You are currently viewing سیداحمدایثار کا منظوم اردو ترجمہ مثنوی مولانا روم

سیداحمدایثار کا منظوم اردو ترجمہ مثنوی مولانا روم

محمداحمد واحدؔ

      و

ڈاکٹر فہیم الدین احمد

اسسٹنٹ پروفیسر، شعبۂ ترجمہ، مانو، حیدرآباد

سیداحمدایثار کا منظوم اردو ترجمہ مثنوی مولانا روم

مولانا روم کا نام محمد جلال الدین رومی ہے۔ آپ کی پیدائش 30 ؍ستمبر 1207ء میں بلخ (موجودہ افغانستان)میں ہوئی۔ آپ کی شہرت مولانا روم، مولانا رومیؔ، جلال الدین محمد بلخی اور جلال الدین وغیرہ ناموں سے ہے۔ مولانا روم کا سلسلۂ نسب ددھیال کی طرف سے حضرت ابوبکر صدیقؓ سے ملتا ہے جبکہ ننھیال کی طرف سے حضرت ابراہیم بن ادھمؒ سے ملتا ہے۔ آپ کے والد گرامی مولانا بہاء الدین اپنے وقت کے بڑے صاحبِ علم و فضل تھے۔ مولانا رومیؔ ابتداء میں اپنے والد گرامی کے زیرتربیت رہے۔ شیخ برہان الدین محقق ترمذی مولانا رومیؔ کے اتالیق تھے۔ مولانا رومیؔ کے پیرومرشد اور روحانی پیشوا شمس تبریزی تھے اسی نسبت سے مولانا رومیؔ کا یہ مشہور شعر ہے    ؎

مولوی ہرگز نہ شُد مولائے روم

تا غلامِ شمس تبریزی نہ شُد

مولانارومیؔ نے شمس تبریزی کے علاوہ دوسرے صوفیاء ، علماء اور مشائخ سے بھی استفادہ کیا۔ مولانا روم کے والد بزرگ وار نے 1215ء اور 1220ء کے وسط میں منگول کے وسط ایشیاء پر حملہ کے زمانے میں ترکِ وطن کیا اور خراسان سے ہجرت کرکے شہر قونیہ میں سکونت اختیار کی۔

مولانا روم تیرہویں صدی کے ایک عظیم صوفی، برزگ، شاعر ، فلسفی، عالم، محدث، فقیہہ اور مفسر کی حیثیت سے مشہور و معروف ہیں۔ قونیہ شہر کے ایک مدرسہ میں وہ صدر مدرس تھے۔ تصوف و طریقت اور روحانی تعلیمات کے حوالہ سے مولانا کی غیر معمولی شہرت ہے اور اسی غیرمعمولی شہرت و مقبولیت کی بنا پر ان کی فکر وفن سے متعلق سینکڑوں کتابیں لکھی گئیں اور مختلف زبانوں میں ان کے فکروفن کو ترجمہ کے ذریعہ عام کیا گیا اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ مولانا رومیؔ کی کتابوں میں فیہ مافیہ (مواعظ کا مجموعہ) مجالس سبع (سات مواعظ کا مجموعہ) دیوانِ شمس تبریزی (رومیؔ کی غزلیات کا مجموعہ) اور مثنوی معنوی شامل ہیں۔

مولانا روم کی اصل شہرت و مقبولیت ان کی شاعری سے ہے اور اس سلسلہ میں ان کے علم وعرفان اور معرفت کا اصل سرچشمہ ’’مثنوی معنوی‘‘ ہے جو فارسی زبان میں ہے، جس کے بارے میں فارسی کے مشہور شاعر مولانا عبدالرحمن جامیؔ کا یہ مشہورِ زمانہ شعر ہے    ؎

مثنویٔ     مولوی ٔ    معنوی

ہست قرآں ور زبانِ پہلوی

یعنی اس مثنوی کو اس قدر اہمیت حاصل ہے کہ اس کو پہلوی زبان کا قرآن کہا جاتا ہے یہی وجہہ ہے کہ پہلے خانقاہوں میں اہل اللہ باضابطہ مثنوی معنوی کا درس دیا کرتے تھے تاکہ لوگوں کی روحانیت کا اضافہ ہو۔ مولانا رومؔ نے اس مثنوی میں دقیق سے دقیق مسائل اور عرفان و معرفت کی نازک باتوں کو مختلف واقعات، حکایات اورآسان مثالوں کے ذریعہ سمجھایا ہے۔

مولانا رومیؔکے دستِ راست حسام الدین چلپی اس مثنوی معنوی کے محرک ثابت ہوئے۔ یہ مثنوی 6؍جلدوں میں ہے۔ اس مثنوی کا آغاز685ھ۔1260ء کو ہوا۔ اس کی اشاعتِ اوّل 1835ء میں بلاقی مصر میں ہوئی، اس کے بعد سے اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے اور ہورہے ہیں۔ اس مثنوی میں 27720 اشعار ہیں۔ اس مثنوی کے مطالعہ سے بڑے سے بڑے دقائق کو آسان اور عام فہم مثالوں کے ذریعہ سمجھانے کا فلسفہ حکمت ظاہر ہوتا ہے اس لئے اس مثنوی کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔ مثنوی معنوی کی اہمیت ہی کی بنا پر ہر زمانہ میں اس کی تشریح و توضیح ہوتی رہی اور اس سلسلہ میں مثنوی معنوی کی عمدہ عمدہ شروحات شائع ہوئیں اور مختلف علماء، صلحاء اور مترجمین نے اس کے منثور اور منظوم تراجم کئے، چنانچہ اردو میں بھی مثنوی مولانا روم کے متعدد تراجم ہوئے جن میں بوستانِ معرفت (از مولوی عبدالمجید خان بن عبدالرحیم خان) پیراہنِ یوسفی (ازمحمد یوسف علی شاہ بن محمد جلال الدین خان المعروف بہ بانکی میاں چشتی نظامی زنبیل شاہی گلشن آبادی) مثنوی عقد گوہر (ازخان بہادر پیرزادہ مولوی محمد حسین صاحب بہادر ایم۔اے ،صدیقی مہتمی، سی آئی ای سابق سشن جج جموں وکشمیر) مفتاح العلوم (ازمولانا مولوی محمد نذیر صاحب عرشیؔ نقشبندی مجددی) کشف المفہوم (ازمولوی محمد بشیر صاحب، صدیقی مولوی فاضل علی پوری)، شجرۂ معرفت منتخبات مثنوی مولانا روم (ازغلام حیدر کو پاموئی حیدرؔ) مجمع فیض العلوم ترجمہ مثنوی مولانا روم (از تقی الٰہی بخش و مولوی ابوالحسن کاندھلوی)، کلید مثنوی (از مولانا اشرف علی تھانویؒ)، مثنوی معنوی(ازقاضی سجاد حسین) معارف مثنوی (از حکیم اختر صاحب) الہام منظوم (از سیمابؔاکبرآبادی بہ تعاون مولوی فیروز الدین)اشرف العلوم ترجمہ منظوم مثنوی مولانا روم، اظہار المنظوم (از تقی سیدشاہ محمد اظہار اشرف اشرفی جیلانی کچھوچھوی) مرأۃ المثنوی یعنی انتخابِ مثنوی (ازقاضی تلمذ حسین) جواہرالعلوم (از مولانا ابو محمد مخدوم زادہ) کشف العلوم (ازمولانا محمد ہدایت علی لکھنوی) ترجمہ اردو مقامات مولانا روم صاحب المعروف بہ مناقب عارفین (از شمس الدین افلاکی) وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

بنیادی طور پر مثنوی مولانا روم کے منثور اور منظوم ہر دو تراجم ملتے ہیں۔ مثنوی مولانا روم کا ایک اردو منظوم ترجمہ سید احمد ایثار نے بھی کیا ہے جو چھ جلدوں میں ہے۔ سید احمد ایثار کا تعلق ہندوستان کے مشہور شہر بنگلور سے ہے۔ ان کی پیدائش 25؍جولائی 1932ء کو بنگلور میں ہوئی اور ماضی قریب یعنی 21 اپریل 2021ء بہ مطابق 7؍رمضان المبارک 1442ء کو ان کی وفات ہوئی۔ شاعر، ناثر، مترجم، محقق، مؤرخ اور ماہرِ اقبالیات کی حیثیت سے ان کی شہرت ہے۔ ہندوستانی محکمۂ جنگلات میں ایک اعلیٰ افسر کی حیثیت سے ان کی پیشہ ورانہ خدمات رہیں۔ آئی ایف ایس (مؤظف کنزرویٹر آف فارسٹس) ہونے کے باوجود وہ نہایت سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ نام و نمود اور شہرت سے کوسوں دور رہے اسی لئے آج بھی ان کے نام، کام اور خدمات سے ایک دنیا ناواقف نظر آتی ہے مگر علمی و ادبی اور تراجم کے حوالہ سے ان کی خدمات ان کے نام کو زندہ رکھنے کے لئے کافی ہیں۔ ان کی اصل شناخت ترجمہ کے حوالہ سے ہے۔انہوں نے علامہ اقبالؔ کے فارسی کلام کے اردو منظوم ترجمہ کو بھی اپنا ہدف بنایا چنانچہ پس چہ باید کرد، زبورِ عجم، جاوید نامہ، اور اسرار و رموز کا منظوم ترجمہ کیا۔ علاوہ ازیں سراغِ زندگی(خودنوشت)، انوار الصوفیہ اور ترانہ و ترنگ وغیرہ بھی ان کی یادگار کتابیں ہیں۔ انہوں نے فارسی کے مشہور شعراء جیسے شیخ سعدیؔ، حافظ شیرازی اور عمر خیام وغیرہ کے فارسی کلام اور بالخصوص رباعیات کا اردو ترجمہ بھی کیا۔ سرِ دست مثنوی مولانا روم کے ان کے منظوم اردو ترجمہ پر گفتگو مقصود ہے۔

سیداحمدایثار نے 6؍جلدوں میں مثنوی مولانا روم (فارسی) کا منظوم اردو ترجمہ کیا جو یقینا ایک اہم کارنامہ ہے اس لئے کہ پہلی بات یہ ہے کہ ترجمہ خود مشکل عمل ہے پھر شاعری کا ترجمہ نازک اور منظوم ترجمہ تو نازک تر اور دشوار گزار شاہ راہ ہے۔ اس میں اہم بات یہ ہے کہ سیداحمد ایثار ایک پختہ اور کہنہ مشق شاعر بھی ہیں۔ ظاہر ہے کہ شاعری کا ترجمہ ایک شاعر بہتر طور پر کرسکتا ہے بشرطیکہ اس میں مترجم کی صفات پائی جاتی ہوں۔

کامیاب ترجمہ کے لئے بنیادی شرط مترجم کا دونوں زبانوں سے واقف ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اس حوالہ سے دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ سیداحمد ایثار کو دونوں زبانوں، ان کی نزاکتوں اور تہذیب سے بھرپور واقفیت تھی۔ انہوں نے فارسی زبان و ادب کا خصوصاً مطالعہ کیا اور نہایت انہماک سے کیا۔ انہوں نے اپنے شب و روز اس مطالعہ میں کھپائے اور اس سلسلہ میں مختلف اردو تراجم سے بھی مدد لی ہے چنانچہ مثنوی مولانا روم کے منظوم اردو ترجمہ کے مقدمہ کے آخر میں نہایت انکسار کے ساتھ وہ یوں رقم طراز ہیں:

’’میں جانتا ہوں کہ میں اس کام کی صلاحیت نہیں رکھتا لیکن چاٹ جو لگ گئی، سو کام کرتے چلاگیا۔ اس کام میں مولانا قاضی سجاد حسین کا نثری ترجمہ اور مولانا مولوی محمد نذیراحمد صاحب چشتی نقشبندی کی مفتاح العلوم سے کافی مدد حاصل ہوئی پھر بھی نہیں کہہ سکتا کہ میں نے کوئی کام کیا ہے البتہ کام کرنے کی کوشش ضرور کی ہے۔(مقدمہ مثنوی مولانا روم)

سیداحمد ایثار نے مثنوی مولانا روم کے طویل منظوم ترجمہ کا جو معرکہ سر کیا ہے، اس سلسلہ میں وہ علامہ اقبالؒ سے کافی متاثر نظر آتے ہیں کہ اقبال نے خود کو مولانا کا مرید ہندی (معنوی)تصور کیا ہے اسی طرح دوسرا باعث یہ کہ سید احمد ایثار کو پہلا شعرفارسی کا جوازبر ہوگیا تھا وہ مولانا رومیؔ ہی کا شعر تھا۔ اس طرح فارسی زبان وادب اور اس مثنوی کے ترجمہ کی طرف ان کی رغبت بڑھی اوران کو تحریک ملی جیسا کہ مثنوی معنوی کے منظوم ترجمہ کے محرک کے بارے میں انہوں نے وضاحت کی ہے:

’’میں نے مثنوی کے اردو میں منظوم ترجمہ کا بیڑہ اٹھایا۔ اس کی دو وجہیں تھیں، ایک یہ کہ سب سے پہلا فارسی شعر جو اتفاقاً مجھے ازبر ہوگیا وہ مولانا کی مثنوی کا ہی شعر تھا۔ دوسری وجہہ یہ کہ علامہ اقبالؔ جن کی ساتوں فارسی کتابوں کا میں نے منظوم اردو ترجمہ کیا ہے۔ وہ خود کو مولانا کا مرید معنوی تصور کرتے تھے، اسی باعث میں علامہ کے ترجمہ کے بعد 1982ء میں مثنوی کی طرف متوجہ ہوا اور 1992 تک پانچ جلدوں کا ترجمہ کیا۔ پہلی جلد مع متن اور باقی بلامتن۔2014ء میں کاموں سے فارغ ہونے کے بعد پہلی چار جلدوں کے تراجم کو متن سے جوڑا اور چھٹی جلد کو مع متن 2016ء میں پورا کیا‘‘۔ (مقدمہ مثنوی مولانا روم)

یہ یقینا بڑی بات ہے کہ سیداحمد ایثار نے اپنے غیرمعمولی جذبہ اور جنون کے پیشِ نظر مولانا روم کی فارسی شاہکار مثنوی کا اردو منظوم ترجمہ کیا اور اپنے اس اردو منظوم ترجمہ کو بھی 6؍جلدوں میں مکمل کرکے شاہکار بنادیا۔ اس سلسلہ میں پہلا شعر جو ان کی مثنوی کی طرف توجہ کا باعث بنا ،وہ شعر یہ ہے    ؎

تن بجاں جنبد نمی بینی تو جاں

لیک از جنبیدنِ تن جاں بداں

(یعنی جسم کی حرکت روح کے سبب سے ہے اور روح کو تم دیکھتے نہیں ہو لیکن جسم کی حرکت سے جان کے وجود کو پہچان لیا کرو) اور سید احمد ایثار نے مثنوی مولانا روم کا یہ شعر قاضی سید نصیرالدین حسینی چشتی القادری کے وعظ میں سنا جبکہ وہ بنگلور چھائونی کی میسور لانسرز کی مسجد کے سامنے ایک کھلے میدان میں وعظ فرمارہے تھے۔ قاضی صاحب نے اس شعر کی جو تشریح فرمائی تھی اس کو ذہن نشین کیا اور دہراتے رہے اور یہ سلسلہ آگے بڑھا اور بالآخر اردو کے منظوم ترجمہ کی شکل میں سامنے آیا جس کا ذکر سیداحمد ایثار نے اپنے مقدمہ کے شروع میں کیا ہے۔ اس مقدمہ میں انہوں نے مولانا روم کے تعارف اور مختصر حالات کو جامعیت کے ساتھ لکھا ہے۔ یہ مقدمہ 14؍صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے بعد مثنوی کا ترجمہ شروع ہوتا ہے۔ یہاں اس مثنوی کے منظوم ترجمہ کا نمونہ پیش کرنے کے لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ فارسی اشعار اور اردو منظوم ترجمہ دونوں کو ایک جگہ پیش کیا جائے اس لئے کہ میرے پیش نظر جو منظوم ترجمہ ہے اس میں فارسی متن شامل نہیں ہے۔ ملاحظہ کیجئے    ؎

بشنواز نے چوں حکایت می کند

بانسری کہتی ہے کیا سنئے ذرا

وزجدائیہا شکایت می کند

ہجر کے شکوے سناتی ہے سدا

کزنیستاں تامراببریدہ اند

لائے ہیں بن سے جدا کرکے مجھے

ازنفیرم مرد وزن نالیدہ اند

مرد و زن نالاں ہیں میری آہ سے

سینہ خواہم شرحہ شرحیہ از فراق

ہے مجھے مطلوب کوئی سینہ چاک

تابگویم شرحِ دردِ اشتیاق

تاسنائوں اپنا حالِ درد ناک

ہر کسے کو دور ماند از اصلِ خویش

جو بھی اپنی اصل سے ہوجائے دور

بازجوید روزگارِ وصلِ خویش

اس میں ذوقِ وصل ہوتا ہے ضرور

من بہ ہر جمعیتے نالا ں شدم

میں تو ہر محفل میں نالاں ہی رہی

جفتِ خوش حالاں و بدحالاں شدم

جشنِ شادی ہی سہی ماتم سہی

ہر کسے ازظنِ خودشد یارِ من

ہر کوئی اپنی غرض سے یار ہے

وز درونِ من نہ جست اسرارِمن

اس کومیراراز کب درکارہے

یہ مثنوی مولانا روم کے ابتدائی اشعار اور ان کا ترجمہ ہے۔مولانا روم کی مثنوی بحرِ رمل مسدس محذوف میں ہے جس کے ارکان ہیں فاعِلاتن،فاعِلاتن، فاعِلن۔سیداحمد ایثار نے بھی اسی بحر میں مثنوی کا منظوم اردو ترجمہ کیا ہے اور یہ قابل ستائش بات ہے اس لئے کہ منظوم ترجمہ میں ہیئت کے مسائل پیش آتے ہیں جن سے کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ ہونا ہرکس وناکس کی بات نہیں۔ مندرجہ بالا فارسی متن اور اردو منظوم ترجمہ کو ملاحظہ کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سیداحمدایثار کا یہ منظوم اردو ترجمہ لفظی ترجمہ ہرگز نہیں ہے۔یہ بامحاورہ اور ادبی ترجمہ ہے جس میں کمی بیشی روا رکھنی پڑتی ہے اور اس میں شاعری کے فن اور وزن و بحر نیز قافیہ کی مجبوریاں بھی ہوتی ہیں۔ اس کو سمجھنے کے لئے اگر پہلے شعر کا ترجمہ ہی ملاحظہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ سراسر بامحاورہ ہے۔ شعر کے دوسرے مصرع میں اصل متن (فارسی) میں لفظ ’’سدا‘‘ نہیں ہے، اس کے متبادل الفاظ ابد، تاابدیا دائم اور دائمی وغیرہ الفاظ متن میں نہیں ہیں،مترجم نے یہاں پہلے مصرع کے قافیہ لفظ ’’ذرا‘‘کے ہم قافیہ ہونے کی وجہہ سے ، لفظ ’’سدا‘‘ کا استعمال کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ضرورتِ شعری کے پیش نظر الفاظ میں کمی بیشی ضرور کی ہے اور اسی لئے انہوں نے اپنے مقدمہ کے آخر میں یہ نوٹ دیا ہے کہ ضرورتِ شعری کے پیش نظر بعض الفاظ کو تخفیف کے ساتھ برتا گیا ہے جیسے گواہ کے لئے گوا، چاہ، چہ، کوہ، کہ، کوتاہ، کوتہ وغیرہ۔

اس منظوم ترجمہ کی چھ جلدوں میں مترجم نے اصل فارسی متن کے مطابق مختلف عنوانات قائم کئے ہیں چنانچہ پہلی جلد کی فہرست میں 187، دوسری جلد کی فہرست میں 124،تیسری جلد کی فہرست میں 234، چوتھی جلد کی فہرست میں 158، پانچویں جلد کی فہرست میں 190 اور چھٹی جلد کی فہرست میں 153 عنوانات شامل ہیں البتہ اس ترجمہ میں مترجم نے منظوم ترجمہ کی مشکلات اور مسائل کا کہیں ذکر نہیں کیا ہے جبکہ انہوں نے کلامِ اقبال کے فارسی سے اردو منظوم تراجم کے مقدمہ میں بعض ایسے مسائل کا ذکر کیا ہے۔ سیداحمد ایثار کے منظوم ترجمے کے دوسرے نمونے دینے سے یہاں بخوفِ طوالت گریز کیا جارہا ہے۔

غرض یہ پورا منظوم اردوترجمہ آسان، سادہ زبان اور رواں اسلوب میں ہے۔ سیداحمد ایثار نے اس منظوم ترجمہ میں حتی الامکان ثقیل زبان استعمال نہیں کی اور بالکل عام فہم زبان میں یہ منظوم ترجمہ کیا ہے جیسا کہ ابتدائی اشعار کے نمونہ سے ظاہر ہے، البتہ اس منظوم ترجمہ میں ابلاغ و ترسیل کے باب میں کچھ کمیاں بھی رہ گئی ہیں۔ مطلب کو واضح کرنے میںمترجم نے بعض مقامات پر بھرپورترجمہ نہیں کیا ہے جن کی نشاندہی ایک علاحدہ مضمون کا تقاضا کرتی ہے۔

بنیادی طور پر سیداحمد ایثار کا یہ منظوم اردو ترجمہ ایک عمدہ ادبی سوغات ہے۔ مولانا روم کے اردو منظوم تراجم میں یہ ترجمہ ایک خوبصورت اضافہ ہے۔ اس کی زبان عام فہم اور سادہ ہونے کی بناپر عوام و خواص ہر دوطبقہ کے لئے اس سے استفادہ کرنا آسان ہے۔ سیداحمدایثار کے مثنوی مولانا روم کے اس منظوم اردو ترجمہ کو قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی نے نہایت اہتمام کے ساتھ خوبصورت انداز میں شائع کیا ہے۔ قومی کونسل کے ایپ ekitabپر بھی سرچ کرکے اس کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔

6281636641

    9-2-128 Mustaidpura

         NIZAMABAD-503001 . (TS)

This Post Has One Comment

  1. Khalid Nadeem

    جنابِ ڈاکٹر فہیم الدین احمد، آداب و تسلیمات
    مَیں آپ کا بے حد ممنون ہوں کہ آپ نے سید احمد نثار کا تعارف اور ان کے ترجمۂ مثنوی پر بہت عمدہ تبصرہ کیا۔ میرے لیے یہ خوشگوار حیرت کی بات ہے کہ سید احمد نثار نے کلامِ اقبال (فارسی) کا منظوم اردو ترجمہ کیا ہے۔ مجھے چونکہ ترجمے اور بالخصوص علامہ کے فارسی کلام کے ترجمے سے بہت دلچسپی رہی ہے، اس لیے مَیں آپ سے مخاطب ہونے کا شرف حاصل کر رہا ہوں۔
    چونکہ ان تراجم میں سے کوئی بھی میری نظر سے نہیں گزرا اور نیٹ پر بھی ان کی پی ڈی ایف موجود نہیں، اس لیے استفادے کی کوئی صورت نہیں بنی۔ کیا آپ میری دلچسپی کے پیشِ نظر کوئی راستہ نکال سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو مَیں سید احمد نثار کے تراجم پر باقاعدہ ایک تجزیاتی و تقابلی مضمون لکھوں گا۔
    ایک گمنام ادیب و شاعر پر بات کرنا اور اس کی تصانیف کا تذکرہ کرنا بھی کردار کی خوب صورتی ہے، جس کا اظہار آپ کے اس تبصرے سے ہوتا ہے۔ سلامت رہیے۔
    والسلام
    ڈاکٹر خالد ندیم
    سابق صدرِ شعبہ اردو زبان و ادب
    سرگودھا یونیورسٹی پاکستان
    ڈائریکٹر شبلی اکادمی پاکستان (سرگودھا)

Leave a Reply