زیبا گلزار
ریسرچ اسکالر(جی سی ویمن یونیورسٹی سیالکوٹ)
سی ۔ٹی ۔آئی فکلٹی شعبہ اردو،گورنمنٹ ایسوسی ایٹ کالج سمبڑیال
”عیدِ نو“
شاکر صاحب گرمیوں کی شام میں سگریٹ کا کش لگائے،آرام کرسی پر بیٹھ کر ماضی کےدھندلکوں میں کہیں کھو سے گئے۔۔
اس کا محرک ان کی پوتی اور پوتا تھے ۔۔۔اور وہ انہیں عید کے دن کا حساب کرکےبتا رہے تھے۔۔
”عید سوموار کو ہو گی“دادا جان!ننھے احمر نے پرجوشی سے اطلاع دی۔۔
ثمرہ نے ناک چڑاتے ہوئے ذرااصلاحی انداز میں کہا :”نہیں!اس بار عید منگل کو ہوگی“۔۔۔
پھر احمر نے کہا نہیں !تمہیں غلطی لگ رہی ہے۔۔تو ثمرہ پچھلی 29 روزوں پر کی گئی عیدیں یاد کروانے لگی۔۔
یوں دونوں کی نوک جھونک سے دادا جان محظوظ ہورہے تھے۔۔
اس سے پہلے کہ یہ بات لڑائی جھگڑے تک پہنچتی انہوں نے سمجھاتے ہوئے کہا کہ دونوں اپنی جگہ ٹھیک ہو۔۔ایک دن آگے پیچھے ہوسکتا ہے۔۔
بچے مزید تھوڑی دیرتیاریوں کی گفتگو کرکے جا چکے تھے۔۔لیکن دادا جان اب کے لیے ماضی کے جزیروں سے پلٹنا اتنا آسان نہ تھا۔۔۔۔
انہوں نے اگلا سگریٹ سلگایا اور آرام کرسی پر نیم دراز ہوگئے۔۔۔ جب آنکھیں بند کیں تو بیک وقت کئی یادوں نے حملہ کردیا۔۔۔۔
”امی جان!میرا عید کا سوٹ نہیں لیا ابھی تک“۔۔۔چھوٹی کہہ رہی ہے میری چوڑیاں نہیں آئیں“۔۔۔
بڑے بھائی کو اپنے جوتوں کی فکرہے۔۔۔
اور امی باری باری سب کا منہ تکنے لگتیں۔۔۔۔۔
یہ ساری تیاریاں ان کے بچپن کے دنوں کی تھیں۔۔جب سال بھر ان دنوں کا شدت سے انتظار ہوتا تھا۔۔۔۔۔
پھر انہیں وہ دن بھی یادآیا جب وافر سہولیات اور ٹیکنالوجی نہ ہونے کے سبب لوگوں نے اعلان نہ سنا اور روزے کے ساتھ سو گئے۔۔
جب کہ اگلے دن عید تھی۔۔۔اور عوام عجیب کشمکش میں مبتلا ہوگئے کہ عید منائیں یاروزہ۔۔۔۔۔
یہ منظرسوچتے ہی ایک خفیف سی مسکراہٹ ان کے لبوں پر دوڑگئی۔۔۔یار! وہ بھی کیا دن تھے۔۔۔۔
جب ایک چپل،ایک عید کے جوڑے کے لیے رونا بھی پڑتا تھا،کہ نیا ہی چاہئے۔۔۔کبھی مار بھی پڑ جاتی۔۔۔پھر 29ویں افطاری کے بعد آنکھیں چاند اور کان صبح عید کی نوید سننے کے لئے بے تاب رہتے۔۔۔
اور اگر اچانک عید ہوجاتی تواس کا لطف ہی الگ تھا۔۔۔۔
ساری رات اگلے دن کے مشاغل سوچتے سوچتے ہی گزر جاتی۔۔۔لڑکیاں، بہنیں مہندی کے نت نئے ڈیزائن بنانے میں مگن ہوتیں۔۔۔۔۔
کبھی کسی کا خراب ہوجاتا تو کبھی ٹھیک۔۔کوئی ہمسائیوں تو کوئی رشتہ داروں کے گھر جا دھمکتی کہ خود لگانی ہی نہیں آتی۔۔۔۔
اور یوں ہی رات گل ہوجاتی۔۔۔۔
لیکن ایک عجب میکانکی قوت عید کی فجر کو آنکھ کھول دیتی۔۔۔
جہاں لڑکیا ں اپنی رات کی کار گزاری کا معائنہ کرتیں جس کی مہندی کا ڈیزائن اور رنگ سب سے
اچھا ہوتا اسے خوب سراہا جاتا۔۔۔۔
لڑکے نمازِ عید کے لیےتیاری کرتے۔۔۔نہا دھو کر سویاں کھائیں۔۔۔اور محلے کے باقی دوستوں کو ساتھ لئے مسجد کوچل دئیے۔۔۔
عید پڑھ کر سب سے گلے ملتے ۔۔۔مبارکباد دیتے لیتے۔۔اور پھر عیدی کی خوشی میں بھاگم بھاگ گھر پہنچتے۔۔۔۔۔
امی یا ابو،دادا ،دادی وغیرہ گھر کا بڑا عیدی دیتا۔۔۔
کبھی کبھی تنگ بھی کرتے کہ عیدی نہیں ملے گی گھر سے چیزیں کھاؤ۔۔۔۔
مگر ہم وہ لوگ جو چچا صدیق کو پیسے دیئے بنا کب چین سے بیٹھ سکتے تھے۔۔۔۔ جو 100یا 50 روپے عیدی کے نام پہ ملتے جیسے دنیاجہاں کی دولت ہو۔۔۔۔
ایک ایک ،پانچ کی کئی چیزیں لیتے کھاتے جاتے اور گھومتے پھرتے مزے کرتے۔۔۔۔
ایک دوسرے کی عیدی،کپڑے اور کھلونوں کے مقابلے ہوتے کہ میرا زیادہ بہتر ہے۔۔۔دوسرا کہتا نہیں! میرا زیادہ اچھا ہے۔۔۔۔
گویا زندگی جنت تھی۔۔۔عید وہ واحد دن تھا جب بہن بھائی لڑتے نہ امی ابوّ سے ڈانٹ پڑتی۔۔۔۔اس روز سب معاف ہوتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ایک بھائی کے پاس پیسے ختم ہوجاتے تو وہ دوسرے کے آگے پیچھے رہتا کہ اب یہی واحد سہارا ہے۔۔۔
عیدی لینے کے لئے سب رشتہ داروں کے گھر جانا۔۔۔۔عید مبارک کہنا۔۔۔کہ بدلے میں عیدی ملے گی۔۔۔جو کبھی ملتی اور بعض اوقات ناکامی کا منہ بھی دیکھنا پڑتا۔۔۔۔
کھیلتے کودتے مزے کرتے ہی پورا دن گزر جاتا۔۔۔۔
شاکر صاحب ایک جھٹکے سے حال کی دنیا میں آئے تو ماضی کے سنہرے دن کسی آسیب کی طرح انہیں ڈس رہے تھے۔۔۔
اب تو کچھ بھی ویسا نہ تھا۔۔۔نہ لوگ۔نہ حالات۔۔۔نہ عید۔۔۔۔۔۔
اب ان کی بہو،بچے،بیٹیاں وغیرہ اپنی ”مصروفیات “سےوقت نکال کر ملنے آجاتے ۔۔۔۔نہیں تو اپنی اور بچوں کی آؤٹنگ انہیں زیادہ عزیز تھی۔۔۔
انہوں نے کئی سالوں یہی کچھ تو دیکھا تھا۔۔اور اس بار بھی کچھ مختلف نہیں ہونے والا تھا۔۔۔۔۔
عید کے چاند کا اعلان ہوا۔۔۔ادھر رسمی مبارک بادی کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔۔۔
بیٹا ،بہواپنے اپنے عزیزوں دوستوں کو پیغام بھیجنے اور وصول کرنے لگے۔۔۔
سٹیٹس لگ رہے ہیں۔۔۔ان کا رپلائی آرہا ہے۔۔۔دوسروں کو جوابات دیئے جارہے ہیں۔۔ویڈیو
کال۔۔۔اور اسی چکر میں چاند رات گزر جاتی ۔۔۔۔
نہ مہندی لگائی نہ ثمرہ کو لگانے دی کہ بے جا کپڑے اور بستر خراب کرے گی۔۔۔۔
شاکر صاحب اس انتظار میں کہ کب عید یا چاندرات مبارک کہا جائے۔۔۔۔۔کب میٹھے کے لئے برتن رکھے جائیں۔۔۔مگر ایسا کچھ نہ تھا۔۔۔صبح کام والی آئی اور جلدی جلدی سویاں بنا کر کام ختم کردیا گیا۔۔۔۔ نہ کسی کے ہاں اہتمام سے بھجوائیں نہ ہی اس کی ضرورت سمجھی گئی۔۔۔۔۔
وہ صبح جلدی جلدی اٹھے،عید کی نماز کے لئے تیار ہوئے۔۔۔بخوشی نمازِ عید ادا کی۔۔۔راستے میں سب کو عید ملتے آئے۔۔۔گھر آکر کیا دیکھتے کہ پوتا پوتی ابھی سو رہے تھے ماں انہیں اٹھانے میں مصروف تھی۔۔۔کیوں کہ وہ رات بھر گیمز کھیلتے رہے تھے۔۔۔۔
شاکر صاب جتنی گرم جوشی سےآئے تھے ۔۔۔گھر کا منظر نامہ دیکھ کر سب ماند پڑ گئی۔۔۔۔
رسماًبیٹے بہو کو عید مبارک کہا۔۔۔اور بوجھل قدم اٹھاتے ہوئے اپنے کمرےکو چل دیئے۔۔۔
تھکے تھکے انداز میں دروازہ بندکیا ۔۔۔اور نئےکپڑے بدل کر معمول کا سوٹ پہنے آرام کرسی پر بیٹھ گئے۔۔۔
ان کے دل میں پھر اپنے بچپن کی یادوں کا طوفان اُمڈ آیا۔۔۔۔اور دل رو دیا کہ یہ کیسا دورہے؟۔۔۔کیا اقداری معیار ہے۔۔۔کہ ایک مذہبی تہوار جس کا سارا سال انتظار کرتے ہیں اسے درست انداز میں منایا بھی نہیں جاسکتا۔۔۔۔
اس کی کوئی خوشی نہیں۔۔۔کوئی معنی نہیں رکھتا۔۔۔فارغ دن سمجھ کر سونا زیادہ بہتر سمجھا جاتا ہے۔۔۔۔
شاکر صاحب کو حال کی دنیا میں دروازے کے پٹ کھلنے کی آواز لے آکرآئی۔۔۔جو نوکرانی کے اندر داخل ہونے کی دلیل تھی ۔۔۔۔
”صاحب جی!کھانا کھا لیں “۔۔۔۔۔وہ یہ کہہ کر چلی گئی۔۔۔۔انہوں نے ٹرے پر نظر دوڑائی تو دیکھاکہ انہیں بھی قسم قسم کے کھانوں سے حصہ دے دیا گیا تھا۔۔۔اور یہی کافی تھا۔۔۔۔
کیا کوئی اور چیزنہیں ؟جس کے وہ متلاشی تھے۔۔۔۔
انہوں نے اپنا سجا سجایا عالی شان گھر،کھانا اور پھر کپڑے دیکھے۔۔۔کیا یہی لوازماتِ زندگی ہیں ؟۔۔۔۔وہ سوچےبنانہیں رہ سکے۔۔۔
لوگوں کی توجہ،محبت،باہمی میل جول،ایک دوسرے کی بات سننا ،کرنا اہم نہیں؟۔۔۔۔۔۔
کیا بچے یا ماں باپ زر کی ضرورت کو پورا کرکے بری الذمہ ہیں؟۔۔۔۔۔۔ان کا اور کوئی فرض نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
انہی سوالات میں الجھے تھے کہ احمر اور ثمرہ تیار ہو کر ملنے آئے۔۔۔جس سے دادا کا چہرہ کھل اٹھا۔۔۔۔
ان دونوں نے لبوں پر مسکراہٹ سجائے اطلاع دی کہ وہ ننھیال اور پھر پارک گھومنے جائیں گے۔۔۔آج خوب موج مستی کریں گے۔۔۔۔
اوردادا کے لئے حکم ہے کہ وہ گھر میں رہیں گے۔۔۔۔ کہ بڑھے بوڑھوں کا ایسی جگہوں پر کیا کام؟۔۔۔۔گھر کا خیال رکھنے کے لئےبھی کوئی یہاں موجود رہنا چاہئے۔۔۔۔
اور شاکر صاحب کو بروزِ عید اپنے داداکی قبر پر اہتمام سے پھول لے کر جانا اور فاتحہ خوانی یاد آگئی۔۔۔۔
اور ایک موٹا سا گول موتی ان کی آنکھ سے ٹپک کر ڈاڑھی تر کرتا ہوا بہہ نکلا۔۔۔۔۔
٭٭٭