سال نو کی آمد
محترم قارئین کرام !
چند دنوں میں ۲۰۲۴ ختم ہوجائےگا اور تقویم کے تحت ہم ۲۰۲۵ یعنی ایک اور نئے سال میں داخل ہوجائیں گے ۔ یہ تقویم محض شماری ٔ ایام کے لیے ہے ورنہ تمام شب و روز ایک ہی ہیں ، البتہ شب وروز میں وقوع پذیر سانحے ، حوادث اور واقعات تاریخ بنتے جاتے ہیں۔اس طرح ہر آنے والا دن اپنے آپ میں ایک تاریخ مرتب کرتا ہے ۔اسی تاریخ کو ہم کئی زاویوں سے دیکھتے ہیں ، ان میں نہ صرف ہم ہوتے ہیں بلکہ پوری کائنات ہوتی ہے ۔ دیکھنے والے کی بصیرت و بصارت پر منحصر ہے کہ وہ اس تاریخ کو کتنی دور تک اور کس کس نہج سے دیکھتا ہے ۔ معمولی طور پر شب و روز کواس طرح بھی دیکھا جاسکتا ہے :
صبح ہوتی ہے شام ہوتی عمر یونہی تمام ہوتی ہے
اور اقبال کی نظر سے دیکھیں تو :
سلسلۂ روز و شب نقش گر حادثات سلسلۂ روز و شب اصل حیات و ممات
سلسلۂ روز و شب تار حریر دو رنگ جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات
سلسلۂ روز و شب ساز ازل کی فغاں جس سے دکھاتی ہے ذات زیر و بم ممکنات
تجھ کو پرکھتا ہے یہ مجھ کو پرکھتا ہے یہ سلسلۂ روز و شب صیرفی کائنات
یہ شب و روز در اصل ’’ تارِ حریر دو رنگ‘‘ ہیں ۔ یہ ہر فرد واحد پر منحصر ہے کہ اس ایشمی دھاگے سے اپنی زندگی کے ایام کو کس طرح بُنتا ہے اور کیسے نقش و نگار بناتا ہے۔۔۔۔
قارئین کرام دیکھتے ہی دیکھتے ایک سال اور گزر گیا ۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں اپنی زندگی کی تمام ترجیحات کے ساتھ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ہم نے اپنی زبان ا ور ادب کے لیے کیا کیا؟ اور کیا نہیں کرسکے ؟ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اپنی زبا ن کے تحفظ اور فروغ کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کریں کیونکہ اسی سے ہماری شناخت بھی ہے اور تہذیبی بقا کا سوال بھی اسی سے جڑا ہواہے ۔
نئے سال کی پیشگی مبارکباد دیتے ہوئے امید کرتا ہوں کہ اپنی زبان و تہذیب کے بقا کے لیے ہم اپنے اپنے طور پر کچھ نہ کچھ اقدام ضرو ر کریں گے۔
***