You are currently viewing حامدی کاشمیری بحیثیت ناقد میرتقی میرؔ

حامدی کاشمیری بحیثیت ناقد میرتقی میرؔ

ڈاکٹر سمیر ا اکبر

اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اردو، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، فیصل آباد

Dr. Sumaira Akbar, Assistant Professor, Deptt of Urdu, GCUF

محمد ارسلان

ایم فل سکالر ،شعبہ اُردو، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، فیصل آباد

Muhammad Arsalan, M.Phil scholar, Deptt of Urdu, GCUF

حامدی کاشمیری بحیثیت ناقد میرتقی میرؔ

Hamidi Kashmiri As Critic of Meer Taqi Meer

Abstract

Hamidi Kashmiri is a Modern Critic of Urdu literature specially Urdu Ghazal.  He has  studied Meer Taqi Meer’s thought and art with the critical insight and has recovered his intellectual sources very well. Hamidi Kashmiri edit two selection of Meer’s poetry  “Intakhab-i-Ghazliat Meer” and “Intakhab-i-Kalam Meer”. His third and most important book about Meer is “Kargah-i-Sheesha gari…Meer Taqi Meer ka mutalia”. In these books, qualitative, thematic, technical and stylistic reviews of Kalam-i-Meer have been presented. In this article Hamidi kashmiri;s views about Meer’s poetry has been presented.

Key words: Meer Taqi Meer, Hamidi kashmiri, Urdu, Ghazal, Criticism

کلیدی الفاظ: میر تقی میر، حامدی کاشمیری، اردو، غزل ، تنقید

            حامدی کاشمیری کا شمار برصغیر کے نامور ادیبوں میں ہوتا ہے بلکہ اس خطے سے باہر بھی ان کی تخلیقی و تنقیدی  خدمات کو سراہا جاتا ہے۔ ان کا شمار اردو  ادب کے معتبر ناقدین، محققین اور تجزیہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ حامدی کے ناقدانہ وقار کو بڑھانے میں ان کے خصوصی مطالعوں کا خاصا دخل ہے۔ انہوں نے میرؔ،غالبؔ، اقبال اور ناصر کاظمی کے فنی اور تخلیقی رویوں کے متعلق مستقل کتب تصنیف کیں۔ میرؔ، غالبؔ اور اقبالؔ تو اردو شاعری کے تین اہم ستون ہیں ہی مگر تقسیم کے بعد گزشتہ کم و بیش پچاس سال کے دوران اردو کی معاصر  غزل کی شناخت کرانے والے ناصر کاظمی پرکوئی باقاعدہ کتاب پاکستان میں بھی نہیں لکھی لہٰذا حامدی کاشمیری اس لحاظ سے خصوصی اہمیت کر لیتے ہیں۔

         لفظ و معنی کے  جادوگر ، شاعر بے مثال، میرتقی میر اردو ادب کے عظیم شاعر ہیں وہ ہر عہد میں شہنشاہ غزل کہلائے گئے۔ غزل کی دنیا میں کوئی بھی شاعری میرؔ کے مقام تک نہیں پہنچ سکا اور نہ ہی کسی نے میر کی ہمسری کا  دعویٰ کیا۔ میرؔ کے بعد آنے والے تمام شعرا نے میر کی پیروی کو ہی عظمت جانا۔ گویا میرتقی میر اردو ادب کا وہ آسیب ہیں کہ جو اس کی پکڑ میں آ جاتا ہے تا زندگی وہ اس کا مطیع رہتا ہے۔ میر کی عظمت کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا کہ زمانے کے مزاجوں میں تبدیلیوں کے باوجود ان کی شاعری کی عظمت کا سکہ ہر عہد میں جما رہا حتیٰ کہ غالب جیسے عظیم فنکار  شاعر نے بھی میر کی شعری عظمت کا اعتراف کیا ہے جو کہ سرتاجِ شعرا اور اردو غزل کے میرکارواں ، میر تقی میر کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

         میرؔ ہر ایک ناقد کا پسندیدہ موضوع رہا ہے۔ میر پر بہت  کچھ لکھا جا چکا ہے اور بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ مگر جتنا زیادہ میر پر لکھا جا رہا ہے، اتنی ہی میر کی شاعرانہ عظمت بڑھتی جا رہی ہے۔ حسن عسکری نے اپنے ایک مضمون ’’مزے دار شاعر‘‘ میں میرؔ کے متعلق بڑی عمدہ بات لکھی ہے:

’’میر کو پڑھنا تو ایک اچھی خاصی جنگ ہے جو عمر بھر جاری رہتی ہے۔‘‘[1]

         حسن عسکری کے اس قول کو وسیع تناظر  میں دیکھا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردو تنقید اور میرؔ کے درمیان یہ جنگ گزشتہ سو  ڈیڑھ سو برسوں سے جاری  ہے لیکن حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ابھی تک میرؔ کی شاعری مکمل طور پر گرفت میں نہ آ سکی حتیٰ کہ کلام میر کا سنجیدہ اور مرتکز آمیز مطالعہ کرنے والے نقاد شمس الرحمان فاروقی نے ’’ شعر شور انگیز‘‘ کی جلد دوم میں اعتراف شکست ان الفاظ میں کیا ہے:

’’مجھے کلام میر کا سنجیدہ مطالعہ کرتے ہوئے بیس برس اور ’’شعر شور انگیز‘‘ پر کام کرتے ہوئے دس برس ہو رہے ہیں۔ مجھے یقین ہیں  نہیں ہے کہ میں اب  بھی میر کو پوری طرح سمجھ چکا ہوں۔ ’’شعر شعور انگیز‘‘ میں بہت سے اشعار ایسے ہیں جن پر دل کھول کر بحث کرنے کے باوجود مجھے ایک طرح کا احساس شکست ہی ہوا۔‘‘[2]

         حالی کے ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ اور حالی سے تاحال۔۔۔ میر شناسوں اور میرفہموں کی ایک طویل فہرست ہےاور  اس طویل فہرست میں ایک اہم نام ’’حامدی کاشمیری‘‘ کا بھی ہے، جسے کسی  طرح بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ’’کارگہ شیشہ گری‘‘ (1982ء) اور ’’انتخاب غزلیات میر‘‘ جیسی تصانیف حامدی کے میرشناس ہونے پر دال ہیں اور حامدی کی علمی، تحقیقی اور تنقیدی بصیرت کا ثبوت ہیں۔ ’’انتخاب غزلیات میر‘‘ (2003ء) میں حامدی  کاشمیر ی نے میرکی غزلیات کا انتخاب کیا ہے۔’’انتخاب کلام میر‘‘ اور ’’انتخاب غزلیات میر‘‘ میں اگرچہ حامدی نے میر کی غزلیات  کا انتخاب ہے مگر اس مرتبہ کام کے پیچھے بھی ان کی تنقیدی اور تحقیقی بصیرت کارفرما ہے۔

         میر کو اردو شاعری میں ان کا صحیح اور اصلی مقام دلوانے میں جو اسباب مانع رہےان  کا تفصیلاً  تذکرہ ان تصانیف میں کیا گیا ہے۔ مگر ان میں سے سب سے بنیادی سبب میر کے کسی جامع و مانع انتخاب کی عدم موجودگی بالخصوص میر اور میریت کی یافت و استحکام میں حارج رہی ۔ میر کے جتنے بھی انتخاب شائع ہوئے خواہ وہ عبدالحق کا ہو اثر لکھنوی کا ہو یا سردار جعفری کا وہ بالعموم ذاتی پسند اور ناپسند یا انفرادی جھکاؤ  کے تحت ہوئے ہیں۔ عام طور پر  ایسے اشعار کو شامل انتخاب کیا گیا جو سہل ممتنع  کے ذیل میں آتے ہوں یا جن میں میرؔ نے ذاتی یا اجتماعی زندگی کے دکھ درد کا اظہار کیا ہے خواہ ایسے اشعار کا فنی  رچاؤ مشتبہ ہی کیوں نہ ہو۔ مگر حامدی کی انتخاب کلام میں یہ خاصیت رہی ہے کہ انہوں نے میر کے کلام کا خالص ادبی اصولوں کے تحت ایک جامع اور مستند انتخاب کیا ہے۔ اور ان کی انفرادیت، معنویت  اور عظمت کے نقوش روشن کیے ہیں جیسا کہ حامدی خود لکھتے ہیں:

’’بہرحال میر کے شعری سحر میں آ کر میں نے گزشتہ پانچ برسوں میں ان کے اشعار کو مرکز توجہ بنایا اور جو شعر شعر ی وصف سے آراستہ نظر آیا اس پر نشان لگایا، ابتدائی مطالعے کے دوران میں نے دوہزار اشعار پر نشانات لگائے لیکن میری تشفی نہ ہوئی میں نے مطالعہ جاری رکھا اورمیری محنت رائیگاں نہ گئی۔ میرا دامنِ شوق کلیات میر کے مزید جواہر پاروں سے بھرتا گیا۔ میرے نزدیک اس وقت تک کلام میر کا یہ سب سے ضخیم، جامع اور نمائندہ انتخاب ہے اس سے جہاں قدیم تذکرہ نویسی کے دور کی تکذیب ہوتی ہے کہ میر کے یہاں بہتر نشتر ملتے ہیں وہاں جدید دور میں اس خیال کی تردید بھی ہوتی ہے کہ ان کے عمدہ اشعار کی تعداد چند سو تک پہنچتی ہے۔‘‘[3]

         جہاں دیگر اصنافِ سخن کے انتخاب کا تعلق ہے تو عبدالحق اور ناصر کاظمی کے علاوہ تمام مرتبین نے غزلیات کے انتخاب کیے ہیں مگر حامدی نے اسی طرح ’’انتخابِ غزلیات میر‘‘ (1988ء) میں غزلیات کا ہی انتخاب کیا۔ جب کہ’’انتخاب کلام میر‘‘ (1992ء) میں جملہ اصناف کا انتخاب  بھی کیا ہے جن میں مثنویات ، مخسمات، رعبایات، فردیات اور قصائد وغیرہ کا  انتخاب  بھی شامل کیا ہے۔ ان اصناف کے طریقِ انتخاب میں وہ اشعار شامل ہیں جو لسانی  اور معنوی خوبیوں کے حامل ہیں اور وہ اشعار جو کسی خیال کی محض توضیح یا تکرار کرتے ہیں ان کو خارج کیا گیا ہے ،یہی پیمانہ انہوں نےدیگر  اصناف سخن کے انتخاب  میں بھی  اپنایا ہے۔۔۔ کلام میر کا انتخاب کرتے ہوئے حامدی نے غزلیات میں سے ایسےاشعار کا انتخاب کیا ہے جو میر کی داخلی شخصیت کا اظہار کرتے ہیں۔ ایسے اشعار زبان و بیان کے تخلیقی برتاؤ کے نتیجے میں تخیلی صورتِ حال کو جنم دیتے ہیں جو متعدد معنوی امکانات کےلیے راہ ہموار کرتی ہے۔ پس وہ اشعار جو لفظ و پیکر کی کسی خوبی یا حسن کی بنا پر اپنے پورے لسانی وجود کو جمالیاتی بناتا ہے اور تجربے کوتحرک ، تنوع اور رخشندگی سے آشنا کرتا ہے انہی کو شامل کیا گیا ہے۔ اسی طریقۂ انتخاب  کو حامدی نے اپنی دوسری کتاب ’’انتخاب غزلیات میر‘‘ میں اپنایا ہے۔اس طریقِ انتخاب سے حامدی نے میر کو جامع کمالات کے شاعر کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور اس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ میرؔ نہ صرف صنفِ غزل میں مہارت تامہ رکھتے تھے بلکہ دیگر مروجہ نظمیہ اصناف پر بھی قدرت کاملہ رکھتے تھے اور یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ وہ عہدِ قدیم میں اردو کے اولین عظیم شاعر ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی عظمت کے نئے آفاق روشن ہو رہے ہیں اور ایک ایسے تخلیقی فنکار کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں جو لامتناہی تخلیقی قوتوں کے ساتھ ساتھ لسانی اظہارات پر قدرت رکھا ہے۔

         میر کے انتخابات کے ذریعے حامدی نے میرؔ کی شعر ی شخصیت کی اصل تصویر پیش کرنے کی کوشش کی ہے جو دیگر ناقدین میر کے ہاں کم یاب ہے۔ جیسا کہ حامدی اپنے انتخاب کلام میر کے حوالے سے خود لکھتے ہیں:

’’میرا دامنِ شوق کلیاتِ میر کے مزید جواہر پاروں سے بھرتا گیا۔ میرے نزدیک اس وقت تک کلام میر کا یہ سب سے ضخیم ، جامع اور نمائندہ انتخاب ہے اس سے جہاں قدیم تذکرہ نویسی کے دور کے اس خیال کی تکذیب ہوتی ہے کہ میرؔ کے یہاں بہتر نشتر ملتے ہیں۔ وہاں جدید دور میں اس خیال کی بھی تردید ہوتی  کہ ان کے عمدہ اشعار کی تعداد چند سو تک پہنچتی ہے۔‘‘[4]

         ان انتخابات کلام میرؔ کی رو سے میرؔ بلاشبہ ایک مستند اور قد آور شاعر کے طور پر سامنے آتے ہیں اور یہ اتنخابات گویا میرؔ کی دریافت نو ہے۔  ان انتخابات سے حامدی  کے اعلیٰ انتخابی ذہن کا اندازہ تو ہوتاہے مگر اصل میرشناسی اور تنقید میر  ان انتخابات سے بہت پہلے لکھی گئی معرکۃ الآراء کتاب ’’کارگہ شیشہ گری__ میرتقی میر کا مطالعہ‘‘ حامدی کے میر شناس ہونے پردال  ہے ۔ اس کتاب کو لکھتے ہوئے حامدی نے عالمی معیارات نقد کو سامنے رکھا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ میر کے منتخبہ کلام سے نمود کرنے والے تنقید کے نظام اقدار کی شناخت کرنے کی سعی کی ہے اور اس کتاب  میں حامدی نے ایسے اشعار کو بطورِ مثال نقل کیا ہے جو نقادوں اور مرتبین انتخابات کی نظروں سے اوجھل رہے ہیں۔ بنیادی طور پر یہی کتاب ہمارا موضوع بحث ہے جس میں حامدی نےمیرؔ کے منفرد فنکارانہ حیثیت کی نشاندہی کی ہے اور میرؔ کے شعری شعور کی ہمہ گیری یا اثر انگیزی ظاہر کی ہے۔

         میرؔ ایک اعلیٰ پائے کے شاعرہیں ان کی بلند رتبگی یا عظمت کا اعتراف ان کے بعد آنے والے تقریباً ہر دور کے شعرا نے کیا ہے جیسے کہ غالب نے ان کے دیوان کے لیے ’’گلشنِ کشمیر‘‘ کا استعارہ استعمال کیا ہے۔ ذوق میر  کے ’’انداز‘‘ کے لیے ترستے رہے۔ حالی  نے میر کے ’’مقلد‘‘ ہونے کافخریہ اظہار کیا  اور اسی طرح تنقیدی میدان میں بھی میرؔ کی عظمت کو تسلیم تو کیا گیا ہے مگر ان کی اصلی قدروقیمت کو متعین کرنے کی طرف خاص توجہ نہ دی گئی۔  میر کے تحسین  میں  عقیدت مندانہ رویہ غالب  رہا ہے جس سے  میر کی فنکارانہ حیثیت کی کامل نشاندہی نہ ہو سکی۔ بدقسمتی سے آج تک میرؔ نقادوں کو صحیح معنوں میں اپنی طرف متوجہ نہ کر سکے حامدی کے نزدیک اس میں میرؔ کی کوتاہی یا کمی سے زیادہ نقادوں کی بے اعتنائی یا غفلت شعاری کو دخل رہا ہے کیونکہ اردو میں  گنتی کے جو نقاد ہیں وہ بھی شاعری کا مطالعہ کا محاکمہ کرنے میں پوری ذہنی آزادی ، معروضیت اور ایمانداری کو روا نہیں رکھتے۔ وہ گروہ بندیوں اور مصلحت اندیشوں کا شکار ہو کر ماضی کے ورثے یا ہمعصر ادب کے ساتھ انصاف نہیں کرے۔ حامدی کو ایسے نقادوں سے یہی گلہ رہا ہے کہ انہوں نے غالبؔ اور اقبالؔ کے بارے میں دفتروں کے دفتر سیاہ کر دیے لیکن میر کی طرف نگاہ اٹھانے کی ضرورت بھی محسوس نہ کی۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ میرؔ پر کچھ لکھا ہی نہیں گیا بلکہ خواجہ احمد فاروقی کی ’’میرؔ، حیات اور شاعری‘‘ اور سیدعبداللہ کی ’’نقدمیر‘‘ نے میرؔ کو ایک بلند پایہ اور مستند کلاسیکی شاعر منوانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کے علاوہ  میرؔ پر  کئی تحقیقی مقالات بھی لکھے جا چکے ہیں لیکن ان چیدہ چیدہ بکھری سی کوششوں سے میرؔ کی فنکارانہ عظمت اور انفرادیت کے نقوش  پوری طرح ظاہر نہیں ہوئے اور یہ کام ابھی تک تشنہ تکمیل  ہے۔

         میرؔ ایک منفرد تخلیق کار ہے  ان کی تخلیقی حسیت کے محرکات اور اس کی لفظی تجسیم کاری کے پیچیدہ عمل کی تفہیم و تحسین کا کام کوئی آسان کام نہیں  لہٰذا حامدی نے  اپنی کتاب’’ کارگہ شیشہ گری__ میرتقی میر کا مطالعہ ‘‘ کو لکھ کر میرؔ کے تخلیقی شعور اور نفسیاتی باریکیوں کو بیان کرنے کی سعی کی ہے جو لائق تحسین ہے۔ حامدی نے میرؔ کے اشعار کی تشریحی و توضیحی تنقید کی بجائے تخلیق شعور پر خاصی توجہ دی ہے۔وہ لکھتے ہیں:

’’میری توجہ بنیادی طو رپر پر اس بات پر مرکوز رہی ہے کہ کلامِ میرؔ کی جداگانہ اور خودمختارانہ حیثیت کو مدنظر رکھا جائے اور اس میں نمود کرنے والے تنقید کے نظام اقدار کی روشنی میں ان کے تخلیقی ذہن کا محاکمہ کیا جائے۔‘‘[5]

         حامدی نے اس کتاب میں میرؔ کی تخلیقی اپج بیان کرنے کی کوشش کی ہے جب کہ ان کی نجی زندگی اور اس زمانے کے معاشرتی ، سیاسی اور تاریخی احوال سے تعرض برتا ہے۔  حامدی نے اپنے اس مطالعہ کو تمدنی یا تاریخی مطالعہ بنانے سے اجتناب کیا ہے۔ یہ مطالعہ خالصتاً میر تقی میرؔ کے تخلیقی شعور پر ہونا چاہیے تھا مگر حامدی نے اس مطالعہ میں اردو تنقیدی دبستانوں پربھی اعتراضات  باندھے ہیں اگر حامدی اس کتاب ’’کارگہ شیشہ گری__ میرتقی میر کا مطالعہ ‘‘ میں مکمل طور پر اپنی توجہ میر کے تخلیقی شعور پر رکھتے تو زیادہ بہتر تھا۔ حامدی نے میرؔ کو اپنے تنقیدی نقطہ نظر (اکتشافی تنقید) کے تناظر میں پرکھا ہے۔ اس تنقیدی  نقطۂ نظر کے مطابق شاعر لفظ و پیکر کے علامتی برتاؤ سے تجربات کے طلسم کدے تخلیق کرتا ہے۔ ان تخلیقی طلسم کدوں تک قاری کی رسائی کو ممکن بنانا ہی کااکتشافی تنقید کا مطمعِ نظر رہا ہے اور قاری کو اشعار کی ندرت، معنویت اور جمالیاتی تاثیر کا احساس دلاتا ہے اور تنقید کے اسی اکتشافی کردار کو حامدی نے اپنی اس کتاب میں جابجا برتا ہے۔

         عام طور پر نقادوں کا خیال ہے کہ شاعری داخلی اور خارجی حقیقت کی آئینہ داری کا فریضہ ہی انجام دیتی رہی ہے اور داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر حقیقت کے تابع فرمان رہی ہےجس کی وجہ سے اپنی کشادگی اور سربلندی کا سامان نہ کر سکی۔ میرؔ  کی شاعری میں خارجی حقیقت کے اثر اقتدار کے تابع نظر آنے کا التباس موجود ہے اور ناقدرین میرؔ نے ان کی شاعری میں ان کی نجی زندگی یا سماجی اورسیاسی زندگی کی حقیقتوں کی نشاندہی کی جانب ساری توجہ صرف کر دی اور یہ ثابت کیا کہ میرؔ کی شاعری خارجی حقیقت کی آئینہ دار ہے اورمیرؔ کے معاصر شعور کی شدت اور گہرائی ان کی تخلیقیت کے لیے ایک اہم محرک رہی ہے چنانچہ میرؔ کے نقادوں نے ترجیحی طور پر ان کے یہاں معاصر شعور کی نشاندہی کرنے میں غیر معمولی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ مولوی عبدالحق لکھتے ہیں:

’’ میرؔ  نے حیرت انگیز اور زہرہ گداز واقعات اور انقلابات کو دیکھا اور برتا اور یہی وجہ ہے کہ ان کا کلام اصلیت و حقیقت سے خالی نہیں۔‘‘[6]

         خواجہ احمد فاروقی اپنی تصنیف’’میر، حیات اور شاعری‘‘ میں میر کے شخصی، معاشرتی اور سیاسی حالات کی تاریخ تفصیلاً بیان کرتے ہوئے اس بات پر زور دیتے ہیں:

’’میر کی زندگی اور  شاعری کو اس سیاسی، معاشرتی اور نفسیاتی پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔‘‘[7]

         مجنوں گورکھپوری لکھتے ہیں:

’’میر کی شاعری کو پڑھنے اور سمجھنے کےلیے بہت ضروری ہے کہ ان کے زمانے کے معاشرتی ماحول اور ان اسباب و حالات پر جن کے اندر رہ کر میر کی شخصیت کی تعمیر ہوئی مفصل نہ سہی مگر دقیق نگاہ ضرور ڈالی جائے۔‘‘[8]

         ان اقتباسات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ناقدین میر کو اس بات کا گہرا احساس ہے کہ ان کو تاریخ کے ایک بحرانی دور سے گزرنا پڑا اس چیز کے حامدی بھی قائل ہیں کہ میرؔ کے تخلیقی شعور کا  کوئی بھی مطالعہ اس وقت تک جامع نہیں ہو گا جب تک ا ن کے ذہنی رویوں کو ان کے عہد کے تناظر میں بھی نہ دیکھا جائے۔ میرؔ کے یہاں یہ آگہی اس لیے بھی توجہ گر ہو جاتی ہے کیونکہ اپنے معاصرین سوداؔ اور دردؔ کے مقابلے میں اس میں  انتہائی شدت سے موجود ہے اور ان کا اہم شعری محرک بھی رہی ہے مگر یہ حقیقت پھر بھی اپنی جگہ برقرار رہتی ہے کہ ان کے یہاں عصری آگہی اپنی اصلی شکل میں شعری مواد کا درجہ حاصل نہ کر سکی۔ حامدی ناقدین میرؔ پر ایک اعتراض باندھتے ہیں جو در حقیقت اعتراض  بنتا بھی ہے کہ جتنے بھی میرؔ کے ناقدین ہیں انہوں نے میرؔ کی شاعری کو عصری حالات کے تناظر میں ہی پرکھنے کی کوشش کی۔ حامدی لکھتے ہیں:

’’میری اس بات سے غالباً آپ کو حیرت ہو گی کیونکہ میرکے تقریباً سبھی نقادوں نے ان کی شاعری کو ان کے عہد کے تناظر میں ہی دیکھنے اور سمجھانے کی کوششیں کی ہیں اور یہ باور کرانے کی سعی کی ہے کہ ان کی تمام شعری کائنات ان کے عصری شعور ہی سے منسوب ہے۔‘‘[9]

          ناقدین نے میرؔ کے تخلیقی ذہن تک رسائی  حاصل نہ کی اور میرؔ شناسی میں نقادوں کی سب سے بڑی بھول یہ  ہوئی ہے کہ انہوں نے شعری عمل یا محرک کوہی  حاصل سمجھ لیا ہے۔ خارجی حقیقت کا سامنا کرنے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ یہی فی نفسہٖ شعر میں در آتی ہے یا شعر اس کا علم عطا کرنے کا وسیلہ ہے۔ حقیقت نگاری کا یہ تصور بنیادی طور پر فن کی ماہیت اور اس کے تفاعل کے بارے میں ایسے نظریات کا زائیدہ رہا ہے جو فن اور سیاست کو دو الگ الگ اور متوازی شعبے قرار دینے کی بجائے ایک دوسرے میں گڈمڈ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسا فن جو حقیقت کی سطح کا پابند رہا وہ عظیم ہونے سے تو باز رہا ہی اپنا جواز پیدا کرنے میں تذبذب کا شکار رہا۔

         شاعری انسانی ذہن کا خالصتاً تخلیقی مشغلہ ہے اور حامدی میرؔ کو خالصتاً ایک تخلیقی فن کار گردانتے ہیں۔ ان کے یہاں تخیل کی کارگزاری اور عمل داری اتنی نمایاں ہے کہ انہیں عالمی ادب کے بڑے شعرا میں شمار کیا جا سکتاہے اور یہی تخیل خارجی عناصر کو داخلی کیفیت سے ہم آہنگ کر کے ایک نئی حقیقت کو خلق کرتا ہے ۔ میر کے ہاں تخیل ایک کلی وحدت کے طور پر کار فرما ہے اور ان کی تخلیقات کا ازلی سرچشمہ بن جاتا ہے۔  میرؔ کے تخیل پسندی کے رجحان کو خارجی عناصر سے  بھی تقویت ملی۔

         حامدی نے میرؔ کے تخیل پسندی کے رجحان کو متصوفانہ مزاج سے بھی ملانے کی سعی کی ہے جو انہیں موروثی طور پر پر ملا اور جسے گھر کے صوفیانہ ماحول نے مزید مستحکم کیا۔ میر کے والد  مشہور صوفی تھے وہ ان کو چھوٹی عمر ہی میں دینوی تعلیم دیتے رہے ۔ گیارہ برس  کی عمر میں والد کے انتقال  کے بعد ان کے منہ بولے چچا اور والد کے خاص شاگرد سیدامان اللہ نے ان کی روحانی تربیت میں حصہ لیا۔ جس بچے کی ذہنی تربیت فقروں اور قلندروں کی صحبت میں ہوئی ہو اس کی خودنگری اور علیحدگی پسندگی کے رویے کی نفسیاتی توجیہہ مشکل نہیں۔ میر کے ہاں مجموعی طور پر نظریہ وحدت الوجود کا اظہار ملتا ہے اور وہ انسان کی فنا انجامی، بے چارگی اور بے اعتباری کو شدت سے محسوس کرتے ہیں۔  غور سے دیکھیے تو متصوفانہ رجحان تخلیقی عمل سے ان معنوں میں گہری  مطابقت رکھتا ہے کہ موخر الذکر بھی بالآخر ذات گزینی پر ہی منتج ہوتا ہے۔

         میر کے تخلیقی شعور میں ایک اہم اور نتیجہ خیز واقعہ ان کی ناکامیٔ عشق ہے۔ میرؔ عشق کے تجربے سے گزرتے ہوئے تمام عمر آتشِ عشق سے جلتے رہے۔ عشق کا تجربہ ان کی شعری زندگی میں اس لیے بھی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس سے انہوں نے زندگی اور شاعری کے بارے میں ایک مخصوص رویے کی تشکیل میں مدد لی ہے۔ یہ رویہ عشق کو زندگی کی ایک اہم سنجیدہ اور بنیادی سچائی قرار دیتا ہے اور حامدی اسی عشق کو ان کی شاعری کی ٹھوس بنیاد تصور کرتے ہیں:

’’ان کے تجربات میں عشق کا تجربہ اپنی لطافت، سحر کاری ، اسراریت، دل گداختگی، بے تابی اور تحیرزائی کی بنا پر ان کی شاعر ی کی ٹھوس بنیاد فراہم کرتا ہے۔‘‘[10]

         میر کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے عصری زندگی کے حالات و واقعات کا سچائی اور کشادہ دلی سے سامنا کیا لیکن شعری سطح پر ان کی فوری یا سطحی ترسیل سے سروکار نہ رکھا۔ انہوں نے اپنے فکر و شعور میں جذب کر کے ان کو شخصیت کی ساری قوتوں سے مربوط کر کے پیش کیا۔ اس طرح ان کی خلق کردہ دنیا ایک جداگانہ دنیا بن گئی۔

         میرؔ کی شاعری عموماً نازک جذبے کی شاعری ہے ان کے متعدد اشعار جذبہ و احساس کی قوس قزاحی تھرتھراہٹوں کا احساس دلاتے ہیں مگر حامدی کے نزدیک یہ جذبہ مجروح نہیں ہے بلکہ تفکری  پہلو بھی رکھتا ہے اور اسی اعتراض کو وہ نقادوں پر باندھتے ہیں کہ اکثر نقاد انہیں جذبے ہی کا شاعر قرار دیتے ہیں ۔ میرؔ کے تئیں اسی تحسینی رویے کی ارزانی سے ان کی عظمت کا مسئلہ حل نہیں ہوتا، محض جذبہ شاعر کے شعری وجود کی جامعیت کی ضمانت فراہم نہیں کرتا اور نہ اس کی آفاقیت کی منظوری دیتا ہے اسی لیے حامدی جذبے کی بجائے میر کے تفکری رویے پر زیادہ  توجہ دیتے ہیں:

’’تعمیر کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ’’فکر بلند‘‘ سے بھی بہرور ہیں۔‘‘[11]

         اسی طرح آل احمد سرور بھی میرؔ کی طرف منسوب کیے گئے جذباتی رویے کی تردید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے مروجہ مطالعات کی  کوتاہیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کو محض ’’جذبات کا شاعر‘‘ قرار دینے کے رویے کو مسترد کیا ہے۔ اُن کا لہجہ جذباتی ضرور ہے۔ وہ غم اور خوشی کے جذبات سے سیمابی پیکر بن جاتے ہیں اور قاری کو بھی جذباتی لہروں سے آشنا کراتے ہیں لیکن وہ محض جذبے کے شاعر نہیں وہ مختلف مابعد الطبیعیاتی مسائل مثلاً آفرینش، کائنات ، رفتار وقت، حیات، موت اور تباہی  کے بارے میں بھی اپنے تفکری رویے کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان کا کائناتی شعور سے جو اسرار سربستہ کا کھوج لگاتا ہے اور انکشاف، حیرت اور گم شدگی کو راہ دیتا ہے اُن کی ’’صاحب نظری‘‘ کی توثیق ہوتا ہے۔ جیسا کہ حامدی لکھتے ہیں:

’’ان کی نظر حقائق کی گہرائیوں مین اترتی ہے یہ نظر اس وقت شعری اکتشاف بن جاتی ہے۔ جب فکر اور جذبے کے اتصال باہم سے تجربہ وجود میں آتا ہے۔‘‘[12]

         میرؔ یہاں  فکر محسوس کرنے اور جذبہ سوچنے کا عمل بن جاتا ہے۔ بسا اوقات ایسی جذباتی صورت حال کو تخلیق کرتے ہیں کہ فوری طور پر فکری سنجیدگی کی طرف دھیان جاتا ہی نہیں مگر بغور مطالعہ کرنے پر اس کی نازک فکری جہات دمکنے لگتی ہیں۔ حامدی نے اسی فکری اپج کو جانچنے اورپرکھنے کی سعی کی وہ بتاتے ہیں کہ میر کے دواوین میں سینکڑوں ایسے اشعار موجود ہیں جو ’’اعلیٰ فکر‘‘ کے عکاس ہیں اور اسی بلند فکر کی بنا پر حامدی میرؔ کو اردو کے پہلے مفکر شاعر کا درجہ دیتے ہیں اور بلکہ اول درجے کی بجائے فکری ترفع کے لحاظ سے غالب اور اقبال کے ہم پلہ بھی گردانتے ہیں۔ میر کی شخصیت کی سب سے بڑی قوت ان کا جذباتی وفور ہی ہے جو وقتی نہیں دائمی طور پر ان کے خمیر میں مضمر ہے اور مختلف شکلوں مثلاً حسن فطرت، سادگی ،  معصومیت ، انسانیت اور مثالی جنت سے گہری وابستگی کی صورت میں جلوہ گر ہوتا ہے ۔ یہ جذبہ ان کی رگ و  پے میں چراغاں کرتا ہے مگر اس جذبہ پر بھی حامدی تفکر کو ہی فوقیت دیتے ہیں اور مذکورہ تمام جذبات کو تفکر کے زیرنگیں ہی رکھتے ہیں۔ بقول حامدی کاشمیری:

’’جذبہ ان کے رگ و پے میں چراغاں کرتا ہے لیکن تفکر کے سائے پھیل جانے پر یہ روشنیاں معدوم ہونے لگتی ہیں اور میرؔ محرومی کے عذاب میں گرفتار ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ دانتے کے infernoکے کردار کی طرح مبہتم کی دائمی اذیت سہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔‘‘[13]

         حامدی اس خود اذیتی سے بچنے کا حل بھی بتاتے ہیں کہ تخلیقی عمل میں مکمل طور پر خودسپردگی سے کام لیا جائے اور میرؔ نے ایسا ہی کیا۔ خود اذیتی کے مختلف مرحلوں سے گززتے ہوئے میر پر کیا گزری ہو گی ، اس کا اندازہ ان کی شاعری سے لگایا جا سکتا ہے جیسے انہوں نے ’’دردو غم‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ وہ فرطِ اذیت سے  سُن ہو گئے ہیں:

ہوا ہوں فرطز اذیت سے میں تو سُن اے میرؔ
تمیز رنج و خیال نشاط مجھ کو نہیں[14]

         لیکن اس اذیت کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ یہ ان کا ایک اہم شعری محرک بن جاتی ہے یہ ایک نفسیاتی نکتہ ہے جس کی موجودگی بڑے شعرا کی طرح میر کے ہاں بھی ملتی ہے۔ اذیت کوشی کا یہ رویہ فائدہ مند ثابت ہوتا ہے اور ان کی شخصیت کے پوشیدہ امکانات کو بروئے کار لانے میں مددگار ہوتا ہے اوراردو شاعری کو مالامال کرتا ہے۔ فنکار خود اذیت سہتا ہے مگر انسانیت کی اذیتوں کا ازالہ کرتا ہے۔

         حامدی نے میر تخلیقی عمل کے پیچھے مزید جذباتی رجحانات کا ذکر کیا ہے جو میرؔ کے تفکرانہ انداز کو توانائی بخشتے ہیں۔ ان جذباتی رجحانات میں ’’جنون‘‘ کو اوّلیت دی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ جمالیاتی شخصیت، ماورائیت، حیرت اور زندگی کی بےثباتی کے گہرے احساس کی موجودگی کو بھی خاصی اہمیت حاصل ہے۔

         میرؔ کو زندگی میں حق و باطل اور خیرو شر کی معرکہ آرائیوں میں حق اور خیر کی شکست  کو دیکھ کر عالمی اخلاقی نظام کی بربادی کا احساس ہے اور یہ احساس ان کے دلی قلق کا باعث ہے اور وہ بار بار اس کا اظہار کرتے ہیں مگر ان کے اظہار میں جذباتیت نہیں بلکہ فکری متانت ہے۔ حامدی اس متذکرہ کتاب ’’کارگہ شیشہ گری‘‘ میں میرؔ کے تخلیقی شعور پر بحث کرنے کے بعد ’’اقسام جواہر‘‘ کے عنوان سے میرؔ کی لسانی کارگزاری کا تجزیاتی مطالعہ کرتے ہیں۔ میر کی شاعری کے مخصوص جذباتی روابط، ذہنی میلانات اور فکری توسیعات کا تجزیہ کرنے سے ان کے تخلیقی ذہن کی سچائی، قوت اور انفرادیت کا بھرپو احساس ہوتا ہے ایسے شاعر کو اپنی تخلیقیت کی موثر لفظی تجسیم کےلیے ایک پیچیدہ مسئلے سے دوچار ہونا ناگزیر ہے جو لسانی اظہار کی جکڑ بندیوں کا پیدا کردہ ہے۔ شاعر جو کچھ محسوس کرتا ہے اور جن تجربوں سے گزرتا ہے ان کا اظہار الفاظ ہی سے ممکن ہے۔ الفاظ کا مجموعہ جو انسان کو اپنے ماضی الضمیر کی ادائیگی میں مدد دے زبان کہلاتا ہے۔ اور یہ عمل زبان کے ترسیلی کردار کو واضح کرتا ہے بڑے شعرا کے ہاں لسانی عمل ان کی قادرالکلامی اور لسانی جکڑبندیوں سے حتی الامکان آزادی کے رویے کا پتہ دیتا ہے۔ وہ زبان کے مروجہ اور روایتی ڈھانچے کو تخلیق کے آتش کدے میں پگھلا کر ایک ایسی شعری لسانیات کو تخلیق کرتا ہے جو بہت حد تک اس کے داخلی تجارب کو اسیر کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اس طرح سے زبان کے معیار و مزاج کو تہہ و بالا کیے بغیر اس کی نئی تشکیل کا عمل مکمل ہو جاتا ہے اور اس کام کو غالب اور اقبال نے بخوبی انجام دیا ہے۔

         اسی لسانی کارگزاری کو حامدی میرؔ کے ہاں یوں دیکھتے ہیں:

’’میرؔ کی لسانی کارگزاری کا تجزیاتی مطالعہ نہ صرف نہ صرف ان کے تخلیقی شعور کی پیچیدگیوں کی تفہیم  میں معاون ہو گا بلکہ فنی برتاؤ کے بعض منفرد نتائج کےلیے بھی راہ ہموارکرے گا۔‘‘[15]

         میرؔ کی زندگی کی مختلف النوع کیفیات ان کے طبع رواں کو انگیز کر کے ان کے ہونٹوں سے اشعار بن کر نکلتی ہیں۔ قاری ان اشعار کے لسانی وسائل سے کام لے کر اس تخیلی دنیا میں قدم رکھتا ہے جو میرؔ کے زیرنگیں ہے اور ان ہوشربا تجربوں کو متشکل دیکھتا ہے جو میر پر گزرے ہیں گویا ان کا تجربات کی ترسیل کےلیے زبان کا تخلیقی برتاؤ بھی اسی طلسمی عمل کا ایک ناگزیر حصہ ہے جو انہیں خیالی دنیا کی تخلیق کی قدرت عطا کرتا ہے۔ زبان کی طلسم کاری ہی وجہ سے ان کے ساتھ پیش آنے والے واردات رفتار وقت کے ساتھ زمین بوس ہونے کی بجائے لفظی پیکر میں زندہ و متحرک ہیں۔

         شعر گوئی کوئی آسان کام نہیں ہے اس کےلیے شاعر کو جس عرق ریزی کی ضرورت ہے۔ میرؔ اس سے الگ نہیں ہیں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ تخیلی تجربوں کی تجسیم کا عمل حد  درجہ کربناک ہوتا ہے۔ اس کرب سے ہر فنکار  کو گزرنا پڑتا ہے میر بھی شام سے تا صبح جلتے ہیں۔ تب کہیں ’’سخن گرم‘‘ کہتے ہیں:

تب سخن گرم کہنے لگا ہوں کہ میں اک عمر
جوں شمع سر شام سے تا صبح جلا ہوں[16]

         میر ؔ لفظ اور تجربے کے درمیان کسی ثنویت  اور آویزش کےلیے کوئی خفیف سی گنجائش نہیں رہنے دیتے۔ میرؔ کے ہاں اکثر و بیشتر تجربے لفظ و پیکر میں ڈھل کر مکمل اکائی بن جاتے ہیں اور ایک فطری، مربوط اور نمو پذیر وجود کا احساس دلاتے ہیں۔ میرؔ نے پوری توانائی کے ساتھ زبان کو اپنی شعری ضروریات کےلیے برتا ، لیکن اس کا مطلب ہرگز نہیں   کہ زبان ان کے لیے کوئی ترنوالہ تھی یا کہ زبان اپنی تکمیلی اور ترسیلی صورت میں ان کے سامنے دست بستہ کھڑی تھی ان کو اگر زبان کی کہنگی اور فرسودگی کے مسئلے کا سامنانہ تھا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کو کوئی لسانی دشواری پیش نہ تھی بلکہ ان کی سب سے بڑی دشواری یہ تھی کہ انہیں زبا ن کو روزمرہ کی عامیانہ سطح سے بلند کر کے اس کی تخیلی سمت کا تعین کیا۔ اس سے قبل ولی اوران کے معاصرین لسانی تہذیب و تشکیل میں اپنا رول ادا تو کیا کرتے وہ زبان کے امکانی مضمرات تک بھی رسائی حاصل نہ کر سکے۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اردو زبان ابتدا ہی سے ایک ایسے شاعر کی منتظر تھی جو زبان کا نکتہ شناس ہو حامدی ایسے نکتہ شناس کو میرؔ ہی گردانتے ہیں کیونکہ میرؔ کو روایت شکنی کا مسئلہ درپیش نہ تھا بلکہ انہیں ایک نئی لسانی روایت کی تشکیل کے مرحلے کا سامنا تھا۔ وہ اس مرحلے سے بخیر و خوبی گزر گئے انہوں نے جو شعری لسانیات تشکیل دی ہے وہ آنے والے شعرا کےلیے سرچشمۂ فیض بن گئی۔

         حامدی کے نزدیک میرؔ بیدار اور فعال  حسیاتی وجود رکھتے ہیں ان کی انفرادیت کا راز اس بات میں پوشیدہ ہے کہ ان کا شعری وجود ہمہ رنگ ہے وہ فکری سنجیدگی  کے ساتھ ساتھ حسیّاتی لذت سے بھی آشنا ہیں۔   ان کے گہرے حسی ادراک سے ان کی ارضی وابستگی مترشح ہوتی ہے ۔ یہ حسیاتی ادراک دھرتی کے آب و رنگ سے اخذ نمو کرتا ہے۔ پھلتا پھولتا ہے اور ان کے اشعار میں جادو جگاتا ہے۔ میرؔ حواسِ خمسہ کی تشفی کر کے جمالیاتی مسرت کا سامان کرتے ہیں اورحامدی کے نزدیک اس مقصد کے حصول کےلیے وہ پیکر تراشی کے عمل کو خصوصی اہمیت دیتے ہیں کیونکہ پیکر تراشی کاعمل شاعر کے حسیاتی ادراک سے مربوط  منسلک ہوتا ہے۔ حامدی لکھتے ہیں:

’’ان کے فن کی عظمت کا راز یہ ہے کہ وہ کسی بھی تاثر جس وقوعہ، کیفیت یا احساس کو مناسب لفظوں میں ڈھال کر پیکر آفرینی کا حق ادا کرتے ہیں بنیادی طورپر ان کا تخیل مصورانہ ہے۔‘‘[17]

         یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی کیفیت خواہ کتنی ہی تجریدی کیوں نہ ہو۔ میرؔ کو مجسم حالت میں نظر آتی ہے اور یہی بات خاص طور پر ان کے حسی تجربوں پر صادق آتی ہے۔ ان کی حسی تاثر پذیری کی قوت اور بوقلمونی کا اندازہ اس امر سے لگایاجا سکتا ہے کہ ان کے متعدد تجربے بیک وقت ایک سے زیادہ حواس کو متاثر کرتے ہیں۔ میر کی پیکر تراشی ان کے گہرے اور بالیدہ فنی شعور پر دلالت کرتی ہے۔ یہ پیکر شعوری تراشیدگی یا تزئین کاری کے محتاج نہیں اور شاعری کی جانب سے کسی ارادی کاوش کے مظہر بھی نہیں بلکہ شعری خود رفتگی میں یہ پیکر اپنی تکمیلیت اور سالمیت کے ساتھ باطن کی گہرائیوں سے نمود کرتے ہیں ۔ہر پیکر کم و بیش ایک پیچیدہ ڈرامائی صورت حال پر مرتکز ہوتا ہے اور میر اپنے گہرے لسانی شعور سے اس پر گرفت مضبوط کرتا ہے۔

         حامدی، میرؔ اور غالبؔ کی پیکر تراشی کاموازنہ کرتے ہوئے میرؔ کی پیکریت کوسادہ اور آسان سمجھتے ہیں کیونکہ غالب کی پیکر تراشی کا عمومی انداز فارسیت  سےلبریز ہے جب کہ میرؔ کے ہاں پیکر تراشی فارسیت سے بوجھل نہیں بلکہ یہ روانی اور برجستگی کی ادا رکھتی ہے۔ حامدی لکھتے ہیں:

’’میر کی پیکریت حیرت انگیز طریقے سے فارسی تراکیبوں کی مدد کیے بغیر ہی سادہ اور آسان الفاظ سے ممکن ہو جاتی ہے۔ سادہ اور منفرد الفاظ کو حسیّاتی لذت آفرینی کے سحر سے متصف کرنا میرؔ ہی کا  کام ہے۔‘‘[18]

         میر کا کمال یہ ہے کہ سادہ الفاظ کو اس فطری ترتیب سے پیکر میں ڈھالتے ہیں کہ تصویر کے نازک سے نازک خدوخال بھی چمکنے، دمکنے لگتے ہیں۔ لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں  کہ میرؔ کو فارسی پر گرفت نہیں تھی بلکہ ان کے ہاں ترکیب سازی کے ایسے نمونے بھی ہیں جن پرفارسیت غالب ہے جو ان کے فارسی دان ہونے پر مہر ثبت کرتے ہیں۔  مگر میرؔ فارسی تراکیب کی طرف داخلی ضروت ہی کے تحت رجوع کرتے ہیں۔  مگر ان کی تراکیب کی جامد نہیں بلکہ زندہ و متحرک ہیں اور پیکریت کو اس طرح ابھارتی ہیں کہ شعر کا فنی اور علامتی نظام مکمل ہو جاتا ہے۔

         میرؔ تخلیق کے آتش سیال سے گزرتے ہوئے زبان کو بھی ایک نئے قالب میں ڈھالتے ہیں وہ خود لفظ گر بن جاتے ہیں وہ لفظوں کی جادوگری کا ایسا جال بچھاتے ہیں کہ قاری الفاظ کی ساحری میں الجھ کر رہ جاتا ہے ۔ وہ چاہ کر بھی اس جادوگری سے تہی دامن نہیں ہو پاتا۔ ایسے الفاظ میرؔ کے باطنی سرجوش کی پیداوار ہیں۔ ان سے نہ صرف زبان کی مضمر تخلیقی قوتیں بروئے کار آتی ہیں بلکہ اس کی توسیع بھی ہوتی ہے۔ اب ذیل میں ایسے الفاظ کو پیش کیا جا رہا ہے جن کو جمع کر کے حامدی کے ذہن  رسا ہونے  کا ادراک ہوتا ہے اور میرؔ کی لفظی جادوگری اُبھرکر سامنے آتی ہے۔ مثلا:

’’قیامت شریر، حرف و سخن، دنیا دنیا تہمت، صحراصحرا وحشت، شہر حسن رنگ شعلہ، آتشیں خو، دلِ شب، غنچہ پیشانی، غبارِ دل، ریگ رواں، راہ رفتن، چراغ جاں، بستر افسردہ، چپیدگی داغ، سبک روحی، نقش پرآب، چشم سفید، سحر سواد، تیرہ روز، حیرت گل، کارگزاراں، شہرتن، یک رنگ آشنا،دل زدہ، زمین غزل، رنگین خرای، شوربہاراں، آئینہ رو، غزالاں شہری، سخن  زیرلبی، زمین تفتہ، آئینہ نیرنگ، بے تمنائی چادر مہتاب، آتش گل پیرہنی، قفس زاد قیدی، وادیٔ عشق، شعلہ آواز، ذائقہ شناس، خوف تنہائی ، چشم خوں بستہ، وطن آوارہ، نخل ماتم، حرف، غم پریشاں نظری، سخن رس، جاں گدازی، شب تیغ، خراب آبادیاں، خواب مرگ، سیر مہتاب، بیخودانِ مجلس تصویر، آشنازدہ، شب باشئی چمن، عجز تابی، چشمک زناں، بستہ خواب۔‘‘[19]

         میرؔ نے پیکر تراشی کے ساتھ ساتھ اپنی شاعری کو علامتی رنگ میں بھی رنگا بلکہ میرؔ اپنے ہرسخن کو رمز قرار دیتے ہیں۔ سخن کی رمزیت اس وقت ممکن الواقع ہو جاتی ہے جب شاعر بے رنگ  اور محدود خارجیت سے مکمل انحراف کر کے تخیل کی بےکراں اور طلسمی دنیا میں سانس لیتا ہے اور اس دنیا میں وہ خود ایک علامتی کردار بن جاتا ہے اور اس کی بات علامتی ہو جاتی ہے۔ علامت نگاری میں میرؔ نے آئینہ کی علامت کو خاصا تواتر سے برتا ہے اور یہ علامت (آئینہ) ہر بار اپنے شعری سیاق میں ایک نئی معنوی جہت کو ابھارتی ہے۔ حامدی لکھتے ہیں:

’’میرؔ کے ہاں آئینہ سے گہری وابستگی ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے اسے وفور اشتیاق سے دیکھا ہے اور پھر یہ ان کے تخیلی وجود کا ایک لازمی حصہ بن گیا ہے۔‘‘[20]

         حامدی اپنی کتاب ’’کارگہ شیشہ گری__میرتقی میر کا مطالعہ‘‘کے آخر میں میرؔ کے اثرات ان کے بعد آنے والے شعرا پر ظاہر کرتے ہیں۔ میرؔ کے بعد آنے والے شعرا نے اپنے اسلو ب فکر کو میر کے اثرات سے بچانے میں عاری رہے جیسا کہ غالبؔ نے طرزِ بیدل سے انحراف کر کے سہل ممتنع والی غزلوں میں جس سادگی و پرکاری کو روا رکھا ہے وہ میرؔ ہی کی یاد دلاتی ہے۔ غالبؔ، میرؔ سے جو ان کےلیے ماضی کے واحد بڑے شاعر تھے گہرے طور پر متاثر رہے ہیں اور وہ ان کی استادی کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔

ریختہ کے تمہیں استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے کوئی میرؔ بھی تھا[21]

         غالبؔ کے بعد حالیؔ نے میرؔ کی تقلید کا اعتراف کیا ہے ان کے شعری آہنگ میں جو سادگی  اور روانی ہے وہ غالبؔ کی بجائے میرؔ کے اثرات کی نشاندہی کرتی ہے۔ موجودہ صدی میں فانیؔ، حسرتؔ، اثرؔ اور فراقؔ کی شاعری میں بلحاظ اسلوب ہو یا بلحاظ موضوع میرؔ کے اثرات ہی ملتے ہیں۔ مگر ان شعرا پر میرؔ  کے اثرات اتنے واضح نہیں ہیں جتنا کہ ناصر کاظمی، ابن انشاء، خلیل الرحمان اعظمی اور منیر نیازی پر ہیں۔ المختصر میرؔ کے اشعار میں تجربوں کا ارتکاز اورجامعیت ہے۔ وہ کوئی لفظ بلاضرورت استعمال نہیں کرتے اور جو لفظ بھی استعمال کرتے ہیں اسے داخلی تجربے کی نزاکتوں اور باریکیوں سے مکمل طور پر ہم آہنگ کرتے ہیں۔ تجربے اور فن کا یہ ترکیبی اور امتزاجی عمل ان کو نئے ذہن سے مانوس اور قریب کرتا ہے۔

حوالہ جات

  • محمد حسن عسکری، مضمون: مزے دار شاعر، http://ww.rekhta.org.com
  • شمس الرحمٰن فاروقی، شعر شور انگیز(جلد دوم)، نئی دہلی: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، 1991ء، ص 30۔ 31
  • حامدی کاشمیری، پروفیسر، انتخاب غزلیاتِ میرؔ، نئی دہلی: قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان، 2003ء، ص16
  • ایضاً، ص 16
  • حامدی کاشمیری، پروفیسر، کارگہ شیشہ گری(میرتقی میر کا مطالعہ)، سری نگر: ادارہ ادب، 1982ء، ص 16
  • عبدالحق، مولوی، انتخاب کلامِ میر، دہلی: انجمن ترقی اردو، 1980ء، ص 19
  • خواجہ احمد فاروقی، پروفیسر، میرتقی میر، حیات اور شاعری، نئی دہلی: انجمن ترقی اردو، 1954ء، ص 395
  • مجنوں گوکھپوری، مضمون: میر اور ہم، مشمولہ: ادب اور زندگی، کولکتہ
  • حامدی کاشمیری، پروفیسر، کارگہ شیشہ گری(میرتقی میر کا مطالعہ)، ص39
  • ایضاً، ص 53
  • ایضاً، ص93
  • ایضاً، ص94
  • ایضاً، ص103
  • ایضاً، ص103
  • ایضاً، ص126
  • ایضاً، ص126
  • ایضاً، ص146
  • ایضاً، ص160
  • ایضاً، ص164
  • ایضاً، ص194
  • ایضاً، ص194

****

Leave a Reply