You are currently viewing عصرِحاضر کاحساس ترین شاعر……اختر قاضی

عصرِحاضر کاحساس ترین شاعر……اختر قاضی

ڈاکٹرشہناز قادری

صدرشعبۂ اُردو

جی ڈی سی مجالتہ

عصرِحاضر کاحساس ترین شاعر……اختر قاضی

عصر حاضر کو حساس دور سے تعبیر کرنے کی وجہ پر اگرمختصرسی روشنی ڈالی جائے تو پہلے ہم اس دور کی شاعرانہ حیثیت پر ذراسی روشنی ڈالنے کے پابند ہوجاتے ہیں۔ یوں تو ہر زمانے میں نئے نئے مسائل سر اُٹھاتے رہتے ہیں اور بسا اوقات یہ شعر وادب کے موضوعات میں بھی رونما ہوتے ہیں۔ یہ مسائل ایک فرد کی ذات کا بھی احاطہ کرتے ہیں اور بعض بیرونی معاملات کے حوالے سے بھی ہوسکتے ہیں ان ہی مسائل کا ادراک ایک بہترین شاعر کو ذاتی شعور کے ساتھ تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں طبع آزمائی پر آمادہ کرتاہے ۔ اردوادب میں ایسے شعراء کی ایک خوش آئند تعداد آج کے دور میں دیکھنے کو ملتی ہے جنہوں نے عصری حساسیت کے لحاظ سے اپنے شاعرانہ اثر وتاثیر کے اعتبار سے معاشرے پر اپنے دیر پا اثرات چھوڑے ہیں ۔ اردو شاعری کو معاشرے کے لاکھوں کروڑوں اذہاں پر اپنااثروتاثیر مرتب کرنے کا شرف حاصل ہے ۔ اردو شاعری کے اس معیار کو جب ہم اردو کے اہم ترین مرکز جموں وکشمیر کے شعری منظر نامے پر دیکھتے ہیں تو یہاں بھی ایسے لاتعداد شعراء دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان ہی اردو شعر گوئی کی مستحکم روایت کو آگے بڑھانے والے شعراء کے درمیان ایک عظیم الشان وراثت کے امین اختر قاضی کی شاعرانہ حساسیت کا احاطہ زیر نظر تحریر میں کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اختر قاضی حالیہ حکومت جموں وکشمیر کے اعلیٰ منصب پر فائز ہیں جہاں انہیں بہت سی منصبی ذمہ داریاں دامن گیر ہیں اورایسے عدیم الفرصت افسر کا شعر وشاعری پر طبع آزمائی کرنا ان کی اردو شعر وادب کے ساتھ والہانہ محبت، وابستگی اور اپنے ماحول اورمعاشرت کے تئیں حساسیت ہی ہوسکتی ہے اگر چہ قاضی کے خیال میں بہت سے مضامین غیب سے بھی اتر آتے ہیں مگر بیشتر اشعار ان کے احساس وادراک کا ہی ثمر قرار دیئے جاسکتے ہیں ۔ قاضی اپنے عہد کے ایک بہترین نباض ہیں حتیٰ کہ وہ اپنی روایت کے ساتھ بھی پیوست ہیں اورایسا ہونا بھی چاہئے کیونکہ شاعر ادیب یا فنکار اپنے سماج اور معاشرت کا صحیح نبض شناس ہوتاہے اس کی نظریں وہاں کا احوال دیکھ سکتی ہیں جہاں عام انسانوں کی نگاہوں کی رسائی ممکن نہیں ہوتی ۔ اردو شاعری کا خاصا ہے کہ یہ روایت کے ساتھ مستحکم ربط رکھتی ہے اگرچہ زمانہ بدل چکاہے لیکن ہم اپنی روایت سے نہ کٹ سکتے ہیں اور ناہی ہٹ سکتے ہیں ہماری شاندار اور جاندار روایت رہی ہے جس کے اثر ات ہمارے درمیان آہی جاتے ہیں اور واقعہ بھی یہی ہے کہ ایک بہترین شاعر کا روایت سے انحراف قطعی ممکن نہیں شاید اسی لئے ٹی، ایس ایلیٹ نے اس بات کو محسوس کیا اور کہہ اٹھے ‘‘روایت کے بغیر ہم جدیدیت کا تصور ہی نہیں کرسکتے ’’ اختر قاضی کے کلام میں بھی یہ خصوصیت دیکھنے کو ملتی ہے اگرچہ قاضی نے نئی پود کے اجتہادی معاملات اورمسائل کو ہی زیادہ تر اپنا موضوع سخن بنایا ہے تاہم وہ اپنے روایتی ورثے کی پاسداری کرتے ہوئے بھی مسلسل نظر آتے ہیں ان کی شاعرانہ حیثیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جموں وکشمیر کے اردو و کشمیری کے مستند شاعر ، ادیب اورمحقق جناب ولی محمد اسیر کشتواڑی یوں رقمطراز ہیں:

‘‘اختر قاضی کی غزلوں کو پڑھ کر یہ احساس کئے بغیر نہیں رہا جاسکتا کہ ان کی شعری اقدار کہیں نہ کہیں اپنے کلاسیکی ورثے سے مربوط ہیں۔’’

تاریخ گواہ ہے کہ اردوشاعری جب ارتقاکے ابتدائی منازل پر گامزن ہوئی تو سب سے معتبر موضوع تصوف اور خدا پرستی کو ہی گردانا گیا یہ شعراء کا وہ تصور وتفکر ہے جسے زمانۂ قدیم سے اب تک وقار ومعیار کی منتہیٰ اورعرفان وآگہی کی رفعت کہا جاسکتاہے اختر قاضی بھی اپنی شاعری میں اپنے خالق ومالک کے حضور یوں اپنی عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہوئے عشق رسولؐ کی دولت سے مالا مال نظر آتے ہیں۔

؂یہ جو آنکھیں ہوئی ہیں نم مولا

ہم پہ تیرا رہے کرم مولا

ہم پہ لازم ہے تیرا ذکر جمیل

ہم جو ہیں امت امم مولا

تیری الفت سے جذب راہوں میں

رکھ دیا ہم نے ہر قدم مولا

٭٭٭

مدینہ تو مرے خوابوں کا گھر ہے

محمدؐ کے غلاموں کا یہ در ہے

ثمر جس کا فقط رحمت رہا ہو

محمدؐ نے لگایا وہ شجر ہے

٭٭٭

محمدؐ کا ہے سایہ مجھ پہ اخترؔ

یہاں کس بات کا اب مجھ کو ڈر ہے

جب ہم اردو شاعر ی کے عصری منظر نامے کی ورق گردانی کرتے ہیں تو آج کی شاعری یقینا غیر معمولی تبدیلیوں سے دو چار نظر آتی ہے نئے موضوعات کا تنوع شعری منظر نامے کو یکسر بدلتا ہوا نظر آتا ہے ۔ تازہ ترین افکار قوت تخئیل کو ممیز کررہے اور یہ بات بڑے ہی وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ آج کی شاعری لالہ وگل اور رخسار وکاکل کی شاعری نہیں رہی ہے بلکہ نئے مسائل اورجدت آمیز موضوعات کی پیچیدگی سے گھر ے ہوئے اذہان کی روداد ہے تاہم آج کی غزل کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو اس کی بھی بنیادی خصوصیات میں عشق کو کلیدی اہمیت حاصل ہے اختر قاضی بھی عشق کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں تصور عشق کو نئے پیرا ہن میں ملبوس کرکے عشقیہ مضامین کو کبھی حقیقی تو کبھی مجازی معنوں میں یوں باندھتے ہیں:

ایک ہم ہیں اورایک دنیا ہے

عشق میں دونوں ہیں بہم مولا

٭٭٭

سارے رموز عشق سے ہوتے ہیں آشکار

یہ وہ سبق ہے جس کو پڑھایا حسینؑ نے

٭٭٭

تیری قربت اگر میسر ہو

ہر سفر پھر سفر نہیں لگتا

٭٭٭

آئے گا وصل یار کا موسم

کچھ تو دل میں آس رہنے دو

اردو شاعری کی توانا روایت کئی سو سالوں کو محیط ہے جس میں کئی تحریکیں شعر وادب کی نئی نئی تھیوریز کو سامنے لانے میں ہر دور میں موثر اور پرُ تاثیر نظر آتیں ہیں اگرچہ1935ء کے آس پاس ترقی پسند تحریک کے تحت اردو شاعری کسانوں ، مزدوروں اور سماج کے نچلے طبقے کی آواز بن کر سامراجی طاقتوں سے ٹکراتی ہیں تو وہیں 1950ء کے آس پاس یہ تحریک بڑی حد تک ادبیت سے محروم ہوکر نعرہ بازی کی حدوں کو چھو لیتی ہے اور اجتماعیت کے بہاؤ میں بہہ جانے پر فرد کی تنہائی اوراس کے داخلی کرب کی طرف متوجہ ہوکر اس پر دھیان دیتی ہے اور یوں 60ء میں جدیدیت کی تحریک معرضِ وجود میں آتی ہے اسی طرح 1983ء کے آس پاس جدیدیت کے بعد بھی مابعد جدید صورت حال ابھر کرسامنے آتی ہے لیکن ہر تحریک میں عصری مسائل ہی نئی تحریکات کے ابھرنے میں معاون رہے ہیں ترقی پسند تحریک اردو شاعری کی ایک موثر تحریک رہی ہے اس تحریک کے محبوب موضوعات آج کے بہترین شعراء کے یہاں بھی دیکھے جاسکتے ہیں اسی طرح جدیدیت اور مابعد جدیدیت کا حال بھی یہی ہے ان تحریکات نے اہم موضوعات کو بھی درلایا جو کہیں نہ کہیں آج کا حساس شاعر بھی محسوس کررہا ہے۔ حساس شعراء نے ترقی پسند تحریک کے خاتمے کے بعد بھی ظلم کے خلاف اپنی آوازیں بلند کیں اور ترقی پسند تحریک جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے شعراء نے بھی روایت کی پاسداری کا علم اپنی شاعری میں بلند کیا یہی حساس شعرا کی حساسیت کے بہترین پہلو قرار دیئے جاسکتے ہیں۔ اختر قاضی نے بھی اپنی جگہ ان ہی احساسات کی بنا پر عصر حاضر کے اہم شعراء کی صف میں بنائی ہے ۔ ان کے ذیل میں دیئے گئے اشعار ملاحظہ فرمائیں۔ جو انہیں شعوری طورپر ترقی پسند تحریک سے وابستہ شعراء کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہیں اور وہ غریبوں اورناداروں کی حمایت میں کھڑے ہوکرپکار اٹھتے ہیں۔

انقلاب اک جہاں میں آنا ہے

ہم کو اس کا انتظار بہت

وہ غیریبوں کے کام آئیں گے کبھی

یوں تو پھر تے ہیں شہریار بہت

٭٭٭

نہ بھوکے سے تو نفرت کر خدارا

اسے کھاناکھلا کر دے سہارا

٭٭٭

پاک نفرت سے یہ سماج کریں

کرنا کل ہے جو آج کریں

٭٭٭

ملے سب کوہر اک کے حصے کا

جب بھی تقسیم یہ اناج کریں

جھوٹ کے سامنے کریں سچ کو

جتنا کرناہے احتجاج کریں

نہ صرف ترقی پسند ی بل کہ جدیدیت کی تحریک کے فلسفے سے بھی اخترقاضی خاصے ہم آہنگ نظر آتے ہیں انہیں بھی مادیت پرست انسان کی اجنبیت اوربے چینی کا ادراک ہے وہ بھی اپنے اشعار میں انسان کے اپنے خول میں قید ہونے کے المیے پر خاصے ماتم کنان نظر آتے ہیں۔ فرماتے ہیں:

زندگی کی الجھنوں کی بات جو کرتے نہ ہوں

رائیگان وہ فلسفے بے کار ایسی شاعری

٭٭٭

ٹپک رہا ہے خون چناروں سے

ظلمت کی نہر بہادی گئی ہے

٭٭٭

دھواں دھواں سا لگ رہا ہے مجھ کو میرا وجود

مکاں سے آگیا ہوں کیسے لامکاں میں

٭٭٭

ہر طرف ہے اب انتشار بہت

راہ میں طاری ہے غبار بہت

٭٭٭

 اختر قاضی مابعد جدیدیت کے عہد میں سانس لے رہے ہیں انہوں نے اپنے منفرد لہجے سے اپنی شاعری کو ایک نیا رنگ وآہنگ بخشا اور اسے نئے امکانات کی آگہی عطا کی ۔ان کے یہاں زبان وبیان کا استعمال بڑی سلیقہ مندی سے ملتا ہے اورسائنسی اورتکنیکی عناصر کافنکارانہ استعمال نمایاں طورپر دیکھا جاسکتا ہے۔

آگہی سے ظلمتوں کا نکھار دیکھا

زیست کو بے بسی کا شکار دیکھا

٭٭٭

ہوا ہے دین خارج جب سے اپنی زندگی سے

نہ بننی چاہئے تھی جو روایت بن گئی ہے

٭٭٭

کوئی بستی کوئی ویران سے گذرا

یہاں ہر کوئی ہی بحران سے گذرا

 یہ اور اس طرح کے لاتعداد اشعار اخترقاضی کے اردوادب کی عصرصی حسیت کو متعین کرتے ہیں اردوشاعری میں عصری حسیت کا رجحان کسی نہ کسی سطح پر شروع سے رہاہے ۔ کبھی ۱۹۵۷ء کے بعد کے حالات نے اس رجحان کو تقویت بخشی کبھی مارکسزم اورتقسیم ہند نے اسے بلوغت بخشی تو کبھی گلوبلائزینGlobalization اورسائنسی ایجادات کے تنائج میں ہونے والی تبدیلیوں نے اسے وقار و معیار بخشا اختر قاضی کی شاعری میں عصرصی حساسیت کا یہی رجحان ہمیں کبھی روایتی ، کبھی اشتراکی کبھی جدیدیت تو کبھی مابعد جدید اور شاید جدید الجدید کے مراحل میں سرگرداں نظر آتا ہے ۔ ان کی شاعری کی عصری معنویت اور حساسیت مسلم الثبوت ہے اور یہی اردو شاعری کی اہم خصوصیت بھی ہے کہ اس میں تاریخ کے ہر دور میں عصری معنویت بھرپور رہی ہے شاید اسی لئے ہندوستان کی زبانوں میں اردو اپنے شعری سرمائے کے بدولت ایک ترقی یافتہ اور زندہ زباں کادرجہ رکھتی ہے ۔ اس کی شاعرانہ عظمت نے عصری حسیت کا تازہ لہو نہ صرف اپنے اندر گردش میں رکھا ہے بلکہ ضرورت پڑنے پر دوسری زبانوں کو بھی عطیہ کیا ہے یقینا اس شاعرانہ صفت کے شعراء کا رتبہ اردو زبان میں اہمیت کا حامل ہوجاتا ہے اور یہی صفت اخترقاضی کے اردوادب میں مقام ومرتبے کے تعین کا معیار بھی بن جاتا ہے ۔ شارق عدیل اپنے ایک مضمون میں قاضی کی شاعری کی عصری معنویت کے حوالے سے یوں رقمطراز ہیں:

‘‘اختر قاضی ایسے شاعر ہیں جو …… اپنے عصر کے تقاضوں کو بھی اس احتیاط سے غزل کے سانچے میں ڈھالتے ہیں کہ دل ان کی آواز پر لبیک کہنے لگتا ہے۔ ’’

(الفجر از اخترقاضی ، ص :۲۱)

 موجودہ دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ تکنیکی اصول ونظریات کے حامل یعنی Technocrate ہوتے ہیں۔ قاضی کا شمار بھی اسی طرز کے شعر ا میں ہوتاہے یعنی وہ بھی پر انی لفظیات اور تشبیہات واستعارات کو نئے طریقے سے برتتے ہیں یہ روایت کے تسلسل اوراستفادے کا عمل بہت اہم ہے روایت سے استفادے کا عمل اساتذہ فن کی معراج ہے فیض کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ انہوں نے روایتی لفظیات ، تشبیہات اوراستعارات کو نئے پانی میں استعمال کرکے برتا یعنی رات وہی ہے جو میرؔکے یہاں بھی تھی اورفیض کے یہاں بھی روایت سے فیض نے رات کو اپنے زمانے سے ہم آہنگ کرکے اپنے کلام میں برتا یہی ایک بڑے شاعر کی صفت ہوتی ہے اختر قاضی کے یہاں بھی ایسے بے شمار اشعار ہیں جن میں عصر حاضرکے مسائل اور ان کا احوال ہے وہی ایسے اشعار کی فراوانی بھی ہے جو غزل میں روایتی الفاظ کے خوبصورتی کے ساتھ برتے جانے کا ہنر بھی رکھتے ہیں ؂

آئے گا وصل یار کا موسم

کچھ تو اس دل میں آس رہنے دو

٭٭٭

تیری قربت سے اگر میسر ہو

ہر سفر پھر سفر نہیں لگتا

٭٭٭

مجھے ماضی سے ہمکلام تو کر

اے میرے دل قرار دے دے مجھے

موجودہ دورمیں اگر دیکھاجائے تو پورے دنیا میں جس چیزکی ضرورت شدت اختیار کرگئی ہے وہ امن وآشتی اور لطف ومحبت ہے آج کاا نسان کسی مخصوص قصبے، شہر،ریاست یا ملک سے وابستہ نہیں بلکہ وہ پوری کائنات کا باشندہ ہے گلوبل ولیج کے تہذیبی اورمعاشرتی تصادم نے انسان کی ذات پر مہلک اثرات مرتب کئے ہیں ان حالات میں جس چیز کی ضرورت عالمگیر سطح پر محسوس کی جاتی ہے وہ ہے امن وآشتی اورآپسی بھائی چارہ اختر قاضی کو اس چیز کا بخوبی ادراک ہے اور وہ اسے اپنی محسوسات میں اہم رکھتے ہیں۔

پاک نفرت سے یہ سماج کریں

کرنا کل ہے جو وہ آج کریں

٭٭٭

الفت کی جو عمارتیں یکسر کھڑی کریں

اس دورمیں اب ایسا ہی معمار چاہئے

٭٭٭

نفرت کو جو کہ صفحۂ ہستی سے گم کریں

دنیا میں اسے لوگوں کا کردار چاہئے

٭٭٭

اک عزم وخلوص چاہتے ہیں

کام کرنے میں زر نہیں لگتا

اختر قاضی آدمیت احترام آدمی کے مصداق اپنی شاعری سے زندگی کی اصلاح چاہتے ہیں وہ تلقین کرتے ہیں ایسے ادب اورایسی شاعری کی جو انسان کے لئے سود مند ثابت ہو جو آدمی کے مسائل اورمعاملات کے لئے سودمند ثابت ہو فرماتے ہیں:

؂ زندگی کی الجھنوں پہ بات جو کرتے نہ ہوں

 رائیگاں وہ فلسفے بے کار ایسی شاعری

 عصر حاضر کی شاعری اپنے مزاج ومنہاج کے حوالے سے نہایت ہی نئی ،ترقی یافتہ اورسائنس وٹیکنالوجی کے اعتبار سے ایک منفرد بل کہ پیچیدہ شاعری ہے آج انسان اگر چہ شاعری میں دلچسپی رکھتا ہے تو وہ پوری دنیا کے شعر وادب کا مطالعہ کرکے اپنی ذہنی انبساط کا سامان حاصل کرسکتاہے ۔ آج کا قاری انٹرنیٹ کی وساطت سے اگلی کے ایک شارے پر بہتر سے بہترین مواد کا مطالعہ کرسکتاہے لہٰذا آج کے فنکار کے لئے بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے فن میں یکتا ہوتا کہ وہ قاری کی ضرورت پر کھرا اترے اخترقاضی شاعری کے اس منزل پر بخوبی پہنچ چکے ہیں جہاں وہ نئی عصری ایجادات کو اپنی شاعری میں اس طرح خوبصورت اوردلپذیر پیرائے ہیں پیوست کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ وہ شعری لفظیات اور اصطلاحات کا ایک دیرینہ حصہ معلوم ہوتے ہیں۔

؂ اچھے برے کا فیصلہ کرتا نہیں ہوں میں

احساس سے عاری میں گوگل کی طرح ہوں

 اخترقاضی اپنی شاعری میں سماج اور معاشرے میں نئی سطحوں پر اصلاح کے خواہاں نظر آتے ہیں اورعالمگیر سطح پر عالم انسانیت پر موذی چیزوں کی نشاندہی کرکے ازالے کے خواہاں نظر آتے ہیں مجھے اختر قاضی کے کچھ استعارے پڑھ کر ن۔ م راشد کی نظم ‘‘سباویراں’’کی یاد تازہ ہوتی ہے جس میں ن۔م راشد علامتی انداز میں جنگ کی تباہ کاریوں پر ماتم کناں ہوکر سلیمان سربہ زانوں اورسبا ویران کا راگ الاپتے ہیں ملاحظہ فرمائیں قاضی کے یہ اشعار

ہوئے ہیں مسئلے حل جنگ سے کب

کہاں لے جائے گی ہم کو قیادت

٭٭٭

اک سمندر سے جن کو نسبت تھی

تشنگی سے وہ مر گئے کیسے

 غرض اختر قاضی کی شاعری اردو شاعری کے عصری منظر نامے پر منفرد اور معتبر حوالے کی حیثیت رکھتی ہے میرے دل سے اس نابغۂ روزگار شاعر کے لئے یہی دعا نکلتی ہے کہ:

؂ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

٭٭٭

Leave a Reply