جاوید رسول
ریسرچ اسکالر، سینٹرل یونی ورسٹی آف حیدرآباد
شفق کا نیا شعری بیانیہ اور انحراف کی شعریات
فن ایک الگ چیز ہے اور اخلاقیات الگ۔یہ کوئی نیا انکشاف نہیں کہ اس پر چونکا جائے بلکہ یہی وہ بنیادی مسئلہ ہے جو اب تک اردو دنیا میں جدیدیت اور مابعد جدیدیت جیسے ادبی رجحانات کی صحیح تفہیم و ترسیل اور انطباق کے راستے میں حائل ہے۔1955ء کے بعد اردو ادب میں ہونے والے تخلیقی تجربے شخصی عناصر سے معمور تھے،جن سے مقصود اخلاقی مطلقیت اور اجتماعیت کے نرغے سے نکال کر فن کے انفرادی تشخص کو بحال کرنا تھا۔یہ ضرورت جدیدیوں کو اس لیے محسوس ہوئی کہ فن کار کے ساتھ ساتھ فن بھی مذہبی، اخلاقی اور بعض مقصدی قسم کی نظریاتی جبریت کا شکار ہو چکا تھا،ورنہ جدیدیت کو فن برائے فن کا نعرہ بلند کرنے کی ضرورت پڑتی اور نہ ہی کمٹمنٹ کو تخلیقی آزادی کے لیے خطرہ قرار دینے کی نوبت آجاتی۔امرواقعہ یہ ہے کہ ہمارا شعری ادب انجمن پنجاب سے لے کر ترقی پسندی تک جس یکسانیت اور نظریاتی مطلقیت کا اسیرہوچکا تھا،جدیدیت یا نئی تجربیت اسی مطلقیت سے انحراف کی پہلی کوشش تھی۔گوکہ بعض لوگ اس نئی روش کو ادبی اجتہاد کا نام دیتے ہیں تاہم حتمی طور پر ایسا کہنا غیرمناسب ہوگا کیونکہ جدید رجحان کے تحت اردو ادب بالخصوص شاعری میں جتنے بھی نئے تجربے ہوئے ان میں روایت اور عصریت دنوں کا شعور ملتا ہے۔یہ بات نئی شاعری کے تشکیلاتی عمل کا تجزیہ کرنے پر صاف ظاہر ہوتی ہے کہ نئے شاعر نے روایت کی عمارت کو جب منہدم کیا یا زبان کی توڑ پھوڑ کی تو اس کے ملبے سے نئی تشکیل کے لیے کچھ اہم اور کارآمد چیزیں بھی واگزار کیں ، یہی وجہ ہے کہ نئی روش کو قطعیت کے ساتھ محض اجتہادی کہنا غلط ہوگا۔خیر اس نئی روش کے پیش رووں میں میراجی اور راشد وہ پہلے شعرا تھے جنہوں نے روایتی پیراڈایمTraditional Paradigm)) کو توڑ کر نئے پیراڈایم (New Paradigm)یعنی نئی شاعری کی بنیاد رکھی۔لیکن چونکہ اس وقت کا نقاد سماجی اخلاقیات کا پاسدار تھا جو کسی بھی قسم کی تخلیقی آزادی اور روایت شکنی کو ممنوع سمجھتا تھا لہذا دونوں کہیں نہ کہیں اس کے تعصب کا شکار ہو کر رہ گئے۔
لیکن اب زمانہ بہت آگے جا نکلا ہے،اتنا آگے کہ ہمارا روایت پسند نقاد جو کل تک اپنی تمام تر علمی و ادبی توانائی کے ساتھ سرگرم عمل تھا،وقت کی برق رفتار ڈجیٹل ترقی کے آگے اس قدر نربل ہوچکا ہے کہ اس میں اب نہ روایت کا شعور باقی ہے اور نہ ہی عصری حسیت کے پیدا ہونے کا کوئی امکان۔بلکہ اس کا تشخص مٹ جانے کے در پر ہے جس کی بحالی کے لیے اس نے مابعد جدیدیت کا چولا اوڑھاہے ۔وہ اب ثقافتی مطالعہ کے نام پر اپنے سامنے پڑے ہر متن کوفقط اس کی ظاہری ساخت کے اعتبار سے محض چند جدلیاتی اور اخلاقی عناصر کی بنیاد پر ہی دیکھتا پرکھتا ہے ۔لیکن اس کے اسی متعصبانہ تنقیدی رویہ کے سبب بیچارا قاری متن کی اصل فنی اور جمالیاتی حقیقتوں سے متعلق گمراہی کا شکار ہوجاتا ہے۔اب ایسے میں اگر آج کوئی نیا تخلیقی تجربہ ہوتا بھی ہے تو اسے روایتی یا غیر روایتی قرار دینے کے لیے ہمارے نقاد کے پاس کوئی علمی اور ٹھوس ادبی استدلال تو ہے نہیں اور نہ ہی کوئی ادبی معیار ہے، اس لیے وہ سماجی اخلاقیات کو ثقافتی مطالعہ کا رنگ دے کر متن میں سماجی بہبود اور معاشرتی زندگی کے عناصر کھنگالتا ہے اور اسی کو معیار بنا کر ہر نئے متن کو (خواہ وہ محض روایتی ہو) بلا کسی تردد کے مابعد جدیدیت سے تعبیر کرتا ہے۔ لیکن اگر کوئی متن مذکورہ عناصر سے ہٹ کر ہو تو برہم ہوکر ہمارا نام نہاد مابعد جدیدنقاد اسے یا توجدیدیت کے خانے میں رکھتاہے یا پھر سرے سے نکار کر ادب کے دائرہ کارسے باہر کی چیز ٹھہراتا ہے۔یہ ہے ہماری مابعد جدید تنقید کا المیہ!
’’قاری کی پیدائش مصنف کی موت کی قیمت پر ہونی چاہیے ‘‘یہ کہہ کر بارتھ نے قاری کے لیے تفہیم متن کی خود مختاری کا جواز نکالا تھا جسے بعد میںبنیاد بنا کر رونن میکڈانلڈ نے’’نقاد کی موت‘‘کا اعلان کیا۔لیکن ان نئے نظریات سے بھی اردو ادب کا کچھ بھلا نہ ہو سکا بلکہ المیہ کی بس صورت ہی بدلی اس کا خاتمہ نہیں ہوا۔ہاں البتہ اتنا ضرور بدلا کہ کل تک فقط دو ایک نقاد تھے آج سینکڑوں ہیں__چونکہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے اور ہمارا تخلیق کاربیک وقت دنیا بھر کی اردو بستیوں سے جڑاہے جہاں بارتھ کے ان خود مختار قارئین کی بہتات ہے جن کا مادی ذہن ڈیجیٹل اور ہائی ٹیک دنیا کو تو اپنے لیے تسلیم کرچکا ہے لیکن فنی یا ادبی ذوق کے حوالے سے ان کا ذہنی کینوس روایتی نقاد کا ہی پروردہ ہے، جو اتنا محدود ہے کہ وہ آج بھی اخلاقی اور مقصدی ادب کو فن کا معیار سمجھتے ہیں۔ بھلے ہی یہ ان کی دوہری شخصیت یاآلٹر ایگو Alter Egoہو، لیکن ان کی نظریاتی وابستگی اور غیر اکتسابی نظر سے ایک تخلیق کار کی آزادئی اظہار ضرور متاثر ہوتی ہے جس کے نتیجے میں وہ ان سے یا تو کنارہ کش ہوجاتا ہے یا پھر فقط شہرت کے لیے اپنے معیار کے ساتھ سمجھوتہ کرلیتا ہے۔لیکن وہ تخلیق کار جو کنارہ کشی اختیار کرتا ہے اس لیے زیادہ معتبر ہوتا ہے کیونکہ اسے اس بات کا ادراک ہو چکا ہوتا ہے کہ اس کا تخلیقی اظہار صحیح ترسیل و تفہیم کے لیے مخصوص ذہن کا متقاضی ہے۔چونکہ اسے مشہور ہونے کی تمنا ہوتی ہے نہ کم مقبولیت کا غم،اس لیے وہ بھیڑ سے نکل کر اپنی ریڑرشپ کو محدود اور مخصوص بنائے رکھنے کو ہر قسم کے سمجھوتے پر ترجیح دیتا ہے۔بہر کیف! نئی حسیت کا یہ تقاضا ہے کہ آج کا قاری اگر جینیون ادب پڑھنا چاہے تو اس کے لیے فن کی صحیح تعبیر و تشریح اور امکانات سے آشنا ہونا شرط اول ہے اور کم از کم اسے اس بات کا ادراک ہو کہ فن کی کوئی مطلق اخلاقیات نہیں ہوتی بلکہ ہر فن پارے کا لسانیاتی اور معنیاتی نظام اپنی اخلاقیات خود وضع کرتا ہے جو متن کے دائرہ کار سے باہر کے ہر خارجی عمل دخل کو رد کرتی ہے پھر چاہے وہ مقصدی نصب العین ہو یا سماجی اخلاقیات۔یہاں تک کہ متن اپنے معیار نقد کو بھی بذات خود متعین کر تا ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو ممکن تھا کہ ہمارے پاس معنی سے بحث کا اب تک کوئی جواز نہیں ہوتا۔
شفق سوپوری کوئی نیا نام نہیں ہے جسے اردو کے ادبی حلقوں میں متعارف کرانے کی ضرورت پیش آئے بلکہ یہ نام بہت پہلے شب خونی سلسلہ کے آخری قبیل کے جدید شعرا کے درمیان اپنی شناخت قائم کرچکا ہے۔ لیکن شب خونی غزلوں سے لے کر ’’ریشم سراب خواب‘‘کی مجموعی تکمیل تک اگر شفق کا شاعرانہ سفر دیکھا جائے تو اس میں جدیدت کی اس مرکزی حسیت کا پتہ چلتا ہے جس میں جدید عہد کی المناکیوں،اقدار کی شکست و ریخت،خوابوں کی شکستگی، تنہائی اور وجودی بحران کا شخصی اظہار ملتا ہے۔لیکن اس سے ہٹ کر جو چیز شفق کو دوسرے جدید شعرا سے ممتاز بنا دیتی ہے وہ ان کی سچی رومانیت اور مستقبل کے تعمیری و تشکیلی عمل میں ماضی کی دریافت کی جستجو ہے۔گوکہ مستقبل کا تشکیلی و تعمیری عمل ماضی کی دریافت سے پورا ہوتا ہے لیکن دریافت کا یہ راستہ طے کرنا کوئی آسان کھیل نہیں ہوتا بلکہ بقول میلارمے یہ مسافت بحری سفر کے مانند شعوری مہم جوئی کی متقاضی ہوتی ہے۔پھر وجودی کرب کی نفسیاتی اذیتیں اسی راستے کے وہ خار ہیں جن پر صرف وہی آبلہ پا چل سکتا ہے جسے منزل پانے کی جستجو ہو، شوق ہو۔ایسا بھی نہیں ہے کہ جدید شعرا میں کوئی اس راستے سے نہیں گزرا، گزرے ہیں اور کم و بیش سبھی گزرے ہیں۔لیکن ان کی اضطرابی کیفیت بہت جلد راستے کی تنگنائیوں کے آگے ماند پڑگئی اور انہیں زندگی میں سوائے مہملیت، لایعنیت اور عدمیت کے اور کچھ نظر نہیں آیا،پھر یہی ماندگی جب شدت کی انتہا کو پہنچ گئی تو ان میں بیزاری اور یاسیت جیسی چیزوں نے جنم لیا۔جبکہ شفق اس معاملے میں بالکل مختلف ثابت ہوئے۔انہوں نے اپنے ہم عصر جدید شعرا کی طرح اس شاعرانہ مہم جوئی کو فقط اپنی حقیقی اور داخلی زندگی کا ہی مسئلہ نہیں سمجھا بلکہ وہ آزادئی اظہار سے جڑی کمٹمنٹ یعنی ذمہ داری کا شعور رکھنے والے شاعر ہیں انہیں معلوم تھا کہ فن فرد واحد کے تخلیقی تجربے کا اظہار تو ہوسکتا ہے لیکن انسانی نفسیات کی بعض مماثلتیں اسے غیر شخصی اظہارعطا کرتی ہیں۔روایت کا شعور اسی راستے سے شفق کے تخلیقی شعور میں رچ بس گیا۔
چمک رہی ہے جو آئندگاں کی راہ گزر
کچھ اس میں روشنی گرد رفتگاں کی ہے
جان اس کو بھی غنیمت کہ بزرگوں کے طفیل
راستے شہر کے ہیں اب بھی ذرا سے روشن
(بحوالہ ’’دشت میں دور کہیں‘‘)
اب بات شفق کی نئی شاعری کے حوالے سے؛
فروئڈ نے خواب کےManifest Content اور Latent Content کی بات کی ہے۔اول الذکر واقعہ پیش آنے کی ابتدائی صور ت حال یعنی ہم پر اس کے فوری اثر سے متعلق ہے جبکہ موخرالذکر واقعہ کے علامتی مفہوم یا آسان لفظوں میں کہیں تو واقعہ کے ان تہہ دار اور پنہاں معانی سے متعلق ہے جو ہماری سائیکی پر دیرپا اثرات مرتب کرتے ہیں۔اس تصور کو مثال کے ذریعے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی شخص بس چھوٹ جانے کے سبب تاخیر سے دفتر پہنچتا ہے اور افسر برہم ہوکر اسے نوکری سے نکالتا ہے۔پھر اس رات وہ خواب میں دیکھتا ہے کہ اس کی بس چھوٹ رہی ہے تو یہ اس کے خواب کا سطحی مواد یعنی مینی فسٹ کنٹینٹ ہوگا۔لیکن اگر وہ شخص آگے چل کر روزگار کی جدوجہد میں ناکام رہتا ہے تو بس کے چھوٹ جانے کا واقعہ یعنی وہ خواب اس کے لیے زندگی میں ناکامی کی علامت بن جائے گا ۔بقول محمد حسن عسکری ’’یہ اس شخص کے خواب کا مستور اظہار ہوگا‘‘ دیکھا جائے توشفق کا نیا شعری مجموعہ ’’یاد کی اجنبی منڈیروں پر‘‘Latent Content کے تناظر میں خواب کا ہی مستور تخلیقی بیانیہ ہے۔
عشق کی واردات اول میں
گئی جان عزیز دلدل میں
یہ نہ سوچا کہ چھوڑ جاو گی
تو میں جی لوں گا کس سہارے پر
میرے ناکام عشق کے پرکار!
کیوں بناتا ہے دائرہ مجھ میں
روکے تنہائیاں لپٹتی ہیں
رات بھر یاد کے دوشالوں سے
یاد کی منحنی گزرگاہیں
دیکھتے ہیں تو دل دہلتا ہے
یاد کی اجنبی منڈیروں پر
ہم کو پہچانا آشیانوں نے
نئے شعری مجموعے کی موضوعاتی تشکیل و ترتیب میں ذاتی المیہ (Personal Tragedy)سے پیدا شدہ وجودی بحران کی صورت حال بالکل واضح ہے۔’’یاد‘‘ اس واقعے کا اشاریہ ہے جو صدمے) (Traumaکی صورت میں پریشان کن داخلی تجربے پر منتج ہوا۔اب وہ واقعہ کیا تھا؟ اور کیا اسے عشق میں ناکامی پر خیال کرنا درست ہوگا؟ اس سے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا، ہاں البتہ متن کی زیریں ساختوں اور شفق کے غیر عینی (Non Idealistic)شعری تجربوں کے تجزیہ سے یہ ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ شفق کی نئی شاعری کا محرک کوئی مادی وجود ہی رہا ہوگا۔لیکن وہ کون ہے؟اور اس سے ایسا کون سا رشتہ تھا جو ٹوٹنے پرشفق اس قدر وجودی انتشار کے شکار ہوئے؟ایک معمہ ہے۔
عشق کی واردات اول میں
گئی جان عزیز دلدل میں
کیسی الجھن میں درزی کی بیٹی
خود کو دھاگا بنا رہی ہے تو
درد کا اس فقیر کو صدقہ
اے محمد جگر! دیا تو نے
یہاں ’’عشق کی واردات اول‘‘صورت واقعہ کو متعین کرنے کے لیے زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے جب کہ ’’درزی کی بیٹی‘‘اور’’محمد جگر‘‘نامی کردار اجنبی (The Other)ہونے کے باوجود اس واقعہ سے جڑے معلوم ہوتے ہیں۔اب حقیقت کیا ہے کا جواب خود شاعر ہی دے سکتا ہے___بہر کیف! یہ ایک ذاتی اور غیر اہم نکتہ کی وضاحت ہوئی ،اصل مدعا شفق کی نئی شعری جمالیات کا بین المتونی تجزیہ ہے۔
شفق کو امیجری یا محاکات کا شاعر کہنا زیادہ مناسب ہوگا کیونکہ یہی وہ بنیادی تخلیقی وسیلہ ہے جو ان کی مخصوص شعری جمالیات کا خاصہ ہے۔دراصل یہ شفق کے ذہنی پس منظر اور مزاج کی نمود ہے کہ ان کے شعری اظہار میں بھی وہی تصویری فضا دیکھنے کو ملتی ہے جس کی طلسماتی قوتوں سے وہ خود تخلیقی مسرت کا حظ اٹھاتے ہیں۔صرف شفق ہی نہیں بلکہ ہر اچھا شاعر لفظی تصویروں یا پیکروں کے ذریعے اپنے تخلیقی تجربے کو ظاہر کرتا ہے اس لیے کہ امیجری داخلی عمل کی مرقع سازی ہوتی ہے۔ یعنی شاعر ایسے عمل کے دوران اپنے مافی الضمیر کو یا یوں کہیے کہ موضوعیت کو پہلے اشیاء، مظاہر اور معروضات سے منسوب کرتا ہے پھر ان معروضات کی جذباتی اور تخیلاتی تدوین کرتا ہے تب کہیں وہ اپنی حقیقت سے ممتاز ہو کر نئی صورت اختیار کرجاتے ہیں۔غیر مانوسیت (Defamiliarization)کا عمل اسی لسانی پیکریت کے ذریعے ہی ممکن ہوپاتا ہے، یہی نہیں بلکہ فروئڈ کی فراریت(Escapism)اور ایلیٹ کا معروضی تلاذمہ( Objective correlative) بھی امیجری کے اسی تشکیلی عمل سے متعلق ہیں۔کیونکہ دونوں کے یہاں تخیلاتی عمل سے پیدا ہونے والے نئے معروضات اور مظاہر دراصل حقیقی جذبوں کو اپنے اندر تحلیل کرنے کے وہ وسیلے ہوتے ہیں جن کے ذریعے شاعر کو وجودی یا نفسیاتی حقائق کے عملی اظہار سے فراریت ملتی ہے ۔شفق کے یہاں ’’ہجر کے درخت‘‘ ’’سلگتی رات‘‘ ’’روتی تنہائی‘‘ ’’یاد کی اجنبی منڈیر‘‘ ’’شام کی آستین‘‘ ’’ملول ہوا‘‘ جیسے لسانی پیکر ان کے وجودی کرب کو ظاہر کرتے ہیں جن پر گمان یہ گزرتا ہے کہ وہ کسی دلدوز واقعے کے مرتب کردہ ارتسامات کے نقوش ہیں۔
پوچھ لو ہجر کے درختوں سے
کل یہاں ماہتاب سویا تھا
دور بستی سے اٹھ رہا ہے دھواں
چوٹیوں پر سلگ رہی ہے رات
روکے تنہائیاں لپٹتی ہیں
رات بھر یاد کے دوشالوں سے
شام کی آستین بھیگ گئی
آنکھ کاجل سے دھو رہی ہے تو
یاد کی اجنبی منڈیروں پر
ہم کو پہچانا آشیانوں نے
اے مرے ہجر کی ملول ہوا
کیوں درختوں میں رو رہی ہے تو
ہوسکتا ہے بہت سے لوگوں کا یہ بھی خیال ہو کہ شفق نے ناصر کا تتبع کیا ہے،جسے اگر سچ مان بھی لیا جائے تو بھی دونوں کے یہاں صرف شخصی اظہار کا ڈھانچہ یکساں ملنے کی گنجائش ہوسکتی ہے جبکہ اس ڈھانچے میں منقلب داخلی وارداتیں،تجربے، ادراکات اور جذباتی عمل ردعمل دونوں کے یہاں مختلف ہیں۔پھر مجھے ذاتی طور پر جو چیز دونوں کے یہاں مشترک نظر آتی ہے وہ رشتے کی ناتکمیلیت یعنی اس کا المناک انجام ہے۔یہ بات شاید باصر کاظمی نے مجھ سے زیادہ احسن انداز میں کہی ہے۔’’پہلی بارش‘‘کے دیباچے میں وہ لکھتے ہیں’’وہ رشتہ۔۔۔وہ دوستی جو اپنے تمام امکانات کوExoloreاور Exhaust کرلے،اس کا دکھ یا ملال نہیں ہوتا، لیکن جو تعلق ادھورا رہ جائے؛ درمیان میں کسی حادثے، رنجش، بدگمانی،غلط فہمی،رقابت،یا ظالم سماج کی وجہ سیمنقطع ہوجائے، بہت تڑپاتا ہے‘‘
کہاں ہے تو کہ ترے انتظار میں اے دوست
تمام رات سلگتے ہیں دل کے ویرانے
(ناصر)
پوچھتا ہے اداسیوں کا بن
کس طرف سے گزر گئی ہے تو
(شفق)
یاد آتا ہے روز و شب کوئی
ہم سے روٹھا ہے بے سبب کوئی
(ناصر)
راستے میں گریز کرتی ہیں
کتنی پرچھائیاں اجالوں سے
(شفق)
اب دیکھئے ناصرکے پہلے شعر میں کیفیت جزوقتی ہے جہاں رات کی وقتی قید نے انتظار کی کیفیت کو جنسی یا فقط ذہنی تسکین تک محدود کر رکھا ہے جبکہ شفق کے یہاں ہجر کا ملال اور وصل کی آرزو ظاہری لذتیت سے بالکل ماورا ہوکر ایک کل وقتی اضطرابی کیفیت کا اظہاریہ ہے۔پھر شعر کا دوسرا مصرع ’’کس طرف گزر گئی ہے تو‘‘شاعر کی اس اضطرابی کیفیت کی شدت( Intensity)کا محاکاتی بیانیہ ہے جو ناصرکے شعر میں نہیں۔شفق کا شعر اپنی سطحی ساخت( Surface Structure)میں بھی ناصر کے شعر کے مقابلے میں زیادہ قوی اور موثر ہے اس لیے کہ یہ فوری طور پر قاری کے ذہن میں جو امیج پیدا کرتا ہے وہ اپنی تمام تر معنوی شدت کے ساتھ نمودار ہوتی ہے۔اسی طرح دوسری شعری مثال کو لیجیے؛ ناصرکا شعر پیکریت سے خالی ہے ہاں البتہ ’’بے سبب روٹھنا‘‘ذاتی تجربے کی بنیاد پر (یعنی آپ نے کسی کو بے سبب روٹھتے ہوئے دیکھا ہو)ذہن میں ایک دھندلی سی تصویر ضرور پیدا کرتا ہے لیکن شفق کا شعری تجربہ (یعنی پرچھائیں کا اجالے میں غائب ہو جانا) قطعی غیر شخصی تجربے کا آئینہ دار ہے۔یہ تجربہ جب قاری کے تخیل کو جنبش دیتا ہے تو رشتے کے المناک انجام کی ایک مکمل امیج فی الفور اس کے ذہن میں پیدا ہوتی ہے۔گوکہ اس میں تخیلی کارفرمائی سے زیادہ تجربے بلکہ مشاہدے کا تصرف زیادہ ہے تاہم شعر میں تجربے کی غیرمانوسیت (Defamiliarization) کا احساس قاری کو تخلیقی مسرت سے سرشار ضرور کرتا ہے۔معلوم رہے !یہاں مقصود ناصراور شفق کا تقابل ہرگز نہیں بلکہ دونوں کے تخلیقی تجربے کی ماہیت، تاثیر اور اظہاریہ میں فرق کو واضح کرنا ہے۔پھر شفق خود ناصرکو استاد کی حیثیت سے یاد کرتے ہیں اور مجھے بھی اس بات کا اعتراف ہے کہ ناصر شفق کے لیے آئڈیل کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ کوئی ضروری نہیں کہ میرا تجزیہ حتمی طور پر درست ہو بلکہ تکثیر معنی کا یہ بس ایک عملی مرقع ہوسکتا ہے اور کچھ نہیں۔
میں نے ابتدائیہ میں چند ایسی باتیں کہی تھیں جن سے متعلق کئی سوالات آپ کے ذہن میں پیدا ہوئے ہونگے۔مثلاً یہ کہ فن اور اخلاقیات کے الگ ہونے کا شفق کی شاعری سے کیا تعلق؟ اور سوشل میڈیا کے قاری سے شفق کی کیا اور کیسی نسبت؟چونکہ ’’ریشم سراب خواب‘‘کی اشاعت کے بعد شفق نے اپنے تخلیقی عمل کا رخ مکمل طور پر فکشن کی جانب موڑ دیا تھا اور کافی عرصے تک وہ شاعری سے دور رہے۔لیکن اس بیچ کچھ ایسا ہوا کہ شفق کے یہاں جو جدیدیت کا علامتی سایہ ان کے اسلوب سے لے کر خیال بندی تک غالب تھا اور جس نے کافی حد تک ان کے شعری مزاج کی صورتِ کو متعین (Determine)کر رکھا تھا،ایک دم چھٹ گیا۔یہ دراصل شفق کا چونکا دینے والا نیا شعری اظہار ہی تھا جس سے شفق نے نہ صرف یہ کہ اپنے ہی پرانے شعری مزاج کے خلاف بغاوت کی بلکہ اس مزاج میں شامل ہر طرح کی تکرار کی بھی نفی( Negation)کی۔اس کی وجہ وہ یوں بیان کرتے ہیں کہ؛
’’جو شاعر اپنے شعری عمل کو مزاج کے بدلتے ہوئے رجحانات کے مطابق جاری نہ رکھ سکے اس کی مثال اس مسافر کی سی ہے جو تھک ہار کر اپنی درماندگی کو سفر کا ماحاصل سمجھتا ہے۔ شاعری ہوا اور پانی کی طرح بہتی رہنی چاہیے۔ تالاب اور ندی میں کچھ تو فرق ہے۔ شعری مزاج میں روانی اور بہاو ضروری ہے۔نئے تجربات اور مشاہدات سے سروکار، لفظوں کی نادرہ کاری اور مضامین کی جدت سے شاعری ترقی کرتی ہے۔ اگر شاعر اپنے شعری سفر میں کسی بھی مقام پر یہ محسوس کرے کہ Repetitionکا شکار ہو گیا ہے تو اسے فورا رک جانا چاہیے۔اسے روکنے کے لئے کوئی نقاد نہیں آنے والا‘‘
لیکن چونکہ شفق کا یہ نیا شعری اظہار ان کے پیچیدہ علامتی اور فارسی آمیز روایتی اسلوب سے ہٹ کر روزمرہ کے زیادہ قریب تھا، اس لیے داخلی نفسیات اور خارجی حقائق کے اظہار میں وہ کوئی ٹھوس یوٹوپیا قائم کر نہ کرسکے۔نتیجے کے طور پر سوشل میڈیا کے قاری کی اخلاقی سماجیات کی روح مجروح ہوئی اور وہ بوکھلایا۔
میں جنہیں کلفیاں سمجھ بیٹھا
وہ ترے سینے کے غبارے تھے
تن کو مہرہ بنا رہی ہے تو
کیوں تماشا بنا رہی ہے تو
گرم سانسوں کے بھاپ میں ڈھلتی
سرد راتوں کی چاندنی ہے تو
حق بات یہ ہے کہ فن کا دائرہ کار اپنے آپ میں یوٹوپیائی ہوتا ہے کہ اس میں اخلاقی اور غیر اخلاقی کچھ نہیں ہوتا بلکہ یہ تفریق یا تو تہذیبی اور ثقافتی مطالعے کی پیدوار ہے یا پھر نظریات کے پروردہ ہمارے روایتی نقاد اور بارتھ کے خود مختار قاری کی قائم کردہ ۔لیکن کون غور کرتا ہے کہ میراجی جیسا تخلیق کار بھی اسی تفریق کی بھینٹ چڑھا۔ورنہ منٹو پر لکھنے والوں اور اسے شعبہ اردو کی دیواروں کی زینت بنانے والوں کے لیے کیا مشکل تھا کہ میراجی پر بھی لکھتے اور منٹوکے ساتھ اس کی تصویر کو بھی زینت بخشتے۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمیں اس بات کااحساس تک نہیںکہ لذتیت Eroticism یا LGBT جیسے موضوعات کو غیر اخلاقی اور فن کے دائرہ کار سے باہر کی چیز سمجھ کر ہم نہ صرف انہیں بلکہ ادب کو بھی Marginalizeکرتے ہیں۔
خیر! یہ اس نکتہ کی وضاحت ہوئی جس سے متعلق آپ متجسس تھے۔اب ذرا بات کا رخ شفق کی نئی شاعری میں ماضی کی دریافت اور نئی تشکیل کے حوالے سے ابتدا میں پیش کئے گئے ڈسکورس کی طرف موڑتے ہیں___میں یہ بات پہلے بھی کنایتہً عرض کرچکا ہوں کہ’’یاد کی اجنبی منڈیروں پر‘‘جدیدیت کے شعری نمونہ (Modernistic Poetry Paradigm)سے انحراف کا نیا سنگ میل ہے۔لیکن اس میں موجود کلاسیکی شعری روایت بالخصوص میر اور جدیدیت کے پیش رو ناصر کاظمی کے رنگ سخن کا پرتو قاری کے ذہن میں ماضیت کا احساس پیدا کرتا ہے۔یہ کوئی تتبع ہوسکتا ہے نہ فقط رنگ چڑھانے کا عمل، بلکہ یہ ایک شعوری کارفرمائی کہی جاسکتی ہے جس کے پیچھے کا محرک شفق کا وہ تاریخی شعور ہے جو اسے مابعد جدید صورت حال (Postmodern Condition)کو سمجھنے اور جدیدیت جیسے مہابیانیے کی تردید پر آمادہ کرتا ہے۔بعد میں ہی سہی لیکن شفق کو انحراف کی شعریات کا اندازہ تو ہوا کہ کیسے ماضیت کا شعور عصری حسیت کا شعور پانے اور نئے تشکیلاتی مراحل میں تخلیقی عمل کو تحریک بخشنے میں ممد ہوتا ہے۔شفق جو بنیادی طور پر کلاسیکی موسیقی رموز کے تجزیہ کار ہیں،ابھی تک اس موسیقی سے واقف تھے جو اپنی خصوصیت کے اعتبار سے کسی ایک صنف کی حامل ہوا کرتی تھی۔ لیکن ڈجیٹل دنیا کی موسیقی جس( Electicisim)پر مبنی ہے وہ اپنے اندر مختلف اصناف موسیقی کی خصوصیات کو بیک وقت یکجا کرتی ہے۔شفق کا سامنا جب اس موسیقی سے ہوا تو زندگی کے ان مختلف رنگوں کی طرف بھی ان کی نظر چلی گئی جن کی ماہیت(Ontology)اب بدل چکی ہے۔اس نئی ماہیت کی تشکیل میں پرانے عوامل کا کیا رول رہا ہے، اس باریکی کو سمجھنے کے لیے شفق کو ماضی کی طرف مراجعت کرنا پڑی۔’’یاد کی اجنبی منڈیروں پر‘‘اسی طرح زندگی کی بدلتی ماہیت یعنی حقیقتوں کی نئی تشکیل کا نہ صرف موضوعاتی بیانیہ ہے بلکہ اس نئی تشکیل میں روایتی بنیادوں کے مصرف نیز تشخص کا بھی فنی اعلامیہ ہے۔پھر شفق کی نئی شاعری میں میر و ناصر کے رنگ سخن کے پرتو کو اس احساس ضرورت کا بھی شعوری نتیجہ کہا جاسکتا ہے جس کے بغیر نئی صورتیں وضع کرنا اور نئی تشکیل کے مراحل طے کرنا شاید شفق کے لیے ناممکن تھا۔
تیرا قصور نہیں، میرا تھا میں تجھ کو اپنا سمجھا تھا ناصر
میں نہ کہتا تھا اے دل ناداں فرق کر دوست اور دشمن میں شفق
اک دن تو وفا بھی کرتے وعدہ گزری ہے امیدوار ہر رات میر
بارہا ہوا یوں کہ خوابوں پر کاغذی چھت سے گر پڑی ہے رات شفق
ہمیں یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ ناصرنے جب روایتی شاعری سے انحراف کیا تھا تب ان کے پاس سوائے میر کے کوئی آئڈیل نہیں تھاجو ان کے شعری مزاج کو نئی تخلیقی لذتوں سے آشنا کراتا، سو انہوں نے میر کے شب چراغ سے فیض حاصل کیا۔ٹھیک اسی طرح جب شفق کو بھی نئے اظہار اور نئی تخلیقی لذتوں سے آشنا ہونے کی ضرورت محسوس ہوئی تو ان کے شعری مزاج کے موافق انہیں میر و ناصر کے ہی روپ میں دو آئڈیل مل سکے۔پھر اس انحراف کی شعریات کو سمجھنے کے لیے جب ہم مذکورہ اشعار کو غور سے پڑھتے ہیں، ان کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں شفق کے یہاں نئی بات، نئے تجربے اور نئے اظہار کا احساس نمایاں طورپرملتا ہے۔جہاں ناصر کے شعر میں پچھتاوے کی کیفیت کا اظہار مکالمے کی صورت میں ہوا ہے وہیں شفق نے اسی کیفیت کو خود کلامی کی صورت میں پیش کر کے اپنے وجودی کرب (Existential Angst) کو ظاہر کیا ہے___گوکہ میر کے شعر میں وصل کی تشنہ لبی کا احساس نمایاں ہے تاہم امید پیہم اور خوابناکی کے تسلسل سے یہ احساس ایک لطیف کیفیت میں بدل جاتا ہے۔اس کے برعکس شفق کا شعر شکستِ خواب کا المناک بیانیہ ہے۔جس میں ’’کاغذی چھت‘‘ایک ایسا لسانی پیکر ہے جو شاعر کی بدنصیبی اور کم مایگی کو ظاہر کرتا ہے اور ’’رات‘‘سفاکیت کا وہ استعارہ ہے جس کے آگے شاعر اپنی بے بسی اور مایوسی (Despair)کا اظہار کرتا ہے۔غرض شعری قالب اور کسی حد تک تجربہ یکساں ہونے کے باوجود شفق کا نیا پن واضح ہے۔
اپنی بات ختم کرنے سے پہلے چند باتیں شفق کے عصری شعور سے متعلق ضروری سمجھتا ہوں__میرے خیال میں کسی بھی تخلیق کار کا عصری شعور اس کی شخصیت سے کبھی مستثنٰی ہوتا ہے اور نہ ماورا،بلکہ اس کا تعلق براہ راست شخصیت کی شعوری اور عملی زندگی سے ہوتا ہے۔لیکن ہاں نظریاتی وابستگی عصری شعور کی Epistemologyکو ضرور متاثر کرتی ہے جو شخصیت کی عملی یا فکری زندگی سے ظاہر ہوتی ہے جیسے ترقی پسند شعرا اور اقبال کے یہاں ہے۔لیکن شفق کے شعری اظہار میں نظریاتی وابستگی کا ایسا کوئی ٹھوس جواز نہیں ملتا،ہاں البتہ ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال نے مسلم اقلیتوں کے تشخص کو خطرے میں ڈال کر ان میں جس قسم کے خوف اور دہشت کو جنم دے رکھا ہے،اس نے شفق کو کہیں نہ کہیں اس نتیجے پر ضرور پہنچایا ہے کہ وہ مسلمانوں میں تاریخی اور اجتماعی شعور کی بیداری کے خواہاں ہیں۔
ہائے کیا آرزو تھی مغلوں کی
جاکے ہندوستان مرجائیں
ہم فقیروں کے اک اشارے پر
تخت چھوڑے ہیں حکمرانوں نے
مشورہ آندھی میں نکلنے کا
اے غبار سفر! دیا تو نے
بحیثیت مجموعی دیکھا جائے توشفق حوادث زندگی کو مقدر جان کر ان سے ہرحال میں گزر جانے کے قطعی قائل نہیں۔ وہ اصغرکے اس فرمودے کے بھی قائل نہیں کہ ’’اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے‘‘ اور نہ غالب کی طرح Used To ہو کر ’’رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج‘‘جیسی بات کہہ کر گزری کو ٹال دیتے ہیں۔بلکہ ان کی زندگی کے تصرفات کیا ہی ہیں، کھانا پینا، مطالعہ اور تصنیف و تالیف۔اب ایسی زندگی میں اگر کبھی کسی خوشگوار واقعہ کا انجام المناکی پر ہوتا ہے توفطری ہے اس کا ان کی ذاتی زندگی کا المیہ بن جانا اور وجودی انشار پر منتج ہونا۔’’یاد کی اجنبی منڈیروں پر‘‘زندگی کی انہی المناکیوں اور وجودی انتشار کا حزنیہ بیانیہ ہے۔
***
چند دن پہلے یہ مضمون نظرسے گزرا تھا عنوان دیکھ کر سوچا کہ فرصت سے دیکھونگا۔ آج چھٹی کی وجہ سے فرصت ملی۔
مضمون کا مباحثہ عمدہ ہے۔ ڈاکٹرشفق سو پوری صاحب کے شعری جوہر (Poetic essence) پر اچھا ارتکاز کیا گیا ہے’ اور ان کی شاعرانہ طبیعت اور فنی صلابت کے اختصاصی پہلوکابھی مستحسن جائزہ لیا گیا ہے۔
مضمون کا تمہیدی حصہ فکری الجھاو کی عکاسی کرتا ہےاور بنیادی موضوع کے اساسی متنی موضوع سے کوئی میل نہیں کھاتا ہے۔ اس لئے ابتدائی دو صفحات کو اگر حذف بھی کیا جائے تو مضمون کی اہمیت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔
باقی دلچسپ مضمون کے لئے مسکراہٹ