You are currently viewing جوش مليح آبادی كے مراثی میں امام حسین کی شخصیت

جوش مليح آبادی كے مراثی میں امام حسین کی شخصیت

ڈاکٹر إيمان شكرى طه يونس

فیکلٹی آف آرٹس، عین شمس یونیورسٹی ، قاہرہ

جوش مليح آبادی كے مراثی میں امام حسین کی شخصیت

ابتدائیہ

مرثیہ نگاری كا تعارف محتاج نہیں اور وہ فقط اردو زبان اور ہندوستان سے مخصوص نہیں ہے بلکہ دنیا کے تمام ممالک اور تمام زبانوں میں موجود ہے مگر اردو زبان میں مرثیہ کا بنیادی مضمون واقعات کربلا اور حضرت امام حسین اور اپنے خاندان کی شہادت کے واقعات بیان کئے گئے ہوں، اورتاریخی طور پر کربلا حق و باطل کے درمیان ایک عظیم معرکہ تھا. اس بنا پر حضرت امام حسین ؓنے تاریخی کردار ادا کیا. اور آزادی وحریت کی جد و جہد کرنےوالے گروہوں نے اسے اپنے لئے ایک نمونہ اور مثال قرار دیتے ہوئے استبدادی و استعماری حکمرانوں کے خلاف اپنی انقلابی جد و جہد کی کاميابی کا ذریعہ قرار دیا.

جوش ملیح آبادی

ان کا نام شبیرحسن خان 1896 یا 1898ء میں ملیح آباد (اودھ) میں پیدا ہوئے- خاندانی نام شبیر احمد خان ہے، 1907ء میں نام تبدیل کر کے شبیر حسن خان رکھا۔ ان کا تخلص جوش تھا، اور اس علاوہ ان کو شاعرِ انقلاب، شاعرِ اعظم ، شاعرِ شباب، مصورّ شباب وغیرہ القاب ملے تھے۔ جوشؔ کے جدِ اعلیٰ محمد خان کابل سے ہندوستان آئے تھے اور ان کے والد بشیر احمد خان اور دادا نواب احمد خان احمد دونوں صاحبِ دیوان شاعر تھے ۔ جوش کے پڑدادا نواب حسام الدولہ تہور جنگ شاعر تھے۔ ان کا تخلص گویا تھا۔

جوش نے عربی اور فارسی کی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ انگریزی تعلیم سینٹر کیمرج تک۔ سیتاپورسکول جوبلی سکول لکھنو، اور علی گڑھ کالج میں حاصل کی ۔ لیکن گھریلو کے چند ناساز حالات کی وجہ سے تعلیم تکمیل نہ کر سکے.

جوش کی دادی میرزا غالبؔ کے خاندان سے تھیں اور شعر و ادب سے خصوصی شغف رکھتی تھیں۔ جوش کی والدہ کو شاعری سے بڑی دلچسپی تھی اور میر انیس ؔ سے بڑی محبت تھی اور اُن کے مرثیے پڑھ پڑھ کر اور سن سن کر رویا کرتی تھی ۔

1924ء میں دار الترجم میں ملازم ہوئے۔ 1936ء میں “رسالہ کلیم” جاری کیا۔ تقسیم ہند کے بعد ہندوستان میں “آجکل” کے ایڈیٹر رہے۔ 1956ء میں پاکستان آگئے اور ترقی اردو بورڈ سے منسلک ہو گئے  [1]

جوش ملیح آبادی کی تصانیف:

         جوش مليح آبادی ایک ایسے شاعر ہیں جو نظم اور نثر دنوں میں درجہ کمال رکھتے ہیں ـ ان کے شعری مجموعے یہ ہیں:

– پہلا شعری مجموعہ”روح ادب” ہے جو 1920 میں شائع ہوا، اس کے بعد شاعرکی راتیں 1933، پیغمبر اسلام، نقش نگار، شعلہ وشبنم، فکر و نشاط، حرف وحکایات، آیات ونغمات ، عرش وفرش، سنبل و سلاسل، رامش ورنگ ، سیف و سبو، سرود وخروش، سموم و صبا، قطرہ وقلزم، نوادرجوش، الہام وافکار، محراب ومضراب، جنون وحکمت (رباعیات کا مجموعہ)، نجوم جواہر(رباعیات کا مجموعہ) آئے.

جوش ملیح آبادی کےمراثی:

                                     جدید مرثیے کا آغاز جوش ملیح آبادی سے کیا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے مرثیے کو انقلاب کا ہتھیار بنایا ہے اور یہ جوش ہی کا کمال تھا کہ انہوں نے مرثیے کی انقلابی صنف کو متعارف کروایا۔ جوش نے نو مراثی لکھے، ہم ذیل میں ان کا ذکر کریں گے:

(آوازۂ حق، حسین اور انقلاب، موجد و مفکر، وحدت انسانی، طلوع فکر، عظمت انسان، زندگی وموت، پانی، آگ اور حسین)[2]

ان کا ادبی مقام

         اردو ادب میں جوش ملیح آبادی کی حیثیت بہت بلند ہے ۔ خاص طورپر مرثیہ لکھنے میں ہے۔ قدرت بیان ان کی امتیازی خصوصیت ہے۔ان کے پاس لا محدود ذخیرہ الفاظ تھا انداز بیان میں شدت، تشبیہات واستعارات میں ندرت اور زبان میں روانی ہیں، ان کی شاعری بہت وسیع، متنوع اور رنگا رنگ ہے۔ جوش ملیح آبادی نے دونوں اصناف نظم اور نثر میں طبع آزمائی کی ۔ ان کا تعلق فلمی دنیا اور صحافت سے رہا، انہوں متعدد فلموں کے گانے اور مکالمات لکھے۔ جوش کو عظیم علمی وادبی خدمات کے اعتراف میں  1954ء ’’ پدم پھوش ‘‘اوارڈ سے نوازا گیا، اور 2013 ء پاکستان کے اعلی ریاستی اعزاز “ہلال امتیاز” سے بھی نوازا گیا.[3]

آخر میں وہ 1982ء میں اسلام آباد پاکستان میں فوت ہوئے.

جوش مليح آبادی كے مراثے میں امام حسین کی شخصیت

جب آزادی وحریت کی جد و جہد کا ذکرآتا ہے تو جوش ملیح آبادی کا ذکر بھی آتا ہے جد وجہد آزادی ميں جوش مليح آبادی کا نام سر فہرست آتا ہے.کيونکہ انہوں نےاپنے مراثے کو انقلاب کا ہتھيار بنایا ہے تاکہ وہ ’شاعر انقلاب‘کے لقب سے مشہور ہو گئے.
جوش سے پہلے پيشتر مراثی کا مقصد غم حسين ميں ماتم کرنا ہوتا ہے، ليکن شہادتحسين کو جوش نے نئے معانی اور نئے زاویے عطا کيے ہيں۔ وہ آہ و بکا کی تلقين نہيںکرتے کيوں کہ ان کے خيال ميں امام عالی مقام نے اسلام اور انسانيت کو جو بلندی عطا کی
ہے وہ سر بلندی ہی شہادت کا محاصل ہے، کيونکہ امام حسين ؑ نے شمشير کے سائے ميںنعرۂ حق بلند کيا اور اپنی جان دے دی. جوش ملیح آبادی کے مرثیے میں امام حسین کی تین تصاویر یا محاورکی شکل میں ہیں۔ یہ تین محاور ایسے ہیں:

پہلی تصویر: امام  حسین مزاحمت کی علامت کے طور پر

         جوش کا زمانہ سیاسی بیداری اور انگریزوں کی غلامی کے خلاف جد و جہد کا زمانہ تھا۔ آزادی جنگ بدیسی سامراج کیخلاف انہوں نے اپنی شاعری سے(خاص طور پر مرثیے) بھرپور کام کیا اور اس سلسلے میں واقعہ کربلا اور امام حسین کو علائم اور رموز بنا کر استعمال کئے۔ آزادی کی جدوجہد کو جوش نے “تازہ کربلا” کی طلب کی

جوش کی مرثیہ “عظمتِ انسان”میں یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:

زندگی شعلۂ جوالہ ہے، گلزار نہیں     موت کا گھاٹ ہے یہ مصر کا بازار نہیں

اپنے آقا کی تاسی پہ جو تیار نہیں       زندہ رہنے کا وہ انسان سزاوار نہیں

               جو حسینی بھی ہے اور موت سے بھی ڈرتا ہے

                     ہاں وہ توہین حسین ابن علی کرتا ہے۔[4]

 یہ شاعری بھی ملاحظہ فرمائیں:

سوکھے ہوئے ہونٹوں پہ صداقت کا سبق تھا        تلوار کے نيچے بھی وہی کلمہ حق تھا[5]

یہاں امام حسینؑ کو ثابت قدمی، صبر اور حق کی خاطر قربانی کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

     جوش نے اپنی مرثیوں میں ایک اور جگہ میں کربلا کے واقعہ اور امام حسین کو مزاحمت کی علامت کے طور پر استعمال کرتے ہوئے واضح اور براہ راست استعماری حکمرانوں کی ناانصافیوں کا مقابلہ کرنے پر زور دیا ہے۔ یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:

جب حکومت قصرہائے معدلت ڈھانے لگے           جب غرور اقتدار اقدار پر چھانے لگے

خسروی آئین پر جب آگ برسانے لگے                 جب حقوقِ نوع انساني پہ آنچ آنے لگے

                                  رن میں درآ بازوئے خیبر شکن سے کام لے

                                   ان مواقع پر حسینی بانکپن سے کام لے[6]

  حق کا باطل پر تفوق آدمی کا فرض ہے              خون صبرِ کربلا نوعِ بشر پر قرض ہے[7]

        قابل ذکر ہے کہ چند غير مسلم مفکروں اور ادیبوں نے کربلا ميں امام حسين کیحقانيت کو تسليم کر کے امام حسين کے بارے ميں سلام اور مرثيے بھی تخليق کے. اس سے واضح ہوتا ہے کہ حسين ابن علی کا تعلق کسی خاص قوم یا کسی خاص فرقے سے نہيں بلکہ ان کا تعلق دنيائے انسانيت سے ہے۔ اسی ليے شاعر انقلاب جوش مليح آبادی کہتے ہيں:.

                                                                              کيا صرف مسلمان کے پيارے ہيں حسين   چرخ نوع بشر کے تارے ہيں حسين
انسان کو بيدار تو ہو لينے دو       ہر قوم پکارے گی ہمارے ہيں حسین
دوسری تصویر: امام حسین کی مدح اور تعریف ہے

         جوش كي مرثیوں میں دوسرے شاعروں کی طرح امام حسین کی تعریف و توصیف بھی موجود ہیں لیکن یہ تعریف وتوصیف کے دوران  شاعر نے اپنے جوش و جذبے کو نہیں چھوڑا اور حسین کو ایک تاریخی علامت بنایا ہے. گویا وہ انقلاب اور جوش کو تمام نظریات اور مقاصد کے ساتھ ملانا ترک نہیں کر سکتے ہیں۔

یہ شاعری ملاحظہ فرمائیں:

اے حسین ابن علی اے بندۂ يزدان صفات               نور سے تیرے جھمکتی ہے جبین کائنات

محو ہوجائیں اگر دنیا سے تیرے واقعات              گنبدِ تاريخ پر چھاجائے ہیبت ناک رات

                                    بھول سکتا ہی نہیں انسان قربانی تری

                                 حافظے کے فرق کا جھومر ہے تیری پیشانی[8]

تیسری تصویر: امام حسین پر رونا اور نوحہ کرنا ہے:

          جوش کے مرثیے دیگر مرثیوں کی طرح امام حسین پر رونے سے خالی نہیں تھی لیکن حیرت انگیز بات یہ تھی کہ ان کے غم میں انہوں نے جوش و خروش کا دامن نہیں چھوڑا۔ یہ شاعری ملاحظہ فرمائیں:

بات جب ہے غم ابھارے جذبۂ پیکار پر                   ایک دل پر ہاتھ ہو اک ہاتھ ہو تلوار پر[9]

یہ اشعاربھی ملاحظہ فرمائیں:

داروگیر کربلا پراے شہید محترم                   عقل نازاں ہے مگر جذبات کی آنکھیں ہیں نم

چونکہ جذبۂ نصرت میں ہے آہنگ غم             اس لۓ آنسو چڑھاتے ہیں تری بالیں پہ ہم

                                     یہ دل کا فرمان ہے پاؤں لغزش نہ آئے پاؤں میں

                                    جشن فتح کربلا ہو آنسوؤں کی چھاؤں میں[10]

جوش اداسی کے جذبات کے سامنے پوری طرح سر تسلیم خم کرنے سے انکار کرتے ہیں، کیونکہ اس کی انقلابی فطرت ہمیشہ غالب رہتی ہے۔

اختتامیہ:

جوش ملیح آبادی کی شاعری کو دیکھنے کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جوش کی اصل شہرت اپنی انقلابی نظمیں ہے جس کی نمائندگی خاص طور پر اپنے مراثے میں ہوتی تھی۔                                                                                                                    جوش ملیح کو شاعر انقلاب کہلاتے ہیں کیونکہ ان کا مزاج انقلابی تھا اور آزادی ان کے نصب العین تھا، غلامی کے خلاف تھے۔ان کے دل میں انقلاب نے ہنگامے کا روپ اختیار کیا۔ انقلابی شاعری میں انہوں نے اجتماعی اور قومی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی اچھی نمائندگی کی تھی اور اپنے کلام میں مایوسی بہت کم ہے.

جوش نے مرثیوں میں اپنی تمام تر توجہ امام حسین ؑ کے کردار پر مرکوز رکھی ہے اور حسین کو حریت و آزادی کے مظہر کے طور پر پیش کیا ہے۔

شاعر نے اپنی مرثیوں میں امام حسین کو تین تصویروں میں بیان کیا ہے جو علامت ، جوش و خروش اور مزاحمت کی دعوت کے بغیر نہیں تھیں۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 

حوالہ جات:

1-سہ ماہی ادبیات، شمارہ، 78، اپریل تا جون 2010ء، اکادمی ابیات پاکستان، اسلام آپاد، جوش ملیح آپادی نمبر، شمارہ نمبر، 087 (مختصرا)، 97 p  \ https://www.youtube.com/watch?v=IOg3lRO8s4M

2- ڈاکٹر وسیم عباس گل، شفقت ظہور، نور تحقیق(جلد4:، شمار:14) شعبۂ اردو،لاہور،گیریژن یونیورسٹی، لاہور، 33، 34 p

3- https://mazameen.com/literature/%D8%AC%D9%88%D8%B4-%D9%85%D9%84%DB%8C%D8%AD-%D8%A2%D8%A8%D8%A7%D8%AF%DB%8C.html

4-عظمت انسان، 251 p

5-آوازۂ حق، 143 p

6- زندگی وموت،282 p

7 – زندگی و موت، 285 p

8 – موجد و مفکر،124 p

9 – زندگی و موت، 282 p

10 – زندگی و موت،281 p

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

كتابيات:

1- ڈاکٹر عصمت ملیح، آبادی، کلیات مراثی جوش ملیح آبادی، http://www.muftbooks.blogpot.com/

2- قمر رئیس، جوش ملیح آبادی خصوصی مطالعہ.

3- سہ ماہی ادبیات، شمارہ، 78، اپریل تا جون 2010ء، اکادمی ابیات پاکستان، اسلام آپاد، جوش ملیح آپادی نمبر، شمارہ نمبر، 087.

4- محمد نواز، یادوں کی برأت۔جوش ملیح آبادی،اردو ڈائجسٹ پرنٹرز لاہور، مئی 1975.

5- ڈاکٹر وسیم عباس گل، شفقت ظہور، نور تحقیق(جلد4:، شمار:14) شعبۂ اردو،لاہور،گیریژن یونیورسٹی، لاہور.

 

 

 

 

 

 

Leave a Reply