You are currently viewing رسالہ “بیسویں صدی ”  کی علمی اور ادبی خدمات

رسالہ “بیسویں صدی ”  کی علمی اور ادبی خدمات

ڈاکٹر شوکت محمود شوکت

رسالہ “بیسویں صدی ”  کی علمی اور ادبی خدمات

کسی بھی معاشرے میں علمی اور ادبی رسائل کے مثبت اور فعال کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، چاہے! ان رسائل کے معاشرے پر بالواسطہ یا بلا واسطہ اثرات مرتب ہوں ، تاہم ! معاشرہ ان رسائل کے مشمولات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ، اگر یہ کہا جائے کہ اردو زبان وادب میں رسائل اور جرائد کا آغاز ، عربی ، فارسی اور انگریزی رسائل و جرائد کے تتبع میں ہوا تو بے جا نہ ہوگا۔ اٹھارویں صدی عیسوی میں بیش تر عربی اور فارسی کے مذہبی رسائل وقتا فوقتا منصہ شہود پر جلوہ گر ہوتے رہے، ان رسائل کی دیکھا دیکھی انگریزوں کی سر پرستی میں کچھ رسائل و جرائد اور اخبارات سامنے آئے جن میں سے بنگالی زبان میں چھپنے والے ایک ہفت روزہ ” سما چار در پن نے خاصی شہرت کمالی ۔ یہ ہفت روزہ ، ۱۸۱۸ء میں سیرام پور سے جاری ہوتا تھا، جو بعد ازاں ! ۱۸۴۰ ء تک جاری رہا۔ اس کے بعد ، برصغیر پاک و ہند ) میں ایک اور ہفت روزہ (اخبار ) ‘ جام جہاں نما کا اجرا، ۲۷ مارچ ۱۸۲۲۰ ء کو ہری ہر دت کی زیر ادارت کلکتہ ( کولکتہ ) سے ہوا، ابتدا میں یہ ہفت روزہ ( اخبار ) اردو زبان میں شایع ہوتا رہا مگر ، اردو زبان کی مقبولیت نہ ہونے کی وجہ سے چند ہی ہفتوں میں یہ ہفت روزہ فارسی زبان میں شایع ہونا شروع ہوا۔ اب تک کی تحقیق کے مطابق برصغیر کا یہ پہلاغت روز ہ / اخبار متصور کیا جاتا ہے۔

جہاں تک ، اردو زبان میں چھپنے والے رسالے یا جریدے کا تعلق ہے تو اس حوالے سے ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی سے قبل کسی اردو رسالے یا جریدے کی تاریخ و اشاعت پر گرد چھائی ہوئی ہے۔ تاہم ! مولوی کریم الدین (پ: ۱۷۸۳ء۔ م: ۱۸۷۹ء) کی زیر ادارت ایک ادبی ماہ نامے “گل رعنا کا اجرا ہوا ، جس میں ان کے گھر میں منعقدہ مشاعروں کی روداد شایع ہوئی تھی۔ جنگ آزادی کے بعد ، کافی اردو رسائل و جرائد اور اخبارات سامنے آئے ، جن میں اودھ پنچ تہذیب الاخلاق انجمن حسن اودھ اخبار وغیرہ خاصے مقبول ہوئے۔

جیسے ہی بیسویں صدی عیسوی کا آغاز ہوا، تو کئی اردو رسائل و جرائد سامنے آئے ، جن کی شناخت تقسیم پاک و ہند سے قبل مستحکم ہو چکی تھی ، ان ادبی رسائل اور جرائد میں “مخزن”، زمانہ اردو معلی، ہمایوں، ادبی دنیا ، نیرنگ خیال، ساقی شاعر ، ادب لطیف، آج کل نیا دور اور بیسویں صدی وغیرہ شامل ہیں ۔ بیسویں صدی کا اجرا، رام رکھا مل عرف خوشتر گرامی (پ: ۱۹۰۲ ء -م: ۱۹۸۸ء) کی زیر ادارت لاہور سے ۱۹۳۷ء میں ہوا۔ اس رسالے نے کچھ عرصے کے بعد ہی دنیائے رسائل و جرائد میں اپنا ایک منفرد اور خاص مقام بنالیا۔ اس رسالے کو آغاز ہی سے اچھے مصنفین اور شعرا میسر آئے ، یہی وجہ تھی کہ اقصائے برصغیر پاک و ہند ) میں اس کی گونج سنائی دی جانے لگی ۔ اس رسالے کا پہلا سال نامہ ۱۹۴۰ءمیں خوشتر گرامی ہی کی  زیر ادارت شائع ہوا ، جس میں لکھنے والوں میں سے پنڈت ہری چند اختر ( ایم ۔ اے ) ہس کرشنا کماری ایم ۔ اے، علامہ تاجور نجیب آبادی ، مجید امجد بی ۔ اے جمیل مظہر (ایم اے) سید ضمیر جعفر کی ، میرزا ادیب، رگھوپتی سہائے (فراق گورکھپوری ، پنڈت عرش ملیسانی کوثر چاند پوری اختر شیرانی ماہر القادری اور افسر ماہ پوری وغیرہ کے اسمائے گرامی شامل ہیں ، جو بعد میں آسمانِ ادب پر درخشندہ ستاروں کی مانند چھکے ۔ شمارہ ہذا کے دو اداریے بالترتیب تیر و نشتر اور سالنامہ بیسویں صدی کے عنوانات لیے ہوئے شائع ہوئے ہیں ، دراصل ، تیر و نشتر کے عنوان کے تحت برصغیر پاک و ہند ) کی خبروں پر مختصر طنز و مزاح کے انداز میں تبصرہ کیا جاتا تھا، مثلاً اسی سالنامے میں سے ایک خبر پر کیا گیا تبصرہ ملاحظہ ہو:۔

فیلڈ مارشل گوئرنگ کے اخبار نے تسلیم کر لیا ہے کہ جرمنی کی غیر ملکی تجارت ناکہ بندی کے باعث تباہ ہو گئی ہے۔ اسے کہتےہیں جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ لیکن یہ تو ۔۔۔

ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا

آگے آگے دیکھنا (دیکھیے ) ہوتا ہے کیا

 (1)بعد ازاں ، تیر و نشتر کے عنوان سے یہ کالم مستقل ہوا ، اور اس کے تحت مختلف خبروں پر مجلس ادارت کی جانب سے مزاحیہ وطنزیہ انداز میں تبصرہ کیا جاتا تھا، بدیں وجہ ! قارئین اسے ذوق وشوق سے پڑھتے تھے۔ اگر چہ ! ۱۹۷۵ء میں یہ شمارہ ضیاء الرحمن نیئر نے خوشتر گرامی سے ساڑھے تین لاکھ روپے کی خطیر رقم میں خریدا، تاہم! خوشتر گرامی کی زیر ادارت یہ رسالہ ۱۹۷۶ء کے وسط تک شائع ہوتا رہا، غالباً ستمبر اکتوبر ۱۹۷۶ء میں اس کی ادارت کے فرائض ضیاء الرحمن نیئر خود سنبھال لیے ۔ ضیاء الرحمن نیئر کی زیر ادارت اس رسالے نے دن دگنی رات چوگنی ترقی کی خصوصا ، ۱۹۷۷ء میں اس رسالے کا کرشن چندر نمبر شایع ہوا ، جسے ملک گیر سطح پر بہت پذیرائی حاصل ہوئی۔ اس کے علاوہ ، اس رسالے نے ۱۹۷۰ء سے لے کر ۱۹۹۰ء تک معروف ادیبوں کے لکھے گئے ناول بھی شائع کیے، جس کی وجہ سے اس رسالے کی مانگ مزید بڑھ گئی۔ اس کے علاوہ ، اس رسالے نے ۱۹۸۹ء میں ہند و پاک نمبر بھی شایع کیا جو ایک ضخیم نمبر تھا اس سے قبل ، جتنے بھی نمبرز یا سال نامے شایع ہوئے ان سب میں اس نمبر کی ضخامت زیادہ تھی ، اس حوالے سے ضیاء الرحمن نیئر ، مذکورہ نمبر کے آغاز میں حرف اول” کے عنوان سے لکھتے ہیں :۔

قارئین بیسویں صدی کو نیا سال مبارک ، بیسویں صدی کا ہند و پاک ادب نمبر ۱۹۸۹ ء آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ بیسویں صدی کی ۵۳ سالہ ادبی تاریخ میں یہ ایک ضخیم ترین نمبر ہے۔

دراصل بیشتر قارئین کے پیہم اصرار پر یہ نمبر شائع کیا جار رہا ہے، قارئین کو یہ شکوہ تھا کہ بیسویں صدی کے خاص نمبروں کے محدود صفحات ان کے ادبی ذوق کو سیراب نہیں کر پاتے ۔ ہمارا ذاتی خیال ہے کہ اردو کے تمام قاری مالی اعتبار سے اتنے ضخیم اور قیمتی نمبروں کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔ اس لیے یہ خصوصی اور تخنیم ۔۔۔ ہند و پاک ادب نمبر ۱۹۸۹ء بیسویں صدی کے بارہ عام شماروں کے علاوہ تجرباتی طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ قارئین ” بیسویں صدی نے اگر اس سلسلہ کو پسند کیا تو ہنچتیم ترین نمبروں کے اس سلسلہ کو جاری رکھا جائے گا۔ ہمیں قارئین کی آرا کا انتظار ہے!”

(2)اس شمارے میں پاکستان کے جن مشہور و معروف قلم کاروں کی نگارشات شامل ہیں ، ان میں سے محسن بھوپالی، قتیل شفائی، احمد ندیم قاسمی علامہ عبد العزیز خالد ڈاکٹر انور سدید مظفر وارثی میرزا ادیب امجد اسلام امجد ڈاکٹر سلیم اختر منشایاد ، افتخار عارف کشور ناہید وغیرہ کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔

آج کے جدید دور میں ، جس طرح ، مختلف ائیر لائنز (Air Lines) یا آرام دہ اور پر تعیش بسوں ( Luxurious Buses) میں مسافروں کو تفریح کے واسطے، وائی فائی، انٹرنیٹ اور ایل سی ڈیز پر مختلف پروگرام دستیاب ہوتے ہیں۔ بعینہ چالیس پچاس سال پہلے ، مذکورہ ذرائع آمد ورفت میں جو مختلف اخبارات یا مجلات مہیا کیے جاتے ہیں تا کہ مسافروں کو سفر کی تھکان اور انتظار جیسی بوریت سے بچایا جا سکے۔ ان اخبارات و مجلات میں ایک مجلہ ” بیسویں صدی بھی شامل تھا جو ۱۹۸۰ء سے لے کر ۱۹۹۰ء ( دس سال ) تک انڈیا ائیر لائن میں مسافروں کو مہیا کیا جاتا رہا۔

مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو اس رسالے کی علمی وادبی خدمات نوے سے زائد سالوں پر مشتمل ہے، ان سالوں میں اس رسالے نے کئی سال نامے مکمل ناول اور نام ور شخصیات کے خصوصی نمبرز شایع کیے ، مزید برآں ! اس رسالے میں جہاں طنز و مزاح ( تیر ونشتر ) صحت و تندرستی کے حوالے مستقل کالمز شامل ہوتے تھے وہاں، اس رسالے نے اردو زبان وادب کی ترویج تعلیم و تعلم ، شوبز وغیرہ کے حوالے سے بھی خاصا کام کیا ۔ جب ۲۰۰۹ ء میں اس رسالے کے مدیر ضیاء الرحمن نیئر انتقال کر گئے تو چند ماہ کے لیے یہ رسالہ معطل کا شکار رہا لیکن ، ۲۰۱۰ ء میں آپ کی اہلیہ ڈاکٹر شمع افروز زیدی نے اسے قارئین کی پر زور اصرار پر دوبارہ جاری کیا ۔ اگر چہ ! دور حاضر میں خالصتا علمی اور ادبی رسالہ شائع کرانا جان جوکھوں کا کام ہے، تاہم ! ڈاکٹر شمع افروز زیدی، اس رسالے کو جس تسلسل کے ساتھ شائع کرا رہی ہیں، دراصل ! یہ آپ کی اردو ادب سے محبت اور اپنے

مرحوم شوہر سے عقیدت کی عکاسی ہے۔ حال میں شائع ہونے والا شمارہ ( جولائی تا دسمبر ۲۰۲۴ء)، افسانہ نمبر ہے ۔ جس میں معروف و مشہور افسانہ نگاروں کے افسانے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ معروف و مشہور شعرا کی منظومات بھی شامل شمارہ ہذا ہیں، بہر حال ! اس رسالے کا اپنا ایک خاص ادبی مزاج پہلے شمارے ہی سے متعین ہو چکا تھا ، اگر یہ کہا جائے کہ یہ رسالہ رجحان ساز (Trend Setter) ثابت ہوا ہے، تو بے جانہ ہوگا ۔ اس حوالے سے ڈاکٹر شمع افروز زیدی رقم طراز ہیں :۔

روز ازل ہی سے یعنی بیسویں صدی کی پیدائیش کے ساتھ ہی آں جہانی خوشتر گرامی نے اس کا مخصوص مزاج بنا دیا تھا وہ پارکھ تھے، خوب جانتے تھے کہ رومان ازل ہی سے انسان کی گھٹی میں گوندھ دیا گیا ہے۔ چناں چہ انھوں نے رومانی افسانوں کو اولیت دی کہ رومان سے بھری تحریریں ہر عمر کے لیے ٹانک کا کام کرتی ہیں ۔ تا زندگی رحمن نیئر اور اب خاکسار اسی راہ پر گامزن ہے (3)ڈاکٹر شمع افروز زیدی کا یہ کہنا بلا شبہ درست ہے ، آپ نے جس طرح ایک تاریخی اور رجحان ساز رسالے ( بیسویں صدی ) کے معیار کو قائم رکھا ہوا ہے، یہ آپ کی اردو زبان وادب پر یقینا کسی بڑے احسان سے کم نہیں ، آپ کی ان علمی اور ادبی خدمات کو تا قیامت یا د رکھا جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ ! آپ کو صحت اور تندرستی کے ساتھ استقامت اور عمر خضر وی عطا فرمائے ، تاکہ آپ اس مؤقر رسالے کو قارئین دنیائے ادب کے سامنے ، اسی طرح عمدگی اور احسن طریقے سے پیش کرتی رہیں۔

☆☆☆

حوالہ جات:

ا تیرونشتر ، اداره مشمولہ بیسویں صدی ( سالنامه )، جلد : ۷ ،شمارہ:ا، لاہور، بیرون شاہ عالمی دروازہ، س : ۱۹۴۰ء ص: ۷۔

حرف اول ، ادارہ ، مشمولہ بیسویں صدی ( ہند و پاک ادب نمبر )، نیودہلی ہس: ۱۹۸۹ء ص: ۷ ۔

اداریہ مشمولہ بیسویں صدی، نیودہلی ، شماره ۲، جولائی تا دسمبر ۲۰۲۴ء ، ص:۴۔

Leave a Reply