You are currently viewing جدید اردو ناول میں عورت  کا تصور

جدید اردو ناول میں عورت  کا تصور

سدرہ کرن ریسرچ اسکالر

جی سی ویمن یونیورسٹی،سیالکوٹ

جدید اردو ناول میں عورت  کا تصور

ایک زمانہ تھا جب علم وادب کے سر چشموں پہ صرف مردوں کی اجارہ داری تھی ۔عورت کی ادب میں شمولیت کو معیوب سمجھا جاتا تھا ۔لیکن جب عورت نے علم وادب کے میدان میں قدم رکھا تو اس نے بڑی بے باکی ،جرات مندانہ طور پر مردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔لہذا اس تحریک کا قیام ہی عورتوں پہ مردوں کی ظلم و زیادتی کے خلاف انتقامی رد عمل کہا جا سکتا ہے۔نسائی ادب کے حوالے سے “ضمیر علی بد ایوانی ” اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں۔

“نسائی شعور دراصل مابعد جدید پوسٹ ماڈرن رویوں کے آگہی کا نام ہے جو

ہماری فکر کا مکمل حصہ نہیں بن سکا کیوں کہ ہماری قدریں روایتی طور

پر مردوں کی فکر کی تابع رہی ہیں،ان میں عورت کا حصہ نہ ہونے کے

برابر ہے اب صورت حال یہ ہے کہ عورتیں مرد کی حاکمیت اور ان کے

تابع رسم و رواج سے آزاد ہو کر اپنے آپ کو اس آئینے میں دیکھ رہی ہیں

جو ان کا اور ان سے متعلق معاشرے کا سچا اور اصلی روپ سامنے لا

سکے۔”(۱)

کراچی ،اکادمی  بازیافت،جنوری تا جون،2003ء،ص21) (ضمیر علی بدایوانی    ،فاطمہ حسن ،نسائیت کی تحریک اور اردو ادب،مکالمہ ،(کتابی سلسلہ10)

                    نسائی ادب میں عورتیں خود اپنے حقوق اور تحفظ عزت نفس کی خاطر آواز بلند کرتی ہیں ۔انیسویں صدی میں اس تحریک کا باقاعدہ آغاز مغرب سے ہوتا ہے جن میں فرانس ،اٹلی،جرمنی ،انگلینڈ ،امریکہ وغیرہ شامل ہیں۔ورجینا وولف اور ژولیا کرسٹوا مغربی خواتین نے نسائی ادب کا تصور دیا ۔دنیا کی مختلیف زبانوں کی طرح اردو شعروادب میں خواتین قلم کاروں نے طبع آزمائی کی ۔جنھوں نے شعروادب کی مختلیف اصناف میں نہایت سنجیدگی سے اپنے جذبات ،احساسات ،تجربات ،مشاہدات کا اظہار کیا ہے۔اور عورتوں کے مسائل ،حقوق،بحیثیت انسان اپنی شناخت،عزت و نفس جیسے موضوعات کو اپنایا۔اردو ادب میں نذیر احمد پہلے تخلیقار ہیں ۔جنھوں نے باضابطہ عورتوں کی اصلاح و تربیت کو اپنی زندگی کا واحد مقصد بنایا۔علامہ راشد الخیری نے بھی عورت کے مسائل کو موضوع بنایا ۔اس کے بعد عبدالحلیم شرر نے عورتوں کی اصلاح اور ان کے مسائل پر باقاعدہ ناول لکھے۔

      سر سید احمد خان جنھوں نے علی گڑھ تحریک قائم کی اور عورتوں کی بیداری تعلیم و تربیت کے سلسلے میں نمایاں خدمات انجام دیں ۔علی گڑھ کی ساختہ برداستہ خواتین کی فہرست خاصی طویل ہے یہ وہ خواتین ہیں جنھوں نے انیسویں صدی کی ادبی تاریخ کے خاکے میں رنگ بھرا اور ایسی ادبی دنیا کی داغ بیل ڈالی ہے جس سے آج کی خواتین فکشن نگاروں کا چہرہ ابھرا ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ترقی پسند تحریک نے اردو ادب کے رائج الوقت سانچوں کے بارے میں تکنیک کا ہی نہیں بلکہ انکار کا حوصلہ بھی پیدا کیا ۔

عورت نے شعروادب کی تمام اصناف میں طبع آزمائی کی ۔عورت سماج میں بہت اگے نکل چکی ہے ۔ہر مشکل کا سامنا کرنے کی ہمت رکھنے لگی ۔جدید اردو ناول میں جن ناول نگاروں نے عورت کو موضوع بحث بنایا ہے ۔ان میں مشرف عالم ذوقی ،اقبال مجید،الیاس احمد گدی،عبدالصمد وغیرہ کے نام پیش پیش ہیں ۔

مشرف عالم ذوقی  (نیلام گھر)

           نیلام گھر مشرف عالم کا ناول 1992ء کو منظرعام پر آیا۔مشرف نے اس ناول میں موجودہ عہد میں پیش آنے والے مسائل بدعنوانی ،رشوت،عورتوں کا استحصال ،پولیس محکمے کی بد انتظامی ،سماجی برائیوں کو سامنے لائے ہیں ۔مشرف عالم نے اعلی عہدہ پر فائز لوگوں کی نشاندہی کی ہے کہ وہ اپنے اقتدار و اختیارات کس طرح غلط استعمال کرتے ہیں ۔وہ اپنے سے چھوٹی ملازمتوں پر فائز لوگوں پر دباؤ ڈال لیتے ہیں ۔اور چھوٹی نوکریوں والے ملازمین اپنی ترقی کی راہ میں آنے والی رکاوٹ کے باعث خاموش رہتے ہیں. مشرف عالم نے نیلام گھر میں دفتروں میں ملازمت کرنے والی عورتوں کی عکاسی کی ہے ۔ان دفتروں میں بھی عورت کا استحصال کیا جاتا رہا ہے ۔دفتروں میں بڑے افسروں سے عورتوں کا استحصال ہوتا ہے ۔اس ناول کا کردارمس نیلی کا ہے جو دفتر میں ملازمہ ہے۔مس نیلی اس دفتر کے افسر کی حمایت کرتی ہے اور آخر کار اس افسر درندہ کی ہوس کا شکار ہو جاتی ہے اور خود کشی کرلیتی ہے ۔اس کے بعد دفتر کی دوسری ملازمہ بھٹنا جو افسر کی بہت قریبی ہوتی ہے ۔وہ بھی اس افسر کی ہوس کی نذر ہو جاتی ہے۔

“مس نیلی نے خود کشی کی ہے کسی نے مارا نہیں ہے اس کو

احمقو اس طرح سے چیخنے چلانے سے کیا ملے گا تمھیں

۔۔۔۔۔۔۔۔وہ تو ہم شریف ہیں کہ تمہیں گرفتار نہیں کر رہے ۔۔۔

ورنہ تم لوگوں کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انسپیکٹر کے چہرے پر خون

دوڑ گیا ۔۔۔۔۔,۔”(2)

(مشرف عالم ،نیلام گھر ،انیس امروہی،1992ء،ص93۔94)

آج کے جدید اور ترقی یافتہ دورمیں عورت اس معاشرے میں بہت آگے نکل گئی ہے ۔اپنے حقوق کو منواتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں خود اٹھانے لگ گئی ہے ۔مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ چل رہی ہے ۔لیکن وہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی مظلوم ہے ۔عورت کے ساتھ جنسی استحصال کیا جا رہا ہے ۔وہ اب بھی ظلم ،جبر اور تشدد کا آشکار ہے ۔مشرف عالم نے اس ناول کے ذریعے دفتروں ،افسروں کے ظلم و ستم ،عورت کے استحصال ،سماج کی برائیوں کو پورے ناول میں پیش کیا ہے ۔

عبدالصمد (خوابوں کا سویرا)

خوابوں کا سویرا عبدالصمد کا ناول ہے ۔اس ناول میں مصنف نے تقسیم ہند اور اس کے بعد کے سیاسی حالات کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے ۔اس عہد کے نوجوانوں (منا لال اور پنا لال) ہیں ۔ان میں منا لال سکولر اور پنا لال فرقہ پرست ہے ۔خوابوں کا سویرا بہار کے شہر گیا کے ایک زمیندار کنبے کے عروج و زوال کی سر گزشت ہے ۔اس میں دو بھائیوں کی جوڑی ہے ۔ان کی زندگی میں پیش آنے والے نشیب و فراز ،تعلیمی پسماندگی ،ملازمت میں سفارش ،رشوت اور مذہبی فسادات جیسے موضوعات کو اس ناول میں پیش کیا ہے ۔عبدالصمد نے اس ناول میں عورت کو مضبوط کردار پیش کیا ہے. مصنف کا تصور ہے کہ آزاد ہندوستان میں عورت بہت آگے نکل چکی ہے ۔وہ اپنے حقوق کو پورا کرنے کی اہلیت رکھتی ہے. وہ اب گھروں کے اندر قید نہیں ہے بلکہ وہ اپنی ذمہ داری خود اٹھا سکتی ہے ۔جدید عہد کی عورت اپنے مسائل خود حل کرسکتی ہے. اس ناول میں کلثوم مضبوط اور اہم کردارہے جو کہ بہت مضبوط لڑکی یے ۔

“آپ لڑکیوں نے مردوں پر سبقت لے جا کر یہ ثابت کردیا کہ اب

لڑکیوں اور عورتوں کو گھروں کے اندر بند نہیں کیا سکتا ۔

اگرچہ دونوں کے مجاز علیدہ علیدہ ہیں لیکن اگر موقع اور

وقت کی نزاکت ہو تو مجاز کی علیحدگی فورا ختم کی جا سکتی

ہے ۔مغرب کی آزادی کا شہرہ بہت ہے ۔لیکن قوموں کی تعمیر

میں ان کی عورتوں کا کردار بہت اہم نہیں رہا ہے ۔اب مشرقی

لڑکیوں نے یہ ثابت کردیا کہ اس میدان میں بھی آپ کا کردار

مردوں کی طرح کم نہیں بلکہ کچھ زیادہ ہی ہے ۔”(3)

(عبدالصمد ،خوابوں کا سویرا،لبرٹی آرٹ پریس،نئی دہلی،1994ء،ص225)

عبدالصمد نے اس ناول میں عورت کی بدلتی ہوئی شکل کو پیش کیا ہے ۔زمانہ ماضی میں عورت کو نرم و نازک سمجھا جاتا تھا ۔عورت صرف گھر کی چار دیواری تک محدود تھی ۔تعلیم سے بہرہ مندنہ تھیں ۔سماج میں پدرانہ نظام موجود تھا ۔عورت پر ہر طرح سے استحصال کیا جاتا تھا ۔لیکن وقت کے ساتھ عورت کی سوچ میں تبدیلی آئی ۔اس نے اپنے حقوق کو حاصل کرنے کے لیے قدم اٹھایا ۔آج کی عورت کمزور نہیں ہے وہ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی ہے ۔وہ اپنے ساتھ ہونے والے ہرظلم و جبر کے خلاف بول سکتی ہے ۔زندگی کے ہر میدان میں مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ چل سکتی ہے ۔

الیاس احمد گدی  (فائر ایریا)

الیاس احمد گدی کا فائر ایریا کے نام سے 1994ء میں ناول شائع ہوا ۔اس ناول میں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کا استحصال دکھایا گیا یے ۔کول فیلڈ کی دنیا میں قتل و غارت ،غارت گری ،ناانصافی ،دھاندلی اور عیاشی ہے ۔اس ناول میں مزدوروں ،محنت کش لوگوں کا حال بیان کیا ہے ۔یہ لوگ اپنا گھر ،دیس ،شہر اور خاندان کو چھوڑ کر مزدوری کرنے جاتے ہیں ۔ان تمام مصائب کے بعد بھی ان کو جو اجرت ملتی ہے ۔اس سے وہ اپنا اچھے طریقے سے نظام نہیں چلا سکتے ہیں ۔یہ ناول تین حصوں پر مشتمل ہے ۔اس ناول کا پہلا حصہ آزادی سے قبل کا ہے ۔دوسرا آزادی کے بعد کا ہے اور تیسرا حصہ کول مائنوں کے قومیانے کے بعد کا ہے ۔ان تینوں حصوں میں مزدوروں کا استحصال دکھایا گیا ہے ۔

عورت کا استحصال ہر عہد ہر طرح سے ہوتا آیا ہے ۔کبھی گھر کے مردوں نے مختلیف طریقوں سے ظلم و جبر کیا ہے ۔کبھی گھر سے باہر کام کرنے پر مردوں نے استحصال کیا ہے اس طرح سے نچلے طبقے کی عورتوں کا جنسی استحصال بھی ہوتا آیا ہے ۔اور وہ مجبور عورتیں اپنی بے بسی کے سبب اپنے مالک کا ظلم و جبر سہتی آئی ہیں ۔کیوں کہ تمام اختیارات اس کے مالک کے ہاتھ میں ہوتے ہیں ۔جدید دور شروع ہوا تو نوکریوں کی بحالی کے لیے رشوتیں وصول کی جانے لگی ۔افسروں نے رشوت کے عوض مزدور عورتوں کا جنسی استحصال شروع کردیا اور عورتیں ملازمت کے حصول کے لیے استحصال کا شکار بنتی ہیں ۔

“اس کالی نگری میں یہ جھنپٹے اور شرمانے کی بات نہیں ہے

بلکہ اس کو تو ایک طرہ مردانگی سمجھا جاتا ہے ۔لوگ تو

انڈر گراونڈ میں بھی کوئی اندھیری گچھا تلاش کر لیتے ہیں

اور کسی کامین کو کھینچ لے جاتے ہیں ۔یہ کامین جو مردوں

کے دوش بدوش کام کرتی ہیں باہر بھی انڈرگراونڈ بھی وہ

جانتی ہیں کہ مرد ایک ایسا طاقتور جانور ہے جس سے مفر

نہیں ۔”(4)

(الیاس احمد گدی،فائر ایریا،معیار پبلیکیشنز،نئی دہلی،1994ء،ص29)

الیاس احمد نے اس ناول میں مزدوروں نفسیات و کشمکش کو ابھارا ہے کہ یہاں سمجھدار اور پڑھے لکھے مزدور کا بھی استحصال ہوتا ہے کہ انھیں بیش بہا محنت کے عوض کم تنخواہ دی جاتی ہے ۔یہ ایک علاقائی ناول ہے اس میں معاشی و اقتصادی جنسی استحصال کو اولیت حاصل ہے ۔

اقبال مجید

کسی دن اقبال مجید کا پہلا ناول ہے ۔جو 1997ء کو منظرعام پر آیا ۔اقبال نے اس ناول میں تین  نسلوں کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔پہلی نسل میں شوکت جہاں اور قدرت اللہ کا باپ ہے ۔جو زندگی بھرایک سیاسی جماعت کی خدمات کرتا ہے ۔دوسری نسل میں شوکت اور قدرت شامل ہیں ۔جو اپنی عفت پارسائی اور اپنی عصمت کی حفاظت کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں ۔ناول کسی دن میں آج کی سیاست اور سماج و معاشرت کی تصویر کشی کی ہے ۔انھوں نے اقلیتی کردار اور مسلمانوں کے مسائل اور درد و غم کو نہایت بخوبی سے پیش کیا ہے ۔اس ناول میں اقبال مجید نے متوسط طبقے کی تعلیم یافتہ لڑکیوں کی زندگی کی عکاسی کی ہے کہ یہ تعلیم یافتہ لڑکیاں معاشرے میں اپنا مقام اپنی شناخت بنانا چاہتی ہیں لیکن کوئی راستہ نہیں ملتا جو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکے ۔جو لڑکیاں ترقی کر کے سیاست کے میدان میں شامل ہیں ان کا کیسے کیسے استحصال کیا جا رہا ہے ۔اس ناول میں موجود نسوانی کردار شوکت جہاں ،کمو اکبری بیگم مسلم معاشرے کی زندگی کی عکاسی کی ہے ۔

شوکت اس ناول کا اہم کردار ہے ،شوکت مسلم متوسط طبقے کی سیاسی کارکن ہے ۔اس ناول میں پرتاب شکلا کا  کردار ہے جو ہمارے دور کا انتہائی موقع پرست سیاست داں ہے ۔پرتاب شکلا جنسی استحصال کے لیے شوکت کو شیشے میں اتارنے کی کوشش کرتا ہے ۔مگر کامیاب نہیں ہو پاتا اور اس کا قتل کروا دیتا ہے۔

“تم خوبصورت ہو وہ بولے، جوان ہو اور کچھ ذہین بھی ہو

مگر ۔۔شوکت نے لفظ دہرایا۔۔۔تم آج کی نہیں ہو ۔۔۔

یعنی عصری تقاضوں کے مطابق جی نہیں پا رہی ہو ۔مطلب

جو تم کو ابھی ہونا چاہیے وہ تم تو نہیں ہو ۔”(5)

(اقبال مجید ،کسی دن ،نیا سفر پبلی کیشنز،الہ آباد،1997ء،ص29)

اقبال مجید نے شوکت جہاں کمبو اکبری بیگم اور دوسرے نسوانی کرداروں کے ذریعے عورتوں کی تعلیم ،معاشرے میں ان کی آزادی ،مساوات پر بھی سوال پیدا کیے ہیں ۔شوکت کے کردار سے یہ بھی سوال سامنے آتا ہے کہ جدید عہد کی عورت کے لیے معاشرے میں خطرات زیادہ ہیں ۔یا عورت کی موجودہ زندگی گزشتہ زندگی سے بہتر ہے ۔اقبال نے متوسط طبقے کی تعلیم یافتہ لڑکیوں کی عکاسی کی ہے ۔جو معاشرے میں اپنی شناخت بناتے گم ہو جاتی ہیں ۔دنیا کی موجودہ روش میں جہاں مرد آگے بڑھے وہاں یہ ممکن نہ تھا کہ عورتیں بھی ترقی راہ میں گامزن نہ ہوتیں ۔

حوالہ جات

کراچی ،اکادمی  بازیافت،              1:۔  ضمیر علی بدایوانی    ،فاطمہ حسن ،نسائیت کی تحریک اور اردو ادب،مکالمہ ،(کتابی سلسلہ10) جنوری تا جون،2003ء،ص21

2:۔مشرف عالم ،نیلام گھر ،انیس امروہی،1992ء،ص93۔94

3:۔عبدالصمد ،خوابوں کا سویرا،لبرٹی آرٹ پریس،نئی دہلی،1994ء،ص225

4:۔الیاس احمد گدی،فائر ایریا،معیار پبلیکیشنز،نئی دہلی،1994ء،ص29

5:۔اقبال مجید ،کسی دن ،نیا سفر پبلی کیشنز،الہ آباد،1997ء،ص29

***

Leave a Reply