عبدالرحیم
شعبہ ء اُردو , بنگلور یونیورسٹی
غزل گائیکی کے دو بے مثل ستارے جگجیت سنگھ اور پنکج ادھاس
اُردو زبان و ادب کی تاریخ کچھ صدیوں پر محیط ہے۔ اس نوخیز زبان کی اصناف ہر زمانہ میں معاشرہ کے خاص وعام کوگرویدہ بنائے ہوئے ہیں۔ اصناف ِ شعری میں غزل کا دامن ہر زمانہ اور ماحول میں سرسبز و شاداب رہا ہے۔غزل کے کاروان میں کئی موڑ آئے جس میں اس کی ہئیت اور معنویت میں تغیر و تبدل کی کوششیں کی گئیں۔یہ بات بھی روز ِ روشن کی طرح عیاںہے کہ غزل کی ترقی و ترویج میں معاشرہ کے ہر طبقہ نے دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔
کاروان ِ غزل میں کئی غزل سراشامل ہوتے رہے، غزل سے اپنی بے پناہ محبت اور عقیدت کے نذرانے بھی پیش کرتے رہے۔صنف ِ غزل کی اس بے لوث خدمت سے اُردو زبان و ادب اور خصوصاً غزل کا دامن ہمیشہ شاداب رہا۔
اُردو زبان کی شیرینی نے روز ِ اوّل سے سماج کے ہر طبقہ کو متا ثر کیا ہے۔ ہر زمانہ میں اُردو شاعری اور خصوصاً غزل کی دلکشی کا ہر خاص و عام شیدائی رہا ہے۔غزل کا ترنم ، نغمگی اور حلاوت سننے والوں پردیر تک اثراندازہوتی ہے۔اردو غزل کی یہ مہتمم بالشان خوبی ہے کہ مترنم غزل سننے والا فرحت اور بالیدگی محسوس کرتا ہے۔
جگجیت سنگھ اور پنکج اداس کا شمار ایسے عظیم فنکاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی مترنم آواز،آہنگ اور اندازکے ذریعہ مختلف ممالک میں غزل کی شمع روشن کی۔ہندوستان کے علاوہ ایشیاء اور خلیجی ممالک، یوروپ اور امریکہ کے مختلف شہروں میں ان گلوکاروں نے غزل کے لائیو پروگرام کے ذریعہ غزل اور اردو زبان میں دلچسپی میں اضافہ کا باعث بنے۔غزل کی نغمگی اور آہنگ نے غیر اردودان ایشیاء ، امریکہ اور یوروپی عوام اور خواص کوبھی خوب متاثر کیا ۔
جگجیت سنگھ نے اسٹیج شو، ایلبم اور فلموں میں غزل گوئی سے شہرت پائی۔جگجیت سنگھ غزل گائیکی کے بادشاہ کے طور پر مشہور رہے۔ جگجیت سنگھ کی غزلوں کے ایلبم ’میری تنہائی 1980 ء ‘ ’ مرزا غالبؔ 1988ء ‘ ’مراسم 1999ء ‘ ’سحر 2000ء‘ ’آئینہ 2000ء‘ ’تم بن 2001‘ ’ سوز 2002ء ’ ‘ تم تو نہیں ہو 2005ء‘ ’جذبات 2007ء‘ عوام اور خصوصاًغزل شائقین میں آج بھی بے حد مقبول ہیں۔ دور ِ حاضر میں یو ٹیوب پر جگجیت سنگھ کی گائی ہو ئی غزلوں کی دھوم ہے۔
کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرہ ترا
تم کو دیکھا تو یہ خیال آیا
زندگی دھوپ تم گھنا سایا
یہ جو زندگی کی کتاب ہے
یہ کتاب بھی کیا کتاب ہے
بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ
نکلتا آرہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ
ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے
عشق کیجئے پھر سمجھئے زندگی کیا چیز ہے
ہونٹوں کو چھو لو تم میرا گیت امر کردو
بن جائو میت مرے میری پریت امر کردو
مذکورہ غزلوں کے علاوہ اور بھی کئی غزلیں ہیں جن کی گا ئیکی کی بدولت جگجیت سنگھ کی شہرت میں چار چاند لگے۔جگجیت سنگھ کی کامیابی اور شہرت نے بے شمار گلو کاروں کو غزل گوئی میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کاموقعہ عطا کیا۔ غزل سُر، تحت اور ترنم میں گانے کی روایت زمانہء دراز سے مشاعروںمیں مشہور رہی۔نیزغزل کی بے پناہ مقبولیت اور عوام میںاس کا شوق بتدریج ترقی میں روز افزوںاضافہ ہوتا رہا۔ اردو زبان اور غزل کی شہرت کے اس قافلہ میں عوام اور خواص برابر شریک رہے۔ غزل کے شایقین کی تعداد میں اضافہ ہو تا رہا،اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
غزل کی شہرت میں سائنسی ایجادات کا بھی بڑا حصہ ہے۔ فن ِ موسیقی میں نئے ساز، اسٹیج کی سجاوٹ اورروشنیوںکی چکا چوند نے سامعین کی دلچسپی اور تفریح کا سامان کیا۔ ان تمام عوامل میں ریکارڈنگ کا رو ل بے حد اہم رہا، جس کی وجہ سے اسٹیج پرگائی جانے والی غزلیں محفوظ ہو گئیں۔یہ محفوظ ریکارڈنگ آج سوشیل میڈیا کے مختلف ایوانوں میںغزل کے شائقین کی تفریح کے لئے دستیاب ہیں۔
جگجیت سنگھ نے گلو کاری اور غزل گوئی کے نئے افق دریافت کئے۔ پچھلی صدی کے اواخر میںمشاعروں کی لو دھیمی پڑی اور جگجیت سنگھ کی غزل گوئی نے اردو زبان اور شاعری میں لوگوں کی دلچسپی کو برقرار رکھنے کا کام کیا۔
جگجیت سنگھ نے معروف اُردو شعراء کی غزلوں کو اپنی سحر آگیں آواز دے کر غزل کئی شعرائے اردو کو شہرت سے ہمکنار کیا۔قلم کاروں کی گمنام دنیا میں جگجیت سنگھ جیسے فنکار کی بدولت شعرا ء بھی خوب چمکے۔ شہرت کے اُس دور میںاردو زبان اور غزل نئے افق سے متعارف ہوتی رہی۔اسٹیج شو، ریکارڈنگ اور بالی ووڈ میں غزل کا ایک خاص مقام و مرتبہ سے ترقی کی منزلیں سر کیں۔غزل کی بے پناہ مقبولیت نے معاشرہ کے مختلف طبقات میں اردو شاعری اور غزل اور قطعات پر طبع آزمائی کی راہیں ہموارکیں۔
جگجیت سنگھ کی سحر آگیں اور مترنم آواز نے غزل گائیکی کے میدان میںاعلیٰ معیار قائم کئے، جن سے اردو دان اور غیر اردو دان طبقہ آج بھی لطف اندوزہوتاہے۔ جگجیت سنگھ کا شستہ انداز، سلجھا ہوا لب و لہجہ، الفاظ کی ادائیگی، آہنگ اور ترنم غزل کے سامعین کے ذہن پر آج بھی نقش ہے۔بجاطور پر کہا جاسکتا ہے کہ جگجیت سنگھ اردو غزل کو ہر خاص عام میںمقبولیت اور شہرت ِ دوام کی کوشش میں ایک بے حد اہم نام ہے۔
اُردو غزل کو ملک اوربیرون ملک میں متعارف کرانے میں جگجیت سنگھ کی طرح پنکج ادھاس نے بھی قابل قدر کارنامہ انجام دیا۔کلاسیکی موسیقی اور غزل گوئی سے پنکج ادھاس کا دنیا بھر میں شہرہ ہے۔ پنکج ادھاس نے بھی مشاعروں کے مقبول دور میں غزل گا ئیکی سے اپنے کیرئیر کی شروعات کی۔ملک اور بیرون ملک میں پنکج ادھاس نے غزل کے لائیو میوزیکل کانسرٹ پیش کئے۔ اس کے علاوہ پنکج ادھاس نے 1970ء کی دہائی سے ہی مختلف شعراء کی غزلوں پر ایلبم بنائے۔آہٹ 1980ء ، مکرّر 1981ء ، ترنم 1982ء ،محفل 1983ء ، نایاب 1985ء ، آفرین 1986ء جیسے بے مثال غزلوں کے ایلبم منظر ِ عام پر لاکر دنیا بھر کے غزل شائقین کی داد حاصل کی۔
مترنم آواز ،دلکش آہنگ اور ہارمونیم کے ساتھ اسٹیج پر اپنی خداداد صلاحیت اور فنکاری کا ثبوت پیش کیا۔ پنکج ادھاس کے مداح وسطی ایشیاء اور یوروپ کے علاوہ دنیا کے تمام ممالک میں موجود ہیں۔ ان مداحوں میں اردو
شاعری اور غزل کے شائقین کی کثریت ہے۔آواز اور آہنگ سے پنکج نے لوگوں کے دلوں میں جو غزل کی شمع روشن کی ہے اس کی لو کبھی ماند نہ ہوگی۔بام ِ عروج پر پنکج ادھاس نے جو ایلبم پیش کیا وہ ’نایاب‘کے نام سے بہت مشہور ہے۔اس ایلبم کی کچھ غزلیں عرصہء دراز تک گلی محلوں میں گونجتی رہیں۔ آج بھی یو ٹیوب اور سوشیل میڈیا پر ان غزلوں کی دھوم ہے۔
ہوئی مہنگی بہت ہی شراب کہ تھوڑی تھوڑی پیا کرو
پیو لیکن رکھو حساب کہ تھوڑی تھوڑی پیا کرو
نکلو نہ بے نقاب زمانہ خراب ہے
اور اس پہ یہ شباب زمانہ خراب ہے
پتھر کہا گیا کبھی شیشہ کہا گیا
دل جیسی ایک چیز کو کیا کیا کہا گیا
آئیے بارشوں کا موسم ہے
ان دنوں چاہتوں کا موسم ہے
آج وہی گیتوں کی رانی آج وہی ہے جانِ غزل
چلتے چلتے راہ میں جس کا ساتھ ہوا تھا پل دو پل
آج بھی اگر یہ غزلیں کہیںبجیں تو لوگ غیر شعوری طور پر گنگنا نے لگیں۔ ان غزلوں میں سر،آہنگ، نغمگی،ترنم کی ایسی دلنشیں آمیزش ہے جو سننے والوں کے جذبات کو ہلچل مچا دیتی ہے۔اپنی غزل گائیکی کی ذریعہ پنکج ادھاس نے فن ِ غزل گوئی کے معیار اونچا کیا۔
پنکج ادھاس کی فلم ’’نام‘‘ میں گائی ہوئی غزل
چٹھی آئی ہے آئی ہے چٹھی آئی ہے
بڑے دنوں کے بعد ہم بے وطنوں کو یاد
وطن کی مٹّی آئی ہے
فلم ’ساجن ‘ کی غزل۔۔۔۔۔۔
جئیں تو جئیں کیسے بن آپ کے
لگتا نہیں دل کہیں بن آپ کے
چاندی جیسارنگ ہے تیرا
سونے جیسے بال
ایک تو ہی دھنوان ہے گوری
باقی سب کنگال
اے غم ِ زندگی کچھ تو دے مشورہ
اک طرف اس کا گھر اک طرف میکدہ
پنکج ادھاس کی گائی ہوئی ان غزلوں کو لو گوں نے آہنگ اور ترنم سے ذہن نشیں کر لیا ، مگر ان غزلوں کے خالق سے آج بھی عوام بے خبر ہیں۔ نشیلی آواز اور انداز سے پنکج اور جگجیت جیسے گلوکار لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بن گئے۔
اردو زبان اور خصوصاً شاعری میں غزل کو ہر خاص و عام تک پہنچانے میں کئی طرح کی کوششیں رہیں۔اس کوشش میں پنکج ادھاس کی پُر کشش شخصیت، فنکاری اور سریلی آواز شعراء کی ترجمان بنی۔
پنکج ادھاس اور جگجیت سنگھ جیسے فنکاروں نے اردو زبان و ادب کی ترقی میں اپنی کاوشوں کا ثمرہ محفوظ کیا۔ جگجیت سنگھ اس دنیا میں نہیں رہے، البتہ پنکج ادھاس کی غزل گوئی آج بھی جاری ہے۔
پنکج ادھاس اور جگجیت سنگھ کی سریلی آوازاور غزل گوئی کے انوکھے انداز نے ہر دور میں غزل کے شائقین میں اضافہ کیا۔اردو غزل کی بے پناہ مقبولیت میں جگجیت سنگھ اور پنکج ادھاس جیسے بین الاقوامی شہرت یافتہ فنکاروں
نے اپنا حصّہ ادا کیا۔ ان گلو کاروں نے گنگا جمنی تہذیب کی نمائندہ صنف ِ سخن غزل کو نئے افق سے روشناس کیا۔ان کی ریاضت اور فنکاری سے غزل گائیکی اورغزل گو شعراء کے اعزاز میںغیر معمولی ترقی اور شہرت ہوئی۔
شعرائے قدیم اور جدید کو شہرہ آفاق پر لانے میں جگجیت سنگھ اور پنکج ادھاس جیسے فنکاروں نے اپنی قابلیت کا بجا طور پر استعمال کیا۔ آواز،آہنگ اور انداز سے دنیا کے منظر نامہ پر شعراء متعارف ہوئے۔ غزل سرا فنکارغزلوں کی وجہ سے عوام کے دلوں میں ہمیشہ رہیں گے۔اس غیر معمولی کوشش سے ابھرتے ہو ئے شعراء کے حوصلے بڑھے۔ غزل گوئی میں تلفّظ، الفاظ کی ادائیگی ، خوش گلوئی جیسی فنی صلاحیتوںاور قابلیت لئے نئے چہرے دنیاکے اسٹیج پر نمودار ہورہے ہیں۔
معنویت ، گہرائی و گیرائی اور تنوع کے پیمانے پر غزل لا محدود ہے۔ غزل کی لامحدود کائنات میں موجزن شاعر اپنی تخلیقی کاوش کے نئے گھروندے تیار کرتا ہے۔ یہ تخلیقی کاوش انفرادی ہوتے ہوئے بھی غزل سننے والے کے دل کی آواز بن جاتی ہے ۔اس انفرادیت کوکئی دلوں کی دھڑکن بنانے میں غزل سرا بے حد اہم کڑی ہے۔
اپنی جادوئی آواز اور گلو کاری سے پنکج ادھاس اور جگجیت سنگھ نے نہ صرف اردو غزل بلکہ انسانی جذبات کے ترجمان بنے۔بجا طور پرپروفیسر رشید احمد صدیقی نے غزل کو اردو زبان کی آبروقرار دیاہے۔غزل کی شہرت اور مقبولیت اس بات کا ثبوت ہے کہ غزل اردو زبان کے ساتھ ساتھ گنگا جمنی تہذیت کا بیش قیمتی نگینہ ہے۔
کاروان ِ غزل میں وقت کے ساتھ بے شمارآوازیں وقت کی پہچان بن گئیں۔ان آوازوں میں غزل گو شعرا ء کے شانہ بہ شانہ غزل گائک بھی برابر آگے بڑھے۔اس کاروان کی رنگینی اور شادابی میں غزل کے سامعین بلا تفریق ِ مذہب و ملّت رواں دواں ہیں۔اُردو زبان اور غزل کے شیدائی اس تاریخ ساز اور عہد آفریں سفر میں اپنی انفرادی دلچسپی اور غزل کے تئیں بے پناہ محبت سے ہر گام کو تاریخ سازبنانے میں اس مقبول ِ عام صنف ِ ادب کے عقیدت مند ہونے پر بجا طور پر فخر کریں گے۔
***