You are currently viewing دو رنگوں کا شاعر :عتیق احمد جاذب

دو رنگوں کا شاعر :عتیق احمد جاذب

ایس معشوق احمد

دو رنگوں کا شاعر :عتیق احمد جاذب

اردو شاعری کے موضوعات میں تنوع ہے۔شعراء نے اپنی ذہنی ساخت اور فکری رحجان کے اعتبار سے مختلف موضوعات کو شعر کا جامہ پہنایا ہے۔اپنے  اشعار  میں عشق کی واردات اور محبت کی کیفیات کا ذکر  کیا ہے اور مذہب ،تصوف ، سیاسی و سماجی حالات ،فلسفہ ،مناظر فطرت  اور فکر و خیال کے تمام گوشوں کو بھی بیان کیا ہے۔شاعری کا دامن  وسیع  ہے اور اس  میں ملائم و شیرین الفاظ کی کشش قاری کو اپنی طرف جلد متوجہ کرتی ہے۔بعض شعراء غم عشق کو پیش کرتے ہیں تو بعض نے غم دنیا کو مصرعوں میں پرونے کی کوشش کی ہے۔کچھ ایسے بھی ہیں جہنوں نے زندگی کی تلخیوں کو ہنسی میں اڑایا اور دوسروں کو ہنسانے کی ذمہ داری اٹھائی، تو کچھ نے ہجر و صال کے گیت سنائے۔ایسے بھی شعراء گزرے ہیں جنہوں نے اللہ رب العزت کی رحمتوں کا ذکر کیا ، رحمان کی نعمتوں کے گن گائے اور اس کی عطا کردہ تمام  برکتوں پر شکر بجا لایا۔خود بھی رحمت والے کے دین پر چلے اور لوگوں کو بھی تلقین کی کہ وہ رب کے احکام اور نبیؐ کی سنتوں کے عین مطابق زندگی بسر کریں۔ایسے ہی ایک شاعر  کے عتیق احمد تھے جنہوں نے لوگوں کو خوب ہنسایا اور بعد میں دین اسلام پر چلنے کی تلقین کی۔ کے عتیق احمد نے  اسلام کی تعلیمات کو شاعری میں پیش کیا تاکہ معاشرے میں پنپ رہی برائیوں کا خاتمہ ہوجائے۔

ادبی دنیا میں عتیق احمد جاذب کے نام سے معروف شاعر 1947 ء کو صوبہ ٹمل ناڈو ،ضلع ویلور ،شہر وانمباڑی میں پیدا ہوئے۔بچپن سے ہی شعر وشاعری سے شغف تھا۔آپ  کے دادا کرشنگری عبد الحمید مدرسہ نسواں کے بانیوں میں سے تھے۔والد حیدر الحسن حیدر تاجر چرم اور  شاعر تھے۔تایا محمود الحسن محمود بھی شاعر تھے۔چچا مولانا اسلام اللہ مشہور عالم دین تھے۔بھائی اقبال احمد کلیم طاہری اور منجھلے بھائی مختار احمد اختر بھی شاعر ہیں۔سگے بھائیوں سے لے کر ماموں زاد بھائی اشفاق الرحمن مظہر اور ملک العزیز بھی شاعر گرزے ہیں۔وراثت میں ملے شاعری ذوق کی طرف اپنے شعری مجموعے ” پیام حیات (2006) ء  کے  ” عرض شاعر ” میں اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ__
” ایک سیدھا سادہ سا ذوق تھا جو مجھے وراثت میں مل گیا  ہے اسی کو میں نے مقصدی اور اصلاحی رنگ دیا ہے”۔
عتیق احمد جاذب  کو اردو، فارسی ،عربی ، ٹمل اور انگریزی زبان پر عبور حاصل ہے۔آپ کی شعری مجموعوں میں پیام حیات ( 2006)ء ، متاع حیات ( 2006)ء اور گلدستہ حیات ( 2012) ء شامل ہیں۔نثر میں آپ کی کتاب ” جھلکیاں ” کے نام سے شائع ہوئی ہے۔اس کتاب میں 1971ء کے بزم نو کے مشاعرے کی روداد  اور اٹھائیس شعراء کا کلام درج  ہے۔ یہ کتاب مزاحیہ انداز لیے ہوئے ہے اور تمہید سے اختتام تک کی ساری  روداد  نہایت دلچسپ ہے۔اس کتاب میں  مشاعرے کی صدارت مرزا اسد اللہ خان غالب کو سونپی گئی ہے۔انگریزی زبان میں آپ کی اب تک چار کتابیں

1.live a long life
2.you can become rich
3.our rights and responsibilities 4.the perfect life
شائع ہوکر مشہور ہو چکی ہیں۔عتیق احمد  جاذب نے اردو کی خدمت کے جذبے کے تحت کیمپوٹر اکاڈمی قائم کی جہاں اردو ڈی ٹی پی کی تربیت دی جاتی ہے۔آپ کی طویل ادبی اور شعری خدمات کے صلے میں 2013 ء میں آپ کو ” کاکا محمد زبیر ایوارڈ برائے ادب” سے نوازا گیا۔ اصلاحی اور  مذہبی  فکر کے  شاعر عتیق احمد جاذب  کا انتقال 21 مارچ 2023 کو ہوا۔
عتیق احمد جاذب بچپن سے ہی شاعری کی طرف مائل تھے۔شاعری کا آغاز بزم نو وانمباڑی سے کیا۔آپ کو جو شہرت کی بلندیاں ملی ہیں اگر آپ  فقط ایک حمد ” ہم نے تجھے جانا ہے فقط تیری عطا سے” لکھتے تب بھی اتنے  ہی معروف ہوتے اور ادبی حلقوں میں آپ کے تب بھی اتنے ہی چرچے ہوتے جتنے ہیں۔ عتیق احمد  جاذب کی شاعری کے دو رنگ ہیں  ایک سنجیدہ،مقصدی   اور اصلاحی دوسرا طنز و مزاح سے بھر پور۔آپ پر پہلا رنگ طنزیہ و مزاحیہ شاعری کا چڑھا اور آپ بہت جلد اردو دنیا میں مقبول ہوئے۔آپ اپنی طنزیہ و مزاحیہ شاعری سے محفل کو زعفران زار بناتے تھے۔ بریانی اور سو کا نوٹ جیسی نظمیں اس رنگ سے رنگی ہوئی ہے۔چند طنزیہ ومزاحیہ اشعار دیکھیں۔

خاوند کوئی اور ہے رغبت کسی سے ہے
شادی کسی اور محبت کسی سے ہے
یہ دو رخی ہے مغربی تہذیب کا چلن
بیوی کسی کی اور ہے چاہت کسی کی ہے

درحقیقت ریلٹی کچھ اور ہے
میرے دل کی کولٹی کچھ اور ہے
میں تو دیتا ہوں محبت کا پیام
ان کی ہی منٹیلٹی کچھ اور ہے

حواس ،ہوش اور احساس کا لائیسنس کافی ہے
ذرا سا جوش اور جذبات کا بیلینس کافی ہے
میری باتیں کسی کی عقل سے اونچی نہیں ہوتیں
میری باتیں سمجھنی ہو تو کامنسنس کافی ہے
عتیق احمد جاذب کی شاعری کا دوسرا گہرا رنگ 1970 ء کے بعد دیکھنے کو ملتا ہے جب آپ کی شناسائی اسلامی ادب سے ہوئی اور آپ کے مزاج میں سنجیدگی ،مذہبی اور معاشرتی اصلاح کا جذبہ پیدا ہوا۔آپ نے تہذیبی مسائل کے علاوہ سماجی ،معاشی،انسانی مسائل کے ساتھ ساتھ مذہبی موضوعات پر  بھی قلم اٹھایا ہے۔انسانی سماج میں پنپ رہی برائیوں اور خرابیوں کو اپنی شاعری کے ذریعے دور کرنے کی کوشش کی۔عتیق احمد جاذب نے اسلامی فکر ،عقائد ،نظریات ،اخلاق ،آداب اور تعلیمات کو آسان اور عام فہم زبان میں اپنی شاعری میں بیان کیا۔انور فرید آپ کی شاعری کے متعلق یوں رقمطراز ہیں کہ____
” کلام جاذب میں زندگی کی نمود ، تعمیر فکر ، تعمیر کردار اور انسانیت کے اصلی اقدار کی ترجمانی ملتی ہے جو ذہن و دل کے بند دریچوں کو وا کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کی شاعری فکر و خیال کو روشن کرتی ہے ،انبساط روح کا سامان بھی مہیا کرتی ہے”۔
مختلف زمانوں میں انسان نے اپنے شعور  اور علمی سطح کے مطابق خدا کے لیے بے شمار نظری اور مادی روپ تراشے۔نسوانی خدا کا بھی تصور تھا اور ایک بڑا گروہ  دیوی کی پوجا کرتا تھا۔بعض لوگ آنیلل کو دیوتا مانتے تھے اور اس سے بہت خوفزدہ تھے کہ یہ سیلاب لاتا تھا۔یونانی دیوتاؤں کو دو حصوں میں تقسیم کرتے تھے۔ان میں سے ایک اولمپیس دیوتا تھا جو اولمپیا پہاڑ پر بیٹھ کر اپنی مکمل طاقت سے دنیا پر حمکرانی کرتا تھا اور دوسرا زمینی دیوتا تھا۔اولمپیس دیوتا بارہ تھے اور ان کا باپ زیوس دیوتا تھا۔زیوس دیوتا کی بیوی ہیرا تھی۔مصر کے بادشاہ اخناتن نے ایک دفعہ فرمان جاری کیا تھا کہ صرف آفتاب دیوتا آٹن کی عبادت کی جائے۔اسی طرح زرتشت آہورا مازدا نامی خدا کو مانتے تھے۔

صحرائے عرب کے خانہ بدوش قبیلے یہووا کی عبادت کرتے تھے۔ارتقاء کے ساتھ ساتھ دنیا میں مذاہب بھی پیدا ہوئے اور نسل در نسل لوگ اس سے متاثر بھی ہوئے۔انسان نے کائنات اور زندگی کے بارے میں ہی علم حاصل نہ کیا بلکہ اس جستجو میں بھی رہا کہ اس کائنات کا حقیقی خالق کون ہے۔حقیقی خالق کی پہچان کرانے کے لیے دنیا میں مختلف پیغبر آئے۔قرآن جیسی مقدس کتاب زمین  اتاری گئی تاکہ انسان اپنی مالک کو پہچان سکے۔قرآن کریم کے سورہ اخلاص میں اللہ رب العزت کے اوصاف بیان ہوئے ہیں کہ  وہ اللہ ایک ہے، بے نیاز ہے،نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور اس کے برابر کا کوئی نہیں ہے۔سارے خدا کو مانتے ہیں لیکن خدا کو کسی نے دیکھا نہیں ہے۔عتیق احمد جاذب نے اپنی شاعری میں  خدا کی پہچان اس کی عطا کردہ نعمتوں سے کرائی ہے۔اللہ رب العزت کو جانے کا یہ طریقہ نہایت ہی خاص ہے۔اس نے اپنے بندوں کو کن کن نعمتوں سے نوازا ہے اور بندہ اس کو کیسے جان سکتا ہے عتیق احمد جاذب کی مشہور حمد کے اشعار دیکھیں__

ہم نے تجھے جانا ہے فقط تیری عطا سے

سورج کے اجالوں سے، فضاؤں سے ، خلا سے
چاند اور ستاروں کی چمک اور ضیا سے
جنگل کی خموشی سے، پہاڑوں کی انا سے
پرہول سمندر سے ، پراسرار گھٹا سے
بجلی کے چمکنے سے ، کڑکنے کی صدا سے
مٹی کے خزانوں سے، اناجوں سے، غذا سے
برسات سے، طوفان سے، پانی سے، ہوا سے
ہم نے تجھے جانا ہے فقط تیری عطا سے

گلشن کی بہاروں سے، تو کلیوں کی حیا سے
معصوم سی روتی ہوئی شبنم کی ادا سے
لہراتی ہوئی باد سحر، باد صبا سے
ہر رنگ کے ہر شان کے پھولوں کی قبا سے
چڑیوں کے چہکنے سے تو بلبل کی نوا سے
موتی کی نزاکت سے تو ہیرے کی جلا سے
ہر شے کے جھلکتے ہوئے فن اور کلا سے
ہم نے تجھے جانا ہے فقط تیری عطا سے

دنیا کے حوادث سے ، وفاؤں سے، جفا سے
رنج و غم و آلام سے، دردوں سے، دوا سے
خوشیوں سے، تبسم سے، مریضوں کی شفا سے
بچوں کی شرارت سے تو ماؤں کی دعا سے
نیکی سے، عبادات سے، لغزش سے، خطا سے
خود اپنے ہی سینے کے دھڑکنے کی صدا سے
رحمت تیری ہر گام پہ دیتی ہے دلاسے
ہم نے تجھے جانا ہے فقط تیری عطا سے

ابلیس کے فتنوں سے تو آدم کی خطا سے
اوصاف براہیم سے، یوسف کی حیا سے
اور حضرت ایوب کی تسلیم و رضا سے
عیسیٰ کی مسیحائی سے، موسیٰ کے عصا سے
نمرود کے، فرعون کے انجام فنا سے
کعبہ کے تقدس سے تو مرویٰ و صفا سے
تورات سے، انجیل سے، قرآں کی صدا سے
یٰسین سے، طٰہٰ سے، مزمل سے ، نبا سے
اک نور جو نکلا تھا کبھی غار حرا سے
ہم نے تجھے جانا ہے فقط تیری عطا سے

مخلتف وقتوں میں اللہ رب العزت کے پیغمبروں نے اللہ کا پیغام اس کے بندوں تک پہچایا ہے۔شاعری کو جزو پیغمبری مانا گیا ہے اور بعض شعراء نے پیغام اسلام کی ترویج کے لیے اپنے آپ کو وقف کیا۔شاعری کے ذریعے شدت کے ساتھ اسلامی فکر کی ترجمانی کرنے والے عتیق احمد جاذب نے اپنے اشعار کے ذریعے دینی احکامات اور اخلاقی اقدار کو فروغ دیا۔ملت کی حالت کسی سے چھپی نہیں ہے۔فرقہ بندی ہے کہیں تو کہیں ذاتیں ہیں۔جن کا رب ایک ہے ،حرم پاک ایک، کعبہ ایک ،قرآن ایک وہ امت گروہوں میں بٹ گئی ہے۔کوئی حنفی ہے تو کوئی شافعی،کوئی مالیکی تو کوئی حنبلی،دیوبندی ،بریلوی، اہلحدیث،کوئی شعیہ تو کوئی سنی  لیکن  ایک امت کے طور اتحاد کے دائرے میں نہیں ہے۔عتیق احمد جاذب “اتحاد ملت ” میں تمام فرقوں کو ایک ہونے کا مشورہ دے رہے ہیں__
خدا کی ذات پر ہے جن کو ایمان ایک ہوجائیں
خدا کو مانتے ہیں رب و رحمان ایک ہوجائیں
خدا کا دین پہونچایا ہے بندوں تک محمد نے
رسول اللہ پر ہے جن کو ایمان ایک ہوجائیں
ہمارے واسطے اللہ نے قرآن بھیجا ہے
وہ جن کو جان سے پیارا قرآن ایک ہوجائیں
خدا کے پاس جانا ہے خدا کو منہ دکھانا ہے
خدا کا جن کے دل میں ڈر ہے پنہاں ایک ہوجائیں
آگے لکھتے ہیں کہ___
وہ حنفی ہوں کہ شافعی ہوں وہ حنبلی ہوں کہ مالیکی
اگر وہ پڑھ رہے ہیں ایک قرآن ایک ہوجائیں
انھیں کمزور کر رکھا ہے انکے اپنے جھگڑوں نے
جو ہے طاغوت کے ڈر سے ہراساں ایک ہوجائیں
ہمارے دین و ایمان کی حفاظت ہو نہیں سکتی
خدا کا مان لیں چپ چاپ فرمان ایک ہوجائیں
جہالت ہے،رذالت ہے،شرارت ہے یہاں ہر سو
بچانا ہے جنھیں اب دین و ایمان ایک ہوجائیں

آخر پر یہ پیغام دیتے ہیں کہ:

ہے کعبہ ایک جن کا ،ایک قرآن ایک ہوجائیں
ہے خیریت کہ اب سارے مسلمان ایک ہوجائیں

اولاد اللہ کی خاص رحمت ہے۔آج کے پرفتن دور میں جہاں معاشرے میں بہت ساری برائیوں  نے اپنی جڑیں مضبوط کی ہیں ان کی احسن طریقے سے تربیت کرنا والدین کی اولین ذمہ داری ہے۔وہی اولاد نیک اور صالح  ثابت ہوتی ہے جس کی والدین نے بہترین تربیت کی ہوگی۔اولاد کو نیک اور بد بنانے میں والدین کا بڑا دخل ہے۔موجودہ دور میں اخلاقی گراوٹ ،دین سے دوری، بے حیائی ،ظاہر داری، نشے کی لت اور گناہوں کے دلدل میں دھنس جانا عام ہے۔ایسے میں اگر اولاد کی تربیت صحیح ڈھنگ سے کی جائے تو اولاد شیطان کا آلہ کار بننے کے بجائے رحمان کی فرمانبردار بن جائے گی۔عتیق احمد جاذب والدین سے تلقین کرتے ہیں کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت احسن ڈھنگ سے کریں۔” تربیت اولاد کی ” میں عتیق احمد جاذب کے مطابق  بہترین تربیت سے نہ صرف شخصیت چمکدار ہوگی ، حیثیت بہتر اور عاقبت سنور جائے گی بلکہ اگر اولاد اچھی ہو تو والدین کے لیے مغفرت کا سبب بننے گی۔نظم کے اشعار ہیں__
کیجیے بہتر سے بہتر تربیت اولاد کی
تاکہ نکھرے اور چمکے شخصیت اولاد کی
اس جہاں میں بھی بنے گی حیثیت اولاد کی
اور سنور گی یقینا عاقبت اولاد کی

تربیت میں ان کی خاطر کوئی سمجھوتہ نہ ہو
آپ کو مانع نہ رکھے انسیت اولاد کی

آپ جب جاتے رہینگے اس جہاں کو چھوڑ کر
کام آئے گی دعائے مغفرت اولاد کی

اس سے بڑھ کر کوئی تحفہ باپ دے سکتا نہیں
سب سے زیادہ قیمتی ہے تربیت اولاد کی
عبادات بہت ساری ہیں لیکن قیامت کے روز سب سے پہلے نماز کا حساب ہوگا۔اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں  اپنے بندوں کو نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے اور احادیث میں بھی تاکید کی گئی ہے کہ نماز قائم کرو کہ یہ بےحیائی سے بچاتی ہے۔نماز ایسی عبادت ہے جس کی فرضیت آسمانوں پر ہوئی۔یہ فلاح کا راستہ ہے اور گمراہی سے بچاتی ہے۔عتیق احمد جاذب نے ” نماز ” میں نماز کے فیوض اور برکتوں کا ذکر ان اشعار میں کیا ہے___
سب لگاموں کو توڑتی ہے نماز
رب سے بندے کو جوڑتی ہے نماز

راستے پر فلاح کے لاکر
ہر نمازی کو چھوڑتی ہے نماز

زندگی کو بچا کے ظلمت سے
نور کی سمت موڑتی ہے نماز

بے حیائی سے روک دیتی ہے
آدمی کو جھنجوڑتی ہے نماز

جو روکاٹ ہوں کامیابی میں
ان چٹانوں کو توڑتی ہے نماز

گمراہوں سے بچا کر انسان کو
نیک بندوں سے جوڑتی ہے نماز

نوجوانوں کے لیے جاذب کا پیغام ہے کہ__
صبر کا تو مزاج پیدا کر
شکر کا امتزاج پیدا کر
بن جا صوم و صلوت کا پابند
نیکیوں کا سماج پیدا کر
فکر باطل سے کر نہ سمجھوتہ
قوت احتجاج پیدا کر
( اے مسلم نوجوان)
انسان کو اللہ رب العزت نے اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ فرشتوں کو حکم دیا کہ اس کے آگے  سجدہ کرو،کتابوں سے بھی نوازا تاکہ ہدایت پائے، عقل دی، علم کی روشنی سے نوازا، غرض کیا کیا نعمتیں اور عیش کا سامان عطا کیا  ہے۔ اس سب کے باوجود   انسان اپنے رتبے سے گر کر درندوں جیسی حرکتیں کر رہا ہے۔اگر انسان نے گناہوں سے خود کو نہ روکا اور اسی روش پر چلتا رہا تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔عتیق احمد جاذب انسان کو اپنا مرتبہ پہچاننے، نیکی کے راستے پر چلنے اور برائیوں سے بچنے کی تلقیں کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ__
خدا نے خلیفہ بنایا ہے تجھ کو
فرشتوں سے اونچا اٹھایا ہے تجھ کو
بلند مرتبے پر بٹھایا ہے تجھ کو
ملائک سے سجدہ کرایا ہے تجھ کو
تجھے علم کی آگہی سے نوازا
تجھے عقل کی روشنی سے نوازا

خدا نے تقویم احسن بنایا
تو کیوں اسفل السافلین بن گیا ہے
درندوں کو بھی تجھ سے شرم آرہی ہے
یہ کیسے گڑھے میں گرا جارہا ہے
تیری بدنصیبی کی یہ انتہا ہے
جہنم کے تو اب دہانے کھڑا ہے
اگر کر لے توبہ تو شاید بچے گا
وگرنہ جہنم میں جاکر گرے گا
عتیق احمد جاذب خدا سے مانگنے کی ہدایت دیتے ہیں کہ اس پرورگار کی حمد وثنا ساری کائنات کرتی ہے۔اس کے بندوں کو بھی ہاتھ اٹھا کر اس مقدس ذات سے مانگنا چاہیے تاکہ ان کا بھلا ہوجائے اور وہ دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوجائے۔اسی ذات کو مانگنے سے ہر مشکل آسان اور ہر بلا ٹلتی ہے۔
دنیا اور آخرت کا بھلا مانگتے رہو
دیتا ہے بے حساب خدا مانگتے رہو
کرتی ہے اس کی حمد و ثنا ساری کائنات
کرکر کے تم بھی حمد وثنا مانگتے رہو
ٹل جاتی ہیں بلائیں دعاؤں کے فیض سے
ٹل جائے گی ہر ایک بلا مانگے رہو
سب کچھ ملے گا تم کو خدا مل گیا اگر
اللہ کی خوشنودی و رضا مانگتے رہو
( نظم _مانگتے رہو)
عتیق احمد جاذب اپنی نظموں میں ہی نہیں بلکہ اپنی غزلوں کے ذریعے بھی اسلامی فکر اور تعلیمات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ان کی غزلوں کے چند اشعار دیکھیں__
رب کی مرضی و بندگی کی طرف
لوٹ کر آؤ زندگی کی طرف

نیکیوں میں سکون ہے پھر بھی
لوگ جاتے ہیں کیوں بدی کی طرف

تم کہاں جاکے چھپ کے پیتے ہو
کیا وہاں پر خدا نہیں ہے کیا؟

دین و ایماں کی حدوں سے نکل جاتے ہیں
چند پیسوں کے لیے لوگ بدل جاتے ہیں
ان کی ہر بات بے اثر ہوگی
لوگ جب باعمل نہیں ہوں گے
موت بالکل ہی نہیں ہے خاتمہ
جسم میں پھر جان ڈالی جائے گی

دنیا ہے جھوٹی تسلی گمرہی کے ساتھ ساتھ
ایک شیطان ہے لگا ہر آدمی کے ساتھ ساتھ

الغرض عتیق احمد جاذب اپنی شاعری کے ذریعے اخلاق کی تعلیم بھی دیتے ہیں اور دین اسلام پر پابندی کے ساتھ چلنے کی تلقین بھی کرتے ہیں کہ یہی فلاح اور کامیابی کا راستہ ہے۔اسلام کی تعلیمات کو نہایت بہترین انداز میں شاعری کا جامہ پہناکر قارئین کی نذر کرتے ہیں اس یقین کے ساتھ کہ ان اشعار کو پڑھ کر ان کی زندگی سنور جائے گی  اور وہ اللہ کے محبوب بندے بن جائیں گے۔آج کے پرفتن دور میں ایسی اصلاحی اور تنبیہی  شاعری کی ضرورت بہت ہے جبکہ معاشرہ بگڑا ہوا ہے اور انسان نے  مذہب سے دوری اختیار کر رکھی ہے۔عتیق احمد جاذب اپنی شاعری جو کہ اسلامی فکر و نظریات سے لبریز ہے کے ذریعے  سے برائیوں سے بچنے اور نیک راہ پر چلنے کا پیغام دے رہے ہیں۔ان کی شاعری بہترین اسلامی معاشرہ کی تعمیر  میں سودمند ثابت ہو رہی ہے۔

***

Leave a Reply