You are currently viewing عصمت چغتائی کے ناولوں کی نمائندہ نسوانی کردار

عصمت چغتائی کے ناولوں کی نمائندہ نسوانی کردار

نجمہ سی کے

ریسرچ اسکالر

شعبہ اردو ،جامعہ سری شنکراچاریہ  برائے سنسکرت ،کالڈی،کیرلا

عصمت چغتائی کے ناولوں کی نمائندہ نسوانی کردار

اردو ادب میں عصمت چغتائی ایک ایسی مشہور ناول نگار ہیں جنہوں نے ترقی پسند تحریک کے دور میں ناول کے فن میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ ان کا خاص میدان عورتیں اور خاص طور پر متوسط مسلمان گھرانوں کی خواتین کی زندگی ہیں۔ عصمت چغتائی  نے اپنے تخلیق کردہ ناولوں اور  افسانوں کے ذریعہ اردو ادب کو ایک  نئی دنیاسے روشناس کرایا ۔ عصمت چغتائی حساس ذہن و دل کی مالک  تھیں، وہ انسانی زندگی اور انسانوں سے محبت   کا جذبہ رکھتی تھیں  اس لیے ان کے ناولوں میں انسانی اعمال و افعال کے تناظر میں نفسیاتی رد عمل کو اجاگر کیا ہے ۔ان کا گھریلو ماحول علمی ،ادبی اور آزادانہ تھا۔ان کے ماحول اور مزاج کے اثرات ان کے تخلیقات میں نمایاں طورپر نظر آتا ہیں۔اس کے بارے میں شبنم رضوی نے لکھتا ہے کہ :

” ایک فن کار وہ ہے جو اپنے خیالات کو اپنے کرداروں میں پیش کرتا ہے اور ایک فن کار وہ ہے جو اپنے کردار کو اپنے آپ کو اپنی تخلیق میں پیش کرتا ہے ۔مگر جہاں تک عصمت چغتائی کا تعلق ہے انہوں نے اپنے اندر کی ضد،اکھڑپن،بغاوت،جرآت اور جستجو کو جگہ جگہ اپنے ناولوں اور افسانوں کے کرداروں میں پیش کیا ہے،ان کے ناولوں کی ہیروئنوں کے اندر عصمت ہر جگہ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی روپ میں نظر آتی ہیں ۔چاہے وہ معصومہ کی بیگم صاحبہ ہوں یا سودائی کی چاندنی باندی کی حرمہ یا گوری بیوی یا ٹیڑھی لکیر کی شمن یا پھر دل کی دنیا کی  قدسیہ خالہ ہوں”۔1

 عصمت نے  عورتوں کے حالات اور مسائل پر غور و خوض کیا کرتی تھیں اور ان کےناولوں کا مرکز عورتوں کے مسائل ہیں یعنی عورت کے جذبات ،ذہنی کیفیات روزمرہ کی وارداتوں پر ان کے نفسیاتی ردعمل اور ان کے مخصوص سماجی حالات کی عکس بندی بڑے ہی فنکارانہ انداز سے کی ہے  ۔ انھوں نے قریب سے متوسط  طبقہ کی زندگی کا مطالعہ و مشاہدہ کیا ہے ۔

عصمت چغتائی خلاق و ذہن اور بے باک خاتوں تھیں اور ترقی پسند تحریک سے ذہنی وابستگی نے ان کے تجربہ اور مشاہدے کو و سعت بھی بخشی تھی،یہی وجہ ہے کہ وہ عورتوں کے معاشرتی اور جنسی استحصال کو برداشت نہ کرسکیں اور عورتوں کے حق میں سماج کی فرسودہ روایات کا خاتمہ  چاہتی تھیں ۔ انھوں نے مختلف کرداروں کے ذریعہ معاشرہ میں پھیلی برائیوں کو پیش کیا ۔ یہ برائیوں  خصوصا عورتوں کی زندگی سے متعق تھیں اس لیے وہ عورت اور لڑکیوں کا نفسیاتی طورپر گہرائی سے مطالعہ کیا ہے اور سماج کی کم و بیش تمام  برائیوں اور خرابیوں  کے ساتھ ساتھ معاشی و جنسی الجھنوں  کو بھی بڑے فنکارانہ و بے باکا نہ انداز سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ڈاکٹر ہارون ایوب کے مطابق :

“عصمت چغتائی ترقی پسند مصنفین میں اس حیثیت سے انفرادیت کی حامل ہیں کہ انہوں نے مسلم متوسط گھرانوں کی پردہ نشین لڑکیوں کی نفسیاتی الجھنوں اور ان سے پیدا ہونے والے مسائل کو اپنے ناولوں کا موضوع بنایا ۔در اصل اس طرح وہ مسلم معاشرہ میں پھیلی ہوئی برائیوں کو بے نقاب کرنا چاہتی ہیں”۔2

 عصمت چغتائی کے نسوانی کردار حقیقی دنیا سے وابستہ ہیں اور جیتی جاگتی کیفیت و احساسات سے  دو چار معلوم ہوتے ہیں۔  ان کے ناولوں میں ایک انفرادی پہلو یہ بھی ہے کہ ان میں نسائی کردار بے بس اور لا چار محض نہیں ہیں۔بلکہ اپنے حق میں بہتر کرنے کی مساعی کرتی نظر آتی ہیں۔ انھوں نے اپنے کرداروں کو زیادہ توانا،بیباک اور متحرک دکھایا ہے جن کے یہاں مردانہ بالادستی والے معاشرے میں عورت کی ازلی مسائل ، دکھ درد ، احساسات و خواہشات ایک سنہرے خواب کی شکل میں نمودار نہیں ہوتے بلکہ وہ اپنے جذبات و احساسات کی بے باکانہ تکمیل کرتی ہیں۔ ان کے تخلیقات کے کردار ہمارے سامنے جدید عورت کی علامت بن کر اُبھرتے ہیں کیوں کہ ان کے اندر روایت سے بغاوت کے ساتھ ساتھ اپنی پسند کے مطابق زندگی جینے کا جذبہ و صلاحیت ہے۔ وہ اپنی زندگی کی راہ خود طے کرتی ہیں جسے اپنے لیے مثبت آمیز تصور کرتی ہیں۔انھوں نے سماج کے بدلتے رجحانات اور عورت کی نظر اور نظریہ سے مردانہ سماج کی بالادستیوں اور ظلم و استحصال کی جو داستان غم انگیز مختلف پیرایوں میں پیش کی ہے وہ گذشتہ صدی کی سماجی پیچیدگیوں اور عورت کی بیداری شعور اور ذہنی اُڑان کی غمازی کرتی ہیں۔ اس زمانے میں بھی عورت اوہام پرستی اور جہالت کا شکار تھی ،معاشرہ میں عورت کو باندی یا  طوائف کا درجہ ملتا  تھا۔ ستم یہ کہ عورت بیوی بن کر باندی یا طوائف سے بھی کم تر زندگی کی مستحق ہوا کرتی تھی ۔ بیوی کے روپ میں شوہر کا مجازی خداکا مرتبہ دیتے دیتے عورت خود کو مجبور محکوم بناڈالتی ہے ۔عورت کی خاموشی اس کی شخصیت کے دو ہرے پن کی وجہ بنتی ہے ۔عصمت چغتائی ایسی مجبور عورتوں کے لیے دل میں ہمدردی رکھتے ہوئے بھی ان عورتوں کی منافقت سے شدید نفرت کرتی ہیں۔ عصمت چغتائی نے پہلی بار  اپنے ناولوں میں عورت خصوصا  مسلم  سماج کی عورتوں کوزبان بخشی اور انھیں اظہار کی آزادی عطا کی  اب عورت مجبور محکوم  ہونے کے ساتھ منہ زور اور بے باک ہوگئی ۔عصمت چغتائی نے مختلف موضوعات ،عورتوں سے متعلق معاشرہ کی متعدد برائیوں کو  منفرد کرداروں کے ذیعہ پیش کیا ہے ۔ عصمت نے عورتوں کی نفسیات اور ان کے مسائل کو جس طرح سمجھا ہے اپنی تحریروں میں اسے زبان وبیان کے چٹخارے کے ساتھ پیش کیا ہے۔ عصمت اپنے دور کی ایک اہم فن کار ہیں اور ناول کی دنیا میں ان کی بنائے ہوئے نقوش ہمیشہ خاص اہمیت کے حامل رہیں گے

عصمت چغتائی کے ناولوں میں  چند  نسوانی کردار پیش کئےجو تمام اردو ناولوں میں ایک مثال بن گئے ہیں۔انہی جاں بازکرداروںمیں ‘آشا'(ضدی)،’شمن'(ٹیڑھی لکیر)،’نیلوفر'(معصومہ)،’بوبو'(باندی) ، ‘ قدسیہ ‘(دل کی دنیا)  وغیرہ نسوانی کردار خاص اہمیت کے حامل  ہیں۔عصمت چغتائی نے ان کرداروں کے ذریعہ عورتوں کے منفی اور مثبت دونوں پہلو ں اور رویّوں کا احاطہ کیا ہے ۔ انھوں نے صنف  نازک کی روتی ،بسورتی ،کراہتی اور سسکتی زندگی کو  ہدف تنقیدی بناتے ہوئے سماج کی حقیقت کو طنز کے نشتر سے بے نقاب کرنے کی کوشش کیا ۔ عصمت چغتائی کے ناولوں کے ذریعہ نئے زمانے کی عورت سے روبہ رو ہونے کا موقع ملتا ہے ۔ یہ عورت نئی اور پرانی قدروں کے درمیان ایک ایسی ذات ہے  جو آزاد ہوتے ہوئے بھی گھریلو قید و بند سے جکڑی ہوئی ہے ۔

“ضدی” عصمت چغتائی کا پہلا ناول ہے جو 1941 ء میں شائع ہوا۔ ‘آشا ‘ اس ناول کا مرکزی نسوانی کردار ہے ۔ ‘آشا’ کے کردار کے حوالے سے   عصمت چغتائی نے عورت کی شخصیت  ،اس کے مسائل کو اجاگر کیاہے ۔یہ ناول جس عہد میں لکھا کیا اس وقت حقیقت نگاری کا دور رہ تھا۔ناول کے مطالعہ سے  اس عہد کا سماج ،جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام ،طبقاتی کشمکش ،امیر غریب،ذات پات ،اونچ نیچ اپنی کڑوی حقیقتوں کے ساتھ آنکھوں کے سامنے گردش  کرنے لگتاہے ۔آشا کے حوالے سے عصمت چغتائی نے امیر ،غریب،ذات پات کی تفریق کو ہر ممکن انداز سے مٹانے کی کوشش کی ہے اور ناول میں جابجا معاشرے کی فرسودہ روایت پر طنز اور طبقاتی کشمکش اور تقسیم کی موجودگی کا احساس دلایا  ہے۔

عصمت چغتائی ترقی پسند تخلیق کار تھیں انھوں نے ترقی پسند فکر  و احساس ،گہرے انسانی اور سماجی شعور اور نظریاتی فکر عمل کے ساتھ زمانے کی حقیقتوں کو اجاگر کیا ہے۔ غرض ہے کہ آشا کے کردار کے ذریعہ مصنفہ نے جاگیردار انہ نظام اور اس کی خامیوں کو پیش کیا ہے۔ آشا محبت کی دیوی ہی نہیں ایثار کا مجسمہ بھی ہے وہ غریب ہے لیکن غلیط نہیں ،خودداری اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ۔آشا اپنے درد کی غریب اور خوددار عورت کی کی بھر پور ترجمانی کرتی ہے ۔ آشا کا کردار اپنے وقت ،حالات ، سماج اور تہذیب کا عکس ہے ۔

‘ٹیڑھی لکیر’ عصمت چغتائی کا مشہور و مقبول ناول ہے ۔بے شمار اہم نسوانی کرداروں کے باوجود اس ناول کا مرکزی نسوانی کردار’ شمن’ کا ہے ۔ شمن کے علاوہ دیگر نسوانی کرداروں مثل بڑی آپا، منجھو،رسول فاطمہ ،مس چرن،نوری، نجمہ،سعادت،بلقیس،ایلما وغیرہ کو اہم نسوانی کردار کہنا غلط نہ ہوگا کیونکہ یہ تمام کردار شمن کے کردار کی تشکیل میں معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ عصمت چغتائی نے ٹیڑھی لکیر میں خاص طورپر نسوانی کرداروں کو ابھر نے کی کوشش ہے اور ان کرداروں کے خارجی پیکر کی  تشکیل کے ساتھ ساتھ ان کے باطنی شخصیتوں کی تعمیر کی طرف بھی توجہ دی ہے ناول کے تمام کردار اپنے اعمال اور افکار کے اعتبار سے مختلف اور منفرد ہیں۔شمن کا کردار عصمت چغتائی کا وضع کردہ ایک بے مثال اور لافانی کردار ہے ،وہ دوسرے نسوانی کرداروں سے مختلف ہے۔شمن اپنے والدین کی دسویں اولاد ہے ۔جس کی وجہ سے اس کی پیدائش  پر خوشی کے بجائے بیزاری کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ناول کے پہلے جملے ‘وہ پیدا ہی بے موقع ہوئی تھی ‘ سے لے کر آخر تک یہ ناول شمن کی محرومیوں کی داستان سناتا ہے ۔ گھر پر اسے والدین کی خاصر خواہ شفقت و محبت نہیں مل پاتی کیونکہ ماں باپ کو اس کے لیے فرصت ہی نہیں تھی ۔بقول عصمت :

” اماں کو تو دنیا کا بس ایک کام آتا تھا اور وہ بچے پیدا کرنا ہے  ۔اس کے آگے نہ انھیں کچھ معلوم نہ کسی  نے بتانے کی ضرورت محسوس کی ۔اباجان کو بچوں سے زیادہ اماں کی ضرورت لاحق۔”۔3

اقتباسات میں عصمت چغتائی نے شمن کے کردار کے انتخاب میں جس دیدہ دلیری کا ثبوت دیا ہے اس کی پہچان شروع میں ہی ہوا جاتی ہے اس لیے شمن کی شخصیت و فطرت کی لکیر ٹیڑھی ہوگئی۔ اس کی زندگی کی دشواری کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوتاہے کہ بچوں کی ذہنی  اور جسمانی نشونما میں  اگر احتیاط نہ کی جائے تو انکی زندگی شمن کی طرح کجی کی طرف مائل ہو جائے گی ۔

عصمت چغتائی نے اپنی تحریروں کے ذریعے عورت کا اخلاق  درجہ مرد کے برابر دینے کی کوشش کی ہے  ان کا ماننا  تھا کہ فضائل اور سماجی اعتبار سے دونوں یکسان طور پر اپنی اپنی راہیں رکھتے ہیں ۔ناول” معصومہ “کے ذریعے گھریلو ماحول میں عورتوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و ناانصافیوں کا پردہ فہش کرنے کی عمدہ کوشش کی گئی ہے ۔ناول  “معصومہ ” میں  ایک ایسی لڑکی کی دکھ بھری داستان ہے جس کو زندگی کے ناسازگار حالات نے معصوم “معصومہ” سے طوائف “نیلوفر” بنا دیا۔اس معصوم لڑکی کی کہانی ہےجو حالات کے زیر اثر کال گرد بن جاتی ہے ۔وہ صدائے احتجاج بلند تو کرتی ہے لیکن جلدی ہی احتجاج پست پڑجاتے  ہیں۔ کبھی اس پر معاشی دباؤ ہےتو ابھی سماجی یا ذاتی  دباؤہے جس کے تحت وہ اس بھنور میں الجھتی چلی جاتی ہے اس نے زندہ ہوتے ہوئے موت سے سمجھوتہ کرلیاتھا ۔عصمت عام ترقی پسندوں کی طرح معصومہ کی تباہی و بربادی کا ذمہ دار سماج کو ٹھراتی ہیں۔معصومہ کے اندر زندگی جینے کا ہنر موجود نہیں ہےکیوں کہ اسے اس کے حالات نے مجبور کردیا وہ مرد مرکوز سماج کی ظلم و بربریت اور مسلسل  جنسی و جسمانی اذنیت کا شکار ہے۔وہ اصل میں ایک عام ہندوستانی لڑکی ،بیٹی یا بہن تھی جس نے اپنے گھر خاندان کے لیے خود کو قربان کردیا تھا ۔اس ناول میں عصمت نے سماجی طبقاتی شعور کے ساتھ گناہ میں جکڑی ہوئی عورت کے داخلی وجود ،اس کے اندر کی کشمکش اور خانگی زندگی کے کرب کو بڑی بے باکی اورعورت کی بے بسی  اور مجبوری کا فائدہ اٹھانے والے دولت مند سے پیش کیا ۔ڈاکٹر عبدالحق کاس گنجوی اپنے مضمون “عصمت چغتائی اور حقیقت نگاری” میں رقم طراز ہیں :

“عصمت کی ہیروئن اپنے بے راہ روی اور جنسی دلدل میں لوٹ لگانے کے لیے معاشی حالات کو ذمہ دار قرار دیتی ہے۔ وہ یہ کہہ کر تسلی دیتی ہے کہ اگر اس کا عورت پن نیلام ہورہا ہے تو یہ اس کی غلطی نہیں معاشی بدحالی اور اس سے پیدا ہونے والی مجبوریاں اسے اس گرے ہوئے مقام پر لے آئی ہیں …… لیکن آفاقی اقدار کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے اندر کا انسان مرنے نہ پائے۔ وہ ان واقعات اور حالات کے اصل مسئلے پر غور کرکے ان پر قابو پانے کی ہر ممکن مسلسل جدوجہد کرتا  رہے۔”۔4

موضوع کے اعتبار سے’  باندی’ ناول عصمت چغتائی کا اہم ناول ہے۔ اس ناول کے ذریعہ  نوابوں کی زندگی میں باندی  کے تصور کی عکاسی کی گئی ہےجہام عورت کو نوابوں کی جنسی تسکین اور ان کی خدمت گزاری کرنا تھا ۔عورت ہر حال میں آج بھی سماج  خصوصا مردوں کے ہاتھوں کا کھلونا بنی ہے پھر وہ باندی ہویا عام عورت ہے ۔  ایک خیال ہے کہ معاشی غلامی عورت کی سب سے بڑی کمزوری یا اس کی بدحالی کی وجہ ہے لیکن اس خیال پر بھی  پوری طرح اتفاق نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس معاشرہ میں ایسی بہت سی مثالیں  ہیں کہ عورت خود کفیل ہونے کے باوجود معاشرتی ،معاشی اور جسمانی  استحصال کا شکا ر ہے ۔معاشرہ اپنے جھوٹی آن بان کی خاطر عورت کی آن بان کا نیلام کرتے ہوئے اسے خاک میں ملادیتا ہے۔عورتوں کی بے قدری نے اسے بے بس ،مجبور اور محکوم بنا ڈالا ہے ۔سماج کی حقیقتوں کی نقاب کشائی کرتے ہوئے انھوں نے معاشرہ میں عورتوں کے حالات کی صحیح اور سچی نشاندہی کی ہے۔

عصمت چغتائی کے سبھی ناولوں میں عورت کا باغی روپ نظر آتا ہے  ناول “دل کی دنیا ” میں عصمت چغتائی نے  ایک ایسی مظلوم عورت کی زندگی کی داستان قلم بند کی ہے وہ ہر اس چیز سے بغاوت کرتی ہے  ۔موجودہ سماج سے اس کے بوسیدہ رسم و رواج سے عورت کی موجودہ حالات کے خلاف مذہب کے خلاف وہ احتجاج کرتی نظر آتی ہے ،اپنے ماحول سے بغاوت کرتی ایک مظلوم عورت اس ناول کا مرکزی کردار   قدسیہ  بیگم ہے  ۔”دل کی دنیا”ایک سماجی ناولٹ ہے جس میں انھوں نے خاندان اور فرسودہ رسم رواج میں جکڑی ہوئی ایک ایسی لڑکی کی کہانی پیش کی ہے جو شوہر کی بے توجہی کا شکار ہے۔ سماج میں اس کی کوئی اہمیت نہیں اور اس کی انفرادی زندگی کی کوئی قدر  نہیں ہے ۔ وہ محض ایک ایسی عورت ہے جس کی زندگی کا مرکزی محور اس کے شوہر کی زندگی ہے جو ساری عمر اس کی بے اعتنائیوں اور مظالم کے باوجود خدمت کرتی رہتی ہے۔ وہ  خاندانی عزت وقار کی ساری ذمہ داریاں قبول کرتی ہے اور فطری اور جبلی تقاضو ں کو خاندان کی لاج شرم کے تلے دفن کر دیتی ہے۔اس ناول کے  بارے میں زرینہ عقیل احمد لکھتی ہیں:

” اشتراکی نقطہ نظر سے عصمت کا ناول ‘دل کی دنیا ‘ کو اس لیے کامیاب کہا جا سکتا ہے کہ اس میں عورت نے نئی زندگی اور نئی قدروں کا خیر مقدم کیا ہے ۔سماجی نا انصافی کے خلاف بغاوت کی ہے ۔فرسودہ خاندانی روایات کو بے جگری کے ساتھ توڑا ہے ۔اشتراکیت  کا بنیادی اصول یہ ہے کہ انسان کو اپنی صلاحیتوں سے اپنی جدو جہد اور محنت سے اپنی دنیا آپ پیداکرنی چاہیے اور عصمت نے ان سبھی چیزوں کو قدسیہ بیگم کے کردار میں سموکر قارئین کے سامنے پیش کیا ہے”۔5

غرض ہے کہ عصمت چغتائی نے اپنے تخلیق کردہ نسوانی کرداروں کے ذریعہ متوسط طبقہ خصوصا مسلم متوسط طبقہ اور وہاں عورتوں کی حیثیت پر روشنی  ڈالی ہے ۔ان کے نسوانی کردار سماج ، اس کے  فرسودہ رسم و رواج  اور قدیم اور جدید روایات کے درمیان متعلق زندگی کے نشیب و فرازکا سامنا کرتے ہیں۔عصمت چغتائی ایک عورت تھیں اس لیے ان کی نظر انتخاب نسوانی کرداروں کے جنسی مسائل، ان کی طرز رہائش اور معاشرتی حیثیت پر ہی پڑتی ہے۔آشا،شمن،معصومہ،قدسیہ بانو  وغیرہ تمام کردار زندگی کی حرارتوں سے پر ہیں ،عورتوں کی زندگی کے  کسی نہ کسی گوشہ کی غمازی کرتے ہیں۔عصمت چغتائی کے نسوانی کرداروں میں  ‘شمن’ نے مقبول و عام میں جو مقام حاصل کیا اس نے نہ صرف شمن کو بلکہ عصمت چغتائی کو زندہ جاوید بنا ڈالا۔اور ان کے تمام  غور وفکر  عورت کی بنیادی حیثیت متعین کرنا تھا جس میں وہ پوری طرح کامیاب نظر آتی ہیں۔

حواشی :

1۔عصمت چغتائی کی ناول نگاری ۔شبنم رضوی ۔1992۔ص 17

2۔اردو ناول پریم چند کے بعد ۔ ہارون ایوب ۔ص 140

3۔ٹیڑھی لکیر  ۔عصمت چغتائی ۔نصرت پبلیکشنز ،امین آباد لکھنو  ۔1990۔ص 47

4۔ڈاکٹر عبدالحق حسرت کاس گنجوی، مضمون عصمت چغتائی اور حقیقت نگاری، مشمولہ عصمت چغتائی نقد کی کسوٹی پر (جمیل اختر)، ص634، میکاف پرنٹرس، دہلی، 2001ء

5۔ڈاکٹر زرینہ عقیل احمد۔اردو ناولوں  میں سوشلزم ۔اسرار کریمی پریس الہ باد ۔1982۔ص 496

NAJMA CK

Research scholar

Department of urdu

Sree sankaracharya  university of Sanskrit ,regional center ,koyilandy.

Najmack34@gmail.com,8943886274

Leave a Reply