پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال جاوید شیخ ابراہیم
صدر، شعبہ ٔاردو ،شیواجی کالج ،ہنگولی
علاّمہ اقبال اور فلسطین
اردو اور فارسی شاعری پر علامہ اقبال کا سب سے بڑا احسان یہی ہے کہ انہوں نے لطافت شعری کو مجروح کئے بغیر حکیمانہ لب ولہجہ عطا کیا۔ بقول رشید احمد صدیقی۔ اقبال کی شاعری خود شاعری کی معراج ہے۔ انھوں نے جذبات کو فکر کا درجہ دے دیا ہے اور فکر کو جذبات کا آب درنگ بخشا ہے۔ دونوں صورتوں میں اقبال کا آرٹ وایقان دوش بدوش کار فر ما لاتا ہے۔ بحیثیت مجموعی ان کا کلام پڑھ کر ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ اقبال کہاں تک حکیم اور کہاں اور کس حدتک شاعر ہیں بلکہ حکیم اور شاعر ایک دوسرے سے مربوط نظر آتے ہیں‘‘ اس نقطہ نظر سے علاّمہ اقبال بیسویں صدی کا ایک عظیم مفکر شاعر ہے جس نے جدید فلسفے کے گہرے مطالعے، انسانی غمخواری کے شدید جذبے اور غیر معمولی فنی بصیرت کی مدد سے مشرق و مغرب دونوں کویکساں متاثر کیا ہے۔ وہ ایک شاعر تھے، مگر وہ ایک فلاسفر، دانشور، مفکر، آئیڈ یا لاگ، دور اندیش ایک ولی اللہ اور ایک سیاسی کارکن بھی تھے۔ اتنا غیر معمولی وجود جسکی کسی ایک جہت کو سمجھنے کے لئے طویل عرصہ درکار ہو وہ سب سمٹ کر ایک وجود میں جمع ہو گیا تھا۔ اسکے باوجود وہ ایک بشر تھے۔ اقبال جس دور میں پیدا ہوئے اس وقت پورے عالم اسلام میں مکمل اندھیرا چھا چکا تھا۔ (complete Darkness) ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی نا کام ہو چکی تھی۔ مغلیہ سلطنت کا شیرازہ بکھر چکا تھا۔
خلافت عثمانیہ ٹوٹنے کے قریب تھی۔ 19 ویں صدی میں اسے یورپ کا مرد بیمار کہا جاتا تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد خلافت عثمانیہ تباہ ہوتی ہے۔اور عالم اسلام کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔اسلامی ممالک کی استعمارانہ جابروں کے ذریعے بندر بانٹ شروع ہوتی ہے اور اسلامی ممالک میں آپسی انتشار کو بھرپور طریقے سے پروان چڑھایا جاتا ہے۔جو کبھی سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند تھے۔اور اسی کا شاخسانہ ہمیں عالم عرب کا نہایت ہی خوبصورت قطہ جسے انبیائی سر زمین ہونے کا شرف حاصل ہے وہاں بالفور معاہدہ کے زریعے ایک ناجائز منصوبہ بنایا جاتا ہے اور دوسری جنگ عظیم کے بعد عرب کے سینہ میں خنجر گھونپ کر ناجائز اسرائیل کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے۔
فلسطین جو ایک مدت سے یورپ کے آہنی پنجوں کا شکا ر ہے اقبال کی گفتگو اور شاعری کا خاص موضوع رہا ہے، قائد اعظم کو ایک خط میں اقبال نے لکھا تھا کہ مسور فلسطین مسلمانوں کے ذہن کو بہت متاثر کر رہا ہے۔ ذاتی طور پر میں ایسے مقصد کے لیے جیل جانے کے لیے تیار ہوں جو اسلام اورہندوستان دونوں کو متاثر کر سکتا ہے۔ مشرق کے دروازے ہی پر ایک مغربی مرکز بہت خطرناک ہے۔ ایک اور خط میں انہوں نے لکھا تھا کہ فلسطین یر یہودیوں کا کوئی حق نہیں، یہودیوں نے تو اس ملک کو رضا مندانہ طور پر عربوں کے فلسطین پر قبضے سے بہت پہلے خیر باد کہہ دیا تھا۔ علاوہ ازیں فلسطین کے سلسلے میں جتنی کا نفرنسیس بر صغیر میں ہوئیں، علامہ اقبال ان میں شریک ہوئے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ فلسطین میں یہود کے لیے ایک قومی وطن کا قیام تو محض حیلہ ہے، حقیقت یہ ہے کہ برطانوی امپریلزم مسلمانوں کے مقامات مقدسہ میں مستقل استبداد اور سیادت کی شکل میں اپنے ایک مقام کی متلاشی ہے!۔ اقبال نے مندرجہ ذیل اشعار میں یورپ کی اسی استبداداور سیادت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے طنزاً کہا ہے
اقبال کوشک اس کی شرافت میں نہیں ہے ہر ملت مظلوم کا یورپ ہے خریدار
جلتا ہے مگر شام و فلسطین پہ مرا دل تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدہ دشوار
ترکان جفا پیشہ کے پنجے سے نکل کر بیچارے ہیں تہذیب کے پھندے میں گرفتار
یہاں فلسطین کے ساتھ شام و ترکی کا ذکر خاص سبب سے ہے۔ پہلی جنگ عظیم کا انجام مسلمانوں کے حق میں بہت افسوسناک ہوا۔ طاقتورقوموں کا سارا نزلہ عالم اسلام پر گرا۔ ترکی خلافت کا شیرازہ بکھرگیا، اتحادیوں نے اس کے مقبوضات میں حصہ بانٹ کر لیا۔ ترکی کا مشرقی حصہ روس کے ہاتھ لگا اور مغرب کے مشرقی صوبے بلقان، ہنگری اور بلغاریہ وغیرہ مکمل طور پر خود مختار قرار دیدیئے گئے۔ ایران اور شام، عملاً فرانس کے قبضے میں چلے گئے، مصر اور عراق پر برطانیہ نے اپنا تسلط جمالیا۔ اس طرح عالم اسلام کے حصے بخرے ہو گئے، فلسطین کا مسئلہ ذرا بین الاقوامی نوعیت کا تھا اس لیے اسے تہذیب و ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے برطانیہ کے زیر استبداد میں رکھا گیا۔ اقبال نے اسی پس منظر میں فلسطین شام اور ترکی کا تذکرہ کیا ہے۔ یورپ کے ان ظالمانہ اقدامات کی روشنی میں انہوں نے یہ بھی اسی وقت محسوس کر لیا تھا کہ یہودیوں کا اثر روز بروز مغرب پر بڑھتا جائے گا اور وہ دن قریب ہیں کہ مغربی اقوام سود خوار یہودیوں کے اشارے پر ناچیں گی۔
تاک میں بیٹھے ہیں مدت سے یہودی سود خوار جن کی رو با ہی کے آگے پہنچ ہے زور پلنگ
خود بخود گرنے کو ہے بچتے ہوئے پھل کی طرح دیکھنے پڑتا ہے آخر کس کی جھولی میں فرنگ
ہے نزع کے عالم میں یہ تہذیب جواں مرگ شاید ہوں کلیسا کے یہودی متوتی
چونکہ انگریز فلسطین پر یہودیوں کا استحقاق ثابت کرنے کے لیے یہ کہہ رہے تھے کہ عربوں نے یہودیوں کو فلسطین سے نکالا تھا اس لیے اگر یہودیوں کو یہ دوبارہ دے دیا جائے تو نا مناسب نہ ہوگا۔ اقبال نے اس کے جواب میں کہا کہ اگر ایسا ہے تو پھر، ہسپانیہ اور سسلی کو عربوں کے حوالے کیوں نہ کر دیا جائے کہ اب سے پہلے اس پر مسلمانوں کا قبضہ تھا۔
ہے خاک فلسطین پہ یہودی کا اگر حق ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا
مقصد ہے ملوکیت انگلیس کا کچھ اور قصہ نہیں تاریخ کا یا شہد و رطب کا
چنانچہ اقبال نے فلسطینیوں اور عربوں سے صاف کہہ دیا کہ مغربی اقوام سے کسی قسم کے انصاف کی توقع رکھنا عبث ہے کیونکہ مغرب کے مہاجنی نظام میں یہودی مہاجنوں کا بڑا دخل ہے، وہ ہر حال میں ان ہی کا ساتھ دیں گے اس لیے غافل بیٹھنا مناسب نہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ خدا و خودی کو رہنما بنا کر کھوئے ہوئے فلسطین کو دوبارہ حاصل کیا جائے۔
تری دوانہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے
سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے
قبلہ اول کی کشش اقبال کو آخری عمر میں فلسطین بھی لے گئی۔ سید امین الحسینی کی دعوت پر، انہوں نے موتمر عالم اسلامی کے اجلاس منعقدہ پر دسمبر۱۹۱۴ء میں برصغیر کے مندوب کی حیثیت سے شرکت کی۔ اس میں انہوں نے ممالک عربیہ کے متعلق کہا کہ میرا ایمان ہے کہ اسلام کا مستقبل اہل عرب کی ذات سے وابستہ ہے اور ان کا مستقبل ان کے با ہمی اتحاد پر موقوف ہے، ان کے لیے مقدر ہو چکا ہے کہ عظیم الشان طاقت بن جائیں۔ اسلام کے علاوہ دنیا کی کوئی طاقت اس الحاد اور مادیت کا مقابلہ کامیابی سے نہیں کر سکتی جو یورپ سے نشر واشاعت حاصل کر رہا ہے مجھے اسلام کے خارجی دشمنوں سے کوئی خطرہ نہیں۔ میرے خیال میں اگر کوئی خطرہ ہے تو اندرونی دشمنوں سے ہے۔ بعد کو سفر فلسطین کے تاثرات یوں بیان کیے کہ ” سفر فلسطین میری زندگی کا نہایت دلچسپ واقعہ ثابت ہوا۔ فلسطین کے زمانہ قیام میں متعدد اسلامی ممالک مثلا مراکش ،مصر ،یمن، شام، عراق، فرانس اور جاوا کے نمائندوں سے ملاقات ہوئی۔ شام کے نوجوان عربوں سے مل کر میں خاص طور پر متاثر ہوا ان نو جوانان اسلام میں اس قسم کے خلوص و دیانت کی جھلک پائی جاتی تھی جیسی میں نے اطالیہ کے فاشسٹ نوجوانوں کے علاوہ کسی میں نہیں دیکھی ہیں۔
***