محمد عمر وقار
تاپتی ہاسٹل جے این یو
نئی دہلی110067
عرفا ن صدیقی
نئے فکری رویوں کا شاعر
جدید غزل گو شاعروں میں جونام ہند وپاک میں یکساں طور پر معروف ہے کے ان میں عرفان صدیقی سر فرست ہیں۔ان کی پیدائش 11مارچ1939کویوپی کے شہر بدیوں میں ہوئی۔ابتدائی تعلیم حسب دستورقدیم گھر پر ہی دادا،والداور والدہ کے زیر سایہ ہوئی۔بعد ازاں انہوں نے اپنی تعلیم بالترتیب کرسچین ہائر سکنڈری اسکول،حافظ صدیق اسلامیہ انڑ کالج، بریلی کالج،آگرہ یونیورسٹی،انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونیکیشن نامی ادارے سے مکمل کی ،اور 1962 میں حکومت ہند کے وزارت اطلاعات ونشریات سے وابستہ ہو گئے، جہاں مختلف زبانوں کے ادیبوںاور دانشوروں سے انہیں ملاقات کا موقع ملا۔انہوں نے ترقی کی مختلف منازل طے کرتے ہوئے حکومت ہند کے ڈپٹی پرنسپل انفارمیشن آفیسر کے عہدے پر پریس انفارمیشن بیورو کے علاقائی دفتر کے سر براہ کی حیثیت سے 1997 میںسبکدوشی حاصل کی۔
عرفا ن صدیقی کی شاعری کا دائرہ تین دہایئوں سے زیادہ مدت پر محیط ہے۔ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’کینوس‘‘1978 میںشائع ہوا۔ اس کے بعد ان کے مسلسل چار اور مجموعے سامنے آئے۔ایک اچھے فن کار کی طرح عرفان صدیقی کے فکر و فن میں ارتقا ہوتا رہا۔ــ’’کینوس‘‘سے جو پہچان ان کی بنی تھی ’’عشق نامہ‘‘‘ تک آتے آتے وہ پہچان شہرت میں بدل گئی۔ ان کی شعری کائنات کافی وسیع ہے ۔حسن و عشق کے معاملات سے لے کر سانحۂ کربلا تک کے واقعات کو انہوں نے اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔لیکن جب ہم اپنے کلاسیکی روایت کے تہذیبی سیاق و سباق میںعرفان صدیقی کی شاعری کا مطالعہ کر تے ہیں تویہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کی شاعری نے اردو کی عشقیہ شاعری سے اپنا رشتہ از سر نو استوار کیاہے۔ان کی شاعری میں حسن وعشق کا ایک انوکھا اور پاکیزہ تصور پایا جاتا ہے،جو ہوس پرستی کے بجائے ناموس عشق پر زور دیتا ہے۔چند اشعار کے ذریعہ اس تصور کو سمجھا جا سکتا ہے:
دھیرے دھیرے ختم ہوناسر کا سودا دل کا درد
رفتہ رفتہ ہر صدف کا بے گہر کرنا مجھے
پہلے ایسا تو نہ تھا ذائقہ ہجرووصال
اس تعلق میں کیا چیز ملا دی اس نے
کیا عجب ہے کہ ہوس روح کو کر دے کندن
جسم اس آگ میں جل جائے گا جل جانے دو
وہ یہاں اک نئے گھر کی بنا ڈالے گا
خانۂ درد کو مسمار کیا ہے اس نے
عشق و عاشقی کی جو موجودہ صورت حال ہے اس پر عرفان صدیقی نالاں ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ عشق کی پاکیزگی کو گہن لگ گیا ہے،ہجر ووصال کے معنی بدل چکے ہیں۔عاشق ہو یا معشوق دونو ں کے کردار مشکوک ہو گئے ہیں۔دونوں خود غرضی اور ہوس پرستی کا شکار ہیں۔
عرفان صدیقی نے کلاسیکی روایت سے استفادہ کرتے ہوئے ایک خاص لب و لہجہ کی پرورش کی ہے۔ان کے یہاں محبوب کی قرب اور لمس اس طرح اپنا کرشمہ دکھاتا ہے کہ خاروخس(مردہ تن)میں بھی جان آجاتی ہے۔
ذراسا لمس شرر نے عجیب کمال کیا
میں سوچتا تھا مرے خاروخس میں کچھ بھی نہیں
یہ کون میرے بدن میں طلوع ہونے لگا
ابھی لہو کو ملا بھی نہین اشارۂ شام
وہ خوش بدن ہے نوید بہار میرے لئے
میں اس کو چھو لوں تو سب کچھ نیا نیا ہو جائے
مذکورہ بالا اشعار میں ’’ بدن ‘‘کو استعارہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے مگر کہیں بھی لذت پرستی نہیںدکھائی دیتی۔ جیسا کہ ڈاکٹر سیدعبدالباری لکھتے ہیں ؛
’’۔۔۔۔۔وہ بدن کے استعاریہ سے خوب کام لیتے ہیںاور مجاز سے حقیقت تک کا سفربحسن و خوبی طے کرتے ہیں مگر مسوقیت اور لذت پرستی کی کوئی بھی پرچھائیں نہیں پڑتی ۔‘‘(1)
(1)(نیر مسعود؛عرفان صدیقی سے گفتگو،مشمولہ عرفان صدیقی حیات،خدمات اور شعری کا ئنات؛ص358)
حسن و عشق کی تمام کیفیات و واردات کو عرفان صدیقی نے قدرے جدید ڈھنگ سے اپنی شاعری میں برتا ہے۔لفظیات اور ڈکشن بھی نئے وضع کئے ہیں،ساتھ ہی ساتھ پیش کش کا انداز بھی اوروں سے جدا ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنے ہم عصروں سے ممتازوممیز ہیں۔ذیل میں کچھ اشعار نقل کئے جاتے ہیں جس میں عرفان صدیقی کی انفرادیت کو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے:
اس نے کیا دیکھا کہ ہر صحرا چمن لگنے لگا
کتنا اچھا اپنا من ،اپنا بدن لگنے لگا
دیکھ لیتا ہے تو کھلتے چلے جاتے ہیں گلاب
میری مٹی کو خوش آثار کیا ہے اس نے
ہماری کلاسیکی غزلیہ شاعری میںمعشوق کی صفت ستم پیشہ رہی ہے،لیکن عرفان صدیقی کا محبوب ستم پیشہ نہ ہو کر لطف و کرم کے صفت سے متصف ہے۔وہ اپنے عاشق کے ساتھ حسن و سلو ک کا رویہ اپناتا ہے۔ لیکن کچھ اشعار ایسے ہیں جن میں معشوق ستمگر دکھائی دیتا ہے۔اب یہاں پر ذہن میں ایک سوال قائم ہوتا ہے کہ عرفان صدیقی کے یہاںآخر یہ تضاد بیانی کیوں؟اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے خود عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ ہماری کلاسیکی غزلیہ شاعری کی روایت یہی رہی ہے۔اسی لئے میں نے اس کی اتباع میںیہ رویہ اپنایا ہے۔ ورنہ ان کا محبوب ستمگر اور ستم پیشہ نہیں ہے ۔بقول عرفان صدیقی:
غزلوں میں تو یوں کہنے کا دستور ہے ورنہ
سچ مچ میرا محبوب ستمگر تو نہیں تھا
عام غزلیہ شاعری میںمحبوب کھل کر سامنے نہیں آتالیکن عرفان صدیقی کے محبوب میںروایتی محبوب کی خصوصیات نہیں ہیں(مثلا محبوب کا بے وفا ہونا،اور بے توجہی برتنا وغیرہ)بلکہ ان کا محبوب سراپا تسلیم ورضااور مائل بہ کرم ہے۔ہجر کے بجائے وصال کا متمنی ہے۔اس سلسلے میں یہ دو اشعار ملاحظہ ہوں:
ہم سے وہ جان سخن ربط نوا چاہتی ہے
چاند ہے اور چراغوں سے ضیا چاہتی ہے
کیا ہرن ہے کہ کبھی رم نہیں کرتا ہم سے
فاصلہ اپنا مگر کم نہیں کرتا ہم سے
عرفان صدیقی کے یہا ںایک اور چیز جو دیکھنے کو ملتی ہے وہ یہ کہ انہوںنے اپنے پیشرو شعرا سے اثرات قبول کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ ان کافن کسی پیش رو فنکار کا تتبع نہ بن جائے۔عرفان صاحب کے کلام میں ہمیں پیش رو شعرا کے اثرات قبول کرنے کی کئی صوریں دکھائی دیتی ہیں۔
ایک صورت تو یہ ہے کہ انہوں نے بعض پیش روؤں کے خیالات سے نئی بات پیدا کی ہے۔دوسری صورت یہ ہے کہ آغاز تو اسی نقطے سے کرتے ہیں جہاں سے کسی فنکار نے کیا تھا مگروہ اس دھارے میں بہتے نہیں بلکہ اپنا رخ کسی اور جانب موڑ لیتے ہیں،یعنی مرکز اورنقطۂ آ غاز ایک ہوتا ہے لیکن سمت اور منزلیں جدا ہوتی ہیں۔ عرفان صدیقی ایک ایسا ہی شعر ملاحظہ ہو جس کے آغاز میں گمان گذرتا ہے کہ انہوں نے کسی کا تتبع کیا ہے لیکن جیسے ہی شعر مکمل ہوتا ہے تو جو گمان تھا نتیجہ اس کے بر عکس ہوتا ہے۔ مثلاً غالب ؔکا یہ شعر:
ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منھ پہ رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
اسی کو عرفان صدیقی یوں کہتے ہیں:
اس نے کیادیکھا کہ ہر صحرا چمن لگنے گا
کتنا اچھا اپنا من ،اپنا بدن لگنے لگا
یا غالب کا یہ شعرکہ:
کون ہوتا ہے حریف مے مردافگن عشق
ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد
اس خیال کو عرفان صدیقی نے اس انداز سے پیش کیا ہے کہ بادیٔ النظر میں یہ گمان گذرتا ہے کہ کسی کا تتبع کیا گیا ہے۔ ذیل کے شعر میں معنی وہی ہیں جو غالبؔ کے مذکورہ شعر کا ہے لیکن عرفان صدیقی نے ایک نئی دنیا آباد کردی ہے، یعنی اس خیال میں تصوف کا رنگ بھر دیا ہے:
کوئی سلطان نہیں میرے سوا میرا شریک
مسند خاک پہ بیٹھا ہوں برابر اپنے
علاوہ ازیں غالب ؔ نے ’’جام و سبو‘‘ اور ’’بادۂ گلفام ‘‘ جیسی ترکیبوں کا استعمال کر کے اپنا مافی الضمیر ادا کیا جبکہ عرفان صدیقی نے ’’دست دادار‘‘اور’’درہم و دینار‘‘ جیسی تراکیب کا استعمال کر کے اپنا الگ رنگ قائم کیا ہے:
غالب:
توڑ بیٹھے جب کہ ہم جام و سبو پھر ہم کو کیا
آسماں سے بادۂ گلفام اگر برسا کرے
عرفان:
ہم نے مدت سے الٹ رکھا ہے کاسہ اپنا
دستِ دادارترے درہم و دینار پہ خاک
مدعا دونوں شاعروں کا ایک ہے ۔یعنی بے نیازی،لیکن اس شعر میں جو چیز قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ غالب ؔکے لہجے میں بے نیازی پر مایوسی کا سایہ صاف نظر آتا ہے ،جبکہ عرفان کے لہجے میں طنطنہ ہے۔لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس بے نیازی کے اظہار میں دونوں کے یہاں ــ’’طلب‘‘ کا پہلو کہیں نہ کہیں پوشیدہ ضرور ہے۔اس شعر میں جو دوسری خاص بات ہے وہ یہ کہ غالب نے ’’جام و سبو‘‘ توڑ ڈالا ہے اور عرفان نے’’کاسہ‘‘ توڑا نہیں ہے بلکہ الٹ دیا ہے ۔
اب ذرا دیکھیں کہ میر کی اتباع عرفان صدیقی نے کس حد تک کی ہے بقول عرفان صدیقی:ــــ۔۔۔۔دل میرا میر ؔکی طرف بہت کھنچتا ہے۔(1)
میرـ کا شعرہے:
ہوگا کسی دیوار کے سائے تلے میر
کیا کام محبت سے اس آرام طلب کو
اسی مضمون کو عرفان صدیقی نے یوں باندھا ہے:
ہم کو تو دلبر خو ب ملا خیر اپنی اپنی قسمت ہے
پھر بھی جو کوئی رنج اٹھانا چاہے عشق ضرورکرے
یا پھر میر کا یہ شعر:
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہے ہیں سو آپ کرے ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
عرفان صدیقی کہتے ہیں :
میں کار عشق سے ترک ِوفا سے باز آیا
سب اس کے ہا تھ میں ہے میرے بس میں کچھ بھی نہیں
میرؔ وغالبؔ کے علاوہ جگر مرادآبادی سے بھی عرفان صدیقی کافی متاثر نظر آتے ہیں۔زمانے کی روش پر جگر مرادآبادی کا یہ شعر:
کیا حال پوچھتے ہومیرے کاروبار کا
آئینہ بیچتا ہوں اندھوں کے شہر میں
عرفان صدیقی کو بھی زمانے سے یہی شکوہ ہے:
بہت سے آئینے جن قیمتوں میں بک جائیں
یہ پتھروں کا زمانہ ہے شیشہ گر میرے
ایک اور شعر ملاحظہ ہو جس میں ساحرؔ لدھیانوی کہتے ہیں:
دنیا نے تجربات وحوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
اسی مضمون کو عرفان صدیقی نے یوں بیان کیا ہے:
ہمیں دنیا جو دے گی ہم وہی لوٹا ئیں گے اس کو
گنہ بن جائے گی رسم ِوفاآہستہ آہستہ
ساحرؔ نے مذکورہ شعر میں جو کچھ ملاہے وہی لوٹا نے کی بات کہی ہے لیکن عرفا ن صدیقی اس لینے اور لوٹانے کے عمل کومعیوب گردانتے ہیں۔کیونکہ انہیں اس بات کا اندیشہ ہے کہ اس طرح کے رویے سے رسم وفا کہیں گناہ نہ بن کر رہ جائے۔
بہرکیف عرفان صدیقی کی شاعری میں کلاسیکی روایت کی پاسداری ہے۔میر و غالب سے براہ راست طور پر استفادہ کم ہی کیا ہے بلکہ بات سے بات پیدا کرنے کی کوشش زیادہ کی ہے۔میر و غالب کے اثرات قبول کرنے کے سلسلے میں خود عرفان صدیقی کہتے ہیں:
’’ـــــــ۔۔۔ سمجھ میں اب تک نہیںآتاکہ میں،اگر گروہ ہو سکتے ہیںشاعری میں تو میں میر کے گروہ کا شاعر ہوں یاغالب کے۔میں سمجھتا ہوں کہ میں ان دونوں گروہوں میں آدھا آدھا بٹا ہوں۔ اس لئے بہت زیادہ فیصلہ نہ کرسکنے کے باوجود یہ طے ہے کہ غالب کی شاعری مجموعی طور پر میر سے مختلف ہے۔یہ تو ضرور طے ہے تو پھریہ بھی طے ہے کہ یہ دونوں شاعر الگ الگ طرح کے ہیں۔میر ا معاملہ یہ ہے کہ مجھے دونوں اس قدر پر اسرار اور اتنے اپنی طرف کھینچ لینے والے اور اپنے میں جذب کرلینے والے لگتے ہیں کہ میں کبھی اس طرف جاتا ہوں کبھی اس طر ف جاتاہوں۔ بلکہ ایک ہی وقت میںدونو ں طرف بٹا ہوا رہتا ہوں۔ایک ہی وقت میں ایک ہی شعر میں۔ یہ عجیب و غریب معا ملہ ہے اور یہ مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ لیکن دل میرا میرؔ کی طرف زیادہ کھنچتا ہے‘‘۔(2)
(2) (نیر مسعود؛عرفان صدیقی سے گفتگو،مشمولہ عرفان صدیقی حیات،خدمات اور شعری کائنات؛ ص(485
محولہ بالا اقتباس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عرفان صدیقی نے میر و غالب سے خوب خوب استفادہ کیا ہے۔اس کے علاوہ عرفان صدیقی نے ہمعصر شعرا کے فکر و فن کو بھی دیکھا ہے اگر یہ کہا جائے کہ انہوں نے اپنے معاصرین سے بھی استفادہ کیا ہے تو بجا طور پر ظفر اقبال اور ندا فاضلی کے اثرات ان کے یہاں دیکھنے کو ملتے ہیں ،لیکن ہم عصر ہونے کے ناطے یہ کہنا مشکل ہے کہ کس نے کس کاتتبع کیا ہے؟یا یہ توارد ہے؟یہ قابل غور امر ہے۔بہر حال میرا مقصود یہاں مماثلت یا تتبع دکھانا نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ وہ اپنے ہم عصرو ں سے کس طرح ممتاز ہیں۔ایک ایک شعر ندا فاضلی اور عرفان صدیقی کا ملاحظہ ہو:
زنجیر کی لمبائی تک آزاد ہے قیدی
صحرا میں پھرے یا کوئی گھر بار بسا لے
اسی کو جب عرفان صدیقی کہتے ہیںتو معاملہ کچھ اور ہوتا ہے:
بحد وسعت زنجیر گردش کرتا رہتا ہوں
کوئی وحشی گرفتار سفر ایسا نہیں ہوگا
اسی طرح کا عرفان صدیقی کا ایک اور شعر:
اور اک جست میں دیوار سے ٹکرائے گاسر
قید پھر قید ہے زنجیر کی وسعت پہ نہ جاؤ
اردو کی غزلیہ شاعری میں’ ریت‘،اور’ سمندر‘ کا استعمال خوب ہوا ہے، لیکن نئی غزل میں ’ریت ‘اور ’سمندر ‘کو شہریارؔ اور عرفان صدیقی نے نئی معنویت سے ہمکنار کیا۔مثلاََ:شہریار کہتے ہیں:
یہ سوچنا تھا کہ ہم لوگ پھر اداس ہوئے
کہ بے کنار سمندر بھی ساحلوں تک ہے
عرفان صدیقی:
میں بے کنار سمجھنے کو تھا سمندر کو
کہ ایک شاخ سرِآب جگمگانے لگی
عرفان صدیقی نے اس شعر میںموج کی یہ حقیقت بتا ئی ہے کہ ریت کی رفاقت صرف کناروں تک ہے اور اس کے آگے کی راہ بند ہے۔
نیز ’ہوا‘کی مختلف کیفیات کے اظہارمیںعرفان صدیقی نے جو حسن پیدا کیا ہے وہ انہیں کے ساتھ مختص ہے۔عرفان صدیقی کی ایک غزل جس میں ’ہوا‘ کا کردار مختلف شکلوں میں دیکھا جا سکتا ہے:
کوئی وحشی چیز سی زنجیر پا جیسے ہوا
دور تک لیکن سفر کا سلسلہ جیسے ہوا
بند کمرے میں پراگندہ خیالوں کی گھٹن
اور دروازے پہ اک آوازِپا، جیسے ہوا
گرتی دیواروں کے نیچے سائے جیسے آدمی
تنگ گلیوں میںفقط عکس ہوا، جیسے ہوا
آسماں تا آسماں سنسان سناٹے کی جھیل
دائرہ در دائرہ میری نوا، جیسے ہوا
دو لرزتے ہا تھ جیسے سایہ پھیلائے شجر
کانپتے ہونٹوں پہ اک حرف دعا ،جیسے ہوا
پانیوں میں ڈوبتی جیسے رتوں کی کشتیاں
ساحلوں میں چیختی کوئی صدا، جیسے ہوا
کتنا خالی ہے یہ دامن،جس طرح دامانِ دشت
کچھ نہ کچھ تو دے اِسے میرے خدا،جیسے ہوا
اس پوری غزل کو’’جیسے ہوا‘‘کی ردیف اور لفظ’’جیسے‘‘سے تشبیہ کی واضح صورت کو شاعر نے پر کشش بنادیا ہے۔اتنی شکلوں میں ’ہوا‘کا کردار ایک غزل میں کبھی سامنے نہیں آیا۔’ہوا ‘ کا کردار نئی غزل میں تباہ کاری کی شکل میں آیا۔ شہریارؔ ’ہوا‘ کو سورج کے مقابلے میںزیادہ توانا بتاتے ہیں:
اس واقعہ کو سن کر کرے گا یقیں کوئی
سورج کو ایک جھونکا ہوا کا بجھا گیا
منیرؔنیازی کے یہاں ’ہوا‘کا کردار کچھ اس طرح کا ہے:
ازل سے ہے جو سفر میں یہ وہ بلا ہی نہ ہو
کواڑ کھول کے دیکھ کہیں ہوا ہی نہ ہو
عرفان صدیقی:
گرتی دیواروں کے نیچے سائے جیسے آدمی
تنگ گلیوں میں فقط عکس ہوا جیسے ہوا
عرفان صدیقی کے اس شعر میں گرتی دیواروں کے نیچے دیواروں کا سایہ ہے،جس پر آدمی کے سائے کا گمان گزرتا ہے۔اسی سے ملتا جلتا شکیبؔجلالی کا یہ شعر:
مجھ کو گرنا ہے تو میں اپنے سائے پہ گروں جس طرح سایۂ دیواردیوار پہ گرے
جب ہم شکیب ؔجلالی اور عرفان صدیقی کے ان دونوں شعروں پر غور کرتے ہیںتو ہمیںعرفان صدیقی کی صناعی اور ذہانت زیادہ قابل توجہ نظر آتی ہے۔گرتی دیواروں کے درمیاںسائے جیسے آدمی کا گماں،اور دوسرے مصرعے میں تنگ گلیوںاورعکس ہوا کی شبیہ کو ذہن ابھارتا ہے۔ تنگ گلیوںمیںہوا ٹھہر ٹھہر کر چلتی ہے اور گرتی دیواروں کے نیچے علاقہ بھی تنگ ہے۔’’سائے جیسے آدمی‘‘اور’’عکس ہوا‘‘دونوں نے شعر کواستحکام بخشا ہے۔اسی طرح عرفان صدیقی کا ایک اور شعرجس سے ان کی تخلیقی بصیرت اور تخلیقی تجربے دونوں کا پتہ چلتا ہے:
دو لرزتے ہاتھ جیسے سایہ پھیلائے شجر
کانپتے ہونٹوں پہ اک حرف دعاجیسے ہوا
اس شعر میں عرفان صدیقی نے لرزتے ہاتھ کو سایہ پھیلائے شجر سے تشبیہ دی ہے۔ا س لئے کہ لرزتے ہاتھ کو سایہ پھیلائے شجرسے تشبیہ دینا کسی بزرگ کے کردار کی جانب اشارہ ہے،نیز ہاتھ کی لرزش اور کانپتے ہونٹ لمبی عمر کا اشاریہ ہیں۔یہ دونوں ایک دوسرے کے حسن کی تکمیل کرتے ہیںاور ’’جیسے ہوا‘‘کو شاعر نے جس طرح لرزتے ہاتھ ،سایہ پھیلائے شجر،اور کانپتے ہونٹ سے وابستہ کر دیا ہے وہ فن کی اعلیٰ مثال ہے۔
جہاں تک عرفان صدیقی کے انفرادیت کی بات ہے تو ان کی غزلوں میںاور بھی خوبی پائی جاتی ہے جو دوسرے شعرا کے یہاں کم کم دکھائی دیتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ جب عرفان صاحب کوئی دعویٰ کرتے ہیں یا کوئی واقعہ بیان کرتے ہیںتو مصرع ثانی میںاس کا جواز بھی پیش کرتے ہیں۔مثلاً:
ہر آفتاب کو آخرغروب ہونا ہے
سو ہم بھی ڈوب رہے ہیں سرِکنارۂ شام
میں اس زمیں پہ تجھے دیکھنے کو زندہ ہوں
مجھے قبول نہیں ہے جواز ہو جانا
محبوب کے بدن اور اس کے لمس کے تعلق سے مختلف شعرا نیاپنے اپنے انداز میں خیال آرائی کی ہے۔عرفان صدیقی کے یہاں بھی ’جسم‘اور’بدن‘کے الفاظ بار بار آئے ہیں۔ذیل کے اشعارمیںپہلے مختلف شعرا کے یہاں ’بدن‘ کی نیرنگی کو دیکھییٔ:
نسیم سحرؔ:
چھو گیا تھا ایک شعلے سے کبھی میرا بدن
اس کی شدت سے سحرؔمیں عمر بھر روتا رہا
امیر قزلباشؔ’بدن‘ کو سلگتی آگ کا ڈھیر سمجھ کر اسے چھونے سے اجتناب کرتے ہیں:
وہ سلگتی آگ کا ایک ڈھیر ہے
انگلیاں اپنی جلالے گا کوئی
علی احمد جلیلی کہتے ہیں کہ بدن میں گل و شبنم کی لطافت تو ہے مگر پھر بھی اگر ہاتھ لگایا جائے ہاتھ جل بھی سکتے ہیں:
گل وشبنم کی لطافت وہ بدن ہے لیکن
ہاتھ جل جائیں اگر ہاتھ لگایا جائے
اسی مضمون کوشاہد حسن مرادآبادی نے یوں بیان کیا ہے:
شعلہ تھا وہ ہم پھول سمجھتے رہے جس کو
اچھا ہوا ہم نے اسے چھو کر نہیں دیکھا
قمر سنبھلی شبنم بدن کو چھو کر اپنے ہاتھ جلا لینے کا تجربہ بیان کرتے ہیں:
جس کاخیال خنکی شبنم ہے سر بہ سر
اس کا بدن چھواتو مرے ہاتھ جل گئے
پرکاش فکری کا کہنا ہے کہ:
انہیں چھو کر غموں کی دھوپ سینکو
یہ پیکر برف کے شعلے نہیں ہیں
اب ان تمام تجربوں کے بعدعرفان صدیقی کے اشعار ملاحظہ ہوںجس میں ’بدن‘کا استعمال کتنی مہارت اور چابکدستی کے ساتھ ہوا ہے:
بدن کے دونوں کناروں سے جل رہا ہوں میں
کہ چھو ‘رہا ہوںتجھے اور پگھل رہا ہوں میں
اس شعر میں عرفان صدیقی نے اپنے جذبے کا اظہارجس طرح کیا ہے ان کے ہم عصروں کے یہاں کم ہی دکھائی دیتا ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انہیں لفظیات اور تراکیب پر بے پناہ قدرت حاصل ہے۔ان کی انفرادیت میں سب سے بڑا دخل ان کی غزل میں لفظیات اور تراکیب کا استعمال ہے۔عرفان صدیقی کا ایک اور شعر جس میں ’بدن‘زندگی کی علامت بن گیا ہے:
کب سے پتھر ہوں بیابانِ فراموشی میں
مرے ساحر مجھے چھو لے کہ بدن ہو جاؤں
بیابانِ فراموشی کی ترکیب نے شعر کے حسن میں اضافہ کر دیا ہے۔ایک انسان کا پتھر ہو جانا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اب اس میں حرکت و حرارت باقی نہیں رہی۔
تقسیم ملک اورسر حدوں کے مضامین کوبیشتر شعرا نے قلمبند کیا ہے۔مثلاًاعزازافضل کا یہ شعر:
ہزاروں سرحدوں کی بیڑیاں قدموں سے لپٹی ہیں
ہمارے پاؤں کو بھی پر بنا دیتا تو اچھا تھا
پرندوں نے کبھی روکا نہیں رستہ پرندوں کا
خدا دنیا کو چڑیا گھر بنا دیتا تو اچھا تھا
اب ملاحظہ ہو عرفان صدیقی کا یہ شعر کہ کس طرح سے اس مضمون کو اپنے منفرد لہجے میں پیش کرتے ہیں:
سرحدیں اچھی کہ سرحد پہ نہ رکنا اچھا
سوچئے آدمی اچھا کہ پرندہ اچھا
نیز’خاک‘’ہوا‘’سمندر‘’ستارہ‘جیسے الفاظ ان کی شاعری میں جا بجا دیکھنے کو ملتے ہیں۔انہوں نے ان الفاظ میں نئی معنویت پیدا کر کے انہیں از سرِنو حیات بخشی ہے۔مثلاً:
خاک:
چار دیوار عناصر کی حقیقت کتنی
یہ بھی گھر ڈوب گیا دیدۂ خونبار پہ خاک
ہوا:
الٹ گیا ہر اک سلسلہ نشانے پر
چراغ گھات میں ہے اور ہوا نشانے پر
سمندر:
لاؤ اس حرف دعا کا بادباں لیتا چلوں
سخت ہوتا ہے سمندر کا سفر سنتا ہوں میں
ستارہ:
سوادِشب میں کسی سمت کا سراغ نہیں
یہ سیمیا ہے ستارہ نہیں ،ٹھہر جاؤ
اس کے علاوہ عرفان صد یقی نے بعض متروک الفاظ کا استعمال بھی اپنی شاعری میں بڑی ہنرمندی سے کیاہے،جس سے ان کی معنویت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ لفظ کو متروک قراردینا در اصل اس کا قتل کرنا ہے۔مثلاً’سو‘’تلک‘وغیرہ ایسے الفاظ ہیںجنہیںمتروکات کے خانے میں ڈال دیا گیا ہے،عرفان صدیقی کی شاعری میں ایسے الفاظ کا جوہر قابل دید ہے۔مثال کے طور پر یہ شعر:
ہوں مشت خاک مگر کوزہ گر کا میں بھی ہوں
سو منتظر اسی لمس کا میں بھی ہوں
جسم سے روح تلک راہ نوردی کے لئے
ہو عنایت میرے ہونٹوں کو بھی پروانۂ لب
سانحۂ کربلااردو شاعری کا ایک اہم موضوع ہے۔اردوشاعری میں اس کی ایک مضبوط اور توانا روایت رہی ہے۔عرفان صدیقی نے بھی اس موضوع کو بطورخاص اپنایا۔کربلائی استعارے اور تراکیب سے وہ ایک نئی دنیا آباد کرتے ہیںاور اس سے وابستہ مسائل بیان کرتے ہیں۔چنانچہ ان تاریخی استعارات کے ذریعہ نہ صرف تاریخ میں پیش آنے والے اندوہ ناک حادثہ کی طرف ہمارا ذہن جاتا ہے بلکہ اس میں عصری زندگی کی جھلکیاں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔چند اشعار بطور مثال دیکھئے:
اے لہومیں تجھے مقتل سے کہاں لے جاؤں
اپنے منظر ہی میں ہر رنگ بھلا لگتا ہے
دیکھئے کس صبح نصرت کی خبر سنتا ہوں میں
لشکروں کی آہٹیں تو رات بھر سنتا ہوں میں
ہوائے کوفۂ نا مہرباں کو حیرت ہے
کہ لوگ خیمۂ صبرورضا میں زندہ ہیں
مذکورہ بالااشعارمیں’لہو‘’مقتل‘’نصرت’‘لشکر‘’ہوائے کوفۂ نامہرباں‘اور’صبرورضا‘جیسے الفاظ بظاہرواقعۂ کربلا سے متعلق معلوم ہوتے ہیںلیکن ان لفظیات میں اتنی وسعت اور گہرائی ہے کہ انہیں محض کسی واقعہ تک ہی محدود نہین کیا جا سکتا بلکہ یہ الفاظ دنیاوی حالات کی تصویر کشی میں بھی معاون نظر آتے ہیں۔غرض ہم عصر زندگی کو کربلا کے تناظر میں دیکھنے کا ہنر عرفان صدیقی کا خاص اپنا ہے،حالانکہ ان کے زمانے میں دوسرے شعرا نے بھی کربلا بطور استعارہ استعمال کیا ہے،تاہم جو پائداری عرفان صدیقی کے یہاں نظر آتی ہے وہ دوسروں کے یہاں نا پید ہے۔
مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ عرفان صدیقی نے جہاں نیا آہنگ و لہجہ ،نئی ترکیبیں اور لفظیات وضع کیںجو ان کی انفردیت کے ثبوت میں پیش کئے جا سکتے ہیںوہیں انہوں نے اردو روایت سے استفادہ بھی کیا ہے اور بیشتر مقامات پر قدیم خیالات و لفظیات کو اپنی ہنر مندی سے نئی صورت بھی عطا کی ہے۔
باتیں کہی کہی سی ہیں
پھر بھی نئی نئی سی ہیں
{…٭٭٭…}
6393953469