ڈاکٹر ساجد محمود
شعبہ اردو (یونی ورسٹی آف سینٹرل پنجاب،سیالکوٹ کیمپس)
محسن خالد محسنؔ
شعبہ اردو(گورنمنٹ ایسوی ایٹ کالج،لاہور)
Dr Sajid Mahmood
Urdu Dept: Univeristy of Central Punjab,Sialkot Campus
Mohsin Khalid Mohsin
Urdu Dept: (Govt Shah Hussain Associate College,Lahore)
خطوطِ غالبؔ میں مذکور شعرا ء سے غالبؔ کی لسانی موانست و مخالفت
Ghalib’s linguistic intimacy and contravention of the poets mentioned in Ghalib’s letters
ABSTRACT
Mirza Ghalib’s fame is based on the simple, easy, and unique composition of his letters. Undoubtedly, Mirza Ghalib is an excellent poet, but in his letters, there is a bias towards linguistic harmony and opposition among his contemporary poets and scholars. Ghalib used to consider himself a great poet; that is the reason why his difficulty and eloquence have reduced the artistic meaning of his words and prose works. The reservations and praises mentioned in Ghalib’s letters about these classical poets and Nisar, in view of all the signs of language and expression, have been examined from a critical point of view in this paper. This paper is a critical analysis of Mirza Ghalib’s personal opinion about his contemporaries and earlier poets as a poet, from which the impression will be clear to the reader that Mirza Ghalib is the poet of his age apart from language and expression. And how did they see Nisar, and what was their opinion about him?
Key words: Epistle, Ghalib, Muhammad Shahi style, Sauda, Mu’min, Zouk, Hazeen, Badal, Hali, Ghadar, Classical Ghazal, Sufism, English imperialism, Persian tradition, Mughal Empire.
مقدمہ: مرزا غالب کی شہرت ان کے خطوط کی سادہ ،سہل اور منفرد انشا پردازی پر ہے، بلاشبہ مرزا غالب ایک بہترین شاعر ہے تاہم ان کے خطوط میں اپنے ہم عصر شعرا اور مقدمین کے بارے میں لسانی موانست و مخالفت کا تعصب پایا جاتا ہے۔ غالب بہ زُعم خود بڑا شاعر گردانتے تھے،یہی وجہ ہے کہ ان کی مشکل پسندی اور ادق گوئی نے ان کے کلام اور نثری فن پاروں کی فنی معنویت کو گھٹا یا ہے۔ غالب کے خطوط میں ان کلاسیکی شعرا اور نثار کے بارے میں زبان و بیان کے جملہ رموز ع لائم کے پیش ِ نظر جن تحفظات او ر تحسینات کا ذکر کیا گیا ہے،اس مقالہ میں انھیں تنقیدی نکتہ نظر سے جانچا گیا ہے۔ یہ مقالہ مرزا غالب کی بطور شاعر اپنے ہم عصر اور مقدمین شعرا کے بارے میں ذاتی آرا کا ناقدانہ تجزیہ کیا گیا ہے جس سے پڑھنے والے پر یہ تاثر واضح ہو جائے گا کہ مرزا غالب زبان و بیان سے ہٹ کر شخصی حیثیت میں اپنےعصر کے شعرا اور نثار کو کس نظر سے دیکھتے تھے اور ان کے بارے میں کیا رائے رکھتے تھے۔
کلیدی الفاظ: خطوط نگاری، غالب، محمد شاہی روش، سودا، ،مومن،ذوق، حزیں،بیدل،حالی،غدر، کلاسیکی غزل، تصوف، انگریزی سامراج،فارسی روایت،مغل سلطنت
مرزا غالب کی شخصیت اور ان کا کام صدیوں گزرنے کے باوجود آج بھی اُردو ادب کا قابلِ فخر سرمایہ ہے۔ مرزا غالب نے اگرچہ فارسی تخلیقات کو اپنی عزت اور ناموری کا سبب قرار دیا تاہم ان کی شہرت کا دارومدار ان کے اُردو کلام اور اُردو خطوط سے ہوا۔ مکتوب نویسی کی روایت میں مرزا غالب کا نام نہایت عزت سے اس لیے لیا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے عہد کے مروجہ اسالیب سے انحراف کرتے ہوئے براہ راست تکلم کے اُسلوب کو وضع کیا اور اسے رواج دینے میں سر توڑ کوشش کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج مکتوب نویسی کی موجودہ روایت میں ابلاغ کی جو اُپج ہے وہ مرزا غالب ہی کی دین ہے۔
مرزا غالب شہرت و ناموری کے پیشِ نظر نرگسیت کا شکار ہو گئے تھے، ان کے ہاں زبان و بیان کے جملہ رمو ز و علائم کے حوالے سے اپنا ایک خاص نکتہ نظر رہا جسے بعض جگہ زبردستی انھوں نے رواج دینے اور سند ماننے پر اپنے ہم عصر شعرا اور نثار کو مجبور کیا تاہم ان کی ہر بات تسلیم نہیں کی گئی۔ مرزا غالب نے اپنے خطوط میں اپنے عصر کے ممتاز شعرا اور نثار کی تخلیقات پر زبان و بیان کے حوالے سے لسانیاتی اختلاف کیے اور بات نزاعات تک چلی گئی۔ مرزا قتیل کا قصہ اس معاملے میں بدنامی کی حد تک مشہور ہے۔
یہ مقالہ مرزا غالب کی لسانیاتی تناظر میں اُٹھائی کی بحث کا ناقدانہ تجزیہ کرتا ہے جس سے مکتوب نویسی کی روایت سے متصل ناقدین و قارئین اور عام ادب کے قاری کو مرزا غالب کی زبان وبیان پر گرفت اور دسترس کا پتہ چلے گا نیز اپنے ہم عصر اور مقدمین کی تحاریر پر جو اعتراض وارد کیے ہیں اور ان پر اپنی رائے تھوپنے کی کوشش کی ہے ،اس کا جملہ ارتداد بھی اس مقالے کا حصہ ہے۔
مرزا محمد رفیع سوداؔ
مرزا محمد رفیع سودا ۶ ۱۷۰ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ سوداؔ اولاً فارسی میں شاعری کرتے تھے بعدمیں انھوں نے اردو شاعری کی طرف توجہ دی اور قصیدہ گوئی کو اپنا خاص میدان بنایا ۔ قصیدہ نگاری میں ان کا کوئی حریف نہیں ہے۔ سودا نے ہجونگاری میں بھی اپنا کمال دکھایا ہے۔ وہ قصیدہ اور بجو د دنوں کے استاد ہیں۔
غالب نے سودا کا ذکر مرزا تفتہ ، عبدالغفور سرور، فرقانی میرٹھی، مولوی ضیاء الدین خاں ضیاء، اور حقیر کے نام خطوط میں کیا ہے۔ ان خطوط کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سودا ان کے نزدیک ایک اہم شاعر ہیں ۔ مکتوب بنام گفتہ میں انھوں نے تحریر کیا ہے کہ بعض شعرا اپنے کلام میں بعض جملے مقدر چھوڑ جاتے ہیں ، اس کے باوجود کلام کی بلاغت اور معنویت میں کوئی کمی محسوس نہیں ہوتی ۔ اس وصف خاص میں غالب نے اپنے ساتھ ساتھ سودا کا بھی ذکر کیا ہے۔ اور اس کی مثال میں سودا کا یہ شعر نقل کیا ہے:
؎ نہ ضرر کفر کو نہ دین کو نقصاں مجھ سے باعث دشمنی اے گبرد مسلماں مجھ سے
مکتوب بنام سرور میں انھوں نے تحریر کیا ہے کہ سودا کے کلام میں لطافت پائی جاتی ہے جو فارسی شاعری کا حصہ ہے اور جسے چیزے دگر” سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کی مثال میں انھوں نے سودا کا یہ شعر پیش کیا ہے:
؎ دکھلائیے لے جاکے تجھے مصر کا بازار خواہاں نہیں لیکن کوئی واں جنس گراں کا
مکتوب بنام فرقانی میرٹھی میں انھوں نے متروکات کی بحث اٹھائی ہے اور مکتوب الیہ کو اس طرف متوجہ کیا ہے کہ میر وسودا کی عظمت اپنی جگہ مسلم ہے۔ لیکن نو آموز شاعر کو ہر جگہ ان کی پیروی نہیں کرنی چاہیے کیوں کہ ان بزرگوں کے یہاں متروکات بھی ہیں ۔ ” لو ہو ” بجائے لہو ” اور ” اور ” بمعنی “طرف و جانب ” وغیرہ۔
شیخ امام بخش ناسخؔ
شیخ امام بخش ناسخ ۱۷۷۱ میں فیض آباد میں پیدا ہوئے ۔ تاریخ کو لکھنوی دبستان کا بانی کہا جاتا ہے۔اس زبان کو ناسخ سے منسوب نہیں کیا جاسکتا ۔ عام نہی نے کچھ یہ خیال دلوں میں ڈال دیا ہے کہ زبان لکھنو کے اس تصور سے مراد ناسخ کی زبان ہے، یا یہ کہ کم از کم اس زبان کی صورت گری انھی نے کی ہے۔ اور یہ نہیں تو اس کا قالب تو بنا یا ہی ہوگا۔تاریخ کی تعلیم لکھنو میں ہوئی اور وہیں شاعری کی طرف متوجہ ہوئے۔ ان کے کلام کا بیشتر حصہ غزلوں پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ بعض قطعات اور رباعیات بھی ہیں۔
غالب نے ان کا ذکر تفتہ سرور، مہر، مولانا احمد حسین مرزا پوری ، نساخ اور مولوی کرامت علی کے نام خطوط میں کیا ہے۔ ان خطوط کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ غالب کی ان سے خط و کتابت تھی۔ اس ضمن میں ایک مثال ملاحظہ ہو:
غالب نے نصیر الدین حیدر کی مدح میں ایک قصیدہ تحریر کیا تھا لیکن متوسط کی لاپروائی سے اس کا صلہ غالب تک نہیں پہنچا تو ان کو تشویش ہوئی ۔ پایان کار غالب نے ناسخ کی مدد سے اس کی حقیقت جانتی چاہتی کہ اس قصیدے پر کیا گزری۔ غالب کا اصل بیان ملاحظہ ہو جو انھوں نے تفتہ کے نام خط میں تحریر کیا ہے:
”ہوا پرانا قصہ تم نے یاد دلایا۔ ناچار میں نے شیخ امام بخش ناسخ کو لکھا کہ تم دریافت کر کےلکھو کہ میرے قصیدے پر کیا گزری ؟ انھوں نے جواب میں لکھا کہ پانچ ہزار ملے مگر یہ میں نے نہیں جانا کہ اس کا صلہ کیا مرحمت ہوا۔ میں کہ تاریخ ہوں اپنے نام کا خط بادشاہ کو پڑھوا کر، ان کا کھایا ہوا رو پید ان کے مطلق سے نکال کر تم کو بھیج دوں گا اب کہو میں کیا کروں اور ناسخ کیاکرے ۔”(1)
غالب کے مذکورہ بالا اقتباس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ غالب ناسخ سے سچی محبت کرنے والے دوست تھے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ وہ صرف غزل کہتے تھے جسے غالب نے ” یک فنے” سے تعبیر کیا ہے۔ غالب کے نزدیک یک فنا ہونا عیب ہے۔ بڑا اور اچھا شاعر وہ ہے جو غزل کے ساتھ ساتھ صنفِ قصیدہ اور مثنوی میں بھی طبع آزمائی کرتا ہو۔مکتوب بنام نساخ سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ غالب کے خیال میں وہ ایک طرز جدید کے موجد اور پرانی نا ہموار روشوں کے تاریخ تھے ۔
خواجہ حیدر علی آتشؔ
خواجہ حیدر علی آتش ۱۷۷۸ء میں فیض آباد میں پیدا ہوئے ۔ اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے۔ مصحفی کے شاگرد تھے۔ ان کی شاعری کا سرمایہ ان کی غزلیں ہیں، جس کے دو دیو ان ہیں۔ ان کا اصل موضوع عشق و محبت ہے۔ آتش کے کلام میں زبان کی صفائی اور محاورات کا بہترین استعمال ہوا ہے۔ غالب نے ان کا ذکر عبد الغفور سرور اور مولانا احمد حسین مرزا پوری کے نام مکتوب میں کیا ہے۔ غالب کے نزدیک ان کے کلام میں لطیف احساسات ملتے ہیں۔ غالب نے ناسخ کے ساتھ ساتھ آتش کا بھی ذکر کیا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
”وہ چیزے دگر پارسیوں کے حصے میں آئی ہے۔ ہاں اردو زبان میں اہل ہند نے وہ چیز پائی ہے ناسخ کےہاں کمتر اور آتش کے یہاں بیشتر یہ نیز نشتر ہیں۔ مگر مجھے ان کا کوئی شعر اس وقت یاد نہیں آتا ”۔(2)
غالب کے اس اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ فارسی شاعری کا مخصوص جو ہر یعنی اطاعت جسے چیزے وگر” سے تعبیر کیا جاتا ہے ناسخ کے کلام میں کم ہے اور آتش کے ہاں زیادہ ہے غالب نے یہاں اس کے لیے ایک نئی اصطلاح ” تیز نشتر استعمال کی ہے۔
میر تقی میرؔ
میر تقی ۱۷۲۲ء میں اکبر آباد آگرہ میں پیدا ہوئے۔ میر کو خدائے سخن کہا جاتا ہے۔ ان کا بنیادی موضوع عشق ہے۔ میر نے یوں تو مختلف صنف سخن میں طبع آزمائی کی ہے لیکن غزل میں ان کا پایہ بہت بلند ہے۔ میر کا کلیات اردو چھ دیوان پر مشتمل ہے جس میں بیشتر اصناف موجود ہیں اس کے علاوہ ایک فارسی دیوان بھی ہے۔غالب نے میر کا ذکر تفته، سردر، مجروح، فرقانی میرضی ، صاحب عالم ، حبیب اللہ کا حقیر اور قدر بلگرامی وغیرہ کے نام خطوط میں کیا ہے۔ ان کے مطالعے سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ غالب میر کے اشعار پسند کرتے تھے اوراپنی تحریروں میں انھیں نقل بھی کرتے تھے۔ فقہ کو نا ہار پہ وغیر کی گئی پیش آگئی تھی اس ضمن میں غالب نے تحریر کیا ہے:
”خدا تم کو خوش اور تندرست رکھے۔ نہ دوست بخیل نہ میں کا ذب مگر بہ قول میر تقی :
اتفاقات ہیں زمانے” (3)
میرن صاحب غالب کے احباب میں بہت چہیتے تھے اور ان سے غالب کی بہت چھیڑچھاڑ رہتی تھی۔ ایک بار وہ بیمار ہو کر پھر اچھے ہو گئے۔ اس پر غالب نے میر کا مقطع ” میر کو کیوں نہ مختم جانیں، اگلے لوگوں میں اک رہا ہے یہ تحریر کیا اور اسے یہ تغیر الفاظ میرن صاحب کے لیےاستعمال کیا ہے
؎ کیوں نہ میرن کو مغتنم جانوں دلی والوں میں اک بچا ہے یہ
اس ضمن میں غالب کی اصل عبارت حسب ذیل ہے:
”میرن صاحب کی تندرستی کے بیان میں نہ اظہار مسرت ، نہ مجھ کو تہنیت، بلکہ اس طرح سے لکھا ہے کہ گویا ان کا تندرست ہو نا تم کو نا گوار ہوا ہے. یہ باتیں تمہاری ہم کو پسند نہیں آئیں ۔ تم نے میر کا وہ مقطع سنا ہوگا ہے تغیر الفاظ لکھتا ہوں : کیوں نہ میرن کو ختم جانوں/دلی والوں میں اک بچا ہے یہ۔میر تقی میر کا مقطع یوں ہے:میر کو کیوں نہ مغتنم جانیں/اگلے لوگوں میں اک رہا ہے”(4)
اس کے علاوہ غالب بعض جگہ میر کی اتباع کرنے سے اپنے شاگردوں کو منع کرتے ہیں چنانچہ اپنے شاگر د قدر بلگرامی کو تحریر کرتے ہیں:
”مطلع میں نام اپنا لکھنا رسم نہیں ہے۔ میر کا تخلص اور صورت رکھتا ہے۔ میر جی” اورمیر صاحب” کر کے وہ اپنے آپ کو لکھ جاتا ہے اور اس بدعت کا تتبع نہ چاہیئے”۔(5)
اس اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ غالب نے میر کا کلام بغور پڑھا تھا۔
مومن خان مومنؔ
حکیم مومن خان مومن ۱۸۰۰ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کو شاعری سے خاص لگاؤ تھا اس کے علاوہ موسیقی، شطرنج اور طب ونجوم میں بھی دستگاہ رکھتے تھے۔ معاملہ بندی اور نازک خیالی میں وہ اپنے معاصرین کے درمیان ممتاز ہیں۔ غالب کی طرح انھیں بھی روش عام پر چلنا پسند نہیں ہے۔ غزلوں کے علاوہ قصیدہ میں بھی انھوں نے طبع آزمائی کی ہے۔ غالب کے خطوط میں مومن کا ذکر عبد الغفور سر در اور منشی نبی بخش حقیر کے نام مکتوب میں آیا ہے۔ غالب کے خیال میں مومن کے کلام میں لطافت پائی جاتی ہے۔ جو فارسی زبان کا خاص حصہ ہے جسے عام طور پر چیز سے دگر ” سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
”ہاں اردو زبان میں اہل ہند نے وہ چیز پائی ہے۔ مومن خاں:تم میرے پاس ہوتے ہو گویا/جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا’‘(6)
مومن کو غالب اپنے احباب میں شمار کرتے ہیں اور ان کی موت کا انھیں بے حد صدمہ تھا چنانچہ حقیر کو اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”سنا ہوگا تم نے ، مومن خاں مر گئے۔ آج ان کے مرے ہوئے دسواں دن ہے، دیکھو بھائی ہماری بچے مرجاتے ہیں، ہمارے ہم عمر مرے جاتے ہیں ۔ قافلہ چلا جاتا ہے۔ اور ہم پا در رکاب بیٹھےہیں۔ مومن خاں میرا ہم عصر تھا اور یار بھی تھا بیالیس اور تینتالیس برس ہوئے یعنی چودہ چودہپندرہ پندرہ برس کی میری اور اس مرحوم کی عمر تھی کہ مجھ میں اس میں ربط پیدا ہوا۔اس عرصے میں کبھی کسی طرح کا رنج و ملال درمیان نہیں آیا ۔ حضرت چالیس چالیس برسکا دشمن بھی نہیں پیدا ہوتا، دوست تو کہاں ہاتھ آتا ہے۔ یہ شخص بھی اپنی وضع کا اچھا کہنےوالا تھا۔ طبیعت اس کی معنی آفرینی تھی ۔”(7)
خواجہ میر دردؔ
خواجہ میر درد ۱۷۲۰ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ شاعری میں درد کا اصل میدان غزل ہے۔ ان کے کلام میں تصوف کا رنگ غالب ہے۔ ان کے یہاں عشق حقیقی کے مضامین پائے جاتے ہیں۔ ان کی غزلیں عام طور پر چھوٹی بحروں میں ہوتی ہیں۔ اور خیالات متین اور سنجیدہ ہوتے ہیں ۔ ان کے کلام میں غزلیں اور رباعیات شامل ہیں۔درد کے یہ مصرعے غالب کے ہاں فکری موانست کا پتہ دیتے ہیں۔
؎ نہیں شکوہ مجھے تیری بے وفائی کا ہرگز(8) ؎ تیرے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا(9)
؎ جس طرف تو نے آنکھ بھر دیکھا(10)
غالب نے ان کا ذکر میر مہدی مجروح اور صاحب عالم کے نام مکتوب میں کیا ہے اور دونوں جگہ انھوں نے موقع محل کے اعتبار سے ان کا ایک شعر اور ایک مصرعہ نقل کیا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا کہ غالب کے نزدیک خواجہ میر درد کے کلام کی اہمیت تھی اور وہ اپنی تحریروں میں اس کا حوالہ بھی دیتے تھے۔
ع اور تو ہاں کچھ نہ تھا، ایک مگر دیکھنا (11)
ع میں وفا کرتا ہوں لیکن دل وفا کرتا نہیں(12)
شیخ قیام الدین قائمؔ
محمد قیام الدین قائم چاند پوری ، چاند پور ضلع بجنور کے رہنے والے تھے۔ دہلی میں ان کی تعلیم و تربیت ہوئی۔ وہ درد و سودا کے شاگرد تھے ۔ قائم خوش گفتار اور طبع موزوں رکھتے تھے۔ قائم نے تقریبا ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کے کلیات میں نزل رباعی ، قطعہ، مثنوی، قصیدہ، ترکیب بند اور تاریخ وغیرہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے ہجو بھی کہی ہے۔ مثنوی کے قصے سلیقے سے نظم کیے گئے ہیں اور قصیدوں میں زور پایا جاتا ہے۔
غالب نے ان کا ذکر صرف ایک جگہ عبدالغفور سرور کے نام خط میں کیا ہے۔ غالب قائم کو مستند مانتے تھے اور ان کا ایک شعر نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان کے کلام میں لطافت پائی جاتی ہے۔ جسے “چیزے دگر ” سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ غالب کی اصل عبارت یہ ہے :
”وہ چیزے دگر ” پارسیوں کے حصے میں آئی ہے۔ ہاں اردو زبان میں اہل ہند نے وہ چیز پائی ہے قائم اور تجھ سے طلب ہو سے کی؟ کیوں کر مانوں/ہے تو ناداں مگر اتنا بھی بد آموز نہیں”(13)
محمد ابراہیم ذوقؔ
شیخ محمد ابراہیم ذوق ۱۷۸۷ء میں دہلی میں پیدا ہوئے ۔ ذوق غزل کے استاذ مانے جاتے ہیں اور قصیدہ گوئی میں بھی ان کا پایہ بہت بلند ہے۔ سودا کے بعد انھوں نے اس صنف کو مزید تقویت بخشی۔ ان کے کلام میں محاورہ کی خوبی اور عام فہم انداز بیان ملتا ہے اور الفاظ پورے شان و شوکت اور صنائع لفظی و معنوی سے بھر پور نظر آتے ہیں۔ ذوق ترنم کا خاص خیال رکھتے ہیں ان کا ایک دیوان ہے، جس میں ان کی غزلیں اور قصیدے وغیرہ شامل ہیں۔
غالب نے خطوط میں ذوق کا ذکر عبد الغفور سرور کے نام مکتوب میں دو جگہ بہادر شاہ ظفر کی تخت نشینی اور ان کے کہے گئے سکے کے ساتھ کیا ہے، جو دہلی اردو اخبار میں چھپا تھا جسے مولوی محمد باقر نے شائع کیا تھا۔
انشا اللہ خاں انشاؔ
سید انشاء اللہ خاں انشا مرشد آباد میں پیدا ہوئے ۔ مختلف علوم وفنون میں مہارت رکھتے تھے۔ بلا کے ذہین تھے۔ ویسے تو انشا نے غزل، مثنوی، ہجو وغیرہ میں بھی طبع آزمائی کی ہے، لیکن صنف قصیدہ سے ان کو خاص لگاؤ تھا۔ انشا کے قصائد الفاظ کی شان و شوکت میں بے نظیر ہیں۔
غالب نے انشا کا ذکر مرزا حاتم علی مہر اور صغیر بلگرامی کے نام خطوط میں کیا ہے۔ ان دونوں خطوط سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ غالب انشا کو پسند کرتے تھے۔ مرزا حاتم علی مہر نے غالب کے پاس اپنا قصیدہ اصلاح کے لیے بھیجا اس کے جواب میں غالب لکھتے ہیں :سبحان اللہ ! تم نے قصیدے میں وہ رنگ دکھایا کہ انشا کو رشک آیا۔”14
مکتوب بنام صفیر بلگرامی میں غالب نے انشا کا ایک مصرعہ نقل کرتے ہوئے لکھا ہے: ”ہاں پیر ومرشد ! فارسی کے کلیات کو بھی کبھی آپ دیکھتے ہیں یا نہیں ؟ بقول انشاء اللہ خاں یہ مری عمر بھر کی پونچی ہے”15
نواب سید محمد خان رندؔ
سید محمد خان رند ۱۷۹۷ء میں فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ بعد میں لکھنؤ چلے آئے اور خواجہ حیدر علی آتش کی شاگردی اختیار کی۔ رند کے کلام میں لکھنوی رنگ کے بجائے صفائی وسادگی کا عصر پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے کلام میں محاورات اور روز مرہ ، شوخی و ظرافت اور معنی آفرینی کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔رند کے دیوان میں حکیمانہ و فلسفیانہ کلام بھی موجود ہے۔ ان کی تصانیف میں گلدستۂ عشق مشہور ہے۔
غالب نے رند کا ذکر صرف ایک جگہ مولانا احمد حسین مینا مرزا پوری کے نام خط میں کیا ہے۔ رند نے سانس کو مونٹ باندھا تھا ۔ غالب اس سے اختلاف کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سانس میری زبان پر مذکر ہے۔ رند کا مطلع:
سانس دیکھی تن بسمل میں جو آتے جاتے
اور چر کا دیا جلاد نے جاتے جاتے
میرے لیے سند نہیں”16
میر حسنؔ
میر غلام حسن ۱۷۳۶ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ اپنے والد میر غلام حسین ضاحک کے ہمراہ لکھنو آئے۔ فارسی میں شعر کہتے تھے لیکن جب فیض آباد آئے تو فاری گوئی ترک کر کے اردو میں شعر کہنے لگے۔ میر حسن خاص طور پر اپنی شاہ کار مثنوی سحر البیان ” کے لیے مشہور ہیں۔
غالب نے میر حسن کا ذکر صرف ایک جگہ یوسف علی خاں عزیز کے نام خط میں کیا ہے اور لفظ “فق کے ضمن میں ان کا ایک مصرعہ نقل کیا ہے۔ کہ رستم جسے دیکھ رہ جائے فق” اور لکھا ہے:
فق فارسی لغت نہیں ہو سکتا۔ عربی بھی نہیں۔ روز مرہ اردو ہے جیسا کہ میر حسن کہتا ہے:
کہ رستم جسے دیکھ رہ جائے فق”17
میرزا خان داغؔ
نواب مرزا خاں داغ ۱۸۳۱ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد نواب شمس الدین خاں والی فیروز پور حجر کہ مانے جاتے ہیں۔ ساڑھے چار سال کی عمر میں والد کا انتقال ہو گیا۔ واقع کی تعلیم و تربیت لال قلعے میں ہوئی بعد میں یہ خاندان سمیت رام پور آگئے۔ اور نواب کلب علی خاں نے انھیں اپنا مصاحب بنالیا۔ داغ کی شاعری میں معاملہ بندی کے واقعات شوخی اور زمینی کے ساتھ باندھے گئے ہیں۔ ان کی شاعری کا عاشق و معشوق دونوں چنچل اور چلبلے ہیں۔
داغ کے مصرعوں میں مرزا غالب کی فکری موانست کا التباس ملاحظہ کیجیے:
غالب کے خطوط میں واقع کا ذکر نوابان رام پور ( نواب یوسف علی خاں نا تم اور نواب کلب علی خاں) کے تعلق سے سات جگہ آیا ہے۔ ان کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ غالب کی ان سے خط و کتابت تھی۔
خطوطِ غالب سے یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے:
”کل برخوردار نواب مرزا خاں داغ کی تحریر سے معلوم ہوا کہ حضرت کا مزاج اقدس ناساز ہو گیا تھا۔ اب خدا کے فضل و کرم سے افاقت ہے نواب مرزا نے مجھ پر ستم کیا کہ پہلے سے یہ حال نہ رقم کیا”18”برخوردار نواب مرزا خاں اپنے مشاہدے کے مطابق جو میری حقیقت عرض کرے وہ مسموع و مقبول ہو ۔”19”افسوس کہ برخوردار نواب مرزا خاں داغ نے میرا حال سامعہ اقدس پر عرض نہ کیا ؛20آٹھ سوروپنے اور دیجیے۔ شادی کیسی۔ میری آبرو بچ جائے تو غنیمت ہے۔ برخوردار نواب مرزا خاں کے خط میں یہ حال مفصل لکھا ہے وہ عرض کرے گا”۔21
جعفر زٹلی
مرزا محمد جعفر جعفر زٹلی کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ سترہویں صدی کے آخر اور اٹھارہویں صدی کے اوائل کے شاعر ہیں ۔ جعفر زٹلی نے اردو میں طنزیہ وا جو یہ شاعری کی روایت قائم کی ۔ ان کی شاعری سے اس دور کی تہذیب و معاشرت کی عکاسی ہوتی ہے۔ ان کا کلام فحش، ہجو اور مسخرگی سے بھرا ہے اور اس میں سماجی طنز موجود ہے۔ان کے کلیات کو رشید حسن خاں نے زٹل نامہ ” کے نام سے مرتب کیا ہے جس میں ان کے تمام کارنامے شامل ہیں۔
”غالب نے جعفر زٹلی کا ذکر مرزا رحیم بیگ کے نام خط میں کیا ہے۔ غالب نے تحریر کیا ہے۔ قطب شاہ وجہانگیر کے عہد میں ہونا اگر منشاءبرتری ہےتوبےچارہ جعفر ز علی بھی فرخ سیری ہے۔”22
یعنی کسی مقدم یا قد آور شخصیت کے زمانے میں ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ آدمی بذات خود اچھا ہوگا یا اس کا کلام اچھا ہوگا اگر ایسا ہوتا تو جعفر ز ٹلی فرخ سیر کے زمانے کا ہونے کے باوجود اس کی اہمیت نہیں ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ غالب جعفر زٹلی کو کمتر شاعر تصور کرتے تھے۔
مولانا الطاف حسین حالیؔ
مولانا الطاف حسین حالی ۱۸۳۷ء میں پانی پت کے محلہ انصار میں پیدا ہوئے ۔ سے 17برس کی عمر میں وہلی آگئے اور تحصیل علم کے بعد پھر پانی پت واپس آگئے ۔ اور غالب کے شاگرد ہوئے۔ وہ نظم ونثر دونوں کے استاد مانے جاتے ہیں ۔ وہ شاعر، تنقید نگار، سوانح نگار اور تاریخ نگار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں استاد ہیں ۔
غالب نے حالی کا ذکر منشی سیل چند کے نام خط میں کیا ہے۔ غالب کے پاس تین صاحبوں نے قصیدے ارسال کیے تھے کہ انھیں نواب رام پور کو پیش کیا جائے۔ غالب نے انھیں میر منشی کو بھیج دیا۔ جن میں ایک قصیدہ حالی کا بھی تھا۔ حالی کے بارے میں غالب تحریر کرتے ہیں:
”حالی تخلص ، مولوی الطاف حسین سن پت کے رئیس ، عالم، شاعر، نواب مصطفیٰ خاں کے رفیق”23
شیخ محمد علی حزیں ؔ
۱۶۹۲ء میں پیدا ہوئے۔ عرب اور ایران کا دورہ کرنے کے بعد وہ ہندوستان میں مقیم ہوئے۔ حزین کی شاعری میں زبان و بیان کی شیرینی کے علاوہ فکر کی آمیز یش بھی پائی جاتی ہیں۔ معنی افزا تراکیب سے ان کے کلام میں لطافت کا رنگ پیدا ہوا ہے۔ غالب نے حزیں کا ذکر عبد الغفور سرور، غلام غوث بے خبر اور مرزا حاتم علی مہر کے نام خطوط میں کیا ہے۔ ان خطوط کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ غالب حزیں کے کلام کو مستند سمجھتے تھے اور اس کی یپروی بھی کرتے تھے اس کی مثال میں ان کا وہ خط تحریر کیا جاتا ہے جو انھوں نے عبد الغفور سرور کے نام تحریر کیا ہے وہ لکھتے ہیں:
” جب تک قد ما یا متاخرین میں حزیں کے کلام میں لفظ یا ترکیب نہیں دیکھ لیتا۔ اس کو نظم اور نثر میں نہیں لکھتا۔”24
اس کے علاوہ غالب اپنی تحریروں میں حرمین کے اشعار بھی نقل کرتے تھے۔ مثلا مکتوب بنام مہر میں حزیں کا یہ شعر نقل کیا ہے:
؎ تا دسترسم بود زدم چاک گریباں شرمندگی از حرقہ پشمینہ ندارم “25
مرزا محمد علی صائبؔ
مرزا محمد علی صائب ۱۶۰۱ء میں اصفہان میں پیدا ہوئے۔ صاحب کی طبیعت فطر تا قصیدہ و غزل گوئی کی جانب مائل تھی۔ اصفہان میں صائب نے صفوی سلاطین کی خدمت میں قصیدے کہے چنانچہ عباس ثانی نے انھیں ملک الشعرا کے خطاب سے نوازا۔ صائب کے کلام میں تمثیل کا رنگ غالب ہے ان کی شاعری میں مضمون آفرینی ، زبان کی فصاحت، ترکیب کی بندش اور محاورات کا بطور خاص استعمال ہوا ہے۔ صائب کی تصانیف میں ایک دیوان ہے جس میں قصیدہ ، مثنوی ، غزل وغیرہ شامل ہے۔ غالب نے اپنے خطوط میں صائب کا ذکر سرور، بے خبر ، شفق، قدر اور ذکا کے نام مکتوب میں کیا ہے۔ مکتوب بنام عبد الغفور سرور میں وہ صائب کے بارے میں تحریر کرتے ہیں:
صائب اگر چہ اصفہانی نژاد تھا مگر وارد شاہ جہان آباد تھا ۔ انتقام کشیدن و انتقام گرفتن دونوں بول گیا“۔ 26
یہاں غالب یہ بتانا چاہتے ہیں کہ فارسی کا صیح محاورہ ”انتقام کشیدن” 27ہے نہ کہ انتقام گرفتن۔ صائب کے یہاں اگر انتقام گرفتن ملتا ہے تو ہندوستانی اثر کے تحت ملتا ہے۔ راقم عرض کرتا ہے کہ لغت نامہ دہخدا سے غالب کے بیان کی تائید ہوتی ہے۔ کیوں کہ انتقام کشیدن“ کے مقابلے”انتقام گرفتن “28 کا استعمال بہت کم دکھایا گیا ہے۔ غالب نے اپنے خطوط میں صائب کے اشعار بھی نقل کیے ہیں ۔ ایک جگہ انھوں نے لغت والفاظ کے استعمال کے ضمن میں صائب کا یہ شعر نقل کیا ہے:
؎ ترک جمعیت دل خود را بسامان کردنست نا مرادی زندگی بر خویش آسان کردنست”29
ایک مقام پر غالب نے اپنی بات کی تائید میں صائب کا درج ذیل شعر نقل کیا ہے:
؎ ز خال گوشته ابروے یارمی ترسم ازین ستاره دنبا له داری ترسم”30
نورالدین محمد ظہوری
نور الدین محمد ظہورکی ترشیز میں پیدا ہوئے۔ ظہوری نے غزل اور نثر نگاری کو اپنا شعار بنایا اور انفرادیت قائم کی ۔ نثر نگاری میں بھی ظہوری کا پایہ اتنا ہی بلند ہے جتنا کہ نظم میں ۔ ظہوری کی تصانیف میں دیوان کے علاوہ ساقی نامہ ظہوری اور سہ نثر ظہوری” مشہور ہیں۔ غالب نے ظہورکی کا ذکر مرزا ہر گوپال تفتہ ، سرور، حقیر اور مولوی کرامت علی کے نام مکتوب میں کیا ہے۔ غالب نے ظہورکی کو ” قالب معنی کی جان“ اور ” ناطقے کی سرفرازی کا نشان“ کہا ہے۔ غالب ان کے اشعار پسند کرتے تھے اور ان کی پیروی بھی کرتے تھے ۔ اور اپنے شاگردوں کو بھی ان کی پیروی کی تلقین کرتے تھے۔ مثلا تفتہ کے نام ایک خط میں انھوں نے لکھا ہے:
شت بستن“ جب ظہوری کے ہاں ہے تو باند ھیے۔یہ روز مرہ ہے اور ہ روز مرے میں ان کے پیرو ہیں“ ۔31
مکتوب بنام سرور میں غالب نے ظہوری کی قدر و قیمت کا تعین کرتے ہوئے لکھا ہے:
قالب معنی کی جان ہے ظہوری، ناطقے کی سرفرازی کا نشان ہے ظہوری”32
مکتوب بنام نفتہ میں انھوں نے لکھا ہے:
اور وہ مطلع رہنے دیجیے، کہ وہ بہت خوب ہے، بعینہ مولانا ظہور کی کا معلوم ہوتا ہے“۔33
غالب نے ظہوری کے اشعار بھی اپنی تحریروں میں جابجا نقل کیے ہیں ۔ مولوی کرامت علی کے نام مکتوب میں انھوں نے ایک شعر نقل کیا ہے۔ ملاحظہ ہو:
؎ گرامیر زلف و کاکل گفته باشم خویش را گفتہ باشم این قدر برخویش پیچیدن نداشت34
محمد حسین نظیری
محمد حسین نظیری کی ولادت نیشا پور میں ہوئی۔ شاعری کا شوق بچپن سے ہی تھا۔ نظیر کی نے شاعری میں نئے نئے الفاظ اور نئی نئی ترکیبیں استعمال کی ہیں۔ ان کی طبیعت جدت پسند تھی ۔ انھیں وجدانی باتوں کو مجسم بنا کر پیش کرنے میں مہارت حاصل تھی۔ نظیر کی کے یہاں استعارات اور شیریں بیانی کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ نظیری کا ایک دیوان ہے جس میں غزلیں اور قصیدے وغیرہ شامل ہیں۔ غالب نے نظیرکی کا ذکر تفتہ ، علائی، اور عبدالغفور سرور کے نام مکتوب میں کیا ہے ان خطوط کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ غالب نظیر کی کو فارسی کا مالک اور عربی کا عالم مانتے تھے اور نہایت پسند کرتے تھے۔ نیز انھیں فارسی تراکیب ومحاورات کے باب میں معتبر و مستند گردانتے تھے۔ مکتوب بنام مرزا تفتہ میں غالب نے نظیری کی قدرو قیمت متعین کرتے ہوئے تحریر کیا ہے:
“جود، لغت عربی ہے ، یہ معنی بخشش ۔ “جواد” صیغہ ہے صفت مشبہ کا بے تشدید ۔ اس وزن پر صیغۂ فاعل میری سماعت میں جو نہیں آتا تو میں اس کو خود نہ لکھوں گا مگر جب کہ نظیر کی شعر میں لایا۔ اور وہ فارسی کا مالک اور عربی کا عالم تھا تو میں نے مانا۔ “35
مکتوب بنام علاقی میں انھوں نے نظیر کی کا یہ شعر نقل کیا ہے:
؎ “باما جفا وناخوشی، با خود غرور و سرکشی از مانند از خود نہ آخر ازاں کیستی”36
مکتوب بنام سرور میں بھی غالب نے نظیر کی کا ایک شعر نقل کیا ہے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسے بھی یہاں نقل کر دیا جائے:
؎ جو ہر بینش من در تہ زنگار بماند آن کہ آئینہ من ساخت نہ پرداخت دریغ”37
مشرف الدین مصلح بن عبدالله سعدی
مشرف الدین مصلح بن عبدالله سعدی شیرازی، شیراز میں پیدا ہوئے ۔ سعد کی فارسی نظم ونثر دونوں میں ممتاز ہیں ۔ ان کی شاعری میں اخلاقی اور صوفیانہ رنگ پایا جاتا ہے اور ان کی نثر مع ہونے کے ساتھ ساتھ شیریں اور رواں ہے۔ سعدی کی تصانیف میں غزلیات وقصائد کے علاوہ گلستاں ” اور ” بوستان ہیں، جو عالمی شہرت کی تصنیفات ہیں۔ غالب نے سعدی کا ذکر مرزا ہر گوپال تفتہ، علاء الدین خاں علائی ، داد خاں سیاح ، سرور، بے خبر، نواب امین الدین خاں، قدر، مرزا رحیم بیگ اور عبد الرحمن تحسین کے نام خطوط میں کیا ہے۔ غالب نے اپنے خطوط میں جابجا سعدی کے اشعار پسندیدگی کے ساتھ نقل کیے ہیں ۔ ان میں سے بعض ذیل میں نقل کیے جاتے ہیں :
؎ کساینکہ یزدان پرستی کنند آواز دولاب مستی کنند 38
؎ مرا بوسہ گفتا بہ تصحیف کہ در ویش را توشہ از بوسہ بہ”39
مکاتیب غالب کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ غالب سعدی کی نثر کے بھی دلدادہ تھے۔ انھوں نے سہل ممتنع کے ضمن میں سعدی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:شیخ سعدی کے بیشتر فقرے اس صفت پر مشتمل ہیں ۔40
عبدالقادربیدل
عبد القادر بیدل ۱۶۴۴ء میں پیدا ہوئے ۔ نسلاً ترک تھے۔ بیدل نے فارسی غزل کو نئی تراکیب، تشبیہات، استعارات اور کنایہ کا ایک خزانہ عطا کیا ہے۔ بیدل کی غزلیں آسان اور سبک اور مختصر بحروں میں پائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے کلام میں تمثیل ، ایہام، صنائع و بدائع کی آرائش بھی پائی جاتی ہے۔
کلیات بیدل میں غزل ، قصائد، رباعیات ، قطعات اور مثنوی وغیرہ شامل ہیں۔ غالب کے خطوط میں بیدل کا ذکر مرزا تفتہ، سرور، نجف خاں، ضیاء دہلوی شفق اور حقیر وغیرہ کے نام مکتوب میں ملتا ہے۔ ان تمام مکتوبات میں غالب نے بیدل کے اشعار نقل کیسے ہیں ۔ غالب ان کے کلام کو پسند کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی تحریروں میں ان کے اشعار کا حوالہ بھی دیتے ہیں ۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بعض اشعار نقل کر دیے جائیں:
مکتوب بنام تفتہ میں غالب نے بیدل کا یہ شعر نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:
مرزا عبد القادر بیدل خوب کہتا ہے: ” رغبت جاه چه ونفرت اسباب کدام/زیں ہوسہا بگو رہا مگور میگزرد”41
حکیم غلام نجف خاں کے نام خط میں غالب نے بیدل کا شعر مجھ کومزا دیتا ہے لکھتے ہوئے ان کایہ شعر تحریر کیا ہے:
؎ نہ شام مارا سحر نویدے، نہ صبح مارا دم سپیدے چو حاصل ماست ناامیدی، غبار دنیا بفرق عقبی”42
غالب نے شفق کے نام مکتوب میں بیدل کا یہ شعر لکھا ہے:
؎ جہد ہادر خور توانا نیست ضعف یکسر فراغ می خواہد 43
حقیر کے نام خط میں بیدل کا درج ذیل شعر نقل کیا گیا ہے:
؎ زندگی برگردنم افتاد بیدل چاره نیست چار باید زیستن ناچار باید زیستن44
اس کے برخلاف غالب نے ایک جگہ یہ بھی لکھا ہے:
ناصر علی اور بیدل اور غنیمت ۔ ان کی فارسی کیا؟“45
غالب کے مذکورہ بالا جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ غالب بیدل کی فارسی کو غیر مستند مانتے تھے ۔ اس کا جواب دیتے ہوئے پروفیسر نذیر احمد نے اپنے ایک مضمون ”غالب کے ایک خط کے چند علمی مسائل میں تحریر کیا ہے:
” غالب نے بیدل کی فارسی کو غیر مستند بتایا ہے۔ یہ بڑے تعجب کی بات ہے اس لیے خود وہ شروع میں بیدل ہی کے پیرو تھے۔ بعد میں وہ بیدل کی کامیاب پیروی نہ کر سکے تو یہ روش ترک کر دی ، تو پھر انھیں کو فارسی کے اعتبار سے غیر مستند قرار دینا کیوں کر صحیح ہوسکتا ہے۔ یہ اطلاع بھی دلچسپی کا موجب ہوگی کہ بیدل ہندوستان میں مقبول نہ سہی افغانستان اور سنٹرل ایشیا میں مدتوں سے نہایت مقبول رہا ہے، اور اب نتیجہ یہاں تک پہنچا ہے کہ اس کی مقبولیت ایران میں اپنا اثر جما رہی ہے اور بیدل شناسی کے نام سے وہاں مکتبے قائم ہورہے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ جدید دور میں اسی فارسی شاعر کے طفیل میں غالب بھی کچھ ہندوستان سے باہر جانے جانے لگے ہیں“۔46
اوحد الدین محمد انور انوری
اوحد الدین محمد انور کی ابیورد کے علاقہ بدنہ میں پیدا ہوئے۔ انور کی ایران کے بڑے قصیدہ گو مانے جاتے ہیں۔ انھیں فارسی اور عربی لغت پر مہارت حاصل تھی۔ انوری کی شاعری میں الفاظ کی کثرت، تشبیہ کی لطافت مضمون کی گہرائی، طرز ادا کی دلکشی، استعارہ تمثیل وغیرہ پائی جاتی ہے۔ انور کی کی غزلیں بھی خوب ہیں ۔ ہجو نگاری میں بھی وہ دستگاہ رکھتے تھے اور قطعات میں انھوں نے اخلاقی مضامین پیش کیے ہیں ۔ غالب نے انورکی کا ذکر سرور اور قدر بلگرامی کے نام خطوط میں کیا ہے اور دونوں جگہ غالب نے انورتی کے صرف اشعار نقل کیے ہیں ۔ ان کے بارے میں کوئی رائے نہیں دی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ غالب انوری کو نگاہ قدر سے دیکھتے تھے۔ مکتوب بنام سرور میں غالب نے انور کی کا یہ شعر حریر کیا ہے:
؎ حاش لله نه مرا بلکہ ملک را نہ بود باسگ کوئے تو ایس زہرہ ویار او مجال47
غالب نے قدر بلگرامی کے نام خط میں انوری کا درج ذیل شعر نقل کیا ہے:
؎ اے دریغا، نیست ممدوح سزا دار مدیح اے دریغا نیست معشوقے سزاوار غزل48
جمال الدین محمدعرفی
جمال الدین محمد عرفی شیزار میں پیدا ہوئے ۔ صفوی دور کے مشہور شاعر ہیں، عرفی نے غزل قصیدہ اور قطعہ وغیرہ میں طبع آزمائی کی ہے۔ وہ ایک خاص طرز کے موجد ہیں ۔ ان کے کلام میں زور پایا جاتا ہے، اور الفاظ کی شان و شوکت، خیالات کی بلندی، فقروں کی درستگی وغیرہ کی کارفرمائی بھی نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے کلام کی سب سے بڑی خصوصیت استعارات کی جدت ہے، اس میں تنوع پایا جاتا ہے۔
ان کی تصانیف میں ایک دیوان گلشن راز“ کے نام سے، ایک ترجیع بند اور نفسیہ کے نام سے نشر کی ایک کتاب ہے۔ عربی کا ذکر تفته، سر در نواب یوسف علی خاں ناظم، مرزا رحیم بیگ اور خلیفہ احمد علی رام پوری کے نام خطوط میں آیا ہے۔ ان خطوط کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ غالب عرقی کے کلام کو نہایت پسند کرتے تھے اور وہ ان کے مقلد اور مطیع بھی ہیں اس کی مثال خلیفہ احمد علی رامپوری کے نام مکتوب سے پیش کی جاسکتی ہے:
”عرفی کی زبان سے جو نکل جائے وہ سند ہے ، ہمارے واسطے ایک قاعدہ محکم ہے، وہ مطاع ہے اور ہم اس کے مقلد اور مطیع ہیں”49
بعض جگہ غالب نے ان کے اشعار بھی نقل کیے ہیں۔ ایک شعر اور ایک مصرعہ ملاحظہ ہو:
؎ مرا زمانہ طناز دست بستہ و شیخ زند بفرتم و گوید کہ ہاں سرے میخار”50
ع من آن دریا پر آشوبم کہ از تاثیر خاصی51
افضل الدین خاقانی
افضل الدین بدیل بن علی خاقانی شروان میں پیدا ہوئے۔ خاقانی کا شمار ایران کے اول درجہ کے قصیدہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ خاقانی کی شاعری الفاظ ومعنی کے لحاظ سے غیر معمولی اور بلند ہے۔ وہ مضمون کو جامع اور فصیح الفاظ میں ادا کرتے ہیں۔ انھیں فارسی زبان کے ساتھ ساتھ عربی زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔ صنائع لفظی و معنوی سے ان کا کلام پر ہے۔ خاقانی کے قصائد میں مشکل الفاظ، گہرے معانی ، کنائے اور وسیع مضامین ملتے ہیں ۔ وہ زبان و محاورہ اور ضرب الامثال پر اچھی دستگاہ رکھتے تھے ۔ قصیدہ کے علاوہ انھوں نے قطعہ، مرثیہ، اور مثنوی وغیرہ میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ غالب نے خاقائی کا ذکر مرزا تفتہ، سیاح، سرور اور مرزا رحیم بیگ کے نام خطوط میں کیا ہے۔ ان خطوط کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ غالب کے نزدیک خاقائی اہمیت کے حامل تھے۔ اور غالب ان کے کلام کو مستند و معتبر سمجھتے تھے۔ مثلاً انھوں نے مرزا تفتہ کو تحریر کیا
” قراب” کون سا لفظ غریب ہے جس کو اس طرح پوچھتے ہو؟ خاقاتی کے کلام میں اور اساتذہ کے کلام میں ہزار جگہ آیا ہے“ ۔52
غالب نے بعض مقامات پر خاقانی کی رباعی اور شعر بھی نقل کیسے ہیں ۔ مکتوب بنام سرور میں شامل خاقائی کی درج ذیل رباعی ملاحظہ ہو:
؎ من بودم وآل نگار روحانی روے انگنده دراں دو زلف چوگانی کوے
؎ خلقی در ایستاده خاقانی جوے من درحرم وصال سبحانی گوے“53
محمد جان قدسی
حاجی محمد جان قدسی مشہ(مقدس) کے رہنے والے تھے۔ قدسی نے قصیدہ ، قطعہ، غزل، رباعی اور مثنوی میں طبع آزمائی کی ہے۔ قدسی کے کلام میں الفاظ کی رنگینی اور معانی کی تازگی پائی جاتی ہے۔ غالب نے قدسی کا ذکر علائی اور غلام غوث خاں بے خبر کے نام خطوط میں کیا ہے۔ ان خطوط کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ قدسی کے کلام کو پسند کرتے تھے۔ مکتوب بنام علاتی میں انھوں نے قدسی کے کلام پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے:
‘قدسی شاہجہانی شعرا میں صائب و کلیم کا ہم عصر اور ہم چشم ، ان کا کلام شور انگیز ، ان بزرگوں کی طرز و روش میں زمین آسمان کا فرق۔” 54
علائی نے داماں گلہ دارد و گریباں گله دارد” کے بارے میں خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ مغربی کی زمین ہے۔ غالب اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
“اس زمین میں اس کی غزل میں نے نہیں دیکھی حاجی محمد جان قدسی کی غزل اس زمین میں ہے۔”55
مذکورہ بالا اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ غالب نے قدسی کا کلام بغور پڑھا تھا۔ مکتوب بنام بے خبر میں غالب نے قدسی کا ایک شعر نقل کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ قدسی کے اشعار بھی اپنی تحریروں میں استعمال کرتے تھے ۔ شعر ملاحظہ ہو:
؎ بگوش عطایش رساند این خطاب کہ بنیاد کاں را رساند باب”56
امیرخسرو
امیر خسرو ابن امیر سیف الدین محمود دہلوی قصبہ پٹیالی میں پیدا ہوئے۔ خسرو کا شمار ہندوستانی فارسی شعرا میں سب سے بلند ہے۔ نظم کے علاوہ انھوں نے نثر میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ امیر خسرو کا پایہ قصائد، مثنوی، اور غزل تینوں میں یکساں ہے۔ غزل میں وہ سعدی کے برابر ہیں۔
غالب نے امیر خسرو کا ذکر مرزا تفته، سرور، شہاب الدین ثاقب اور کیول رام ہشیار کے نام خطوط میں کیا ہے ان خطوط کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ غالب ہندوستانی فاری لکھنے والوں میں امیر خسرو کے علاوہ کسی کو معتبر و مستند تصور نہیں کرتے تھے۔ ان کے خطوط کے بعض اقتباسات ملاحظہ ہوں :
“ہل ہند میں سوائے خسرو دہلوی کے کوئی مسلم الثبوت نہیں”57۔میں اہل زبان کا پیرو اور ہندیوں میں سواے امیر خسرو دہلوی کے سب کا منکر ہوں ۔“58
غالب کہتا ہے کہ ہندوستان کے سخنوروں میں حضرت امیر خسرو دہلوی علیہ الرحمہ کےسوا کوئی استاد مسلم الثبوت نہیں ہوا۔
ابن شیخ مبارک فیضی
فیضی ابن شیخ مبارک آگرہ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے غزل اور قصیدہ دونوں میں بلند مرتبہ حاصل کیا ۔ ان کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت جوش بیان ہے۔ اس کے علاوہ ان کے کلام میں استعارات کی شوخی تشبیہات کی ندرت بھی پائی جاتی ہے۔ ان کے دیوان میں قصیدہ، مرثیہ مثنوی، ترکیب بند، قطعات اور غزلیں وغیرہ شامل ہیں۔ غالب کے خطوط میں فیضی کا ذکر مرزا ہر گوپال تفتہ ، سرور اور قدر بلگرامی کے نام مکتوب میں آیا ہے۔ ان خطوط کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک طرف جہاں غالب انھیں پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں وہیں دوسری جانب ان کے معترض بھی نظر آتے ہیں۔ ان دونوں کی مثالیں ان کے خطوط سے ملاحظہ ہوں:
”اگر معترض فیضی کو نہیں مانتا تو آپ معترض کو کیوں مانتے ہیں، فیضی کی سند مقبول اور مسموع “59۔خیر فیضی بھی نغز گوئی میں مشہور ہے۔ کلام اس کا پسندیدہ جمہور ہے”۔ 60۔”میاں فیضی کی بھی کہیں کہیں ٹھیک نکل جاتی ہے”61
ابو محمد الیاس نظامی:
حکیم ابو محمد الیاس بن یوسف نظامی گنجہ میں پیدا ہوئے۔ نظامی کا شمار فارسی کے بلند پایہ مثنوی نگاروں میں ہوتا ہے۔ خمسہ نظامی ان کی مشہور تصنیف ہے۔ جس میں انھوں نے پانچ مثنویاں پانچ مختلف بحروں میں لکھی ہیں۔ ان مثنویوں کے علاوہ انھوں نے قصیدے، غزلیں رباعیاں اور قطعے بھی لکھے ہیں۔ غالب کے مکتوبات میں نظامی کا ذکر مرزا تفتہ، سرور اور بے خبر کے نام خطوط میں آیا ہے۔ ان خطوط کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ غالب نظامی گنجوی کا شمار فارسی کے مشاہیر شعرا میں کرتے اور انھیں سعدی کا ہم پلہ تصور کرتے تھے۔ غلام غوث بے خبر کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:
” آپ جب تک کلام اہل زبان نہ دیکھ لیں ، اس کو جائز نہ جانیے گا۔ مگر کلام سعد کی و نظامی وحزبیں اور ان کے امثال و نظایر کا معتمد علیہ ہے”62
مکتوب بنام تفتہ میں رقم طراز ہیں:
“نظامی وسعدی کی لکھی ہوئی فرہنگ ہو تو ہم اس کو مانیں ۔ ہندیوں کو کیوں کر مسلم الثبوت جانیں”63
اس کے علاوہ انھوں نے چودھری عبد الغفور سرور کے نام مکتوب میں نظامی کا ایک شعر بھی نقل کیا۔
؎ پس و پیش چون آفتابم یکسیت فروغم فراواں، فریب اندکیست”64
ابو القاسم فردوسی
حسن ابن اسحاق ابن شرف ابوالقاسم فردوسی بہ مقام طوس میں پیدا ہوئے ۔ ایران کی تاریخ اور فارسی زبان میں نئی جان ڈالنے کے لحاظ سے فردوسی ایران کے بڑے شاعر مانے جاتے ہیں۔ فردوسی کا شاہکار ان کی مشہور تصنیف ”شاہنامہ ” ہے۔ یہ ایران کی رزمیہ داستان ہے۔
فردوسی نے اس کی ابتدا میں حمد ونعت کے جو اشعار لکھے ہیں وہ الفاظ معنی کے لحاظ سے نہایت بلند اور لطیف ہیں۔ شاہنامہ کے وہ حصے زیادہ اہم ہیں جن میں فردوسی نے اہم واقعات یا بڑی جنگوں کے ضمن میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ غالب نے فردوسی کا ذکر مرزا ہر گوپال تفته، داد خاں سیاح ، حاتم علی مہر اور مولوی ضیاء الدین خاں ضیاء، وغیرہ کے نام خطوط میں کیا ہے۔ مکتوب بنام ضیاء میں انھوں نے فردوسی کو قبلہ اہل سخن کہا ہے۔ اور وہ ان کی شاعری کو کمال کی شاعری خیال کرتے تھے مثال کے طور پر ضیاء الدین دہلوی کے نام خط کا یہ حصہ ملاحظہ کیجیے:
”اور یہ جو قبلہ اہل سخن فردوسی طوسی علیہ الرحمہ کے ہاں آیا ہے: ممیراں کے راو ہرگز میر مرزا حاتم علی مہر کے نام مکتوب کا درج ذیل اقتباس ملاحظہ ہو : سنو صاحب! شعرا میں فردوسی اور فقرا میں حسن بصری اور عشاق میں مجنوں یہ تیں آدمی، تین فن میں سر دفتر اور پیشوا ہیں۔ شاعر کا کمال یہ ہے کہ فردوسی ہو جائے“65
بعض الفاظ یا اسما ایسے ہوتے ہیں جن کا استعمال بحر میں نہیں ہو سکتا ایسے الفاظ کو استعمال کرنے کی تدبیر بڑے شعرا سے بھی نہیں ہو سکتی اس کی مثال میں غالب کا وہ خط ملاحظہ ہو جو انھوں نے سیاح کے نام تحریر کیا ہے۔(جس بحر میں کوئی اسم یا کوئی لفظ نہ آسکے ، اس کی تدبیر فردوسی وخاقانی سے بھی نہ ہوگی”66
محمد بن عبدالملک مغربی
محمد بن عبدالملک مغربی نیشا پور میں پیدا ہوئے۔ مغربی قصیدہ گوئی کے استاد مانے جاتے ہیں۔ ان کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انھوں نے بڑے خراسانی شاعروں کی پیروی کی ہے ان کے قصائد موضوع اور الفاظ کے لحاظ سے عصر کی اور فرخی کے ہم پلہ ہیں۔ مروح کے اوصاف کی تعریف میں وہ حد سے زیادہ مبالغے سے کام لیتے ہیں۔ ان کا دیوان دیوان امیر مغربی کے نام سے تہران سے شائع ہوا۔ مغربی کا ذکر غالب نے صرف دو جگہ علائی کے نام خطوط میں کیا ہے۔ ان دونوں خطوط میں غالب نے مغربی اور ان کی شاعری پر اظہار خیال کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ مغر کی قدما اور عرفا میں ہے۔ غالب کی اصل عبارت ملاحظہ ہو:
”مغربی عرف میں سے ہے۔ بیشتر اس کے کلام میں مضامین حقیقت آگیں ہیں “67
مغربی قد ما اور عرفا میں ہے. ان کا کلام دقائق و حقائق تصوف سے لبریز ہے”۔68
ان اقتباسات سے معلوم ہوتا ہے کہ غالب مغربی کو ولی اور بزرگ تصور کرتے تھے اور ان کے نزدیک مغربی کی شاعری دقائق اور حقائق پرمبنی ہے۔
شمس الدین محمد حافظ شیرازی
شمس الدین محمد حافظ شیراز میں پیدا ہوئے۔ انھیں لسان الغیب کہا جاتا ہے۔ حافظ کی استادی غزل میں ظاہر ہوتی ہے۔ ان کی غزلوں میں لطیف مطالب و معانی ، شیرینی، سادگی اور ایجاز واختصار پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے کلام میں متانت و سنجیدگی اور پندو نصیحت کی کارفرمائی بھی نظر آتی ہے۔ حافظ نے غزل، قصیدہ ، مثنوی وغیرہ میں طبع آزمائی کی ہے۔ جو دیوان حافظ میں شامل ہیں۔
غالب کے خطوط میں مرزا تفتہ، علائی، یوسف علی خاں عزیز ، قدر بلگرامی اور مظہر علی عبد اللہ کے نام حافظ کا ذکر ملتا ہے۔ ان خطوط کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ غالب کے نزدیک ان کے کلام میں تنوع پایا جاتا ہے اس کے علاوہ غالب نے انھیں صاحب دیوان شاعر گردانا ہے۔ غالب ان کے اشعار کو معتبر دستند سجھتے تھے اور انھیں اپنی تحریروں میں پیش بھی کرتے تھے۔ غلام حسنین قدر بلگرامی کے نام مکتوب میں انھوں نے حافظ کو صاحب دیوان شاعر کہا ہے اور یہ لکھا ہے کہ ان کے کلام میں تنوع پایا جاتا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
”یہ جو صاحب دیوان مشہور ہیں حافظ ۔ ان کے آغاز کی غزل کے مطلع دیکھو اور حروف والفاظ کا مقابلہ کرو کبھی ایک صورت ، ایک ترکیب، ایک زمین، ایک بحر نہ پاؤ گے، چہ جائے اتحاد حرف و الفاظ” 69
اس کے علاوہ دیگر مکتوب الیہم کے نام مکتوب میں غالب نے حافظ کے اشعار نقل کیے ہیں۔مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے بعض اشعار اور مصرعے یہاں نقل کر دیے جائیں:
؎ جنگ ہفتاد و دو ملت ہمہ را عذر بنہ چون ندیدند حقیقت رو افسانہ زدند”70
ع یا رب! مبادکس را مخدوم بے عنایت”71
ع بہ بیں تفاوت ره از کجاست تا یکجا”72
ع حوریاں رقص کناں ساغر شکرانہ زدند”73
مرزا محمد حسن قتيل
مرزا محمد حسن قتیل ۱۷۵۸ء میں دہلی میں پیدا ہوئے ۔ وہ ایک ہندو گھرانے کے چشم و چراغ تھے، لیکن بعد میں انھوں نے اسلام قبول کر لیا۔ انھوں نے صرف و نحو، منطق و حکمت ، علم عروض وغیرہ کی تعلیم حاصل کی ۔ اس کے علاوہ ان کا میلان شعر گوئی کی طرف بھی تھا۔ قتیل عربی، فارسی اور ترکی زبان سے واقف تھے۔ شاعری اور انشا پردازی پر قتیل کو قدرت حاصل تھی انھوں نے فارسی قواعد ، محاورے، فارسی بلاغت اور انشاے فارسی کے موضوعات پر بعض کتابیں لکھی ہیں۔
غالب نے قتیل کا ذکر مرزا تفتہ، عبد الغفور سرور، ضیاء الدین خاں ضیاء دہلوی ،شفق ، صاحب عالم، جنون بریلوی اور عبدالرحمن تحسین کے نام خطوط میں کیا ہے۔ ان خطوط کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ غالب قتیل کو کسی صورت سے پسند نہیں کرتے تھے ۔ اور ان کے لیے طرح طرح کے نازیبا الفاظ استعمال کرتے تھے۔ مثلاً الوکا پٹھا، فرید آباد کا کھتری، قتیل علیہ الرحمہ ، کھتری کے بچے وغیرہ ۔ غالب قتیل کی نظم ونثر کو نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے اور اس پرلعن طعن بھی کرتے تھے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس ضمن میں بعض خطوط سے اقتباس نقل کر دیے جائیں جس سے غالب کے نزدیک قتیل کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکے:
” جولوگ قتیل کو اچھے لکھنے والوں میں جائیں گے وہ نظم ونثر کی خوبی کو کیا پہنچا نہیں گئے۔”74
”اور یہ الو کا پٹھا قتیل صفوت کده و شفقت کده و نشتر کدہ کو اور ہمہ عالم و ہمہ جا کو غلط کہتا ہے”۔ 75 ”جب آپ لالہ قتیل کے گھڑے ہوئے فقرے دیکھ چکے ہیں تو مجھ کو فقرہ تراشی کی تکلیف کیوں دیتے ہیں”76”عرض کرتا ہوں کہ نظامی اب ایسا ہوا ہے کہ جب تک فرید آباد کا کھتری دلوالی سنگھ تم متخلص بہ قتیل جس کو حضرت نے مرحوم لکھا ہے، اس کی تصدیق نہ کرے، تب تک اس کا کلام قابل استناد نہ ہو، قتیل کو اساتذہ سلف کے کلام سے قطعاً آشنائی نہیں۔ اگر تقریر بعینہ تحریر میں آیا کرے تو خواجہ وطاط اور شرف الدین علی یزدی اور حسین واعظ کاشفی اور طاہر وحید، یہ سب نثر میں کیوں خونِ جگر کھایا کرتے۔ اسی طرح کی نثریں جو لالہ دلوالی نه قتیل متوفی به تقلید اہل ایران لکھی ہیں، کیوں نہ رقم فرمایا کرے”۔77”اصل فارسی کو اس کھتری کے بچے قتیل علیہ ما علیہ نے تباہ کیا۔ رہا سہا غیاث الدین رام پوری نے کھو دیا۔ واللہ قتیل فاری شعر کہتا ہے اور نہ غیاث الدین فارسی جانتا ہے۔ “78”راقم عرض کرتا ہے کہ پروفیسر مختار الدین نے اپنی بعض تحریروں سے یہ ثابت کیا ہے کہ قتیل فرید آبادی نہیں تھے وہ دلی میں پیدا ہوئے تھے۔ مالک رام کی تحقیق کے مطابق فرید آباد اور دلی دونوں میں کوئی تضاد نہیں کیوں کہ اس وقت فرید آباد ،دلی کا ہی حصہ تھا۔ غالب کا یہ کہنا ہے کہ وہ فرید آبادی ہیں محض تضحیک اور ہتک کے طور پر ہے اور اس سے ان کا مقصد یہ ہے کہ قتیل دتی کے نہیں بلکہ وتی کے باہر کی بستی کے رہنے والے ہیں اس لیے گنوار، غیر مستند اور غیر معتبر ہیں۔ ”79” دوسری بات یہ ہے کہ غالب نےقتیل کی ذات اور ان کی صفات نیز ان کی علمی لیاقت پر جو اعتراضات کیے ہیں ان کے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے، یہ محض اس لیے کہ وہ ہندوستانی فارسی دانوں میں امیر خسرو کے سوا کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ جتنے بھی ہندوستانی فارسی لکھنے والے ہیں سب ان کی نظر میں ہیچ اور لغو ہیں۔ خواجہ احمد فاروقی نے احوال غالب مرتبہ مختار الدین احمد میں تحریر کیا ہے: غالب ہر جگہ قتیل کو ہندی فارسی دانوں کا نمائندہ اور اپنے آپ کو فارسی دانان ایرانی نژاد کا علم بردار سمجھتے ہیں“۔80
سید اسد علی انوری نے اپنی کتاب ” قتیل اور غالب ” میں غالب کے مذکورہ بالا اعتراضات کا مدلل جواب دیتے ہوئے تحریر کیا ہے:
“مرزا غالب نے اس قدرسختی اور درشتی سے مرزا اقتیل کا ذکر کیا ہے کہ معاذ اللہ کھتری بچہ وغیرہ سب ہی کچھ کہہ ڈالا ۔ میرا خیال ہے کہ اس زور و شور کی وجہ یہ تھی کہ مرزا اس کی جگہ بالکل ہی ضعیف بنیادوں پر تھے اور ان کو خود اس کا احساس تھا ۔ دلیل کی کمزوری کو وہ گفتگو کی تیزی اور تلخی سے پورا کرنا چاہتے تھے۔ اور سائل کو مطمئن نہیں بلکہ مرعوب کر دینا چاہتے تھے ” 81
غالب کا ایک اعتراض یہ ہے کہ قتیل نے تقریر کوتحریر جیسا بنادیا۔ اس کے جواب میں سید اسد علی انوری اپنی اسی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:
” اصل میں جو سادگی اور برجستگی غالب کے اردور قعوں میں پائی جاتی ہے۔ (اور جس کو وہ فارسی میں پیدا نہ کر سکے ) وہی فارسی میں قتیل کی خصوصیت ہے۔ یہ بڑے تعجب اور افسوس کی بات ہے کہ غالب جن کی شہرت بحیثیت ایک نثر نگار ان کے اردو کے رقعات کی سادگی اور بے ساختگی پر موقوف ہے وہ قتیل کی نثر پر انھیں خصوصیات کے موجود ہونے کی بنا پر اعتراض کریں“۔82
مرزا غالب نے قتیل پر ایک اعتراض یہ کیا ہے کہ قتیل کو اساتذہ سلف کے کلام سے قطعا آشنائی نہیں ۔ اسد علی انوری اس کے جواب میں تحریر کرتے ہیں کہ ان کا یہ دعوی بے دلیل ہے۔ ان کی اصل عبارت ملاحظہ ہو:
” قتیل اساتذہ کے کلام سے نہ صرف واقف تھے بلکہ اس کا بیشتر حصہ ان کو مستحضر تھا۔ اور انھی کی تحریک و تائید سے فارسی شعرا کے کم از کم دو موقر و مستند تذکرے لکھے گئے۔ احمد علی ہاشمی نے ” تذکرہ مخزن الغرائب تین جلد میں لکھا۔ اس طرح مصحفی کا تذکرہ عقد ثریا بھی مرزا قتیل کی تحریک پر ہی لکھا گیا . مصحفی نے دیباچہ میں اس کی تصریح کر دی ہے کہ مرزا محمد حسن قتیل کی ترغیب سے انھوں نے عقد ثریا کی ترتیب دی بہت سا مواد بھی مرزا قتیل ہی نے دیا مرزا غالب کا یہ کہنا کہ قتیل اساتذہ کے کلام سے نا آشنا تھے دعوی بے دلیل سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا ۔ ” 83
اسد علی انوری ایک جگہ رقم طراز ہیں:”اور یہ ان کا معمول تھا کہ جہاں غلط فارسی دیکھی اور انھوں نے قتیل پر الزام رکھا۔ “84سید اسد علی انوری مرزا غالب کی تحریر اور قتیل کی تحریر کی حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”غرض کہ یہ بالکل یقینی بات ہے کہ مرزا کا اپنا رنگ وہی اشکال اور تصنع کا رنگ تھا جس میں چھلکے کے علاوہ مغز کا نام نہ ہو84۔ یہ جو اردو کے رقعے لکھے گئے جو ان کی شہرت کا باعث ہوئے وہ مطلق بے ارادہ بلکہ خلاف ارادہ تحریر کا نمونہ ہیں۔ مختصر یہ کہ مرزا غالب اسی دقیانوسی طرز تحریر میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اور وہ قتیل کی تحریر کی کما حقہ، قدر کرہی نہیں سکتے تھے۔ قتیل کی سادگی تحریر بالا رادہ تھی نہ بوجہ عجز”85
مولوی غیاث الدین رام پوری
مولوی غیاث الدین رام پوری ، رام پور میں پیدا ہوئے۔ یہ اپنے مشہور لغت غیاث اللغات کی وجہ سے مشہور ہیں ۔ شاعری بھی کرتے تھے اور عزت تخلص تھا۔ غیاث اللغات‘ مولوی صاحب نے ہندوستانی فارسی شناسوں کے لیے لکھا ہے۔ یہ لغت ۱۸۳۶ء میں مرتب کیا گیا ہے، اس میں فارسی ، عربی اور ترکی کے الفاظ درج کیے گئے ہیں ۔ اس کے علاوہ یہ کنایات واصطلاحات اور بعض علوم کے مباحث پر مشتمل ہے۔ غیاث اللغات فارسی دواوین کے مشکل اور اہم اشعار کے معنی کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ مفرد الفاظ کے علاوہ مرکب الفاظ اور استعارات و کنایات کی توضیح بھی کی گئی ہے۔ غیاث الدین رام پوری نے بعض مواقع پر شعرا کے اشعار بھی سند کے طور پر پیش کیے ہیں۔ غالب کے خطوط میں مولوی غیاث الدین کا ذکر سرور، ضیاء دہلوی، شفق، صاحب عالم، اور عبد الرحمن تحسین وغیرہ کے نام مکتوب میں آیا ہے۔
ان خطوط کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ غالب قتیل کی طرح مولوی غیاث الدین رام پوری کو بھی نا پسند کرتے تھے۔ ان کی تصنیف غیاث اللغات‘ اور خود ان پر انھوں نے طرح طرح کے اعتراضات کیے ہیں۔ اس ضمن میں خطوط غالب سے بعض اقتباس ملاحظہ ہوں :
”شخص جامع غیاث اللغات رام پور میں ایک ملاے مکتب دار تھا، ناقل نا عاقل اور پھر منقول عنہ قتل کے خرافات، یہ جو بلید الطبع لوگ ہیں ، موافق اپنے قیاس کے کچھ تیور وضع کرتے ہیں۔ سخت احمق ہیں جو ان کے اوہام کو سند جائیں۔ “86“غیاث اللغات‘ ایک نام موقر و معزز، جیسے الفر بہ خواہ خواہ مرد آدمی ۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ کون ہے؟ ایک معلم فرومایہ ، رام پور کا رہنے ولا ۔ فارسی سے نا آشناے محض اور صرف ونحو میں نا تمام ۔ انشائے خلیفہ ” و ” نشات مادھو رام کا پڑھانے والا۔ چنانچہ دیباچے میں اپنا ماخذ بھی اس نے خلیفہ شاہ حمد و مادھورام و غنیمت و قتیل کے کلام کو لکھا ہے۔ یہ لوگ راہ چن کے غول ہیں ، آدمی کے گمراہ کرنے والے، یہ فارسی کو کیا جانیں، ہاں طبع موزوں رکھتے تھے ، شعر کہتے تھے۔ “87“جس کا ماخذ اور مستند علیہ قتیل کا کلام ہوگا اس کا فن لغت میں کیا فرجام ہو گا“۔88 ” ۸۰۰ یا ۹۰۰ ہجری میں ہوسناک لوگ فارسی کے فرہنگ لکھنے پر متوجہ ہوئے ، نہ ایک، نہ دو بلکہ ہزار دو ہزار فرہنگیں فراہم ہو گئیں۔ یہاں تک کہ قتیل نومسلم لکھنوی اور غیاث الدین ملاے مکتب دار رام پوری اور کوئی روشن علی جونپوری ، اور کہاں تک کہوں ، کون کون ، جس کے جی میں آئی وہ متصدی تحریر قواعد انشا ہو گیا۔ میں ان سب کو یا ان میں سے مختص فلاں و بہماں کو اپنا مطاع کیوں کر جانوں؟ اور کس دلیل سے ان کے تحکم کو مانوں؟”۔89“مولوی غیاث الدین کا کلام حدیث نہیں ہے۔” 90”قتیل لکھنوی اور غیاث الدین ملالے مکتبی رامپور کی سی قسمت کہاں سے لاؤں کہ تم جیسا شخص میرا معتقد اور میرے قول کو معتمد سمجھے “91
غالب نے اپنے خطوط میں مولوی غیاث الدین رام پوری کو ملاے مکتب معلم فرومایہ فارسی سے نا آشنائے محض اور صرف و نحو میں نا تمام وغیرہ کہہ کر غیر معتبر اور غیر مستند فرہنگ نویس ثابت کیا ہے لیکن پروفیسر نذیر احمد نے اپنے ایک مضمون ” غالب کے ایک خط کے چند علمی مسائل” میں مولوی غیاث الدین کی علمی لیاقت اور ان کے لغت کے بارے میں لکھا ہے:
غالب غیاث اللغات کے مصنف غیاث الدین رام پوری کو بڑی حقارت کی نظر سے دیکھتے اور ملاے مکتبی وغیرہ کے فقرے سے اس کو نوازتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں وہ بڑے دانشور تھے اور ان کا مرتبہ لغت کافی معتبر لغت ہے۔ ایرانی فضلا اس کتاب کو بڑی وقیع سمجھتے ہیں اور علامہ قزوینی نے اس لغت کی کافی تعریف کی ہے،”92
ڈاکٹر محمد معین نے مولانا غیاث الدین کو اپنی فرہنگ میں شامل کیا ہے۔ اور ان کے علم وفضل کی تعریف کی ہے ۔ مولوی غیاث الدین کے مرتبہ غیاث اللغات ” پر غالب کے بنیادی اعتراضات دو ہیں ۔ اول یہ کہ یہ لغت فرہنگ نویسی کی ہوس کے طور پر وجود میں آیا ہے۔ دوسرے یہ کہ لغت نگار کی اپنی تصریح کے مطابق اس کا ماخذ انشائے خلیفہ، منشات مادھو رام اور غنیمت وقتیل کا کلام ہے۔ ڈاکٹر سید احسن الظفر اپنے ایک مضمون میں ان دونوں اعتراضات کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“غالب کا ذہن بھی عجیب انداز سے کام کرتا تھا اور ایسا لگتا ہے کہ وہ زمانے کی نبض کی رفتار کو نہیں پہچانتے تھے۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے… ہندوستان میں فارسی زبان کی سرکاری سرپرستی اور عام اشاعت کے ساتھ اس کام کی ضرورت شدت سے محسوس کی گئی۔ اس لیے فارسی فرہنگ نویسی در حقیقت ضرورت کی تکمیل تھی ، ہوسنا کی نہیں تھی”93
اسی طرح دوسرے اعتراض کے بارے میں رقم طراز ہیں:
دیباچے کو شروع سے آخر تک پڑھ جائے ۔ کہیں قتیل اور عبدالواسع اور ان کی کتابوں کا نام نہیں ہے۔ ہاں لغت کے اندر چند جگہوں پر قتیل کی تصنیف چار شربت اور رسالہ عبدالواسع کا حوالہ ضرور ہے لیکن دوسرے اہم ماخذ کے ساتھ ہے۔ میں نے غالب کے دعوے کی تحقیق کے لیے ”باب الالف” کا جائزہ لیا، اس میں فارسی، عربی اور ترکی کے لگ بھگ ۲۰۸۵ الفاظ و اصطلاعات ہیں، ان میں سے صرف چار مقامات پر چار شربت کا اور تین جگہوں پر رسالہ عبدالواسع کا حوالہ ملا… اس سے پوری لغت میں اس کے تناسب کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ پھر غالب کے اس کھوکھلے دعوے کی کہ غیاث اللغات کا ماخذ اور مستند علیہ قتیل کا کلام اور اس کے خرافات ہیں کیا حقیقت رہ جاتی ہے۔ جہاں تک انشاء خلیفہ و مادھو رام و غنیمت کو ماخذ میں شامل کرنے کی بات ہے وہ بھی ایک بے بنیاد الزام ہے۔ دیباچے کی زبان یہ ہے کہ عربی، فارسی ، اور ترکی کے وہ ضروری اور کثیر الاستعمال الفاظ ومحاورات جو به شمول انشاء مادھورام، انشای جامع القوانین خلیفه شاه محمد اور نیرنگ عشق غنیمت وغیرہ تقریباً ۳۹ سے اوپر کتابوں میں درج ہیں۔ ان کے معانی کی صحت کی تحقیق میں انتہائی احتیاط سے کام لیتے ہوئے لغات وتفاسیر کی ۴۴ سے اوپر کتابوں کو اپنا ماخذ قرار دیا ہے ۔ ان حقائق سے اندازہ ہوتا ہے کہ غالب یا تو غور سے پڑھتے نہیں تھے یا دیدہ و دانستہ بے بنیاد الزام لگانے کے خوگر تھے۔ 94“
ڈاکٹر سید احسن الظفر آخر میں خلاصہ بحث کے طور پر لکھتے ہیں:
’’بات دراصل یہ ہے کہ غالب ہندوستانی فرہنگ نویسوں کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے تھے۔ غیاث اللغات کو تو وہ کیا خاطر میں لاتے۔ فرہنگ جہانگیری، فرہنگ رشیدی اور برہان قاطع جیسی اہم لغت سمیت سارے ہندوستانی مصنفوں کو اپنی زبردست تنقید کا نشانہ بنایا اور سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک دیا ہے۔ غالب زندہ ہوتے تو ان سے پوچھتا، ان کا مولد اگر ہند ہے تو آپ کا مولد کہاں ہے۔ ان کا ماخذ اشعار قد ما ہے تو آپ کا ماخذ کیا ہے۔ ان کا ہادی قیاس ہے تو آپ کا ہادی کیا ہے۔ ایران کبھی گئے نہیں۔ لے دے کے عبدالصمد کی شاگردی اختیار کی جو مختلف فیہ شخصیت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر یہ بات مسلم ہے کہ اہل زبان کے درمیان کچھ وقت گزارے بغیر اس ملک کی زبان، اس کی نزاکت اور اس کی روح سمجھ میں نہیں آسکتی تو یہ اصول غالب پر بھی لاگوتا ہے:
کیں زباں خاص امیر انست/مشکل ما و سہل آنا نست”95
حکیم محمد حسین دکنی:
حکیم محمد حسین تبریزی بن خلف تبریزی کا شمار فرہنگ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کی مشہور فرہنگ برہان قاطع ہے۔ یہ فرہنگ ۱۶۵۲ء میں سلطان عبداللہ قطب شاہ کے عہد میں گول کنڈہ میں مرتب ہوئی۔ اس فرہنگ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اپنے عہد کی تمام فارسی فرہنگوں میں سب سے زیادہ ضخیم ہے۔ جتنے الفاظ اس فرہنگ میں شامل ہیں کسی قدیم فرہنگ میں اتنے الفاظ نہیں ملتے۔ حکیم محمد حسین نے اسے حروف تہجی کے اعتبار سے ترتیب دیا ہے۔ معانی کی جتنی تفصیلات مذکورہ فرہنگ میں ملتی ہیں کسی دوسری فرہنگ میں ایسا نہیں ہے۔ بیشتر الفاظ کا تلفظ بھی درج کیا گیا ہے۔
غالب نے محمدحسین تبریزی کا ذکر مرزا ہر گوپال تفتہ ،رزار تیم بیگ اور منشی کیول رام ہشیار کے نام مکتوب میں کیا ہے۔ غالب کے نزدیک محمد حسین کی کیا قدر و قیمت تھی اس کا اندازہ ان الفاظ سے لگایا جاسکتا ہے مثلاً دکنی تو عجب خابانہ ہے، لغو ہے، پوچ ہے، پاگل ہے، دیوانہ ہے اور معوج الذہن ہے وغیرہ یعنی غالب محمد حسین اور ان کے لغت “برہان قاطع دونوں کو پایہ اعتبار سے ساقط تصور کرتے تھے۔ اس سلسلے میں غالب کے بیانات ملاحظہ ہوں:
” یہ دکنی ایسا کج فہم ہے کہ اس کا قیاس لغت میں شاید دس جگہ صحیح ہو”96“فرہنگ نویسوں کا قیاس معنی لغات فارسی میں نہ سراسر غلط ہے، البتہ کمر صیح اور بیشتر غلط ہے۔ خصوصا کنی تو عجب خابانہ ہے ، لغو ہے، پوچ ہے، پاگل ہے، دیوانہ ہے، وہ تو یہ بھی نہیں جانتا کہ باے اصلی کیا ہے اور بائے زائدہ کیا ہے۔ حیران ہوں کہ اس کی جانب داری میں کیا فائدہ ہے ؟ خدا جانتا ہے کہ میں بک رنگ ہوں مگر دکنی کے جانب داروں کا چہ، جنگ ہوں ۔”97‘ ان سب فرہنگ لکھنے والوں میں یہ دکن کا آدمی یعنی جامع برہان قاطع احمق اور غلط اور معوج الذہن ہے مگر قسمت کا اچھا ہے۔ مسلمان اس کے قول کو آیت اور حدیث جانتے ہیں اور ہندو اس کے بیان کو مطالب مندرجہ بید کے برابر مانتے ہیں۔ “98
یہ غالب کے بیانات ہیں، لیکن عہد حاضر کے نامور محقق اور ماہر لغت پروفیسر نذیر احمد نے اپنی معرکہ آرا تصنیف “نقد قاطع برہان میں برہان قاطع” پر غالب کے اعتراضات کا مفصل محاکمہ کیا ہے۔ اور نتیجے کے طور پر یہ لکھا ہے کہ برہان قاطع” پر مرزا غالب کے اکثر اعتراض درست نہیں۔ وہ اس ضمن میں مزید لکھتے ہیں :
”برہان قاطع کے نقائص کی نشاندہی جن صلاحیتوں کا تقاضا کرتی تھی، غالب میں وہ صلاحیتیں نہ تھیں ، اس بنا پر ان کے اکثر اعتراض بے بنیاد ہیں۔ ان کا قابل ذکر کارنامہ ان الفاظ کی نشاندہی تک محدود ہے جن کی متعدد صورتیں ملتی ہیں لیکن اصل اور محرف صورتوں میں امتیاز کے لیے بڑے علم کی ضرورت اور فنی بصیرت درکار تھی۔ ان کے سامنے قدیم فرہنگیں نہیں تھیں۔ اس بنا پر ان پر یہ راز نہ کھلا کہ ان ساری تحریفات کی جڑیں دور تک گئی ہیں ۔ انھوں نے یہ سمجھا کہ یہ سارا طوفان بے تمیزی صاحب برہان کا بر پا کردہ ہے، وہ تصحیفات کا موجد ہے وہ اس سے بے پناہ خفا تھے ۔ اور اس جنگی کی وجہ سے ان کا بیان اکثر غیر سنجیدہ ہو گیا ہے”۔ 99
حواشی
- رشید حسن خان ، انتخاب ناسخ ، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ ، نئی دہلی ،1972 ، ص28
- ایضاً۔ ص 74
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد اول ، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1983، ص327
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد دوم ، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1985، ص721
- ایضاً۔ ص 615
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد اول ، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1983، ص324
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد دوم ، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1985، ص509
- درد،خواجہ،میر، دیوانِ درد،بک ٹاک،لاہور،2004،ص61
- درد،خواجہ،میر، دیوانِ درد، ،ص41
- ایضاً 69
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد چہارم، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1993، ص1436
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد دوم ، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1985، ص614
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد اول ، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1983، ص111
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد دوم، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1985، ص508
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد چہارم، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1993، ص1024
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد دوم، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1985، ص615
- ایضاً۔ ص721
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد چہارم، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1993، ص1577
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد دوم، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1985، ص828
- ایضاً۔ ص804
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد سوم، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1987، ص 1311
- ایضاً۔ ص1224
- ایضاً۔ ص1233
- ایضاً۔ ص 1360
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد چہارم ، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1993، ص 1477
- ایضاً۔ ص 1540
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد دوم، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1985، ص 590
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد دوم، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1985، ص719
- ایضاً۔ ص595
- ایضاً۔ ص647
- ایضاً۔ ص647
- ایضاً۔ ص647
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد سوم، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1987، ص 987
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد اول، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1983، ص 234
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد دوم، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1985، ص 612
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد اول، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1983، ص 243
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد چہارم ، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1993، ص 1465
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد اول، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1983، ص 335
- ایضاً۔ ص 415
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد دوم، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1985، ص502
- ایضاً۔ ص 503
- ایضاً۔ ص 554
- ایضاً۔ ص 554
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد اول، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1983، ص 306
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد دوم، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1985، ص 642
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد سوم، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1987، ص 1002
- ایضاً۔ ص 1152
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد دوم، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1985، ص 594
- نذیر احمد ، پروفیسر،مقالات نذیر ، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 2002،ص555
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد دوم، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1985، ص 595
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد چہارم ، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1993، ص 1437
- ایضاً۔ ص 1543
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد سوم، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1987، ص 1187
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد دوم، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1985، ص 585
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد اول، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1983، ص 358
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد دوم، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1985، ص 582
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد اول، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1983، ص 395
- ایضاً۔ ص390
- ایضاً۔ ص 352
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد دوم، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1985، ص 590
- ایضاً۔ ص 591
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد چہارم ، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1993، ص 1429
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد دوم، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1985، ص 594
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد اول، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1983، ص 352
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد دوم، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1985، ص 594
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد اول، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1983، ص 352
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد دوم، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1985، ص 591
- ایضاً۔ ص723
- ایضاً۔ ص552
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد اول، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1983، ص 390
- ایضاً۔ ص395
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد چہارم ، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1993، ص 1424
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد اول، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1983، ص 352
- ایضاً۔ ص 284
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد دوم، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1985، ص802
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد چہارم ، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1993، ص 1424
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد اول، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1983، ص 237
- ایضاً۔ ص 336
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد دوم، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1985، ص583
- ایضاً۔ ص 587
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد سوم، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1987، ص1019
- مالک رام ، مرتب ، فسانہ غالب ، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ ، نئی دہلی ، 1977،ص132
- مختار الدین احمد ، احوال غالب ، انجمن ترقی اُردو ہند ، علی گڑھ ، 1953،ص210
- اسد علی انوری ، سید ، قتیل اور غالب ، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی ، 1939، ص74
- ایضاً۔ ص 72
- ایضاً۔ ص66
- ایضاً۔ ص68
- ایضاً۔ ص71
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد چہارم ، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1993، ص 1591
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد سوم، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1987، ص 979
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد چہارم ، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1993، ص 1497
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد دوم، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1985، ص745
- ایضاً۔ ص 593
- ایضاً۔ ص 592
- نذیر احمد ، پروفیسر،مقالات نذیر ، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 2002،ص560
- وقار الحسن صدیقی ، ڈاکٹر ، رضا لائبریری جرنل 8۔9 ، رام پور رضا لائبریری ، رام پور ، 2002، ص182
- ایضاً۔ ص 189
- ایضاً۔ ص 190
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد اول، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1983، ص 354
مآخذ:
- رشید حسن خان ، انتخاب ناسخ ، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ ، نئی دہلی ،1972
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد اول ، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1983
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد دوم ، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1985
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد سوم، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1987
- خلیق انجم ، ڈاکٹر ، غالب کے خطوط ،جلد چہارم، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 1993
- درد،خواجہ،میر، دیوانِ درد،بک ٹاک،لاہور،2004،ص61
- نذیر احمد ، پروفیسر،مقالات نذیر ، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، 2002
- مالک رام ، مرتب ، فسانہ غالب ، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ ، نئی دہلی ، 1977
- مختار الدین احمد ، احوال غالب ، انجمن ترقی اُردو ہند ، علی گڑھ ، 1953
- اسد علی انوری ، سید ، قتیل اور غالب ، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی ، 193