محمد یوسف شاشیؔ
پی،ایچ، ڈی اسکالر جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی
دو گز زمین کا طلبگار بادشاہ ظفرؔ
تاریخ ہندوستان نے کئی منظر نامے دیکھے ہیں جن میں سے کچھ منظر نامے رہتی دنیاں تک اپنے نقوش چھوڑ گئے ہیں ، ان ہی منظر ناموں میں سے ایک منظر نامہ بہادر شاہ ظفر کا بھی ہے ۔ ظفر مغلیہ خاندان کے آخری تاجدار ہند تھے ۔ سن ستاون کی جنگ آزادی ان کے لئے ایک عظیم المیہ اور سانحہ بن گئی ۔ تخت و تاج سے ہٹا کر ایک مجرم کی حیثیت سے اپنے ہی ملک میں قیدی بنادیا۔ جس زمین کا بادشاہ تھا آخر میں اسی زمین کے دو گز ٹکڑے کو اپنی ملکیت نہ کر سکا ۔
لے گیا چھین کے کون آج ترا صبر و قرار
بے قراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی
بہادر شاہ ظفر کا المیہ ایسا تھا کہ دہلی کی گلیوں، بارزاروں اور دریچوں نے اپنے اندر ہمیشہ کے لئے آہیں اور سسکیاں جمع کر لیں یہ آہیں اور سسکیاں صرف دہلی والوں تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ بہادر شاہ ظفر کے یہ تمام المیے ایک شعری دیوان تخلیق کرنے میں کامیاب رہے۔بہادر شاہ ظفرؔ 30 ستمبر 1837 کو 63 برس کی عمر میں گدی نشیں ہوئے۔ ان کے بادشاہ بننے کے بعد جو حالات انہوں نے دیکھے ، چاہے وہ دہلی میں خونخواری کی جنگ ہو ،دربار کی اندرونی و بیرونی سازشیں ہوں ، انگریزوں کا دربار پر قبضہ ہو اسی دربار کا شہنشاہ اسی دربار کا مجرم کا المیہ ہو،یا جلا وطنی ہو، سینکڑوں سال جس ملک پر حکومت کی اور پھر اسی ملک سے قید کر کے رنگون کی کال کوٹھری کی بے بس قید و بند ہو، یہ تمام تر حالات کی ایک طویل داستان ہے جو ہزاروں صفحات پر مکمل ہونا مشکل ہے۔ بہادر شاہ ظفر ؔ کے شہنشاہِ ہندبننے کے بارے میں مولانا امداد صابری اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں کہ ۔
“اپنے والد اکبر شاہ ثانی کے انتقال کے دو روز بعد 30 سمبر 1837 ء مطابق 29 جمادالثانی 1252 ہجری ہفتہ کے روز تخت نشین ہوئے۔ امام میر احمد علی صاحب امام جامع مسجد شاہی نے رسم تاجپوشی کا افتتاح کیا ۔توپیں داغی گئیں ۔فوج نے سلامی دی ،رزیڑنٹ نے نزر پیش کی ”
حوالہ۔ 1857 کے مجاہد شعرا۔ ص91
بہادر شاہ ظفر ؔ کی زندگی کئی نشیب و فراز سے گزری۔تخت نشینی سے لیکر قلعہ کی عیش و عشرت سے ہوتی ہوئی ،غلامی کی زندگی تک پہونچتی ہے اور بات یہیں تک نہیں نہیں ٹھہرتی بلکہ غریب الوطنی اور بے چارگی میں زندگی کی آخری سانس بھری۔ جب تک بس میں تھا ،انفرادی و اجتماعی زندگی بے مثال تھی ،معین الدین اور منشی جیون لال کے دورانِ غدر کے روز ناچے پڑھ کر جو حالات سامنے آئے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بہادر شاہ ظفر ایک با عمل بادشاہ تھے اور رعایا کے ہمدرد تھے۔لیکن بے بسی اس درجے کی تھی کہ خود کہ اٹھے۔
بلبل کو باغباں سے نہ صیاد سے گلہ
قسمت میں قید لکھی تھی فصل بہار میں
بہادر شاہ ظفر ؔ مغلیہ خاندان کے وہ آخری وارث تھے ، جنہیں اپنے ملک ہند و پاک کی سر زمین سے ہمیشہ کے لیے جلا وطن کر دیا گیا حقیقت یہ تھی کہ بہادر شاہ ظفر کے پاس وہ سلطنت نہیں رہی تھی جو ان کے آبا و اجداد اکبرِ اعظم یا اورنگ زیب عالمگیر کے پاس تھی، لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ 1857 کی جنگِ آزادی میں ان کی پکار پر ہندوستان کے طول و عرض سے لوگ انگریزوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ان کی زندگی کاآخری سفر جو ایک قیدی کی شکل میں تھا ملک ہندوستان کے لال قلعہ سے شروع ہو جاتا ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس مغلیہ خاندان نے لال قلعے کو خیر آباد کہ دیا تھا ۔ دہلی سے بہادر شاہ ظفرؔ کو نکال کر بحری جہاز تک لایا گیا۔اور میکنن میکنزی بحری جہاز میں بٹھا دیا گیا۔یہ جہاز17 اکتوبر 1858ء کو رنگون پہنچا،شاہی خاندان کے 35 مرد اور خواتین بھی تاج دار ہند کے ساتھ تھیں۔ کیپٹن نیلسن ڈیوس رنگون کا انچارج تھا۔وہ بندر گاہ پہنچا۔ اس نے بادشاہ اور اس کے حواریوں کو وصول کیا۔رسید لکھ کر دی اور دنیا کی تیسری بڑی سلطنت کے آخری تاجدار ہند کو ساتھ لے کر اپنی رہائش گاہ پر آ گیا۔ نیلسن پریشان تھا۔ بہادر شاہ ظفر قیدی ہونے کے باوجود بادشاہ تھا اور نیلسن کا ضمیر گوارہ نہیں کر رہا تھا وہ بیمار اور بوڑھے بادشاہ کو جیل میں پھینک دے مگر رنگون میں کوئی ایسا مقام نہیں تھا جہاں بہادر شاہ ظفر کو رکھا جا سکتا۔وہ رنگون میں پہلا جلا وطن بادشاہ تھا۔نیلسن ڈیوس نے چند لمحے سوچا اور مسئلے کا دلچسپ حل نکال لیا۔نیلسن نے اپنے گھر کا گیراج خالی کرایا اور تاجدار ہند۔ ظِلّ سْبحانی اور تیموری لہو کے آخری چشم و چراغ کو اپنے گیراج میں قید کر دیا۔
بہادر شاہ ظفر17 اکتوبر 1858ء کو اس گیراج میں پہنچا اور 7 نومبر 1862ء تک چار سال وہاں رہا۔آخری دن بدنصیب بادشاہ کی خادمہ نے شدید پریشانی میں کیپٹن نیلسن ڈیوس کے دروازے پر دستک دی اور اونچی آواز میں رونا شروع کر دیا۔ ملازمہ کی آواز سن کر نیلسن نے اپنا پسٹل اٹھایا، گارڈز کو ساتھ لیا اورگیراج میں داخل ہو گیا۔ ایک مصنف نے بہادر شاہ ظفر کے ان آخری لمحات کی بڑے ہی بہترین انداز میں منظر کشی کی ہے ۔
“بادشاہ کی آخری آرام گاہ کے اندر بَدبْو، موت کا سکوت اور اندھیرا تھا۔اردلی لیمپ لے کر بادشاہ کے سرہانے کھڑا ہو گیا۔نیلسن آگے بڑھا۔بادشاہ کا کمبل آدھا بستر پر تھا اور آدھا فرش پر۔اْس کا ننگا سر تکیے پر تھا لیکن گردن ڈھلکی ہوئی تھی۔ آنکھوں کے ڈھیلے پپوٹوں کی حدوں سے باہر اْبل رہے تھے۔ گردن کی رگیں پھولی ہوئی تھیں اور خشک زرد ہونٹوں پر مکھّیاں بِھنبھِنا رہی تھیں۔ نیلسن نے زندگی میں ہزاروں چہرے دیکھے تھے لیکن اس نے کسی چہرے پر اتنی بے چارگی۔ اتنی غریب الوطنی نہیں دیکھی تھی۔ وہ کسی بادشاہ کا چہرہ نہیں تھا۔وہ دنیا کے سب سے بڑے بھکاری کا چہرہ تھا اور اس چہرے پر ایک آزاد سانس,جی ہاں صرف ایک آزاد سانس کی اپیل تحریر تھی۔
کیپٹن نیلسن نے بادشاہ کی گردن پر ہاتھ رکھا۔ زندگی کے قافلے کو رگوں کے جنگل سے گزرے مدت ہو چکی تھی۔ ہندوستان کا آخری بادشاہ زندگی کی حد عبور کر چکا تھا۔ نیلسن نے لواحقین کو بلانے کا حکم دیا۔ لواحقین تھے ہی کتنے ایک شہزادہ جوان بخت اور دوسرا اس کا استاد حافظ محمد ابراہیم دہلوی۔ وہ دونوں آئے. • انھوں نے بادشاہ کو غسل دیا۔ کفن پہنایا اور جیسے تیسے بادشاہ کی نمازِ جنازہ پڑھی۔ قبر کا مرحلہ آیا تو پورے رنگون شہر میں آخری تاجدار ہند کے لیے دوگز زمین دستیاب نہیں تھی۔ نیلسن نے سرکاری رہائش گاہ کے احاطے میں قبر کھدوائی اور بادشاہ کو خیرات میں ملی ہوئی مٹی میں دفن کر دیا۔ قبر پر پانی کا چھڑکاؤ ہورہا تھا ۔
گلاب کی پتیاں بکھیری جا رہی تھیں تو استاد حافظ ابراہیم دہلوی کے خزاں رسیدہ ذہن میں 30 ستمبر 1837ء کے وہ مناظر دوڑنے بھاگنے لگے جب دہلی کے لال قلعے میں 62 برس کے بہادر شاہ ظفر کو تاج پہنایاگیا۔ ہندوستان کے نئے بادشاہ کو سلامی دینے کے لیے پورے ملک سے لاکھ لوگ دلی آئے تھے اور بادشاہ جب لباس فاخرہ پہن کر۔ مگر سات نومبر 1862ء کی اس ٹھنڈی اور بے مہر صْبح بادشاہ کی قبر کو ایک خوش الحان قاری تک نصیب نہیں تھا. استاد حافظ محمد ابراہیم دہلوی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے جوتے اتارے۔ بادشاہ کی قبر کی پائینتی میں کھڑا ہوا اور سورہ توبہ کی تلاوت شروع کر دی۔یہ قرآن مجید کی تلاوت کا اعجاز تھا یا پھر استاد ابراہیم دہلوی کے گلے کا سوز, کیپٹن نیلسن ڈیوس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے ہاتھ اٹھایا اور اس غریبْ الوطن قبر کو سیلوٹ پیش کر دیا اور اس آخری سیلوٹ کے ساتھ ہی مغل سلطنت کا سورج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔”
رنگون کے ڈیگن ٹاؤن شِپ کی کچّی گلیوں کی بَدبْودار جْھگّیوں میں آج بھی بہادر شاہ ظفر کی نسل کے خاندان موجود ہے یہ آخری مْغل شاہ کی اصل اولاد ہیں مگر یہ لوگ سرکار کے وظیفے پر اپنا گزر بسر کر رہے ہیں یہ کچی زمین پر سوتی ہے۔ ننگے پاؤں کشکول لئے چلتے پھرتے رہتے ہیں ۔ اور ٹین کے کنستروں میں سرکاری نل سے پانی بھرتی ہے, مگر یہ لوگ اس کَسمَپْرسی کے باوجود خود کو شہزادے اور شہزادیاں کہتے ہیں۔ یہ لوگوں کو عہد رفتہ کی داستانیں سناتے ہیں۔
رنگون کے ایک پرسکون علاقے میں واقع بہادر شاہ ظفر کا مقبرہ ہندوستانی تاریخ کے ایک جذباتی اور متلاطم دور کی یاد دلاتا ہے۔
رنگون کے باسیوں کو یہ تو معلوم تھا کہ آخری مغل شہنشاہ ان کے شہر میں واقع چھاؤنی کے اندر کہیں نہ کہیں دفن ہیں، لیکن درست جگہ کا کسی کو علم نہیں تھا۔
آخر 1991 میں مزدوروں کو ایک نالی کھودتے کھودتے اینٹوں کا چبوترہ ملا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ دراصل بہادر شاہ ظفر کی قبر ہے۔ بعد میں عطیات کی مدد سے یہاں مقبرہ تعمیر کیا گیا۔جس کی آج کی تصویر درج زیل ہے۔
ہندوستان میں قائم دوسرے مغل بادشاہوں کے عالی شان مقبروں کی نسبت یہ مقبرہ بہت معمولی ہے۔ ایک آہنی محراب پر ان کا نام اور خطاب رقم ہے۔ نچلی منزل پر ان کی ملکہ زینت محل اور پوتی رونق زمانی کی قبر ہے۔اس وقت بہادر شاہ ظفر کا سب سے بڑا ورثہ ان کی اردو شاعری ہے۔ محبت اور زندگی کے بارے میں ان کی غزلیں برصغیر بھر کے ساتھ ساتھ برما میں بھی گائی اور سنی جاتی ہیں۔
انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کو کاغذ قلم کے استعمال سے روک دیا تھا۔ کہا جاتا تھا کہ آخری دور میں وہ دیواروں پر کوئلے سے اشعار لکھا کرتے تھے۔ ان سے منسوب بعض غزلیں اس مقبرے کی دیواروں پر بھی رقم ہیں۔
بطور بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے پاس اپنا کوئی لشکر نہیں تھا، لیکن وہ جنگِ آزادی کے دوران علامتی رہنما کے روپ میں سامنے آئے جن کے پیچھے ہندو اور مسلمان دونوں کھڑے ہو گئے۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ اس دوران ہزاروں مسلمان اور ہندو سپاہیوں نے ان کی شہنشاہی بحال کرنے کے لیے اپنی جانیں قربان کر دیں۔بطور شہنشاہ ان سے تاج و تخت اور سلطنت چھن گئی، لیکن بطور شاعر اور بزرگ وہ آج بھی ان گنت لوگوں کے دلوں پر حکومت کر رہے ہیں۔دو صدیاں بیت جانے کے بعد آج بھی ان کی غزلوں کو بڑے شوق سے سنا جاتا ہے۔
کتنا بدنصیب ہے ظفردفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں،
7 نومبر 1862 کو یہ غزل کیپٹن نیلسن ڈیوس کے گیراج میں لکھی تھی ۔ جو ایک سلطنت کی آخری آہ و فغاں تھی۔
محمد یوسف شاشیؔ، پی،ایچ، ڈی اسکالر جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی۔
موبائل نمبر۔ 9103020540
yusufshashi7@gmail.com
***