You are currently viewing جدید اردو غزل مقطعوں کی روشنی میں

جدید اردو غزل مقطعوں کی روشنی میں

ڈاکٹر رابعہ سرفراز

استاد شعبہ اردو، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد

مریم انور

ریسرچ اسکالر ایم فل اردو، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی  فیصل آباد

جدید اردو غزل مقطعوں کی روشنی میں

Abstract:

“Modern Urdu ghazal has been of great importance for the modern era in the Light of the cut, as the Journey form the ancient era to the modern era has taken the Urdu ghazal from the depths of the earth to the height of the sky, due to which the modern Urdu ghazal has become the present era. According to the requirements, it has its own unique identity by encompassing the entire world of meaning creation, so in this regard, the famous poets of modern Urdu ghazal name Faraq Gorakh puri, Faiz Ahmed Faiz, Nasir Kazmi, Ahmed Faraz, Munir Niazi, Shakib Jalaali are included.”

            مقطع کیا ہے مقطع عربی زبان کا لفظ ہے جو عربی لفظ’’ قطع‘‘ سے ماخوذ ہے جس کے عام معنی کاٹنے یا قطع کرنے کے ہیں اور اس کے لغوی معنی ریختہ ڈکیشنزی کے مطابق:

’’خاتمے کا نقطہ، منتہا، انتہا و اتمام کی جگہ، آخری، شاعری: غزل یا نظم وغیرہ کا آخری شعر جس میں شاعر اپنا تخلص نظم کرتا ہے۔‘‘(۱(

         اس سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ شاعری(غزل، نظم، قصیدہ) کا وہ آخری شعر جس میں شاعر عموماً اپنا تخلص استعمال کرتا ہے تو وہ شعر شاعری میں مقطع کہلانے کے مستحق ہوتا ہے۔

         اردو شاعری میں مقطعوں کا استعمال فارسی شاعری کےاثرات سے ہونا شروع ہوا ہے پھر یہی سے یہ رواج عام سے عام تر ہوتا گیا آئیے کلاسیکلی شعراء کے کلام میں مقطعوں کا جائزہ لیتے ہیں جیسے ولی صاحب کہتے ہیں:

ولی تجھ شعر کوں سنتے ہوئے ہیں مست اہل دل

اثر ہے شعر میں تیرے شراب پر نگالی کا(۲(

         یعنی ولی شاعرانہ تعلی استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ولی تیرے شعروں کو سن کر صاحب دل مدہوش ہو رہے ہیں کیونکہ تیرے اشعار میں پورٹ وائن شراب کا سااثر ہے۔ آگے میر تقی میر کہتے ہیں:

سرہانے میر کے کوئی نہ بولو

ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے(۳(

         میر صاحب سرہانے بیٹھ کر گفتگو کرنے والوں سے کہہ رہے ہیں کہ میر کے سرہانے کوئی نہ بولو کیوں کہ میر بہت دیر تک روتے ہوئے ابھی تھوڑا سا سو گئے ہیں یہاں تھوڑا سا  سے مراد میر پھر اٹھ کر رونا شروع کریں گے پھر غالب کا کہنا ہےکہ:

یہ مسائل تصوف، یہ ترابیاں غالب!

تجھے ہم ولی سمجھتے، جو نہ بادہ خوار ہوتا(۴(

         غالب خود سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ اے غالب ! تو تصوف اور روحانیت کے بڑے بڑے مسئلوں کو پیش کر کے ولیوں کے جیسی باتیں کرتا ہے تیرا یہ انداز بیان انتہائی دلکش ہے جس کے باعث تو دل میں گھر بنالیتا ہے لیکن اگر تو شراب نوشی نہ کرتا تو ہم بھی تجھ کو ولی سمجھتے۔

         کلاسیکل شعراء کے بعد جدید اردو غزل کے نمائندہ شعراء(فراق گورکھپوری، فیض احمد فیض، ناصر کاظمی، احمد فراز، منیر نیازی، شکیب جلالی) کے ذریعے مقطعوں کے رواج کو مزید مقبولیت حاصل ہوئی پھر جدید شعراء نے مقطعوں کے ذریعے اپنے اپنے تخلص کو نمایاں کیا جس کے باعث جدید اردو غزل جدید سے حسین تر ہو گئی۔

         فراق انیسویں صدی کے غزل گو شاعر ہے جن کا شمارہ ان غزل گو شعراء میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی ذہنیت، بے انتہا علوم کو استعمال کر کے غزل کے میدان میں نئے  سے نئے گوشے کو متعارف کروایا ہے جیسے:

اے فراق آفاق ہے کوئی طلسم اندر طلسم

ہے ہر اک خواب حقیقت ہر حقیقت ایک خواب(۵(

         فراق کا کہنا ہے کہ اس کائنات کے اندر کوئی جادو ہے جس کی وجہ سے ہر ایک خواب حقیقت اور ہر حقیقت خواب بنے ہوئے ہیں وہ کہتے ہیں:

میں ہوں فراق خود ہی لاکھ

انجمنوں کی انجمن(۶)

         یعنی فراق اپنی تعریف کرتے ہوئے خود کو لاکھوں محفلوں کی ایک  محفل کہہ رہے ہیں۔

فیض ایک جدید شاعر ہے جنھوں نے جدید دور کے تقاضوں سے اپنی غزل کو آہنگ کیا جبکہ ان کی غزلوں میں ایک نیا رنگ، نیا لب ولہجہ اور ایک تصور عشق ملتا ہے جس میں تازگی اور شگفتگی نمایاں دکھائی دیتی ہے جیسے:

مقام ، فیض، کوئی راہ میں جچا ہی نہیں

جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے(۷)

         یہاں شاعر مقصد کے حصول کی خاطر بڑی قرنیاں دینے کا دعوی کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہماری پسندیدہ جگہ محبوب کی گلی ہے اس مقام پر ہمیں سکون و اطمینان ملا رہا لہذا اگر ہمیں اس مقام سے ہٹا دیا جائے تو اس کے علاوہ ہماری نظر میں  کوئی بھی ایسا اٹھکانا نہیں  جہاں ہم قیام پذیر ہو سکے جدیدد شاعر کے حوالے سے وہ بتاتے ہیں:

’’نیا شاعر مایوسی کے لہجے میں ہی اپنی بات کہنا جانتا ہے یا صرف تشلیک اور بے یقینی  ہی اس کا اعتماد ہے دراصل اس کے چند خواب ہیں وہ بھی اتنے بلند کوشش نہیں ہے۔‘‘(۸)

         اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جدید شاعر شک و شبہ میں مبتلا ہو کر مایوس کن لفظوں میں اپنے ایسے خواب بیان کرتا ہے جو بلند پرواز نہیں ہے پھر کہتے ہیں:

فیض تکمیل غم بھی ہو نہ سکی

عشق کو آزما کے دیکھ لیا(۹)

         اب فیض کا کہنا ہے  کہ اے فیض! محبت کا امتحان لے کر دیکھ لیا لیکن پھر بھی غم پورے نہ ہو سکے۔

ناصر کاظمی جدیداردو غزل کےبنیاد سازوں میں سے ایک ہے جنھوں نے غزل کو

اپنی طرز ادا کی برجستگی اور ندرت سے سنوار کر اسے تخلیقی کمال کی ایک نئی دہلیز پر لا کھڑا کیا ہے ناصر کہتے ہیں:

دل تو میرا اُداس ہے ناصر

شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے(۱۰)

 پھر

         ناصر کاظمی سوالیہ انداز کو اپناتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے ناصر! میرا ددل تو ملول ہے مگر شہر کیوں ویران ہے؟پھر کاظمی صاحب خود کو حوصلہ دیتے ہوئے کہتے ہیں:

وقت اچھا بھی آئے گا ناصر

غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی(۱۱)

         ان کا کہنا ہے کہ ناصر دکھی نہ ہو کیونکہ ابھی  بہت زندگی پڑی ہے کبھی اچھا وقت بھی آجائے گا ڈاکٹر ناصر پرویز ناصر کاظمی کی شاعری کے حوالے سے لکھتےہیں:

“ناصر کی شاعری ان کے دل کی آواز ہے انھوں نے اپنی قلبی واردات اوراحساسات کو سیدھے سادے مگر پر انداز میں بیان کیا ہے کہ ان کا ایک ایک لفظ دل میں اترتا چلا جاتا ہے ان کا کلام تصنع سے پاک ہے سادگی اور برجستگی ایسی کہ اس پر ہزار رنگنیاں قربان کر دی جائیں۔‘‘(۱۲)

         یعنی ناصر کی شاعری سادگی پرمبنی اس کے دل کی آواز ہے جو بڑی آسانی سے دوسروں کے دل میں گھر کر جاتی ہے۔

احمد فراز جدید اردو غزل میں  بلند حیثیت کے مالک شاعر ہیں جبکہ ان کی غزلیں جذباتی عنصر، فکری ترفع اور فنی تکمیل کی عکاسی کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے جیسے:

وہ زندگی ہو کہ دنیا فراز کیا کیجیے

کہ جس سے عشق کرو بے وفا نکلتی ہے(۱۳)

         شاعر عشق میں دھوکا  کھا کر کہتے ہیں کہ فراز کیا کیجیے یہ زندگی ہے یا دنیا جس سے بھی محبت کرتے ہیں وہ بے وفا نکلتی ہے فراز مزید کہتے ہیں:

ٹوٹا تو  ہوں مگر ابھی بکھرا نہیں فراز

میرے بدن پہ جیسے شکستوں کا جال ہو(۱۴)

         شاعر کا کہنا ہے  کہ میرے جسم پر پریشوں کا جال بچھا ہوا ہے جس کے باعث میں بے اختیار تو ہوا مگر ابھی منشتر نہیں ہوا۔

منیر نیازی اردو،پنجابی زبان کے بڑے شاعر مانے جاتے ہیں جن کی شاعری اپنے عہد کے احساس اور  رویوں  کا عطربنی رہی ہے کیوں کہ انھوں نے سیدھے سادے، سچے جذبات، حسی تجربات اور ماضی کے خوشگوار سپنوں کی شاعری کی ہے جیسے:

تو بھی منیر اب بھرے جہاں میں مل کر رہنا سیکھ

باہر سے تو دیکھ لیا اب اند جا کردیکھ(۱۵)

یعنی منیر خود کو اس بھری دنیا میں مل کر رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں چوں کہ تم نے اس دنیا کے لوگوں کی ظاہری شکل تو دیکھ لی ہے مگر اب تو ان کے اخلاق کو جاننے کی کوشش کر پھر مزید خود کو ہی مشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں:

تم بھی منیر اب ان گلیوں سے اپنے آپ کو دور ہی رکھنا

اچھا ہے جھوٹے لوگوں سے اپناآپ بچاتے رہنا(۱۶)

ان کا کہنا ہے کہ اے منیر! تم خود بھی اپنے آپ کو ایسی بری گلیوں کے بدلوگوں سے دور ہی رکھ کر بچائےرکھنا۔

         شکیب جلالی دور جدید کے بڑے ہی غم زدہ، دکھی اور احساس دل کے مالک شاعر ہے جنھوں نے نفسیاتی بیماری  کے تحت کم عمری میں ہی خود کشی کر لی تھی جیسے وہ  بہت ہی دکھ بڑے انداز میں اپنے کم چھپانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں:

ہر موڑ پہ ملیں گے کئی راہ زن شکیب

چلیئے چھپا کے غم بھی ذر و مال کی طرح(۱۷)

         یعنی شاعرکا کہنا ہے کہ اے شکیب! اپنے غموں کو مال اور دولت کی طرح چھپانے کی کوشش کرو لہذا اب تو ہر ایک راستے پر راستے سے بھٹکانے والے بھی ملے گے احمد ندیم قاسمی شکیب کی غزل کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں:

’’شکیب کی غزل نے اردو شعر و ادب کے قاری کو بتایا کہ غزل گو بیسویں صدی کے نصف آخر کا ایک باشعور فرد ہو کر بھی غزل کہہ سکتا ہے اور ایسی غزل کہہ سکتا ہے جس میں عصر رواں کی روح بول رہی ہو اور جو اس کے باوجود غزل ہو۔‘‘(۱۸)

         اس سے ظاہر ہے کہ شکیب جلالی کی غزلیں جدید اردو ادب میں بڑی ہی اہمیت کی حامل ہے جن میں جدید دور کی روح باتیں کرتی دکھائی دے رہی ہے پھر شکیب غزل کے آخری شعر میں خود کو ہی نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:

دیکھتے کیوں ہو شکیب اتنی بلندی کی طرف

نہ اٹھایا کرو سرکو یہ دستار گرے(۱۹)

یعنی شاعر خود کو کہتے ہیں کہ تو اپنے سر کو اتنا بلندنہ اٹھانے کی کوشش کر کیونکہ ایسے غرور میں تو بڑے سے بڑے لوگوں کے عمامے زمین پر گرے ہیں۔

حوالہ جات

  1. 1. http://www.rekhtadictionary.com مقطع لفظ کے معانی، 12.9.2022, 7:27 PM
  2. 2. ولی دکنی، کلیات ولی، مرتب:نورالحسن ہاشمی، نئی دہلی:قومی کونسل برائے فراغ اردو زبان، ۲۰۰۸ء،ص۸۴
  3. 3. میر تقی میر، کلیات میر، لکھنو: منشی نولکشور، ۱۹۴۱ء،ص۲۰۷
  4. 4. اسد اللہ خان غالب، دیوان غالب، اسلام آباد: نیشنل بک فاؤنڈیشن، ۲۰۱۹ء،ص۲۷
  5. 5. فراق گورکھپوری، گل نغمہ، دہلی: ادارہ علم و ادب، ۲۰۰۶ء،ص۳۲
  6. 6. ایضاً،ص۶۱
  7. 7. فیض احمد فیض، نسخہ ہائے وفا، دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، ۱۹۹۲ء،ص۲۶۵
  8. 8. شاہینہ تبسم ڈاکٹر، ارد و میں جدید شعری روایات تسلسل اور انحراف، نئی دہلی: وقاس پوری،۱۹۹۸ء،ص۲۸۶
  9. 9. فیض احمد فیض، نسخہ ہائے وفا،ص۷۲
  10. 10. ناصر کاظمی، کلیات ناصر(برگ نے)، دہلی: کتابی دنیا، ۲۰۱۰ء،ص۱۲۱
  11. 11. ایضاً، دیوان،ص۳۷
  12. 12. ناصر پرویز ، ڈاکٹر، ناصر کاظمی، حیات اور ادبی خدمات، نئی دہلی: اسلامک ونڈرس بیورو، ۲۰۱۶ء،ص۲۵۰
  13. 13. احمد فراز ،کلیات احمد فراز ، ترتیب و تزئین، فاروق ارگلی، نئی دہلی: فرید بکڈپو، ۲۰۱۰ء،ص۹۸
  14. 14. ایضاً،ص۶۹
  15. 15. منیر نیازی، کلیات منیر، لاہور: ماورا پبلشرز، ۱۹۸۶ء،ص۹۱
  16. 16. ایضاً،جنگل میں دھنک،ص۸۵
  17. 17. شکیب جلالی، کلیات شکیب جلالی، معاون: سمن مشرا، س ن، ص۳۵
  18. 18. احمد ندیم قاسمی، شکیب جلالی، مرتبہ: ذوالفقار احسن، راولپنڈی:نقش گر، پبلی کیشنز، س ن، ص ۲۲
  19. 19. شکیب جلالی، کلیات شکیب جلالی، ص۳۰

***

Leave a Reply