You are currently viewing لبنان کا ایک ’’آشفتہ سر‘‘ جبران خلیل جبران

لبنان کا ایک ’’آشفتہ سر‘‘ جبران خلیل جبران

ڈاکٹر غزالہ پروین

شعبہ ٔ  عربی ،ڈاکٹر رفیق زکریا کالج فار وویمن

اورنگ آباد

لبنان کا ایک ’’آشفتہ سر‘‘

جبران خلیل جبران

         نوع ِ انسانی کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ہم پر یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ دنیا میں مختلف اقوام نے مختلف وجوہات کے سبب ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کی ہے ۔بود و باش یا رہائش کے انتقال کی کئی اہم وجوہات ہوتی تھیں ۔موسم اور آب و ہوا کی غیر مناسبت ،معاشی و اقتصادی نا آسودگی ،حکمراں طبقہ کے ظلم و استبداد سے چھٹکارہ ،بہتر اور خوشحال مستقبل کی تمنا ،غرض سماجی،سیاسی ،اقتصادی،تعلیمی ان وجوہات کے علاوہ بھی بہت سے اہم اسباب تھے جن کی بنا پر دنیا کی مختلف اقوا م مختلف ادوار میں اپنی بود و باش اور سکونت کو تبدیل کرتے رہے۔

ًْ     جب ہم خلیجی عرب ممالک پر نظر ڈالتے ہیں تو ان ممالک کی عوام نے مختلف سیاسی ،سماجی،اقتصادی وجوہات کی بنا پرنقل مکانی یا ہجرت کی ۔عرب ممالک میں مصر ،عراق ،شام،فلسطین اور لبنان یہ ممالک ہیں جہاں کی عوام نے ہزاروں کی تعداد میں مغربی اور یورپی ممالک میں سکونت اختیار کی ۔تقریباً ۱۸۵۰ سے ۱۹۲۵ ء تک کے دورانیہ میں ان عرب ممالک سے ہزاروں لوگوں نے مختلف اسباب کی بنا پر ہجرت کی ۔مذکورہ دورانیہ میں سیاسی اتھل پتھل سب سے اہم سبب رہا ۔خاص طور پر لبنان جیسے ملک کی ۱۹ ویں اور بیسویں صدی کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں وہاں سیاسی اور معاشی اسباب سب سے اہم نظر آتے ہیں ۔جابر و ظالم حکمران طبقہ اور مذہبی پیشوائوں کی اجارہ داری ،انہیں حاصل کردہ بے جا مراعات ،مذہبی و سماجی بندشیں اور خود ساختہ قوانین جو صرف عوام الناس کو جکڑے ہوئے تھے ۔خاص طور سے لبنان میں سالوں سے رائج ایسے قوانین ہی سب سے اہم اسباب تھے ہجرت اور نقل مکانی کے۔لبنان کی خوں ریز جنگوں میں لاکھوں انسان مارے گئے ۔جو بچ گئے انہوں نے اپنی جان کی سلامتی اور اپنے بچوں کے بہر مستقبل کی آس لیے مغربی ممالک اور یورپی ممالک کو اپنا مسکن بنایا ۔ان مہاجرین میں جن میں اکثریت ملک شام اور لبنان کے باشندوں کی تھی انہوں نے شمالی و جنوبی امریکہ کو اپنا ملجا و ماویٰ بنایا۔

         عرب و لبنان کے ان مہاجرین میں لبنان کے سپوت خلیل جبران بھی تھے جو حکومت کے ظلم و ستم اور کلیسائوں کی اجارہ داری سے تنگ آکر اپنے خاندان کے ساتھ ۱۸۹۵ء میں شمالی امریکہ کے شہر بوسٹن میں سکونت اختیار کی۔دن بہ دن عرب ممالک سے مہاجر کے قافلے مختلف یورپی و مغربی ممالک پہنچنے لگے ۔دیارِ شرق سے نکلے ہوئے یہ قافلے دیارِ غرب کی چکا چوند میں بھی اپنے وطن کی مٹی کو یاد کرتے رہے۔ وقت گزرتا رہا کچھ سالوں بعد ان مہاجرین کو جب ذہنی آسودگی نصیب ہوئی تب انہوں نے اپنے احساسات ،تجربات و مشاہدات کوقلم کے سپرد کرنا شروع کیا اور اس طرح شمالی اور جنوبی امریکہ میں رہائش پذیر ان مہاجرین نے ادب کے تمام اصناف کو سیراب کرنا شروع کیا اور اس طرح مھجری ادب کی بنیاد دیارِ غیر میں رکھی۔ مھجری ادب میں تہذیبی تبدیلی کے باوجود اپنی مادری زبان اور وطن سے محبت کا اثر نمایاں ہوتا ہے۔ ہجرت کرنے والوں کا اپنی زمینوں سے بچھڑنے اور ٹوٹنے کا کرب شدت کے ساتھ شامل ہوتا ہے۔ مھجری ادب اگرچہ کہ اپنی کم سنی اور کم مائیگی کی وجہ سے طویل زمانہ گزرنے کے بعد پذیرائی حاصل کر سکا لیکن مھجری ادب کا سرمایہ جدید عربی ادب کا اب جزو لا ینفک بن چکا ہے ۔جدید عربی ادب میں مھجری ادب کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے مشہور عربی ناقد ’’شوخی ضیف ‘‘رقمطرازہیں:

’’مھجری شاعری کو پڑھنے اور سمجھنے سے پہلے اس کے لیے اپنے ذہن کو تیار کر لینا چاہئے کیو ں کہ جدید پیمانے قدیم شاعری کے پیمانوں سے بالکل مختلف ہیں ۔اس کو مکمل طور پر سمجھنے کے بعد ہی اس کی قدر و قیمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔‘‘

         اسی طرح ایک جگہ مشہور عربی داں (سابق پروفیسر شعبہ عربی ،سرسید کالج اورنگ آباد)محترم صدرالحسن ندوی مدنی مھجری شاعری اور اس کی اہمیت کے بارے میں یو ںرقمطراز ہیں:

’’عربی شعر و شاعری عصرِ جاہلی سے عصرِ جدید تک جس مزاج و منہاج پر رواں دواں تھی انیسویں صدی کے نصف اول تک اس میں کوئی نمایاں تبدیلی رونما نہیں ہوئی لیکن اس صدی کے نصف آخر میں سیاسی،سماجی،معاشرتی اور اقتصادی مدو جزر کے تناظر میں بڑے پیمانے پر ترکِ وطن کے نتیجہ میں ادب کا ایک ایسا دبستان وجود میں آیا جو عربی شاعری کے قدیم مزاج و منہاج کے سلسلہ میں اپنے ذہن و دماغ میں منفی تصورات رکھتا تھا۔اونٹوں اور گھوڑوں کی تعریف،دیارِ محبو ب کے ٹیلوں پر اشک ریزی اور اصحابِ وجاہت کے تملق و مدح سرائی کی ایک بے روح شاعری گردانتا تھا۔اس لیے شعرا مھجر نے عربی شاعری کو تمام بندشوں ،روایات ،تکلفات اور مبالغہ آرائیوں سے آزاد کرکے ادب برائے زندگی کے ہر شعبہ کا ترجمان بنادیا ۔اس رد عمل کے نتیجہ میں انہوں نے قدیم عربی شاعری کے عروض و قوافی اور اوزان و اسالیب کے مروجہ قواعد سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کی ۔اور اس کی شاید سب سی بڑی وجہ مغربی زبان و ادب سے ان کی واقفیت و شیفتگی اور یورپ کے ترقی پسند شعرا سے ان کی مزاجی ہم آہنگی تھی۔‘‘

         ان مھجری شعرا میں سب سے اہم نام جبران خلیل جبران کا آتا ہے جنہوں نے روایتی اسلوب اور روایتی شاعری کو متروک کرکے نئے مزاج اور نئے ادب سے ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی ۔خلیل جبران کی زندگی کا بیشتر حصہ شمالی امریکہ میں گزرا۔دیارِ مغرب کی آزاد فضا،فکر و عمل کی آزادی نے خلیل جبران کے تخیل کو نئی وسعتیں دیں۔جبران کے خمیر میں حب الوطنی کی روح جاگزیں تھی۔وہ اپنی قوم و وطن کو ان مغربی ممالک کی صف میں کھڑا کرنا چاہتے تھے جہاں انسانیت ان کے ادب کا ناگزیر حصہ تھا ۔اگر جبران کے جملہ آداب کا تجزیہ کیا جائے تو ان کی تخلیقات کا اکثرحصہ ملک و وطن کی بہتری ،نئے سماج کی تشکیل ،روایت شکنی ،انصاف،خوشحالی کی امید اور حقوقِ انسانی پر مشتمل ہے۔ لبنان کی تاریخ میں جبرا ن کی انقلابی سوچ اور ان کی انسان دوستی کو کبھی فراموش نہیں کیا       جا سکتا ہے۔

         لبنان کے سپوت اور سرفروش خلیل جبران ۱۸۸۳ء میں لبنان کے بشریٰ نامی ایک گائوں میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے ۔۱۸۹۵ء میں غربت و تنگدستی سے پریشان ہوکر اپنی ماں ،بھائی پطرس اور دو بہنوں کے ہمراہ امریکہ کے شہر بوسٹن میں سکونت اختیار کی۔ اور وہاںچینیوںکا غریب محلہ چائنا ٹائون میں مقیم ہوگئے ۔اس وقت جبران محض بارہ سال کے تھے ۔اپنی ابتدائی تعلیم بھی مکمل نہیں کی تھی۔ لہٰذا عربی زبان و ادب کی مزید تعلیم کے لیے جبران کو دوبارہ لبنان بھیج دیا گیا ۔جہاں جبران نے مدرسۃ الحکمۃ میں تقریباً چار سال تک عربی زبان و ادب میں مہارت حاصل کی ۔اسی کے ساتھ فرانسیسی ادب،بائبل اور فلسفہ کی بھی تعلیم حاصل کی ۔تقریباً چار سال مدرسۃ الحکمۃمیں گزارنے کے بعد جبران جب بوسٹن واپس لوٹے تو انہیں یکے بعد دیگرے کئی صدمات سے دوچار ہونا پڑا۔ ان کی بڑی بہن سلطانہ کا انتقال ہوگیا اس کے کچھ دنوں بعد جبران کے بھائی اور ماں کا بھی انتقال ہوگیا ۔گھر کی تمام ذمہ داریوں کا بوجھ جبران اور ان کی بہن ماریہ پر آن پڑا۔ یہ جبران کی زندگی کا بدترین دور تھا ۔ماریانہ دست کاری سے اپنا اور جبران کا پیٹ پالتی تھی۔بیس سال کی عمرمیں جبران نے انشا پردازی اور پینٹنگ شروع کی۔ ۱۹۰۴ء میں بوسٹن میں جب ’’جرید ۃ المھاجر‘‘کی اشاعت عمل میں آئی تو جبران اپنے مضامین بھی شائع کرنے لگے ۔اسی طرح دوسرے جریدہ ’’الھدیٰ‘‘میں جبران کے مضامین باقاعدگی سے شائع ہونے لگے ۔جس کی وجہ سے ادبی حلقوں میں جبران بہت جلد معروف ہوگئے۔۱۹۰۴ء ہی میں تصویروں کی نمائش میں ان کا تعارف میری ہاسکل سے ہوا ۔جس نے جبران کی غیر معمولی ذہانت و فطانت دیکھ کر اس پر خاص توجہ کی اور اپنے ذاتی خرچ پر جبران کو فن مصوری(پینٹنگ) کی اعلیٰ تعلیم کے لیے پیرس روانہ کیا ۔جبران نے پیرس میں دو سال گزارے ۔فنِ مصوری کے ساتھ ساتھ جبران نے فرانسیسی زبان و ادب کا بھی گہرا مطالعہ کیا ۔جس سے انہیں فرانسیسی ادیبوں کے جدید افکار و نظریات کو سمجھنے کا بہترین موقع حاصل ہوا۔

         فرانس سے واپسی کے بعد جبران نے اپنی رہائش مستقل طور پر بوسٹن سے نیویارک منتقل کرلی ۔ابتدا میں جبران بہت سے عربی مضامین مختلف جرائد میں شائع کرواتے تھے ۔اسی طرح ابتدا میں کچھ کتابیں عربی زبان میں بھی لکھیں۔ لیکن نیویارک میں عربی کتب کو خاطر خواہ پذیرائی نہیں ملی۔ اور نہ ہی ان چند کتابوں کی اشاعت سے معاشی تنگی دورنہیں ہوئی ۔جبران نے انگریزی میں لکھنا شروع کیا ۔ان کے مضامین مختلف انگریزی جرائد کی زینت بننے لگے ۔اسی طرح انگریزی زبان میں کچھ کتابیں منظرِ عام پر آنے کے بعد عربی اور انگریزی ادبی حلقوں میں جبران متعارف ہوئے ۔ان کی ادبی تخلیقات کی بہت پذیرائی ہوئی ۔بلکہ اس حد تک پذیرائی ہوئی کہ کچھ کتابوں کے کئی ایڈیشنس منظر عام پر آئے ۔خلیل جبران کی ایک کتاب ’’النّبی ‘‘(The Prophet)دنیا کی سب سے زیادہ بکنے والی کتابوں میں سے ایک ہے۔ایک اندازے کے مطاابق یہ کتاب جو انگریزی زبان میں تحریر کردہ ہے پندرہ لاکھ سے زائد جلدیں فروخت ہوئیں ۔دنیا کی ترقیباً بیس زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوا ۔یہ انگریزی زبان میں سب سے اہم تخلیق ہے ۔اس طرح عربی زبان کی اولین ناول’’ٹوٹے ہوئے پر‘‘بھی سب سے عمدہ تصنیف تسلیم کی گئی۔ جبران نے تصنیف و تالیف کا کام دو زبانوں میں کیا ہے ،عربی اور انگریزی۔عربی ممالک کے لیے عربی زبان میں اور اہلِ مغرب اور انگریزی داں کے لیے انگریزی کو ذریعۂ اظہار بنایا ۔کچھ عرصے بعد جبران کی تمام عربی و انگریزی کتب کا دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ۔جبران نے آٹھ کتابیں عربی زبان میں اور آٹھ کتابیں انگریز ی زبان میں لکھی ہیں ۔

عربی زبان کی کتابیں:

۱۔       الموسیقی(۱۹۰۵ء) موسیقی

         جبران نے اس کتاب میں موسیقی کی اہمیت اور نفسِ انسانی کے ساتھ اس کے روحانی رشتے پر روشنی ڈالی ہے۔جبران نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ موسیقی انسان کے اندر ایک نیا عزم،جوش اور ولولہ پیدا کرتی ہے۔

۲۔      عرائس المروج(۱۹۰۶ء) روایتی و مروج معایب

         یہ تصنیف تین افسانوں پر مشتمل ہے ۔ان تینوں افسانوں میں مذہبی تعصب ،سرمایہ دارانہ نظام کی اجارہ داری اور مختلف سیاسی و سماجی برائیوں پر ضرب کی گئی ہے۔ اس کتاب میں جبران کا رویہ باغیانہ اور سخت ہے۔

۳۔      الارواح متمرّدہ (۱۹۰۸ء) سرکش روحیں

         یہ کتاب چار افسانوںپر مشتمل ہے۔اس میں حکمراں طبقے اور مذہبی پیشوائوں کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔اس کتاب میں بھی جبران کے باغیانہ تیور نظر آتے ہیں ۔اس کتاب کی وجہ سے جبران پر ملحد ہونے کا الزام لگایا گیا ۔چرچ میں اس کتاب کا داخلہ ممنوع قرار دیاگیا۔اور اسے نذرِ آتش کیاگیا۔

۴۔      الاجنحۃ المتکسرہ(۱۹۲۱ء)ٹوٹے ہوئے پر

         یہ کتاب جبران کا ایک مشہور ناول ہے ۔اس کتاب میں بھی فرسودہ رسوم اور طبقاتی کشکش کو بیان کیاگیا ہے ۔اس میں طبقہ اناـث کی حمایت اور طرف داری کی گئی ہے۔

۵۔      دمعۃُٗو ابتسامہ(۱۹۱۴ء)آنسو اور تبسم(سکھ دکھ)

         یہ کتاب جبران کے مختلف مضامین کا مجموعہ ہے جو مختلف جرائد میں شائع ہوتے رہے۔

۶۔      المواکب(۱۹۱۴ء)قافلے

         یہ جبران کی واحد شعری تخلیقات کا مجموعہ ہے جس کا نفسِ مضمون فلسفیانہ خیالات اور صوفیانہ افکار ہیں۔

۷۔      العواصف(۱۹۲۰ء) آندھیاں؍ طوفان

         یہ کتاب جبران کے افسانوں اور مضامین پر مشتمل ہے۔یہ دراصل پہلی جنگ ِ عظیم کے بعد لبنا ن اور دوسرے عرب ممالک میں ہونے والے بحران اور مسائل کے نتاظر میں لکھی گئی ہے۔

۸۔      البدائع و الظرائف(۱۹۲۳ء) نصیحتیں ،اقوالِ حکمت

         یہ کتاب بھی جبران کے مختلف مضامین کا مجموعہ ہے ۔حکیمانہ اقوال اور ناصحانہ تحریریں اس کتاب کا     خاصہ ہے۔

         جبران کی انگریزی تصنیفات کے نام درج ذیل ہیں۔

1- The Mad Man

2- The Prophet

3-Jesus Son of the Man

4- The Earth Gods

5- The Fare Runner

6-The Wondermen

7- Sand and Form

8- The Garden of the Prophet

         خلیل جبران کا تخلیقی ادب نثری و شعری اصناف میں موجود ہے ۔جبران نے اپنے تخلیقی اظہار کے لیے شعری ونثری دونوں اصناف میں طبع آزمائی کی ہے لیکن جبران کو شہرت ان کے شعری کلام کے بجائے نثری تخلیقات سے ہوئی ۔ سوائے’’مواکب‘‘کے جو جبران کی پہلی اور آخری شعری تخلیق ہے۔باقی تمام تخلیقات نثری یا منظوم نثری حالت میں ہیں۔

         یہاں جبران کی ایک بہت اہم کتاب’’الارواح متمرّدہ‘‘( سرکش روحیں)جو چار افسانوں پر مشتمل     ہے ۔’’النبی‘‘نامی کتاب کے بعد یہی وہ کتاب ہے جو جبران کی شہرت کی وجہ بنی ۔اس کتاب میں چار افسانوں میں سے یہاں دو افسانوں کا جائزہ لینا مقصود ہے۔

         افسانہ’’کافر خلیل‘‘اس عنوان سے ہی جبران کا طنز جھلکتا ہے۔ اس افسانے میں جبران نے ایک بہت نیک ،پارسا،عیسائی مذہب کا سچا پیروکار،غریبوں کا مسیحا ،اخلاقیات کا شیدائی ،اعلیٰ اقدار کے حامل انسان کو مرکزی کردار عطا کیا ہے۔کافر خلیل کے روپ میں جبران نے ایک ایسے باغی و سرکش کا روپ دے کر مذہبی پیشوائوں کے سیاہ کارناموں کواجاگر کیا ہے۔جبران نے اس افسانے کے ذریعہ معصوم اور بھولی بھالی عوام کو کس طرح مذہب کے رکھوالے ان کا جذباتی و ذہنی استحصال کرتے ہیں یہ بتانے کی کوشش کی ہے۔ جبران نے جب شعور کی منزلو ں کو طئے کرنا شروع کیا تب انہیں اس کا ادراک ہوتا گیا کہ سماج کس طرح طبقاتی کشمکش میں مبتلا ہے۔ حکمراں طبقہ اور مذہبی پیشوائوں کا طبقہ کس طرح عوام الناس کا مذہب کی آڑ میں استحصال کرتے ہیں ،انہیں بیوقوف بناتے ہیں ۔غربا و مساکین کی آمدنی کا اکثر حصہ کس طرح سرمایہ دار اور مذہبی پیشوائوں کی جیب میں جاتا ہے۔برسوں سے جاری یہ فرسودہ قوانین کس طرح لوگوں کا استحصال کرتے آرہے ہیں۔جبران نے ’’کافر خلیل‘‘اس افسانے میں صدیوں سے جاری مکروہ و مجروح رواجوں کا پردہ فاش کیا ہے۔افسانے کے آخر میں کس طرح عوام کے سامنے کافر خلیل کے باغیانہ خیالات اور کارناموں کی وجہ سے سماج کے ان سیہ کاروں کا چہرہ بے نقاب ہوتا ہے ۔کافر خلیل جو اس افسانے کا مرکزی کردار ہے عوام الناس کو خوابِ غفلت سے بیدار کرتا ہے۔کافر خلیل جو حکمراں طبقہ اور مذہبی پیشوائوں کی نظر میں کافر،ابلیس ،باغی،سرفروش ،سرکش اور روایت شکن ہے ۔جو مذہبی روایات اور اقدار پر تنقید کرتا ہے ۔لیکن جبران نے خلیل کو ایک مسیحا کے طور پر پیش کیا ہے۔گویا حکمراں طبقہ اور مذہبی رہنمائوں کے خلاف ایک اعلانیہ بغاوت ہے ۔یہی وہ تصنیف ہے جس کی وجہ سے جبران پر الحاد کا الزام لگاکر کلیسائوں میں ان کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا۔بلکہ اس کتاب کو عیسائیوں کے لیے حرام قرار دیا گیا۔لبنان میں جبران کی کتابیں نذرِ آتش بھی کی گئیں۔

         جبران مذہب مخالف نہ ہوکر مذہبی پیشوائوں کی بے جا بندشوں اور ان کی مفاد پرستی سے نالاں تھے۔ جبران عیسیٰ مسیح کی سچی تعلیمات کو صحیح طریقے سے لوگوں میں منتشر کرنا چاہتے تھے۔

         ’’کافر خلیل ‘‘کا ایک اقتباس

’’ایک دن میں جرات کرکے راہبوں کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ جو باغ میں جمع ہورہے تھے ۔میں نے ان کی بد اعمالیوں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ۔

’’تم یہاں کیوں دن گزارتے ہو اور مفلسوں کے عطیے سے لطف اندوز ہوتے ہو۔ ان کی روٹی کھاتے ہو ۔یہ ان کے جسم کے پسینے اور دل کے اشکوں سے تیار ہوتی ہے ۔تم کیوں حاجت مند لوگوں سے الگ تھلگ رہتے ہو ۔تم ملک کو اپنی خدمت سے کیوں محروم کرتے ہو۔تم مخلوقِ خدا سے کیوں کٹ کر رہتے ہو ۔مفلسی کی زندگی بسر کرنے کا عہد کرتے ہو لیکن بھول جاتے ہو اور عیش و طرب کی زندگی بسر کرتے ہو۔تم ایسا جتاتے ہو کہ تم مادی چیزوں سے نفرت کرتے ہو لیکن تمہارا دل حرص سے پھولا رہتا ہے ۔لوگوں کو یقین دلاتے ہو کہ تم مذہب کے معلم ہو ۔آئو اے راہبوں ! تنہائی چھوڑ کر منتشر ہوجائیں ۔جن ناتواں نے ہمیں طاقتور بنایا ان کی خدمت کریں۔جس ملک میں رہتے ہیں اسے پاک و صاف کریں ۔آئو اس زبوں حال قوم کو مسکرانا ،آسمانی نعمتوں ،زندگی کی عظمتوں اور آزادی سے لطف اندوز ہونا سکھائیں۔‘‘

         جبران کا یہ افسانہ پڑھنے کے بعد ہمیں اس وقت کی سماجی نا انصافی اور حقوق تلفی کا اندازہ ہوتا ہے اور لوگوں کے تئیں جبران کی سچائی عیاں ہوتی ہے۔

         خلیل جبران کا دوسرا افسانہ جو ’’سرکش روحیں ‘‘نامی کتاب میں شامل ہے ۔اس افسانے میں جبران نے آج سے ایک صدی قبل لبنان اور دوسرے عرب ممالک کے رسوم پر کاری ضرب کی ہے۔اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ صدیوں سے چلی آ رہی بہت ساری فرسودہ رسوم کس طرح ہماری زندگی کو تلخیوں سے بھر دیتی ہے ۔سماج میں بہت سے رسم و رواج محض انسان کی جاہلیت اور کم فہمی کی وجہ سے مروج ہے ۔انسانی سماج میں شادی بیاہ بھی ایک اہم اور ناگریز رواج ہے۔جبران نے اس افسانہ میں دو مرکزی کردار یعنی رشید نعمان اور روز ہنی کو اجاگر کیا ہے ۔اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ چاہتوں اور رشتوں کا پیمانہ مادیت نہیں ہوتا ۔سی چاہت دنیاوی شان و شوکت سے بہت پرے کی چیز ہے۔ چاہت کا جذبہ تو وہ جذبہ ہوتا ہے جو لافانی اور ہست و بود سے ماورا ہوتا ہے ۔اسی طرح مرد و عورت کے درمیان سچی چاہت کا معیار مال و دولت اور جاہ و حشم کی بجائے وہ احساس و جذبہ ہوتا ہے جس کا کوئی مول نہیں۔گویاجبران نے اس افسانے میںبتایا ہے کہ سچی چاہت ما بعدا لطبعیات کی چیز ہے ۔ہمارے سماج میں اکثر ظاہری شان و شوکت اور کر وفر ہی شادی اور دوسرے رشتوں کے لیے محرکات بنتے ہیں ۔جبران کے مطابق یہ ہمارے سماج کی بہت تلخ حقیقت ہے کہ انسانی رشتوں میں ہم ہمیشہ مادیت کو مدِ نظر رکھتے ہیں لیکن اس دنیا میں سچی خوشیاں ظاہری شان بان سے نہیں بلکہ یہ تو دلوں کی ہم آہنگی اور بہت لطیف احساسات پر منحصر ہوتے ہیں ۔یہ بھی ایک کڑوی حقیقت ہے کہ سماج میںہزارو ں شادیاں محض ان ہی مال و دولت اور شان و شوکت کو مد نظر رکھ کر انجام پاتی ہیں ۔چاہے مردوعورت کے دل اور ذہن ہم آہنگ ہوں یا نہیں ۔آج ہمارے سماج میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو چاہت کی بجائے مصالحت پر زندگی گزار رہے ہیں اور شادی جیسے بندھن کو مصالحت پر گزارنا کسی عذاب سے کم نہیں ۔جبران جو سماج کے بڑے نبض شناس تھے انہوں نے سماج کے ان فرسودہ رسوم پر کاری ضرب کی ہے۔

         اس افسانے میں رشید نعمان ،روز ہنی سے عمر میں بہت بڑا ہوتا ہے ۔روز ہنی کے والد کی عمر کے برابر ۔لیکن رشید اپنی شان و شوکت ،دولت و ثروت کی بنیاد پر روز ہنی سے شادی کرتا ہے۔لیکن روز ہنی نعمان کو کبھی اپنے شوہر کے روپ میں قبول نہیں کرتی اور ایک روز وہ موقع پاکر نعمان کا گھر چھوڑ دیتی ہے اور اپنے پسندیدہ شخص کے ساتھ شادی کرلیتی ہے ۔بقول جبران’’سماج ایسی عورت کو زانیہ اور فاحشہ گردانتا ہے ۔‘‘لیکن جبران کی فکر و نظر میں روز ہنی ذرا بھی قصور وار یا مجرم نہیں ہے ۔ جبران نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ انسانی رشتوں اور چاہتوں کو دولت کے پیمانے میں نہ تولا جائے ،چاہت تووہ اسنانی جذبہ ہے جس کا کوئی مول نہیں اور مادیت کبھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی ۔

         اقتباس افسانہ ’’وردۃالھانی‘‘

’’عورت کو خوشی نہ تو مرد کی شان و شوکت اور عزت سے حاصل ہوتی ہے اور نہ اس کی سخاوت سے ۔بلکہ یہ تو اس پیار سے حاصل ہوتی ہے جو دونوں کے دلوں اور ان کی لگن کو شیر و شکر کردے اور جسم و جاں ایک کردے۔

اس عورت کا غم کون جانے جو خدا کے حکم سے اپنی روح اس آدمی پر نچھاور کردے جسے وہ چاہتی ہو اور اپنا بدن دوسرے کے حوالے کردے  جسے وہ انسانی قاتلوں کے دبائو تلے رہ کر پیار کرے ۔یہ ایسا المیہ ہے جسے عورت کے لہو اور آنسوئوں سے لکھا گیا ہو لیکن آدمی اسے پڑھ کر اس کا مذاق اڑاتا ہے کیونکہ وہ اسے سمجھتا ہی نہیں ۔پھر اگر وہ سمجھ ہی لے تو اس کا ایک قہقہہ اس فعل کو ملامت میں بدل دے گا اور یہ عورت کے دل پر آگ بن کے جلے گا۔ کالی راتیں یہ ناٹک اس عورت کی روح کے اسٹیج پر کھیلتی ہیں۔جس کا بدن شادی کے خدائی قانون کا مطلب سمجھنے سے قبل ایسے آدمی سے باندھ دیاگیا ہو جسے وہ اپنا شوہر سمجھتی ہو ۔وہ اپنی روح کو اس آدمی کے ارد گرد منڈلاتے دیکھتی ہو جسے وہ تمام پاکیزہ اور سچے پیار اور خوبصورتی سے سراہتی ہو ۔یہ کیسا خوفناک عذاب ہے ۔آغاز عورت میں کمزوری پیدا کرنے اور مرد کو طاقت بخشنے سے شروع ہوا ۔یہ آدمی کے بگڑے ہوئے قانون اور مقدس پیار اور دل کے متبرک مقصد کے درمیان ہولناک جنگ ہے۔‘‘

         مذکورہ افسانے میں سماج کے سامنے سماج کے ان تلخ حقائق کو جبران نے اپنی تحریروں کے ذریعہ عیاں کرنے کی کوشش کی ہے ۔جبران کی تمام شعری و نثری تخلیقات میں جبران کے باغیانہ افکار اور روایت شکنی کو صاف محسوس کیا جا سکتا ہے۔

         جبران کی تمام تخلیقات کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ جبران اپنی قوم و ملت کے مسیحا ہیں۔جبران کی وسعتِ نظری اور آفاقی فکر ایسے رسوم و عقائد کا برابر جائزہ لیتی رہی جو سماج کو صدیوں سے کھوکھلا کرتی چلی آرہی ہے ۔جبران قوم کا مسیحا نظر آتا ہے ۔ان کی ذہانت و فطانت ایسی روایات کو برداشت نہ کر سکی۔انسانوں کا سیاسی،سماجی،معاشی،جذباتی استحصال وہ کسی طرح برداشت نہیں کر سکتے تھے ۔ان کی تمام تخلیقات سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ وہ قوم کے چارہ گر اور غمگسار تھے ۔کبھی خوابیدہ قوم کو حکمراں طبقے کے ظلم سے باخبر کرتے ہیں ۔قوم کے اس سوز و گداز میں وہ کبھی باغیانہ روش اختیار کرتے ہیں اور کبھی شفقت و نرمی کا پہلو اختیار کرتے ہیں۔جبران کی ہر تحریر میں ایک انقلابی و اصلاحی سوچ عیاں ہے۔زندگی کا اکثر حصہ دیارِ غیر میں گزارنے کے باوجود جبران اپنے لوگوں اور وطن کی مٹی سے ہمیشہ جڑے رہے۔

         لبنان کی تاریخ میں جبران کی سرفروشی اور روایت شکنی ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔جبران بطورِ شاعر ،ادیب،مصور،روایت شکن،باغی کے علاوہ ایک انسانیت کے ہمدرد اور غمخوار کی حیثیت سے انسانی تاریخ میں ہمیشہ یاد کیے جائیں گے۔

٭٭٭

مراجع و مصادر

۱۔       جدید عربی شاعری۔ ڈاکٹر فوزان احمد۔جامعہ سلفیہ بنارس ۔۲۰۰۸ء

۲۔      جدید عربی ادب اور ادبی تحریکات۔ڈاکٹر ابو عبید۔الکتاب انٹرنیشنل ،نئی دہلی۔ ۲۰۱۱ء

۳۔       سرکش روحیں اور آبی پریاں۔جبران خلیل جبران۔روشان پرنٹرس ،دہلی۔۲۰۱۸ء

۴۔      روح کے آئینے اور گلبدن ۔جبران خلیل جبران۔۲۰۱۸ء

۵۔      جدید عربی ادب۔ڈاکٹر شوقی ضیف۔روشان پرنٹرس ،دہلی ۔۲۰۱۴ء

Dr. Ghazala Parveen

Lecturer in Arabic

Dr. Rafiq Zakaria College for Women Aurangabad

9850782985

Leave a Reply