واجد اختر صدیقی
گلبرگہ ، کرناٹک
رفعت آسیہ شاہین کی شاعرانہ عظمت
اُردو زبان و ادب کی آبیاری میں جہاں مرد حضرات کا تسلط ہے وہیں خواتین قلم کاروں نے بھی یہ ثابت کرنے کی سعی کی ہے کہ وہ بھی میدانِ ادب میں کسی سے کم نہیں۔بلا لحاظِ تفریقِ جنس خواتین شعراء و ادبا نے بھی اپنے خول سے نکل کر فروغِ اُردو ادب میں اپنا نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ ان ہی قلم کاروں میں رفعت آسیہ شاہین کا شمار ہوتا ہے۔
رفعت آسیہ شاہین کا تعلق علمی نگری سگر سے ہے جہاں پر اُردو ادب کے فروغ کیلئے ازل سے ہی زرخیز ماحول میسر رہا ہے۔ سر زمینِ سگر سے تعلق رکھنے والے کئی قلم کاروں نے ملکی سطح پر اپنی انفرادی شناخت بنائی ہے۔اس کے با وصف بچپن ہی سے رفعت آسیہ شاہین کو علمی و ادبی ماحول ملا۔ رشتۂ ِازدواج سے منسلک ہونے کے بعد وہ وشاکھا پٹنم منتقل ہوئیں۔ آندھرا پردیش کا ساحلی علاقہ وشاکھا پٹنم تفریحی مرکز تو ضرور ہے مگر ادب کیلئے یہ سرزمین اُتنی زرخیز نہیں رہی باوجود اس کے رفعت آسیہ شاہین نے اپنے لئے ادبی ماحول بناہی لیا اور اس سنگلاخ سرزمین پر اُنہوں نے ادب کے گُل بوٹے سجائے۔اُنہوں نے نہ صرف یہاں پر مسلسل کُل ہند، بین الریاستی اور ریاستی طرز کے کامیاب مشاعرے منعقد کروائے بلکہ ان دنوں وہ بزمِ شاہین قائم کر کے صدر کی حیثیت سے قابلِ ستائش کارنامہ انجام دے رہی ہیں۔
رفعت آسیہ شاہین بیک وقت شاعرہ ، افسانہ نگار اور ادیبہ ہیں ۔ وہ کم وبیش تین دہائیوں سے ادب کے گیسو سنوارنے میں مصروف ہیں۔ درمیان میں چند ناگذیر وجوہات کی بنا پر وہ خاموش رہیں۔ بعد ازاں سن 2015 عیسوی سے وہ جم کر لکھ رہی ہیں۔ کُل ہند مشاعروں میں اُنکی شرکت مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت مانی جاتی ہے۔ مسلسل مشاعروں میں اُنکی شرکت نے اُنہیں معروف شاعرہ بنا دیا ہے۔
رفعت آسیہ شاہین بنیادی طور پر شاعرہ ہیں۔ بحیثیتِ نظم گو بھی اُنکی ایک انفرادی شناخت ہے۔ اُنکی غزلوں کا مجموعہ ’برگِ ریشم‘ کے عنوان سے منظرِ عام پر آرہا ہے جو خوش آئیند بات ہے۔ اِ س مجموعہِ کلام کے پیشِ نظر میں نے اُنکی غزلیہ شاعری کا مختصر احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔غزل اُردو شاعری کی محبوب صنف رہی ہے اور اُردو غزل میں اتنی طاقت و قوت ہوتی ہے کہ وہ قاری اور سامع کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔آج اُردو غزل متنوع موضوعات کی حامل صنف بن گئی ہے۔ آج کی غزل میں حسن و عشق کے موضوعات قصہ ِ پارینہ بن چکے ہیں۔ آج کی غزل عصر ی حسیت سے لبریز ہے۔ کسی زمانے میں جمالیات اور رومانیت کو غزل کا جز وِ لا ینفک مانا جاتا تھا مگر آج کی ترجیحات بالکل بدل چکی ہیں جس کا راست اثر اُردو غزل پر بھی لازماً پڑتاگیا۔رفعت آسیہ شاہین کی غزلیں بھی عصری حسیت سے مملو ہیں۔چند اشعار ملاحظہ کریں۔
لیا درس زندگی کا یوں مٹا کے خود کو ہم نے
کئی مرحلوں سے گزرے ہر اک امتحاں سے پہلے
عصمتیں اب سرِ محفل یہاں لُٹ جاتی ہیں
دیکھتی ہوں میں یہ منظر کہ نظر زندہ ہے
ہاتھ میں پتھر لئے ٹھرتے ہیں لوگ شہر میں
کیا خبر اُن کا نشانہ میری پیشانی نہ ہو
جب گھر سے بات نکلی تو ادھر سے اُدھر ہوئی
بار ش میں جیسے بجلی تھی ادھر سے اُدھر ہوئی
اکثر یہ کہا جاتا ہے بلکہ بیشتر خواتین شاعرات کے موضوعات نسائیت کے اطراف گھومتے ہیں ۔ وہ افسانہ ہو کہ غزل خاتون قلم کار اپنے اطراف کی گھریلو زندگی کے موضوعات کو ہی اپنی تخلیقات میں اُٹھاتی ہیں۔بر عکس اس کے رفعت آسیہ شاہین کی شاعری کا بیشتر حصہ نسائی ادب سے پرے ہے۔حیرت کی بات ہے کہ اِن کا سارا کلام مختلف الجہات موضوعات کا آئینہ دار ہے۔ اِن کی ہر ایک غزل اور ہر ایک شعر میں نیا جہان آباد ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔اِن کے ہاں کئی اشعار قاری کو نہ صرف جھنجھوڑتے ہیں بلکہ سوچنے اور غور و فکر کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔اِنکی شاعری میں نہ تو اُداسی چھائی ہوتی ہے اور نہ ہی مایوسی ۔اِن کا ہر شعر زندہ دلی کی آواز بن کر اُبھرتا ہے۔ چند شعر دیکھئے۔
اُٹھو اب اشک بہانے سے باز آجاؤ
دیے جفا کے جلانے سے باز آجاؤ
نہیں اُترتا کبھی آفتاب پانی میں
ہتھیلیوں میں سجانے سے باز آجاؤ
کیوں بے گناہ آج سزا پا رہے ہیں یوں
تم فیصلے سُنانا ذرادیکھ بھال کے
رفعت آسیہ شاہین کا ڈکشن اگر چہ وسیع نہیں لیکن اُنہوں نے ثقیل اور ادق الفاظ کا سہارا نہیں لیا۔جس سے اِنکی شاعری سادگی میں پُرکاری کی عمدہ مثا ل بن گئی ہے۔سیدھے سادے الفاظ اُنکی غزلوں میں اس طرح در آئے ہیں جیسا کہ پانی میں بُلبلے اپنے وجود کا احساس دلا کر ختم ہو جاتے ہیں۔ اُنہوں نے سادا بیانی سے زندگی کے بڑے سے بڑے فلسفے کو اُجاگر کیا ہے۔ قاری کو اُنہوں نے کسی قسم کے الجھاؤ میں نہیں ڈالا اور نہ ہی کوئی گہرا فلسفہ پیش کرنے کی کوشش کی۔اور نہ ہی اِنکی شاعری میں کسی اِزم کا پر تو ملتا ہے۔اُن کا کلام اُنکے وارداتِ قلبی اور اُنکے مشاہدہ کا عکس ریزہ ہے۔رفعت آسیہ کی شاعری جہاں آپ بیت کو جگ بیتی بناتی ہے وہیں اُن کا لہجہ بہت مانوس ہے۔ اُنکی ہر بات دل کے قریں اُترتی ہے۔ ملاحظہ ہو ں چند اشعار۔
ہے بھیڑ اِ تنی یہاں پر کہ کھو نہ جائیں کہیں
نظر میں چہروں کا اب تم بھی قافلہ رکھنا
کیا بتاؤں میں تمھیں ہم کو کوئی غم نہیں
درد کی جھیل تو ہے آنکھ میری نم نہیں
آئینہ لے گیا سجاوٹ میری
دلکشی جو بھی تھی ہو بہو رہ گئی
عصرِ حاضر میں برپا ہونے والے چیلنجس، عصبیت،زمانے کی بے راہ روی ، رشتوں کی پامالی، ادب و اخلاق کا فقدان ، سماجی برائیاں اور ان جیسے دیگر موضوعات پر رفعت آسیہ کی نظر گہری ہے۔ اور اُس کے برملا اظہار کیلئے اُن کا یقین بہت بلند ہے اور اِن برائیوں کے تدارک کیلئے اُن کے عزائم مصمم ہیں۔ اور اُن کا ایقان ہے کہ ایک دن اُجالا آنے والا ہے ۔ شاعرہ کی یہ مثبت خیالی اُنہیں دیگر شعراء سے ممتاز کرتی ہے۔ یہ اشعار دیکھئے۔
ہے آن بان یہی شان بھی یہی اپنی
حجاب اپنے ہٹانے سے باز آجاؤ
نہیں قبول اے شاہین تمھارا کوئی عمل
بچو اور احسان جتانے سے باز آجاؤ
زہر نفرتوں کا اتنا نہ پھیلاؤ کہ
کہیں تریاق بھی اثر نہ کرے
عصری موضوعات اور مسائلی شاعری کی وجہ سے رفعت آسیہ شاہین کی شاعری کا بیش تر حصہ جمالیات اور رومانیت کے اثر سے محرومیت کا احساس دلاتا ہے۔مگر کہیں کہیں اِنکے کلام میں جمالیات اور رومانیت کی ہلکی سی عطر بیزی بھی نظر آتی ہے جس سے ایک طرح کی تشفی ہوتی ہے کہ شاعرہ نے غزل کے خالص عنصر سے اپنا رشتہ اُستوار رکھا ہے۔چند شعر دیکھئے۔
ہار کر جب یہ آنکھیں روتی ہیں
روٹھ کر مجھ سے راتیں روتی ہیں
دل کی سنسان گلیوں میں اکثر
تنہا تنہا سی شامیں روتی ہیں
خود اپنے خواب کے منظر چرانے بیٹھ گئی
برستی رُت میں آنسو بہانے بیٹھ گئی
خواب میں بھی وہ نہیں آتے
اُن کا آنا محال ہو جیسے
رفعت آسیہ شاہین کو بات کرنے کا سلیقہ آتا ہے۔ اُنکی یہی خوبی اُنکے اظہار میں تاثر پیدا کرتی ہے۔اُنکی شاعری میں بھی وہی پُرانی باتیں ملتی ہیں۔ لیکن اُنہوں نے اِن باتوں کو نیا لہجہ اور نیا حوصلہ بخشا ہے۔ اُن کے اشعار میں بھی ہمیں کہیں کہیں ایمائیت اور رمزیت کے واضح اشارے ملتے ہیں ۔ اور یہی اشارے اور کنایے اُنکی شاعری کے حسن کو دوبالا کرتی ہیں۔چند شعر دیکھئے۔
آنسو بھی اب بہانا ذرا دیکھ بھا کے
تم چشمِ تر ملانا ذرا دیکھ بھال کے
ہر اک قدم اُٹھانا ذرا دیکھ بھال کے
موسم کو آزماناذزرا دیکھ بھال کے
کتابِ زندگی جب تک پڑھوں میں
میرے تارِ نفس پر سر دھنوں میں
الفاظ کی حلاوت ، چاشنی،روانی اور بے ساختہ پن غزل کے حسن کو مزید بڑھاتا ہے ۔ایسی ہی برجستگی سے رفعت آسیہ شاہین کا کلام معمور ہے۔الفاظ کے مترنم ہونے اور الفاظ کا یہ بہاؤ رفعت آسیہ شاہین کی شاعری کا طرہِ امتیاز ہے۔ شعر دیکھئے۔
شہر در شہر بے کسی کیا ہے
مگر وہ آلام کی گھڑی کیا ہے
موج ہے دریا ہے کنارہ ہے
کون جانے کہ زندگی کیا ہے
آج رشتے ہوئے ہیں بے گانے
دھول پلکوں پہ جمی کیا ہے
رفعت آسیہ شاہین ایک عرصہ سے مشقِ سخن میں مصروف ہیں۔ اُنکے کلام کی بالیدگی نے اُنہیں ایک ایسی شاعرہ کے طور پر اُبھارا ہے جن کے فن میں بلا کی تازگی ،موضوعات کا تنوع اور اِنکو برتنے کا ڈھنگ اُنہیں خوب سے خوب تر آتا ہے۔ برگِ ریشم میں ابھی کئی ایسی غزلیں اور اشعار موجودہیں جن پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے ۔ اُنہوں نے اپنی غزلوں کو نئی لفظیات اور نئی تراکیب سے بھی سجایا ہے۔ اُنکے ہاں لفظیات اور تراکیب آسان اور رواں دواں ہیں۔ افہام و تفہیم کیلئے اُنکی شاعری میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی ۔ ابہام، علامت نگاری اور استعارہ جیسی صفات سے اُن کا کلام مبرا ہے۔ اُنہوں نے جو کچھ بھی کہا ہے راست گوئی سے کام لیا ہے۔قاری کے ذہن پر کسی قسم کا بوجھ نہیں پڑتا بلکہ وہ اُنکے کلام سے محظوظ ہوتا ہے اور یہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے کہ اُنہوں نے اُنکے دل کی کہی ہے۔برگِ ریشم کی اشاعت پر میں اُنہیں دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اُمید کرتا ہوں کہ اُنکی یہ کتاب اُردو کے ادب نوازوں اور ناقدینِ ادب سے خوب پذیرائی حاصل کرے گی۔
***