You are currently viewing خالد حسین کے افسانہ’’ستی سر کا سورج‘‘میں کشمیر کی عکاسی

خالد حسین کے افسانہ’’ستی سر کا سورج‘‘میں کشمیر کی عکاسی

ڈمپلا دیوی

 ریسرچ اسکالر شعبہ اردو جموں یونیورسٹی

خالد حسین کے افسانہ’’ستی سر کا سورج‘‘میں کشمیر کی عکاسی

  جب بھی ہم اردو نثری اصناف کی بات کرتے ہیں تو اُس میں افسانہ کو بھی ایک اہم صنف مانا جاتا ہے ۔افسانہ  مختصرکہانی کی ایک ایسی قسم کو کہا جاتا ہے جس میں زندگی کا کوئی ایک پہلو بیان کیا جاتا ہے ۔افسانہ کے لغوی معنی جھوٹی کہانی کے ہوتے ہیں ۔ افسانہ میں کسی شخص کی زندگی کے متعلق اہم اور دلچسپ واقعات کو پیش کیا جاتا ہے ۔

خالد حسین جموں و کشمیر کے نامور افسانہ نگار ہیں ۔اُن کے افسانے اُردو کے علاوہ پنجابی زبان میں بھی شائع ہوتے رہتے ہیں ۔خالد حسین کے اُردو میں اب تک چار افسانوی مجموعے شائع ہو چُکے ہیں ’’۔ٹھنڈی کانگڑی کا دھواں ‘‘،’’اشتہاروں والی حویلی‘‘،’’ستی سر کا سورج‘‘اور ’’جنت گرہن ‘‘۔پنجابی میں اُن کے چھ افسانوی مجموعے شائع ہو چُکے ہیں ۔جہلم و گدارپہا،گوری فصل دے سوداگر،ڈونگے پانیاں و ادُکھ اور بلدی برف داسیک ،سُولا دا سالن اور عشق ملنگی ۔خالد حسین نے اپنی خودنوشت سوانح ’’میں زندہ آدمی ہوں‘‘لکھ کر ۲۰۲۱؁ء میں قاسمی کتب خانہ تالاب کٹھیکا جموں سے شائع کی ۔اُن کے کئی افسانوں کا ترجمہ ہندی ،بنگلہ،ملیالم ،ڈوگری ،کشمیری اور انگریزی میں بھی ہو چُکا ہے ۔خالد حسین جموں و کشمیر کے پہلے ادیب ہیں جنھیں بھارت رتن اعزاز سے بھی نوازا جا چُکا ہے اور حال ہی میں اُن کی پنجابی افسانہ نگاری کی خدمت کو مدِنظر رکھ کراُن کوساہتیہ اکیڈمی انعام سے بھی نوازا گیا ہے ۔

خالد حسین کا ایک افسانہ ’’ستی سر کا سورج‘‘ہے جواُن کے افسانوی مجموعے ’’ستی سر کا سورج ‘‘ میں شامل ہے ۔ یہ مجموعہ ۲۰۱۱؁ء میں شائع ہو کر منظر عام پر آیا۔اس مجموعے میں کشمیر کی موجودہ صورت حال پر لکھی گئی کہانیاں بڑے درد بھرے انداز میں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔اسی مجموعے میں شامل افسانہ ’’ستی سر کا سورج ‘‘میں خالد حسین نے انسان دوستی کے حوالے سے ایک ایسا متحرک کردار اُبھار کر سامنے لایا ہے جس کی روحانی قیادت آج بھی بہت سے لوگوں کی رہنمائی کرتی ہے ۔ویدک عہد میں کشمیر کو ستی سر کہا جاتا تھا ۔بہت سے تاریخ نویس اس بات پر متفق ہیں کہ کشمیر پہلے ایک ’’سر‘‘یعنی جھیل کی شکل میں تھی۔کشپ رشی کی تپسیا سے ستی سر نامی جھیل ایک خوبصورت وادی کشمیر بن گئی ۔کشمیر کا نام کشپ رشی کے نام سے منسلک کیا جاتا ہے ۔

زیرِ بحث افسانہ میں خالد حسین نے شیخ نور الدین ولی جنھیں شیخ العالم بھی کہا جاتا ہے ، کو ستی سر کا سورج قرار دیا ہے ۔جس نے کشمیر میں صوفی ازم کو فروغ دے کر عوام کو روحانی اور وحدت کی تعلیم دی ۔شیخ العالم ایک صوفی منش شخص تھے ۔اُن کے اشعار اور اقوال میں بھائی چارے ،اتحاد ،ایکتا ،اخلاق و محبت کا درس دیکھنے کو ملتا ہے ۔اس افسانہ میں مشترکہ تہذیب ،انسانی ،مذہبی اور جمہوری قدروں اور ادب میں حق گوئی کو مختلف صداتوں میں سامنے لایا ہے ۔خالد حسین کا فکر و فن اس افسانے میں نکھر کر سامنے آیا ہے ۔وہ اس افسانہ میں کشمیر کی سر زمین پر رہنے والے لوگوں کو چودھویں صدی کے ایک صوفی سنت نند رشی کے ذریعے امن و شانتی کا درس دینا چاہتے ہیں ۔شیخ نور الدین ولی جنھیں شیخ العالم بھی کہا جاتا ہے کے بارے میں خالد حسین لکھتے ہیں :۔

’’وہ بندہ رب کا تھا اور خادم سب کا تھا ۔وہ کامل صوفی درویش تھا ،جو مسجد میں بیٹھ کر سنکھ بجاتا اور مندر میں بیٹھ کر نماز گزارتا ۔وہ اپنی ماں للیشوری کی گود میں بیٹھ کر معرفت کی کھیلیں کھیلتا رہتا ۔دونوں نے مل کر اپنے واکھوں اور شلوکوں سے امن ،شانتی ،ایکتا اور دوستی کی جوت جگائی تھی‘‘                                                                                                                           (ستی سر کا سورج ۔ص۔۵۵)                                                                                           زیرِ بحث افسانہ میں خالد حسین نے کشمیر کی تاریخ کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے اُس تہذیب و تمدن پرروشنی ڈالی ہے جہاں کے لوگ روشن خیال تھے اور سچائی اور حق گوئی کی راہ پر چلتے تھے۔ساتھ ہی مصنف نے اُن سیاستدانوں کو بھی بے نقاب کیا ہے جنھوں نے اپنی غرض کی خاطر اُس رشی منیوں اور صوفی سنتوں کی دھرتی کو گندی سیاست کا لباس پہنا کر تباہ کر دیا ۔جن نسلوں کو آج امن و شانتی ،ایکتا،معرفت اور روحانیت کے درس کی ضرورت ہے،وہ سیاستدانوں کے چنگل میں پھنس کر ہتھیاروں سے کھیل رہے ہیں ۔اُن میں سے کچھ لوگ مذہبی رہنمائوں کے جال میں پھستے ہیں ۔مذہبی رہنما مذہب کی آڑ لئے جھوٹ ،فریب اور مکاّری کی سیاست کر رہے ہیں ۔

’’سامراج کبھی ختم نہیں ہوسکتا۔اُس نے اپنی چال بدلی ۔راج نیتی کی ڈھال بدلی اور آہستہ آہستہ دوبارہ اپنی تیار کرنے لگا ۔اُس نے ادھرمی دھرماتمائوں اور جنونی مُلّاوں کو اپنے ساتھ ملایا ۔اُن کے سامنے دولت کا ڈھیر لگایا اور اُن کے ہاتھوں میں دھرم کی زنجیریں دے دیں تا کہ معصوم بچوں کے دل اور دماغوں کو قید کیا جائے ۔اُن کے اندر جنون اور کڑوار کی پنیری اُگائی جائے ۔لفظوں کی جادوگری سے اُنھیں اگیانی بنایا جائے۔‘‘                                                                                                   (ستی سر کا سورج۔۵۷)

خالد حسین بے باک ،سیکولر ،غیرجانبدار اور انسانیت پرست ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی تخلیقات میں مذہب اور ذات پات سے اُوپر اُٹھ کر سچائی اور حقیقت پسندی سے کام لیتے ہیں ۔کشمیر کی تہذیب و ثقافت کے ساتھ ساتھ اُنھوں نے موجودہ صورتِ حال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس بات پر خاص زور دیا ہے کہ سیاستدانوں کے شکنجے سے باہر آکر کشمیری عوام کو کسی بھی طرح کی نفرت ،بغض و حسد اور پا کھنڈ سے باہر نکلنا ہو گا۔خالد حسین نے ’’ستی سر کا سورج ‘‘ میں اُن لوگوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جنھیں وحشی دِرندوں کے ظلم و ستم سہنے کی طاقت ختم ہو گئی تھی اور اُنھیں اپنے ستی سر کو چھوڑنا پڑا۔تقسیم ملک کے درد ناک سانحہ کی وجہ سے لوگوں کو جس تباہی کا سامنا کرنا پڑا وہ بھی اس افسانے میں دیکھنے کو ملتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے بچھڑ گئے ۔لوگوں کی آپسی نفرت پروان چڑھنے لگی ،اُن کے سروں پر سیاست کا جنون بھی اُسی دور میں سوار ہو گیا ۔ہجرت اور فسادات میں لوگوں کو کن کن مشکلات سے دو چار ہونا پڑا ،اس کو خالد حسین اپنے الفاظ میں یوں بیان کرتے ہیں ۔

’’سچ اور محبت کی دولت ،دھرم اور سیاست کے مرتبانوں میں قید کر دی گئی ۔پھر عزت اور شرافت کی دستار مٹی میں مل گئی ۔عورتیں چوراہوں پر ننگی کی گئیں پھر لوگوں نے غنڈوں کی سرداری دیکھی ۔شریفوں کی لاچاری دیکھی ۔علموں اور غفلوں والے گھاس کے بھائو تولے گئے ۔خلقت کی تباہی ڈر اور خوف نے کی اور کچھ کلاشنکوف نے کی ۔دھرتی بانجھ ہو گئی۔‘‘                                                                                     (ستی سر کا سورج۔۵۸)                                                                     خالد حسین نے شاہ فریدالدین اور شاہ اسرار الدین ،شاہ اخیار الدین ،حمزہ مخدوم ،چکریشوری ،للیشوری،سلرسین وغیرہ جیسے کرداروں کو افسانے میں شامل کر کے جموں و کشمیر میں پنپنے والی نفرت ،مذہبی کٹرپن ،دہشت گردی ،تنگ نظری اور پاکھنڈ کو ختم کرنے کی بات کی ہے ۔وہ ان کرداروں کے ذریعے لوگوں کو آگاہ کر رہے ہیں کہ اُن کو اپنی پرانی تہذیب و ثقافت پھر سے واپس لانی ہو گی ۔وہ تہذیب جس کی وجہ سے ہر دل و دماغ روشن تھا ۔ہر جگہ محبت ،ایکتا ،امن و شانتی کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی ۔مگر اب لوگ سب کچھ بھول چُکے ہیں ۔ خالد حسین نند رشی کے کردار کو علامت کے طور پر پیش کر کے انہی کی زبان میں لوگوں کو پھر سے جگانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔جس طاقت اور دہشت گردی نے لوگوں کے دل و دماغ کو جھنجھوڑکر رکھ دیا ہے ،لوگ اپنی مذہبی کتابوں کو پڑھنا بھول گئے ہیں اور خدا کی راہ میں خود کو نچھاور کرنے کے بجائے غلط کاموں میں مبتلا ہو گئے ہیں ،اُسی طاقت کو ختم کرنے کی بات خالد حسین نے اس افسانہ میں کی ہے ۔

’’تم لوگوں نے طاقت اور دہشت کے سامراج کو رد کر دیا ہے ۔لہذا چلو آگے بڑھواور ’’میں‘‘کے خلاف ایک جُٹ ہو کر لڑائی لڑو۔ظلم کے آتش فشاں کوٹھنڈا کر دو ،ستی کو جنون ،نفرت ،پاکھنڈاور گھمنڈ کی لعنت سے آزاد کرائو ،اپنی تہذیب اور ثقافت کو بچائو‘‘                                                                        (ستی سر کا سورج ۔ص۔۶۳)

الغرض یہ کہ خالد حسین کا یہ افسانہ اپنی نوعت کا ایک اہم افسانہ ہے ۔یہ افسانہ خالد حسین کے دیگر افسانوں سے اس لئے بھی منفرد ہے کہ اس میں اُنھوں نے شیخ العالم کے کردار کو علامت کے طور پر پیش کر کے برصغیر کے لوگوں کو امن و شانتی ،بھائی چارے اور اخلاق و اخلاص کا درس دینے کی کوشش کی ہے ۔فن کے اعتبارسے بھی زیرِ بحث افسانہ اہمیت رکھتا ہے ۔زبان و بیان کا عام فہم استعمال کیا ہے ۔مکالمے بھی کرداروں کی مناسبت سے استعمال کئے ہیں ۔خالد حسین کے کردار اکثر ہمارے ہی ارد گرد رہنے والے انسان ہوتے ہیں مگر اس افسانے میں سبھی کردار حقیقی ہیں جو سب اپنی اپنی جگہ پر تاریخی اہمیت رکھتے ہیں ۔افسانہ ’’ستی سر کاسورج ‘‘ایک تاریخی افسانہ ہے    ۔ جس میں خالد حسین نے کشمیر کے تاریخی حقائق کو پیش کر کے کشمیر کے موجودہ پُر آشوب حالات کو سُدھارنے کی بات کی ہے ۔خالد حسین کے افسانوی مجموعے بیسویں اور اکیسویں صدی کی افسانہ نگاری کی روائت میں ایک اہم اضافہ ہی نہیں بلکہ ریاست جموں و کشمیر کے علاوہ برصغیر کے حالات پر لکھے گئے افسانوں میں ایک اہم اثاثہ کے طور پر رہتی دُنیا تک یاد رکھے جائیں گے ۔خالد حسین کی کہانیاں حقیقت پسندی کی نمائندگی کرتی ہیں ۔انھوں نے اپنی تخلیقات میں مبالغہ آرائی سے پرہیز کیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ عصر حاضر کے افسانہ نگاروں میں اُن کے افسانوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔

***

Leave a Reply