You are currently viewing ” دبستانِ ٹونک کے ایک نمائندہ شاعر :  مرادؔ سعیدی “

” دبستانِ ٹونک کے ایک نمائندہ شاعر :  مرادؔ سعیدی “

ڈاکٹر سعادت رئیس

نذر باغ، ٹونک(راجستھان(

دبستانِ ٹونک کے ایک نمائندہ شاعر :  مرادؔ سعیدی

(تلخیص :- ‘‘دبستانِ ٹونک’’  کو اردوکا دبستان تسلیم کیا گیا۔ باہر سے ا ٓکر یہاں آباد ہونے والے صاحب علم حضرات میں سے ایک نام چراغِ شریعت حضرت مفتی سراج الدین خاں ؒ کا بھی تھا جو شہرِسوات سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ مرادؔ سعیدی ان ہی کے نامور فرزندِارجمند تھے۔۔ مرادؔ صاحب کے ایسے ہی کچھ منتخب اشعار اس مضمون میں پیش ہیں جو ان کی شاعری کے بہترین آئینہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ ان کو دبستانِ ٹونک کے نمائندہ شاعر ہونے کی پختہ دلیل بھی بن جاتے ہیں۔ مرادؔ صاحب کی شاعری کا اعتراف علم ادب کی دنیا کے ماہرین نے بھی کیا ہے اور ان کے بارے میں اپنی گراں قدر آراء بھی پیش کی ہیں۔ مرادؔ صاحب نے اپنی قابلیت،فن، اخلاق اور کردار سے و ہ مقام حاصل کیا جو ہر کسی کو میسّر نہیں ہوتا۔ دبستانِ ٹونک کے نمائندہ شاعروں کی فہرست میں مرادؔ صاحب کا نام روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ ان کے مجموعہ ہائے کلام میں زندگی کے ہر پہلو، جذبات و احساسات اور تخیل کی بلندی، تصوّف، فکر، حقیقیت پسندی، خلوص و محبت کا پیغام نیز ہر رنگ قوس و قزح کی طرح چھٹا بکھیرتا نظر آتا ہے۔ (

کلیدی الفاظ:دبستانِ ٹونک، اردو کا دبستان، مرادؔ سعیدی، منتخب اشعار، نمائندہ شاعر، اعتراف، آراء،محاسن ِ کلام،  مرادؔ اکیڈمی، ٹونک، راجستھان

         راجستھان میں علوم و فنون، شعر و شاعری اور اربابِ فکر و نظر کی سرزمین ٹونک ہر اعتبار سے اپنی ایک نمایاں خصوصیت رکھتی ہے۔ٹونک ایک چھوٹی سی ریاست ضرورتھی مگر معنوی اعتبار سے گراں قدر تھی۔ مفتی محمود الحسن، حافظ محمود شیرانی،مولانا احمد علی سیماب جیسے جیّد علماء اور اخترؔ شیرانی، بسملؔ سعیدی، اور مخمورؔ سعیدی جیسے نامی گرامی اردو زبان و ادب کے شعراء نے ٹونک کو پوری دنیا میں الگ پہچان دلوائی ہے۔ایسی ہی عظیم شخصیات کے توسّط سے ٹونک کو دبستان کی حیثیت حاصل ہو سکی ہے۔ سر زمینِ ٹونک کو‘‘دبستان ’’ ثابت کرنے میں متعدد شخصیات نے خونِ جگر صرف کیا۔ ان کے شاہ کاروں اور عظمتوں کی وجہ سے ٹونک کو یہ تمغہ حاصل ہوا۔

          ٹونک کے بہت سے مشہور و معروف شعراء کا تعلق دبستانِ دہلی اور لکھنؤ کے بڑے بڑے شعراء جیسے غالبؔ، داغؔ، ذوقؔ،  مومنؔ، حالیؔ وغیرہ سے رہا ہے۔اس وجہ سے ان دونوں دبستان کے اثرات دبستانِ ٹونک میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔دہلی اور لکھنؤ کی خصوصیات کے امتزاج اور علاقائی، قومی، مذہبی ماحولیات جیسے دیگراثرات کی وجہ سے ٹونک کے شعرا ء کے رنگِ سخن میں ایک منفرد لب و لہجہ اور محاسنِ فن کی الگ پہچان بن گئی ہے۔ جس نے ٹونک کادنیائے اردو ادب میں اپنا لوہا منوایا ہے۔اس لیے‘‘دبستانِ ٹونک’’  کو اردوکا دبستان تسلیم کیا گیا۔

         دبستان ِ ٹونک کی پُر نور فضا میں مقبول و مشہور شعراء حضرات کی ایک طویل فہرست ہے۔ جن کی شاعری سے ٹونک کو شہرۂ آفاق پہچان ملی۔ ان حضرات میں سیمابؔ، عاشقؔ ٹونکی،صولتؔؔ ٹونکی، جامؔ ٹونکی،بسملؔؔ ٹونکی، اخترؔ شیرانی، فائزؔ  ٹونکی، صائبؔ ٹونکی، دلؔ ایّوبی، بزمیؔ  ٹونکی، راشدؔ ٹونکی، مرادؔ سعیدی اور مخمورؔسعیدی جیسے شعراء کا نام اردو ادب کی دنیا میں نمایاں ہے اور یہ سلسلہ دور ِ حاضر میں بھی اپنے حسن و کمال کے سبب قدر و منزلت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔دورِ حاضر کے شعراء حضرات میں شوقؔ احسنی، حسنؔ اقبال، مختارؔ ٹونکی، ضیاؔء ٹونکی، ارشدؔ عبد الحمید،شعیبؔ احمد، صابر حسن رئیسؔ اور کیپٹن شاہینؔ جیسے مشہور و معروف شعراء حضرات کے نام قابلِ ذکر ہیں۔

         اس پس منظر میں سیمابؔ صاحب کا یہ شعر خودبخود زبان پر آرہا ہے کہ:

اے ارضِ ٹونک اسعدک اللہ دائماً

تو آج بھی ہے نورِ سعادت لیے ہوئے

          سہیل پیامیؔ صاحب اپنی مرتبہ کتاب”عزیزوں کے درمیاں“ میں لکھتے ہیں کہ:

         ”شعر و ادب میں اسے(ٹونک کو) راجستھان کا لکھنؤ کہا جاتا تھا۔ طوالت اگر مانع نہ ہو تو یہاں کے داعیانِ دین، اکابر و مشائخ،فضلاء اور شعراء کے صرف ا سمائے گرامی سے ہی کئی صفحات پُر کیے جا سکتے ہیں۔ مختلف ممالک اور علاقوں کے لوگ اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے یہاں کا رخ کیا کرتے تھے۔ باہر سے ا ٓکر یہاں آباد ہونے والے صاحب علم حضرات میں سے ایک نام چراغِ شریعت حضرت مفتی سراج الدین خاں ؒ کا بھی تھا جو سوات سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ آپ یہاں عدالت شرع شریف میں ناظم کے معزز عہدے پر فائز تھے۔ مرادؔ سعیدی ان ہی کے نامور فرزندِارجمند تھے۔ اپنے والد گرامی کی شخصیت، اساتذۂ سخن کی تربیت، ہم عصروں کی صحبت اور ان کی خدا داد صلاحیت نے ہی در اصل مرادؔ سعیدی کو مرادؔ سعیدی بنایا تھا۔’’(عزیزوں کے درمیاں، مرتب:سہیل پیامیؔ، ص:۱)

         بسملؔ سعیدی صاحب جیسے استاد شاعرکی سند ہی مرادؔ صاحب کو نمائندہ شاعر ثابت کرنے لیے کافی ہے۔ جب استادِ اساتذہ خود اپنے شاگرد کی شاعری کی خصلتیں بیان کرتے ہوئے اپنی مہر لگا دے تو پھر کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ ان کا پورا کلام ہی قابلِ داد وتحسین ہے۔ان کی شاعری میں وہ خوبیاں کارفرما ہیں جوکسی بھی دبستان کے نمائندہ شاعر میں ہونی چاہئیں اور بس مرادؔ صاحب کی شاعری کا مطالعہ بغیر کسی تعصب کے اور صادق دل و ذہن سے کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

         کسی شاعر کی اصل مقبولیت یہ ہے کہ اس کی شاعری سامعین اور قارئین کو  ایک عرصۂ دراز تک محظوظ کر سکے۔ اس کی شاعری کی شہرت اور اشعار کا ضرب المثل بن جانا  شاعر کی عظمت کی دلیل ہے۔ مرادؔ صاحب کے ایسے ہی کچھ منتخب اشعار جو ان کی شاعری کے بہترین آئینہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ ان کو دبستانِ ٹونک کے نمائندہ شاعر ہونے کی پختہ دلیل بھی بن جاتے ہیں، اہلِ شوق حضرات کی خدمت میں پیش ہیں:

تلمیح:

جب مصر کے بازار میں بکنے لگے یوصف

تب کوئی زلیخا سا خریدار ملے ہے

مبالغہ:

مل گیا جب سے تری زلفوں کا سایہ مجھ کو

گردشِ چرخ مرے زیرِ اثر لگتی ہے

تضاد:

زندگی اب تری بے دردی پر

موت ہمدرد ہوئی جاتی ہے

ہوئی جاتی ہے منزل دور جتنا بڑھتا جاتا ہوں

میسّر مجھ کو شاید قربِ منزل ہو نہیں سکتا

سہل ممتنع:

داستاں میری زمانے کے لیے

عبرت آموز ہوئی جاتی ہے

 موسقیت/ ترنم:

قسمت سے مل گئی ہے جگہ چشمِ یار میں

ہے عالمِ نشاط مرے اختیار میں

 بے ثباتی حیات:

زندگی موت تو قبضے میں خدا کے ہے مرادؔ

وہ اگر چاہے تو اک پل میں یہ دنیا نہ رہے

پیکر تراشی:

مایوسیوں کی دھوپ میں ہے زندگی نڈھال

دل بجھ گیا تو شوق کے سائے بھی ڈھل گئے

فطری پن:

تمام  عمر کسی کے کبھی جو بن نہ سکے

مرادؔ ان کو بھی اپنا لیا میں نے

رومانیت:

دشت میں جائیں تو گلزار وہ بن جائے مرادؔ

باغ میں آئیں تو پھولوں کی نظر لگتی ہے

ظرافت:

ہر ایک طرح سے ان کو ہے اب خیال مرادؔ

ہر ایک حال میں رکھتے ہیں شادماں مجھ کو

دیکھے کوئی بازارِ شرافت کی دورنگی

ہے بورڈ تو کچھ اور دکاں اور ہی کچھ ہے

روز مرّہ زبان:

ہمیشہ رہے وقت کی ٹھوکروں میں

جو گھبرا گئے انقلابِ جہاں سے

 محاورات کا استعمال:

کچھ اس ادا سے اس نے ہے دیکھا مجھے مرادؔ

مارے خوشی کے آنکھ سے آنسو نکل گئے

 سلاست:

دنیا کسی نظر سے مجھے دیکھتی رہے

تیری نوازشوں کی نظر چاہتا ہوں

کوئی ایسی گھڑی نہیں ہوتی

جس میں یاد آپ کی نہیں ہوتی

تصوف:

یہ کس سے پوچھتے کہ گزرتی ہے کیا وہاں

اس بزمِ ناز میں جو گئے رہ گئے

حسن و عشق:

پھر ترے حسن سے تشبیہ مکمل ہوتی

اور ہوتا جو حسیں تاج محل تھوڑا سا

معاملہ بندی:

بھٹک سکتے نہیں راہِ محبت سے قدم اپنے

محبت کا ہماری سلسلہ راہِ عدم تک ہے

پھریں قول و قسم سے آپ میں وعدہ سے بھرتا ہوں

مرا وعدہ وفا کا آپ کے قول و قسم تک ہے

 جدّتِ خیال:

خندہ زن ہم پہ فرشتے ہیں تو اس دنیا میں

چار دن کے لیے آ جائیں وہ انساں ہو کر

محبت کی آفاقیت:

دل اور محبت اک دو لفظ ہیں کہنے کو

پوشیدہ مگر ان میں دنیا کی کہانی ہے

 جذبات نگاری:

پوچھے اپنے آستاں سے کبھی جس خلوص سے

میری جبینِ شوق نے سجدے لٹائے ہیں

 صداقت و خلوص:

ہو نہ شامل اگر خلوص مرادؔ

بندگی بندگی نہیں ہوتی

انسانیت:

منزل پہ کچھ پہنچ گئے دشواریوں پہ بھی

جو رہ گئے وہ راہ میں گھبرا کے رہ گئے

فلاحِ عام و فلاحِ جہاں کی بات کرو

خدا کے واسطے امن و اماں کی بات کرو

 حب الوطنی:

نازاں ہے مرادؔ آج بہت اپنے وطن پر

یہ اس کا وطن آج بھی جنّت کی زمیں ہے

تراکیب کا استعمال:

جس کی جانب گوشہئ چشمِ سلیماں ہو گیا

اس کی جانب التفاتِ فضلِ یزداں ہو گیا

 فارسی آمیزش:

گردش شام و سحر کا مقتضا یہ ہے مرادؔ

ہر زوالے را کمال و ہر کمالے را زوال

 ٹونک کی زبان کی جھلک:

واقعی مجھ پہ اگر تیری عنایت ہے تو پھر

جس پہ ہو تیری عنایت وہ پریشاں کیوں ہو

 تشبیہ:

پھر ترے حسن سے تشبیہ مکمل ہوتی

اور ہوتا جو حسیں تاج محل تھوڑا سا

ہم کہ میخانہئ عالم میں سکوں پا نہ سکے

گردشِ وقت نے رکھا ہمیں ساغر کی طرح

اساتذہ کا احترام و اعتراف:

فیض مخصوص ہے یہ حضرتِ بسملؔ کا مرادؔ

داد ہر شعر کی لے کر جو وہ محفل سے اٹھا

قومی یکجہتی:

گلشنِ ہندوستاں پر ہے خدا کا یہ کرم

غنچہ ہائے اتّحاد باہمی کھلنے لگے

جشن دیوالی کے ہوں یا جشن عیدین کے

ہندو و مسلم خوشی سے سب گلے ملنے لگے

بسملؔ ٹونکی کے رنگِ سخن کی جھلک:

آج غفلت پہ وہ روتا نظر آتا ہے مرادؔ

اس زمانے میں ہنسا جو کوئی کل تھوڑا سا

 غالبؔ کے رنگِ سخن کی جھلک:

مشکلِ عشق سے گھبراؤں میں کس طرح مرادؔ

جتنی مشکل ہے مجھے اتنی ہی آسانی ہے

فکرِ اقبالؔ کے حوالے سے مرادؔ صاحب کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:

بن کے انسان تو دنیا میں ہم آتے ہیں مگر

یہ ستم کیا ہے کہ رہتے نہیں انساں ہو کر

         اسی طرح دورِ حاضر کے پس منظر میں یہ چند اشعار آج بھی کتنے ہی موزوں اور سچّے نظر آتے ہیں جو مرادؔ صاحب کی دور اندیشی، فکر اور تجربات کو خود ہی بیان کر رہے ہیں:

؎ آئینِ میکدہ نہیں بدلا ہے آج تک

میکش وہی ہیں اور وہی میکشی کا رنگ

 
؎ میں زمانے میں محبت کا پجاری ہوں مرادؔ

لوگ پھر بھی مرے پیغام سے جل جاتے ہیں

 

؎ اب کس کو سنائیں غمِ فرقت کی کہانی

ہمدرد یہاں کوئی نہ غمخوار ملے ہے

 
؎ جن کو فروغِ لالہ و گل کا نہیں خیال

اپنے چمن کو ایسے نگہباں بہت ملے

کم رہ گئے ہیں ایسے کہ جن میں خلوص ہو

ملنے کو یوں زمانے میں انساں بہت ملے

ایسی بھی رہگزر سے میں گزرا ہوں اے مرادؔ

جس رہگزر میں صاحبِ ایماں بہت ملے

 
؎ تیرے اندازِ نظر پر ہے زمانے کی نظر

تیری نظریں ہیں زمانے کا مقدر ساقی

 
؎ مرادؔ حد ہے کوئی میری نامرادی کی

کہ لاکھ بار جو چاہوں وہ ایک بار نہ ہو

 

         مذکورہ بالا اشعار کی روشنی میں مرادؔ صاحب کی شاعری کی نمائندہ خصوصیات نمودار ہو جاتی ہیں۔مرادؔ صاحب کی شاعری کا اعتراف علم ادب کی دنیا کے ماہرین نے بھی کیا ہے اور ان کے بارے میں اپنی گراں قدر آراء بھی پیش کی ہیں۔ سب سے بڑی دلیل اور باعث فخر بات یہ ہوتی ہے کہ استاد خود اپنے شاگرد کے اعتراف میں چند کلمات بیان کر دے اور اس معاملے میں مرادؔ صاحب بہت خوش قسمت رہے۔

         صاحبزادہ شوکت علی خاں صاحب لکھتے ہیں:

         ”ان کے کلام بلاغتِ نظام میں قدیم روایتی شاعری کی محیط روایتی اقدار اور بسیط تراکیب و اسالیب کے آثار پائے جاتے ہیں لیکن جدیدیت کے صالح انوار و اطوار بھی شانِ امتیازی کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ وہ قدیم رنگِ تغزل کے شیدائی تو تھے لیکن بدلتے حالات و واردات کو بھی بڑے شستہ اور آراستہ و پیراستہ انداز میں اپنے محسوسات و مشاہدات میں سمولیتے تھے۔ اس لئے ان کا رنگ قدیمانہ اور آہنگ مجتہدانہ تھا جو ان کی مقبول ترین چہار بیت صنفِ سخن میں مملو نظر آتا ہے۔

         ویسے وہ خالص غزل کے شاعر نغمہ طراز اور نکتہ پرداز، ترجمانِ جمال و کمال، اور تخیل و تغزل کے فکر انگیز اور معنی خیز میرِ تغزل تھے۔ ان کے کلام ارتسام میں معنویت کے ساتھ ساتھ محسوسات و واردات و مشاہدات کا تموّج نظر آتا ہے، ان کی شاعری میں تغزل، تغزل میں غنائیت، غنائیت میں زیبائی، اور زیبائی میں تفکر، تفکر میں تخیل، تخیل میں تجمل، تجمل میں تفصل، تفصل میں تشکل،اور تشکل میں شانِ محاکات نظر آتی ہے۔“(گلدستۂ مرادؔ، مرتب: شوقؔ احسنی، ص: ۰۲)

          حضرت صولتؔ ٹونکی اور حضرت بسملؔ سعیدی کی خاص توجہ نے مرادؔ صاحب کے فن کو ایسی جلا بخشی کہ آج مرادؔ صاحب دبستانِ ٹونک کے افق پر ایک شاندار اور ضیا بار تارے کی طرح چمکتے نظر آتے ہیں۔ مرادؔ صاحب نے اپنی قابلیت،فن، اخلاق اور کردار سے و ہ مقام حاصل کیا جو ہر کسی کو میسّر نہیں ہوتا۔ کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ، تلوک چند محرومؔ، بسملؔ سعیدی اور مولانا ماہرؔ القادری جیسے ادب کے مینار اوراہم ترین اکابرین مرادؔ صاحب کے دلدادہ تھے۔ ساتھ ہی ان کی شاعری کے پرستار بھی تھے۔ گویا کہ اپنے دور کے اہم ترین اساتذہ نے ان کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف کیا۔ا ن کے انتقال کے تقریباًچالیس سال بعد بھی ان کے فن، اخلاق اور طرز زندگی پردنیائے علم اور ادب کے لوگ فخر کرتے ہیں۔وہ معنی کی پیچیدگی اور بیان کے پیچ و خم میں الجھے بغیر ایسے شعر کہتے ہیں جو سیدھے دل میں اترجاتے ہیں۔

         مرادؔ صاحب کے لیے یہ شعر بہت موزوں ہے کہ

ایں سعادت بزورِ بازو نیست

تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

         دبستانِ ٹونک کے نمائندہ شاعروں کی فہرست میں مرادؔ صاحب کا نام روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ ان کے مجموعہ ہائے کلام میں زندگی کے ہر پہلو، جذبات و احساسات اور تخیل کی بلندی، تصوّف، فکر، حقیقیت پسندی، خلوص و محبت کا پیغام نیز ہر رنگ قوس و قزح کی طرح چھٹا بکھیرتا نظر آتا ہے۔

         مرادؔ صاحب کی اس عظمت اور شہرت کو بنائے رکھنے اور مزید عروج بخشنے میں ان کے لائق و فائق فرزندِ ارجمند استادِ من جناب فہیم الدین خاں صاحب پیش پیش رہے ہیں۔آپ اپنے والد محترم مرادؔ صاحب اور اردو سے محبت و خدمت کے لیے بذریعۂ مرادؔ اکیڈمی کوشاں رہتے ہیں۔

         الغرض مرادؔ صاحب کے اس شعر کے ساتھ اجازت چاہوں گا کہ:

ملتی جو مرادؔ اپنے کو کچھ لکھنے کی فرصت

دکھلاتے روانئ قلم اور زیادہ

٭٭٭

موبائل: 9214991204

اِی میل :saadat105@gmail.com

Leave a Reply