You are currently viewing غزلیات۔ عرفان عارف

غزلیات۔ عرفان عارف

عرفان عارفؔ

اسسٹنٹ پروفیسر اردو (جموں)

غزلیات

(۱)

ستمگر کے ستم سہیے کسے کیا فرق پڑتاہے

اندھیروں میں پڑے رہیے کسے کیا فرق پڑتاہے

اسے تو نام پر مذہب کے بس  کرنی سیاست ہے

کسی کو بھی خدا کہیے کسے کیا فرق پڑتاہے

لٹا کے گھر کی عصمت کو چھپا کے اپنے چہروں کو

جھکائے سر کھڑے رہیے کسے کیا فرق پڑتاہے

صحافت آج بے شرمی کا چولا اْوڑھ بیٹھی ہے

جو جی میں آئے  وہ کہیے کسے کیا فرق پڑتاہے

سیاست سے عدالت تک یہاں سارے ہی بہرے ہیں

مسلسل چیختے رہیے کسے کیا فرق پڑتاہے

حمایت کرنے اٹھے ہیں غریبوں کی کسانوں کی

میاں عرفانؔ  چْپ رہیے کسے کیا فرق پرتا ہے

(۲)

چلو راحت ہے دنیا میں ابھی ایمان باقی ہے

ہزاروں وحشتوں  کے درمیاں انسان باقی ہے

مچلتا ہے یہ دل اب تک کہ تیری یاد ہے زندہ

ابھی میں مر نہیں سکتا ترا ارمان باقی ہے

تری خوشبو ہے سانسوں میں تری آہٹ ہے دھڑکن میں

مرے اس جسمِ فانی میں ترا سامان باقی ہے

مجھے آئینہ دو  میں بھی تو دیکھوں کون  ہے مجھ میں

مرے چہرے پہ کس کی اب تلک پہچان باقی ہے

ہے منزل دور ہم بھی آبلہ پا ہیں بہت لیکن

نہیں رْکنے کی یہ تحریک جب تک جان باقی ہے

مٹانے آئیں گے وہ اور تھک کر لوٹ جائیں گے

کہ سچ قائم رہے گا جب تلک عرفان باقی ہے

This Post Has One Comment

  1. Irfan Arif

    بہت بہت شکریہ محترم اس عزت افزائی کا

Leave a Reply