You are currently viewing فارسی بہ حیثیت  ہندستان کی کلاسیکی زبان

فارسی بہ حیثیت  ہندستان کی کلاسیکی زبان

پروفیسرخواجہ محمد اکرام الدین

ہندستانی زبانوں کا مرکز

جواہر لعل نہر ویونیورسٹی، نئی دہلی

فارسی بہ حیثیت  ہندستان کی کلاسیکی زبان

اور ہندستانی تہذیب کو اس  کی دین

شعبہٴ فارسی  ممبئی یونیورسٹی بالخصوص  پرفیسر سکینہ اختر کا بہت شکر گزرا ہوں کہ  اس پر وقار اور اہم سیمنار میں  شرکت کا موقع دیا ۔ فارسی زبان کے دانشوروں ، اساتذہ او ر طلبہ وطالبات کے درمیان اپنی موجودگی کو ایک  اعزاز  سمجھتا ہوں ۔اس  کرم فرمائی کے  لیے بھی ہدیہٴ تشکر پیش کرتا ہوں۔

یہ ایک وسیع  موضوع  ہے  کیونکہ سات سو سال تک فارسی ہندوستان کی سرکاری ، درباری اور کسی حد تک  عوامی زبان رہی ۔  1836میں   انگریزوں نے  فارسی کی بجائے انگریزی زبان کو فروغ دیا۔ اس وقت تک عوامی رابطے کےطور پر  اردو   کوخاص  مقام حاصل ہوچکا تھا ۔ لیکن یہ ذہن نشیں رہے کہ   اردو بھی  فارسی زبان کی مرہون منت ہے۔ فارسی  زبان و تہذیب نے ہندستانی تہذیب  پر       بہت گہرے نقوش مرتب کیے ہیں ۔بودو باش ، خورد ونوش سے لے کر طرز تعمیر  تک  زندگی کے ہر شعبے میں  ان نقوش کو دیکھا جاسکتا ہے  لیکن اس  پر تفصیلی  بات کرنے سے قبل  فارسی اور  اردو کا ایک ایک شعر  پڑھنا چاہوں گا تاکہ اِن ثقافتی  لین دین اور اثر و تاثیر کو  سمجھاجاسکے ۔ سلیم تہرانی کا یہ شعر :

نیست در ایراں زمیں، سامانِ تحصیلِ کمال

تا نیامد    سوی هندستاں ،     حنا    رنگین نشد

  حنا  میں  رنگینی اسی وقت آئی جب یہ ہندستان کی جانب آیا ۔ یعنی  ایرانی ثقافت کی  نیرنگی  ہندستان میں  زبان فارسی کی آمد کے بعد دیکھی جاسکتی ہے ۔ کیونکہ کوئی بھی زبان محض  وسیلہٴ اظہار ہی نہیں ہے بلکہ وہ مکمل تہذیب  کی نمائندہ ہوتی ہے ۔اس لیے فارسی جب ہندستان میں آئی تو اپنی تہذیب و ثقافت کے جلوہٴ صد رنگ کے ساتھ آئی ۔ اس  زبان کی شیرینی  ’’ہند۔ ایرانی تہذیب‘‘ میں  دیکھی جاسکتی ہے ۔ اس زبان کے  دور رس  اثرات کی نشاندہی کرتے ہوئے  حافظ  شیرازی نے کہا تھا  ؟

ساقی حدیثِ سرو و گل و لالہ می‌رود

وین بحث با ثَلاثِهٔ غَسّاله می‌رود

شِکَّرشِکن شَوَند همه طوطیانِ هند

زین قندِ پارسی که به بَنگاله می‌رود

حافظ  شیرازی کی اس غزل کا سیاق و سباق اگرچہ  کچھ اور ہے مگر یہ تو  مسلم ہے کہ زبانِ فارسی کو ہندستان کی تمام اقوام نے اپنایا۔ اسی لیے   رابطے سے لے کر تخلیق  کی منزل تک اس زبان کی  شیرینی و شگفتگی کو ہندستانی  معاشرے کے تمام شعبہ ہائے زندگی میں دیکھا جاسکتا ہے ۔ لیکن  یہ کیسے ممکن ہوا ؟ او ر کیونکر ہوا؟ کہ ایرانی  تہذیب  کے نمایاں  اثرات   اب تک موجود  ہیں ۔ اس کو سمجھنے کے لیے  فراق گورکھپوری کا یہ  شعر سنیں :

سر زمینِ ہند پر اقوام عالم کے فراق      قافلے آتے گئے ، ہندستاں بنتا گیا

 ان قافلوں کی  آمد کی داستان بھی عجیب و غریب ہے اور خوب ہے۔ ان قافلوں میں   سب سے پہلے آریا ئی قافلے  ہیں۔ جب یہ قافلہ ہندستان  وارد ہوا تو یہاں کی قدیم آبادی یعنی  دراوڑ قوم کو ہندستا ن کے جنوبی کونے میں محدود کرکے ہندستان کی تسخیرو تعمیر میں حصہ لیا۔ یقیناً ہندستان کی سر زمین پر آریوں کی آمد ایک نئے ہندستان کی تعمیر کی جانب ایک اہم قدم تھا۔ انھوں نے ہندستان کو جغرافیائی اور تہذیبی شناخت دی۔ وید ، پُران، اپنشد اور گیتا کے ذریعے الوہیت اور عبادت و عقیدت کا پیغام دیا۔

 لیکن ساتویں صدی عیسویں اور عہد وسطیٰ میں مسلمانوں کی آمد سے اس ہندستانی رنگ میں ایک نئے رنگ کا اضافہ ہوا۔ ایسا رنگ جس میں سارے رنگ یکجا ہوگئے اور ان سے مشترکہ رنگ و نور کی بنیاد پڑی۔ ایک طرف فارسی زبان میں  تخلیق  و تصنیف   کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو آگے چل کر ” سبک ہندی ” کے نام سے  موسوم ہوا تو دوسری جانب  ایرانی طرزِ تعمیر ، مصوری، نقاشی ، موسیقی اور تصوف  کے رنگ نے  ہندستان میں تہذیبی اقدارو روایات کی ایسی  بنا ڈالی  جس نے ہندستان کو کثرت میں وحدت کا مثالی ملک بنادیا۔اس مشترکہ تہذیب کے عہد میں جس زبان  نےتخلیق و تصنیف کے ذریعے  علم و فن اور شعر وادب  کے خزینے سے ہندستانی  ادب کو ثروت  مند بنایا وہ بلا شبہ فارسی تھی ۔اور جس زبان  نے عوامی ترسیل و ابلاغ کا کام کیا وہ کچھ حد تک فارسی اور بڑے پیمانے پر ہندوی یا ہندستانی  تھی  جو آگے چل کر  ’اردو ‘ کہلائی۔

ہند ۔ایرانی تہذیب و ثقافت اور زبان وادب کی اس رنگا رنگی کو سمجھنے سےقبل ایک مسلمہ حقیقت کی جانب آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں ۔۔۔اس دنیا کی سب سے حیرت افزا  حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی چیز  دائمی نہیں ،کسی بھی شئی کو  استقرار و استحکام حاصل نہیں ہے ۔ میں سمجھتا ہو ں   کہ قدرت  کے اسی اصول کے سبب  دنیا  میں  رنگارنگی قائم ہے ۔ گردشِ  روز و شب کے  سبب  تمام اشیا   میں مختلف   جہتوں سے   تغیر و بدل    کا  عمل  جاری و ساری رہتا ہے اسی لیے کبھی نشیب اور کبھی فراز کی داستانیں  سامنے آتی رہتی ہیں۔    زندگی کے تمام  شعبوں کی  طرح  تاریخ و ثقافت میں بھی نمایاں تبدیلیاں آتی رہی ہیں ۔ ہندستان میں  فارسی  زبان وادب  کی  تاریخ کا جب مطالعہ کرتے ہیں کہ تو دیکھتے ہیں کہ اس میں    کتنے ایسے موڑ آئے ہیں جس نے فارسی کو مسلسل   فراز  کی طرف  گامزن کیا او ر فارسی زبان  کو ہندستان میں  ایسی   ترقی اور مقبولیت  حاصل ہوئی کہ اس  جیسی مثال   دنیا کی  کسی لسانی تاریخ میں دیکھنے کو نہیں  ملتی ۔

فارسی نے   جب ہندستان میں قدم رکھا  تو اس کا  سامنا ہند آریائی زبانوں  سے    ہوا ۔ فارسی  جب  ہندستان آئی تو   وہ ایک ثروت مند زبان کے  طور پر  آئی ۔میری مراد یہ  ہے کہ فارسی  میں اعلیٰ ادبی  شہہ پارے موجود تھے اور  فارسی علوم  و فنو ن کی زبان کے طور پر دنیا کے بڑے خطے میں مقبول  و معروف  تھی ۔اسی لیے اس زبان  کے اثرات  یہاں کی زبانوں پر مرتب ہوتے ہیں  ۔چونکہ یہ حکمراں کی زبان تھی اس  لیے بھی اس کے اثرات   وسیع پیمانے  پر مرتب ہوئے ۔ ۔۔۔۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ  ہندستان کی علمی ، ادبی اور مذہبی زبان   سنسکرت کے تخلیقی سوتے   خشک ہونے لگے تھے ۔ دسویں گیارھویں صدی عیسوی یعنی مسلمانوں کی باقاعدہ آمد سے بہت پہلے سے سنسکرت کے تخلیقی سوتے خشک ہو چکے تھے۔ عوامی سطح پر ہر علاقے کی اَپ بھرنش کو قبولیت عامہ کا درجہ حاصل ہورہا تھا۔ سنسکرت ایک مخصوص طبقہٴاولیٰ کی زبان ہو کر رہ گئی تھی۔ایسے میں فارسی حکمرانوں کی سرپرستی میں تیزی سے  پروان  چڑھنے لگی  اور خواس و عام میں مقبول ہونے لگی۔

تاریخ لسان کا دوسرا عجوبہ  یہ بھی دیکھیں   کہ دنیا کی تاریخ میں   بہت سی  ایسی مثالیں موجود ہیں کہ  تمدنی اور تہذیبی  حوالوں سے قوموں کا اختلاط و اشتراک ہواہےمگر کہیں اس کے سبب کوئی نئی زبان  وجود میں نہیں آئی ۔  ہندستان  میں اشتراک کی یہ واحد ایسی مثال ہے  جہاں   مختلف قوموں اور نسلوں کے اختلاط سے  اردو جیسی عظیم زبان  وجود میں آئی ۔ ۔۔۔۔ اس طرح اگر دیکھیں تو  فارسی زبان  نے  اردو  کو بال و پر عطا کیے۔اسی لیے  کئی دانشورو ں کا  یہ بھی خیال ہے کہ ہندستان میں اردو جیسی  زبان  ،تاج محل اور لال قلعہ جیسی  پُر شکوہ  عمارتیں  فارسی   کی دین ہیں ۔

فارسی چونکہ  ہندستان میں کم و بیش سات سو سال تک  حکومت کی زبان  رہی اس لیے فارسی زبان اور تہذیب کے اثرات  بہت گہرائی تک ہندستان کی سرز مین میں پیوست ہیں، یہ اَنمِٹ ہیں، ان نقوش کوزوال نہیں ہے،   کیونکہ یہ اثرات  اب ہندستانی  تہذیب کا خاصہ  بن چکے ہیں ۔رہی یہ بات کہ ہندستان میں فارسی زبان  کی ابتدا کب ہوئی؟ اور فارسی تہذیب نےکس  عہد سے ہندستانی تہذیب پر اپنے اثرات مرتب  کرنا شروع کیا ؟تو اس سلسلے میں محمد ریاض’’  فارسی ادب کی مختصر ترین تاریخ     ‘‘میں  لکھتے ہیں کہ :

“ایران اور برصغیر پاک و ہند کے تعلقات کی تاریخ تو اتنی ہی قدیم ہے جتنے قدیم خود یہ ممالک ہیں ۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کی تحقیقات کے مطابق تو یہ روابط آریائی  تمدن سے پہلے بھی قائم تھے۔ اور ہندوستان آنے والےآر یہ تو ایران میں کافی عرصہ گزار کر یہاں آئے ۔”

( فارسی ادب کی مختصر ترین تاریخ     ۔ محمد ریاض ۔ ڈاکٹر صدیق شبلی ۔ صفحہ149کتابی دنیا  نئی دہلی ۔ ۲۰۰۲)

اور آگے کہتے ہیں کہ:

” مسلمان سب سے پہلے مکران و سندھ آئے۔ اور فارسی زبان بھی پہلے انہی علاقوں میں آئی ۔ محمد بن قاسم کی فوج میں ایرانی بھی شامل ہوں گئے۔ کیونکہ حملہ آور ہونے سے پہلے اس نے تیاری کے لئے اپنا کیمپ کئی ماہ تک شیراز میں رکھا تھا۔ چوتھی صدی ہجری کے عرب جغرافیہ نویسوں ابن حوقل مقدسی اور اصطخری نے مکران سے ملتان تک فارسی زبان کے رواج کا ذکر کیا ہے ۔ شاید عربی تمدن کے غلبہ کی وجہ سے سندھ میں فارسی زبان فروغ نہ پاسکی۔ اس شیریں زبان کوہندوستان میں پھیلانے کی سعادت غزنویوں کے حصے آئی۔”

(( فارسی ادب کی مختصر ترین تاریخ     ۔ محمد ریاض ۔ ڈاکٹر صدیق شبلی ۔ صفحہ151کتابی دنیا  نئی دہلی ۔ ۲۰۰۲)

ان اقتباسات سے اتنا تو معلوم ہوتا ہے کہ ہندستان سے   فارسی زبان  و تہذیب کے روابط بہت قدیم  ہیں ۔ اس زبان کی ترقی کا ایک  طویل ، مستحکم اور  مسلسل  سلسلہ ہے ۔ گیارہویں صدی کے بعد سے افغان خاندان، جن میں غزنوی، دہلی سلطنت اور مغل خاندان قابل ذکر تھے۔ اِن سلطنتوں کے دربار اور انتظامیہ میں فارسی کو سرکاری حیثیت حاصل تھی۔ اس نے بڑی حد تک برصغیر میں سیاست، ادب، تعلیم اور سماجی حیثیت کی زبان کے طور پر سنسکرت کی جگہ لے لی۔ اس طرح فارسی نے وسیع پیمانے پر ایک وسیع اور غیر فرقہ وارانہ زبان کا کردار ادا کیا جس  نے خطے کے متنوع لوگوں کو باہم مربوط کیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔ مغلیہ سلطنت کے عروج کا زمانہ فارسی  کے عروج کا زمانہ   ہے او ر اس  کے بتدریج زوال کے ساتھ فارسی کا  بھی زوال شروع ہوا۔

جملہ معترضہ کے طور پر  یہ بات کہتا چلوں کہ ایک  طرف مغلیہ سلطنت کا چراغ ٹمٹما رہا تھا تو دوسری جانب  اردو کی شمع  رنگ و نور بکھیر رہی تھی۔۔۔۔لیکن اس کا سہرا بھی فارسی کےہی سر جاتا ہے۔

فارسی نے ہندوستانی  یعنی  اردو ۔ہندی کے نشو ونما میں نمایاں کردار ادا کیا،لیکن دیگر زبانوں جیسے  پنجابی، سندھی، گجراتی ، کشمیری، بنگالی، مراٹھی، راجستھانی، اور اوڈیا  وغیرہ زبانوں میں بھی فارسی  کے الفاظ  کافی مقدار میں موجود ہیں۔(موجودہ  دور میں یہ تعداد بتدریج کم ہوتی جارہی ہے ) ۔۔۔۔ فارسی نے 1837 میں ایسٹ انڈیا کمپنی میں اپنی سرکاری حیثیت کھو دی، اور اس کے بعد کے برطانوی راج میں فارسی سرکاری  سرپرستی  سے باہر ہو گئی۔لیکن  تقریباً سات سو سال تک  فارسی ہندستان کی سرکاری زبان  رہی۔

فارسی  زبان  ہندستان میں  کیسے ترقی کرتی ہے؟ اس پر  زیادہ  تفصیل سے بات کرنے کے بجائے فارسی  زبان  نے ہندستانی ثقافت پر  کیسے اثرات مرتب کیے ہیں ان پہلوؤں پر  بات کی جائے گی۔

طرز تعمیر

 فارسی کے عہدِ عروج  میں  یا مسلم حکمرانوں کے عہد میں ہندستان  میں  طرزِ تعمیر کا  ایک نیا رنگ ڈھنگ  سامنے آیا ۔ اس

  فنِ تعمیر  میں فارسی طرز ِ ثقافت  اختیار  کیا گیا ، جس  کے نتیجے میں گنبد، ایوان، مینار،محراب  سامنے آئے ۔غوث سیوانی  نے اپنے مضمون “مغل طرز ِتعمیرکے امتیازات و خصوصیات” میں لکھا ہے کہ:

“امریکی قصر ِصدارت وائٹ ہاؤس ہو یا انگلینڈ کی رانی کا محل، عرب کے بادشاہوں  کے شاہی محلات ہوں یا یوروپ کے حکمرانوں کی تعمیرات،آپ کو ایک بھی ایسی عمارت نہیں ملے گی جو مغل طرز ِتعمیرکی جھلک سے بالکل خالی ہو۔ اصل میں ”ہند۔ اسلامی” طرزتعمیر کی مغل دور میں خوب ترقی ہوئی ۔ مغلوں نے اس میں نئے نئے تجربے کئے اور ان کے حسن ونزاکت کے سبب دنیابھر میں انھیں شہرت حاصل ہوئی۔مغل طرز تعمیر میں فارس، ترکی، وسطی ایشیا، گجرات، بنگال، جونپوراور جنوبی ہند کی طرز تعمیر کومرکب شکل میں دیکھا جاسکتا ہے۔اسی کا نام مغل طرز تعمیر ہے۔ ماہر تعمیرات پیرسی براؤن نے ہندوستانی فن تعمیر کا موسم ِبہارمغل دور کو قراردیا ہے، جب کہ ساری دنیا کی طرز تعمیر پر تبصرہ کرنے والے اسمتھ نے مغل فن تعمیر کو آرٹ کی رانی کا نام دیاہے۔ مغلوں نے بڑے بڑے محلات،باغات، قلعے ، دروازے، مساجد ومقبرے وغیرہ تعمیر کرائے۔ انھوں نے ایسے باغ بنوائے جن میں جھرنے اور چشمے تھے۔انھوں نے محلوں اور دیگر عیش و آرام والی عمارتوں میں بہتے پانی کی نہریں جاری کیں جن کے نشانات آج بھی موجود ہیں۔”( قندیل آن لائن ) https://rb.gy/pe11a2

اس طرز تعمیر کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ ایرانی یا مغل تعمیر نے ہندستانی اثرات بھی قبول کیے آپ  ہندستان  کی مسجدوں  کی تعمیر کو دیکھیں تو وہ چپوترے پر بنی ہوئی ہیں اور چبوترہ سازی ہندستانی روایت کا  حصہ ہے ۔ دہلی، لاہور  کی شاہی  جامع مسجد  اس کی مثالیں ہیں ۔ اس طرح ہندستانی  طرز تعمیر میں ایک    مشترکہ  امتزاج نظر آتا ہے :(مسجد  لطف اللہ اصفہان یا  شیراز و یزد کی مساجد  زمین کی سطح سے ہیں )

ڈاکٹر تاراچند    اپنی کتاب”  اسلام پر ہندستانی تہذیب کے اثرات ” میں لکھتے ہیں :

“اس زمانے کے ہندوستانی فنِ تعمیر میں بھی اسی امتزاج کا رجحان ظاہر ہوتا ہے۔ ہندو محلات،منادر اور یادگاریں اب پچھلے زمانہ کے خاص طرز پر نہیں تعمیرہوئیں ۔ان میں نہ صرف فنِ تعمیر کے مسلم عناصر کام میں لائے گئے، بلکہ ایک نئی روح ان میں پائی جاتی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قدیم جمالیاتی اقتدار کسی حد تک بدل گئے تھے۔ مزید برآں یہ اثر ملک کے کسی خاص خطے ہی تک محدود نہیں ہے۔ بہت زیادہ ممتاز تو یہ راجپوتانہ اور وسطی ہند کی ہندو ریاستوں اور متھرا اوربرندابن اور بنارس کے مقدس مقامات میں نظر آتا ہے اور دور دراز ملک کھٹمنڈو اور جنوب ہند میں مدورائی تک اس کا اثر ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کی مسجدیں مقبرے اور محلات ہندوستانی ہیں مسلمانوں نے نام نہاد عرب  اور ایرانی فن تعمیر سے کچھ معین خصوصیات مستعار لیں لیکن ہندوستان میں ایک نیا طرزیا یوں کہیے کہ کئی نئے طرز نکالے جن میں ہند و طرز کی روایات کا تسلسل ہے۔ در اصل اس دور کے فن تعمیر کے اسکول خواہ ہندو ہوں یا مسلم ایک ہی درخت کی دو شاخیں ہیں اس لئے کہ دونوں کی جڑیں ایک ہیں ۔ ان کا مقصد تو الگ الگ ہے، لیکن ان کی ہیئت اور خصوصیت ایک ہے ۔ “

(اسلام پر ہندستانی تہذیب کے اثرات۔ ڈاکٹر تاراچند، ص 174-175،  آزاد کتاب گھر ، کلاں محل  ، دہلی ۔1972)

مصوری اور نقاشی 

فارسی  زبان کسی بھی دیگرترقی یافتہ  زبان کی طرح  اپنے اندر فنونِ لطیفہ کی تمام اقسام کو  اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے ۔ مصوری اور نقاشی  فارسی  کلچر کا ایک اہم جز ہےجس نے ہندستانی مصوری اور نقاشی پر بھی اثرات مرتب کیے اور اپنی خوبصورتی کابھی لوہا منوایا ۔لیکن  ہندستان میں بھی مصوری  کے  نمونے موجود تھے ۔ ڈاکٹر

تارا چند نے اس حوالے سے لکھا ہے کہ :

“ہندوستانی مصوری خواه مغل ہو یا راجپوت اس کا بھی وہی حال ہے جو فن ِتعمیر کاہے بلکہ اس میں تو فن تعمیر سے بھی زیادہ ایک ہی جمالیاتی اصول دونوں طرز کے فن میں کار فرما ہے۔ اجنٹا کے اور دہلی یا جے پور کے طرز میں بڑا فرق ہے خطوط، رنگ اور تناسب ہر چیز بدلی ہوئی ہے، لیکن دہلی، جے پور یا کانگڑہ میں فرق  بس اسی قدر ہے جیسے ایک ہی اسکول کے دوفنکاروں میں ہوتا ہے، اس سے زیادہ نہیں ۔ وسط ایشیا اور ایرانی آرٹ کا اثر نمایاں ہے لیکن ہندوستانی آرٹ خواہ وہ مغل بادشاہوں یانوابوں کے درباروں کا ہو یا را جپوتا نہ یا تنجور کے راجاؤں کےہند و      درباروں کا، محض غیر ملکی نمونوں کی اندھی نقالی نہیں ہے، اس کی خود اپنی انفرادیت ہے اور اس کو مسلم ہند و آرٹ ہی کہا جا سکتا ہے۔”

((اسلام پر ہندستانی تہذیب کے اثرات۔ ڈاکٹر تاراچند، ص 175،  آزاد کتاب گھر ، کلاں محل  ، دہلی ۔1972)

موسیقی

ہندستان میں موسیقی کی  طویل روایت موجود ہے ۔ لوک گیت یا عوامی سطح پر موجود  رقص و سرود کے علاوہ  ہر طرح کی تقریبات اور سماجی اور مذہبی اہتمامات کے مواقع پر   موسیقی   نے   رنگینیاں  بکھیری ہیں ۔مذہبی اعتبار سے  دیکھیں تو   ہندستان میں بھجن اور  آستھا  کے گیت    کی مضبوط روایت  تھی ، ان میں  آلات موسیقی  کا استعمال بہت کم تھا ۔ فارسی حکمرانوں کے  دور میں اس میں خاطر خواہ ترقی ہوئی ۔ خاص طور پر امیر خسرو کے زمانے میں  موسیقی   نئی بلندیاں   کو چھونے لگی اور اس میں بھی مشترکہ رنگ و نور  نظر آنے لگا۔ طبلہ ، ستار ، دف  جیسے آلات کا استعمال اوربھجن کے دوش بدوش  صوفیانہ  قوالی کی ابتدا  ہندستانی موسیقی میں   ایک نیا او ر انوکھا رنگ تھا ۔ قوالی ابتداً خالص  فارسی زبان میں  تھی  جو صوفیاکے خانقاہو ں میں مجلس سماع  کے موقعے پر گائی جاتی تھی ۔عہد رواں میں بھی فارسی کلام قوالی  کی شکل میں بھی پیش کیاجاتا ہے ۔ مولانا عبد الرحمان   جامی کا یہ کلام ہندستان کے بیشترخانقاہوں میں آج بھی  پڑھا جاتاہے ۔   :

تنم فرسودہ جاں پارہ ، ز ہجراں ، یا رسول اللہ

دِلم پژمردہ آوارہ ، زِ عصیاں ، یا رسول اللہ

( یا رسول اللہ آپ کی جدائی میں میرا جسم بے کار اور جاں پارہ پارہ ہو گئی ہے ۔ گناہوں کی وجہ سے دل نیم مردہ اور آورہ ہو گیا ہے )

چوں سوئے من گذر آری ، منِ مسکین زِ ناداری

فدائے نقشِ نعلینت کنم جاں ، یا رسول اللہ

(یا رسول اللہ اگر کبھی آپ میرے جانب قدم رنجہ فرمائیں تو میں غریب و ناتواں ۔ آپ کی جوتیوں کے نشان پر جان قربان کر دوں۔ )

خسرو کے کلام  کی دوسری مثال :

چشم مستے عجبے زلف درازے عجبے

مے پرستے عجبے فتنہ طرازے عجبے

(وہ محبوب) عجب مست چشم ہے، عجب دراز زلفوں والا، عجب مئے پرست، عجب فتنہ طراز ہے۔

بہر قتلم چوں کشد تیغ نہم سر بہ سجود

او بنازے عجبے من بہ نیازے عجبے

میرے قتل کے لئے جب وہ تلوار کھینچتا ہے تو میں سر بسجود ہوجاتا ہوں (یعنی قتل کے لئے تیار ہوجاتا ہوں)، وہ عجیب ناز والا ہے، میں عجیب نیاز والا ہوں۔

حضرت خواجہ عثمان ہارونی  کے کلام  میں اسی سرمستی کو ملاحظہ کریں جس کی باز گشت  ہندستانی خانقاہوں میں سنائی دیتی ہے :

نمی دانم کہ آخر چوں دم دیدار می رقصم

مگر نازم بہ آں ذوقے کہ پیش یار می رقصم

خوشا رندی کہ پامالش کنم صد پارسائی را

زہے تقویٰ کہ من با جبہ و دستار می رقصم

تو آں قاتل کہ از بہر تماشا خونِ من ریزی

من آں بسمل کہ زیر ِخنجر خونخوار می رقصم

بیا جاناں تماشہ بیں کہ در انبوہ جاں بازاں

بصد سامان رسوائی سر بازار می رقصم

منم عثمان ہارونیؔ کہ یار شیخ منصورم

ملامت می کند خلقے و من بر دار می رقصم

بہر کیف خانقاہوں  کی محفل سماع میں فارسی کلام آج بھی قوالی کی شکل میں  گایاجاتا ہے ۔۔۔۔۔ لیکن ایک  اور دلچسپ پہلو کی طرف اشارہ کرتا  چلوں کہ  فارسی کے  ساتھ ساتھ ہندوی  زبان میں  اور ریختہ ( یعنی  ہندوی اور  فارسی کو ملا کر )میں خسرو نے  عشق مجازی سے عشق حقیقی تک کے منزلوں کو نغمہ و سرود میں پیش کیا جو آج بھی اسی اشتیاق سے سنا جاتا ہے :

زحال مسکیں مکن تغافل دورائے نیناں بنائے بتیاں

کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں

شبانِ ہجراں دراز چوں زلف و روزِ وصلت چوں عمر کوتاہ

سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

یکایک از دل، دو چشم جادو بصد فریبم بہ برد تسکیں

کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں

ان حوالوں سے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ  فارسی زبان و تہذیب کے ارتقا سے  ہند ایرانی  تہذیب وجود میں آتی ہے۔ اس تہذیب کے  اثرات   دو طرفہ تھے ۔ ۔۔۔خاص طور عشق و عرفان کے تصورات یا تصوف کے ضمن میں یہ اثرات بہت واضح نظر آتے ہیں ۔لیکن اس رنگ میں ہندستانی رنگ کی آمیزش بھی کی گئی ۔ یہاں صرف ایک مثال  پیش کرتا ہوں کہ خسرو نے ہندستانی روایت کی پیروی کرتے ہوئے  اپنے عشق و سرمستی کے اظہار کے لیے  عورتوں  کی زبان اور لب و  لہجے کو اختیار کیا ۔ یہ خالصتاً  ہندستانی  روایت تھی ۔۔۔۔۔ عورتوں کے جذبات میں صداقت ۔۔۔۔مثال :

خسرو باجی پریم کی میں کھیلوں پی کے سنگ         جیت گئی تو پیا مورے، ہاری پی کے سنگ

گوری سوئے سیج پہ مکھ پہ ڈارے کیس              چل خسرو گھر آپنے رین بھئی چوہدیس

اور بھی کئی مثالیں  دی جاسکتی ہیں ۔۔لیکن اب  ان اثرات کی  ایک اور مثال ملاحظہ ہو۔ تصوف  اور بھگتی   میں :

تصوف

گیارھویں صدی کی غزنوی فتوحات نے برصغیر پاک و ہند میں فارسی کو متعارف کرایا۔ اور تیرھویں صدی میں دہلی میں فارسی ادب وثقافت کا ایک بڑا مرکز بن گیا۔غوری سلاطین کے بعد دہلی سلطنت کے قیام کے ساتھ یکے بعد دیگرے خلجیوں اور تغلقوں نے زبان و ادب کی سرپرستی کی۔ اسی عہد میں طوطیٔ ہند امیر خسرو نے ہندوی کے ساتھ فارسی میں  تصوف  و عرفان کے نغمے سے  اسے ثروت مند بنایا ۔اس حوالے سے کئی بڑے نام لیے جاسکتے ہیں   جن میں خسرو،  بیدل ، غالب ، اقبال   جنھوں نے ہندستا ن میں  فارسی شاعری کو نئی بلندیاں عطا کیں ۔لیکن صرف یہی چند نا م نہیں  ہیں بلکہ پورا ایک سلسلہ ہے جو اب تک چلا آرہا ہے ۔ان کے شاعری میں  جو رنگ و آہنگ ہے وہ بلاشبہ  دونوں  تہذیبوں کا حسین سنگم ہے ۔ ۔۔۔۔ ہندستان میں  تصوف اور بھگتی کے مضامین  فارسی  کے اثرات سے لبریز ہیں ۔خود  ہندستانی صوفیوں نے فارسی کو ہی اپنی تصنیف و تالیف کا ذریعہ بنایا۔ان میں شیخ  علی ہجویری ،خواجہ معین الدین چشتی ،نظام الدین اولیا ، شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیری، مخدوم جہاں   جہانگیر سمنانی رحمة اللہ علیھم اجمعین وغیرھم تمام صوفیا نے فارسی زبان میں  تصوف کے مضامین کو بیا ن کیا، ان کے ملفوظات بھی فارسی میں ہیں ۔۔۔۔ (  اردو زبان میں نقد شعر کی جو روایت ہے وہ عربی و فارسی  فارسی کا تتبع ہے ۔ لیکن اردو کے تنقید کے ابتدائی نمونے یعنی تذکرے زبان فارسی ہی میں لکھے گئے )

تصوف یا  اگر ہندی میں کہیں  تو ادھیاتمک  فکر کے تحت ہندستان  میں بھی  صوفیا اور ہندو  سنتوں نے دنیا    اورآخرت کو سمجھنے کی کوشش کی ۔’’ہندو اور مسلمان دونوں کا ذہن ایک ہی قسم کے مسئلوں سے دوچار تھا۔ ہندو ویدا نیتوں کی طرح مسلمان صوفی بھی انسانی زندگی کے راز کا حل تلاش کرنے میں لگے تھے۔ اس عالم میں انسان کے ظہور کے کیا معنی ہیں؟ اور پھر انسان کے دینوی اور آخرت کے حساب کا کیا مقصد ہے؟۔ کیوں اس کا وجدان اخلاقی قوتوں کا میدان کارزار بنا ہوا ہے۔ کیا اعمال ہیں  جن سے اعلیٰ اور ادنی تقاضوں کی کشمکش پر قابو حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ دائمی مسرت اور ابدی شاد کامی کا سر چشمہ کہاں ہے؟‘‘انسان   اور اس  کائنات  کی تخلیق کا سبب کیا ہے ؟۔۔۔۔۔ یا غالب کی زبان میں یوں کہیں :

نہ تھا کچھ تو خدا تھا ، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے ، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

یہی وہ سوال ہے جس کا جواب صدیوں سے ڈھونڈاجارہا ہے۔۔۔۔۔۔دھرم کے ذریعے ۔۔ ۔۔ درشن کے ذریعے ۔۔۔۔۔۔۔فلسفہ او ر فکر  کے ذریعے ۔۔۔۔ہندستان میں بھی اس سوال کے جواب کو کئی طرح سے ڈھونڈنے کی کوشش ہوئی ہے ۔۔۔ ۔وید ، اپنیشد، گیتا ، پران ، دھرم ، بھگتی ، تیاگ ، تپسیا ۔نروان ،  گیان  ،  عبادت، ریاضت ، کشف ، عرفان   اور عشق ۔۔۔ ۔۔۔۔۔یہ وہی راستے ہیں جس کو ہم   تصوف اورروحانیت  کہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔اوراس راہ پر چلنے والے صوفی ، سادھو ، پیر فقیر ۔۔۔۔۔ کہلاتے ہیں ۔۔۔۔۔لیکن یہاں میں تصوف کے ان مسائل و مباحث  کی طرف آپ کو نہیں لے جانا چاہتا ۔ لیکن اس راہ کے  اُس ا ہم عنصر کی طرف آپ کی  توجہ  مبذول کرانا چاہتا ہوں جو بہت حد فارسی  فکر و شعور کا   بھی حصہ ہے ۔ ۔۔۔۔ عشق عشق اور عشق ۔۔ یہی  وہ واحد راستہ ہے جو بندے کو خدا سے قریب کرتا ہے ۔ اب آپ حافظ  شیرازی کو  پڑھیں  ،مولانا جامی یا مولانا روم کو یا  فارسی شاعری کے اس  غالب رجحان کواکثر فارسی شعرا کے یہاں   پڑھیں  ۔۔۔عشق کو ہی  اہمیت دی گئی ہے ۔۔۔ ہندستان میں  بہت حد تیاگ اور تپسیا کے راستے   نروان  پراپت کرنے کی  بات  کی گئی  ہیں لیکن   ہند ایرانی ، ہند اسلامی   اثرات  کے تحت اور بالخصوص فارسی  اثرات نے   عشق کو  منزل اول  قرار دیا ۔

صوفی کے خیال میں یہ روحانی سفر ایک والہانہ عشق کی حیثیت رکھتا تھا جس کا راستہ کانٹوں کے جنگل سے ہو کر گزرتا ہے  اور ایسے مقامات سے گزرتا ہےجہاں قدم قدم پر ٹھوکر لگنے کا اندیشہ ہے لیکن اگر ارادے میں تزلزل نہیں اور عزم صمیم ہے تو اسے طے کرنا اور اس منزلِ مقصود تک پہنچنا مشکل نہیں شمس تبریزی  کی زبانی سنیں :

عقل گویدشش جهت حد است و بیرون راه نیست

عشق گوید راه هست و رفتہ ام من بار ہا

اقبال نے اسی خیال کو بہت  سلیس انداز میں یوں کہا ہے :

عشق کے ایک جست نے کردیا قصہ تمام

اس جہان ِ رنگ و بو کے بیکراں  سمجھا تھا میں

خسرو اسی خیال کو کہتے ہیں :

خسرو دریا پریم کا الٹی واں کا دھار

جو اترا سو ڈوب گیا، جو ڈوبا سو پار

اور کبیر کہتے ہیں :

جن ڈھوندا تن پائیاں ، گہرے پانی پیٹھ

میں بوری ڈھونڈن گئی ، رہی کنارے بیٹھ

جامی :

بندہٴ عشق شدی ترک نسب کن جامی

کہ دریں راہ فلاں ابن فلاں چیزے نیست

کبیر :

جات نہ پوچھوسادھو کی، پوچھ لیجیو گیان

مول کرو تووار کا، دھری رہن دیو میان

خسرو کی مشہور غزل میں اسی  لے اور آہنگ کو  دیکھیں  ۔

کا فرعشقم مسلمانی مرا در کار نیست

ہر رگ تن تا ر گشته حاجت زنار نیست

خلق می گوید که خسر و بت پرستی می کند

آری آری می کنم با خلق عالم کار میست

عطار خسرو سے بھی سبقت لے گئے ہیں :

مسلمانان من آن گبرم ،که بت خانہ بنا کردم

شدم بر بامِ بت خانه، در این عالم ندا کردم

صلای کفرِ در دادم شما را ای مسلمانان

که من آن کهنه بتها را، دگر باره جلا کردم

کبیر اسی خیال کے تسلسل کو اس طرح بیان کرتے ہیں :

پاہن پوجے تو ہری ملے ، تو میں پوجوں پہاڑ

تاتے پہ چاکی بھلی پیس کھائے سنسار

عطار کایہ شعر دیکھیں :

گر سر ِعشق خواهی از کفر و دیں گذر کن

کانجا کہ  عشق آمد، چه جائ کفر و دین است

کبیر :

پریم نہ باڑی اُپجے ،پریم  نہ ہاٹ بکائے

راجا پرجا جو ہی رُچے، سیس دےہی لے جائے

فارسی  شاعری میں ریاکاری کو ہدف طنز بنایا گیا ، زاہد و واعظ کو بھی  نہیں بخشا ۔ ان اثرات کو ہندستانی ادبیات میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے ۔مثالیں  ملاحظہ  حافظ کہتے ہیں :

واعظاں کیں جلوہ بر محراب و منبر می کنند

چون به خلوت می روند آن کار دیگه می کنند

اکبر :

خلاف شرع کبھی شیخ تھوکتے بھی نہیں

مگر اندھیرے اجالے میں چوکتے بھی نہیں

عطار کے ان اشعار کو سنیں  :

دل ِعاشق خراب اندر خراب است

دلِ زاہد غروراندر غرور است

دلِ زاهد همیشه در خیال است

دلِ عاشق حضور اندر حضور است

علامہ اقبال

ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی

ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی

فیض دکنی:

کریں ہم کس کی پوجا، اور چڑھائیں کس کو چندن ہم

صنم ہم دیر ، ہم بت خانہ ، ہم بت ، ہم برہمن ہم

حاتم:

کعبہ و دیر میں حاتم بخدا غیرِ خدا

کوئی کافر نہ کوئی ہم نے مسلماں دیکھا

آج کا انسان سب کچھ ہے مگر انسان نہیں ہے ،انسانوں میں ختم ہوتی انسانیت اور ایک انسان کے چہرے پر لگے ہوئے  کئی چہرےکو دیکھ کر بہت پہلے مولانا  روم نے کہا تھا :

دی شیخ با چراغ همی‌گشت گرد شہر

کز دیو و دد ملولم و انسانم آرزوست

ندا فاضلی :

ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی

جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا

اسی آدمیت کے درس کو کبیر یوں بیان کرتے ہیں :

چکی نائیں دیکھتی گہیوں  ہے  یا گھن

وہ تو جانے  پیسنا ،  ایک ہی  اُس کا گن

مولانا رُومی :

وجودِ آدمی از عشق می  رَسَد  بہ  کمال

گر ایں کمال نَداری، کمال نقصان است

ولی :

جسے عشق نئیں  وہ  بڑا  کوڑ  ہے

کیدھیں  اس سے مل بیسیا جائے نا

مولانا روم کہتے ہیں :

دل بدست آور کہ حج اکبر ست

از ہزاراں کعبہ یک دل بہتر ست

میر یہ کہتے ہیں:

دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہوسکے

پچتاو گے سنو ہو    یہ بستی اجاڑ کے

یا  رحیم کا یہ دوہہ

رحیمن دھاگہ پریم کا مت توڑو چٹکائے

ٹوٹے پھر یہ نہ جڑے، جڑے گانٹھ پڑ جائے

فارسی  شاعری میں عشق کی سرمستی کو جس والہانہ انداز میں پیش کیا گیا ہندستانی  صوفیا نے اسے اسی

 طرح اپنایا ۔ ہندستانی ادبیات میں  عشق کا یہ رنگ فارسی کے ہی مرہون منت ہے ۔اب عشق مجازی کے رنگ کو بھی دیکھیں :

نسیمِ زلفِ اُو خجلت دہَد صد نافۂ  چیں  را

کنَد با غمزۂ چشمش بغارت  ملکِ دل و دیں را

ولی:

خوب رو خوب کام کرتے ہیں

یک نگہ میں غلام کرتے ہیں

ترے مکھ نے چھپایا ہے صنم ان چار اشیا کو

قمر کو، مشتری کو، شمس کو، خورشیدِ اعلا کو

میر

سارے رند اوباش جہاں کے تجھ سے سجود میں رہتے ہیں

بانکے ٹیڑھے ترچھے تیکھے سب کا تجھ کو امام کیا

سعدی:

بدم گفتی و خرسندم عفاک الله نکو گفتی

سگم خواندی و خشنودم جزاک الله کرم کردی

حافظ

اگر دشنام فرمایی و گر نفرین، دعا گویم

جواب تلخ می‌زیبد، لب لعل شکرخا را

غالب

کتنے شیریں ہیں ترے لب کہ رقیب

گالیاں کھا  کے بے مزہ نہ ہوا

حافظ:

ألا یا أیها السّاقی! أدر کأساً وناوِلها!

که عشق آسان نمود اول، ولی افتاد مشکل‌ها

حضوری گر همی‌خواهی از او غایب مشو حافظ!

متیٰ ما تلق من تهویٰ، دعِ الدنیا و اهملها

خسرو

زحالِِ مسکین، مکن تغافل، دُ رائے نیناں، بنائے بتیاں

کہ تابِ ہجراں، ندارم اے جاں، نہ لے ہو کاہے لگائے چھتیاں

شبانِ ہجراں، دراز چوں زلف، و روزِ وصلش، چو عمر کوتاہ

سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

احمد رضا

لَم یَاتِ نَظیرُکَ فِی نَظَر مثل تو نہ شد پیدا جانا

جگ راج کو تاج تورے سر سوہے تجھ کو شہ دوسرا جانا

اَلبحرُ عَلاَوالموَجُ طغےٰ من بیکس و طوفاں ہوشربا

منجدہار میں ہوں بگڑی ہے ہواموری نیا پار لگا جانا

منظر نگاری   قآنی :

نسیم خلد می‌رود مگر ز جویبارها

که بوی مشک می‌دهد هوای مرغزارها

فرازِ خاک وخشت‌ها، دمیده سبزکشتها

چه‌کشتها بهشتها ،نه ده نه صد هزارها

بهارها بنفشها شقیقها شکوفها

شمامها خجسته‌ها اراک‌ها عرارها

ز هرکرانه مستها پیالها به دستها

ز مغز می‌پرستها نشانده می خمارها

ز ریزش سحابها بر آبها حبابها

چو جوی نقره آبها روان در آبشارها

اقبال

ہوا خیمہ زن کاروان بہار

ارم بن گیا دامن کوہسار

گل و نرگس و سوسن و نسترن

شہیدِ ازل لالہ خونیں کفن

جہاں چھپ گیا پردۂ رنگ میں

لہو کی ہے گردش رگ سنگ میں

فضا نیلی نیلی ہوا میں سرور

ٹھہرتے نہیں آشیاں میں طیور

وہ جوئے کہستاں اچکتی ہوئی

اٹکتی لچکتی سرکتی ہوئی

اچھلتی پھسلتی سنبھلتی ہوئی

بڑے پیچ کھا کر نکلتی ہوئی

رکے جب تو سل چیر دیتی ہے یہ

پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ

ذرا دیکھ اے ساقی لالہ فام

سناتی ہے یہ زندگی کا پیام

تراجم: 

کہا جاتا ہے کہ ترجمہ دو زبانوں او ر تہذیبوں کے درمیان  پُل کا  کام کرتا ہے ۔ ہندستان میں سنسکرت زبان میں مذہبی کتب کے  علاوہ   ادب عالیہ کی تخلیق ہوئی  مگر اسے ہندستان سے باہر متعارف کرانے میں فارسی زبان نے اہم کردار ادا کیا ۔ فارسی ایک بڑے خطے کی زبان تھی لہذا جیسے ہی  سنسکرت کے تراجم فارسی زبان  میں ہوئے تو ایک بڑے خطے تک اس کی رسائی ممکن ہوسکی ۔ سنسکرت سے فارسی  میں  تراجم  کی ایک طویل  فہرست ہے ’مہابھارت‘ اور ’رامائن‘ بلکہ ’اتھروید‘ کا بھی فارسی میں ترجمہ ہوا ۔ ۔۔۔۔ اس حوالے سے یہاں میں دارا شکوہ کا ذکر کرنا چاہوں گا  ۔

دارا شکوہ  کی اہمیت  اس لیے ہے کہ دارا شکوہ   مغلیہ تاریخ میں  ایک  ایسے شہزادے کا نام ہے جس نے  تاج و تخت سے زیادہ  ہندستان  کی  تہذیب و ثقافت کو  سمجھنے  کی کوشش  کی  ۔ اس کی فکر  یہ تھی کہ ہندستان میں  ہندو اور مسلمان   اگر چہ  د ومذاہب کے ماننے والے ہیں  مگر  ان دونوں مذاہب کی روح میں اتر کر  دیکھیں تو  بہت نزدیکیاں  نظر آتی ہیں ۔اتنی نزدیکی اتنی مماثلت کے باوجود  دونوں قوموں کے  بیچ اتنی دوریاں  کیو ں ہیں ؟ مذہب کے  نام پر ا س قدر  تعصب کیوں ہے ؟   اسی فکر کو  اس نے اپنی تصنیفات   میں  بیان کیا ہے ۔۔۔اپنیشد کا ترجمہ  • سرِّ اکبر / اسرا الاسرار کے نام سے کیا اسی طرح • سفینۃ الاولیا• مجمع البحرین / سمدر سنگم •سکینۃ الاولیا•رسالہ حق نما •حسنات العارفین یہ وہ تصانیف  ہیں جس نے دونوں تہذیبوں کو فکری اعتبار سے قریب لانے کی کوشش کی ۔۔۔۔ فارسی میں تراجم  کی ایک ایسی اہم روایت ہے کہ اس نے ہندستانی زبان و تہذب  کو فروغ دیا ۔لہذا فارسی زبان وتہذیب کے اثرات کے بجائے  یہاں احسانات نظر آتے ہیں ۔

اردو زبان    پر فارسی کے اثرات

تاریخی ، تہذیبی اور لسانی اعتبارسے اردو اورفارسی ایک دوسرے سے کئی جہتوں سے قریب تر ہیں ۔ ان زبانوں میں لین دین کا ایک طویل سلسلہ رہا   ہے جس نے تہذیبی روابط کو بھی مضبوط کیا اور ہندستان میں ایک نئی ابھرتی ہوئی بولی کو زبان کی شکل میں پروان چڑھایا ۔اسی لیے ہند ایرانی تہذیب  جیسی اصطلاح وجود میں آئی جو اس حقیقت کی غماز ہے کہ  ہندستان کے تہذیبی عناصر میں  ایران کی تہذیب کا نمایاں حصہ  رہا ہے ۔ سماجی وثقافتی حوالوں سے ان کےاثرات ہندستان  پر واضح طور پر موجود ہیں ۔ ہماری روز مرہ زندگی ہو یا سماجی و تہذیبی تقریبات  ہر جگہ ان نقوش کو دیکھا جا سکتا ہے ۔شعر وادب کی روایات  کی بات کریں یا فرہنگ الفاظ  یا  ضرب الامثال ومحاورات  کی، یہ ایسا  مربوط رشتہ ہے کہ  کبھی جدا ہوہی نہیں سکتا۔۔۔۔ کچھ مثالیں  اوپر آچکی ہیں ۔۔۔ اس مختصر وقت میں  مثالیں  پیش کرنی مشکل ہے۔

زوال

         مغلیہ حکومت کے زوال کے ساتھ فارسی زبان  رو بہ زوال ہوتا  ہے ۔اس کے بعد اگرچہ فارسی زبان  کی حیثیت  سرکاری نہیں رہی تاہم اس کے  اثرات کو ختم کرنا ناممکن تھا ۔ وجہ یہ ہے کہ

ہندستانی تہذب کی تشکیل و تعمیر میں  اس نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔اس لیے  جب تک ہندستانی تہذیب  رہے گی فارسی کے اثرات  اس وقت تک  موجود رہیں گے ۔

***

Leave a Reply