You are currently viewing عنایت حسین عیدنؔ کی ناول نگاری

عنایت حسین عیدنؔ کی ناول نگاری

محمد ثناء اللہ

عنایت حسین عیدنؔ کی ناول نگاری

(یہ میرا چمن ہے میرا چمن‘‘کے حوالے سے )

ــ’’یہ میرا چمن ہے میرا چمن‘‘موریشس کے ہمہ جہت ادیب اور عظیم تخلیق کارعنایت حسین عیدنؔ کا دوسراشاہ کار ناول ہے ۔انہیں بجا طور پر موریشس کابابا ئے اردو بھی کہا جاتا ہے ۔اردو کے عالمی افق پر موریشس کی لسانی اورد ادبی شناخت انہیں کی بدولت ہے۔وہ بیک وقت ناو ل و افسانہ نگار،ڈراما نویس،مترجم اور علمی وادبی محقق کے علاوہ ایک بہتر منتظم کی حامل شخصیت ہیں۔ایشیا کی مایہ ناز تہذیبی و ثقافتی علمی چمن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘ سے حصول تعلیم کے بعد وطن واپس ہوکر انہوں نے اردو زبان و ادب کی ترویج و فروغ کے لیے خود کو وقف کردیا ۔1970ء کی دہائی میں انہیں کی کوششوں سے ’دی نیشنل اردو انسٹی ٹیوٹ‘جیسا تاریخی اور عظیم ادارے کا قیام عمل میں آیا جو بعد میں موریشس میں اردو زبان و ادب کے فروغ و اشاعت میں میل کا پتھر ثابت ہوا ۔ اسی ادارے کی مرکزیت میں انہوں نے زبان و ادب سے متعلق متعدد قسم کی سرگرمیوں کو فروغ دیا ایک طرف انہوں نے تعلیم و تدریس کے فرائض انجام دیے تو دوسری طرف نوواردوں میں لکھنے پڑھنے کی تحریک پیدا کی نیز نو آموز اہل قلم کی رہنمائی کے ساتھ ان کی سرپرستی بھی کرتے رہیں نتیجتاً موریشس میں اردو خواں ،اردوداں،اردو اساتذہ اور اردو میں لکھنے پڑھنے والوں کا ایک وسیع حلقہ تیار ہوگیا ۔آج صورت حال یہ ہے کہ ماریشس میں درجنوں اردو کے تخلیق کار مختلف اصناف ادب میں طبع آزمائی کرکے زبان و ادب کی آبیاری میں مصروف عمل ہیں۔

سر دست ناول کے عنوان پر اگر عمیق نظر ڈالیں اور غور کریں تو ناول کا موضوع اور کینوس کا اندازہ اس کی سرخی سے ہی ہوتا ہے۔در اصل عنایت حسین عیدنؔ نے یہ ناول اپنی مادر علمی برصغیر کی عظیم دانش گاہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو خراج عقیدت پیش کرنے کی غرض سے تحریر کیا ہے ۔عیدنؔ 1965ء تا 1970ء اسی چمن کے بلبل تھے۔انہوں نے اپنے طالب علمی کے شب و روز ناسٹلوجیا کے طور پر بے حد خوب صورت بیانیہ کے ساتھ حسین البم کا مرقع پیش کیاہے۔عہد و عصر اور اس کے بدلتے حالات اور مختلف ابعاد کو جس فکری آگہی اور فنی لوازمات کے ساتھ ناول کا پیکر عطا کیا ہے اس سے موضوع کی اہمیت ،اس کی وسعت پذیری اور عصری معنویت ایک بڑے کینوس کے ناول کا روپ اختیار کر جاتا ہے انہیں اسباب کی بناپر’یہ میرا چمن ہے میرا چمن‘ایک شاہ کار ناول بن جاتا ہے۔پروفیسر علی احمد فاطمی نے بجا طور پر اسے ’’ایک بہترین کیمپس ناول‘‘قرار دیا ہے۔یہاں اس بات کا ذکر دل چسپی سے خالی نہیں کہ ناول نگار نے ناول کی تسمیت میں اسرارالحق مجاز(۱۹۱۱ء ۔۱۹۵۵ء)کی نظم بعنوانــ’’نذر علی گڑھ‘‘(سن تخلیق1936ء)سے وہ کلیدی جملہ (یہ میرا چمن ہے میرا چمن میں اپنے چمن کا بلبل ہوں)مستعار لیا ہے۔یہی نظم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ترانہ قرار پائی اور شاید اسی وجہ سے پوری نظم تو نہ سہی لیکن یہ کلیدی مصرع ہر خاص و عام کے زبان زد ہے۔اس نظم کا ایک ایک لفظ جو محبت کی نغمگی اور اس چمن ناز سے وابستگی کو آج بھی چیخ چیخ کر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تہذیب و تمدن اور وہاں سے اٹھنے والے ہر زرّے کو دنیا جہان پر نیرّ تاباں بن کر چمکنے کا ولولہ انگیز بیان کررہا ہے۔ ترانہ کسی بھی ادارے کی شناخت اور اس کی شان ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تعلیم و تربیت، وہاں کا رہن سہن وہاں کی تہذیب و تمدن اور طلبائے قدیم کی ان سب چیزوں سے محبت کو بیان کرنے کے لیے اس ترانے سے بہتر کیا ہو سکتا ہے۔ چوں کہ عیدنؔ کو بھی انہیں سب باتوں کو ناول کی صورت میں بیان کرنا تھا اس لیے انتساب میں عیدنؔ کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اپنی والہانہ محبت کا اقرار و اظہار کے لیے نظم کے اس ٹکڑے سے بہتر اور مناسب کو ئی دوسرا جملہ نہیں سوجھا۔ایک جہت سے اس تاریخی نظم کی آبیاری بھی مقصود ہو۔چنانچہ انہوں نے بڑی خوبی کے ساتھ ترانے کے سب سے خاص جز کو اٹھا لیا۔ عنایت حسین عیدنؔ اپنی اس کوشش میں عشاریہ 99 فیصد کامیاب نظر آتے ہیں۔ جس طرح مجاز کے ترانے سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تہذیب و تمدن چھلکتی ہے ویسے ہی عنایت حسین عیدنؔ کے اس ناول سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تہذیب و تمدن،وہاں کا رہن سہن، طلبا کا آپس میں یارانہ دوستانہ، افکار و مقاصد اور ادارے کے مشن کو دنیا جہان میں پھیلانے کی پو پھوٹتی ہے۔ مثلاً مسٹر ”مولونڈو” جو افریقہ سے تعلق رکھتے ہیں نیز وہاں کی حکومت میں بحیثیت وزیر اپنا کردار نبھا رہے ہیں، وہ طلباسے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں:

’’پھر اس نے بتایا کہ وہ علی گڑھ ہی کے ماڈل پر ایک یونیورسٹی تعمیر کر رہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کے پلاننگ اور دوسرے کاموں میں یونیورسٹی کے اسٹاف اور نوجوان طالب علم اس کا ہاتھ بٹائیں‘‘

جب ہم ناول کے سرورق پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ تو یہاں ہمیں کھلا، صاف شفاف اور نیل گوں آسمان دکھائی دیتا ہے۔ مطلع صاف ہونے کے بعد نکلا ست رنگی قوس قزح، ہرے بھرے دو سایہ دار تناور درخت اور ایک خوش رنگ لال پیلے رنگ کا باغیچہ نظرآتا ہے۔ قوس قزح سے بارش کے پہلے کا منظر معلوم ہوتا ہے مطلع صاف ہونے سے ایسا لگتا ہے گویا بارش کے بعد کا منظر ہو۔ ہوائیں چل رہی ہیں اور درخت اور باغیچے کے پھول پتیاں بہتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ یہ ایسے مناظر ہیں جو آنکھوں کو بھلے معلوم ہوتے ہیں اور دل و دماغ کے لیے سکون و عافیت کا باعث ہوتے ہیں۔مذکورہ بالا مناظر خوب صورتی، خوش حالی اور نظم و ضبط کے ساتھ مکمل آزادی کی علامت ہیں۔ اب اسے ناول نگار کے نظریے سے دیکھیں تو یہی ”علی گڑھ مسلم یونیورسٹی” ہے۔ اس چمن کا ماحول اس قدر سرسبز و شاداب ہے کہ یہاں ہمہ وقت مختلف رنگ و اقسام کے پھول کھلے رہتے ہیں۔ مطلع صاف شفاف رہتا ہے۔ قوس قزح جیسے ہمیشہ نکلنا چاہے۔ عنایت حسین عیدنؔ نے ناول کے نام اور سرورق کے ذریعے ناول کی کہانی بیان کرنے کی جو کوشش کی ہے وہ قارئین کو بآسانی سمجھ میں آتی ہے۔

  زیر نظر ناول ”یہ میرا چمن ہے میرا چمن” عنایت حسین عیدنؔ کا دوسرا ناول ہے۔ جب کہ اس سے پہلے ان کا ایک اور ناول ”اپنی زمین” کے نام سے شائع ہوکر پذیرائی حاصل کرچکا ہے۔ یہ ناول ہندوستان کے وہ تارکین وطن جنہوں نے بغرض معاش جزیرہ ہند میں واقع ”موریشس” کو اپنا وطن بنایا تھا، ان کی روداد پرمشتمل ہے۔ اس موضوع پر یہ عیدن ؔصاحب کا پہلا ناول تو ہے ہی ساتھ ہی سرزمین موریشس میں لکھا جانے والا پہلا اردو ناول بھی ہے۔ موریشس کی تاریخ و تہذیب پر مشتمل یہ ایک دستاویزی ناول ہے۔ ہم اس ناول کو ان کے دوسرے ناول سے اس طرح سے بھی جوڑ کر دیکھ سکتے ہیں کہ عنایت حسین عیدنؔ نے اپنا پہلا ناول اپنی جائے پیدائش پر لکھا اور دوسرا ناول اپنی جائے تعلیم پر۔ انسان کی پیدائش کے بعد اس کی تعلیم و تربیت کا مرحلہ ہوتا ہے۔ گویا دوسرا ناول ان کے پہلے ناول کا اگلہ سلسلہ ہے۔ ان کی زندگی کا دوسرا مرحلہ ہے۔ گویا ناول نگار اپنے ناولوں کے ذریعے اپنی زندگی کو بیان کر رہا ہے۔

    اسٹار پبلی کیشنز پرائیویٹ لمیٹڈ دہلی” سے سنہ 2014ء میں شائع ہونے والا ناول ’’یہ میرا چمن ہے میرا چمن‘‘ انتساب اور اظہارِ تشکر کے ساتھ پندرہ ابواب اور کم و بیش تین سو تیس صفحات پر مشتمل ہے۔ اسے ضخیم ناول نہیں کہا جاسکتا ہے تو مختصر ناول کے زمرے میں کسی بھی صورت نہیں رکھا جاسکتا۔

   پلاٹ

 ناول کا قصہ ادارے کے ”سابق طلبا کی عالمی کانفرنس” سے شروع ہوتا ہے، جس میں ملک و بیرون ملک سے سابق طالب علم بحیثیت مہمان شرکت کرتے ہیں۔ عملی زندگی میں کامیابی کے ساتھ قدم رکھ دینے والے یہ سابق طالب علم جن میں کوئی بیرون ملک میں تدریس کے فرائض انجام دے رہا تو کوئی سیاسی بساط پر اپنے ملک کی نمائندگی کررہا ہے۔ کوئی کاروباری سنسکس میں مسلسل اوپر چڑھ رہا ہے۔ یہ سب لوگ اپنی مادر علمی کے احاطے میں ایک خاص جذبہ کے ساتھ قدم رکھتے ہیں۔ کانفرنس میں شرکت تو مقصد ہے ہی لیکن اپنی مادر علمی کو دیکھنا کہیں زیادہ جذباتی عمل ہے۔ اس صورت میں جب کہ ادارہ ایک قومی، تہذیبی اور تاریخی شناخت کے ساتھ جذباتی شناخت بھی رکھتا ہو۔ان میں کچھ سابق طلبا تو کسی نہ کسی طرح ادارے سے اب بھی جڑے ہوئے ہیں۔ لیکن بعض ایسے بھی ہیں جن کا تعلیم سے فراغت کے بعد ہی زندگی کی ہمہ ہمی میں مصروف ہو جانے کی وجہ سے اپنی مادر علمی سے رابطہ ہی منقطع ہوگیا ہے۔ ایسے طلباکے اندر ادارے کو پھر سے دیکھنے، اپنے ایام طالب علمی کو یاد کرنے اور اسے ایک بار پھر سے جی لینے کو لے کر کچھ خاص طرح کا جذبہ ہے۔ وہ یہاں بحیثیت طالب علم آنا چاہتے ہیں تاکہ اس دور کو ایک بار پھر سے جی سکیں۔ کہانی کے کرداروں میں مسٹر ”مولونڈو” نام کا ایک کردار تسنیم کی باتوں کے جواب میں مسکراتے ہوئے کہتا ہے:

  ” I wanted to be back to my student life again I wanted to be as a student”.

محسن نام کا ایک دوسرا کردار کہتا ہے:

 ’’۔۔۔۔۔طالبعلم کی طرح رہنا چاہتے تھے”۔ (ص56)

یہ ایک عام انسانی جذبہ ہے جسے غیر فطری نہیں کہا جا سکتا۔ زندگی کا کیا بھروسہ یا پھر کبھی ایسا کوئی موقع آئے نہ آئے، یہ کانفرنس ایک بہتر موقع ہے۔دوسری جانب وہ طلبا جو یہاں ابھی زیرِ تعلیم ہیں ان کے سامنے بہتر مستقبل اور عملی زندگی میں ایک رتبہ کا سوال سانپ کی طرح پھن کاڑھے کھڑا ہے۔ ہندوستان جیسے کثیر آبادی والے ملک میں جہاں لیاقت یا استعداد اور صلاحیتوںکی بسا اوقات قدر نہیںکی جاتی نیز اجرت بھی محنت کے مقابلے میں کم ادا کی جاتی ہے وہاں طلبا کی تشویش بھی بے معنی نہیں ہے۔ چناں چہ وہ اس سنہرے موقع کو قطعی ضائع نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ ان دونوں پہلوؤں کو ہمیں مد نظر رکھنا ہوگا۔ دو طلبا’’آفاق اور مظفر‘‘’ کے درمیان کی گفتگو دیکھیں:

’’ویسے تم نے کل بھی کلاس مس کردی تھی۔ پتہ نہیں ان اولڈ بوائز کی کانفرنس میں جاکر تمہیں کیا ملا ہے‘‘

کیا ملا تمہیں معلوم ہے کتنی مشکل سے مجھے پاس ملا تھا”۔

وہ تو مجھے معلوم ہے مگر کسی بڑے انڈسٹریالسٹ سے ملاقات ہوئی۔ سنا ہے کہ یوایس اور کینیڈا کے دو بڑے سی ای اوز (CEOs) آئے ہیں‘‘(ص 9، 10)

اسی طرح مولونڈو مظفر اور آفاق سے تعلیم ختم کرنے کے بعد کا ارادہ پوچھتے ہیں تو وہ دونوں جواب دیتے ہیں:

      ’’دونوں نے بتایا کہ وہ ہندوستان سے باہر جانا چاہتے ہیں وہاں ان کو زیادہ پیسہ ملیں‘‘ (ص 15)

      مولونڈو طالبات سے دریافت کرتے ہیں:

”So ladies what are you going to do after your graduation”۔

     ’’یہ دونوں فارین میں جا کر کام کرنا چاہتی ہیں مگر میں تو علی گڑھ میں ہی رہوں گی یا کم سے کم ہندوستان ہی میں‘‘۔ تسنیم نے کہا۔(ص24)

ایک جگہ مظفر کہتا ہے:

’’ملک سے باہر جا کر کام کرنے میں کیا برائی ہے۔ وہاں پیسے بھی زیادہ ملتے ہیں اور دوسرے ماحول میں رہ کر ہمارا Outlook بھی بدل سکتا ہے‘‘۔ مظفر نے کہا۔(ص193)

 ظاہر ہے کہ سابق طلبا کی عالمی کانفرنس ہے تو اس میں دنیا جہان سے فارغین علی گڑھ مسلم یونیورسٹی آئے ہوں گے، لیکن ناول میں صرف تین سابق طلبا کا ذکر کیا گیا ہے۔ اسی یونیورسٹی میں سینکڑوں ہزاروں طلبا بروقت زیرِ تعلیم ہیں لیکن ان چند ہی طلبا کا ذکر کیا گیا ہے۔ ناول کی کہانی انہیں تینوں سابق طالب علموں اور انہیں چند موجودہ طالب علموں کی ملاقات سے شروع ہوتی ہے۔کانفرنس میں شرکت کے بعد یہ تینوں دوست جو اپنے زمانے میں یونیورسٹی کی مختلف فیکلٹیز اور شعبوں میں زیرِ تعلیم تھے، سلیمان ہال کے حسرت موہانی ہاسٹل کے کمرہ نمبر 20 کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں جہاں وہ اپنی تعلیم کے دوران رہتے تھے۔ یہیں پر ان کی ملاقات مظفر اور آفاق سے ہوتی ہے۔ دونوں انجینئرنگ کے طالب علم ہیں۔ اس وقت اس کمرے میں مظفر رہ رہا ہے جس میں کبھی مسٹر مولنڈو رہا کرتے تھے۔

’’ابھی پانی ابلنے ہی والا تھا کہ مظفر نے کھڑکی سے شمشاد مارکیٹ کی طرف سے تینوں اولڈ بوائز کو سلیمان ہال کے گیٹ کی طرف آتے دیکھا۔ حسرت موہانی ہاسٹل کی ایک خاصیت ہے کہ اس کی کھڑکیوں سے بسیں، گاڑیاں، رکشا والے اور لوگ شمشاد مارکٹ آتے جاتے نظر آتے ہیں‘‘۔(ص11)

اس کے بعد طلبا کی اس چھوٹی سی ٹولی میں چند طالبات جو ان دونوں کی ہم سبق نیلوفر، شگفتہ اور تسنیم کی بھی شمولیت ہوجاتی ہے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تعلیم و تربیت، تہذیب و تمدن اور وہاں کی روایات یا کم لفظوں میں کہیں تو ”گلستان سر سید” کے شب و روز کو نوسٹیلجیا کی صورت میں فن کارانہ خوب صورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ کہانی کار کہیں بھی ہو لیکن اس کی روح اور کہانی کی زمین علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہے اور ماحول طالب علمانہ۔ سابق طالب علم اگرچہ عمر دراز ہیں اور اعلیٰ رتبہ بھی ہیں لیکن وہ بھی اپنی پوزیشن کو درگزر کرکے طالب علم بن جاتے ہیں۔ ایسے میں ہم یہ امید بھی نہیں کر سکتے ہیں کہ کہانی میں کسی قدر سنجیدگی ہونی چاہیے یا آفاق و انفس کے فلسفے ہونے چاہیے۔ ایسی کہانیوں میں جس قدر سنجیدگی ہونی چاہیے وہ اس میں موجود ہے۔کہانی کی یہ اپنی خوب صورتی ہے کہ دوران مطالعہ قاری کو ذرا بھی محسوس نہیں ہوتا کہ وہ ”علی گڑھ مسلم یونیورسٹی” میں نہیں ہے۔ کہانی کار قارئین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک سابق طالب علم، ایک سپوت کے قلم سے نکلا یہ ناول جہاں وابستگان علی گڑھ کے لیے بھولی بسری یادوں کا خوب صورت تحفہ ہے وہیں ناوابستگان علی گڑھ کے لیے سرسید کے مشن، اس ادارے کی علمی و ادبی فضا، تہذیب و تمدن، وہاں کے ڈھابے/کینٹین، وہاں کی سیاست اور وہاں سے نکلنے والے طالب علموں کو سمجھنے کے لیے عمدہ دستاویز ہے۔ خود ناول نگار کے حق میں اس کے خوب صورت احساسات ہیں۔ اسے اس ادارے سے بے انتہا محبت ہے اور اس روایت پر وہ رقص کناں بھی ہیں۔

ہاسٹل کی زندگی

دوران تعلیم طلبا ہاسٹل میں بظاہر بے پناہ مسائل ہوتے ہیں لیکن بنظر غائر دیکھیں تو مسائل نہیں ہوتے ہیں۔ بل کہ ان باتوں سے انسان کے اندر ایک طرح مینجمنٹ کا ہنر آتا ہے۔ہاسٹل میں چھوٹے چھوٹے کمرے ہوتے ہیں جن میں ایک ایک دو دو یا زیادہ سے زیادہ تین طالب علموں کی گنجائش ہوتی ہے۔ اسی میں طلبا کو اپنے شب و روز گزارنا ہوتا ہے اور دیگر امور بھی انجام دینا ہوتا ہے۔ علی گڑھ جیسے ادارے جہاں کی طرز زندگی دیگر اداروں کے مقابلے میں قدرے مختلف ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود تمام اداروں کے ہاسٹلوں میں کچھ باتیں یکساں ہوتی ہیں۔ جیسے بغل والے روم سے ماچس لے لینا، بالٹی مانگ لینا یا مہمانوں کے آجانے پر چائے کی پیالیاں مانگ لینا یا ایک دوسرے سے پیسے مانگ کر کام چلا لینا۔ اسی طرح کسی خاص موقع پر ہی کمرے کی صفائی ستھرائی کرنا۔

’’ابھی تو نو بجنے والے ہیں۔ جلدی کرو۔ کمرے کو تو صاف کروا لو۔ اور کم سے کم چائے کا تو انتظام کرلو”۔ تمہارے پاس کچھ پیسے ہیں۔ باہر سے چائے منگوا لیتے ہیں۔

’’واہ مہمان تیرے اور چائے میں پلاؤں۔ اٹھو جلدی کرو۔ تیار ہو جاؤ” یہ کہہ کر آفاق چلا گیا‘‘۔(ص10)

ناول نگار نے ہاسٹل کی ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑی خوبی کے ساتھ بیان کیا ہے۔

ناول کا وقفہ

ناول کا دورانیہ ہفتے بھر پر مشتمل ہے، جسے ناول نگار نے ”فلیش بیک تکنیک” کا استعمال کرکے کم و بیش نصف صدی پر پھیلا دیا ہے۔ اس طرح ناول نگار نے اپنے دور کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو آج کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سامنے رکھ کرایک دوسرے کو دیکھنے اور دکھانے کی کوشش کی ہے۔ ایک جگہ تینوں بیرونی طالب علموں سے جب شگفتہ اور نیلوفر روایتی آداب کہنے کے بجائے ان سے ہاتھ ملاتی ہیں اور ہاؤ آر یو کہتی ہیں تو اس سے مسٹر مولونڈو کہتے ہیں:

”Can i say one thing more. It is the first time that i have shaken hands with girls in Aligarh. I am very happy”(ص 17)

اسی طرح ناول نگار سینئیر موسٹ طالب علم اورو زیر تعلیم تسلیم کے دادا کی دعوت پر تین ادوار کو یکجا کردیتا ہے۔ اظفر کہتا ہے:

’’صاحب یہ تو ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہم اپنے سینئر کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں۔۔ بڑا اچھا لگ رہا ہے۔ آپ کی بٹیا بہت نیک اور پکی علیگیرین ہے‘‘۔ (ص 54)

کردار

یوں تو ناول میں چھوٹے بڑے کئی کردار ہیں جو ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ اسٹاف سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں ایک شعبہ تاریخ سے عرفان ہے اور مولانا آزاد لائبریری کے دروازے پر ملنے والا اقبال بھی ہے۔ اسی طرح سینئر موسٹ اولڈ بوائز ذاکر صاحب ہیںجن کا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے حوالے سے ایک اہم کردار ہے، جن کی اپنی ایک الگ کہانی ہے۔ مسٹر مولونڈو جو ناول کا اہم کردار ہیںوہ ذاکر صاحب کی شخصیت سے بہت متاثر ہیں۔ ذاکر صاحب کی دعوت پر تینوں اولڈ بوائز ان کے گھر جاتے ہیں:

’’گھنٹی بجی۔ تینوں لڑکیاں دادا کے ساتھ مہمانوں کے خیر مقدم کے لیے گئیں۔ آفاق اور مظفر نے دادا کو سلام کیا اور مہمانوں کا تعارف کرایا۔ جب مولونڈو کو دیکھا تو داداا سے پہچان گئے مگر دادا کی سفید داڑھی کی وجہ سے مولونڈو نے انہیں نہیں پہنچانا۔ ہاں دادا کی آواز سے پہچان لیا۔ دونوں گلے ملے۔ دادا نے کہا:

”Welcome! Oh, it’s great to see you back in Aligarh”

’’مسٹر ذاکر، مسٹر ذاکر مجھے بہت خوشی ہورہی ہے۔ آپ میرے استاد ہیں‘‘۔ مولوونڈو نے کہا۔(ص53)

  لیکن بنیادی طور سے اس ناول میں دو ہی کردار ہیں۔

1:فارغین علی گڑھ مسلم یونیورسٹی

2:موجودہ طلبا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی

 فارغین طلبا ”اولڈ بوائز کانفرنس” میں شرکت کرنے آئے مسٹر مولونڈو، جن کا تعلق ”جمہوریہ کلنگا افریقہ” سے ہے۔ موریشس سے تعلق رکھنے والے اظفر صاحب اور تیسرے محسن صاحب ہیں جن کا بنیادی تعلق تو بھارت سے ہی ہے لیکن اب وہ انگلینڈ میں سکونت پذیر ہیں۔ مظفر نے مہمانوں کا تعارف کراتے ہوئے کہا:

 ’’اظفر صاحب موریشس سے، مسٹر مولونڈو فرام رپبلک آف کالینگا افریقہ اور آپ ہیں محسن صاحب انگلینڈ سے‘‘۔(ص 12،13)

جب کہ طلباء علی گڑھ میں آفاق، مظفر، شگفتہ، نیلوفر، تسنیم وغیرہ ہیں۔

ناول کے دونوں کردار اپنی جگہ اہم ہیں۔ دونوں ایک دوسرے سے مل کر ایک دوسرے کو مضبوطی فراہم کرتے ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر دیکھیں تو اولڈ بوائز کے کردار نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ خود ناول نگار بھی اولڈ بوائز میں شامل ہے، اس لیے یہ کردار اور زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے۔ حالاں کہ اس ادارے کا بھی اہم کردار ہے، جسے کسی بھی صورت فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اسی ادارے کو موضوع بنا کر کہانی کا تانا بانا تیار کیا گیا ہے۔

کرداروں کے حوالے سے یہ سوال بھی جائز ہے کہ تینوں سابق طالب علموں میں کس کا کردار کتنا اہم ہے۔ اب ہم ترتیب وار تینوں کے کرداروں پر نظر ڈالتے ہیں تاکہ فرداً فرداً سب کی حیثیت واضح ہو جائے۔ مسٹر مولونڈو نے جس طرح خود کو ایک عام انسان بل کہ سابق طالب علم کی حیثیت میں خود کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ظاہر ہے کہ ناول نگار نے بھی ان کی اس حیثیت کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ حالاں کہ عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے۔ وہ زمانے لد گئے جب کسی کے بارے میں کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی تھی۔ لیکن خدا جانے خود مسٹر مولونڈو نے اور ناول نگار نے بھی اس بات کو چھپانے کی کوشش کیوں کی ہے۔ آخر کار سب کو مسٹر مولونڈو کی حیثیت کا پتا چل ہی جاتا ہے۔ خواہ مخواہ بچے پریشان ہوتے ہیں اور خود مسٹر مولونڈو کے ملک کا سفارت خانہ ان کے پروٹوکول کو لے کر پریشان ہوتا ہے۔ خود مسٹر مولونڈو اس کا اعتراف کرتے ہیں۔

’’ہمارے سفارت خانے والے بہت پریشان ہیں۔ میں نے پروٹوکول کے خلاف ایسا کیا ہے۔ گورنمنٹ آف انڈیا کو مزید embarass نہیں کرنا چاہتا ہوں‘‘(ص59)

دوسری جانب بچوں کو جب مسٹر مولونڈو کی حیثیت کے بارے میں معلوم ہوتا ہے تو وہ بھی پریشان ہوتے ہیں۔

’’مسٹر مولونڈوآپ نے ہمیں کیوں نہیں بتایا”۔ تسلیم نے شکایت کی۔

مولوندو مسکرایا اور کہا:

”I wanted to be back to my student life again I want to be as a student”

’’لیکن انکل آپ دونوں کو تو معلوم تھا۔ ہمیں کتنی گستاخیاں کرنے دیں۔ ہم کتنے فری ہوگئے تھے”۔ تسنیم نے کہا۔(ص56)

حالاں کہ مسٹر مولونڈو کا اس طرح آنا دل چسپ بھی ہے۔کیوں کہ وہ ایک عام سے سابق طالب علم کی طرح موج مستی کرتے نظر آتے ہیں۔اگر وہ پروٹوکول کا خیال رکھتے توناول نگار کے لیے وہ سب دکھانا ممکن نہ ہوتا جوہاسٹل کے روز مرہ لائف میں رونما ہوتاہے۔مسٹر مولونڈو اور دیگر سابق طلبا کی پورٹ فولیوں کو پردہ راز میں رکھ کر ناول نگار نے ماحول کو فطری فضا فراہم کرنے کی کوشش کی ہیں اور اس میں انہیں کامیابی بھی ملی ہے۔ محسن احمد گڑھ کے اپنے کمرے میں لگی ایک گروپ تصویر میں مولونڈو کو دیکھ کر بتاتا ہے:

’’کئی دنوں تک ایک معمولی پرانے اسٹوڈنٹ کی طرح علی گڑھ میں رہا اور کیسے واپس جانے سے دو دن پہلے وی سی کو پتہ چلا کہ علی گڑھ میں ایک منسٹر آیا ہے۔ یہ بہت دلچسپ ہے۔‘‘(ص174)

مسٹر مولونڈو اپنے ملک کی موجودہ حکومت کے وزیرِ تعلیم ہیں۔ ذاکر صاحب کی دعوت پر وی سی کے پی اے کا فون آتا ہے۔ تسنیم کے ابا کے دریافت کرنے پر ذاکر صاحب بتاتے ہیں:

’’وی سی پی اے کا تھا۔ ہمارے مہمان افریقہ کے رپبلک آف کالینگا کے منسٹر آف ایجوکیشن ہیں۔ کسی کو نہیں معلوم ہے۔ وہ صرف ایک اولڈ بوائے کی حیثیت سے آئے ہوئے ہیں۔ یہ ان کا بڑا پن ہے۔ تم گھبراو نہیں۔ ایسے نظر آؤ کہ جیسے تمہیں کچھ نہیں معلوم۔ ویسے تصویر یہ کسی کو بھی نہیں معلوم لیکن ہم وقت آنے پر تم کو بتادیں گے تب بڑا مزہ آئے گا‘‘(ص55)

مسٹر مولونڈو علی گڑھ سے بے حد متاثر ہے۔ وہ اپنے یہاں اسی طرز کا ایک ادارہ بھی قائم کرنا چاہتا ہے۔کہانی میں محسن بھی ایک کردار ہے۔ ناول کی کہانی اپنی جگہ بدستور قائم رہتی ہے لیکن اس کردار کی اپنی کہانی قاری کی توجہ اپنی جانب کھینچ لیتی ہے۔ محسن بنیادی طورپر علی گڑھ سے دو یا تین گھنٹے کی مسافت پر واقع احمد گڑھ سے ہی تعلق رکھتا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ معاشیات سے ایم اے کرنے کے بعد کسی صورت انگلینڈ چلا جاتا ہے جہاں سے اسے پی ایچ ڈی اوارڈ ہوتی ہے۔ ناول نگار نے محسن کے بارے میں جہاں تفصیل سے لکھا ہے وہیں اس کے حوالے سے انگلینڈ کی طرز معاشرت کا بھی ذکر بخوبی کیا ہے۔ دراصل ان دونوں حوالوں سے مشرق و مغرب کا درمیان موازنہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ محسن کو سامنے رکھ کر تیسری دنیا سے بغرض تعلیم مغرب کا رخ کرنے والے طلبا کا حال بیان کیا ہے کہ وہاں پہنچ کر ان کا رویہ کس طرح بدل جاتا ہے نیز مذہبی رسومات اور اخلاق و عادات سے اس قدر بے بہرہ ہو جاتے ہیں کہ انہیں اپنی قدریں فرسودہ نظر آنے لگتی ہیں۔ انہیں رشتے ناطے بے معنی لگنے لگتے ہیں۔ لیکن ناول نگار بڑا فن کار ہے۔ اس کو مشرق کی روحانی قوتوں پر محسن سے بھی زیادہ یقین ہے۔ پہلے تو وہ محسن کے اندر ایک ہزار برائیاں دکھاتا ہے جس سے قاری کی دل چسپی اس کے تئیں کم ہو جاتی ہے۔ لیکن پھر محسن سے اس کے دونوں بچوں کو جدا کراتا ہے پھر اس کی دولت اس کی بیوی کے ذریعے ہڑپ کروا کر محسن کے تئیں قاری کے اندر ہمدردی کے جذبات ابھارتا ہے۔ یہاں ناول نگار ایک تیر سے دو شکار کرتا ہے۔ اول محسن کے تئیں ہمدردی اور پھر مغربی طرز زندگی کے تئیں قاری کی حقارت۔ بغور دیکھیں تو کہانی پر ناول نگار کی اس قدر گرفت ہے کہ قاری چاہ کر بھی اپنی کوئی رائے قائم نہیں کرپاتا ہے۔چار دہائی تک محسن اپنوں سے دور، اپنے ملک سے دور یہاں تک کہ وہ اپنے والدین کی تجہیز و تکفین میں بھی شامل نہیں ہو پاتا ہے۔ جائیداد میں اپنے حق ملکیت سے خود ہی دست بردار ہوجاتا ہے۔ لیکن اس کے دل میں اپنوں سے اور اپنے ملک سے کہیں نہ کہیں محبت باقی رہتی ہے۔ محسن کا دوست اس سے پوچھتا ہے کہ تم نے علی گڑھ آنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ اس پر محسن کہتا ہے:

’’علی گڑھ کے ویب سائٹ پر پچھلے برسوں سے ہر روز جاتا ہوں۔ اولڈ بوائز کانفرنس کی خبر پڑھیں اور نہ جانے کیوں اور کیسے میں نے اپنے نام درج کرادیا۔ اب دیکھو یہاں آکر تم دونوں مل گیے‘‘(ص81)

محسن کو اپنے کیے پر پچھتاوا رہتا ہے۔ ماں کے انتقال کی خبر پر محسن کہتا ہے:

’’اظفر میں شرمندہ ہوں۔ میرے پاس نہ قرآن تھا نہ اس وقت نماز پڑھ سکتا تھا۔ جب مجھے ماں کے انتقال کی خبر ملی تھی تو میں نشے میں چور ایک گرل فرینڈ کی باہوں میں تھا۔ لعنت ہو مجھ جیسے بیٹے پر۔ ماں کے انتقال کی خبر سن کر انا للہ وانا الیہ رجعون تک نہ پڑھ سکا اور نہ دعائے مغفرت مانگ سکا‘‘۔۔۔ محسن رونے لگا۔(ص79)

اب خدا بہتر جانے اس کے اندر یہ جذبہ اس کے ساتھ ہونے والے پے در پے حادثے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے یا کسی اور وجہ سے بہر حال اس کی یہی کیفیت اس کے کفارے کی وجہ بنتی ہے۔ ایک جگہ اظفر محسن کو سمجھاتے ہوئے کہتا ہے:

’’عامر اور اسکی فیملی کے افراد تم سے محبت سے ملے۔ یہ اپنائیت تمہیں یوروپ نہیں ملے گی‘‘۔

وہ مزید کہتا ہے:

’’ہندوستان اور علی گڑھ میں جو محبت تمہیں ملے گی وہ تمہیں دنیا میں کہیں بھی نہیں مل سکتی۔ میں بھی ایک فارینر ہوں۔ کئی ملکوں میں جانے کا موقع ملا ہے۔ میرا واسطہ کئی تہذیبوں سے پڑا ہے مگر ہندوستانی تہذیب کا بدل کہیں نہیں ملے گا۔ اور پھر یہ تو تمہارا وطن ہے‘‘۔(ص82)

موسٹ سینئر اولڈ بوائز ذاکر صاحب جو حقیقی معنوں میں ادارے اور سرسید مشن کے خیرخواہ ہیں ان کی دور بین نگاہیں علی گڑھ انتظامیہ سے کہہ سن کر ایک ادارہ برائے کیریئر کاؤنسلنگ ممالک یورپ و امریکہ قائم کرواتے ہیں۔ تاکہ یہاں کے بچے ملک سے باہر جائیں تو کس طرح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تہذیب کو قائم رکھیں نیز ادارے کا نام بھی روشن کرسکیں۔چوں کہ اس کام کو پورے تجربے کے ساتھ انجام دینے کے لیے محسن سے بہتر دوسرا کون ہو سکتا ہے۔ وہیں محسن کو اپنی خدمات سر انجام دینے کا موقع مل جاتا ہے جس سے دوبارہ انگلینڈ جانے کی نوبت نہیں آتی ہے۔ محسن کے تمام محسنین کی اس کے حق میں یہی تجویز ہے۔ اس طرح ایک تیر سے کئی شکار ہو جاتے تیسرے کردار میں اظفر ہے، جو علی گڑھ سے اردو میں ایم اے کرنے کے بعد اپنے ملک موریشس واپس چلا جاتا ہے۔ محسن اور مولوندو کے برعکس اظفر نے علی گڑھ سے رشتہ بنائے رکھا تھا۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اردو زبان و ادب کا مرکز ہے۔ ناول نگار نے اظفرکے بارے میں کوئی تفصیل نہیں دی اور نہ ہی موریشس اور وہاں کے کلچر کے بارے میں کچھ تفصیل لکھی ہے۔ بظاہر اس کی وجہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ ناول نگار نے اپنے اولین ناول ”اپنی زمین” میں موریشس کے حوالے سے کافی کچھ لکھا ہے۔ تکرار بھی پیشِ نظر رہی ہوگی۔ اظفر کا کردار محسن کے معاملے میں کھل کر سامنے آتا ہے۔ اظفر کے کردار میں ناول نگار نے شفیق اور انتہائی مخلص دوست، کسی ادارے کا مثالی فارغ التحصیل، اپنی تہذیب و تمدن اور عادات و اخلاق اور اپنی مذہبی شناخت قائم رکھنے والے کی عمدہ مثال پیش کی ہے۔ ’’علی گڑھ نے اسے پھر سے مسلمان بنا دیا‘‘۔(ص158)ناول نگار کا یہ جملہ بڑا معنی خیز ہے۔ ذہنوں کو سوچنے پرسمجھنے پرمجبور کردیتا ہے۔ حالاں ایک دائرے میں رہ کر دیکھیں تو کوئی برائی نظر نہیں آتی ہے۔ غالباً ناول نگار نے بھی اسی دائرے میں رہ کر یہ بات کہی ہے ورنہ ادب کا طالب علم یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ ”ادب کسی در و دائرے میں محدود نہیں ہے۔ اور نہ ہی ادب انسانوں کو مرد و عورت یا’ ایل جی بی ٹی قیو‘ جیسے خانوں میں تقسیم کرتا ہے۔ یہاں ناول نگار کا اپنا ذاتی دائرہ اسے بچا لیتا ہے ورنہ یہی معنی خیز جملہ اس کی نکیل کسنے کے لیے کافی تھا۔

ادارے سے طلبا کی وابستگی

ُٓاپنے مادر علمی سے کس کو لگائو نہیں ہوتا ہے لیکن جب بات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی آتی ہے تو معاملہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔اس ادارے سے یہاں کے طلبہ کی محبت اور وابستگی یقیناً باعثِ حیرت ہے۔ اس ضمن میں موسٹ سینئر اولڈ بوائز ذاکر صاحب کی مثال دی جا سکتی ہے۔ ذاکر صاحب اس ادارے کی محبت میں اپنی پوری زندگی اسی علی گڑھ میں گذار دی ۔ وہ اس ادارے کے صحیح معنوں میں خیر خواہ ہیں ۔ ادارے کے حق میں جو بات بھلی ہوتی ہے وہ اس کا مشورہ انتظامیہ کو ضرور دیتے ہیں ۔ انتظامیہ ان کی دوراندیشی کی قائل ہے۔ ذاکر صاحب صحیح معنوں میں ایک جوہری ہیں جو نگینہ تراشتے ہیں ۔ محسن کے معاملے میں انہوں نے ادارے کی انتظامیہ کو بیرون ملک جانے والے خواہش مند طلباکی مدد فراہم کرنے کے لئے مشورہ دیا جسے ادارے نے بخوشی قبول کر لیا۔

زبان و بیان اور اسلوب

ناول میں مستعمل زبان و بیان اور اسلوب صرف سادہ ہی نہیں بلکہ کرداروں کے حالات ،علمی معیار اور ماحول و فضا کے عین مطابق ہے۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سینئر،جونیئر کے رشتے،اساتذہ ،بزرگوں کے اداب اور کرداروں کے مراتب کو ناول نگار نے ملحوظ خاطر رکھا ہے۔ ناول کے مکالموں سے ایک خاص منظر کا اندازہ ہوتا ہے اور وہ پس منظر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ماحول ہے جو صدیوں کی تاریخ پر مشتمل ہے۔ ہر ادارے کا اپنا ایک علمی و تہذیبی ماحول ہوتا ہے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اپنی مخصوص ثقافت وتمدن اور طر ززندگی کے لیے ہمیشہ سے جانا جاتا ہے ۔ آغاز تا انجام ناول میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اسی خاص طرز زندگی کو بیان کیا گیا ہے۔ تقریباً سبھی کردارکسی نہ کسی طرح اسی ادارے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ سابق طلبا یہاں آکر یہاں کے ماحول اور یہاں موجود اپنے میزبان طلباکے ساتھ اسی لب و لہجے میں بات کرتے ہیں ۔ مکالمے تمام کرداروں کے ساتھ ہی اس ماحول کے بھی مطابق ہیں ۔ مکالمے کی ادائیگی میں سینئر اور جونئیر کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔مکالموں میںخوش گوار نوک جھونک اور ایک دوسرے کی شکایت بھی ہے۔ ایک جگہ تسنیم کہتی ہے:

’’لیکن انکل آپ دونوں کو تو معلوم تھا۔ ہمیں کتنی گستاخیاں کرنے دیں۔ ہم کتنے فری ہو گئے تھے۔‘‘

We enjoyed it and liked it مولونڈو نے کہا۔  (۲۴)

تمام کردار اپنے مراتب اور علمی و سماجی معیار کے مطابق مکالمے ادا کرتے نظر آتے ہیں ۔ چوں کہ مولونڈو کا تعلق افریقی ملک سے ہے اس لیے وہ عام طور سے اپنی گفتگو میں انگریزی زبان کے الفاظ ہی نہیں بلکہ بسا اوقات انگریزی میں ہی بات کرتا نظر آتا ہے۔ بعض جگہ مولونڈو سلیس اردو بھی بولتا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دور رہ کر بھی علی گڑھ کی تہذیب و زبان سے آج بھی وابستہ ہیں ۔مکالمہ ایک جگہ ضرور کچھ عجیب سا ہے۔ یعنی لفظ ’’تقریباً‘‘ کہنے کے باوجود اتنا درست فیگر ’’تقریبا اکتالیس سال اور پانچ مہینے‘‘

 تعلیم کے سلسلے میں قیام علی گڑھ کے شب و روز کو نوسٹیلجیا کی صورت اور ناول کے فارم میں بڑی خوب صورتی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ ناول میں ایک جگہ محسن اور اظفر کے درمیان گفتگو ہوتی ہے:

’’یار اب تو صرف یادیںہی رہ گئیں ہیں ۔‘‘ محسن نے کہا۔

’’یادیں بڑی عزیز ہوتی ہیں۔ میں نے تو اپنے وطن میں اور اپنوں کے بیچ رہ کر بھی ان یادوں کو سینے سے لگائے رکھا ہے۔ مگر تمہارا تو بڑا مشکل وقت گزرا ہوگا۔ شاید ان ہی یادوں نے۔۔۔۔‘‘(۲۵)

ناول میں سرسید کے مشن، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تہذیب و تمدن، وہاں کے طلبہ کا رہن سہن،ان کی فکر اور ان کی ذمہ داریاں، مشرقی اقدار و روایات، مذہبی شناخت اور سچے پکے مسلمان ہونے کی کہانی جذباتی ماحول میں بیان کی گئی ہے۔تہذیب کے حوالے سے ایک جگہ عامر کہتا ہے:

’’کم سے کم اسے ابھی اپنی تہذیب یاد ہے‘‘(۲۶)

ایک جگہ محسن کو اپنے والد کی نصیحت یاد آتی ہے:

’’محسن تم جارہے ہو ۔ یہ کبھی نہیں بھولنا کہ تم ایک مسلمان ہو‘‘۔(۲۷)

ناول ایک زندہ صنف ہے اورعیدنؔنے اپنے اس ناول میں موضوع و مواد روز مرہ کی زندگی سے ہی کشید کیا ہے،یہی وجہ ہے کہ ناول’’یہ میرا چمن ہے میرا چمن‘‘اپنی تمام تر فنی جزئیات کے ساتھ ایک ادبی شاہ کا درجہ حاصل کر لیتا ہے ۔ہند و پاک کے اہل نقد و نظر اس ناول کی قرات کر اس کی فنی حیثیت اور ادبی مقام ضرور متعین کریں گے۔

مصادر

     عیدن،عنایت حسین، اپنی زمین، نئی دہلی: اسٹار پبلی کیشنز،2011

عیدن،عنایت حسین، یہ میرا چمن ہے میرا چمن…، نئی دہلی: اسٹار پبلی کیشنز، 2014

عیدن،عنایت حسین، زندہ گزٹ، ماریشس: مہاتما گاندھی انسٹی ٹیوٹ، 1990

عیدن،عنایت حسین، چھوٹا بنگلہ نہیں بلکہ ایک۔۔۔۔،نئی دہلی: اسٹار پبلی کیشنز

 موبائل:8826979210،میل:sanaullahsrkg@gmail.com

Leave a Reply