سیاہی سے نکھارنے کی کوشش کی ہے۔ زیبی کے  فارسی روایت کا تتبع ملتا ہے۔ معاشرتی کرب و نارسائی کا دکھ بہت گہرا  محسوس کیا ہے۔ جذباتی اور  نا امیدی کا  پرتو صاف دیکھا جا سکتا ہے۔

؎         ”بہاریں مسکراتیں ہیں نہ فصل گل ہی آتی ہے    یہ میرے شہر کی سڑکوں پہ تازہ خوں بہانے سے“

حمیرا رحمان خواتین شاعرات میں نمائندہ شاعر ہ ہے جس کی غزل میں مقامیت کے ساتھ آفاقی شان پائی جاتی ہے۔ حمیرا زندگی کی رنگینوں اور آلام کو خوبصورتی سے غزل کے پیرائے میں سمویا ہے۔ نسوانی حسیت کا گہرا ادراک حمیرا کے اشعار کو  تغزل کا چہرہ عطا کرتا ہے۔

؎         مری خوش نامیوں میں ہے مری رسوائیوں میں ہے         وہ میری زیدت کی چھوٹی بڑی سچائیوں میں ہے“

نسیم سید کا شمار کشور ناہید کی قبیل کی شاعرات میں ہوتا ہے۔ نسیم نے غزل کے علاوہ نظم کہی اور عمدہ کہی۔صالحہ صدیقی لکھتی ہیں:”نسیم نے مظلوم و محکوم اور بے  بس و لاچار عورت کی وکالت کی اور اس کے حوصلے اور ہمت کو سراہا ہے۔”۴؎نسیم نے خانگی معاملات کی حق تلفی اور پد سری سماج کی اجارہ داری کو غزل کے کینوس پر خوبصورتی سے پوٹریٹ کیا ہے۔

؎         ”آدابِ ضبطِ عشق نہ رُسوا کرے کوئی    اپنی بساط دیکھ کے سودا کرے کوئی

؎         دیوارِ انا سے تھیں پرسے اُس کی صدائیں           پتھر ہوئے  پر ہم نے پلٹ کر نہیں دیکھا“

رفعیہ شبنم عابدی کے ہاں تانیثی رجحان کا زیادہ غلبہ دکھائی دیتا ہے۔ رفعیہ نے زوجین کی باہمی مناظرت اور مجادلت  کو خوبصوتی سے نظم اور غزل میں بیان کیا۔ رفعیہ نے زندگی کے نشیب و فراز سے مستعار دُکھوں اور آسائشوں کا نام د کر ان سے نبھاہ کرنے کا سلیقہ سکھایا ہے۔

؎         ”مرے غرو رکا پتھر پگھل کے موم ہوا            کہ اُس کی گرم نگاہوں میں پیار ایسا تھا“

ذکیہ غزل کی شاعری سماجی شعور کی شاعری ہے۔ ذکیہ نے عورت کے وجود کو  ملامتی بنانے کی بجائے انسانی توازن کا اعلیٰ معیار قرار دیا ہے۔ ذکیہ زبان پر گرفت رکھتی ہیں۔ ان کی شعری تلازموں سے لبریز غزل  سماج کے دوہرے نظام کو خوب واضح کرتی ہے۔

؎         ”مرا دشمن نہیں کوئی یہاں پر/منافق دوستوں میں گھر گئی ہوں“

یاسمین حمید کا تعلق عہدِحاضر کی قدآور شاعرات میں ہوتا ہے۔ یاسمین نے شاعری میں عورت کے سراپا کو قلمی مصور کیا ہے۔ ان کے ہاں چاند،سورج،ستارے،صحرا،سمندر ایسے تشنہ طلب الفاظ کثر ت سے دہرائے گئے ہیں جو شاعرہ کی  فکری گہرائی کے خوابیدہ  خوابوں کی ناتمام تعبیروں کا  پتہ دیتے ہیں۔خالد علوی لکھتے ہیں:”یاسمین حمید کی غزلیہ موضوعات میں کافی تنوع موجود ہے ان کی بعض غزلو ں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اس پر نظم کے اسلوب کا پرتو ہے۔یاسمین نے نظم اور غزل میں بہت کم فرق ملحوظ رکھا ہے۔”۶؎

؎         ”مرے احساس کی مجبوریاں ہیں       اُسے پیچھے بھی مُڑ کر دیکھنا ہے

؎         مرا چہرہ ہے برسوں کی کہانی            بہت کچھ دیکھتی ہوں آئنے میں“

شبنم شکیل کی شاعری اُردو ادب  میں ایک نیا اضافہ ہے۔ شبنم نے اُردو غزل کی اُٹھان کو زندگی کے ذاتی تجربے سے اوپر اُٹھایا ہے۔ ان کی غزل کا رنگ کرب سے عبارت ہے۔ شبنم نے اضطراب کو حاصلِ حیات سمجھ لیا ہے اور اس کے طلسم میں شعری سفر کو بے سود نہیں ہونے دیا۔

؎         ”جن لوگوں کی قُربت میں بہلتا ہے بہت دل               وہ بھی نہ منافق ہوں گے مجھ کو یہ ڈر بھی

؎         یہ میرے بچپن کی سہیلی میرے غموں کی ساتھی ہے        کیوں میری کھڑکی سے لگ کر روتی ہے برسات سنو“

شفیق فاطمہ شعری نے اُردو غزل کو نسائی جذبات سے تلمیحی رنگ میں آشنا کیا۔ فاطمہ کے شعری مجموعوں میں ارتقا کا عمل تسلسل رکھتا ہے۔ انسانی جذبات و احساسات کا نرمل،کومل اور دلآویز بیان ان کے اشعار میں درد کی شدت کے باوجود گداز اور ٹھہراؤ رکھتا ہے۔

؎         ”وہ ہے اک اچھوتا نقش ِ مر مریں چٹانوں پر       یہ سفید بالوں کا نورِ آسمانی ہے

؎         اب انتظار کی گھڑیاں گراں نہیں ہوں گی         وہ میرے فصلِ گذشتہ کے ہم صفیر آئے“

عفت زریں کا شمار نمایندہ غزل گو شاعرات میں ہوتا ہے۔ عفت نے شعر کے مختلف اسالیب متعارف کروائے ،عفت کے نسائیت مستقل موضوع کی حیثیت سے غزل کا چہرہ بن گیا ہے۔ عفت نے  خفیف اشاروں میں ممنوعہ افکار اور نسائی حسیت کو طشت از بام کرنے کی کوشش کی ہے۔ عفت نے جو سپیس آنے والی شاعرات کے لیے  بنائی ہے اُسے عہدِحاضر کی شاعرات نے آگے بڑھ کر لیا ہے۔اساتذہ کے فن سے استفادہ کا  صاف پتہ چلتا ہے۔

؎         ”کیسے پہنچے منزلوں تک وحشتوں کے قافلے       ہم سرابوں سے سفر کی داستاں کہتے ہوئے

؎         یہ داستاں ہی سہی دل نشیں اُمیدوں کی           اداسیوں میں رقم ہو تو زندگی بدلے“

مسعودہ حیات کا شعری سفر حساسیت کے درپردہ نسائی نظام کا پرتو ہے۔ مسعودہ نے زندگی کو محبت کی نظر سے دیکھا اور دھوکا کھایا۔ گلہ و شکوہ اور رنج و ماتم کا سنجیدہ اور ٹھہراؤ ہوا اظہار ان کی غزل کا نمایاں وصف ہے۔

؎         ”پھونک ڈالیں نہ کہیں اپنا نشیمن خود ہی          کوئی صورت ہو کہ ہم برق و شرر کو بھولیں

؎         اب تمہاری رنجشِ بے جا کے وہ تیور کہاں         جن کو ہم دل میں چھپا لیں آج وہ نشتر کہاں“

فاطمہ  جائسی کا شمار عہد حاضر کی نمایندہ غز ل گو شاعرات میں ہوتا ہے۔ فاطمہ نے زندگی کی ہمہ گیری اور اطوار کی تنگ دامانی کا نقشہ کھینچا ہے۔ آسودہ حالی کی ناشکر گزاری ان کے ہاں نمایاں ہے۔ فکر و فن سے دلچسپی غزل کے رنگ کو پختہ کیے ہوئے ہے۔

؎         ”یہ کیا ہوا کہ جب آزادیاں ملیں ہم کو            ہے خوف اتنا کہ ڈر ڈر کے سانس لیتے ہیں

؎         آنکھوں کے لیے اشک تو دل کے لیے اُلجھن       بھیجی ہے مرے واسطے سوغات کسی نے“

حمیرا رحمان کا شمار عہد حاضر کی نسائی جذبات سے مملو شاعرات میں ہوتا ہے۔ حمیرا نے بدیسی ممالک میں بسنے والی عورت کے کرب اور مسائل کو شاعری کا موضوع بنایا۔ مشینی دور کی ہنگامی دوڑ میں بے سر و پا عصمت کے بکتے بازار میں نسائیت سے معمور باکرہ کی پکار کون سنتا ہے۔ یہ کرب حمیرا کے ہاں آفاقی شان لیے قاری کو ُگنگ کر دیتا ہے۔

؎         ”دروازوں میں رکھے کمخواب و اطلس گَل چکے ہیں          نئے پیرانوں کا شوق بڑھتا جا رہا ہے

؎         اپنے آپ کو جل بھجنے سے کیسے کوئی محفوظ رکھے             کبھی دُکھوں کا انَت الاو کبھی اُداسی کا جوالا“

ریحانہ قمر نے محبت کے موضوع کے فلسفے کوتنقید کی نگاہ سے پرکھا ہے۔ریحانہ کے محبت کے سیکڑوں روپ اور زاوئیے دکھائی دیتے ہیں جن میں منافت اور کھوکھلاہٹ کی اجیرن کر دینے والے بدبو کا  گدلا سمندر ٹھاٹیں مار رہا ہے۔ ریحانہ نے جرات سے  مونولاگ کے ہتھیار سے  مغموم اور یاس لڑکی کو سہارا دیا ہے کہ وہ آگے بڑھے اور خوف مت کھائے۔

؎         ”کچھ نہیں تھی میں ،تو مجھ کو کچھ نہیں کہتے تھے لوگ        جب ملی عزت و میری عزت افزائی گئی“

پروین شیر اُردو غزل کا ایک بڑا نام ہے۔ پروین نے موصوری اور موسیقی کی مخصوص علامتوں اور رزمیات کو شعر کے قالب میں ڈھالا۔ شاعری کی حسی شعریت سے گہری آشنائی تھی۔ نسائی جذبات کی قد آور مبلغ ہیں۔ اشعار طبیعت کی موزونی پر منحصر ہے۔ فکر کی گہرائی سے ادراکِ حیات کا فلسفہ ان کے یہاں پھوٹتا ہے۔ عتیق اللہ نے لکھا:”پروین شیر زندگی کے متنوع چہروں کو ایک چہرے میں مقید کر دیا۔ فنونِ لطفیہ سے دلچسپی ان کی تخلیقی جودت کو بڑھانے میں کام آئی ہے۔”۷؎

؎         ”تری قربت سے سنور جائے وفا کی تقدیر         شبِ فرقت کو درخشندہ ستارا مل جائے

؎         تھکن سے چُور تمہارے قریب آئی ہوں           کہ اب وجود میرا شکست خوردہ ہے“

نزہت صدیقی اچھا لکھ رہی ہیں۔ معاشرے کی مصنوعی اور کھوکھلی معاشرت پر کُڑتی ہیں۔ عورت کو گھر کی چار دیواری میں محصور رہ کر حق مانگے سے باہر نکل کر عملی جہد کرنے پر اکساتی ہیں۔ شعر میں نشتریت  جگر چیرتی ہے۔

؎         ”آنکھیں کُھلیں ،گناہ کا احساس ہو گیا    غم سے ترے حیات ملی،رہبری ملی

؎         یہی سلسلہ ازل سے یہی سلسلہ ابد تک   کبھی زندگی مصیبت،کبھی زندگی ہے راحت“

گلنار آفریں کے ہاں نسائی حساسیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ان کے ذاتی تجربے خارج کی دنیا سے مختلف نہیں ہیں۔ گلنار نے  محبت کو ایک لایعنی جذبہ قرار دیا ہے اور اس کے کالے باد ل کی گھٹا میں بھیگنے سے گریز کیا ہے۔

؎         ”اپنے آنچل کے تقدس کی قسم کھاتی ہوں         سیکڑوں جلوے نظر کے لیے انجانے ہیں

؎         میرے بچو! گھر کا آنگن تم بِن کتنا سُونا ہے          رات کو پیروں روئی تھی جب دھیان تمہارا آیا تھا“

زاہدہ زیدی نے غزل کی زمین کو اپنے اتھاہ گہرے خیالات سے وسعت دینے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ ان کے ہاں نسائی جذبات کی ترجمانی سنجیدہ انداز میں ملتی ہے۔ جذباتی ہونے کی بجائےانسانی نفسیات کی گرہوں کوتجربے کی سِپر سے چاک کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

؎         ”اب حلقہ گرداب ہی آغوش سکوں ہے          ساحل سے بہت دور ڈبوئے ہیں سفینے

؎         جن سے بچھڑے تھے تو تاریک تھی دُنیا ساری     ہم انھیں ڈھونڈ کے پھر لائیں ضروری تو نہیں“

اوشا بھدروریہ کے ہاں نسائی جذبے کی ترجمانی مخصوص علامتی اندازمیں ملتی ہے۔ اوشا نے عورت کے مسائل کو کم اور اس کی اہمیت کو زیادہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ زبان پر گرفت اور مطالعے کی وسعت سے خیالات میں گہرائی اور تنوع پایا جاتا ہے۔

؎         ”ہر یاد مری روح میں خوشبو سی کھلی ہے          تو میرا وہ لمحہ ہے جو  گزرا نہیں لگتا

؎         گھر کے دروازے پہ دستک لکھ گئی پاگل ہوا        دل یہی کہتا رہا تو لوٹ آئے گا ضرور“

ریحانہ عاطف خیر آبادی نے معشوق ،عاشق اور عشق کی تثلیٹ کو شاعرانہ توازن بخشا ہے۔ ریحانہ کے ہاں ارضی فلسفے کی استعاراتی تفہیم ملتی ہے۔ ریحانہ نے سماجی اقدار کا ذکر کیا ہے۔ ریحانہ کی غزل میں روزمرہ مسائل کے ساتھ فکر کے ارتقا کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔

؎         ”کس کو پہچا نو گے جا کر کیا گرو گے شہر میں        پاو گے ہر ایک کے چہرے کو اب بدلا ہوا

؎         میں نے مانا کہ وہ سمندر ہے مگر کس کام کا          ایک قطرہ بھی کسی کو جو پلا سکتا نہیں“

ملکہ نسیم نے غزل کو تنہائی، افسردگی ،بے چینی اور نامعلوم خوف سے متعارف کروایا ہے۔ ملکہ کی زندگی کے شب و روز نا قابل یقین حوادث میں گزرے جس کا اثر ان کی فکر پر براہ راست پڑا۔

؎         ”کسی کے ساتھ ذرا دور چل کے دیکھو تو          کسی کے درد کو پلکوں سے چُن کے دیکھو تو

؎         دلوں کو جھکنے جھکانے کا فن اگر آجائے             جہاں سے تفرقہ بازی کا ہر چلن مٹ جائے“

ساجدہ خاتون  تشنہ کے ہاں شاعری محض شغل بازی کا ذریعہ نہیں بلکہ محبت سے آگے حصول کی چیز ہے۔ ساجدہ نے معاشرتی تنافر کو سماجی تنزل سے مدغم کر کے دیکھا ہے۔ چہروں کے پیچھے چھپی مفاد پرستی اور متحوس نگاہوں کی زنائی خواہشیں ان کی شاعری میں  حساس دل کو گھائل کر تی دکھائی دیتی ہیں۔

؎         ”نئی اک دُنیا بنانے کو جی چاہتا ہے       جہاں کو گلے سے لگانے کو جی چاہتا ہے

؎         اپنی حاجت کے لیے بھی لب ہلا سکتے نہیں         چارہ گر کوئی نہیں،درد کا درماں نہیں“

عذرا پروین  نے اپنا منفر لہجہ متعین کیا ہے۔ ان کی نظم کا کینوس کھلے آسمان کی طرح وسیع ہے۔ غزل میں متنوع رنگوں کی آمیزیش ہے۔ زمانے کو نئے انداز سے دیکھتی ہیں اور اپنی رائے سے قاری کو   محاسبے  تک لے آتی ہیں۔

؎         ”میں پھر تمہارے قدموں سے چل پڑی ہوں شاید         تم جاگتے ہو مجھ میں میں سو رہی ہوں شاید

؎         میں جس میں بھیگ کر ہو جاوں بادل    گھٹا یسی مرے چت چور برسا“

فرح زہرا گیلانی نے مغربی ادب سے استفادہ کیا ہے۔ ان کے ہاں مغربی اساطیر کی بازگشت سنائی دیت ہے۔ فرح نے عورتو ں کے وجود کو مردوں کی کمین نگاہوں سے مستور رکھنے کی شعوری کوشش کی ہے۔ عورت کے جذبات کی سطحی ترجمانی فرح کو بُری لگتی ہے ۔یہ مرد کی طرح سوچنے کو ترجیح دیتی ہے۔

؎         ”بے مہریوں کی دھوپ نے جھلسا کے رکھ دیا      میں ریزہ ریزہ ہو کے جہاں میں بکھر گئی

؎         مجھ کو یخ بستہ ہواوں نے بتایا  یہ بھی               وہ پرندہ ہے کہیں دور چلا جائے گا“

حمیدہ  معین رضوی کے ہاں شدید ردعمل کی صاف آواز سنائی دیتی ہے۔ حمیدہ نے تیزی سے بدلتے سماج کی  غیر معمولی رفتار میں عورتوں کو قدم بڑھانے کا مشور دیا ہے۔ وقت کی اس رفتار کے ساتھ تصورات کی گراوٹ کو حمیدہ نے خوبصورت انداز میں شعر کے قالب میں ڈھالا ہے۔

؎         ”لڑکیاں جو کتاب لکھی رہی ہیں        زندگی کے عذاب لکھ رہی ہیں“

ساجدہ زیدی ایک معمر کہنہ مشق شاعرہ ہیں۔ ان کی غزل کا خمیر مشرقی اخلاقات کی بے توقیری سے اُٹھا ہے۔ انھوں نے عصرِ حاضر کے انسان کی بے بسی،تنہائی، کسمپرسی اور لایعنیت کے فلسفہ کو شعروں میں بیان کیا ہے۔ زندگی کے اُتار چڑھاؤ اور خوابوں کی تشنہ تعبیروں کی کسک  ساجدہ کے ہاں شدت سے  آگہی سے متصف ذہن کو متاثر کرتی ہے۔

؎         ”ترے خیال سے آگے مری نظر پہنچے            ہمارے عشق کا ہر اک زباں پہ چرچا ہو

؎         دھنک کے رنگوں کی پرواز مجھ میں جب ہوتی      میں تتلی کاڑھنے لگتی تگی پیرہن کے لیے“

تسنیم عابدی کی شاعرانہ اُٹھان ان کے ذاتی تجربات کی مرہون منت ہے۔ تسنیم نے عورت کے جذبات کی جملہ عکاسی کی ہے۔ بطور عورت انھوں نے پدر سری نظام میں اپنے حق کے حصو ل کے لیے شعر کو ہتھیار بنایا ہے۔ ان کا تخلیقی سفر جاری ہے۔

؎         ”سو نہیں گیا،مجھے سمجھا نہیں گیا        تاریخ میں مجھے لکھا نہیں گیا“

آشا پربھات نے رسالوں میں لکھا اور انھیں خوب سراہا گیا۔ بہت کم گو ہیں لیکن عمدہ سخن شناس ہیں۔ ان کی غزل کا رنگ داخلی ہے ۔زبان پر گرفت کی وجہ سے تخیلی پیکر تراشنےمیں خصوصی ملکہ رکھتی ہیں۔

؎         ”یہ بات الگ ہے کہ توجہ نہ دی ہم نے  دل کھینچے والے تو نظارے بھی بہت تھے“

صوفیہ انجم تاج بنیادی طور پر ایک شاعرہ ہیں۔ان کی مصورانہ قوت رنگوں سے کینوس پوٹریٹ نہیں کرتی بلکہ اشعار میں ڈھل کر انھیں مرقع بنانے  کےکام بھی آتی ہے۔ صوفیہ نے ا پنے گردو نواح کے ماحول اور معاشرت کے جزئیات کے ساتھ غزل کے سانچے میں پرویا ہے۔

؎         ”میں  کب سے ماضی کے تانے بانے ادھیڑتی اور بُن رہی ہوں/بتائے کوئی میں جاگتی ہوں کہ کرچیں خوابوں کی چُن رہی ہوں

؎         ہوں نگاہ میں وہی رونقیں،وہی رسم و راہ میں لذتیں         کوئی ایسی تازہ ہوا چلے، مرا نقشِ ماضی ابھار دے“

اندرا شبنم کے ہاں نسائی شعور ذاتی تجربے سے مہمیز ہوا ہے۔ اندرا نے غزل کو اپنے اندر کی خلفشاری کے انخلا کے لیے استعمال کیا ۔ان کے ہاں بے کسی اور لاچاری کی مفلسانہ مبالغہ پسندی نظر آتی ہے۔ عورت کی محدود کائنات کو اپنے قلم سے وسیع کرنے کی کوشش میں مگن ہیں۔

؎         ”لگتاہے من پہنچ گیا وہاں             پریم ندیاں جہاں سے جاری ہیں

؎         سچائی جیون کی چاہے کچھ بھی ہو         ہم کو تو سب افسانہ سا لگتا ہے“

شاہدہ نسیم نے نسائی تصور کو  باضابطہ تحریک کی شکل دی ہے۔ مرد سماج میں عورت کو عزت دے جینے اور معیار پر سمجھوتہ نہ کرنے کا شعور شاہدہ کی غزل کا مرکزی موضوع ہے۔ عمدہ شعر تراشتی ہیں۔

؎         ”تم کیا گئے کہ لے گئے آنکھوں سے سارے خواب         ورنہ ہمارے بگڑے مقدر میں کیا نہ تھا“

شہلا نقوی نے معاشرتی مسائل پر لکھا۔ان کا شعری سفر ہنوز جاری ہے۔ انھوں نے پدرسری نظام اور مردوں کی حقوق پر اجارہ داری کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ شہلا کی غزلوں میں مصرعوںکی بُنت اور تراش خراش سے زبان پر گرفت اور مضمون پر دسترس کا پتہ چلتا ہے۔

؎         ”وقت کی آندھی سے یوں ہر سو بگولے بن گئے             ہو گئی روپوش منزل بھی نقابِ گرد میں

؎         شہلا ؔ سارے دن کے لمحے صرف زمانے بھر پہ کیے          شام ہوئی توگھر کو لوٹی پھر کاموں میں ڈوب گئی“

ترنم ریاض نے متعدد جہات پر کام کیا ہے۔ ان کی نثری کاوشات گراں قدر ہیں۔ بطور شاعرہ انھوں نے نظم اور غزل میں طبع آزمائی کی  اور قد آور شاعرہ کے طور پر سامنے آئیں ۔ ترنم کے ہاں مخصوص لفظیات کا ڈکشن ہے جس سے نزائی مسائل اور معاشرے میں درپیش ہنگامی صورتحال کا ٹھہراؤ اور قدرے سبھاؤ سے استعمال کرتی ہیں مصرعوں میں تازگی اور شعر میں جدت غضب کی ہوتی ہے۔

؎         ”گھر کے اندر انا کے جھگڑے کیوں دہراتے رہتے ہو        سیدھی رہ اپنا لو،پسلی ہوں،ٹیڑھی ہو جاوں گی

؎         چمن اُجڑا اور خواب آیا مجھ کو             صبا رقصاں ہے طائر بولتے جا رہے ہیں جیوتی سک“

نصرت آرا کے ہاتھ زیادہ تر جذباتی اور سطحی قسم کا تاثراتی اظہار ملتا ہے۔خانگی مسائل کے علاوہ رومانوی دور کی کسک اور ناآسودہ خواہشوں کی تڑپ ان کی شاعری کو گداز بناتی ہے۔ شعر میں  برجستگی کا عنصر موضوع  کی نزاکت سے آگہی کا پتہ دیتا ہے۔

؎         ”جیون کے موسم کو کیسے  روپ بدلتے دیکھا       ہنستے ہوئے بادل سے میں نے خون برستے دیکھا“

سیدہ نسرین نقا ش نے اُردو غزل کے اکیسویں منظر نامے پر اپنی مستقل شناخت بنائی ہے۔ ان کی شاعری میں عورت مرکزی موضوع کی حیثیت سے موجود ہے۔ نسرین نے مرد سماج کو کوسنے کی بجائے عورت کو مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے۔

؎         ”کوئی آئے گا نہ مجھ سا بخدا میرے بعد           ختم ہو جائے گا دستورِ وفا میرے بعد“

ثمینہ راجا نے اُردو شاعری کو خواتین شعرا میں وہ مقام عطا کیا ہے جس کی یہ مستحق تھیں۔ ثمینہ نے پروین شاکر اور فہمیدہ ریاض کے اسلوب کا تتبع کیا اور انھیں کی طرح ممنوعہ موضوعات پر جرات سے قلم اُٹھایا اور اپنی انفرادیت قائم کی۔

؎         ”اُس کی بانہوں میں سمٹ جانے کی گھٹ جانے کی خواہش،توبہ        رات جب دیر تلک چاند تہہِ آب گرفتار رہا

؎         نچوڑ لیں مرے چہری کی سرخیاں،پھر بھی                 گریز پا مرے گھر سے بہار کیوں گزرے“

رخسانہ جبیں نے غزل کے کینوس کو سماجی آلام سے پوٹریٹ کرنے کی بجائے نسائی استحصال کے بیان کے لیے رنگ کو ترنگ سے شناشا کیا ہے۔ رخسانہ نے تخیل کی مدد سے تجربے کی حقیقت کو شعر کے پردے میں  بیان کیا جس سے انسانی توازن کے مشخص فلسفے کا احیا ممکن ہو ا۔

؎         ”ایک معمہ ہے وہ،ویسے کتنا بھولا بھالا ہے        ایک اک رنگ انوکھا اس کا ہر انداز نرالا ہے“

جیوتی سکسینہ نے غزل میں آفاقی سچائیوں اور ارضی جُل سازیوں اور فتنہ پردازیوں کو نمایاں کیا۔ جیوتی نے زندگی کو جس طرح محسوس کیا ویسے ہی لکھ ڈالا۔ اشعار عموماً  توجہ کو مبذول کرتے ہیں۔

؎         ”شمع مدھم لو پرشیاں خامشی افسردگحمی           بزم میں ان کے چلے جانے کا منظر دیکھنا“

سلطانہ مہر نے شاعری کی اور بہت خوب کر رہی ہے۔ سلطانہ کے ہاں سماج میں ہر طرف جاری اندھیر نگری اور حقوق کی حق تلفی کا مرصع ردعمل ملتا ہے ۔ سلطانہ مہر نے عورت کے وجود سے متصل اندیشوں اور امکانات کے خدشوں کو سادہ،آسان اور سہل اندازمیں مر د سماج کے پروردہ    ٹھیکے داروں تک پہنچایا ہے جس میں ان کی شاعرانہ معنویت کی فکری اُٹھان کا ہاتھ ہے۔

؎         ”میں اپنے شک چھڑک دوں کہ خاک دب جائے          ابھی نہ آو ابھی تو غبار راہ میں ہے

؎         جس جس کو تو گوہر سمجھا کنکر سے وہ بدتر تھا        اے دلِ سادہ اب بھی سنبھل جا کب تک دھوکے کھائیں ہم“

مینو بخشی ارد وغزل کی معتبر آواز ہے جس نے اُردو غزل کے ایوان میں شاعرات کو ایک ممتاز مقام دلایا ہے۔ پروین شاکر کے بعد بھارت میں مینو بخشی کی شاعری حوالہ بنی۔ انھوں نےاپنی نظموں اور غزلوں میں جس طرح عورت کے وجود اورذات و تشخص سے متصل تصورات و نظریات کو تفہیم عطا کی ،یہ خلا صدیوں بعد پُر ہوا ہے۔ سچائی راستی بے باکی اور نڈر لب و لہجے کی اس شاعرہ نے غزل کے فنی حُسن کو مزید چمکایا اور بڑھایا ہے۔

؎         ”دو دن کی زندگی جو مرے نام ہوگئی                      اے  عشق وہ بھی موردِ الزام ہو گئی

؎         اُسے سمجھانے جو بیٹھوں وہ سمجھانے لگے مجھ کو              نتیجہ دل کے سمجھانے کا نکلے بھی تو کیا نکلے “

حمیدہ شاہین کا شمار جدید لب و لہجے کی ماڈرن خواتین شاعرات میں ہوتا ہے۔ حمیدہ نے غزل کو مردوں کے کہنے کی چیز نہیں رہنے دیا بلکہ اپنے بلند شعری احساس سے اسے نسائیت کی زبان بنایا ہے۔حمیدہ شاہین کے لہجے میں بے باکی اور بے خوفی سر چڑھ کر بولتی ہے۔ روایات کی پاسداری اور احترامِ انسانیت کا یکساں توازن ان کی شاعری کا مرکزی نکتہ ہے۔ عمدہ شعر کہتی ہیں۔

؎         ”کدھر تلاش کروں اعتبارِ چشم و خرد    طلب کو لے  گئے بہلا کے التباس کہاں

؎         فرط حیرت سے بدن گُنگ ہے ،جاں لب بستہ      آپ کو جیت لیا،آپ کی حقدار ہوئی“

حمیرا شاہین عمدہ شاعرہ ہیں۔ ان کے ہاں نسائیت کا پرچار معمولی اور روزمرہ معاملات کے سلگتے تڑپتے احساس سے وا ہوتا ہے۔ حمیرا نے حوادثِ زمانہ کی کسک سے شعری توازن کو سینچا ہے اس لیے ان کے ہاں نسائی لہجے میں معصوم اور گداز کے کی موجودگی کم ہے اس کے باوجود شعر توجہ کو کھینچتے ہیں۔

؎         ”بہت اچھے بہانے آگئے ہیں           ہمیں آنسو چھپانے آگئے ہیں

؎         سرابِ خوش گمانی سے کہیں آگے کھڑی ہوں              میں خود اپنی کہانی سے کہیں آگے کھڑی ہوں“

عنبرین حسیب عنبر کا شمار عہدِ حاضر کی مقبول ترین شاعرہ میں ہوتا ہے۔ پروین شاکر کے بعد جس شاعرہ کو سب سے زیادہ توجہ اور پیار  ملا ہے وہ عنبرین حسیب عنبر ہیں۔ عنبرین نے مشاعرہ کی نظامت کو کمال خوبصورتی سے اپنے ہاتھ میں لیا اور اس کھٹن اور مشکل مرحلے کو نہایت آسانی اور کامیابی سے نبھا رہی ہیں۔ عنبرین کی غزل کا رنگ تیکھا، شوخ اور سلجھا ہوا ہے۔ ان کی شاعرانہ حسیت  منجھے ہوئے مشاق چتر کار کی طرح  تصور کو مقیش  کرتی ہے تو کوئی نقص باقی نہیں رہنے دیتی۔

؎         ”تری پسند میں ڈھلتی نہیں مری ذات            میں روز نت نئے سانچے بناتی رہتی ہوں

؎         فیصلہ بچھڑنے کا جب کر لیا ہے تم نے    پھر مری تمنا کیا مری اجازت کیوں“

نصرت مہدی  کی غزل کا رنگ جدید اور کلاسیک روایت کے ملے جلے رجحان سے تشکیل پایا ہے۔ نصرت نے غزل کو احتجاج کی زبان بنایا۔انھوں نے نثری نظم میں شہرت حاصل کی۔ آج کل غزل پر زیادہ توجہ صرف کر رہی ہیں۔ ان کے ہاں آمد کی نسبت آورد کی کارفرمائی زیادہ نظر آتی ہے۔

؎         ”یہ حوصلہ جو ابھی بال و پر میں رکھا ہے           تمہاری یاد کا جگنو سفر میں رکھا ہے

؎         کرتی پھرتی تھی اُجالوں کی قبا مری تلاش          اور میں تھی کہ اندھیروں کے کسی غار میں تھی“

ثروت زہرا بطور نظم نگار مشہور ہیں۔ غزل کم کہتی ہیں البتہ عمدہ شعر نکالنے کا سلیقہ رکھتی ہیں۔ ثروت کے ہاں عورت کے وجود کو ہمیشگی خطرہ لاحق ہے اور بہت جلد سے اپنے تمام تر حواس کے ساتھ نابود کر دی جائے گی۔ ثروت نے اپنے عہد کی عورت کو کمزور قرار دینے کی بجائے اسے مردِ آہن کے آگے دتیز دھار سِپر کی طرح کھڑا ہونا سکھایا ہے۔ ثروت کے اس بے باک اور نڈر روئیے کو نقادوں نے  بہت سراہا ہے۔

؎         ”مرے جذبوں کو یہ لفظوں کی بندش مار دیتی ہے           کسی سے کیا کہوں کیا ذات کے اندر بناتی ہوں

؎         دھوپ کی اک زباں حرف نے سیکھ لی            جو بھی احساس تھا شاعری کھا گئی“

صائمہ آفتاب عمدہ شاعرہ ہیں۔ ان کے ہاں نسائی جذبات کا سلجھا انداز ملتا ہے۔ صائمہ کے ہاں ایک ترشا ہوا اسلوب ملتا ہے جو ان کی نظموں کو بہت سوٹ کرتا ہے لیکن غزل کہتے ہوئے ان کا دم گھٹتا ہے ۔ان کے ہاں گہری معنویت کی سطحی پرتیں بکھری اور منتشر ملتی ہیں۔ ریاضت سے ہچکچاہٹ کے پیش نظر ان کی شاعری کا رنگ ابھی تک پختہ نہیں ہوسکا۔

؎         ”بچھڑنے کی سہولت نہ مل جائے      مکیں کو اذنِ ہجرت نہ مل جائے

؎         نبھاہنا ہے بہر صورت یہ کاروبارِ دُنیا              کہ عشق و عاشقی کا سلسلہ کافی نہیں ہے“

ناصرہ زبیری کا شمار ایک سوشل ایکٹوسٹ اور صحافی کی حیثیت سے ہے۔ ان کی شاعری کا رنگ بھی قدرے صحافیانہ ہے۔ ناصرہ نے غزل کہی اور خوب کہی۔ل ان کی نظم میں معاشرت اور سیاست کاملا جلا رجحان ملتا ہے۔ ناصرہ نے عورت کو دکھوں اور مظالم سے اٹی پوٹلی قرار دینے کی بجائے پدر سری نظام میں سامنے آنے کی دعوت دی ہے۔ا ن کے اشعار اپنے اندر  معاشرت کو منافقت کا گہرا نوحہ لیے ہوئے ہیں۔

؎         ”نہیں ہے یوں کہ اُسے ہم تمام بھول گئے       وہ شکل یاد رہی اس کا نام بھول گئے

؎         تمہارے عہد الفت کی خلافت مان لی دل نے               تمہارے بعد یہ بعیت نہیں ہو پائی کوشش کی“

علینہ عطرت  عہدِحاضر کی ممتاز شاعرات میں مقبول نسائی لب ولہجے کی شاعرہ ہیں۔  علینہ نے غزل کو نسانی جذبات سے مامور کیا ہے۔ علینہ کے ہاں اپنے مخصوص الفاظ ہیں  جنھین روایتی اور پیش آمدہ واقعات کے بیان میں استعمال کرنے کا خداداد سلیقہ رکھتی ہیں۔ فطرت سے ہم آہنگی اور سماجی  اقدار کی کھلی منافقت میں بہ حیثیت عورت سروائیو کرنے کی جرات علینہ کی غزل کا چہرہ ہے۔

؎         ”شدید دھوپ میں سارے درخت سوکھ گئے     بس اک دعا کا شجر تھا جو بے ثمر نہ ہوا

؎         کوئی ملا ہی نہیں جس سے حالِ دل کہتے            ملا تو رہ گئے لفظوں کے  انتخاب میں ہم“

راحیلہ اشرف راجپوت بہت کم لکھتی ہیں۔ مشاعروں میں برابر شرکت سے بطور شاعرہ پہچان بنائی۔ کلام میں سنجیدگی اور گہرائی پائی جاتی ہے۔ غزل عمدہ کہتی ہیں اور آمد کی قائل ہیں۔ مرور ِوقت کے ساتھ  ان کے کلام میں متنوع رنگوں کی آمد کا رجحان دکھائی دیتا ہے۔

؎         ”یہ میرے خواب کا رستہ ہے گزر سکتے ہو         بن کے اک نقش میرے دل میں اُتر سکتے ہو

؎         ہم اپنے دل سے محبت نکال پھینکیں گے           تمہارے حکم کی تعمیل کر کے چلتے ہوئے“

تسنیم کوثر کم گو شاعرہ ہیں۔ ان کی غزل میں نسائیت موضوعات کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ اپنے سے ناراض رہنے اور سمجھوتے کی چادر میں قناعت سے زندگی بسر کرنے کا رجحان تسنیم کی غزل کی اساس ہے۔ تسنیم کے ہاں غزل کے امکانات روشن دکھائی دیتے ہیں۔

؎         ”درد کے تیر جگر کے پار ہوا کرتے تھے           ہم محبت کے سزاوار ہوا کرتے تھے

؎         فیصلے اب بھی سرِدرار ہی ہوتے ہیں یہاں         فیصلے تب بھی سرِ درار ہوا کرتے تھے“

سیماب ظفر غزل گو شاعرہ ہیں۔ عہد ِحاضر کی نمایندہ شاعرات میں آپ کا نام لیا جانا چاہیے۔ سیماب کی غزل کا رنگ پختہ اور پُر اثر ہے۔ سیماب بے روایتی مضامین بھی باندھے لیکن محض روایت  پر انحصار نہیں کیا بلکہ عہدِ حاضر کے جملہ  ماحول کے ردعمل کو بھی غزل کا حصہ بنایا۔ طویل بحر میں غزل کہنا سیماب کا نیا تجربہ ہے جسے سراہا جا رہا ہے۔

؎         ”کون دروازہ کھلا رکھتا برائے انتظار              رات گہری ہو چلی رہرو عبث ہے کل پکار

؎         کوچہ ہائے دل وجاں کی تہرہ شبو آس مرتی نہیں             آخری سانس بھرتے ستارو سنو آس مرتی نہیں“

رخسانہ صبا جدید لب ولہجے اور بلند آہنگ کی حامل شاعرہ ہیں جنھوں نے روایت سے استفادہ کے باوجو د اپنے لیے نیا شعری اسلوب وضع کیا۔ رخسانہ کے ہاں عورت محض عورت نہیں بلکہ کائنات کی تمام موجودات کے مظاہر کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ رخسانہ کے ہاں موضوعات کا  اختصاصی چناؤ ملتا ہے جس سے شعر تراشنے کی ریاضت کا احساس ہوتا ہے۔

؎         ”گرچہ دہلیز پہ لا کر بھی بٹھائی گئی میں            دھول تھی راہ گزر کی،سو اُڑائی گئی میں

؎         کب سے قبلہ رو بیٹھے ہیں حرف ِدعا اور میں                 خاموشی کے ساتھ ہیں دونوں میرا خدا اور میں“

تنویر انجم کی غزل عہدِ حاضر کی غزل کا اجتماعی منظر نامہ ہے۔ تنویر انجم نے نظم کہی اور خوب کہی لیکن غزل میں ان کی فکری اُٹھان نہایت بلند ہے۔ تنویر کے ہاں معاشرت اور سماج کے سنگم سے پنپنے والے  جرائم کی نشاندہی ملتی ہے۔ تنویر نے غزل کو جذباتی کیفیت سے نکال کر مبارزت اور مکالمے کی چیز بنایا ہے۔ تنویر کے اشعار ایک انتخاب معلوم ہوتے ہیں جن پر تخلیقی ورود کا گمان گزرتا ہے۔

؎         ”شہروں کے سار ے جنگل گنجان ہو گئے ہیں               پھر لوگ میرے اندر سنسان ہوگئے ہیں“

عشرت آفریں کا شمار عہدِ حاضر کی ممتا ز ترین خواتین شاعرات میں ہوتا ہے۔ ان کی شاعری میں گہری سماجی معنویت اور نسائی شعور  ملتا ہے۔ عشرت نے زندگی کے نسائی پہلو کو حوادثِ زمانہ کے سلاسل میں رکھ کر دیکھا ہے۔ عشرت کی غزل کا رنگ  فطری اور اصلی ہے۔ ان کے ہاں اشعار کی تہ در تہ پرتیں آپس میں متصل و مدغم ہیں جن  میں عورت کے وجود اور تشخص  سے منسوب اندیشوں،واہموں اور الزام تراشیوں کے سائے لپٹے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔

؎         ”شمعیں اور سائے سے دیکھے گئے طوفان کی رات           اس حویلی میں جو مدت سے بہت ویران تھی

؎         صبحِ وصال کی کرنیں ہم سے پوچھ رہی ہیں                  راتیں اپنے ہاتھ میں خنجر کیوں رکھتی ہیں

؎         وہ جو لوٹ بھی آیا تو کیا دان کروں گی     میں تو اُس کے نام کا اک زیور نہیں رکھتی“

ناہید ورک مہجری شاعرہ ہیں۔ ان کے ہاں وطن سے دور ملک ِ اغیار میں مقیم عورت کے مسائل اور اس کی ذات سے متصل اندیشوں اور واہموں کا ذکر ملتا ہے۔ ناہید نے غزل کو مترنم بنایا اور موسقیت کے آہنگ سے  مترنم بحور کا انتخاب کیا۔ ان کی نظمیں موضوعات کے اعتبار سے توجہ کھینچتی ہیں۔

؎         ”مرا ہو کے بھی نہ وہ ہو سکا            یہ عجیب صورتحال ہے

؎         نیند میں جاگتا ہی رہتا ہے               دل ترے عشق  کی دھمال میں گم“

عارفہ شہزاد اُردو ادب کی استاد ہیں۔ شاعری کے علاوہ نثر بھی لکھتی ہیں۔ ان کی نظموں کا پھیلاؤ آفاقی ہے اور غزل بھی زمین سے اُٹھی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ ماوبد جدیدیت کے  ابہام و اوہام اور تصورات کی اتھاہ معنویت ان کی مخصوص شعری لفظیات میں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔

؎         ”تجھے آغاز ہی سے پڑھ لیا تھا           ترے چہرے پہ سب لکھا ہوا تھا

؎         خواب میں جاگتی بے خوابی پتہ پوچھتی ہے          کیا کہیں نیند بھی ہوتی ہے سلانے والی“

فرح رضوی کا شعری سفر  تیس سال کو محیط ہے۔ فرح کے ہاں نسائی شعور کا گہرا ادراک ملتا ہے۔ فرح نے غزل کے سانچے کو نسائی حسیت سے معمور کیا ہے۔ فرح کے ہاں سادہ اور عام فہم انداز ملتا ہے جو ان کی شاعرانہ اپج کا عکاس ہے۔

؎         ”حسرت کے داغ دست طلب سے نہیں دُھلے             بھاری تھے خواب آنکھ سے پور ے نہیں دُھلے

؎         ہمارے زخم تماشا نہیں ہیں غیرت ہیں            سو اس لیے بھی چھپاتے ہیں اک زمانے سے“

شازیہ اکبر کی نظمیں بہت وائرل ہو رہی ہے البتہ غزل بھی ان کے ہاں سلجھی اور متانت لیے ہوئے ڈگ بھرتی دکھائی دیتی ہے۔شازیہ نے عہد ِ حاضر کے مسائل کو عورت کی آنکھ سے دیکھا اور حیرت بھری آنکھ  کو محو تماشا بنا دیا۔ شازیہ کے ہاں احتجاج کے ساتھ   حق کے حصول کا ردعمل بھی دکھائی دیتا ہے۔

؎         ”دیپ جلے تو دیپ بجھانے آتے ہیں             شہر کے سارے لوگ رلانے آتے ہیں

؎         کوئی اپنے لیے شاید زیادہ جی نہیں سکتا            کسی کا آخری پیغام ہے یہ رابطہ کر لو“

فریحہ نقوی نوجوان شاعرات میں ابھرتی ہوئی شاعرہ ہیں جن کے غزلیہ موضوعات انوکھے، منفرد اور دلآویز ہیں۔ فریحہ نے مشاعروں میں شرکت سے شہرت حاصل کی۔ ان  کے ہاں آمد کی نسبت آورد اور ستائش کی نسبت ریاضت کا گمان گزرتا ہے۔ فریحہ کی غزل کا تیور آنے والے وقت کی غزل کا نمایندہ دکھائی دیتا ہے۔

؎         ”ہم تحفے میں گھڑیاں تو دے دیتے  ہیں           اک دوجے کو وقت نہیں دے پاتے ہیں

؎         زمانے اب ترے مدِ مقابل             کوئی کمزور سی عورت نہیں ہے

؎         تمہیں پتا ہے مرے ہاتھ کی لکیروں میں          تمہارے نام کے سارے حروف بنتے ہیں“

شمامہ افق کا شمار جدید لہجے کی شاعرات میں ہوتا ہے۔ شمامہ نے حوادثِ زمانہ اور گھریلو نزاعات کو غزل کی زبان دی۔ شمامہ کے ہاں لفظیات کے انتخاب سے شعر کا سانچہ تیار کرنے کی ریاضت دکھائی دیتی ہے۔ شمامہ نے خود کو غزل میں تلاش کرنے کی جستجو کر رکھی ہے۔

؎         ”دہشت کے موسم میں کھلنے والے پھول         پتی پتی بکھرے کون سنبھالے پھول

؎         میں رنگ برنگی مورنی مرے پنکھ بہت ممتاز                مرا رقص انوکھا رقص ہے مجھے اپنے آپ پہ ناز“

رابعہ بصری بلتستان سے ہیں۔ ان کی غزل میں شمالی علاقہ جات کی عکاسی ملتی ہے۔ عورت کو پہاڑوں کی طرح سخت جان اور چاردیواری میں محصور رابعہ کے ہاں دیکھا جا سکتا ہے۔ رابعہ نے غزل میں فطرت کے متنوع رنگوں کو نسائی آہنگ میں بیان کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔

؎         ”سیاہ شال پہ جو اشک کاڑھتا ہوگا       کسے خبر تھی اُسے مجھ سے مسئلہ ہوگا

؎         غم ترا آنکھ کے پانی سے نکل آیا تھا       درد پھر اپنی فشانی سے نکل آیا تھا“

صائمہ اسحاق کا تعلق جنوبی سندھ سے ہے۔ان کی غزل اور نظم کا پھیلاؤ زمان ومکان کی تحدید سے ٹکڑاتا دکھائی دیتا ہے۔ ایک طرح کی بے چینی اور اضطراب ہے جو صائمہ کے ہاں صداقت اور جواز بن کر غزل کے سانچے میں ڈھلتا ہے۔ صائمہ کا شعری تموج صنفِ غزل کے ارتقا کا معتبر حوالہ ہے۔

؎         ”زمین میلی ہے نہ آسمان میلا ہے       دلوں کے کھوٹ سے سارا جہان میلا ہے

؎         لوگ حیران ہیں کیوں دیکھ کے تم کو آخر          اس تجسس میں تمہیں دیکھنے آئے ہم بھی“

انعمتا علی  غزل گو شاعرہ ہیں۔ ان کی شاعرانہ اُٹھان روایت سے استفادے کا پتہ دیتی ہے۔ انعمتا نے غزل کو اظہار کا وسیلہ بنانے کی بجائے عورت کے وجود کی بقا قرار دیا ہے۔ انعمتا کے ہاں شعری تلازمے اور علامات کا مخصوص انداز ملتا ہے جس سے ان کی شعری حسیت کے دو وا ہوتے ہیں۔

؎         ”رونے کا سلیقہ مجھے اسلاف نے بخشا             یہ ماتمی آنکھیں مجھے ورثے میں ملی ہیں

؎         میں بلندی سے گرائی گئی جس محنت سے           اس میں اپنوں کے بھی کردار نظر آتے ہیں“

مقد س ملک کا شعری سفر دو دہائیوں پر مشتمل ہے۔ ان کی غزل میں روایت کا تتبع ہے اور جدید رجحان کی طرف مراجعت بھی۔ مقدس نے سہل اور آسان بحر میں سہل ممتنع کے انداز کو اختیار کیا۔عام فہم اور روزمرہ لفظیات سے شعری گلستان مقیش کرتی ہیں۔ عمدہ شعر کہہ رہی ہیں۔

؎         ”اس نے نظریں ہی پھیر لی مجھ سے              کچھ نہیں رہ گیا سوالوں میں

؎         میں سوچتی ہوں کہ پھر جرم کس کے سر جائے     سبھی ثبوت اسے بے نگاہ کرتے ہیں“

سبیلہ انعام صدیقی غزل کے علاوہ نظم اور رباعیاں کہتی ہیں۔ عمدہ شاعرہ ہیں۔ شعری سفر جاری ہے اور عمدہ کلام کہہ رہی ہیں۔ نسائی روایت کی امین اور جدید لب ولہجے کی دلدادہ اس شاعرہ کی لفظیات  پڑھنے والے کو اپنے اثر میں لے لیتی ہیں۔

؎         ”وہ میرے ہاتھ سے برسات کے زمانے میں               پکوڑے کھائے گا اور چایے بھی پیے گا ہی

؎         وفا کے راز سے پردہ نہیں اُٹھاؤں گی              میں دل کے زخم تہ دل سے ہی چھپاؤں گی“

جاناں ملک کی غزل کا رنگ منفرد اور روایت سے ہٹا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا کے لوازمات کا ردعمل ان کی غزل میں دکھائی دیتا ہے۔ کہنہ اور غیر مستعمل الفاظ استعمال کرتی ہیں۔ علامات و اوہام اور تمثیل سے دلچسپی ہے۔ ہندی ادب سے گہری وابستی علامات کی صورت دکھائی دیتی ہے۔عمدہ شعر کہہ رہی ہیں۔

؎         ”پاس رہا تو قربت کا احساس نہ تھا        اس نے جانے کی ٹھانی تو کانپ گئی

؎         بس ایک دھوکا رہ جاتا ہے     بندہ تنہا رہ جاتا ہے“

نیل احمد کا شمار اکیسویں صدی کے اوئل کی ممتاز شاعرات میں ہوتا ہے۔ نیل احمد کے ہاں غزل کا نظمیہ انداز ملتا ہے۔ بات کو کھول کر بیان کرنے کی بجائے کہانی کے توسل سے سامنے لانا نیل احمد کا فنی اختصاص ہے۔ نسائی جذبے کی سُر مالا کو  فنی جازبیت سے معمور نیل احمد نے کیا ہے۔

؎         ”دل کی اداسیوں کا کوئی سبب نہیں ہے           بس یہ سبب ہے میرے کی اداسیوں کا

؎         سارے جذبے تری چاہت کے دکھائی دیتے               کاش آنکھوں میں کہیں دل بھی دھڑکتا ہوتا“

بلقیس خان کا شعری سفر   بیس برس کو محیط ہے۔ نوجوان شاعرہ ہیں۔ جذبات بھی جوان اور اظہار بھی بلا کی تابناکی لیے ہوئے ہے۔ محبت کے دریا کو پار کرنے کے بعد دھوکے کے سیراب سے لبریز اس شاعہ کی غزل میں فنی پختگی کے سبھی  لوزامات ِ شعری دکھائی دیتے ہیں۔

؎         ”سمجھ رہی ہوں تو رستہ بدلنا چاہتا ہے             میں تیرے لہجے کی ساری جہات دیکھتی ہوں

؎         میرے پیرو ں کو ڈسنے والا سانپ       میری گردن میں کیوں حمائل ہے“

ایمان قیصرانی عمدہ غزل کہہ رہی ہیں۔ ان کے یہاں عصری مسائل کا شعور اور سماجی انحطاط کا نوحہ فراواں ملتا ہے۔ ایمان قیصرانی نے غزل کو مرد کی طرح  سنبھالا اور نبھایا ہے۔ موضوعات کے انتخاب اور بیان کے سلیقے سے شاعرہ کے وسعت مشاہدہ اور   برق رفتار تخیل کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

؎         ”دل تو پہلے ہی جدا تھے یہاں بستی والو            کیا قیامت ہے کہ اب ہاتھ ملانے سے گئے

؎         ہنسنے رونے سے گئے  ربط بڑھانے سے گئے        ایسی افتاد پڑی سارے زمانے سے گئے“

عاصمہ طاہر کا شمار نوجوان شاعرات میں ہوتا ہے۔ نسائی لہجے کو ڈھال بنا کر مشاعروں میں توجہ حاصل کی۔ ان کے ہاں عورت کوئی مذاق نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے اور وجود رکھتی ہے اور اسے حق ہے کہ وہ اپنی پسند و ناپسند کا دھڑلے سے اظہار کرے اور ردعمل بھی ظاہر کرے۔ عاصمہ نے غزل کے سبھاؤ کو نرمل کی بجائے کھردرا کیا ہے جو عہدِ حاضر کی ناگزیز ضرورت ہے۔

؎         ”مرے وجود کے اندر ہے اک قدیم مکان        جہاں سے میں یہ اداسی ادھار لیتی ہوں

؎         شام کھلتی ہے تیرے آنے سے         لب پہ تیرا سوال رکھتی ہے“

ثمینہ گل استاد ہیں۔شاعرہ ہیں۔ خوبصورت شعر کہتی ہیں۔ کم گو ہیں لیکن شعرکا آہنگ بلند بانگ ہے۔ ثمینہ نے غزل اور نظم دونوں میں طبع آزمائی لیکن غزل میں ان کا دل زیادہ اسیر ہے ۔ محبت ان کا مرکزی موضوع ہے۔ ہلکے پھلکے انداز میں طنز کے تیز دھار تیر شعر کو نشتر بنادیتے ہیں۔

؎         ”محبت کے سبھی جذبے تمہارے نام کرتی ہوں            وفا کے دل نشیں قصے تمہار ے نام کرتی ہوں

؎         بڑے ہی تیز چبھتے ہیں  یہ لہجے مارے دیتے ہیں              مجھے اکثر یہ اپنوں کے رویے مار دیتے ہیں“

صنفِ غزل میں نووارد شاعرات میں  پاک و  ہند اور دنیا بھر میں پھیلی خواتین شاعرات میں سیکڑوں نام آتے ہیں جن کے ہاں غزل کے وسیع امکانات دکھائے دیتے ہیں۔ ان شاعرات نے غزل کی صنف کو کمال دلچسپی سے اپنے  اپنے جذبات کے اظہار کا ذریعہ بنایا ہے اور قوی امید ہے کہ آنے والے دو تین عشروں میں ان نووارد شاعرات میں جس دیے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا کے مصداق نمایندہ شاعرات کہلانے کی مستحق ہوں گی۔ ان شاعرات میں” ماریہ نقوی،نادیہ گیلانی،ایمان شہزادی،سدرہ افضل،صباحت عروج،عنبرین صلاح الدین،سدرہ سحر عمران،طاہرہ غزل،جہاں آرا تبسم،نوشین قمیرانی،صنوبر الطاف،تمثیل حفصہ،سارہ خان،فاطمہ مہرو،تجدید قیصر،سندھو ستار پیرزادہ،انعم جاوید،ثانیہ خان ،انجیل صحیفہ” وغیرہ قابل ِذکر ہیں۔نمونہ کلام ملاحظہ کیجیے۔

؎         ”اُس سے بلا کی چاہ تھی دل کے قریب تھا/پر چھوڑنا پڑا وہ بہت ہی عجیب تھا(ماریہ نقوی)

؎         اے دوست اب سہاروں کی عادت نہیں رہی/تیری تو کیا کسی کی ضرورت نہیں رہی(نادیہ گیلانی)

؎         تمہاری ذات پہ پہلا سوال کرتے ہوئے/خوشی ہوئی مجھے اپنا ملال کرتے ہوئے(سدرہ افضل)

؎         گئی صدی میں حساب رکھا نہ رہزنوں کا/نئی صدی میں سراغ کیسے ملے سَروں گا(طاہرہ غزل)

؎         بانجھ پن میں مذائقہ ہے کیا/عشق بچہ ہے پالتے رہنا(نوشین قیصرانی)

؎         بام سے ڈھل چکا ہے آدھا دن/کس سے ملنے چلا ہے آدھا دن(صنوبر الطاف)

؎         مجھ کو تو خیر خانہ بدوشی ہی راس تھی/تیرے لیے مکان بنانا پڑا مجھے(تمثیل حفصہ)

؎         خواب ٹوٹے تو مری پلکوں پہ آئے سائے/کس طرح آج مری آنکھوں میں چھائے سائے(سارہ خاں)

؎         ترے حواس پہ طاری تھا اب بچھڑ جانا/میں ہوش میں تھی مگر نیم خواب ہونا پڑا(تجدید قیصر)

؎         فضا میں رنگ سے بکھرے ہیں چاندنی ہوئی ہے/کسی ستارے کی تتلی سے دوستی ہوئی ہے(انجیل صحیفہ) “

حوالا جات:

  1. خالد علوی،:”پروین شاکر کی :خوشبو“مشمولہ، قمر رئیس،پروفیسر،مرتبہ،”معاصر اُردو غزل“،(دہلی:اُردو اکادمی ،1994)،ص144
  2. ارشد محمود ناشاد،ڈاکٹر،” اُردو غزل کا تکنیکی،ہیتی اور رعروضی مطالعہ“، )لاہور:مجلس ترقی ادب لاہور،2008)،ص309
  3. فاطمہ حسن،ڈاکٹر،”خاموشی کی آواز“،(کراچی:انجمن ترقی اُردو،پاکستان،کراچی،2019)،ص94
  4. صالحہ صدیقی،” اکیسویں صدی کی اُردو غزل میں تانیثی تصور“،مشمولہ،)غزل نمبر(،مرتبہ،منصور خوشتر،(دربھنگہ:ستمبر2017)،ص172
  5. نصر غزالی،ڈاکٹر،مشمولہ،” شہناز نبی کا شعری سفر:مغربی بنگال  کا شعری و نثری ادب“، مرتبہ،شاید اساز،(اثبات و نفی پبلی کیشنز،2005)،ص105
  6. خالد علوی،”پاکستان کی غزل کے نئے رجحانات“ ،مشمولہ ،”اُردو غزل عہد بہ عہد“،مرتبہ،پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی،(لاہور:دار الشعور ،2015)،ص201
  7. عتیق اللہ،”پروین شیر: عہدِ ناتمام کی شاعرہ“،(حیدر آباد: مکتبہ شعر و حکمت ،2011)،ص90
  8. 1. Khalid alvi, parveen Shakir ki : khushbu” mashmola, Qamar Raees , professor, martaba, muasar urdu ghazal, urdu akadmi Dehli , 1994, p 144
    Arshad Mahmood Nashad , dr, urdu ghazal ka takneeki, hiti aur aroozi mutalea, majlis taraqqi adab Lahore , 2008, p 309
    3. fatima husn, dr, khamoshi ki aawaz, anjuman taraqqi urdu, Pakistan , Karachi , 2019, p 94
    4. Saleha Siddiqui , ikeeswen sadi ki urdu ghazal mein tanisi tasawwur,mashmola, drbhng_h, sah mahi, ghazal number, mansoor Khushter , September 2017, p 172
    5. Nasar Ghazali , dr, mashmola, Shehnaz nabi ka sheri safar, maghribi bangal ka sheri o nasri adab, martaba, shayad, asbat o nifi pbli kishnz, 2005, p 105
    6. Khalid alvi, Pakistan ki ghazal ke naye rujhanaat, mashmola, mardo ghazal ehad bah ehad, martaba, professor Seddiq Al Rehman qadwai, daar al shaoor, Lahore , 2015, p 201
    7. Ateeq Allah , parveen sher : ehad natamam ki shaeirah, maktaba shair o hikmat, hid ray abad, 2011, p 90

CONTACT:

MUHAMMAD MOHSIN KHALID

HOUSE NO 03, STREET NO 09,SHADAB COLONY CHUNG LHR

mohsinkhalid53@gmail.com

Leave a Reply