
محمد فرید اعوان راز
بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری ، جموں و کشمیر
جنگ آزاد ی میں اردو کا کردار
زبان صرف زبان یا لسانیت نہیں ہوتی بلکہ پوری ایک شناخت ہوتی ہے ایک پوری تہذیب تمدن ثقافت جذبات و احساسات کا حسین امتزاج ہوتی ہے زبان کے ذریعے خیالات و معاملات کی ترسیل اور ابلاغ ایک قدرتی اورآسان طریقہ ہے سوچنے اور سمجھنے کا عمل جو کہ سراسر انسانی ذہن میں تشکیل پاتا ہے وہ بھی لا شعوری طور پر زبان میں ہی پر اسیس ہو رہا ہوتا ہے اور جب ہم زبانوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو دراصل زبان کے خول میں کسی کام علاقے یا نسل کے عروج و زوال کی داستان پڑھ رہے ہوتے ہیں تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ غالب وہ حکمرانوں کی تہذیب کو ہاتھوں ہاتھ لے لیا جاتا ہے اور ان کی زبان کو بلا چوں چراں ترقی اور کامیابی کا زینہ مان لیا جاتا ہے اور کسی بھی زبان کی ترقی و ترویج میں سب سے زیادہ سماج کے حساس طبقے یعنی شعراء اور ادباء کا ہاتھ ہوتا ہے وہ زبان بڑی خوش نصیب ہوتی ہے جس زبان کی آبیاری کرنے اس کی ترقی اور ترویج اور ماں بولی کے دودھ کا قرض چکانے کے لیے ماں بولی کے ثپوت دلوں کا سکون اور راتوں کی نیند جلا کر زبان کی خدمت کے لیے ایک ایک حرف لڑیوں میں پرو کر زبان کا ہار سنگار کرتے ہیں ۔
جنگ آزادی کی اس تحریک میں ہندوستان کے سبھی مذہبوں کو ماننے والے ہندو مسلم سکھ عیسائیوں نے آپس میں متحد ہو کر آزادی کی یہ جنگ لڑی تھی اور سبھی کی زبان پر اس وقت یہی شعر تھا ۔
سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوِ قاتل میں ہے
اردو کے ان جیالے حوصلہ مند شعراء نے ان کی تکالیف کی پرواہ کیے بغیر اپنی آزادی کے مشن کو برقرار رکھا اور جیل کی چار دیواری کے اندر بھی اپنی شاعری کے مشن کو جاری رکھا حسرت موہانی جنہوں نے آمادی کے متوالوں کو سب سے پہلے انقلاب کا نعرہ دیا تھا انہیں بھی تحریک آزادی کے دورانجیل جانا پڑا انہوں نے جیل کے اندر یہ خوبصورت شعر کہا ۔
ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشہ ہے حسرت کی طبیعت بھی
ایسے وقت میں اشفاق اللہ خان کی شاعری نے بھی ہندوستانی عوام کے دلوں میں اپنی جگہ بنائی اور ان میں جوش پیدا کیا 1857کے انقلاب نے انگریزوں کے خلاف جس حیرت انگیز ماحول کو پیدا کیا تھا اسے اردو شاعری نے انگریز دشمنی میں بدل دیا غالب اور میر نے بھی غلام ہندوستان کا نقشہ اپنی اردو شاعری میں کھینچا ہے اور کچھ ایسے اشعار کہے جس نے لوگوں پر گہرا اثر ڈالا دلی کی بدحالی اور پریشانیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے میر تقی میر نے لکھا ۔
دلی میں آج بھیک بھی نہیں ملتی انہیں
تھا کل تک دماغ جنہیں تخت و تاج کا
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
میر کا درد کچھ اس طرح کا ہے جس میں ماضی کی سنہری یادوں کے ساتھ غلام ہندوستان کا رنج بھی ظاہر ہوا ہے ۔پریم چند ،سعادت حسن منٹو، علی عباس حسینی، کرشن چندر، عصمت چغتائی اور راجندر سنگھ بیدی وغیرہ ایسے نام ہیں جنہوں نے اردو میں اپنی لازوال تحریروں سے ملک کی آزادی کا پرچم بلند کیا انہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے انگریزوں کی سازشوں کو بے نقاب کیا یہی وجہ ہے کہ پریم چند کے پہلے افسانوی مجموعہ (سوز وطن )1905کو انگریزوں نے ضبط کر کے اس پر پابندی لگا دی تھی منٹوکی کہانیوں (تماشہ ) (نیاقانون)وغیرہ میں بھی انگریزوں کے تشدد اور عام آدمی کی تکلیف کو دکھایا گیا جس میں لوگوں میں بیداری پیدا کی اردو زبان میں ہونے والے اس طرح کے کام سے انگریزوں کی پریشانیاں بڑھ رہی تھی لیکن چاروں طرف سے انقلاب زندہ بعد ،کے نعرے گونجنے لگے اور سرفروشی کی تمنا کی آواز ہر دل سے نکلنے لگی تھی۔
اردو کے بہت سارے شعراء 1857کی تحریک آزادی میں بری طرح سے پھنس گئے تھے اس کے باوجود انہوں نے اپنا حوصلہ نہیں ہارا اور علمی طور پر انہوں نے جنگ آزادی میں اپنابھرپور کردار ادا کیا بغاوت سے پہلے ہی اردو شاعری میں انگریز دشمنی کے حالات کا اثر بڑھنے لگا اور اس بغاوت کا سب سے زیادہ زور دہلی میں دیکھنے کو ملاکیونکہ دہلی میں اس وقت شعرو شاعری کی محفلیں سرد پڑ چکیں تھیں ہر طرف سیاسی اور معاشی بحرانی کی کیفیت تھی اس معاشی اور سیاسی ابتری کے حالات میں بھی محمد شاہ رنگیلے نے شعر و سخن کا پرچم تھامے رکھا اور بہادر شاہ ظفر کے زمانے تک دہلی میں بیسوں باکمال شاعر جمع ہو گئے تھے ان میں امام بخش سہبائی، ابراھیم ذوق،صدر دین آزاد، مرزا اسد اللہ خان غالب، مصطفی خان شیفتہ، حکیم آغا جان بخش ، جیسے کہنہ مشق استاد شاعر موجود تھے جو تحریک آزادی میں اپنے فن کی خوشبو کو پھیلائے ہوئے تھے دوسری جانب آزاد ، خالی، داغ، بخش، صابر، شہاب الدین ثاقب،سالک، مجروح، مرزا نور، باقر علی، کامل وغیرہ جیسے نو عمر شعراء بھی تحریک آزادی میں اپنا کردار
نبھانے کے لیے تیار تھے ۔
تحریک آزادی میں تقریبا سبھی شعراء نے اپنا بھر پور کردار ادا کیا تحریک آزادی کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ تقریبا 375شعراء تحریک آزادی میں موجود تھے جنہوں نے آزادی کے لیے اپنا تن من دھن سب کچھ دائو پر لگا دیا ایسے شعراء بھی تھے جن کے واقعات اسودہ حال رہے بلکہ اس دریائے خون کے شنادر بن گئے انہوں نے قلم سے تلوار کا کام لیا اور انگریزوں کے خلاف بہرتین غزلیں اور نظمیں لکھیں ایسے مشکل حالات میں بھی نہ ان کی پیشانی پر سلوٹیں مصیبتیں جہلیں اور قید و بند کی سخت اذیتیں بھی برداشت کیں ۔
گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے زہرا ہوتا ہے آپ انسان کا
چوک جس کو کہیں وہ منتقل ہے گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا
میں نے ما نا کہ مل گئے پھر گیا وہی رونا تن و دل و جان کا
گاہ جل کر کیا کیے شکوہ سوزش داغ ہائے پنہاں
اس طرح کے وصال سے یارب کیا مٹے دل سے داغ ہجراں کا
تحریک آزادی کے حالات سے ایسا کونسا شاعر تھا جو متاثر نہ تھا اس زمانے کے حالات سے متاثر ہو کر داغ نے جو شہر اشوب لکھا تھا ’’فقان دہلی ‘‘یں درج ہے داغ نے جنگ و جدال کا تذکرہ اور دہلی کر بربادی کے حالات کو اپنے اشعار میں کچھ اس طرح بیان کیا ہے ۔
یہ شہر وہ ہے کہ انس و جان کا دل تھا
یہ شہر وہ ہے کہ ہر قدردان کا دل تھا
یہ شہر وہ ہے کہ ہندوستان کا دل تھا
یہ شہر وہ ہے کہ سارے جہاں کا دل تھا
بے شمار اردو شعراء تحریک آزادی سے جڑ ے اور ان کانام تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ ہمیش کے لیے محفوظ ہو گیا تحریک آزادی کی اس مہم میں حصہ لینے والے شعراء میں دو خاص نام آتے ہیں مخدوم محی الدین اور فیض احمد فیض ہیں فیض اور مخدوم بھی انگریزی بربریت اور ظلم و تشدد سے شدید ناراض تھے دونوں نے تحریک آزادی سے متعلق خوبصورت اور اثر انگیز نظمیں لکھی تھی مخدوم کی نظم ’’چاند تاروں کا بن‘‘ اور فیض احمد فیض کی نظم ’’صبح آزادی‘‘ نے اس وقت کے آزادی کے پروانوں میں ایک جوش اور ولولہ بھر دیا تھا دونوں کی نظموں میں آزادی کے متوالوں کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ وہ یہ جنگ اس وقت تک لڑتے رہیں جب تک کہ آزادی نہیں مل جاتی ۔
’’تحریک آزادی میں اردو شعراء کا کردار ‘‘یہ ایسا موضوع ہے جسے چند صفحات میں سمیٹنا مشکل ہے آخر میں بہادر شاہ ظفر کے چند اشعار پر اپنے مقالے کا اختتام کرنا چاہوں گا میرے خیال میں تحریک آزادی منسب سے زیادہ نقصان بہادر شاہ ظفر (جو سلطنت مغلیہ کا آخری تاجدار تھے ) کا ہوا ہے اپنے وقت کے ایک شاہ کے لیے اس سے بڑا المیہ کیا ہو سکتا ہے کہ اسے اپنے ہی وطن میں دو گز زمیں دفن ہونے کے لیے نہ مل سکی اپنی اس تکلیف کا اور اپنے اس درد کا تذکرہ بہادر شاہ ظفر نے اپنے شعرمیں کیا ہے ۔
الہی موت بھی آئے وطن کی رنگین گلیوں میں
جہاں مردوں کو آنچل کے کفن پہنائے جاتے ہیں
اردو کا پہلا اخبار ’’جام جہاںنما ‘‘ تھا جو کلکتہ کی سرزمیں سے 1823میں منظرعام پر آیا ’’جام جہاں نما‘‘ ہفتہ واری اخبار تھا جسے ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنی ضرورت کے تحت نکلوایا تھا اسے کبھی اردو اور کبھی فارسی دونوں زبانوں میں شائع کیا گیا چنانچہ1823
سے1857غدرتک اردومیں122اخبارات شائع ہوئے ۔
1857کے غدر کی ناکامی کے بعد 1858سے1900تک چار سو سے زائد اردو اخبارات وجود میں آچکے تھے (ص۔80اردو صحافت آزادی کے بعد) 1823سے 1900تک شائع ہونے والے تقریبا پچیس فی صد اردو اخبارات کے مالک ہندو تھے معروف اردو اخبار دہلی اردو اخبار 1837میں دہلی سے مولوی محمد باقر شہید نے جاری کیا یہ ہفتہ روزہ اخبار تھا منشی سجاد حسین کی نگرانی میں 1877میں جاری ہوا ادباء اور شعراء نے اپنے قلم کت تلواریں چلا کر انگریزی حکومت کی ناک میں دم کیے رکھا ان مشہور شخصیات میں مولوی محمد باقر شہید کے فرزند محمد حسین آزاد ،احمد علی شوق ،پنڈت تربوہن ناتھ ہجر ،رتن ناتھ سرشار، منشی جوالہ پرشاد، اکبر الہ آبادی ،برج نارائن چکبست،فراق ، جوش ملیح آبادی،علامہ اقبال،جانثار اختر، حالی، مولانا حسرت موہانی مجاز ،اسماعیل میرٹھی ، شبلی نعمانی، اشفاق اللہ خانکے نامقابل ذکر ہیں ۔
***