You are currently viewing جدید نظم اور ساجدہ زیدی

جدید نظم اور ساجدہ زیدی

صائمہ ثمرین

ریسرچ اسکالر

جواہر لعل نہرو ینورسٹی، نئی دہلی

جدید نظم اور ساجدہ زیدی

“جدید نظم کا لفظ شاعری کی ایک خاص صنف کے لئے استعمال ہوتا ہو تو اس کا مطلب ہوتا ہے اشعار کاایسا مجموعہ جس میں ایک مرکزی خیال ہو اور ارتقائے خیال کی وجہ سے تسلسل کا احساس ہو ،اس کے لئے موضوع کی کوئی قید نہیں اور نہ ہی اس کی ہیئت ہی متعین ہے ۔ایسی نظموں کی ایک علیحدہ حیثیت اور تاریخ ہے ، جیسے مرثیہ ، مثنوی اور قصیدہ رباعی وغیرہ ۔نظم کا لفظ جب شاعری کی ایک مخصوص صنف کے لئے استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے یہ نظمیں مقصود ہوتی ہیں جس کا کوئی متعین موضوع ہو اور جس میں بیانیہ فلسفیانہ یا مفکرانہ انداز میں شاعر نے کچھ خارجی اور کچھ داخلی یا دوبنوں قسم کے تاثرات پیدا کیے ہوں۔” 1

1-(ص : ۱۲۹، رسالہ نگار ، لکھنو ، ایڈیٹر :نیاز فتح پوری ، شمارہ نمبر :۱ ، اصناف سخن نمبر ،۔ مضمون :اردو نظم کا تاریخی و فنی ارتقا، پروفیسر سید احتشام حسین ، جنوری ، فروری کا مشترکہ شمارہ ، ۱۹۵۷۔)

جدید نظم ایک نہایت پیچیدہ موضوع ہے ، ہر دو اعتبار سے یعنی اس کے عہد کا تعین کرنا ،کہ جدید سے ہماری کیا مراد ہے ؟اس لحاظ سے بھی ۔اوارس کے موضوع اور ساخت کا تعین کرنا کہ اس ضمن میں جدید سے ہماری یہ مراد ہے ۔ساجدہ زیدی جدید نظم کا ایک نمایاں نام ہے ۔جدید نظم کے مختلف رویے کے ابتدائی نقوش اگر اردو شاعری میں کہیں نظر آتے ہیں تو وہ ساجدہ زیدی کی نظمیں ہیں ۔ان کی نظموں میں زندگی کی باریک حقیقتوں کا اتنا گہرا اظہار موجود ہے کہ شمش الرحمن فاروقی جیسا چشم کشا نقاد بھی ان کے کلام کو زمانی قید سے آزاد قرار دیتا ہے ۔یہ ساجدہ زیدی کی نظم کا انوکھا اظہاریہ ہے جو انھیں اپنے معاصرین سے مختلف کرتا ہے ۔جدید نظم کیسی ہونی چاہیے ؟یا وہ کون سے مسائل ہیں جن کا اظہار جدید نظم کو جدیدیت کے حقیقی معنوں سے ہمکنار کرتا ہے ؟اس کا بھرپور ادراک ساجدہ زیدی کی نظموں سے ہوتا ہے ۔ ساجدہ زیدی کی نظموں کو انسانی نفسیات کا بولتا ہواآئنہ کہا جا سکتا ہے ۔ وہ ماہر نفسیات بھی تھیں اس لیے ان کی شاعری میں انسانی نفسیات کا عنصر نمایاں ہے ۔جس سے ان کے کلام میں ایک ایسا رمز پیدا ہوگیا ہے جو ان سے قبل دیکھنے کو نہیں ملتا ۔ساجدہ زیدی کی نظم نئے دور کی دہلیز پہ سب سے زیادہ روشن نظر آنے والی نطم ہے ۔ا س کی وجہ یہ ہے کہ کلام میں انسانی زندگی کا الجھا ہوا مزاج اور انتشار نظر آتا ہے ۔وہ آتش سیال کے تعارف میں لکھتی ہیں کہ

،،فرد اور معاشرے کے تعلق اور اس سے پیدا شدہ سفاکی اور نفسیاتی جبریت کو میں نے اس درس گا ہ کے سیاق سباق میں بہت قریب سے دیکھا اور سمجھا ہے ،،

وہ انسانی المیوں اور نا انصافیوں سے ، سفاکیوں سے  بہت نالاں نظر آتی ہیں ، آتش سیال اور سیل وجود اسی کرب کا اظہاریہ ہیں ۔ا ن کی زیادہ تر نظموں میں ذاتی نشا ط و الم اور ہستی کا المیہ ایک ساتھ مدغم ہو جاتے ہیں ۔شاعری کو وہ اپنے ما قبل شعرا کی طرح اصلاح زندگی کا ذریعہ نہیں سمجھتی بلکہ شاعری کو روحانی کرب کا اظہاریہ کہتی ہیں ۔اپنے دو بڑے معاصرین میرا جی اور راشد کی طرح اظہار ذات کا وسیلہ قرار دیتے ہوئے نطر آتی ہیں ۔حالانکہ ان کے کلام میں عشیہ جذبات اور اندوہ دروں کا ایسا بیانیہ بھی ملتا ہے ،جو انھیں فیض کے کلام سے قریب کر دیتا ہے ۔مگر ساجدہ زیدی کی نظم فیض کی شاعری سے اس وقت یک گنا مختلف یا آگے کی ہو جاتی  ہے جب وہ ان کے تجربات سے کما حقہ استفادہ کرتے ہوئے اس میں اپنا تجربہ حیات شامل کر دیتی ہیں ۔ اچھی نظمیہ شاعری ایسے ہی کلامیے سے وجود میں آتی ہے ، جس میں مشاہدے کا مظاہرہ ہو سکے ۔ساجدہ زیدی کے کلام میں ان کی ذات کاکرب اور اطراف کا المیہ سب سے زیادہ نمایاں نظر آتا ہے ۔ بالخصوص ان کی مشہور زمانہ نظم ــــ،،فقیری میں ،، میں جس میں وہ اس نوع کی متلاشی نظر آتی ہیں جسے زندگی کے سفر کی حقیقت کا راز معلوم ہو گیا ہواور وہ اس امر میں سرگرداں ہو کہ اس راز کو عوام الناس پہ منکشف کر دیا جائے ۔نطم دیکھیں :

فقیری میں بھی خوش وقتی کے

  کچھ سامان فراہم تھے

                                           خیالوں کے بگولے مضطرب جذبوں کے ہنگامے ،

 طلاطم بحر ہستی میں

 تموج روح کے بن میں

 عجب افتاں و خیزاں مرحلے پہنائی شب کے ،

 تڑپ غم ہائے ہجراں کی

 لرزتی آرزو دیدار جاناں کی ۔۔۔۔۔

 عدم آباد صحرا میں ۔۔۔۔۔۔ ایک ذرہ

 کہ مثل قظرئہ سیماب لرزیدہ۔۔۔۔۔۔۔۔

  صدف میں ذہن کے ۔۔۔۔۔جوں

 گوہر کمیاب پوشیدہ

 دل صدپارہ

 جوئے غم

  لرزتی کشتی احساس۔۔۔۔۔۔

 جہاں بینی کا دل میں عزم دزدیدہ ۔۔۔۔۔

 فقیری میں یہی اسباب ہستی تھا۔۔۔۔۔ یہی دردتہہ جام تمنا تھا

 یہی ساماں بچا لیتے تو اچھا تھا

  فقیری میں مگر یہ کون سی افتاد آئی ہے

 کہ ساماں لٹ گیا راہوں میں ۔۔۔۔۔کاسہ دل کا خالی ہے،،

 ان کے مجموعہ کلام ایسی نظموں سے بھرے نظر آتے ہیں جن میں ،، عجب بلا خیز مرحلہ تھا ،آئینے نظر کے گرد  ہوئے ، برق  طور،کاغذی ہے پیرہن ،اجنبی موڑ پر،گمشدہ راستے ،مئی یوم الحساب ،تخلیق شعر ، کب سے محو سفر ہو ں،دور افتادگی اور وہ خواب جو معدوم ہو گئے ہیں ،،   شامل ہیں ۔

ساجدہ کی نظموں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ ان کے یہاں حقیر سے حقیر شئے جس کی طرف عام انسان بغور متوجہ ہونا غیر اہم سمجھتا رہتا ہے اس کا المیہ ترسیل کے مرحلے سے گزرتا ہے ہم عام زندگی میں جن جذبوں اور فطری تقاضوں کو نظر انداز کردیتے ہیںساجدہ زیدی نے انھیں کے درمیان ایک ایسی فضا قائم کی ہے جس سے ہمیں خیالات کا ایک نیا ڈھرا نصیب ہوتا ہے ۔ساجدہ زیدی بنیادی طور پر آزاد نظم کی شاعرہ تھیں ، مگر ان کی نظمیں صنف کی تخصیص سے قطع نظر جدید شاعری کی بنیادیں مضبوط کرنے کا کام بھی کرتی ہیں ۔ان کی شاعری میں ہمیں جذبوں اورغموں کاانوکھا اظہار نظر آتا ہے ۔سلیس زبان اور پیچیدہ استعارہ ان کی نظم کی پہچان ہے ۔وہ فطرت کے رنگین مناظر سے اپنے استعارے تراشتی ہیں اور ان میں معنی کا جدید نظام وضع کرتی ہیں۔ان کی بے شمار نظمیں ایسی ہیں جن کا اظہاریہ نئی شاعری کو معنیاتی سطح پہ مستحکم بناتا ہے ۔ ان کی نظمون سے ان کے ،مزاج کا تعین ہوتا ہے کہ وہ کسی خیال کو شاعری میں نطم کرنے سے قبل اس کے معنی کے گیرائی کو تراشتی ہیں اور اظہار کی سطح پہ اس کے لیے موزوں الفاظ کا استعمال کرنے میں مہارت کامظاہرہ کرتی ہیں ۔نئی نظم کے اسلوب کو مرتب کرنے میں ان کا ڈکشن بڑی حد تک معاون ثابت ہوتا ہے ۔ نٗی نظم کابڑا موضوع وجود ہے ۔اور ساجدہ زیدی کی نظمیں اسی وجودی کشمکش کا اظہار ہیں ۔ساجدہ زیدی اپنے وجود اور خودی کی تلاش میں سرگرداں ہیں ۔ وہ اپنی ہستی اور نیستی میں فرق جاننا چاہتی ہیں ۔وہ اپنے اطراف کے مسائل کو بغور سمجھنے کی کوشش کرتی ہیں ۔وہ اپنے ذہن کی افتادگی کے سبب کبھی تلاش خودی میں محو ہوتی ہیں تو کہیں راز کن فکاں کے نہاں خانوں کا پتہ لگانے میں مستغرق ۔فطرت کے مناظر سے استعارے اخذ کرتی ہیں اور اپنے ذہن کی بھٹی میں پکاتی ہیں ۔ کسی ایک نتیجے پہ پہنچنے کے بجائے ا س کے مختلف نتایج برآمد کرتی ہیں ۔حالاںکہ کہیں کہیں وہ اپنے غور کیے ہوئے مسائل کا حاصل ظاہر کرنے میں الجھتی ہوئی بھی معلوم ہوتی ہیں ۔ایسی نظموں میں جہاں ان کا فن کمزور معلوم ہوتا ہے ’وہ شروعاتی دور کی نظمیں ہیں ۔’ہماری روح کا نغمہ کہاں ہے ‘‘ایک شاہکار نطم  کے طور پہ پیش کی جا سکتی ہے ، جس میں بقول ساجدہ زیدی ۔

’’ہماری روح کا نغمہ کہاں ہے‘‘ زندگی کی عمومیت ،سمجھوتوں اور حرص و ہوس کے منظرنامے میں ، مقصد حیات ، اخلاقی اقدار ، آرزوئے بلند پروازی اور روح کا نغمہ کھو دینے یا گنوا دینے کا المیہ ہے ‘‘

’’ہماری روح کا نغمہ کہاں ہے ؟

 وہ درد آرزو

جو لرزہ بر اندام تھا پہنائے عالم میں

 وہ حرف تشنگی

  جو نغمہ برلب تھا دبستان شب غم میں

 وہ اک دنیائے ناپیدا کراں تھی

 آسماں کی وسعتیں اس میں سمائی تھیں

 بڑے گہرے سمندر موجزن تھے کرئہ دل میں

 جنھیں اک جستجوئے خام نے خاموش کر ڈالا

 بہت منھ زور موجیں تھیں

 جنھیں خود ہم نے پابند سلاسل کر دیا اک دن

  فراز کوہ سے آتے ہوئے بیتاب دریا تھے

 جنھیں اک دائرے میں رقص  کرنا ہم نے سکھلایا

 تقاضے ہوش مندی کے ہمارے راہبر نکلے

  فراز آرزو سے ہم

 نشیب عافیت میں آن نکلے

 اور ۔۔۔۔۔۔۔مآل روز و شب کے بیش و کم میں گم ہوئے

 اپنی متاع خود نگاہی چھوڑ آئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 اک سکوت آہنی ہمراہ لے آئے

  مداوائے الم کوئی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔

 بزم نشاط و درد و غم کوئی نہیں

 اک ہو کا عالم ہے

 کھڑے ہیں ساحل ہستی پہ ہم

 جینے کے بے پایاں بہانے چھوڑ آئے

 ہماری یاد کے کشکول خالی ہیں

 ہماری روح کا نغمہ کہاں ہے ؟

 ساجدہ زیدی یہ سوال خود سے نہیں کر رہی ہیں ، بلکہ حالات کی ستم رسیدگی سے ہے ۔ یہ بھی غور کرنے کی بات ہے کہ جب معاشرے نے ان کو مایوسی دی تو  ’’ ایک ہو کا عالم ہے ‘‘کا مرثیہ بھی پڑھا اور احتجاجا ’’ہماری روح کا نغمہ کہاں ہے ؟‘‘ کے ساتھ احتجاج و مزاحمت بھی کی ۔ساجدہ زیدی کی نظمیں یوں تو زندگی اور نسوانیت کی حسیت کی ترجمان ہیں ، علاوہ ازیں وہ اپنے گردو پیش سے باخبر بھی ہیں کیونکہ انھوں نے علی گڑھ کی فضا میں رہ کر علمی و ادبی مقام حاصل کیا ہے ،لہذا وہ صرف اپنی ذات میں ہی مقید ہو کر نہیں رہ گیئں ،بلکہ اپنی فکر اور ادراک سے عالمی مسائل کو شاعری کے قالب میں ڈھالا ۔اس کی مثال ہمیں ’’نسل کشی ‘‘’’مغرب کے خدائو ں نے ‘‘’’اے خدا تیرا جہان موجود ‘‘اور’’ یہ صحرائے عرب ہے ‘‘جیسی نظموں میں ان کے قلم کی جولانیاں پائی جاتی ہیں ۔ ان نظموں کا انفرادیہ بھی ہے کہ وہ اشیاء کی ماہیتوں کو فکری سطح پہ مختلف معنیات عطا کرنے کا کام کرتی ہیں ،کسی ایک خیال تک محدود نہ رہنا اور مختلف تصوارات سے نئی بات پیدا کرنا ہی ان کی خاصیت ہے ۔عام زندگی کے تجربات اور وہ باتیں جن سے ہم روز دوچار ہوتے ہیں ان میں شاعرانہ پہلو تلاش کر لینا ، یہ ساجدہ کا فن ہے ۔وہ اپنے اظہار کے لئے استعاراتی الفاظ کا استعمال کرتی ہیں ۔اور علامتوں میں تاثیر پیدا کرنے کا عمل بخوبی جانتی ہیں ۔ان کے موضوعات جہاں جہاں مائو رائی ہوئے ہیں ، وہاں زیادہ تر ان کے مذہبی جذبات شاعرانہ اسلوب پہ غالب ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔نئی نظم میں یہ بھی ایک الگ پہلو ہے جو ساجدہ زیدی کو دوسروں سے مختلف کرتا ہے ۔حالانکہ ان کے پیش رئوں نے جس نوع کی مربوط نظمیں کہی ہیں ، جن میں اقبال کا نام سب سے نمایاں ہے ، اس کا اثر ساجدہ کے یہاں بھرپور ملتا ہے ، فلسفئہ خودی اور خود شناسی کا سبق اقبال کے یہاں سے آیا ہے ،جو ایک قابل تحسین امر ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ساجدہ زیدی نے عرفان ذات سے عرفان کائنات تک پہنچنے کے لئے اقبال سے استفادہ کیا ہے ۔اور اپنے لفظوں کا ذخیرہ مرتب کرنے میں اقبال و جوش سے معاونت کی ہے ۔

ساجدہ زیدی کی شاعری ان کے عہد سے اپنے اگلے اور پچھلے عہد کو جوڑنے کا کام کرتی ہے ۔ ان کی نظموں میں تاریخ کے استعارے بھی اسی کثرت سے نظم کئے گئے ہیں ، جس مقدار میں نئی زندگی کی لفظیات اکٹھا ہوئی ہیں ۔جدید نظم کاایک بڑا موضوع اظہار کا الجھائو بھی ہے ،ہمارے پیچیدہ جذبے جن کو ہم سمجھتے ہیں ، جانتے ہیں اس کے باوجود اس کو ظاہر کرنے میں ناکام ہوتے ہیں ۔اسی لئے ہم اصناف کی نئی ہیتوں کو تراشنے پہ مصر ہیں ۔ساجدہ زیدی اس امر سے واقف ہیں کہ اپنی نظم میں وہ کہنا ، جس سے نئی زندگی کی الجھنوں کو آئینہ کیاجا سکے ، کتنا پیچیدہ امر ہے ۔لہذا وہ اسکے تاریخی لفظیات اور موضوعات کا سہارا لیتی ہیں اور روائتی ذہن کی تربیت کرتی ہیں کہ اسے کسی طرح نئی معاشرت سے قریب کیا جائے۔بقول فردوس شکیل ؛

’’ساجدہ کے کلام میں ہمیں انسان کی ذہنی اور جذباتی کیفیت ،ماضی سے انحراف اور حال سے بے اطمینانی و بیتابی کے مختلف رنگ ملتے ہیں ۔یہ سارے حالات ان کے کلام میں اس لیے بھی ہیں کہ ان کی شخصیت مشرق و مغرب کی آمیزش سے بنی ہے اور ان کی شاعری بھی اسی عمل کا اظہار ہے ۔ شاید اس لیے وہ جس راہ پر آج سے چالیس سال پہلے چلی تھیں ،اس راہ پر آخری ایام تک قائم رہیں ۔‘‘

( ساجدہ زیدی کی شعری بازیافت ؛ فردوس شکیل : صفحہ ؛۹۳)

ان کی نظموں میں عہد کا رزمیہ بیان کیا گیا ہے ،ان کے یہاں اس نوع کی کئی نظمیں نظر آتی ہیں جن میں پیچیدہ اور غصیل معاشرت کی تصویر اتاری گئی ہے ساتھ ہی مختلف ماضی و حال کے موضوعات کو نظم کے قالب میں ڈھال کر جدید نظم کی بنیادیں مستحکم کی ہیں ۔

 ساجدہ زیدی کی نظموں کی خاصیت مذہبی بیانیے کو جدید طرز میں پیش کرنے کا رجحان بھی ہے ۔ا ن کی زیادہ تر نظموں میں اس طرح کے کلیشے استعمال کئے گئے ہیں جن سے ان کی نظم کے ڈانڈے مذہب اسلام کی تعلیمات سے ملتے ہیں ۔حالانکہ موضوع کے لحاظ سے انھوں نے اپنے فنی میلان کو روا رکھتے ہوئے کسی خاص واقعے کا تذکرہ نہیں کیا ہے ،ا س کے باوجود وہ اس امر کو پوری طرح پوشیدہ رکھنے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں ۔نئی نظم میں یہ اظہار اردو شاعری میں پہلی مرتبہ اسی صنف کے شعرا نے کیا ہے ،جس میں ساجدہ زیدی کا شمار ہوتا ہے ۔ان کے بعد والوں نے بھی اس بات کو مزیدآگے بڑھایا ہے ،مگر اپنی نظموں میں ایسے نئے تصوارات کو زبان عطا کرنے کا کام ساجدہ زیدی نے دلجمعی سے کیا ہے ۔ ان کی ایک اور نظم ’’اجنبی موڑ پر ‘‘اسی قبیل کی نظم ہے  جہاں حیرتوں کی جلوہ سامانیوں کے راز کو وا کرنے کی کوشش نظر آتی ہے ، ایسی آنکھیں جو تمام پردوں کو چاک کر چکی ہے وہ تجدید دید کے مرحلے پہ کس طرح نئے منظروں کی صناعی کا معائنہ کر رہی ہے ۔یہ نطمیں ساجدہ زیدی کے اسلوب کی نشان دہی کرتی ہیں ؛

اے خدا

 اے خدا

  اژدہام تجارت میں تو ہی بتا

 خواب آنکھوں میں کیسے بسایئں گے ہم

 کون سی راہ پر

 گرم اشکوں کے موتی بچھایئں گے ہم

 آہ کس آرزو کے لئے

 سر مژگاں چراغ بصیرت جلایئں گے ہم

 عشق میں کس تصور کے

 اب جاں سے جایئں گے ہم

ساجدہ کی نظمیں ناقابل فراموش ہیں اور جدید نظم کے منظر نامے میں اپنی الگ اہمیت رکھتی ہیں ۔ان کی خاصیت ان کی علامت اور لفظیات ہے جو انھوں نے دوسروں سے مختلف انداز میں اپنے تجربات سے وضع کیا ہے ۔ان کے پاس کہنے کے لئے بہت کچھ ہے ، مگر وہ بہت سے موضوعات کی طرف اپنی نظموں میں اشارہ کرتی ہوئی گزر جاتی ہیں ْ زندگی کی تلخ حقیقتوں اور تنہایئوں کا بیان ان کی شاعری میں قدرے زیادہ ہے ۔ انھیں مصنوعی بندشوں پہ سوال قائم کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے، اس لئے وہ عہد جدید کے ایسے تصنعات کو نشانے پہ رکھتی ہیں جن کا چلن عام ہو چکا ہے ۔ساجدہ زیدی کی نظمیں ہمیں ان مسائل پہ غور کرنا سکھاتی ہیں جن کو ہم مسلمات کی مانند قبول کر چکے ہیں ۔ اپنے اظہاریے کو وہ سلیس لفظیات سے مزین کرتے ہوئے شدید اصطلاحوں کے نقوش مصرعوں کے درمیان مرتب کرتی چلی جاتی ہیں ۔ ان کی شاعری نظم کے ایک ایسے بہائو سے ہمیں متعارف کراتی ہے ، جس کا ان سے قبل مکمل فقدان نظر آتا ہے ۔ مثلا وہ اپنی نظم ’’نذر غالب ‘‘جس اسلوب کو روا رکھتے ہوئے اپنی فکر کا تانا بانا بنتی ہیں اس انفرادیت کو ان اشعار میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے :

شب مہجوری میں ہنگام نزاع

مطلع نور سحر یاد آیا

کون مانگے ہے شبستان و صال

بس اک آشفتہ نظر یادآیا

 یہ ساجدہ زیدی کا اور نئی شاعری کا انفرادی لب ولہجہ ہے ۔ بقول روشن اختر ہمیں یہ نہیںبھولنا چاہئے کہ

’’اردو نظم کا پس منظر اجڑی ہوئی آبادیاں جلی ہوئی کھیتیاں ،ٹھوکریں کھاتے ہوئے کاسہ سر،سسکتی ہوئی زندگیاں ، بکھرتی ہوئی شخصیتیں ، برباد ہوتے ہوئے خاندان ، ٹوٹتے ہوئے رشتے ،سلب ہوتی ہوئی آزادی، پیروں کے نیچے سے کھسکتی ہوئی زمین اور  قہر ڈھاتا ہوا ٓسمان ہے ‘‘

(صفحہ ۳۰۶،اردو میں طویل نظم نگاری کی روایت اور ارتقا ، روشن اختر ، ماڈرن پبلشنگ ہاٗو س ۱۹۸۴)

لیکن جہاںہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے وہیں ہمیں دوسری جانب یہ بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ نئی شاعری یا نظم کا منظرنامہ کیا ہے ؟ اس نے اپنے ماضی سے جن روایات کو اخذ کیا ہے اس میں اپنے عہد کی سچایئوں کو شامل کرکے ایک نیا لہجہ تیار کیا ہے جو اس کی شناخت ہے ،اگر کوئی شاعر یا شاعرہ ہمیں اردو نظم کے پس منظر سے اٹھنے والے مسائل پہ شعر کہتے ہوئے نظر آتی ہے تو ہم اسے جدید شاعرہ نہیں کہ سکتے ، اس وقت تک ، جب تک اس میں عہد حاضر کا پیچیدہ اظہار اور کرب نہ شامل ہو جائے

***

Leave a Reply