You are currently viewing عہد آصفیہ میں اردو صحافت

عہد آصفیہ میں اردو صحافت

ڈاکٹرشاہ جہاں بیگم گوہرؔ کرنولی

 گیسٹ لیکچرر، ڈاکٹر عبدالحق اردو یونی ورسٹی

 کرنول، آندھراپردیش،انڈیا۔

عہد آصفیہ میں اردو صحافت

حیدرآباد کے اردو اخبارات کے تناظر میں

         دنیا میں جہاں کہیں بھی انقلاب رونما ہوتے وہاں کی زبان و ادب اور صحافت نے بھی اس ضمن میں نمایاں اور کلید ی رول ادا کیا۔ کیونکہ قوم و ملک کے افراد کے رسانی کا موثر ترین ذریعہ اخبارات ہیںاور کسی بھی ملک کی تاریخ صحافت کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی کیونکہ صحافت تاریخ کی تمہید ہے

         اردو اخبارات کی دنیا میں حیدر آباد اردو زبان و صحافت میں اپنی منفر د پہچان رکھتا ہے یہاں کے اخبارات عالمی ، مرکزی، صوبائی، خبروں کے ساتھ ساتھ مذہبی لسانی ، ادبی، معاشرتی، اقتصادی، سائنس و ٹکنالوجی ، سیاسی، صنعت کاری اور اشتہارات وغیرہ سے پُر ہوتے ہیں جو اردو داں عوام کے لئے قلبی سکون اور عالمی منظر نامہ کا نقشہ دلوں پر نقشی کرتے ہیں ۔

         عہد ماضی میں اخبارات کا کوئی تصور ہی نہ تھا۔ اس وقت صرف چند و اقع نویس حکمران بادشاہ اور راجہ کے دربار میں ہوا کرتے تھے جو صرف دربار کے واقعات کو قلم بند کرتے اور حکمرانوں کو خوش کرکے خوشنودی حاصل کرتے تھے۔عوام کی آواز کو حکمرانوں تک پہنچانے کا کوئی وسیلہ ہی نہ تھا ۔ حکمرانوں کے احکامات عوام تک اعلانات کی صورت میں پڑھ کر سنایا جاتاتھا اور جب کبھی عوام میں سے کوئی مسلہ حکمرانوں تک پہونچانا ہوتا تو عوام کو دربار میں حاضر ہوکر اپنا مسئلہ بیان کرنا ہوتا تھا تب جاکر حکمرانانِ وقت ان کی مدد کیا کرتے تھے۔ عہد آصفیہ کے دور میں لسانی اعتبار سے اُردو زبان و ادب کو بہت فروغ حاصل ہوا ۔ اس ضمن میں موہن  پرشاد اپنی تصنیف ’’حیدرآباد فر خند ہ بنیاد‘‘ ص۔۱۶۲) میں تحریر فرمایا ہے۔مسٹر کشن رائو نے ایک عوامی تحریک شروع کی کہ حکومت کی سرکاری زبان فارسی کی بجائے اردو ہونی چاہئے۔ نظام ششم میر محبوب علی خاں اور مہاراجہ سر کشن پرشاد  یمیسن السلطنت نے اس عوامی تحریک کو منظور ی دی کہ حکومت کی سرکاری زبان ’’اردو ہوگی‘‘

         چنانچہ سال تک سرکاری مراسلت دونوں زبانوں فارسی اور اردو میں رائج اور بتدریح فارسی کی جگہ ’’اردو‘‘ زبان نے لی۔

مہاراجہ کشن پرشاد السلطنتہ کے عہد و زارت میں حیدرآباد کی سیاسی ، علمی، ادبی اور تمدنی زندگی اتنے اعلیٰ معیار پر پہونچ چکی تھی اس کی وجہ محبوب علی بذات خود شاعری کا ذوق رکھتے تھے، حکمراں محبوب علی خاں کا غلطی آصف تھا۔ ان کا دیوان اور کلام چھپ چکا تھا۔ اس عہد میں پرشاد ہر مہینے جو گلدستے محبوب الکلام شائع کرتے تھے وہ بھی آصفؔ کی غزل ہی سے شروع کیا جاتا تھا۔

         اس عہد میں پرشاد صاحب نے پچپن سال سے زیادہ عرصہ تک ان کا سلسلہ تصنیف و تاسیف جاری رہا۔ اس مدت میں انہوں نے ساٹھ سے زیادہ کتابیں لکھیں ۔ اس میں نظم اور نثر ، سفر نامے ، علمی کتابیں اور مذہبی رسائل تھے۔

         مذہبی رسائل:

         دسہرہ کرشن گلا، گیان درپن ، ایمان شاد منظوم، دین حیسن(یہ دونوں گالباً ۱۳۳۶ء کے قبل مرتب و شائع ہوئیں) ماتم حسین منظوم ۱۳۳۶ء مثنوی آئینہ و حدت ۱۳۳۷ء مثنوی آئینہ وجود ۱۳۲۸ء مثنوی سروجود ۱۳۳۸ء ، مثنوی خمار پرشاد ۱۳۴۱۔ مثنوی مناجات  ۱۳۴۰ء وظائف اشاد ۱۳۴۳ء ناوک غم ۱۳۴۳۔ قربانی۱۳۵۴‘‘

         کتابوں کے علاوہ مہراجہ شادؔ نے کئی ماہنامے بھی جاری کئے تھے اور سالہا سال تک ان کو مرتب اور شائع کرتے رہے۔ رسالہ دبدبئہ آمفی ایک علمی و ادبی ماہنامہ تھا جس کو ۱۳۱۵ء میں جاری کیا تھا۔یہ غفراں مکاں آمفجاہ سابع کی تخت نشینی کے بعد مہاراجہ نے اس کی جگہ دوسرا ماہنا مہ شوکت عثمانی شائع کرنا شروع کیا تھا جو زیادہ عرصہ جاری نہ رہا۔ غفراں مکاں کے عہد میں ماہنا مہ ، محبوب الکلام بھی برسوں پابندی کے ساتھ جاری رہا۔ یہ گلدستہ پوری دنیا مین مقبول تھا۔

         حیدرآباد میں سب سے پہلے ایک رسالہ طبابت ۱۸۵۷ء  م  ۱۲۷۵ھ میں بہ عہد افضل الدولہ نظام پنچم شائع ہوا۔ جب کہ مغربی طب اور علاج کو فروغ ہو رہا تھا۔ اس کا ایڈیٹر ایک ا نگریز جان اسمتھ تھا۔ اس کا ترجمہ بہ زبان اردو میں شائع ہوا کرتا تھا۔ مسٹر قاسم علی سجن نعل تاریخ کے ممتاز پروفیسر نے لکھا ہے کہ حیدر آباد میں اردو کا پہلا اخبار ــ’’آفتاب دکن‘‘ ۱۸۶۰ ؁ء میں شائع ہوا ۔ اس کے علاوہ  ۱۸۶۹؁ء ایک گزٹ زین العابد ین شیرازی کی ادارت میں شائع ہوا کرتا تھا جو پہلے بہ زبان فارسی اور بعد کو اردو میں شائع ہوا مگر اس کے بعد یہ گزٹ حکومت نے اپنی نگرانی میں دارالطبع کر کارِ عالی سے شائع کر نا شروع کیا یہ  ۱۹۴۸؁ء تک اردو میں شائع ہوتا رہا اور ۱۹۴۸؁ء کے بعد انگریزی میں شائع ہونے لگا۔ انوار الحق جعفری نے لکھا ہے کہ حیدرآباد میں پہلا اردو اخبار انیس ویں صدی کے آخری دہے میں دہلوی ۱۸۸۳؁ء میں اس کے ساتھ ہی ایک اور اردو اخبار’’ہزار داستان‘‘ بھی ہونے لگا۔ اس کے بعد ’’افسر الاخبار‘‘  ’’اخبار آصفی‘‘ شروع ہوا  جس کو حکومت نظام سے ۱۵۰۰ روپیہ  ۲۲/اپریل۱۸۹۲؁ء میں ’’مشیر دکن‘‘ کے نام سے شائع ہوا  جس کے مدیر محب حسین تھے۔

         ۱۹۰۲؁ء میں (۱۴) اخباروں اور رسالوں کے من جملہ (۱۲) اخبار اردو(۲)اخبار مریٹی زبان میں شائع ہو رہے تھے عوام میں اردو اخبار پڑھنے میں دل چسپی بڑھ گئی۔

         جب حیدرآباد ی عوام میں سیاسی شعور دن بہ دن بڑھتا گیا تو مسٹر محب حسن، پنڈت رگھو ناتھ بیریسٹر سری کشن اور مسٹر محمد اسغر نے ایک قومی تحریک شروع کی جس کی وجہ سے آل انڈیا کانگریس کا قیام عمل میں آیا اور مسلم طبقہ کی فلاح ق بہبود کے لئے قائد ملت بہادر یار جنگ نے مجلس اتحاد المسلمین کی بنیاد ڈالی ان دونوں پارٹیوں کی خبر یں اردو اخباروں میں شائع ہونے لگیں۔   ۱۹۱۱؁ء میں ملا عبدالباسط نے ایک اردو اخبار ’’معارف‘‘ شائع کرنا شروع کیا ۔

  ۱۹۱۲؁ء میں مسٹر عبدالحیی اور مسٹر سید رضا شاہ نے اخبار ’’صحیفہ‘‘ شائع کیاجس کے مدیر مولوی اکبر علی تھے۔ جب میر عثمان علی خاں نظام سابع نے شمالی ہند کا دورہ کیا تو ’’صحیفہ‘‘ اخبار کے ایڈیٹر نظام کے اسٹاف میں شریک تھے ۔ جب مولوی اکبر علی کی صحت خراب ہوگئی تو یہ کام مسٹر محمد مظہر دیکھا کرتے تھے۔ اخبار صحیفہ عوام میںمقبول ہونے لگااس کے ساتھ ہی ۱۹۲۰؁ء میں ’’رہبر دکن‘‘ شائع ہونے لگا جس کے بانی اور مدیر مسٹر احمد محی الدین تھے۔ رہبر دکن ۱۸/ستمبر ۱۹۲۸؁ء تک جاری رہا اور ملٹری گورنمنٹ نے اس کو بند کر وادیا ۔ اس کی مکر ر اشاعت ۹ ماہ بعد یہ نام ’’رہنمائے دکن‘‘ شروع ہوئی جس کے مدیر مسٹر منظور حسن تھے اس کے بعد مختلف اخبارات اردو میں شائع ہوتے رہے

۱۔نظام گزٹ ،مدیر مسٹر حبیب اللہ رشدی و مسٹر وقار احمد ۱۹۲۷ء

۲۔ صبح دکن ، مسٹراحمد عارف اور مسٹر علی اشرف ۱۹۲۸ء

۳۔مجلس ، حکیم غفران احمد انصاری، ۱۹۲۸ء

۴۔وقت، مسٹر عبدالرحمٰن رئیس ۱۹۲۹ء

۵۔ منثور، مسٹر عبدالرحمٰن رئیس ۱۹۲۹ء

۶۔سلطنت ، پدم شری سید احمد اللہ قادری ۱۹۳۵ء

۷۔پیام ، قاضی عبدالغفار اور مسٹر اختر حسن۱۹۳۵ء

۸۔ میزان ، مسٹر غلام محمد کلکتہ والے اور حبیب اللہ اوج ۱۹۳۵ء

۹۔ رسالہ قلم ماہانہ، مسٹر سید امداداللہ قادری اور مسٹر سید سعید اللہ قادری

۱۰۔تنظیم ۱۹۴۲ء

۱۱۔اتحاد، مسٹر عبدالقادر ہاشمی ۱۹۴۷ء

۱۲۔انقلاب /اقدام، مسٹر مرتضیٰ مجتہری مہدی

۱۳۔فلمی خبریں، ڈاکٹر بی آر مہرا ڈینٹل سرجن

۱۴۔محب وطن، کشما ریڈی

۱۵۔ آواز، احمد عبد القادر

۱۶۔جناح، اظہر رضوی ۱۹۴۷ء

۱۷۔پرچم، فصیح الدین ۱۹۴۷ء

۱۸۔ ہمدم، مضلغی قادری

۱۹۔ آغاز، سید معین الحق

۲۰۔منزل، اظہر رضوی

 ۲۱۔نئی زندگی، جی این شرما ۱۹۴۸ء

۲۲۔امروز ، مسٹر شعیب اللہ خان ۱۹۴۲

۲۳۔مستقبل، مسٹر عبدالقادر ہاشمی اور مسٹر عظیم الدین محبت۱۹۴۷ء

۲۴۔رعیت، مسٹر ایم نرسنگ رائو ۱۹۴۳ء

۲۵۔ پیسہ اخبار، پدم شری رحمت اللہ قادری ۱۹۴۸ء

۲۶۔شعیب ، مسٹر انیس الرحمٰن ۱۹۴۸ء

۲۷۔تعمیر دکن، مسٹر فیضی الدین

۲۸۔اقدا، مسٹر مادھو رائو انواری

۲۹۔ تازیانہ، بیگم سعادت جہاں رضوی  ۱۹۵۰ء

۳۰۔ روزنامہ ’’امروز۱۹۴۸ء میں مسٹر شعیب اللہ کی ادرات میں روزنامہ ’’امروز‘‘ شائع ہوا۔ ان کے شہید ہونے کے بعد انھی کی یاد میں مسٹر انیس الرحمٰن کی ادارت میں روزنامہ’’شعیب‘‘ شائع ہونے لگا۔

۱۵  اگس ۱۹۴۹ء سے روزنامہ ’’سیاست شائع ہونے لگا جس کے بانی مدیر جناب میر عابد علی خان تھے۔ ’’ادارہ‘‘ سیاست اپنی زندگی کے 50سال مکمل کر رہا ہے یہ وہ ویر جی کی ادارت میں روزنامہ ’’ملاپ‘‘بھی پولیس ایکشن کے بعد شائع ہوتا رہا  روزنامہ ’’ملاپ‘‘ بھی پولیس ایکشن کے بعد شائع ہوتا رہا روزنامہ ’’منصف‘‘ بھی محمود انصاری مرحوم کی اداریت میں  ۱۹۷۶ء کو شروع ہوا جو اب ان کے بھائی کی ادارت میں جاری ہے ’’انگارے‘‘ بھی ربع صدی سے شائع ہو رہا ہے۔

         ہفت روزہ ’’گواہ‘‘ بھی منظر نامہ میں موجود ہے جس کے ایڈیٹر فاضل حسین پرویز ہیں جو فعال اور حساس ہیں ۱۹۸۹ء میں محمد باصر حسین شاد نےروزنامہ ساز دکن کا اجر ا کیا، یہ روزنامہ جاری ہے روزنامہ ’’ہمارا عوام‘‘ کے ایم ، عارف الدین نے 1996ء میں جاری کیا اور حیدر آباد کے معیاری روزناموں میں اسکا شمار ہوتا تھا۔

         ۸ سال تک جاری ہا  اس کے بعد اچانک بند ہوگیا۔ روزنامہ ’’راشٹریہ سیالہ‘‘ حیدرآباد کا ایڈیشن2006؁ء کے بعد شروع ہوا  برہان الدین اویسی اس کے ایڈیٹر ہیں ۔ یہ اخبار کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کی خدمات کی ترجمانی کرتا ہے اندرون ملک اور بیرون ملک کے منظر نامہ پر نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ سپلمینٹ عمدہ اور معیاری ہوتے ہیں سماجی  دینی و ثقافتی اور سیاسی معلومات سے بھر پور ہوتے ہیں نیز ادب خواشین کے لئے بھی صفحات مخصوصی ہوتے ہیں۔

         حیدرآباد کے اردو صحافت کی بڑی سنہری تاریخ ہے جو عہد آصفیہ میں ادب کی سرپرستی ہوئی ۔ گلستانِ ادب اور صحافت کی دنیا میں جو پودے لگائے تھے اب اسکی ڈالیاں تمام دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں اور آج یہ صحافت بڑے درخت بہت ہی گھنے اور سر سبز و شاداب اور مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جارہیں۔

         موجودہ دور میں یہاں کے اخبارات بذریعہ طیارہ مختلف ممالک کو پابندی کے ساتھ بھیجے جاتے ہیں حیدرآباد کے اخبارات کی خوب مانگ ہے۔ انٹرنیٹ نے تو سارے فاصلہ کو سمٹ کر رکھ دیا ہے  عہد آصفیہ کے حکمراں آصف علی خاں دور شعار پر متالہ ختم کر رہی ہوں۔

کچھ وسعت زمین و فلک کی نہیں بساط   گر حوصلہ سو دل میں تو سب سے بڑا ہے دل

آصفؔ کا امتحان کیا منضفی بھی کر         یہ ہر کس کا حوصلہ ہر ایک کا ہے دل‘‘

         (داستان ادب حیدرآباد ۔ص۔۲۵۳  ڈاکٹر محی الدین قادری زہؔد)

کتابیات:

دبستانِ آصفیہ حصہ ششم مئو لفہ مانک رائو ،و ٹھل رائو، مطبوعہ انوارالسلاِم پر یس، ۳ /ذیقعدہ  ۱۳۰ھ، صحفہ ۳۰۴، اور دبِستانِ آصفیہ حصہ اول صفحہ ۶۹۲ ’’

دکن پنچ‘‘ و  ’’مشیر دکن‘‘ مئولفہ مانک رائو ، وٹھل رائو، مطبوعہ انوار السلام پریس، ۲/جمادی الثانی ۱۳۲۷ھ

 مہراجہ سر کشن پر شاد بمین السطنت  مرتبہ محمد مہہ ی یصنے مہدی نواز جنگ، حیدرآباد فرخنہ ہ (نصیف موین پرشاد  و  داستان ادبِ حیدرآباد، ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور

***

Leave a Reply