You are currently viewing سنیما کے گیت  :  اہمیت و اِفادیت

سنیما کے گیت  :  اہمیت و اِفادیت

   محفوظ عالم

  ر یسرچ اسکالر

  شعبہ اردوگورنمنٹ رضا  پی۔جی۔ کالج رامپور ،  اتر پردیش

   روہیل کھنڈ یونی ورسٹی ،بریلی

سنیما کے گیت  :  اہمیت و اِفادیت

      ا س میں دو رائے نہیں کہ سنیماکے نغموں،گانوں  یا گیتوںکی قدر و قیمت کا تعین کبھی بھی ادبی حیثیت سے نہیں کیا گیا۔شعریات کے مشکل سانچوں، اور پیمانوں میںدُرُست بیٹھنے والے معیاری موضوعات کے حامل گیت بھی حاشیہ پر رکھے گئے ، جن کو کبھی ادبی نقادوں نے با قائدگی سے ہاتھ نہ لگا یا ۔  ۱؎

       ہندوستانی سنیما کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں دل و دماغ کو سکون پہنچانے والے گیت ہوتے ہیں ،جو  رقص وسرور کے ساتھ فلمائے ضرور جاتے ہیں لیکن گانوں کی مقبولیت کا دارومدار سننے سنانے پر ہوتا ہے۔ حال ہی میں جنوبی ہندسنیما کی ایک فلم کے گانے ’’ ناٹو ناٹو ‘‘ کو فلموں کے سب سے بڑے انعام آسکر سے نوازہ گیا ، یہ ہندوستانی سنیما کی تاریخ میں پہلا موقعہ تھا جب اتنا بڑا انعام کسی ہندوستانی گانے کو ملا ہو ۔

       لیکن پچھلے کچھ سالوں سے فلمی گیتوں میں متنازعہ ، اشلیل، فحاشی ، نفسیاتی اور ذو معنی لفظوں کا چلن تیزی سے بڑا ہے ۔فلمی گیت اپنی ، خوش گوارسپر ہٹ گانوں کی شاندار روایات سے ہٹ کر نو جوان لڑکے لڑکیوں کو فرضی ، غیر حقیقی ،خیالی خوابوں کی دنیا دکھا رہے ہیں ۔جس سے اِن نو جوانوں کی ذہنیت اور اعمال دونوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے صاف نظر آتے ہیں۔

       اس کے علاوہ سپر ہٹ سدا بہار گیتوں کا ‘ ری مِکس سانگ ؛ بنانے کے نام پر پرانے گیتوں کے ساتھ اس قدر چھیڑچھاڑکی جا رہی ہے کہ گیت میں سنگیت ہی سنگیت سنا ئی دیتا ہے ۔جس سے گیت کا بنیادی روپ ہی مسخ ہوتا جاتا ہے۔ اس طرح جدید موسیقی آلات سے کئے جا رہے تجربات اور تجدید کاری نے کلاسیکل کہے جانے والے گیتوں کا ستیا ناس کر دیا ہے ۔حد تو تب ہو گیٔ جب گیتوں میں بغیر روک ٹوک دھڑلّے سے کُھلے عام، گالی گلوچ  ،بد تمیزی ، بے تکلفی اور کسی بڑے کے سامنے منھ تک نہ لا سکنے والے شرمندگی بھرے بولوں کا استعمال شروع ہوا ۔ایسا نہیں ہے کہ ہندوستانی سنیما میں بیری کے نیچے کانٹا لگا ، ہم تم ایک کمرے میں بند ہوں ، چھت پہ سویا تھا بہنویٔ ، تو چیز بڑی ہے مست مست ، سرکائے لو کھٹیا جاڑا لگے ،  چولی کے پیچھے کیا ہے ۔ جیسے گیتوں کی کمی رہی ہو ،ایسا بھی نہیں ہے کہ عوام نے ان گیتوں کو پوری طرح سے نکار دیا ہو ، مسترد کر دیا ہو ،بلکہ کچھ گیت اپنے دور میں بے حد مقبول رہے اور کچھ گیت تودنیا بھر میں ہندوستانی سنیما کی پہچان تک بن گئے۔ لیکن ان گیتوں کو صرف مقبولیت کی بنیاد پر معیاری کہنا صحیح دلیل نہیں ہو سکتی ۔

           گاؤں دیہات تو کیا بڑے بڑے شہروں میں کسی خوشی کے موقعہ پر ڈھول ، تاشے ، شہنا یٔ، لوک گیتوں وغیرہ کو گا ، بجا کر کا م چلا لیا جاتا تھا ۔ بیسوں صدی کے وسط سے دھیرے دھیرے ہندوستانی سنیما کے معیاری گیتوںنے بھی رس گھولنا شروع کیا ۔اس طرح یہ گیت ہندوستانی روایات میں داخل ہوتے چلے گئے ۔ لیکن سماج میں پریشانی تب پیدا ہوتی ہے جب ساری اچھی بری ہندوستانی روایات کو طاق پر رکھ کر دل کو دہلا دینے والے اور انکھوں کو چندھیا دینے والے موسیقی اور روشنی کے جدید ترین آلات کی مدد سے ، ایک آرکیسٹرا  ڈی جے، اِن پھوہڑ ، اشلیل ، بیہودہ گانوں یا گیتوں کو بڑی شان سے بجاتا ہے ۔اور اِن واہیات خرافاتی گیتوں اور سنگیتوں پر جدیدیت اور فیشن کے نام پر ہندوستانی بیٹے بیٹیاں تھرکتے ، ناچتے ،کودتے نیز ہوڑدنگ مچاتے نظر آتے ہیں ۔ گیتوں کے لفظوں کے ساتھ فلمانے میں برتاجا رہا ابتذال اور ننگے پن کی اندھا دھند مغربی تقلید کے رجحان نے ہندوستانی اقدار، شرم وحیا  ، بڑوں کی عزت کرنا ، رواداری ،آپسی میل جول ، پیار محبت وغیرہ کوپسِ پشت ڈالنے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ اس طرح گیتوں کے ساتھ ساتھ تہذیب و تمدن میں آیا ،تغیر و تبدل نظروں کواب زیادہ برا معلوم نہیں ہوتا ۔کیوں کہ یہ ترقی یافتہ ہونے کی دلیل جو ٹھہرا۔

     اس میں کوئی شک نہیں کہ موبائل فون نے انسانی زندگی میں انقلاب برپا کر رکھا ہے ، لیکن ساتھ ہی یہ شوسل میڈیا کی شکل میں جی کا جنجال بھی بنتا جا رہا ہے ۔ میمس ، رئیلس ، شارٹ ویڈیو کے ساتھ لگائے جا رہے گیتوں میںبھی مخربِ اخلاق عناصر کو پروس پروس کر اس قدر عام کر دیا گیا ہے کہ یہ ننگا پن ، ڈھکے چھپے انداز میں شرمگاہوں کا مظاہرہ اور لونڈوں میں لونڈیوں کی طرح خوب صورت دکھنے کا چلن ،سماج کا لازمی جزو معلوم ہونے لگا ۔نو جوانوں کے ساتھ پکی عمر کے لوگ اور ریٹائر انکل تک اس رجحان کی چپیٹ میں ہیں ۔ ایسے حالات اور ماحول میں گیتوں کی اصلاح کی تو قعہ مستقبل قریب میں تو نہیں کی جا سکتی ۔صفدر آہ لکھتے ہیں ۔

  ’’اب بیشتر میوزک ڈائرکٹروں نے یہ ظلم شروع کیا ہے کہ زئل قسم کی مغربی موسیقی کی طرزیں لے کر ان پر گانے لکھواتے ہیں اور ان گانوں کو فلم میں چلاتے ہیں ۔ یہ لغو طرزیں نئی ہونے کی وجہ سے بعض اوقات چل تو جاتی ہیں ۔ لیکن عوام کے ذوق میں اُن سے جو زہریلے جراثیم پیوست ہو رہے ہیں ،اس سے بھی چشم پوشی نہیں کی جا سکتی ۔ ‘‘۲؎

          ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فلمی گیتوں کا وہ دور گزر چکا جس میں انسانی زندگی کے حقیقی جذبات و تاثرات وتجربات کو مو سیقیت کے ساتھ مہذب طریقہ سے پیش کیا جاتا تھا ،جس میں آفاقیت و افادیت کا بخوبی لحاظ رکھا جاتا تھا ۔ ’’ میرا جوتا ہے جاپانی یہ پتلون انگلستانی سر پہ لال ٹوپی روسی پھر بھی دل ہے ہندوستانی ، میرے محبوب قیامت ہوگی آج رسوا تیری گلیوں میں محبت ہوگی ، کسی کی مسکراہٹوں پہ ہو نثارجینا اسی کا نام ہے ، چودھو یںکا چاندہو یا آفتاب ہو جو بھی ہو تم خدا کی قسم لاجواب ہو،بابل کی دعائیں لیتی جا جا تجھ کو سکھی سنسارملے ، جانے والوںذرا مڑ کے دیکھو مچھے ایک انسان ہوںمیں تمہاری طرح، کر چلے ہم فدا جان و تن ساتھیوں اب تمہارے حوالے وطن ساتھیوں ، یہ دوستی ہم نہیں توڑنگے ، پل پل دل کے پاس تم رہتی ہو ، دنیا میں کتنا غم ہے میرا غم کتنا کم ہے ، او میرے دل کے چین چین آئے میرے دل کودعا کیجیے ‘‘ وغیروغیرہ جیسے سدا بہار گیتوں کی نا جانے کتنی مثالیں ہمارے پاس موجود ہیں ۔ لیکن آج کے اکثر گیت کاروں ، موسیقی کاروں ، گلوکاروں اور متعلقین نے صرف لفاظی ، اشلیلتا، کسی معمولی بات پر تنازعہ کھڑا کرنے اور موسیقی کے نام پر شور شرابے کو ہی سب کچھ مان لیا ہے ۔جو عارضی مقبولیت اور چند پیسوں کے لیے سماج میں زہر گھولنے کا کام کررہے ہیں۔

         بھوجپوری اور دیگر علاقائی گیت نگاری نے تو عورت کی عزت اور وقار کو بڑی چوٹ پہنچائی ہے۔ ان گیتوں نے عورتوں کے خلاف سماجی ماحول کو بگاڑا ہے ۔ کچھ شدد پسندوں نے تفنّنِ طبع کا معنی ہی بدل دیا ہے، جس نے سما جی تانے بانے کو تڑم بڑم کیا ہے ،اِبتذال و نفاق کی حدوں کو پار کیا ہے۔ یہاں تک کے گیتوں کو اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے اور عورت کو بے ساختہ استعمال کی ایک چیز بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، جس سے جنسی ہنسا اور تشدد کے ساتھ پیار کا جھانسا ، گھر واپسی جیسی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے ۔ اس طرح کی پیش کش سے گیت تخلیق کار وں میں تخلیقی صلاحیت و اہلیت کی کمی کا احساس ہوتا ہے ، جو اپنے چند گنے چنے موضوعات کے محدو دائرے سے باہر نکلنا ہی نہیں چاہتے، یا یہ عارضی سماجی مقبولیت اور پیسہ کی چاہت ، اِنہیں اِس تنگ دائرے سے نکلنے نہیں دیتی ۔کیوںکہ تخلیق کار اپنی انفرادیت کے باوجود اپنے ماحول کی نمائندگی ضرور کرتا ہے ،وہ سماج سے متاثر ہوتا ہے اور سماج کو متاثر کرتا ہے ۔ ایک سماجی ، تہذیبی، سیاسی،اخلاقی طور سے بیدار فن کار ہی جان سکتا ہے کہ عوام کے مذاق کی پیروی کس حد تک کی جا سکتی ہے۔کیوںکہ فن کار کو سماج کا سب سے زیادہ حسّاس شخص مانا جاتا ہے۔ اسی لئے کسی خاص وقت کی تخلیق سے اُس وقت کے حالات وخیالات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔اسی طرح آج کی گیت نگاری سے موجودہ سماج میں سنجیدگی اور بیہودگی کی نوعیت کو بھی سمجھا جا سکتا ہے ۔صفدر آہ لکھتے ہیں ۔

  ’’ مجھے افسوس ہے کہ ہندوستانی ڈراموں  ( فلموں ) میں گیت ، غزل یا غزل نما گیت لکھنے والے بیشتر غیر شاعر تھے ، کچھ شاعر اگر اس زمرے میں آ گئے ہیں تو تو وہ نہایت بد دلی سے صرف پیسہ کمانے کے لیے کام کرتے ہیں حلانکہ اگر وہ اپنی صلاحیتوں کو خلوص کے ساتھ اس طرف لگائں تو گانوں کا ایک بڑا اچھا ادب پیدا ہو سکتا ہے ۔‘‘  ۳؎

       ساہتیک آلوچنا یا ادبی تنقید نگاری اصناف ، موضوعات ، اندازِبیان کو سمجھ پرکھ کر کسی نہ کسی معنوں میں ادب کی خدمت اور رہنمائی، ہی کرتی ہے ،چاہے وہ تخلیق کی شکل میں ہو یا تخریب وتنقیص کی ۔  ۴؎  صنفِ گیت نگاری کواس طرح کی رہنمائی بہت کم، بلکہ نہ کے برابر نصیب ہوئی۔ یہ تنقید ہی ہے جو کسی استاد شاعر کے کلام سے ،وہ وہ معنی اخذ کر لیتی ہے ، جس کا خواب و خیال اُس شاعر کے باپ دادائوں کو بھی نہ آیا ہو ، لیکن گیت کے معاملہ میں تنقید کا معیار کچھ الگ ہے۔

        جبکہ تنقید کی عجیب و غریب بحثوں سے قطعہ نظر عوام میں یہ صنف یا تجربہ بہت موثر و مقبول رہا ،سماج نے اِن گیتوں کو ہاتھوںہاتھ لیا ۔ عوام نے اِن فلمی نغموںکو لوک گیتوں کی ترقی یافتہ شکل اور متبادِل جانا ۔ ان گیتوں کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جہاں تھوڑا سا بھی موقع ومحل بنا ، گانا چالو ۔ ریل گاڑی ، کار ،بس ، ہوائی جہاز وغیرہ میں سفر کے دوران گیتوں کو بڑے شوق سے سنا جاتا ہے۔ شادی بیاہ پارٹی سے لے کرمیلوں ٹھیلوں تک ، چائے کے اسٹول سے لے کر پانچ ستارہ ہوٹلوں تک ، ورکشاپ سے لے کر ورزش گھروں تک ، دوکانوں مکانوںسے لے کر شاپنگ مالوں تک ، بازاروں سے لے کر چنائو پِرچاروں تک ، سڑکوں پر دوڑتے ٹرکوں سے لے کر کھیت کھلیہانوں کو جوتتے ٹریکٹروںتک ،اِن گیتوں کی رسائی ہے ۔لیکن یہ گیت خواص پسند ادبی نقادوںتک اپنی پہنچ نہ بنا سکے ، ان کو کسی بھی اعتبار سے نہ رِجھا سکے ، ان کے تنقیدی تبصروں کے موضوعات نہ بن سکے ۔حلانکہ اِن میں شایدہی کوئی صاحبِ نظرو فکر ایساہو جو کبھی ان گیتوں سے لطف اندوز نہ ہوا ہو۔یہ احسان فراموشی نہیں تو کیا ہے ؟

       بے شک موسیقی یا سنگیت ایک بہترین گیت کا لازمی جزو ہے ،لیکن گیت تو لفظوں کے بغیر وجود میںہی نہیں آ سکتا ۔شاید متعصب ادیبوں نے گیتوں کی موسیقیت، سہل اندازِبیان اور محدود مضامین کابہانہ لے کر فلمی گیت کو ادب کی باقائدہ صنف ماننے سے گریز ہی کیا ۔چاہے ان گیتوں میں اعلی سے اعلی خیالات کو بہترین لفظوں کی عمدہ ترتیب کے ساتھ ہی کیوں نہ پیش کیا گیا ہو۔ ۵؎؎ سماجی بیداری سے لے کر ملک کی آزادی میں اہم کردار ہی کیوں نہ ادا کیا ہو ، لوگوں کو ان کے غم ، دکھ درد ، پریشانی بیماری وغیرہ میں چین و سکون بھی کیوں نہ عطا کیا ہو ، لمبی لمبی مسافتوں کو پُرلطف ہی کیوں نہ بنا دیا ہو ، انسانی فطرت و مناظرقدرت کا بیان ہی کیوں نہ کیا ہو ،لوگوں میں یکجہتی ، اتفاق و اتحاد ، وطنیت،برابری اور بھائی چارے کا پیغام ہی کیوں نہ دیا ہو ، پھر بھی ادب میں یہ گیت اپنے جائز مقام کونہ پا سکے جس کے یہ اصل میں حقدار تھے ۔کہا جاتا ہے کہ گیت ایک موڈہے ، ایک خیال ہے اور ایک فوری احساس کا بھر پور اظہارہے ،یہ کسی پیچیدہ فلسفیانہ خیالات کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ ۶؎ یہ کہنا کافی حد تک صحیحؓبھی ہے ،لیکن اِن مندرجہ بالا وجہوںسے گیت کی افادیت و آفاقیت کہاں متاثر ہوتی ہے۔ موسیقی کا بھی یہی حال ہے جوانسانی دنیا میں ایک بڑا علاقہ رکھتی ہے جو گیت کی تاثیر میں کئی گنا اضافہ کر دیتی ہے ۔

اردو ہندی کے بہت سے مشہور شاعروں نے گیت نگاری میں طبع آزمائی کی،اور اس صنف کے فروغ میں اہم رول ادا کیا۔اِن میںسے کئی شہرت کے اعلی مقام پر فائز بھی ہوئے ،ان میں سے کچھ فلمی دنیا کی ضرورتوں اور کام کرنے کے طور طریقوں سے بد ظن ہو کر اُلٹے پائوں واپس بھی ہو لیے ۔ اِس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ فلم سازی یا گیت نگاری میں تجارتی ، کاروباری اور پیشہ وارانہ تصورات کا غلبہ ہے ۔ایک فن کار کو اپنی بقاء اور اپنی تخلیق کی مقبولیت کے لیے تمام تر سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں ،مرو ج اصولوںکی پابندی کرنی پڑتی ہے ۔جس کی وجہ سے اس کی تخلیق سے وہ سب غائب ہوتا جاتا ہے جو ادبِ الیہ کو درکار ہے ۔اس طر ح ایک فن کار کو ــ  ، فن اور دھن میں توازن بٹھا پانا مشکل ہو جاتا ہے جس سے پار پانا اِس کے لیے آسان نہیں ہوتا ۔

  ہم یہ نہیں کہتے کہ گیتوں کو سماجی اصلاح ،تعلیم وتفنّن کا آلاکار بنا دینا چاہیے ، یا اِن پر وہ بوچھ لاد دیا جائے ، جوبڑے بڑے مفکروں ، دانشوروں اور مصلحوں کا خاصہ رہا ۔یقینا  فائن آرٹ یعنی فنونِ لطیفہ کی پہلی شرط تفریح کا سامان مہیا کرانا ہے ۔۷؎  اِس بھاگ دوڑ بھری ، بے چین زندگی میں دو پل آرام و سکون کے فراہم کرنا اس کا مقصد ہونا بھی چاہیے ۔لیکن اپنی تاریخ و تہذیب کی اعلی قدروں کو  پسِ پشت ڈال کر ، کہیں اور لطف و خوشی ، تلاش کرنا ، کہاں کی سمجھ داری ہوگی؟ ۔ فنونِ لطیفہ کی بنیاد عیاشی، اشلیلتا، ننگا پن ، گالی گلوچ ، نفرت اور تشدد  جیسے مخربِ اخلاق عناصرپر قطعی نہیں رکھی جانی چاہیے ۔ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ ہم ترقی پزیر ملک ہیں ، اِس کی اپنی ضرورتیں ہیں ، اپنے ذرائع ہیں ،اپنے مقاصد ہیں ۔اِس لیے ہر میدان میں اندھی تقلید سود مند ثابت نہیں ہو سکتی ،  بغیر غور وفکر کے کسی خاص دبستان یا تحریک کی پیروی کرنا ، چاہے وہ گیت سنگیت ہی کیوں نہ ہو مثبت

نتائج نہیں دے سکتی ۔

 یہ بھی عیاں حقیقت ہے کہ فلمی گیتوں نے اردو اور ہندوستانی  وُکیبولیری یعنی ذخیرہ ِ الفاظ کو عام فہم بنانے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ اِن گیتوں نے ہی، خاص کر ہندی اردو کے شیری لفظوں کو نابودہونے سے کسی نہ کسی شکل میں بچا رکھا ہے ۔ ڈرامے  کے بعد سنیما اور اب گیتوں سے اردو ادب کی بیزاری نے ، کیا نفع پہنچایا ہے؟بلکہ اِس کا خمیازہ رسم الخط اُٹھا رہا ہے۔ خیر اِن گییوں کی سماجی اہمیت ، حیثیت و افادیت کودیکھتے ہوئے آج ضرورت اِس بات کی محسوس ہوتی ہے کہ فلمی گیتوں کو ادب میں دیگر مرکزی دھارے کی اصاف کی طرح استعمال میں لایا جائے ، اِن گیتوں میں معیاری واعلی تخلیقات کی قدرو قیمت کا تعین کیا جائے ۔ معیاری گیتوں کو نصاب میں جگہ دی جائے۔ اِن گیتوں کے موضوعات و خیالات ،لفظ ومعنی ، اندازِبیان وہیئت ا ور موسیقی وغیرہ  پر ،  تنقید کے مختلف دبستانوں کی روشنی میں تاثرات ونظریات پیش کیے جائیں ۔جس سے نئے لکھنے والوں کے سامنے ، صحت مند اُصول و  تِمثال موجود ہوں۔ اِس طرح سے گیت نگاری کے معیار میں آئی گراوٹ اور ابتذال کی کچھ اصلاح اور رہنمائی کی جا سکتی ہے ۔

                                                     ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

        حوالہ جات

            ۱  ۔       ڈاکٹر قمر رئیس و خلیق انجم ، اصنافِ ادب اردو، ، ایجوکیشنل بک ہا ئوس علی گڑھ ، ۲۰۱۹ ،ص۷

            ۲  ۔      صفدر آہ ، ہندوستانی ڈراما ، نیشنل بک ٹرسٹ پبلیکیشنز ڈویزن،دہلی، ۱۹۶۲،ص ۲۸۱

            ۳  ۔      صفدر آہ ، ہندوستانی ڈراما ، نیشنل بک ٹرسٹ پبلیکیشنز ڈویزن،دہلی، ۱۹۶۲،ص ۲۸۲

            ۴ ۔ پروفیسر نورالحسن نقوی ، فنِ تنقید اور اردو تنقید نگاری ، ایجوکیشنل بک ہا ئوس علی گڑھ ، ،۲۰۱۶ ، ص۲۸

            ۵۔      پروفیسر نورالحسن نقوی ، تاریخ ادب اردو ، ایجوکیشنل بک ہا ئوس علی گڑھ ، ، ۲۰۱۴  ، ص ۲۳۰

             ۶۔       ڈاکٹر قمر رئیس و خلیق انجم ، اصنافِ ادب اردو، ، ایجوکیشنل بک ہا ئوس علی گڑھ ، ۲۰۱۹ ،ص۷

             ۷ ۔      محمود الہی و محمد عمر ، ناٹک ساگر، قومی کونسل برائے فروغ زبان اردو دہلی، ۲۰۰۵، ص ۲۹

             ۸ ۔     عبادت بریلوی ، اردو تنقید کا ارتقاء ، ایجوکیشنل بک ہا ئوس علی گڑھ ،۲۰۱۱

              ۹  ۔    نوین شرما ، فلمی گیتوں کا سفر ، نوشن پریس میڈیا پرائیوٹ لیمیٹیڈ ، وانا گرام چینئی، ۲۰۲۱

              ۱۰   ۔    یو ٹیوب چینل ، سدا بہار نغمے ،آن لاین پلیٹ فارم

Leave a Reply