You are currently viewing غبار حیرانی” اور ” شمس الرحمٰن فاروقی کا تصور جدید غزل

غبار حیرانی” اور ” شمس الرحمٰن فاروقی کا تصور جدید غزل

جاوید رسول

سری نگر، کشمیر

غبار حیرانی” اور ” شمس الرحمٰن فاروقی کا تصور جدید غزل

احمد محفوظ کے اس غزلیہ مجموعے پر جدید ہونے کا حکم یوں بھی تو لگایا جاسکتا تھا کہ اس میں سے بیشتر غزلیں “شب خون” میں چھپی ہیں، یا کسی طرح فاروقی صاحب کی نظر سے گزری ہیں۔لیکن یہ کوئ تنقیدی جواز نہیں ہوتا بلکہ اس کی حیثیت محض مفروضے کی ہوتی ہے۔ظاہر ہے جب ہم کسی غزل کو تنقیدی نقطئہ نظر سے دیکھتے ہوں اور ہمارا دعوی ہو کہ یہ جدید یا ترقی پسند ہے تو یہ لازمی بنتا ہے کہ ہم اس میں موجود ان عناصر کی نشاندہی کریں جن سے ہمارے دعوے کی تائید ہوتی ہو۔اسی استدلالی ضرورت کے پیش نظر میں نے یہ مناسب سمجھا کہ “غبار حیرانی” کی غزلوں کا تجزیہ فاروقی صاحب کے تصور جدید غزل کے آئینے میں کیا جائے۔گو کہ فاروقی صاحب نے جدید غزل کے حوالے سے کوئی مربوط یا منظم بحث نہیں کی ہے لیکن انہوں نے مختلف مضامین میں اس حوالے سے چند بنیادی معروضات ضرور پیش کیے ہیں۔ان معروضات کے ذریعے ہم کافی حد تک فاروقی صاحب کے تصور جدید غزل کو سمجھ سکتے ہیں۔مثال کے طور پر نیچے ان کے چند بیانات ہیں جن کے ذریعے ہم سب سے پہلے ان کے تصور جدید غزل کو سمجھتے ہیں اور پھر اسی تصور کے تحت “غبار حیرانی” کی غزلوں کا تجزیہ کرتے ہیں، تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ یہ غزلیں جدید غزل کے دائرے میں آتی ہیں کہ نہیں۔پہلے فاروقی صاحب کے تصور جدید غزل کو جاننے کے لیے یہ تین اہم ترین بیانات دیکھ لیجیے؛

بیان اول:

جدیدیت نے اپنا جواز زیادہ تر غالب کے یہاں سے حاصل کیا یا پھر مغربی غیر افلاطونی نظریات ادب سے، جن میں علامت پرستی اور رومانیت سب سے زیادہ نمایاں تھیں۔ (1)

بیان دوم:

 جدیدیت پسند نظم میں تجربہ اور اظہار کی آزادی پر زور سب سے زیادہ تھا۔لہذا کلاسیکی تصورات شعر اس کی فوری ضرورت نہ تھے۔(2)

بیان سوم:

ہماری کلاسیکی غزل کی شعریات میں کوئ چیز ایسی نہیں ہے جسے غزل کے لیے آج بھی (یعنی دور فاروقی میں) استعمال نہ کیا جاسکتا ہو۔لہذا یہ بالکل ممکن ہے کہ غزل جدید بھی ہو اور کلاسیکی اصولوں کی پابندی بھی کرے۔یہ اس وجہ سے کہ جدید غزل کی بنیادی صفت مضمون آفرینی ہے اور مضمون آفرینی کے لیے کلاسیکی غزل کی روایتی لفظیات کی پابندی ضروری نہیں۔(3)

اب آخری بیان کو چھوڑ کر فی الحال پورا فوکس پہلے دو بیانیات پر کیجیے۔یاد رکھیے بیان اول میں جدیدیت سے فاروقی صاحب کی مراد جدید شاعری(بشمول جدید غزل) ہے۔وہ کہتے ہیں کہ جدید شاعری نے اپنا جواز زیادہ تر غالب سے حاصل کیا ہے یا پھر مغربی غیر افلاطونی نظریات ادب سے، جن میں علامت پرستی اور رومانیت سب سے زیادہ نمایاں تھیں۔یہاں “غیر افلاطونی نظریات جیسے رومانیت اور علامتیت” سے اتنا تو سمجھ میں آجاتا ہے کہ یہ فرائڈ کے “جنگل” یعنی لاشعور کی بات ہورہی ہے جو واقعتاً جدید نظم اور غزل دونوں میں ملتا ہے لیکن یہ سمجھنا ذرا مشکل ہورہا ہے کہ غالب سے جواز جدید نظم اور غزل دونوں نے حاصل کیا یا صرف غزل نے؟ اس سوال کا جواب فاروقی صاحب دوسرے بیان میں دیتے ہیں۔وہ جب کلاسیکی شعریات کو نظم کے لیے غیر ضروری قرار دیتے ہیں تو یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ غالب سے جواز صرف جدید غزل نے حاصل کیا ہے۔لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نظم کے لیے کلاسیکی شعریات غیر ضروری کیوں تھی؟ فاروقی صاحب کے نزدیک اس کی وجہ نظم میں ” تجربے اور اظہار کی آزادی” ہے جو کہ غزل میں ممکن نہیں۔ چلیے مان لیتے ہیں کہ غزل میں نظم کی طرح ہیتی تجربوں کی آزادی نہیں تھی لیکن ساختیاتی سطح کے دوسرے تجربوں علی الخصوص اظہار کی آزادی تو تھی۔خود جدید غزل سامنے کی مثال ہے، پھر یہ جھول کیوں؟ فاروقی صاحب کے یہاں تضادات کا سلسلہ یہیں پر ختم نہیں ہوتا۔ایک طرف وہ غزل میں تجربے اور اظہار کی آزادی کے کم بلکہ نہ ہونے کی بات کررہے ہیں اور دوسری طرف کہیں نہ کہیں غزل کی آزادئ اظہار ہی کی بات کررہے ہیں۔اگر غزل کلاسیکی اصول کی پابند ہوکر بھی جدید ہوسکتی ہے تو خدارا ہمیں یہ بتائیے کہ پھر نظم میں آزادئ اظہار کی ایسی کون سی صورت تھی جو غزل کے موافق نہ تھی؟صاحب ہم جانتے ہیں کہ جدید نظم نے عموماً ہر طرح کے مضامین برتے ہیں لیکن روایتی کینن کو توڑ کر ذرا جدید غزل کی طرف بھی دیکھیے، کیا یہ موضوعاتی سطح پر جدید نظم کے قریب نہیں ہے؟ ہمارے نقادوں نے تو جدید نظم پر یہ کہہ کر تنقید کی تھی کہ اس کا لب و لہجہ جدید غزل کے قریب تر ہے۔ پھر یہ غزل میں تجربہ اور اظہار کی آزادی نہ ہونے کا جھول کیوں پیدا کیا گیا؟ دراصل بات اظہار کی نہیں بلکہ صرف تجربے کی ہے اور وہ بھی ہیتی تجربوں کی، جو نظم میں تو ہوسکے لیکن غزل کی زمین ان کے لیے کبھی ہموار نہ تھی۔وجہ غزل کا غیر مغربی ہونا ہے۔اتنا تو ہم سب جانتے ہیں کہ نظم میں ہیت، تکنیک اور موضوع کی سطح پر جتنے بھی تجربے ہوئے سبھی مغربی طرز کے تھے اور چونکہ غزل کے برعکس نظم کی ماہیت مغربی تھی اس لیے نظم کے مزاج نے یہ تمام تر تجربے فوراً قبول بھی کیے۔مگر غزل کا معاملہ کافی حد تک مختلف تھا۔اس کی ہیت مغرب کی شعری ہیتوں کے بالکل برعکس تھی، پھر یہ ہمارے ثقافتی شعور میں اس قدر رچ بس چکی تھی کہ اس میں کسی بھی قسم کی ہیتی تبدیلی تقریباً ناممکن تھی۔ حتی کہ جدیدوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اس میں بھی تشکیلی عمل کے تحت مغربی طرز کے تجربے کیے مثلاً؛ اینٹی غزل یا آزاد غزل وغیرہ۔ لیکن یہ سبھی تجربے ناکام رہے اور یہ بات بالکل واضح ہوئ کہ غزل اپنی مطلق ہیت (Absolute Form) یعنی اپنے کلاسیکی اصولوں کے ساتھ کوئ سمجھوتہ نہیں کرے گی۔اب جدیدیوں کے لیے مشکل یہ پیدا ہوئ کہ ایسا کیا کیا جائے کہ غزل کلاسیکی اصولوں کی پابندی بھی کرے اور جدید بھی کہلائے۔ اس کے لیے انہیں یہ بات سوجھی کہ ادھر نظم میں جو علامتیت ،امیجزم اور نیا ڈکشن نظم جدید کے حوالے بن چکے تھے انہیں کسی طرح سے غزل میں بھی لایا جائے تاکہ اس کے بھی جدید ہونے کا جواز مل جائے۔دیکھا جائے تو یہیں سے فاروقی صاحب کے تصور جدید غزل کو اہمیت ملنا شروع ہوئ اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ تصور تھیوری کی صورت میں جدید شعرا کی ایسی ذہنی تربیت/ Conditioning کرتا رہا کہ آگے چل کر انہوں نے غزل کی ایک نئ شعریات ترتیب دی.اب فاروقی صاحب کا تصور جدید غزل (یعنی تھیوری) کیا تھا یہ جاننے کے لیے ان کے تیسرے بیان کی طرف آئیے، وہ کہتے ہیں؛ چونکہ جدید غزل کی بنیادی صفت مضمون آفرینی ہے، اس لیے یہ بالکل ممکن ہے کہ غزل جدید بھی ہو اور کلاسیکی اصولوں کی پابندی بھی کرے۔ لیکن آگے کہتے ہیں؛ “اور مضمون آفرینی کے لیے کلاسیکی غزل کی روایتی لفظیات کی پابندی ضروری نہیں”___ میرے جیسا عام قاری کیا آج کی تاریخ میں کئ جامعاتی پروفیسر بھی اس بیان کو نہ سمجھ پائیں گے۔لیکن ہم اسے سمجھنے کی کوشش ضرور کریں گے۔غور کیجیے تو مذکورہ بیان کی ابتداء میں فاروقی صاحب مضمون آفرینی کو جدید غزل کی بنیادی صفت بتاتے ہیں۔سیدھے لفظوں میں کہا جائے تو کوئ نیا مضمون پیدا کرنا یا کسی پرانے مضمون کو نئے انداز میں پیش کرنا مضمون آفرینی کی دو بنیادی صورتیں ہیں۔ظاہر ہے یہ کلاسیکی شعریات کی دین ہے اور بقول فاروقی؛ خیال بندی یا مضامین خیالی کوپرانے زمانے میں عام طور پر “مضمون آفرینی” کی ہی ضمن میں رکھتے تھے اور ایسے خیالات کو، جن کی بنیاد تجرید اور غیر عملی تصورات پر ہوتی تھی،نازک اور پیچیدہ کہا جاتا تھا”۔یعنی جدید غزل میں علامتیت اور امیجزم کے ذریعہ جو تجریدی اور غیر عملی بلکہ داخلی فضا تیار کی جاتی تھی، فاروقی صاحب نے اسے مضمون آفرینی کی ذیل میں رکھ کر جدید ہونے کا جواز بخشا۔لیکن یہ جواز ابھی تک نامکمل تھا کیونکہ تجریدی اور غیر عملی تصورات تو کئ کلاسیکی شعرا کی شاعری میں بھی ملتے ہیں پھر ساٹھ کے بعد کی غزل میں ایسا کیا تھا کہ اسے جدید کہا جاتا۔اس کے لیے فاروقی صاحب نے نئ لفظیات کا جواز پیش کیا کہ “مضمون آفرینی کے لیے کلاسیکی غزل کی روایتی لفظیات کی پابندی ضروری نہیں”۔یعنی ایک طرح سے جدید غزل کے لیے پرانے مضامین کو نئے انداز میں برتنے کی راہیں آسان کردی گئیں اور یوں غزل کے مزاج میں جدت لانے کے لیے پہلے ایک تھیوری تیار کی گئ پھر اس کی عمل آواری (Practice) کو مزید آسان بنانے کے لیے نئ صورتیں وضع کی گئیں جیسے نئ لفظیات، علامتیت، امیجزم، تشکیکیت، استفہامیہ، ابہام اور نفی (Negation) وغیرہ۔حتی کہ موضوعات کی سطح پر بھی فاروقی صاحب نے یہ کہہ کر جدید غزل کا موقف بالکل واضح کردیا کہ؛

“داخلی اور معنوی حیثیت سے میں میں اس شاعری (بشمول غزل) کو جدید سمجھتا ہوں جو ہمارے دور کے احساسِ جرم، خوف، تنہائی، کیفیتِ انتشار اور اس ذہنی بے چینی کا (کسی نہ کسی نہج سے) اظہار کرتی ہو جو جدید صنعتی اور مشینی اور میکانیکی تہذیب کی لائی ہوئی مادی خوش حالی، ذہنی کھوکھلے پن، روحانی، دیوالیہ پن اور احساسِ بے چارگی کا عطیہ ہے.”(4)

اب “غبار حیرانی”کی شاعری کی طرف آئیے۔ان غزلوں کی بنیادی صفت مضمون آفرینی ہے۔کیونکہ ان میں ایک دم نئے مضامین تو نہیں ہیں البتہ پرانے مضامین کو نئ وضع کردہ صورتوں جیسے؛ تشکیکیت، استفہامیہ اور ابہام کے تحت اس طرح برتا گیا ہے کہ ذہن میں معنی کے کئ نئے دریچے کھلتے ہیں۔مثلاً یہ چند اشعار دیکھیے؛

اب یہ دھن چھوڑ بھی دو اس کو کہاں پاو گے

گھر چلو ورنہ کہیں اور نکل جاو گے

میں جس سے خود کنارہ کر چکا تھا

مقابل پھر وہی دریا ہوا ہے

اک ہوا آخر اڑا ہی لے گئ گرد وجود

سوچیے کیا خاک تھے اس کی نگہبانی میں ہم

سربسر پیکر اظہار میں لاتا ہے مجھے

اور پھر خود ہی تہ خاک چھپاتا ہے مجھے

نہ جانے خاک ہوجانے کی لذت کب میسر ہو

ابھی تو ایک مدت سے ہے خدمت خاک اڑانے کی

پہلے شعر کا ابتدائ مضمون بظاہر محبوب کو پانے کی خواہش اور جستجو سے متعلق ہے۔ ظاہر ہے یہ مضمون کلاسیکی شعری روایت میں تقریباً ہر شاعر نے باندھا ہوگا۔ لیکن اس شعر میں اس وقت جدت کا احساس پیدا ہوتا ہےجب لفظ “اس” کو جدید ذہن identify کرنے کی کوشش کرتا ہے۔غور کیجیے تو یہی لفظ شعر کی مضمون آفرینی کا سرچشمہ بھی ہے جو شعر میں بیک وقت استفہامیہ اور تشکیک کو جنم دیتا ہے۔یعنی ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ شاعر کو “کس” کی تلاش ہے۔ کیا واقعی اسے محبوب کی تلاش ہے؟اگر ایسا ہے تو شاعر کو گھر لوٹنے کی صلاح کون دے رہا ہے؟ کیا وہ وہی کلاسیکی کردار “ناصح” ہے؟ یا پھر شاعر کا شعور (Consciousness) ہے؟ ظاہر ہے یہ بھی ممکن ہوسکتا ہے کہ شاعر کو اپنے آپ کی تلاش ہو اور شعر میں جو کردار اسے گھر لوٹنے کی صلاح دیتا ہے وہ شاعر کا شعور ہو۔ یعنی یہ شعر شاعر کے معروضی اور موضوعی وجود کے درمیان کا مکالمہ بھی تو ہوسکتا ہے۔پھر یہ کہ “کہیں اور نکل جاؤ گے” میں جو ابہام ہے اس سے پیدا ہونے والے کئی اندیشے الگ سے اس شعر میں معنی کی نئی پرتیں کھولتے ہیں۔اسی طرح دوسرے شعر میں دیکھیے وقت یا حالات سے دوبارہ سامنا ہونا اگرچہ اس شعر کا بنیادی مضمون ہے جو کہ نیا نہیں ہے مگر ان حالات کو identify کرنے کا عمل شعر کے معنوی سفر کو بڑھاتا ہے۔جو قاری تشکیکی ذہن کا حامل ہوگا، ضروری نہیں کہ وہ لفظ “دریا” سے برے وقت یا حالات کی ہی تاویل نکالے بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ “دریا” کو شعور زیست سے تعبیر کرے کیونکہ زندگی کی لایعنیت کے شعور سے زیادہ کربناک کوئ دوسری شئ تو نہیں ہوتی اور بقول کامو بعض دفعہ شعورِ زیست کی اسی کربناکی سے بچنے کے لیے انسان فلسفیانہ خودکشی کا مرتکب ہوجاتا ہے یعنی زندگی کی حقیقت سے کنارہ کرکے کسی غیر حقیقی تصور میں پناہ لیتا ہے۔

تیسرے اور چوتھے شعر کا مضمون یوں تو ایک ہی ہے لیکن دونوں کی معنویت مختلف اور کافی وسیع ہے۔غور کیجیے تو تیسرے شعر میں وجود کی کم مائیگی اور بےثباتی کا مضمون باندھا گیا ہے اس میں کوئ کلام نہیں۔ لیکن دوسرے مصرع میں لفظ “سوچیے” میں جو تکرار(Stress) یا استعجابی کیفیت ہے وہ شعر کو استفہامیہ بنا کر معنی کی نئ صورتوں کو جنم دیتی ہے۔ظاہر ہے معنی کی یہ نئ صورتیں شعر کے ابتدائ مضمون کی مرکزیت کو چیلنج کرتی ہیں۔مثلاً؛ شعر کی پہلی قرات اس تناظر میں ہوسکتی ہے کہ ہماری حیثیت محض اس خاک کی ہے جسے بالآخر ہوا اڈا لے جاتی ہے یعنی ہم کوئ مستحکم یا پائیدار وجود نہیں رکھتے۔لیکن دوسرے مصرعہ کے شروع میں لفظ “سوچیے” پر اگر استعجابی وقفہ لیا جائے تو ہماری قرات فوراً استفہامی بن جاتی ہے جو شعر کی پہلی قرات کی مرکزیت کو چیلنج کرکے ایک نیا تناظر پیدا کرتی ہے۔جیسے؛

سوچیے! کہاں اس کی نگہبانی میں تھے؟

 یہاں سوال “اس” یعنی “نگہبان” پر اٹھتا ہے کہ اس نے متکلم کو نگہبانی میں رکھا ہی کب تھا۔

لیکن اب اگر شعر کی قرات اس طرح کی جائے کہ “سوچیے” کے علاوہ لفظ “خاک” پر بھی زور (Stress) دیا جائے تو ایک نیا بلکہ استہزائ مفہوم نکلے گا۔جیسے فرض کیجیے آپ سے کوئ پوچھے کہ کیا آپ اس کی نگہبانی میں تھے؟ اور آپ زور دے کر کہیں “خاک”۔گویا “خاک” بہ معنی “نہیں” صرف نفی کا اظہار نہیں ہوگا بلکہ اس میں ایک طرح کا طنز بھی شامل رہے گا۔

اچھا! اس شعر میں بیک وقت خوبی اور خامی دونوں موجود ہیں۔آپ پوچھیں گے کیسے؟ تو چلیے شعر دوبارہ پڑھتے ہیں۔

اک ہوا آخر اڑا ہی لے گئ گرد وجود

سوچیے کیا خاک تھے اس کی نگہبانی میں ہم

یہاں شعر میں خاک، ہوا اور گرد میں مناسبت تو آپ کو صاف نظر آتی ہوگی، جسے اگر مد نظر رکھتے ہوئے شعر پڑھیں گے تو محض بےثباتی کے مضمون پر شعر مکمل ہوجاتا ہے۔لیکن اگر آپ اس مناسبت کو نظرانداز کرکے شعر کی قرات کرتے ہیں تو شعر کا لہجہ استفہامی بن کر نئے معنی پیدا کرتا ہے جیسا کہ ہم اوپر قرات کے مختلف طریقوں سے دیکھ چکے ہیں۔گویا مناسبت لفظی ہی اس شعر کی خوبی بھی ہے اور خامی بھی۔خامی اس وجہ سے کہ اگر مناسبت کو ملحوظ نظر رکھا جائے تو شعر ایک ہی معنی میں سکڑ جاتا ہے اور اگر ایسا نہ کیا جائے یعنی مناسبت کو ملحوظ خاطر نہ رکھا جائے تو شعر معنی آفریں بن جاتا ہے۔مضمون میں غیر ضروری طوالت سے بچنے کے لیے آخری دو شعر چھوڑ رہا ہوں لیکن آپ چاہیں تو دونوں اشعار پر غور کرسکتے ہیں۔

“غبار حیرانی” کی غزلوں کے جدید ہونے کی ایک اور ممتاز صفت اس کی مجرد پیکر تراشی ہے۔دراصل یہ سارے پیکر نفسیاتی/عقلی ہیں لیکن جس فن کاری سے انہیں الفاظ کے قالب میں ڈھالا گیا ہے وہ جدید غزل کا تخلیقی امتیاز ہے۔مثلاً یہ اشعار دیکھیے؛

کل گریئہ پیہم نے مری جان بچائ

میں ضبط کی دیوار کے ملبے میں دبا تھا

بیٹھے رہے کہ تیز بہت تھی ہوائے دل

دشت ہوس کا گرچہ ارادہ بہت تھا

“گریئہ پیہم” تو خیر سامنے کا بصری پیکر ہے لیکن “ضبط کی دیوار کے ملبے میں دبا ہونا” ایک ایسا خیالی پیکر ہے جو متکلم کی داخلی کیفیت کا اظہاریہ ہے۔اس پیکر سے شعر کی معنوی فضا پیچیدہ ضرور ہوئ ہے لیکن یہی پیچیدگی اس شعر میں معنی آفرینی کا سبب بھی بن جاتی ہے۔آپ پوچھیں گے کیسے؟ تو دیکھیے “ضبط” کی کوئ ایک وجہ نہ تو متکلم بیان کرتا ہے اور نہ ہی ہم اس کا تعین کرسکتے ہیں، لہذا اسے ایک سے زیادہ صورتوں پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔کم و بیش یہی صورت معنی دوسرے شعر کی بھی ہے۔یہاں “دشت ہوس” اگرچہ بظاہر لاشعور کا استعارہ ہے لیکن چونکہ ہمارا لاشعور خواہشات کا ذخیرہ ہوتا ہے، اس لیے “دشت ہوس” کو کسی ایک چیز کی ہوس پر قیاس کرنا سراسر غلط ہوگا۔مثال کے طور پر غالب نے کجا پہلے اس مضمون کو باندھا ہے، مگر وہ “ہوس نائے و نوش” (یعنی نغمہ و شراب) کہہ کر ہوس کی صورت متعین کرتے ہیں۔

اے تازہ واردان بساط ہوائے دل

زنہار اگر تمہیں ہوس نائے و نوش ہے

غالب

اب احمد محفوظ کے شعر کی طرف واپس آتے ہیں۔اس شعر کا پہلا مصرع “بیٹھے رہے کہ تیز بہت تھی ہوائے دل” ایک خیالی پیکر ہے۔”ہوائے دل کا تیز ہونا” یعنی خواہشات کا تیز ہونا اپنے آپ قاری کے ذہن میں کوئ ایسی مجرد امیج پیدا کرتا ہے جس کے بدولت وہ کسی حد تک شاعر کی داخلی کیفیت کو محسوس کرپاتا ہے۔جدید غزل میں اس قسم کی امیجری کا خوب استعمال ہوا ہے مثلاً عادل منصوری کا یہ شعر دیکھیے؛

چھت پر پگھل کے جم گئی خوابوں کی چاندنی

کمرے کا درد ہانپتے سایوں کو کھا گیا

“کمرے کا درد” کوئ حسیاتی پیکر نہ ہونے کے باوجود قاری کے ذہن میں ایک خیالی عکس ابھارتا ہے جو قاری کو وہ مخصوص کیفیت

 محسوس کرنے میں مدد کرتا ہے جس کی طرف شاعر کا اشارہ ہے۔جدید غزل میں ایسی مثالیں بہت ملیں گی جہاں خیالی پیکروں کے

ذریعہ داخلی کیفیت کا بیان ہوا ہو۔

اب جہاں تک جدید غزل کی لفظیات کا تعلق ہے تو آپ کو یاد ہوگا کہ اس غزل نے کلاسیکی لفظیات کی پابندی نہیں کی۔بلکہ نئ لفظیات سے غزل کا ایک نیا محاورہ ترتیب دیا جو اپنے زمانہ میں تو ہدف تنقید رہا لیکن آج کی غزل کی لسانی ساخت اسی محاروے سے تشکیل پائ ہے۔ یہی عادل منصوری کی غزل لیجیے جس کا ایک شعر بطور مثال اوپر نقل کیا گیا ہے، اس کی لفظیات کلاسیکی لفظیات سے کافی مختلف اور چیلنجنگ ہے۔چیلنجنگ اس لیے کہ ایک دم نیا محاورہ وہ بھی غزل میں اس وقت تو قابل قبول نہ تھا۔ہرچندکہ اکبر الہ آبادی نے روایتی کینن کو توڑ کر اس طرح کی کوشش ضرور کی تھی لیکن یہ کہنا کہ ان کی یہ کوشش محاورہ بدلنے کی شعوری کوشش تھی غلط ہوگا۔وہ نئ لفظیات کے استعمال میں تنقید سے اس لیے بھی بچ گئے کہ ان کے یہاں نئ لفظیات جدید عہد کے ٹیکنوکریٹک کلچر کے خلاف ایک استہزائ مزاحمت تھی۔برق کے لمپ سے آنکھوں کو بچائے اللہ/روشنی آتی ہے اور نور چلا جاتا ہے/حرف پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا/ پانی پینا پڑا ہے پائپ کا۔۔۔۔۔۔۔اس میں نئ ایجادات اور نئے ناموں کے خلاف اکبر کی مزاحمت اور ان کے تمسخرانہ لہجہ کو صاف دیکھا جاسکتا ہے۔لیکن اس کے برعکس جدید غزل میں نئ لفظیات کا استعمال نئ شعری تھیوری کی باضابطہ عمل آوری کا نتیجہ تھا۔شعرا نے جان بوجھ کر نئے الفاظ استعمال کیے اور کلاسیکی لفظیات سے ہر ممکن انحراف کیا۔یہی وجہ تھی کہ جدید غزل ہدف تنقید رہی۔ترقی پسند نقاد سید محمد عقیل رضوی نے تو “غزل کی کلاسکیت بحران میں ہے” کے عنوان سے باضابطہ مضمون بھی لکھا، یہی نہیں ان کی مشہور کتاب “نئ علامت نگاری” میں انہوں نے جدید غزل کے نئے محاورے کا جو مذاق اڑایا ہے وہ یہ جاننے کے لیے کافی ہے کہ جدید غزل کو کس طرح کے Challenges درپیش تھے۔”سمندر” تنہائ” موت” اور وزیر آغا کی مانیں تو پیڑ، جنگل، پتھر، برف، گھر، شہر، پتے، شاخیں، دھوپ، سورج، دھواں، زمین، آندھی، کھڑکی، دیوار، منڈیر، گلی، کبوتر، دھول، رات، چاندنی اور بعض انگریزی الفاظ جب جدید غزل کا محاورہ ترتیب دینے لگے تو یہ اردو غزل کی کلاسیکی لفظیات سے ہٹ کر ایک نئ چیز تھی۔”غبار حیرانی” کی غزلوں میں بھی اس نئ لفظیات کے نقوش ملتے ہیں لیکن مجموعی ساخت میں ان غزلوں کی لفظیات زیادہ تر کلاسیکی شعریات کے قریب ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ احمد محفوظ کا شعری رجحان زیادہ تر کلاسیکی شاعری کی طرف رہا ہے۔مثلاً یہ اشعار دیکھیے؛

دل بہ فیض شورش وحشت ہے صحرا آشنا

ورنہ اک قطرہ لہو کیوں کر ہو دریا آشنا

ہنگامئہ وحشت تھا جہاں جشن جنوں میں

دیکھا تو وہاں کوئ دوانہ ہی نہیں تھا

دیکھے جو ایک بار رخ یار کی طرف

پھر عمر بھر نہ جائے وہ گلزار کی طرف

دل کے دریا میں ہوئیں غرق تمنائیں تو کیا

موجئہ خوں سے ہے گل رنگ کنارہ اپنا

فنا آہنگ شاید ساز ہستی سے برآمد ہو

کہ آتی ہے صدا تار نفس سے جھنجھنانے کی

شب سیاہ سفر یہ بھی رائیگاں تو نہیں

وہ کیا ہوا جو مرے ساتھ اک ستارہ تھا

ان اشعار کی لفظیات بالخصوص لہجے میں کلاسیکی رکھ رکھاو کو دور سے ہی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ “غبار حیرانی” کی غزلوں کی لفظیات قطعی کلاسیکی ہے یا یہ کہ جدید شعرا نے اس کا استعمال نہ کیا ہو۔آپ ڈھونڈیے تو جدید غزل میں یہ لفظیات کم وبیش ہر شاعر کے یہاں ملے گی، لیکن ایک نئے علامتی مفہوم میں۔پھر نئ لفظیات کا مطلب صرف یہی نہیں ہوتا کہ خاک کی جگہ مٹی، بحر کی جگہ سمندر، دریچہ کی جگہ کھڑکی، کوچہ کی جگہ گلی، برق کی جگہ بجلی یا جادہ کی جگہ سڑک، پگڈنڈی یا راستہ کا استعمال کیا جائے۔بلکہ نئ لفظیات دراصل نئ علامت اور نئے استعارہ کا تشکیلی عمل ہے۔یعنی شاعر چاہے تو خاک، بحر، کوچہ،دریچہ اور برق بھی استعمال کرسکتا ہے لیکن اس شرط پہ کہ وہ ان سے نئے معانی پیدا کرے، یعنی انہیں اپنے عہد کی مجموعی صورت حال کے تناظر میں برت سکے۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر “غبار حیرانی” کی غزلوں میں کلاسیکی لفظیات سے شاعر نے استفادہ کیا ہے تو کیا وہ ان سے نئے معانی و مفاہیم پیدا کرنے میں کامیاب ہوا ہے، یعنی کیا یہ غزلیں جدید عہد کے وجودی بحران کا اظہاریہ بن سکی ہیں؟ اس سوال کا جواب اگر مذکورہ شعری مثالوں کے تناظر میں دیا جائے تو ظاہر ہے ان میں معنی کی نئ صورتیں تو ہیں لیکن یہ صورتیں جدید صنعتی اور مشینی اور میکانیکی تہذیب کی لائی ہوئی مادی خوش حالی، ذہنی کھوکھلے پن، روحانی، دیوالیہ پن اور احساسِ بے چارگی کا ہی اظہاریہ ہیں، یہ طے کرپانا بہت مشکل ہے۔ہاں البتہ اس مجموعے میں ایسے اشعار ضرور ہیں جن میں ذاتی کربناکیوں کا اظہار ملتا ہے۔اگر انہیں فاروقی صاحب کے اس قول پر محمول کیا جائے کہ وہی شاعری جدید ہے جس میں “جدید دور کے احساسِ جرم، خوف، تنہائی، کیفیتِ انتشار اور اس ذہنی بے چینی کا (کسی نہ کسی نہج سے) اظہار ہو”، تو پھر آپ غبار حیرانی کی غزلوں کو جدید نہ کہنے کی جرات نہیں کرسکتے، بلکہ آپ چاہیں تو اس شعر میں بھی جدید عہد کے انسان کی ذہنی بےچینی کا اظہاریہ ڈھونڈ سکتے ہیں؛

مدت تمام ہو بھی گئ انتظار کی

اس باغ میں نہ آئ خبر بہار کی

یا اس شعر میں کہ؛

تری ہی جستجو ہے سب کو لیکن

تجھے پہچانتا کوئ نہیں ہے

آخری شعر کے حوالے سے تو آپ بہ آسانی کہہ سکتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں سارتر کے حقیقی وجود Authentic Being یا یوں کہیں کہ ذات کی جستجو کی طرف اشارہ ہے۔

دراصل بات یہ ہے کہ غزل چاہے ساٹھ سے پہلے کی ہو یا بعد کی، متکلم اگر اپنی ذات سے مخاطب ہو کر کلام کرتا ہے تو مشکل نہیں کہ اس غزل کی تعبیر وجودی بحران (Existential Crisis) سے کی جائے۔یہ تو جدید نقادوں کی وضع کردہ صورتیں ہیں کہ نفئ ذات، تشکیکیت یا استفہامیہ وغیرہ جدید غزل کے شناختی عوامل ہیں جبکہ حقیقت میں شاعر کیا عام انسان بھی جب اپنی ذات سے مخاطب ہوکر کلام کرتا ہے تو اس کے لہجے میں استفہامیہ، یاسیت یا نفی کا احساس ضرور ہوتا ہے اور کیفیت تو عموماً اضطرابی اور تشکیکی نوعیت کی ہوتی ہے، اب صرف اس بنا پر کسی غزل کو جدید تو نہیں کہا جاسکتا۔یہی اصول “غبار حیرانی” کی غزلوں کے لیے بھی ہے کہ انہیں صرف اس بنا پر جدید نہیں کہا جاسکتا کہ ان میں “کسی نہ کسی نہج” سے وجودی بحران کا اظہار ملتا ہے بلکہ انہیں اس بنا پر جدید کہنا زیادہ مناسب اور معقول ہوگا کہ یہ غزلیں فنی سطح پر جدید غزل سے مشابہ ہیں۔

حواشی

1) تعبیر کی شرح،شمس الرحمن فاروقی، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئ دھلی، 2012، ص 19

2) ایضاً

3) ایضاً، ص 42

4) جدید شاعری۔ ایک سیمپوزیم، مطبوعہ: جدیدیت تجزیہ و تفہیم، مرتبہ، ڈاکٹر مظفر حنفی، 1985، لکھنؤ، ص 640

***

Leave a Reply