محسن خالد محسنؔ
(شعبہ اردو،گورنمنٹ شاہ حسین ایسوسی ایٹ کالج،لاہور)
خواجہ حیدر علی آتش ؔ کی سوانح و شخصیت اور کلام کا فکری و فنی جائزہ
خلاصہ: خواجہ حیدر علی آتش کا شمار کلاسیکی اردو غزل کے دور زریں کے ابتدائی ادوار سرفہرست کیا جاتا ہے۔ آتش نے اردو غزل کو علم و بیان وبدیع کے جملہ محاسن شعری سے مزین کیا۔ آتش کی شاعری میں کلاسیکی روایت سے متصل سبھی موضوعات و اسالیب اور شعری تلازموں کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ اس مقالہ میں آتش کی سوانح و شخصیت اور کلام کا فکری و فنی جائزہ لیا گیا ہے جس سے یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ آتش نے اردو غزل کی شعری حسیت اور جذبات و احساسات کی ترسیل کو انتہائی سہل اور پُراثر انداز میں غزل کے کینوس پر پوٹریٹ کیا ہے۔آتش کے کلام میں روایتی موضوعات سے لے کر جدید مباحث اور فکر و فلسفہ کی ترجمانی ملتی ہے۔ تصوف سے گہرا لگاؤ اور اخلاقی موضوعات کے بارے میں آتش کا نکتہ نظر منفرد اور دلآویز ہے۔آتش کا شاعرانہ انداز اور پیرایہ اسلوب بعد کے شعرا کا شعار بنا جس نے اردو غزل کے ارتقا کو زبردست کمک پہنچائی۔
خواجہ حیدر علی آتش کا شمار اپنے زمانے کے ممتاز اور معتبر شاعروں میں ہوتا ہے جن کے بارے میں مولانا محمد حسین آزاد ؔ کہتے ہیں:”زمانے نے ان کی تصاویر ِ مضمون کی قدر ہی نہیں کی بلکہ پرستش کی مگر انھوں نے اس کی جاہ حشمت سے ظاہر آرائی نہ چاہی۔نہ امیروں کے درباروں میں جاکر غزلیں سنائیں،نہ ان کی تعریفوں میں قصیدے کہے۔ایک ٹوٹے پھوٹے مکان میں،جس کی چھت کچھ چھپر سایہ کیے تھے، بوریا بچھا رہتا تھا،اسی پر لُنگ باندھے صبر و قناعت سے بیٹھے رہے اور عمر ِ چند روزہ کو اس طرح گزار دیا جیسے کوئی بے نیاز فقیر تکیے میں بیٹھا ہوتا ہے۔ کوئی متوسط الحال اشراف یا کوئی غریب آجاتا تو متوجہ ہو کر باتیں بھی کرتے تھے،امیر آتا تو دھتکار دیتے،وہ سلام کر کے کھڑا رہتا کہ آپ فرمائیں تو بیٹھے،یہ کہتے ہوں، کیوں صاحب!بورے کو دیکھتے ہو کپڑے خرااب ہو جائیں گے؟ یہ تو فقیر کا تکیہ ہے،یہاں مسند تکیہ کہاں؟1″؎
آتش کا خاندان
آتش کے خاندان کے بارے میں کوئی ٹھوس ثبوت تذکروں میں نہیں ملتے البتہ مصحفی ؔ کا تذکرہ ریاض الفصحا میں آتشؔ کے خاندان کا کچھ احوال ملتا ہے۔ مصحفیؔ لکھتے ہیں:”آتشؔ کا نسب نامہ خواجہ عبداللہ احرار تک پہنچتا ہے۔بزرگوں کا وطن بغداد تھا،وطن ِ قدیم چھوڑ کر دلی میں آبسے اورقلعہ کہنہ میں آباد ہو گئے”۔2؎
سر سید احمد خان کے مقالات میں سیرت ِفریدہ نامی مقالے میں خواجہ عبداللہ احرار کا ذکر ملتا ہے۔”دلی میں ایک کشمیری خاندان خواجہ عبداللہ احرار کی اولاد میں سے کشمیر سے آکر آباد ہوا تھا”3؎
آتش کے والد
خواجہ حیدر علی آتشؔ کے والد محترم کا نام خواجہ علی بخش تھا جو دلی کے باشندے تھے۔ان کے اسلاف تلاشِ معاش میں بغداد سے دہلی آئے اور پرانے قلعے میں آباد ہوگئے۔ان کا سلسلہ نسب خواجہ عبداللہ احرار سے ملتا ہے جو سلسلہ نقشبندیہ کے ممتاز بزرگ تھے۔یہ وہ دور تھا جب دلّی اجڑ رہی تھی اور ساتھ ذرائع معاش تیزی سے معدوم ہو رہے تھے۔جنگ بکسر (۶۵۷۱ء) میں شجاع الدولہ اور مغل افواج کو شکست کے بعد سیاسی،معاشی و معاشرتی منظر بدل رہا تھا،اسی زمانے میں آتش کے والد علی بخش دلّی چھوڑ کر فیض آباد آگئے اور یہیں خواجہ حیدر علی پیدا ہوئے۔
عبدالروف عشرت اپنے تذکرہ آب ِ بقا میں بھی علی بخش کی مستقل سکونت فیض آباد کی تصدیق ان الفاظ میں کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:فیض آباد کی اس ہلچل میں مغلوں نے خواجہ علی بخش سے باہر نکل چلنے کو کہا مگر ان کی یہاں اچھی طرح بسر ہو رہی تھی اس سبب سے کہیں نہ جا سکے”۔4؎ آتش فیض آباد اور لکھنؤ میں پیدا ہونے والی نسل کے روشن چراغ تھے جن کے باپ دادا دلّی سے آئے اور وہ خود یہاں پیدا ہوئے۔
آتش کی ولادت
خواجہ علی بخش کی اُولاد کے بارے میں ابھی تک صرف یہی معلوم ہو سکا ہے کہ ان کے ایک صاحب زادے کا نام خواجہ حیدر علی آتش تھا۔آتش کی تاریخ ولادت یقینی طور سے نہیں ملتی۔مصحفی کے تذکرہ ریاض الفصحا میں پہلی مرتبہ آتش کی عمر متعین کی گئی ہے۔چوں کہ آتش مصحفی کے شاگرد ِ خاص اور چہیتے تھے اور مصحفی نے ۷۷ اشعار پر مشتمل آتش کے کلام کا انتخاب اپنے تذکرہ میں اندراج کیا ہے،اس حوالے سے مصحفی آتش کی ولادت کے براہ راست راوی ہیں جن کا بیان دیگر بیان سے قوی اور معتبر تصور کیا جاتا ہے۔مصحفی لکھتے ہیں:”حالاکہ سن ِ عمرش بہ است ونُہ سالگی رسیدہ “۔5؎
تذکرہ ریاض الفصحا ۱۲۲۱ء مطابق۷۰۷۱ھ تک زیر قلم رہا،چوں کہ آتش اس تذکرے کے دوسرے شاعر ہیں اس لیے گمان ہوتا ہے کہ ۱۲۲۱ھ ہی میں ان کا حال و کلام داخل ِ تذکرہ ہوا۔قوی امکان ہے کہ آتش کا ترجمہ مصحفی نے ۱۲۲۱ھ ہی میں لکھا ہوگا۔اس وقت ان کی عمر ۹۲ برس تھی۔اس حساب سے اگر ۱۲۲۱ھ میں سے ۹۲ سال گھٹا دیے جائیں تو آتش کا سن ِ ولادت ۲۹۱۱ھ سامنے آتا ہے۔
خواجہ عبدالروف عشرت نے آب بقا میں ایک واقعے کے حوالے سے آتش کی سن ولادت متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔”جناب علی (نواب شجاع الدولہ بہادر) نے اپنے فرزند نواب آصف الدولہ بہادر کی شادی نواب خانخاناں کی پوتی سے کی جس میں چوبیس لاکھ روپے صرف ہوئے۔ابھی چہل پہل ہورہی تھی کہ خواجہ علی بخش کے گھر میں خواجہ حیدر علی آتش پیدا ہوئے”۔6؎عشرت کی اس روایت کے تخمینہ مصحفی کے تذکرہ کی تدوین سے لگایا جائے تو یہ بیان غلط معلوم ہوتا ہے۔
تعلیم و تریبت
خواجہ حیدر علی آتش گورے،چٹے،خوب رو اور جوانِ رعنا تھے۔ مصحفی نے انھیں “وجیہ و مہذب الااخلاق” لکھا ہے۔ ابھی جوان بھی نہ ہونے پائے تھے کہ والد کا انتقال ہو گیا۔تعلیم کا سلسلہ معقول حد تک چلتا رہا۔ابتدائے موزونی طبع سے فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں شعر کہنے لگے۔مولانا محمد حسین آزاد آتش کے بارے میں لکھتے ہیں:”ابتدائی عمر اور استعداد علمی تکمیل کو نہ پہنچی تھی کہ طبیعت مشاعروں میں جوش دکھانے لگی۔اس وقت دوستوں کی تائید سے درسی کتابیں دیکھیں،باوجود اس کے کافیہ کو کافی سمجھ کر آگے پڑھنا فضول سمجھا”۔6؎
عبدالروف عشرت اپنے تذکرہ آب ِ بقا میں آتش کی ابتدائی عمر اور مشاغل کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”ابھی لڑکا اچھی طرح جوان نہ ہونے پایا تھا اور تعلیم بھی نامکمل تھی کہ باپ نے انتقال کیا۔مزاج میں آواہ گردہی اور سر پرپر کوئی مربی موجود نہ تھا۔فوج کے لڑکوں کی صحبت میں آتش بانکے اور شوریدہ ہو گئے۔اس زمانے میں بانکپن اور بہادری کی بہت قدر تھی۔آتش کو بہادری دکھانے کے بہت سے مواقع ملے۔ مغل بچوں کی صحبت میں تیغ زنی بہت اچھی آگئی تھی۔آدمی تھے جیوٹ،بات بات پر تلوارکھینچ لیتے تھے۔کم سنی سے” تلواریے “مشہور ہوگئے۔سینکڑوں تلواریں کھائیں، ہزاروں ٹانکے لگے۔اس جوہر کے قدردان فیض آباد میں نواب میر(میرزا) محمد تقی تھے جو آتش کو نوکر رکھ کر اپنے ساتھ لکھنومیں لے آئے۔نواز گنج کے قریب چوٹیوں سے آگے مادھو لال کی چڑھائی مزہور ہے،وہاں سے اتار کو ایک چھوٹا سا باغیچہ اور ایک کچا سا مکان تھا وہ آتش نے خرید لیا اور اس میں رہنے لگے”۔7؎
آتش نے نوجوانی میں تعلیم ضروری حد تک حاصل کر لی تھی لیکن اس وقت تک فارسی زبان پر انھیں عبور حاصل ہو گیا تھا۔فارسی زبان سے گہری دلچسپی کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاتا ہے کہ خود ان کے استاد مصحفی نے ان کی طبعیت میں “میلان فارسی بیشتر بود “کا ذکر کیا ہے،گویا ابتدا میں آتش اردو شاعری سے زیادہ فارسی گوئی کی طرف مائل تھے لیکن جب اُردو کی طرف آئے تو ایسے آئے کہ پھر فارسی گوئی بالکل ہی ترک کر دی۔آتش علم عروض اور فن شعر سے بھی خوب واقف تھے اور علم کی اہمیت کو بھی خوب جانتے تھے جس کااظہار انھوں نے اپنی شاعری میں بھی کیا ہے۔مثلاً
؎ چاہے شکست ِ جہل تو بھی تحصیل ِ علم کر/وابستہ یہ طلسم ہے لوح ِ کتاب کا
؎ افسوس ہے انسان نہ ہو علم کا جویا/وہ مال ہے یہ صرف سے جو کم نہیں ہوتا
مولانا آزادؔ،صفیر بلگرامی،عبدالروف عشرت اور عبدالحی کے تذکروں سے معلوم ہوتا ہے کہ آتش بانکے اور اآزاد منش شاعر تھے۔ نواب محمد تقی خاں کی سرکار میں ملازم تھے اور فیض آباد میں ان کی بڑی قدرومنزلت تھی۔
فوج میں ملازمت
آتش کی شعر و شاعری میں چرچے تو عام ہیں لیکن ان کی زندگی کا دوسرا رُخ ان کے طبعی میلان کا ایک اورمیدان بھی تھا اور وہ سپاہیانہ شان ہے۔عام طور سے آتش کا نام سنتے ہی ایک بانکے جوان یا آزاد منش فقیر طبع بہادر کا تصور ہوتا ہے۔”آب حیات” اور” آبِ بقا ” پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ خواجہ صاحب ایک تلواریے اور شورہ پست آدمی تھے مگر ان کے فوجی کارناموں کا ذکر ان تذکرہ نگار نے قدرے تفصیل سے نہیں کیا،البتہ نجات حسین عظیم آبادی نے اپنی کتاب سوانح لکھنؤ میں خواجہ صاحب کی فوج میں ملازمت کی تصدیق کی ہے۔نجات حسین عظیم آبادی بیان کرتے ہیں:”در اوائل ایام جوانی خیلے پیشہ شجاعت و وضع سپاہیانہ داشتد و افسر ِ رسلاہ داراں بودند”۔8؎
آتش علما و ارکان دولت میں شمار نہ ہوتے تھے۔اس لیے ناسخ کی طرح ان کی زندگی کے جزیات نہیں ملتے۔ کیا معلوم کس سپاہ میں ملازم تھے اور کب اور کس عہدے سے سُبکدوش ہوئے،کون کون سے کارنامے انجام دیے،کس کس جگہ کے سفر کیے۔دراصل آتش کی فقیرانہ اور عاجزنہ درویشی نے انھیں نوابوں اور درباروں کی نوکریاں کرنے سے محفوظ رکھا۔شائد یہی وجہ ہے کہ آتش باوجودہ اپنے زمانے کے معروف شاعر ہونے کے کسی نے ان کی طرف وہ توجہ نہ دی جس کے وہ مستحق تھے اس لیے تذکرہ نگاروں نے بھی خواجہ صاحب کی زندگی کے حالات و اقعات کو اکٹھا کرنے اور کھوجنے کی کوشش نہیں کی۔
شادی
خواجہ حیدر علی آتش کی شادی کا ذکر عبدالروف عشرت نے اپنے تذکرہ آب بقا میں اس طرح بیان کیا ہے۔”نواز گنج کے قریب چوٹیوں سے آگے مادھولال کی چڑھائی مشہور ہے۔وہاں سے اتر کر ایک چھوٹا سا باغیچہ اور ایک کچا مکان تھا۔وہ آتش نے خرید لیا اور اسی میں رہنے لگے ۔مکان لینے کے بعد آتش نے اپنا نکاح کسی شریف خاندان میں کر لیا۔تھوڑے زمانے کے بعد ایک صاحبزدے پیدا ہوئے جن کا نام علی محمد رکھا۔ان کی بیوی بہت نیک عورت تھی۔ان کی وارستہ مزاجی اور اس کی گرہستی نے مل کر گھر کوسنبھال کیا۔عقد سے پہلے تو آتش کو ایک ہزار روپیہ ماہوارملتا تھا،جب بھی مہینے میں ایک دو فاقے ہو جاتے تھے،لیکن نکاح کے بعد بی بی کے پس انداز کرنے سے میاں فاقے سے بچ جاتے تھے”۔9؎
خواجہ آتش کا قیام ِ لکھنو
خواجہ حیدر علی آتش فیض آباد سے ترک سکونت کر کے ۴۷۷۱ء میں لکھنو آگئے کیونکہ آصف الدولہ نے فیض آباد کی بجائے لکھنوکو اپنا دارالخلافہ بنا لیا تھا۔اس لیے فیض آباد کی رونق اور ٹھاٹھ کم ہو گئی تھی۔آصف الدولہ کے متوسلین،امرائے دولت اور وابستگان امرا کے لیے لکھنو پائیں باغ بن گیا تھا،بہت سے لوگ فیض آباد سے لکھنو منتقل ہو گئے تھے۔
عبدالروف عشرت نے خواجہ آتش کے قیام لکھنؤ کا ذکر اپنے تذکرہ آب بقا میں اس طرح بیا ن کیا ہے۔” اس جوہر کے قدردان فیض آباد میں نواب میر محمد تقی تھے کو آتش کو نوکر رکھ کر اپنے ساتھ لکھنؤ لے آئے۔انھی کے ساتھ ناسخ بھی فیض آباد سے لکھنؤ آئے۔ اس وقت ناسخ اور آتش کو یہ خیال بھی نہ تھا کہ ہم کبھی لکھنومیں شاعروں کے زمرے میں شمار ہوں گے اور ایک مشہور اُستاد کے نام سے مشہور ہوں گے”۔10؎
حالات و روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ناسخ ؔ نوابی ٹھاٹھ کے آدمی تھے،مگر آتش کی طبعیت میں انکسار تھا۔ آتش عوامی زندگی پسند کرتے تھے لیکن ان کی جوانی کے ایام شوخیوں میں گزرے۔
لکھنؤ کا اصل نمائندہ آتش یا ناسخ
آتش غزل گو شاعر تھے اور ان کا کمال اسی صنفِ سخن میں ظاہر ہوا ہے۔مصحفی نے شاگردِ آتش کی غزلیں دیکھ کر کہا تھا کہ “یکے از بے نظیر انِ روزگار خواہد شد”۔غالبؔ نے ایک خط میں لکھا ہے کہ چیزے دیگر پارسیوں کے ہاتھ میں آئی ہے لیکن اُردو زبان میں اہل ہند نے وہ چیز پائی ہے جو آتش کی شاعری میں ظاہر ہو ئی ہے۔آتش کی شاعری میں ناسخ کے طرز جدید اور لکھنوکے تہذیبی مزاج کی ساری خصوصیات کا پرتو نظر آتا ہے اس کے علاوہ ان کی شاعری میں لکھنوی تہذیب کی وہ روح ِ لطیف بھی شامل ہے جس میں شاعری کی اصلی و حقیقی خویباں اور اوصاف بھی موجود ہیں جس نے آتش کو لکھنو کی فضا کا نمائیدہ قرار دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ناسخ کے طرز جدید کے مقلد ہونے باوجود آتش اپنے دور کے نمائندہ شاعر بھی ہیں اور بقول ڈاکٹر جمیل جالبی” پورے شاعر “بھی ہیں۔
آتش کی شاعری میں وہ خصوصیات بھی شامل ہیں جو اس معاشرے کو محبوب تھیں اور وہ خوبیاں بھی جو حقیقی شاعری کی جان ہیں جن کی وجہ سے اُردو کے چند بڑے شاعروں کے ساتھ ان کا نام لیا جاتا ہے۔ناسخ نے صرف لکھنو کے تہذیبی ماحول کا نقشہ کھینچا ہے لیکن آتش نے اس پوری تہذیب کی بھرپور ترجمانی بھی کی اور اس دور کے محبوب شاعرٹھہرے یہی وجہ ہے کہ آتش اپنے کلام کے ایک حصے میں ناسخ جیسے نظر آنے کے باوجود،ان سے مختلف اور الگ بھی نظر آتے ہیں۔ناسخ صرف اپنے دور کے ہو کر رہ گئے جبکہ آتش میرؔ، سوداؔ،درد ؔاور غالب کی طرح اپنے دور کے ساتھ ہر دور کے شاعرقرار پائے۔
آتش کے بارے میں یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ وہ لکھنومیں دہلوی رنگ کے شاعر تھے۔آتش نے جو شاعری کی وہ لکھنوکے ماحول میں رہ کر ہی کی جا سکتی تھی،اس میں لکھنؤی تہذیب کے وہ رُخ اور پہلو بھی موجود ہیں جو عام طور پر ناسخ اور دوسرے ہم عصر شعرا کے ہاں بہت کم ملتے ہیں جسے غالب نے” چیز دگر اور تیز نشتر” کہا ہے یہی وصف آتش کی انفرادیت اور ان کی عوامی مقبولیت کا باعث بنا۔یہ رنگ سخن لکھنوی تہذیب کی روح لطیف کا ترجمان ہے۔اس رنگ ِ سخن میں سرور انسباط کے جو عناصر ملتے ہیں و ہ لکھنؤی تہذیب کے پروردہ ہیں۔
آتش کی شاعری میں مردانہ پن،جو تونائی،قوت اور حرکت ہے وہ لکھنوی تہذیب کے اسی مثبت پہلو کا نتیجہ ہے جس پرہمارے اہل علم و فکر نقادوں نے پوری توجہ نہیں دی جس کے وہ مستحق تھے۔یہی وہ رنگ ہے جس سے خواجہ صاحب کے زمانے والے اور آج ہم بھی انھیں پہنچاتے،سر پر بٹھاتے اور دل میں جگہ دیتے ہیں۔آتش کے درج ذیل اشعار اس بات کی تائید کرتے ہیں۔
؎ یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا/رات بھر طالعِ بیدار نے سونے نہ دیا
؎ طبل وعلم ہی پاس ہے اپنے نہ ملک و مال/ہم سے خالف ہو کے کرے گا زمانہ کیا
؎ یار آنکلا تو تھا صورت دِ کھاتا میں کسے/جھٹ پٹے کا وقت تھا شمس و قمر کوئی نہ تھا
؎ سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے/ہزار ہا شجر دایہ دار راہ میں ہے
؎ پیام بر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا/زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے
ان اشعار میں مزاج اور اظہار کا ایک ا یسا الگ پن ہے جو کسی بھی دوسرے شاعر کے ہاں نہیں ملتا۔ان اشعار میں ندرتِ ادا بھی ہے اور تازگی محسوس ہوتی ہے جس سے ایسا نیا پن پیدا ہوگیا ہے جو آتش کی پہچان بنی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے متعد اشعار ضرب المثل بن کر ہماری بول چال کی زبان کا حصہ بن گئے ہیں اور ہر دم ہمارے ذہن میں چہکتے رہتے ہیں۔مثال کے طور پر یہ اشعار ملاحظہ کیجئے:
؎ آئے بھی بیٹھے بھی اُٹھ بھی کھڑے ہوئے/میں جا ہی ڈھونڈتا تری محفل میں رہ گیا
؎ سن تو سہی جہاں میں تیرا فسانہ کیا/کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا
؎ بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا /جو چیرا تو اک قطرہ خوں نہ نکلا
؎ باراں کی طرح لطف و کرم عام کیے جا/آیا ہے جو دنیا میں تو کچھ نام کیے جا
؎ ہر شب شبِ برات ہے، ہر روز روزِ عید/سوتا ہوں ہاتھ گردنِ مینا میں ڈال کے
؎ موت مانگوں تو رہے آرزوئے خواب مجھے/ڈوبنے جاؤں تو دریا ملے پایاب مجھے
یہ صرف چند اشعار ہیں اس کے طرح متعدد اشعار آتش کے کلام میں تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ان اشعار کے ضرب المثل بن جانے کی وجہ یہ ہے کہ زبان زبیان پر آتش کی غیر معمولی قدرت نے،زندگی کے تجربوں کو،ندرت ادا اور تازگی ِ نظر کے ساتھ موزوں ترین لفظوں کی خوبصورت بندش میں،اس طرح پرودیا گیا ہے کہ یہ اشعار ہماری روح کاحصہ بن کر ہماری زبان پر چڑھ گئے ہیں۔ان اشعار کے مطالے اور آتش کے کلام کا بغور مطالعہ اور نقادوں کی تنقیدی کو سامنے رکھتے ہوئے بجا طور پر آتش کا لکھنوکا صحیح ترین نمائندہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
چراغ سحری
آتش نے اپنی زندگی میں لکھنؤ کی بہار دیکھی،پھر وہ عہد بھی دیکھا جو برعظیم کو دوبارہ دیکھنا نصیب نہ ہوا۔نواب سعادت علی خا ں کاتدبر و علم پروری،غازی الدین حیدر اور نصیر الدین کی آرام طلبی و عشرت پسندی،محمد علی شاہ اور امجد علی شاہ کی دین داری نے لکھنومیں جو بھاٹے دکھائے،جرائت و مصحفی کا زور اور ناسخ کا ٹھاٹھ باٹھ رہا، ناسخ کے بعد آتش کا دل ٹوٹ گیا،موت کی خبر سُن کر ڈارھیں مار کر روئے،کسی نے اعتراض کیا تو کہا:”میاں! کیا کہتے ہو،ہم اور وہ فیض آباد میں مدتوں ایک رئیس کے نوکر رہے،مدت تک ہم پیالہ و ہم نوالہ رہے،ہمیشہ دوستی کا برتاؤ رہا”11؎
بیٹے کی شادی
خواجہ صاحب کے بیٹے محمد علی جوان ہوئے اور والد کی طرح شعر گوئی میں درک حاصل کیا اور جوش ؔتخلص کیا،ان کی جوانی کی بہار جب اوج پرآئی تو دوستوں اور شاگردوں نے شادی کے لیے خواجہ صاحب سے اصرار شروع کر دیا۔ خواجہ صاحب معاشی طور پر کمزور اور فاقہ کشی میں تھے اس لیے عذر کرتے رہے،آخر غالب جنگ کے بیٹے دیا مصر نے جوش کی شادی کا سارا انتظام اپنے ذمہ لے کر جوش کی شادی دلاآرام کی بارہ دری میں بڑے سلیقے اور اہتمام سے منعقد کروئی اور بڑی دھوم دھام سے شادی کے جشن کا انتظام کیا۔ اس وقت خواجہ صاحب باکل ناتواں ہو چکے تھے اور آنکھوں کی بینائی سے بھی محروم ہو چکے تھے،بیٹے کی شادی کے بعد دُنیا داری کے تمام تقاضوں سے بالکل سُبکدوش ہو گئے۔
وفات
خواجہ صاحب کی صحت مرورِ وقت کے ساتھ گرتی جا رہی تھی ضعف و ناتوانی کے عالم میں خدا سے لو لگائے زندگی کے بقیہ دن گزار رہے تھے،ان کے شفیق دوست علی خلیل ان کی خدمت میں ہمہ تن مصروف رہتے تھے۔خواجہ صاحب کی تمام عمر کی دولت جسے حیات جاودانی کا مول کہنا چائیے،ایک دیوان غزلوں کا ہے جو کہ ان کی زندگی میں شائع ہو کر شہرت حاصل کر چکا تھا۔
خواجہ صاحب ایک دن اچھے بھلے بیٹھے تھے کہ یکا یک ایسا موت کا کا بہلاوا جھونکے کی صورت آیا کہ خواجہ صاحب کی زندگی کا چراغ گل ہو گیا۔ان کے گھر میں فاقہ اور قناعت پسندی کے سوا اور کیا تھا۔ خواجہ صاحب کو ان کے گھر میں دفن کیا گیا۔ان کے دیرنہ دوست میر علی خلیل نے تجہیز و تکفین کا انتظام کیا اور تما م رسوم کی ادائیگی بڑے اہتمام سے ادا کیں۔اب نہ کہیں قبر ہے اور نہ وہ گھر،بس ان کا کلام رہ گیا ہے جو ہمیشہ رہے گا۔
خواجہ صاحب نے اپنے پیچھے ایک لڑکا محمد علی جوش اور ایک لڑکی جوان رعنا اور بیوی چھوڑی جن کی سر پرستی ان کے دیرنہ دوست علی خلیل نے اپنے ذمہ کی۔خواجہ صاحب کی وفات کے بعد ان کے دوستوں اور سخن وروں نے بہت اچھی تاریخیں کہیں مگر رشک ؔ کی تاریخوں میں واقعہ وفات،دن اور وقت نیز خواجہ صاحب کے اخلاق و سیرت پر بھی روشنی پڑتی ہے۔رشکؔ نے خواجہ صاحب کی وفات پر تین قطعے کہے جو فکری وفنی خویبوں کے لحاظ سے بہت عمدہ ہیں۔
؎ خواجہ صاحب متخلص آتش
چاق و چوبند و قضا را مُردند
ہاتف اے رشکؔ!چنیں مصرع گفت
خواجہ حیدر علی اے وا مُرندند
۔۔۔
؎ مرد نیک و شاعر جادو بیان و وضع دار
از محاسن ممتلی بودند آتش ہائے ہائے
جائے ایشاں در گلستان جناں بے وجہ نیست
آتش ِ گل واقعی بودند آتش، ہائے ہائے
شخصیت و کردار
خواجہ حیدر علی آتش کو درباری سیاست اور شہر کے ہنگاموں سے دلچسپی نہ تھی۔ناسخ کی خوش اقبالی،علم اور دولت کی بنا پر آتش کا وہ زور نہ تھا مگر شہر کے امیر وغریب،شاعر و سخن فہم خواجہ صاحب کی قدر کرتے تھے۔اسی وجہ سے ان کی آمدنی اچھی خاصی ہو جاتی تھی۔نواب سید محمد خاں رندخاصے،امیر بھی تھے اورخواجہ صاحب کے شاگرد بھی تھے،عیش و نشاط کے دل داداہ اور آتش کے فدائی،کچھ نہ کچھ وہ خواجہ صاحب کی نذر کرتے رہتے تھے۔
مولانا محمد حسین آزاد ؔخواجہ صاحب کے کردار اور سیرت کے بارے میں اپنی کتاب آب حیات میں بیان کرتے ہیں:”پندرہ روپے گھر میں دیتے تھے،باقی غربا اور اہل ضرورت کو کھلا پلا کر مہینے سے پہلے ہی فیصلہ کر دیتے تھے”12؎
آتش کی طبعی افتاد اور نفسیاتی رجحانات ان کے دوستوں اور مخالفوں کے روئیے سے سامنے آتا ہے،دوسرے وہ معتدل خیالات ہیں جو معاصر تذکرہ نگاروں نے آپ کے بارے میں لکھے ہیں۔ان تذکرہ نگاروں میں سے کسی نے بھی خواجہ صاحب کو اخلاق کے حوالے سے بد اخلاق یا اکھڑ نہیں بتایا،نہ ہی ان کے کلام سے ایسی روش کی مثالیں ملتی ہیں۔معاصر شعرا کے مقابلے میں آتش کے مزاج میں قلندرانہ خیالات کی آمیزیش،سادگی اور تیکھا پن کا عنصر ضرور ملتا ہے مگر اس میں بھی اعتدال کا توازن برقرار رہا ہے۔ اپنی دوریش منش طبیعت اور آزاد مزاجی کے حوالے سے خود ان کا کہنا ہے۔
؎ توڑتا پاؤں کو جو تخت کی خواہش کرتے/کاٹتا سر کو اگر مائل ِ افسر ہوتا
؎ بانٹ چاہے جسے دولت دو جہاں کی اے دوست/چاہتا تیرے سوا کچھ بھی نہیں خواہاں تیرا
منشی امیر اللہ آتش کے کلیات کی تدوین کے مقدمے میں آتش کی قناعت اور فاقہ کشی کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”مزاج میں توکل تھا،جو کچھ آتا اس کو اسی روز خرچ کر ڈالتے تھے، دوسرے روز کے لیے کچھ نہ رکھتے تھے۔جس روز فاقہ ہوتا،دروازہ بند کر کے گھر میں رہتے۔ ایک روز فقیر محمد خاں گویاؔکو معلوم ہوا کہ آتش آج کل بہت تکلیف میں ہیں۔کچھ روپیہ لے کر گھر پر گئے۔دروازہ بند تھا،آواز دی۔اندر سے آواز آئی۔”کون ہے؟یہ بولے:”فقیر”!آتش نے کہا:”فقیر کا میرے یہاں کام نہیں،آج خدا مہمان ہے(فاقہ ہے)”13؎
مصحفی سے لے کر عشرت تک کے تمام تذکرہ نگاروں میں آتش کو مقبول و محبوب شاعر قرار دیا گیا ہے۔مشاعروں اور نجی محفلوں میں لوگ انھیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے مگر ان کی زندگی کا ڈھنگ مصاحبوں اور امیروں جیسا نہ تھا۔مولانا محمد حسین آزادنے آتش کی وضع داری اور پانکپن کی کچھ اس طرح تصویر کھنچی ہے:” چھریرا بدن،کشیدہ قامت،سیدھے سادھے،بھول بھالے آدمی تھے ۔سپاہیانہ انداز اور آزادانہ وضع رکھتے تھے اور اس لیے کہ خاندان کا تمغہ بھی قائم رہے ،کچھ فقیری رنگ بھی تھا،ساتھ ہی اس کےبڑھاپے تک تلوار باندھ کر سپاہیانہ بانکپن کو بنایے جاتے تھے،سر پر ایک زلف اور کبھی حیدری چُٹاکہ یہ بھی محمد شاہی بانکوں کا سکہ ہے،اسی میں ایک طُرہ سبزی کا بھی لگائے رہتے تھے اور بے تکلفانہ رہتے تھے اور ایک بانک ٹوپی بھوؤں پر دھرے جدھر چاہتے چلے جاتے تھے”۔14؎
آتش کے بارے میں جو کچھ اب تک لکھا ہے اس سے آتش کو سمجھ کر کہا جا سکتا ہے کہ آتش کی شخصیت جن عناصر سے مل کر بنی تھی ان میں بانک پن،آوارہ منشی،سپاہیانہ وضع نے خوب گل کھلائے،آتش وجہیہ و خوش شکل، آزاد طبع، حسن دوست اور رند مشرب انسان تھے۔
آتش کی شاعری کا فکری و فنی جائزہ
آتش کا تعلق اس دبستان شاعری سے ہے جس کا تمام تر شعری سرمائے کی بنیاد سر مستی،شوخی،تصنع اور تکلف پر ہے۔شاعر ہمیشہ احساسات و جذبات کی سادگی اور واردات کی صداقت کی بجائے فکر وخیال کا سہارا ڈھونڈتا ہے۔فکر وخیال کی باریکی،رنگینی اور دقیق مضمون آفرینی اعلی خیال کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے اور شعر لفظی صنعت گری کا ایسا شان دار نمونہ بن جاتاہے جسے بہترین استعارے،باکمال تشبہیات،اعلی اور مربوط زمینیں،منفرد تراکیب کا منبع و مخزن کہا جا سکتا ہے۔
آتش اُردو کے ان چند شعرا میں سے ہیں جن پر بہت کچھ لکھا گیا اور ان کے کلام کا جائزہ مختلف زایوں سے لیا گیا ہے جوکہ آتش کی عظمت اور انفرادیت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ انھیں دبستان لکھنؤ کا نمائندہ شاعر قرار دیا جا تا ہے۔
آتش کے کلام کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ان کے کلام کی جو بنیادی خصوصیت واضح ہوتی ہے وہ سرور و انسباط اور فرحت ومسرت ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آتش کی شاعری نے لکھنو کے جس ماحول میں نمو پائی وہ اس کے تقاضوں کے عین مطابق تھی۔دِلی کے مقابلے میں لکھنو کی زندگی کا رنگ کچھ اور ہی تھا۔دونوں شہروں کے حالات، معاشرت اور ماحول میں خاصا فرق تھا۔دِلی کے اجڑ جانے کے بعد بدحالی اور ابتری کا راج پھیلا تو اس کے اثرات نے شاعری کو بھی اپنے لپیٹ میں لے لیا جس کا اثر شاعروں نے براہ راست قبول کیا اور ان کی شاعری میں حزن و الم کا عنصر در آیا۔
دِلی کے مقابلے میں لکھنو کا ماحول اور حالات کافی بہتر تھے اسی لیے آتش کی شاعری میں زندگی کا مثبت رویہ نظر آتا ہے ان کے دل پر غم دوراں کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا۔ان کے کلام کو پڑھ کر ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ کوئی غم کی فضا کا پروردہ شاعر ماتم سرائی کر رہا ہے بلکہ آتش کی شاعری میں غم اور حز ن کی بجائے راحت اور تسکین کا عنصر محسوس ہوتا ہے جس سے ان کی فکر اورخیال میں آزادی،خوش مزاجی اور نظریے کی صحت مندی کا پتہ چلتا ہے۔آتش زندگی خوب سے خوب تر کی توقع رکھتے ہیں
ڈاکٹر سید عبداللہ آتش کے اس نشاطیہ لب و لہجے کے بارے میں بیان کرتے ہیں:”آتش غم ِ زمانہ کو بھی محسوس کرتے تھے مگر ان کے دل پر گوئی گہرا گھاؤ معلوم نہیں ہوتا۔ ان کے کلام کی عام فضا ایسی ہے جس کو ہم ٖعمومی کی فضا نہیں کہہ سکتے۔اس میں زیادہ سے زیادہ حسرت و تمنا کی معمولی سی چُبھن محسوس ہوتی ہے۔ان کی شاعری میں کامیاب عاشقی کی فضائیں ہیں،جس میں نیاز مندی کم اور بے نیازی زیادہ ہے۔ان کا عام نقطہ راحت بھی ہے۔وہ غم کے احساسات پر بھی راحت کا رنگ چڑھانے کی کوشش کرتے ہیں”۔15؎
آتش کے فکر وخیال میں آزادی،خوش مزاجی اور نظریے کی صحت مندی کا اندازہ درج ذیل اشعار سے باخوبی ہوتا ہے۔مثلاً
؎ سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے/ہزار ہا شجر سایہ دار راہ میں ہے
؎ تھکیں جو پاؤں تو چل سر کے بل آتش/گل مراد ہے منزل میں خار راہ میں ہے
؎ کسی کا ہو رہے آتش کسی کو کر رکھے اپنا/دو روزہ عمر کو نہ رائیگاں کاٹے
؎ باراں کی طرح لطف و کرم عام کیے جا/آیا ہے جو دنیا میں تو کچھ نام کیے جا
اُردو غزل میں آتش وہ پہلا شاعر ہے جس کے یہاں زندگی کے بارے میں ایک اثباتی نقطہ نظر پایا جاتا ہے۔ آتش یاسیت و قنوطیت سے یکسر گریزاں ہیں اور صحت مند نشاط اور سر شار کی باتیں کرتے ہیں۔ آتش کی غزلوں پر غور کرنے سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ وہ عام لہجے میں ایک متحرک کیفیت رکھتا ہے وہ غم اور خوشی دونوں صورتوں میں حرکت کے پہلو ڈھونڈتا ہے اور سقوط و جمود سے دامن بچائے رکھتا ہے۔ اس کی شاعری میں عموماً ایسی ردیفیں پائی جاتی ہیں جن کی جھنکار سے ایک مدہوش کیفیت کا احساس ہوتا ہے۔مثلاً
؎ یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا/رات بھر طالعِ بیدار نے سونے نہ دیا
؎ ہر شب شبِ برات ہے ہر روز روز عید ہے/سوتا ہوں ہاتھ گردن ِ مینا میں ڈال کے
؎ بوسہ بازی سے مری ہوتی ہے ایذا ان کو/منہ چھپاتے ہیں جو ہوتے ہیں مہاسے پیدا
کلام ِ آتش کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ آتش نے اپنی غزلوں کو ایک نیا رنگ وآہنگ عطا کیا ہے۔ آتش نے روایتی مضامین کو بھی نئے پن اور نئے آہنگ سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے گویا انھوں نے چبائے ہوئے نوالوں کو چبانے کی بجائے ان میں جدت پیدا کی ہے۔اردو شاعری میں روایتی موضوعات کی تکرار تقریباً ہر شاعر کے ہاں نظر آتی ہیں لیکن آتش اس روایت کے بالکل مخالف سمت محو ِسخن رہے یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں آج بھی وہ دلکشی اور تاثیر باقی ہے جو آج کے دور کے لوگوں کی آسودگی کا ذرویعہ ہے۔مثلاً ؎
؎ سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا/کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا
؎ بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا/جو چیرا تو اک قطرہ خون نہ نکلا
؎ بت خانہ کھود ڈالیے،مسجد کو ڈھایے/دل کو نہ توڑیے،یہ خدا کا مقام ہے
؎ عشق ہونے میں نہیں ادنی و اعلی کی تمیز/خوبصورت ہو،گداز ہو یا شہزادہ ہو
آتش کے لب و لہجہ میں ایک قلندارانہ مزاج اور اخلاص پایا جاتا ہے۔ آتش مزاجاً آزادہ روی اور شوریدہ سری کے داعی تھے اور ان کے جوانی کے معرکے بہت معروف بھی ہوئے لیکن جب انھو ں نے لکھنو کی مصنوعی چکا چوند دیکھی،قدم قدم پر انفعالیت کا غلبہ محسوس کیا،عوام کو رسوم اور مذاہب کی جکڑ بندیوں اور خواص کو طوائفوں کے طلسم میں گرفتارر پایا تو اسے گھٹن اور کوفت کااحساس ہوا اور یوں اس کے قلندرانہ مسلک اور سرکشی کے رجحان نے غزل کی سطح پر بغاوت اور سرکشی کی ایک روایت کی داغ بیل ڈالی دی۔
ڈاکٹر وزیر آغا آتش کی اس قلندرانہ وضع کے بارے میں بیان کرتے ہیں:” آتش کی شخصی زندگی میں ایک ایسا حادثہ ہے جس نے اسے تصوف کو اختیار کونے اور ایک قلندرانہسپاہیانہ روش کو قبول کرنے پر اُکسایا تھا۔ وہ واقعہ تھا بچپن میں ہی والد کا سایہ سر سے اُٹھ جانا۔قیاس غالب ہے کہ آتش کو اپنے والد سے بڑا پیار تھا والد کی وفات نے آتش کو تنہا کر دیا۔چناچہ بچپن میں آتش کے اندر ماحول،فضا اور تہذیب کےخلاف سرکشی اور بغاوت کا وہ جذبہ ابھرا جسے تصوف کے ورثے اور خون کی حرارت نے اور بھی توانا کر دیا”۔16؎
آتش کے کلا م میں قلندرانہ مزا ج کے حامل اشعار کی تعداد سینکڑوں میں ہے جن میں سے چند ایک بطور نمونہ تحریر کیے جاتے ہیں۔
؎ پردہ الفت اٹھا پیشِ نظر یار ہے/دیر وحرم میں نہ جاؤ ڈھونڈنے موجود کو
؎ دل روشن ہیں روشن گر کی منزل/یہ آئنہ سکندر کا مکاں ہے
؎ نہ کیجئیو سر آتش پہ اپنا سایہ ہما/فقیر کے بدن پر قبائے سلطاں تنگ
؎ نعمت فقر سے محظوظ ہوا ہوں اتنا/خشک کر کے انھیں کھاؤں جو میں تر ٹکرے
؎ مقسوم کا جو ہے وہ پہنچے گا آپ سے/پھلایے نہ ہاتھ نہ دامن پساریے
آتش کے کلام میں رفعت خیالی اور بلند پروازی کا عنصر بہت ملتا ہے،آتش نہ صرف ظاہری حسن سے اپنی شاعری کو چمکاتے ہیں بلکہ معنوی لحاظ سے بھی فنی کمال کا ثبوت دیتے ہوئے معنویت کو چار چاند لگاتے ہیں۔اس ہنر مندی نے ان کے مصروں کو زبان زد عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے مثلاً:
ع یہ قصہ ہے جب کا کہ آتش جوان تھا ع زبان بگڑی تو بگڑی تھی،خبر لیجئے
ع دہن بگڑا،بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے ع بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
ع ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے
خلیل الرحمان اعظمی آتش کے خوبصورت مطلعوں کے بارے میں رقمطراز ہیں:” آتش کا دیوان پڑھیں تو احساس ہوتا ہے کہ عام طور پر آتش اپنی غزلوں کے مطلع سے ہی ہمیں اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔مطلع سے غزل میں فضا پیدا کرنے کا فن آتش کے ہاتھوں پروان چڑھا اور بعد میں اسی حربے کو استعمال کر کے غالب ؔ نے اپنی غزلوں میں ایسی جان ڈالی کہ بلند پایہ اشعار کے ساتھ معمولی مفہوم اور کیفیت کے اشعاربھی ایسے کھپ جاتے ہیں کہ ذرا بھی پتہ نہیں چلتا۔ آتش کے دیوان کو اُلٹ کر ان کے کامیاب مطلعے دیکھتے جائیے اور دیکھیے کہ ان مطلعوں نے غزل کو کہاں سے کہاں تک پہنچا دیا ہے اور اس کی مرکزیت براقراررکھنے میں کہاں تک حصہ لیا ہے”۔17؎
درج ذیل مطلعوں ملاحظہ کیجئے جن میں ایک پر کشش تاثیر کا پر تو نظر آتا ہے:
؎ کون سے دل میں محبت نہیں جانی تیری/جس کو سنتا ہوں وہ کہتا ہے کہانی تیری
؎ کیا کیا نہ رنگ تیرے طلب گار لا چکے/مستوں کو جوش،صوفیوں کو حال آ چکے
؎ ہوائے دورِ مے خوش گوار راہ میں ہے/خزاں چمن سے ہے جاتی بہار راہ میں ہے
؎ بلبل کو خار خار دبستاں ہے ان دنوں /ہر طفل کی بغل میں گلستان ہے ان دنوں
؎ کوچہ یار میں چلیے توغزل خواں چلیے /بلبلِ مست کی صورت گلستاں چلیے
آتش کے ہاں عشق انسانی زندگی کے ایک ا خلاقی جذبے کا نام ہے اسی لیے وصل کا بیان،بد ن کی خوشبو کے ساتھ، دماغ کو بھی معطر کر دیتا ہے اور پڑھنے یا سننے والے کو کیف و مستی کے عالم میں لے جاتا ہے۔بدن ایک حسین چیز بن کر احساسِ جمال کو سامنے لا کھڑا کرتا ہے۔آتش کے ہاں عشق،ذوق وشوق کی طرح توانائی کی علامت ہے اور سای زندگی کا احاطہ کرتا ہے۔ان کا عشق گوشت پوست کے انسان کا عشق ہے اس لیے ان کے عشق میں زندگی کی حرارت کا شدید احساس ہوتا ہے اور ہر تجربہ شعر میں ڈھلتا ہوا فطر ی معلوم ہوتا ہے،اس عشق میں ہجر بھی ہے اور وصال بھی ہے۔آتش کے لہجے میں سر مستی،سرشاری،نشاط انگیزی اور رقص کی سی کیفیت کا احساس ہوتا ہے
پروفیسر آل احمد سرور آتش کی عشقیہ اور مصورانہ شاعری کے بارے میں بیان کرتے ہیں:” آتش اُردو کے پہلے عاشق سر شاعر ہیں۔میرے نزدیک آتش کے یہاں حس کی مصوری اور عشق کی کیفیات کی نقاشی کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔”18؎
اس عشقیہ رویے کی وجہ سے آتش کا محبوب بھی انسانی فطرت کے عین مطابق عورت ہے۔
؎ حور بن کر مرے پاس آئیو اے عزرایئل/مرد ہوں عشق میں رکھتا ہوں زنِ خوش رو سے
آتش کا عشق کسی بازاری عورت سے نہیں ہے جس کا در سب کے لیے کھلا ہو بلکہ ایک پاکیزہ عورت سے ہے۔
؎ عاشق اس غیرتِ بلقیس کا ہوں اے آتش/بام تک جس کے کبھی مرغ ِ سلیماں نہ گیا
؎ آنکھ بھر کر نہ کبھی چاند سی صورت دیکھی/نہیں آلودہ ہماری نگہِ پاک ہنوز
؎ چشم نامحرم کو برق حسن کر دیتی ہے بند/دامنِ عصمت ترا آلودگی سے پاک ہے
اسی محبوب کی ہر ہر ادا میں ناز ہے نخرہ ہے غمزہ و عشوہ ہے۔
؎ تجھ سا حسیں ہو یار تو کیوں کر نہ اس کے پھر/ناز و ادا و غمزہ بے جا اُٹھائیے
محبوب کا نظارہ سچے عاشق کی طرف کیف آگیں بھی ہے اور ہر بار نئے روپ میں سامنے آتا ہے یہاں جسم اور روح باہم مدغم ہوجاتے ہیں۔
؎ ہرگھڑی ہر دم ترقی ہے جمال یار کو /روح سے بہتر لطافت میں بدن ہو جائے گا
؎ دست ِ قدرت نے بنایا ہے تجھے اے محبوب/ایسا ڈھالا ہوا سانچے میں بدن کس کا ہے
آتش کے ہاں حسن او رعشق کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔آتش کے تصور میں حسن،عشق کا مرکز ہے اور عشق بوالہوسی نہیں ہے۔عشق کا ربتہ حسن سے بلند ہوتا ہے۔عشق ہی سے زمانے کے شر سے نجات ملتی ہے اور اس دور کی لکھنوی شاعری عشقیہ نہیں ہے۔وہ بیان حسن کی شاعری ہے۔آتش نے لکھنوکی اس مصنوعی و بے معنی تقسیم کو ختم کر کے حسن و شاعری کا رشتہ عشق سے دوبارہ قائم کیا اور اسے جرائت ؔ کی ہوس ناکی،معاملہ بندی،انشا ؔ و رنگینؔ کے ٹھٹھول سے بچا کر اس میں عشق کی لے شامل کر دی اور اس طرح لکھنؤ کی نشاطیہ تہذیب کی لطیف روح کو اپنی شاعری میں جذب کر دیا جس کااظہار ان کی شاعری میں جابجا نظر آتاہے۔
پروفیسر آل احمد سرور بیان کرتے ہیں:” آتش مصحفی کے شاعر تھے،انھی کے اثر سے آتش کے یہاں،حُسن کا ایک ایسا سرمایہ اور رنگین احساس ملتا ہے جو ان کے اشعار کو ہماری عشقیہ شاعری کا ایک قابل فخر سرمایہ بنا دیتا ہے”19؎[
؎ عشق ہو بندگی ِحسن سے کیوں کر باہر/دوست اللہ کا کیسا ہی پیمبر ہوتا
؎ نام دو مشہور ہیں شہر ِ حسنیاں میں مرے/بندہ احسانِ عشق و تابع فرمانِ عشق
؎ حسن وہ شے ہے کہ پتھر میں بھی کرتا ہے اثر/ چشمِ عاشق کی طرح آئنے حیراں ہو گئے
آتش کی شاعری وصل کے جذبے کی تعلیم کا بہترین ذریعہ ہے،آتش کی شاعری عشق و وصل کے فطری جذبے کی تربیت کرتی ہے،اس میں شائستگی اور ٹھہراؤ پیدا کرتی ہے۔اگر انسان سے جذبہ عشق خارج کر دیا جائے تو وہ خوش ہو جائے اور تشدد اس کی زندگی بن جائے۔آتش کی غزل عشق ا ور صل کے جذبوں کو تھپکتی،نرم و ملائم کرتی اور ان میں پاکیزگی پیدا کر کے انسان کو انسان بناتی ہے۔
آتش کے ہاں جسم اور بدن کی پیکر تراشی کے کچھ نمونے ملاحظہ کیجئے:
؎ دریا میں ایک روز نہانے گیا تھا یار/اس دن سے اب تک آنکھوں میں جانِ حباب ہے
؎ اللہ رے اس صنم کے بدن کی ملائمت/جامہ ہے جسم کا کہ قبا ہے حریر کی
؎ اللہ رے صفائے تن نازنینِ یار/موتی ہیں کوٹ کوٹ کے گویا بھرے ہوئے
اب وصل کے جذبات اور کیفیات کے منفر اور پرکشش اظہار کے کچھ نمونے ملاحظہ کیجئے،جس میں صحت مند جنسیت، فطری لبھاؤ اور وہ پاکیزگی ہے کہ روح تازہ ہوجاتی ہے۔وصل کی روحانی سر شاری اور کیفیت وجد آتش کی انفرادیت ہے۔یہ لکھنوکی تہذیبی روح کا وہ لطیف اظہار ہے جسے کوئی دوسرا شاعر چھو کر نہیں گزرا۔
؎ تا سحر میں نے شبِ وصل اسے عریاں رکھا/آسماں کو بھی نہ جس مہ نے بدن دکھلایا
؎ شر بتِ وصل میسر ہوا،شفا حاصل ہو/تپ ِ ہجراں سے جو صحت ہو تو حمام کریں
؎ شادی وصل میں جامے سے ہوں باہر دونوں /میں برہنہ اسے دیکھوں تو وہ عریاں مجھ کو
؎ جامے سے باہر اپنے جو ہوں میں عجب نہیں /کھولے ہیں کس کے بند قبا کچھ نہ پوچھیے
ان اشعار میں پوری طرح مجازیت کا رنگ موجود ہے لیکن اظہار کی سطح پر احساس ِ جمال وصل کا بیان انتہائی منفرد اور دل آویز ہے۔آتش کے مزاج میں ایک ایسی توانائی،ایک ایسی سرشاری کی کیفیت پیدا ہوتی ہے جس سے کلام میں سر مستی اور دلکشی نکھر کر شعروں کو بے خودی کی لے میں مبتلاکر دیتی ہے۔
ڈاکٹر وحید قریشی آتش کی عاشقانہ غزل گوئی کے حوالے سے بیان کرتے ہیں:” اُردو میں عاشقانہ غزل گوئی کی ہمارے ہاں ایک ہی تو اہم روایت تھی، ہجر وفراق ار درد والم والی غزل گوئی جس میں ہر تجربہ عشق و عاشقی کی فضا سے تقویت پاتا ہے۔آتش کی غزل گوئی کی یہی معراج ہے جو اس دور کی عام شعری فضا سے مخلتف اور گزشتہ شعری تحریکات کے زیادہ قریب ہے”۔20؎
آتش کی غزلوں کے مطلوں سے ہی یہ سرشای اور مستی کی کیفیت شروع ہو جاتی ہے جو مقطع تک پہنچ کر منتہا کی صورت اختیار کر جاتی ہے۔آتش کی غزلوں کے کچھ مطلعے بطور مثال درج کرتا ہوں جن میں یہ سب اوصاف موجود ہیں:
؎ خدا یاد آگیا بتوں ک بے نیازی دیکھ کر/ملا بامِ حقیقت زینہ عشقِ مجازی سے
؎ کون سے دل میں محبت نہیں جانی تیری/جس کو سنتا ہوں وہ کہتا ہے کہانی تیری
؎ کیا کیا نہ رنگ تیرے طلب گار لا چکے/مستوں کو جوش،صوفیوں کو حال آ چکے
؎ ہوئے دور ِ مے خوشگوار راہ میں ہے /خزاں چمن سے ہے جاتی بہار راہ میں ہے
؎ یہ آرزو تھی کہ تجھے گل کے روبرو کرتے/ہم اور گل بلبل ِ بے تاب گفتگو کرتے
ان مطلعوں کا جو مخصوص لہجہ ہے وہ آتش کا منفر لہجہ ہے،یہی وہ لہجہ ہے جس سے ہم آتش کو پہنچاتے ہیں ہے،یہی لہجہ ان کی شاعری میں اثر وتاثیر کا جادو جگاتا ہے۔آتش کے ہاں جو جسم و روح اور حسن و عشق کی یکجائی ہے اس کا تعلق اس رویے سے ہے جس سے ان کی اپنی زندگی عبارت ہے۔
آتش ایک درویش منش انسان تھے،فقیری،بے نیازی،استغنا ان کے مزاج کا حصہ تھا،توکل،تحمل،حلم اور صبرو قناعت ان کی طرز زندگی تھی،اس لیے وہ ناسخ کی طرح نہ کسی کے آگے جھکے اور نہ درباروں سے وابستہ ہوئے،بوریائے فقر پر ساری زندگی گزار دی،فقر ان کی کوئی مجبوری نہ تھی بلکہ ان کے لیے فخر تھا اور زندگی کی علویت کا نشان تھا،۔فقر نے انھیں تما م رسوم دُنیا سے بالاتر کر دیا اور خود مذہبی رسوم سے بھی وہ بالاتر ہوگئے۔فقر و توکل سے ان کے لہجے میں سرشاری اور طمانت پیدا ہوئی۔ان کی شاعری خود ان کی زندگی سے پوری طرح جُڑی ہوئی تھی۔
ڈاکٹروزیر آغا آتش کی متصوفانہ شاعری کے بارے میں بیان کرتے ہیں:” ان کے اشعار میں نہ صرف قلندارانہ بے نیازی اور استغنا پائی جاتی ہے جو صوفیانہ مسلک کی طرف پہلے قدم کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ ان میں امارت،مرتبہ اور جاہ و حشمت کی نفی کا بھی رجحان موجود ہےجو لکھنو کی پُر تکلف اور نشاط آمیز فضا کے خلاف آتشؔ کے رد عمل کا ایک مزاج ہے”۔21؎
تصوف کی سطح پر خواجہ میر دردؔ کے بعد آتش کمال کے شاعر تھے۔ان کی عشقیہ شاعری میں جو درد، گداختگی،لطافت،پاکیزگی،مٹھاس اور رجائیت، تحمل اور مردانہ پن ہے وہ اسی صوفیانہ مزاج کی وجہ سے ہے۔ان کے کلام کا ایک تہائی حصہ تصوف کے مضامین سے آراستہ ہے،اس
کلام میں مجازی و حقیقی دونوں طرح کا رنگ نظر آتا ہے۔
؎ بتوں کے حسن سے ہے نورِ حق عیاں ہوتا/مجاز پر بھی حقیقت کا ہے گماں ہوتا
؎ گزارا مجاز سے تو حقیقت کھلی مجھے/قرآں کا سامنا تھا جو ابجد تمام کی
؎ اس بت بے دیں کی زلفوں کا اشارہ ہے یہی/اس بلا میں وہ پھنسیں عاشق ہوں جو اللہ کے
پروفیسر احتشام حسین آتش کے صوفیانہ رنگ کے بارے میں لکھتے ہیں:” آتش کی زندگی اور شاعری دونوں میں تصوف کی روح، صوفی کی وسعت نظر اور صفائے قلب،قناعت پسندی اور استغنا کے وہ جلوے نظر آتے ہیں کہ انھیں صوفی شعرا کی بزم میں جگہ دینا غلط نہ ہوگا”۔22؎
اس دور کی لکھنوی شاعری میں تصوف کا اثر بہت کم نظر آتا ہے لیکن آتش نے اپنی شاعری میں تصوف کا چراغ روشن کر کے اپنی تخلیقی توانائی سے باطنی واردات کے چراغ جلائے اور اردو شاعری کو ایک ایسا رخ دیا جو دور ناسخ کی طرح وقت کی راگنی نہیں تھا۔آتش کے کلام میں جو توانائی اور وجدان نظر آتا ہے اس کا مخزن و منبع آتش کی شاعری کاوہ چراغ ہے جس نے اس دورکے باطن کو روشن کیا اور اس کی خارجیت میں داخلیت کا عنصر شامل کر کے اس کے توازن کو برقرا رکھا۔اگر اس دور کی شاعری کو خارج کر دیا جائے تو آج اس دور کی اہمیت نہ صرف باقی نہیں رہتی بلکہ دور ِتکرار اور اِعادہ کا دور بن کر رہ جائے گا۔آتش کے تصوف کی وسعت کا اندازہ درج ذیل اشعار سے لگایا جا سکتا ہے:
؎ جسم خاکی کے تلے جسم خاکی بھی ہے/اک قبا اور بھی ہم زیرِ قبا رکھتے ہیں
؎ اس شش جہت میں خوب تری جستجو کریں /کعبے میں چل کے سجدہ تجھے چار سو کریں
؎ دیدار عام کیجئے پردہ اٹھائیے/تا چند بندہ ہائے خدا آرزو کریں
؎ محشر کو بھی دیدار کا پردہ نہ کرے یار/ عاشق کو اندیشہ فردا ہے تو یہ ہے
؎ سیرِ دروں سے کنہ حقیقت کھلی مجھے/باہر نہیں کتاب کا مطلب کتاب سے
؎ دل لگی اپنے ترے ذکر سے کس رات نہ تھی/صبح تک شام سے یا ہو کے سوا بات نہ تھی
یہ وہ ا شعار ہیں جن کا تعلق براہ راست تصوف کی روایت اور صوفی کے تجربوں سے ہے۔ان اشعار میں تصوف کے بنیادی تصوارت اور تجربوں کو اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ روح ِ شاعری،اثر و تاثیر کے ساتھ،پوری طرح باقی رہتی ہے اور آتش کی فکر کو نمایاں کرتی ہے۔آتش کی شاعری میں تصوف کا یہ اثر پھول میں خوشبو کی طرح بسا ہوا ہے جسے کسی طور الگ نہیں کیا جاسکتا۔
آتش کی شاعری زندگی کے شعور سے جڑی ہوئی ہے۔وہ اپنے تجربوں اور مشاہدات کو شعر کا جامہ پہناتے ہیں اور اسی لیے عام مسائلِ حیات بھی ان کی شاعری میں اُبھرکر سامنے آتے ہیں۔وہ ان مسائل کو تنقیدی نظر سے دیکھتے اور زندگی کی دائمی قدروں کا ادراک حاصل کرتے ہیں،اسی لیے ان کے بہت سے اشعار ضرب الامثال بن گئے ہیں۔مثلاً:
؎ کسی نے مول نہ پوچھا دل ِ شکستہ کا/کوئی خرید کے ٹوٹا پیالہ کیا کرتا
؎ چُپ رہو دور رہو منہ نہ کھلواؤ/غافلو زخمِ زباں کا نہیں مرہم کوئی
؎ نہ کہہ رندوں سے حرف سخت واعظ/درشت اہلِ جہنم کی زبان ہے
عظمت ِانسانی کا بیان آتش کا ایک خاص موضوع ہے جو ان کی فکر کو تنگ دلی و تعصب سے بلند اٹھا کر بلند مشربی تک لے جاتاہے۔انسان مظہر نور الہی ہے۔حسن معنی نے صورت ِ انسان سے ظہور کیا ہے۔آدم ِ خاکی میں اسرار چھپے ہیں۔کلامِ آتش سے اس عنصر کے نمونے ملاحظہ کیجئے:
؎ سمجھے آتش نہ کوئی آدمِ خاکی کو حقیر /نہیں اسرار سے یہ خاک کا پتلا خالی
؎ گنج پنہاں ہیں تصرف میں بنی آدم کے/کان سے لعل،یہ دریا سے گوہر لیتا ہے
آتش کی طرز ادا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ زبان و بیان کی سطح پر” خیال” اور” ادا” کا ایک ایسا آہنگ پیدا کیا گیا ہے،جس میں شائشتگی بھی ہے اور نرمی بھی ہے جو آتش کی انفرادیت ہے اسی لیے بہت کم شعرا کے اتنے مصرعے زبانِ زدِ عام ہوئے جتنے آتش کے ہیں۔ ان کی طرز ادا میں مصورانہ انداز ہے، آتش کے کلام میں غالب سے زیادہ تصوریں اُبھرتی ہیں۔آتش الفاظ کی مدد سے تصویر بنانے کا عمل خوب جانتے تھے۔
ڈاکٹر سید عبداللہ آتش کی طرز ادا اور مصورانہ کاریگری کے بارے میں بیان کرتے ہیں:” آتش کی شاعری کے متعلق ایک عام رائے یہ ہے کہ وہ ادائے مطلب اور طرز کلام میں صفائی پیدا کرنےکی کوشش کرتے تھے۔اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ سب باتیں آتش کی طرز ادا کے متعلق ہیں اور صحیح بھی ہیں ،مگر ایک توخود آتش اپنے طرز ادا کے بارے میں مختلف رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کا کلام اتنا سپاٹ اور سادہ نہیں کہ جتنا ان کے زمانے کے حریف ہمیں باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں، آتش کی شاعری کو صرف طرز ادا کی گل کاری تک محدود کر دینا خود ان کے تصور ِ شاعری کے مطابق درست نہیں کیونکہ وہ شاعری کو اس سے کچھ مختلف سمجھتے تھے”23؎
خواجہ صاحب کے یہ شعر ملاحظہ کیجئے جن میں مصورانہ غنائی کا خوبصورت استعمال ہوا ہے۔
؎ دل شہید رہِ داماں نہ ہوا تھا سو ہوا/ٹکرے ٹکرے جو گربیاں نہ ہوا تھا سو ہوا
؎ آنکھوں سے اس پری کے دل ناتواں گرا/کہنیوں تک آستینوں کو چڑھا کر رہ گیا
آتش کی شاعری میں زندگی سے پیار کا تصور بھی اُبھرتا ہے۔زندگی سے پیارکا یہ انسانی رویہ ہے جو قنوطیت اور مرگ کو شکست دیتا ہے اور رجائیت کو اس کی جگہ لا کھڑا کرتا ہے۔آتش کی شاعری میں جو سرشاری، بانکپن اور حوصلہ مندی ہے،وہ اسی رویے سے پیدا ہوئی ہے جس میں ان کی آزاد منشی،سپاہیانہ و صوفیانہ مزاج نے خوبصورت رنگ گھولا ہے۔ان کا نشاطیہ لہجہ بھی اسی مزاج سے پیدا ہوا ہے۔
مثال کے طور پر یہ اشعار ملاحظہ کیجئے:
؎ دُنیا میں آکے جی نہیں جانے کو چاہتا/دل کش ہر اک دکا ں ہے بازار دل فریب
؎ دنیا کی ہے نہ فکر نہ عقبی کا تردد/آتش کہو آئی ہے طبیعت کدھر ایسی
اب تک میں نے آتش کی شاعری کے بارے میں جن مختلف پہلوؤں کا تنقید ی جائزہ لینے کی کوشش کی ہے اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آتش کی شاعری نے روح ِ عصر کا رشتہ آفاقیت سے جوڑا کر انھیں اس دور کا سب سے بڑا شاعر بنا دیا ہے۔آتش کے ہاں فکر اسلوب میں مل کر ایک اکائی بن گئی ہے۔،فکر کا اظہار لفظوں کا محتاج ہوتا ہے۔معنی و فکر کے تعلق سے جتنے موزوں الفاظ ہوں گے اتنا ہی شعر عمدہ اور پُر تاثیر ہوگا۔ الفاظ کا موزوں ترین استعمال آتش کی شاعری کاحسن ہے۔ان کے شعر پڑھ کر مصور اس خیال کی تصویر بنا سکتا ہے جو شعر میں پیش کیا گیا ہے۔آتش کی شاعری یہی مزاج ان کی شاعری کا نمایاں وصف اور کایگری ہے۔ اس لیے آتش شاعر مصور پیشہ کہلائے۔اس بات کی تصدیق خود ان کے اشعار سے ہوتی ہے،مثلاً:
؎ ہمارا شعر ہر اک عالم تصویر رکھتا ہے/مرقع جان کر ذی فہم دیواں مول لیتے ہیں
؎ یہ شاعر ہیں الہی یا مصور پیشہ ہیں کوئی/نئے نقشے نرالی صورتیں ایجاد کرتے ہیں
کلامِ آتش کا فکری و فنی جائزہ لینے سے ان کے تخلیقی عمل کے عناصر اربعہ واضح ہوتے ہیں یعنی خیال،فکر رنگیں،بندش الفاظ اور مرصع سازی،یہ چاروں عناصر مل کر تخلیق شعر کا باعث بنتے ہیں۔ان میں سے اگر ایک بھی کم یا کسی میں کوئی کسر رہ جائے تو شعر کی دلکشی ماند پڑ
جاتی ہے۔آتش میں امتزاجی عمل کا کمال تھا جیسے وہ حسن کو عشق سے اور جسم کو روح سے ملا کر ایک کر دیتے تھے اسی طرح خیال کو طرز ادا کے مختلف عناصر سے ملا کر مرکب ِخاص بنا دیتے ہیں کہ شعر روشنی سی دینے لگتا ہے۔بقول خلیل الرحمان اعظمی:” آتش کی غزل کا یہ نشہ اور رترنگ شعرائے ماضی کی تمام مانوس آوازوں سے علاحدہ ہے۔ان کی غزلوں میں فضا و مزاج کا ایک خاص تسلسل ملتا ہے جو نظم گوئی کے رجحان کا پیش خیمہ ہے۔آتش کی غزل معمۂ حیات ہے اور انسانی زندگی سے ہمارا رشتہ گہرا کرتی ہے اس لیے وہ آج تک اردو شعرا کے تخلیقی عمل پر اثر انداز ہورہی ہے”۔24؎
مختصر یہ کہ اُردو شاعری میں آتش کا مقام و مرتبہ ایک منفرد اور نرالی آن بان رکھتا ہے۔آتش کی غزل گوئی میں مسلسل ریاضت کا بڑا کردار ہے،آتش کی شاعری میں کلاسیکی اور جدید دور کے وہ تمام موضوعات کا منفرد اظہار ملتا ہے۔آتش کی شاعری کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ میرؔکے بعد آتش کا نام اُردو غزل کی پہچان اور افتخار کا مظہر ہے۔
حوالا جات
1۔کُلیات ِآتش،مرتبہ سید مرتضی حسین فاضل لکھنوی،مجلس ترقی ادب لاہور، اشاعت دوم، 2008،لاہور،ص13
2۔ریاض الفصحا از مصحفی،طبع ہندوستان،س،ن د،بحوالہ کُلیات ِآتش،مرتبہ سید مرتضی حسین فاضل لکھنوی،مجلس ترقی ادب لاہور،ص13
3۔سیرت فریدیہ،مقالات سرسید:ج۱۲،ص۰۴۲بحوالہ آب ِ بقا،طبع اعظم گڑھ،اشاعت اوّل1342ء،ص12
4۔عبدالروف عشرت،آب ِ بقا،طبع اعظم گڑھ،اشاعت اوّل1342ء،ص،12
5۔ریاض الفصحا از مصحفی،طبع ہندوستان،سن(ندارد)،ص،3
6۔محمد حسین،آزاد،آب حیات،اشاعت اول،علم و عرفان پبلی کیشنز2001ء،ص327
7۔عبدالروف عشرت،آب ِ بقا،ص13
8۔سوانح لکھنؤ،ص۔28 بحوالہ آب ِ بقا،طبع اعظم گڑھ،اشاعت اوّ1342ء،ص، 12
9۔عبدالروف عشرت،آب ِ بقا،ص، 13
10۔ایضاً
11۔ایضاً
12۔ محمد حسین،آزاد،آب حیات، اشاعت اول،علم و عرفان پبلی کیشنز،2001ء،ص326
13۔محمد حسین،آزاد،آب حیات، اشاعت اول،علم و عرفان پبلی کیشنز،2001ء،ص327
14۔دیوان آتش کے قدیم ترین قلمی نسخے،مرتب اکبر حیدر ی کشمیری،نقوش شمارہ،331،لاہور،1986ء،ص،29
51۔سید عبداللہ،ڈاکٹر، ولی سے اقبال تک،سنگ میل پبلی کیشنز،اشاعت دوم،2008،لاہور،ص،45
16۔وزیر آغا،ڈاکٹر،ردو شاعری کا مزاج،القمر پبلشرز،اشاعت اول 2006لاہور،ص،67
17۔خلیل الرحمان اعظمی،اُردو کے نمائندہ کلاسیکی غزل گو،اشاعت اول،1986۱ لاہور،ص،198
18۔پروفیسر آل احمد سرور،نئے پرانے چراغ،اُردو اکادمی سندھ، کراچی،ص،85
19۔پروفیسر آل احمد سرور،نئے پرانے چراغ ،ص،85
20۔وحید قریشی،ڈاکٹر،اردو کے نمائندہ کلاسیکی غزل گو شاعری،مشمولہ مضمون،کلاسیکی ادب کا تحقیقی مطالعہ،مکتبہ ادب جدید1965ء لاہور،ص،145
21۔ وزیر آغا،ڈاکٹر،ردو شاعری کا مزاج،ص،67
22۔احتشام حسین،ڈاکٹر،آتش کی صوفیانہ شاعری،ماہنامہ نقوش مشمارہ 8،لاہور، 1949،ص،13
23۔ سید عبداللہ،ڈاکٹر،ولی سے اقبال تک،سنگ میل پبلی کیشنز،اشاعت دوم 2006،لاہور،ص،67
24۔مقدمہ کلام ِ آتش،خلیل الرحمان اعظمی،انجمن ترقی اردو ہند علی گڑھ،1959ء،ص،86