سہیم الدین خلیل الدین صدّیقی (ریسرچ اسکالر)
ڈاکٹر قریشی عتیق احمد (نگراں)
سرسیّداحمد خاں کااسلوب تحریر: مضامین سرسید کی روشنی میں
اردو زبان میں بہت سے ایسے ادباء گزرے ہیں جس نے اپنے اسلو ب تحریر سے اردو ادب کو آشنا کروایا، جن میں اسداللہ خاں غالبؔ، مولانا ابوالکلام آزاد، الطاف حسین حالیؔ، مولاناشبلی نعمانی،محمّدحسین آزاداور سرسیّد احمد خاں وغیرہ کافی اہمیت کے حامل ہیںبقول غالبؔایک خط میں لکھتے ہیں: ’’میں نے وہ اندازتحریر ایجاد کیا ہے کہ مراسلے کو مکالمہ بنا دیا ہے۔‘‘
سرسید کابھی انداز تحریر کچھ اسی سے مماثلت رکھتا ہے۔ ان کی مضمون نگاری واسلوب تحریرکی تفصیل پر روشنی ڈالنے سے قبل یہ کہنا بھی ضرور ی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی پیدائش ۱۷ اکتوبر۱۸۱۷ءکودہلی میں ہوئی اس سال ان کی ولادت کو دوسو سال ہوچکے ہیں،آپ کی ادبی خدمات پر پھر کبھی بحث کرونگا۔یہاں میں ان کے اسلوب تحریرخود ان کے مضامین کی روشنی میں پیش کررہاہوں، سرسید احمد خاں نے اپنے تحریرکے ذریعہ خواب غفلت میں سوئی ہوئی قوم کو جگانے کا کام اسی اسلوب تحریر سے لیا ،انہوں نے اپنے تحریروں میں عام بول چال کے الفاظوں کا کثیراستعمال کیا اور کہیں کہیں فارسی ،انگریزی اور عربی زبان کے الفاظوںکے استعمال میںبھی بڑے اختصار سے کا م لیاہے اور جہاں ضرورت محسوس ہوئی وہاں فارسی کا کوئی شعر کہے دیا جس سے ہمیں اس بات کا علم بھی ہوتا ہے کہ وہ دیگر زبانوںکے بھی ماہر تھے وہ اپنے مضمون ’’امید کی خوشی ‘‘میں فارسی کا یہ شعر لکھتے ہیں جو ان کی فارسیت پر عبور ہونے کاشاہدہے:
بقدر ہرسکوں راحت بود بنگرتفاوت را دویدن، رفتن ، استادن، نشین، حفتن ومردن
فارسی کے ساتھ ساتھ سرسیّد نے کہیں کہیں پر انگریزی کے الفاظ کا بھی استعمال کیا ہے جیسے لائف، سوشلیزم اور پروٹسٹنت وغیرہ ان کی تحریر وں میں اکثرموقع پر دکھائی دیتے ہیں ، لیکن انہوں نے فارسی اور انگریزی کو کبھی اپنے پیروں کی کبھی بیڑی نہیں بننے دیا، مقصدیت اور مدعا نگاری سرسید کی نثر کے بنیادی اوصاف میں سے ہے، انھوں نے مسجٰ و مقفیٰ عبارت سے گریز کیا ہے ، وہ انگریزی انشاپردازاسٹیل اور ایڈیشن سے بہت متاثرتھے اس لیے انہوں نے بعض اوقات ان کا حوالہ بھی دیا ہے جس کی مثال ہمیں ان کے ایک مضمون ’’اخلاق‘‘ میں نظر آتی ہے، ملاحظہ ہو۔
’’مسٹر ایڈسین کا قول ہے کہ’مذہب کے دو حصّے ہوسکتے ہیں، ایک اعتقادیات دوسراعملیات۔‘‘
سرسیّد کے مضامین کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے مضامین کے ذریعہ سماجی بیداری پیدا کرنابھی چاہتے تھے جس کے لئے انہوںنے کڑی جدّوجہدکی انہوں نے اپنے طرز تحریر سے ہندومسلم اتحاد کو فروغ دینے میں نمایاںکارکردگی انجام دی ، صرف اتناہی نہیں بلکہ وہ ہندواور مسلمان دونوں کو بھارت ماتا کی دوآنکھیں کہتے تھے جس کی وضاحت ان کے ایک تفصیلی مضمون جس کا عنوان ہندومسلم روابط تھا،جو کہ ۱۸۹۷ء میں شائع ہواتھا انھوں نے لکھاہے کہ:
’’میں بار بار یہ بات کہہ رہاہوں کہ ہندوستان ایک خوبصورت دولہن کی مانند ہے، ہندومسلمان اس کی دوآنکھیں ہیں اس کا حسن تبھی محفوظ رہے سکتا ہے، جب دو آنکھوں کی اچھی طرح دیکھ بھال کی جائے ، اگر چہ ایک آنکھ چلی گئی تو دلہن کا حسن ختم ہوجائے گا۔‘‘
سرسیّد نے اردو نثر کو اظہار مطالب کا ذریعہ اور سماجی بہبود کا وسیلہ بنایاوہ قدیم تعلیم کو فضول اور جدید تعلیم جیسے سائنس اور انگریزی کو مفید اور کارآمد بتاتے ہیں۔ مسلمانوں کو اپناہم خیال بنانے کے لئے انہوں نے ایسے مضامین لکھیں جن میں ہر بات کودلائل سے سمجھا یا گیا ، دلیلوں سے بھرے ہوئے اسی انداز کو ہم ان کا مدلل اسلوب یا تحریر کہے سکتے ہیں ، ان کے مضامین میں جذ بہ حب الوطنی ، اصلاح قوم ،طنز ، فکر تعلیم ، جذبہ جدوجہد ،قابل قدرانشاپردازی کی عکاسی دیکھائی دیتی ہے وہ اپنے ایک مضمون’’تعلیم وتربیت‘‘میں لکھتے ہیں:
’’انسان کو تعلیم دینا در حقیقت کسی چیز کا باہر سے اس میں ڈالنا نہیں ہے بلکہ اس کے دل کی سوتوںکاکھولنا اور اندر کے سر جی چشمے کے پانی کو باہر نکالنا ہے جو صرف اندرونی قویٰ کو حرکت میں لانے اور شگفتہ و شاداب کرنے سے نکلتاہے اور انسان کو تربیت کرنا اس کے لئے سامان کا مہّیاکرنا اور اُس کے کا م لینا ہے ، جیسے جہاز تیار ہونے کے بعداس پربوجھ لادنااور حوض بنانے کے بعد اس میں پانی بھرنا۔‘‘
سرسیّد کو نثر میںشاعرانہ طرز بیان بالکل پسند نہ تھا، وہ سادگی پسند بیان کے قائل تھے، انہوں نے اردو میں مضمون نگار ی سنگ بنیاد رکھا، ان کے مضامین کافی قابل تعریف ہیں، سرسید سے پہلے میر امن کی ’’باغ و بہار‘‘دہلی کالج کے نثر نگاروں کی خدمات غالب کے خطوط کے ذریع حاصل ہوچکی تھی غالب نے اردونثر کو ’’فسانہ عجائب‘‘ کی روایت سے ہٹا کر’’ تہذیب الاخلاق ‘‘کی نثر کے لئے راستہ ہموار کیا۔ سرسیّد نے نثر کو سائنسی اور علمی مزاج عطا کیا یہ ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے، اسی مزاج نے اردونثرکے دروازہ تمام علوم و فنون کے لئے کھول دیے، اور اس نثرکے ذریعہ انہوں نے ایک ذہنی انقلاب برپا کرنے کی کوشش کی اور اس کے لئے تمام عقلی دلائل اور تاریخی تجربات سامنے آتے ہیں ۔ انہیں ایک ایسی قوم سے واسطہ تھا جو صرف جہالت میں نہیں بلکہ جہل مرکب میں مبتلا تھی ، وہ اس مذہبی مسائل سے بچنا چاہتے تھے
لیکن مجبوری یہ تھی کہ تمام بری رسمیں اور بری عادتیں جن کی وہ اصطلاح کرنا چاہتے تھے ان کا رشتہ مذہب سے جوڑدیا جاتا تھا۔ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’ایک قدم بھی تہذیب اور شائستگی کی راہ میں چل نہیں سکتے ، جس بات کو کہہ دو کہ چھوڑ دو، فوراََجواب ملے گاکہ اس میں ثواب ہے اور جس بات کو کہہ دو کہ اس کو سیکھوفوراََ جواب ملے گا مذہب میں منع ہے، اِسٹیل اور اڈیشن کو ہزاروںدل اپنی طرف کرلینے میں کچھ مشکل نہ تھی اور ہم کو ایک دل بھی اپنی طرف کرلینا ہے۔‘‘
سرسیّد کی طرز تحریر و اسلوب اس زمانے کی سچائی کا المیہ ہے، سرسیّد کا یہ کارنامہ ہے کہ انہوں نے قوم کو پستی سے نکالنے کی کوشش کی اور اپنی اس کوشش کے لئے اردو نثر کو خاص طور سے وسیلہ بنایا ۔ان کی نثر میں بلا کی روانی تھی انہوں نے سوتی قوم کو کرخت آواز میں بیدار کیا، سرسید کے پاس ہمیشہ وقت کی تنگی رہتی ، انہیں برابر یہ احساس رہا کہ وقت کم ہے اورکہنے کو بہت کچھ باقی ہے اس لیے وہ قلم برداشتہ نثر لکھتے رہے۔اس کم فرصتی میں ان کے نثر میں بعض جگہ عیوب بھی دیکھائی دیتے ہیں ، جملے کہیں کہیں ضرورت سے زیادہ لمبے ہوگئے ہیں، لیکن ان کی بلند خیالی نے ا ن کی اس خامی پر پردہ ڈال دیا ہے ،جس کی ایک کامیاب مثال مضمون ’’تعصّب ‘‘میںملتی ہے:
’’مذہب میں متعصب شخص دوسروں کے اعتراضوں کو جو اس کے مذہب پر ہیںسننا یا مشہور ہونا پسند نہیںکرتے اور اس سبب سے ضمناََ وہ اس بات کا باعث ہوتا ہے کہ مخالفوں کے اعتراض بلا تحقیقات کیے اور بلاجواب دیے باقی رہ جاویں ، وہ اپنی نادانی سے تمام دنیا پر گویا یہ بات ظاہر کرتا ہے کہ اس کے مذہب کو مخالفوں کے اعتراضوںسے نہایت اندیشہ اور اس کے برہم ہوجانے کا خوف ہے۔‘‘
سرسیّد کے مضامین میں بلا کی غنائیت پائی جاتی ہے جو ان کے اسلوب تحریر کی بنیادی خصوصیت ہے ان کے مضامین لکھنے کا انداز ہی بڑا نرالاہوتاہے ،وہ اپنے مضمون کا آغاز رونی سے کرتے ہیں کہ وہ قاری کی توجّہ بہت جلد اس مضمون کی طرف مائل ہوجاتی ہے ۔ زبان بہت آسان ،سادہ وسلیس ہوتی ہے۔ جس کی ایک مثال میں ان کے مضمون ’’گزراہوا زمانہ ‘‘سے پیش کررہاہے۔
’’برس کی آخیر رات کو ایک بڈھا اپنے اندھیرے گھرمیں اکیلا بیٹھا ہے، رات بھی ڈراونی اور اندھیری ہے گھٹا چھارہی ہے بجلی تڑپ کر کڑکتی ہے ، آندھی بڑے زور سے چلتی ہے دل کانپتا ہے اور دم گھبراتا ہے، بڈھا نہایت غمگین ہے، مگر اس کا غم نہ اندھیرگھر پر ہے، نہ اکیلے پن پر اور نہ اندھیری رات اور بجلی کی کڑک اور آندھی کی گونج پراور نہ برس کی آخیر رات پر۔ وہ اپنے پچھلے زمانے کو یاد کرتاہے۔‘‘
یہاں یہ بات ضرور اخذ کی جا سکتی ہے کہ سرسید کے مضامین کا آغاز بڑے دلچسپ انداز سے ہوتا ہے جو ایک کامیاب و قابل مضمو ن نگار کی پہچان ہوتی ہے ،ان کے مضامین کا آغاز ہی نہیں بلکہ اختتام بھی اسی جنون کے ساتھ ہوتا ہے جو ایک حب الوطن ، مصلح قوم، وہ جد و جہد کی ایک مثال ہے، اسی مضمون کے اختتام میں وہ لکھتے ہیں:
’’ پس ائے میرے پیارے نوجوان ہم وطنو! اور ائے میرے قوم کے بچوں،اپنی قوم کی بھلائی پر کوشش کروتاکہ آخیر وقت میں اس بڈھے کی طرح نہ پچتاؤ ۔ ہمارا زمانہ تو اخیرہے اب خداسے یہ دعا ہے کہ کوئی نوجوان اُٹھے اور اپنی قوم کی بھلائی میں کوشش کرے۔آمین۔‘‘
سرسیّد اپنے ہر مضمون میں نوجوان نسل کو وہ اپنے قوم کے لوگوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ قوم کی اصلاح تب ہی ہو سکتی ہے جب ہم اپنے قوم کے حق میں سوچے اس پر غور و فکر کریں اپنے ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہ کچھ سبق سیکھے تاکہ اپنا حال و مستقبل کا میاب ہو، جو نیک خیال رکھتاہے وہ کامیاب ہوجاتاہے اور ہم کو سب سے محبت اور سچّی بات ودوستی کرنی چاہیے۔تعصّب ، اخلاق، تعلیم و تربیت وغیرہ اسی نوعیت کے ہیں ۔ سرسیّد کے مضامین پر ہم غور کریں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ قوم کی بھلائی چاہتے تھے، اسی لیے ان کے اسلوب تحریر ان کے مضامین میں حب الوطنی، شرینی ، غنائیت، شائستگی ، شگفتگی و طنز نمایاں طور پر دیکھائی دیتاہے اسی باعث الطاف حسین حالی نے سرسیّد کو اردو نثر کا مورث اعلا کہا ہے،یہ ان کی نثر کی خصوصیت ہے، جو انھیں جدید نثر ومضمون کے بانی کہا جاتا ہے، اسلئے میرا یہاں یہ کہناکو ئی غلط نہیں کہ سرسید اردو نثر کے ہی نہیں بلکہ اردو مضمون کے بھی مورث اعلیٰ ہے۔
Sahimoddin Khaliloddin Siddiqui
Dr. Qureshi Ateeq Ahmed
Dept of Urdu Dr. BAMU, Aurangabad.(MS)
Arts, Science & Commerce College,
Mob: 8087933863 Badnapur, Dist. Jalna.
٭٭٭