محمد شاہ رخ عبیر
ریسرچ اسکالر، شعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی
مافوقی جغرافیائی تصویر کا مصور : شہرام سرمدی
یہ تقریباََ آج سے ایک یا ڈیڑھ سال پہلے کی بات ہے۔ objectivityکے سب سے بڑے پلیٹ فارم سوشل میڈیا پر اسکرولنگ کرتے وقت اچانک ایک سفید صفحہ پر نظر پڑی،جس پر ایک عنوان کے تحت ایک مصرعہ دائیں جانب،دو مصرعے درمیان میں، پھر ایک یا دو انٹر کے بعد تین مصرعے اس طرح ایک خیال میں مربوط تھے کہ دو تین قرأت کے بعد میرے ذہن میں ماند پڑی subjectivityسرگرم ہونے لگی،تو میں اس پوسٹ کے روحِ رواں شہرام سرمدی کی وال پر گیا مزیدکچھ اورنظمیں پڑھیں تو ریکویسٹ بھیجی اوراُن سے ایک تعلق بن گیا۔ اب جیسے ہی کوئی نظم پوسٹ ہوتی تو میں اس پر اپنے تاثرات کا اظہارکرتا تھا۔ ان نظموں کی زبان مانوس تو لگ رہی تھی لیکن ان کے موضوعات اوران کا بیانیہ مجھے پراسرایت کی طرف لے جا رہے تھے اور اب شہرام سرمدی کی نظمیں مجموعے ”حواشی” کی شکل میں میرے سامنے ہیں۔
ان تمام نظموں کو ایک ساتھ پڑھنے کے بعد ایک بات بہت صاف طور پر کہی جاسکتی ہے کہ یہ تمام نظمیں ایک ایسے شخص کی شخصیت کا منظوم بیانیہ ہیں، جو اپنی تاریخ، تہذیب و ثقافت کے ماضی و حال کا نہ صرف پاس دار ہے بلکہ ان کی خرابیوں پر بھی ضرب لگا رہا ہے۔ گویا ایک کولارج کی صورت نکلتی ہے جس میں شاعر کے مختلف پہلونکھر کر سامنے آجاتے ہیں۔یہ نظمیں شہرام سرمدی کے سیاق و سباق کا حاشیہ ہیں،جو اپنے قاری کو اُس کے سیاق کے مطابق ایک ایسے آئینہ خانے میں لے جاتی ہے،جہاں ہر آئینے میں شہرام سرمدی نظر آتے ہیں اور ان کا ہر عکس اوریجنل لگتاہے۔ ابہام کی رو سے معنی کی ایسی کونپلیں پھوٹتی ہیں۔ ہر کلی کھلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ (شمس الرحمن فاروقی ابہام کے حوالے سے کہتے ہیں:‘‘ابہام اور غیر قطعیت سے شعر کے معنوی حسن میں (اور اکثر ظاہری حسن میں بھی) اضافہ ہوتا ہے، آپ ابہام کو مقصد نہیں بلکہ ذریعہ سمجھ کر دیکھیں تو بات بہت حد تک صاف ہوجائے گی۔’’(ص:132از شمس الرحمن فاروقی لفظ و معنی/ مضمون/ نئی شاعری ایک امتحان)۔
اسے شہرام سرمدی کا اختصاص بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنی نظموں میں موضوع و کیفیت کا اظہار اسی طرح کرتے ہیں، جس طرح وہ اسے محسوس کرتے ہیں۔ وہ نظموں میں بتانے کے انداز میں بات نہیں کرتے بلکہ ایسا لگتا ہے وہ اس عمل سے گزر رہے ہیں۔ اسی سے ان کی جمالیات (Aesthetics) کی فرہنگ مرتب ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر نظم‘‘ حضرت دہلی’’ملاحظہ کریں:
ایک طرف ہیں
بھورے شاہ
اور ایک طرف ہے
شاہی مسجد چکر والی
ایک طرف ہے
سرسبز
اور سرسبز برج کے ایک طرف
محبوبِ الہی
بنتی بگڑتی عجب لکیریں
طرف طرف جاتی ہیں
جال بناتی ہیں
اسی جال کا
تانا بانا کھوج رہا تھا
سوچ رہا تھا
ادھر میٹرو
کالکاجی کا مندر
اور خلیل اللہ مسجد کو
یاد نہیں کب
میلوں پیچھے چھوڑ گئی
نیولائن سے جوڑ گئی
یہ نظم بحرِ ہندی کی طرز فعل فعلون/فعلن فعلن کے دستور پر کہی گئی ہے،جبکہ یہ صرف میٹرو ٹرین سے کیے گئے سفر کی روداد ہے۔ اب یہاں شاعر کے مشاہدہ کو داد دیجۓ بظاہر اس نے اپنے سفر میں دکھائی دینے والی تاریخی عمارات کو حوالے کے طور پر بیان کیا ہے لیکن ان کے باہمی ربط نے مناظر کو یکجا کرکے ایک ایسا کینوس بنایا ہے کہ دہلی کا تاریخی و تہذیبی جغرافیہ موجودہ منظر سے ہم آہنگ ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ہمیں اپنی ثقافت سے دوری اور اجنبی پن کا احساس دلاتا ہے اور بتاتا ہے کہ ہم اپنے پیچھے کیا کیا چھوڑ آئے ہیں۔ اس نظم میں لفظ ‘میٹرو ’کا استعمال جہاں میٹرو ریلوے کی طرف اشارہ کرتا ہے ،وہیں اس سے ”شہر” کے معنی بھی برآمد کیے جاسکتے ہیں کیونکہ نظم کے اگلے مصرعے میں نیولائن کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اب یہاں غور کرنے کی بات ہے کہ اگرنظم نگار پوری وضاحت کے ساتھ یہ کہانی سناتا تو شاید نظم ایک information کی صورت اختیار کرلیتی، اورنظم میں بیان کیے گئے اجمال کی تفصیل کو محسوس کرنے کا لطف ضائع ہوجاتا۔
اسی طرح نظم ‘‘سرِ کنارِ جمنا’’ میں جہاں شاعر نے جمنا کو کہانی کا مرکز بنا کر عشق اور اس کے انجام کے ادراک کو مرتب کردیا ہے۔ ایک کنارے پر ہمایوں کا مقبرہ اور دوسری جانب ممتاز محل نور جہاں کا مقبرہ ہے، دونوں میں جگہ و مکانی دوری بھی ہے اور زمانے کا فاصلہ بھی لیکن فرق یہ ہے کہ ایک جگہ معشوق مٹی میں ضم ہو کرعشق کی معراج پر پہنچ گیا اور دوسری جگہ عشق، ‘‘عشقِ زندہ’’ کا لاشہ بن کر دکھاوے کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ اسی طرح نظم‘‘گلیوں سے گزرتے ہوئے۔ ’’میں تین گلیوں کے مناظر پیش کیے گئے ہیں، جن کے اجمال کا اظہاریہ ایسا ہے کہ اگر تفصیل میں جائیں تو تینوں مناظرایک دوسرے سے مربوط معلوم ہوتے ہیں۔ پہلی گلی کے منظر میں بات حجاب اور حجابِ اکبری کے تار تار ہونے سے شروع ہوتی ہے۔ دوسری گلی کے منظر میں موجودہ زمانے کی میڈیا کا کردار جو ہر انسان پر ویتال کی طرح سوار ہے، خود کلامی کی کیفیت میں شاعر نے کہا ہے مگر اپنے آس پاس کے لوگ اسے ویسے ہی نظر آرہے ہیں اورتیسری گلی میں بدلتے ہوئے کلچر کی طرف اشارہ کیا ہے۔ نظم ‘‘خلاصتہ التواریخ ’’میں ناحق اور حق تلفی کو رواج عام کہا ہے۔ ‘‘گومتی کے ساحل پر ’’ نظم میں شاعر نے افتخار عارف کی نظم بارہویں کھلاڑی کا ذکر کرتے ہوئے ان سے ایک دلچسپ مکالمہ قائم کیا ہے اور دریافت کیا ہے کہ کیا ہجرت کے بعد راوی کے کنارے پر کوئی ایسا واقعہ پیش آیا جو بارہویں کھلاڑی کو گومتی کے ساحل پر آیا تھا۔ان نظموں کی خوبی ہے کہ شاعر نے واقعات کو ایسی ترتیب سے ہمارے سامنے رکھا ہے کہ ذہن میں پوری کہانی نمودار ہوجاتی ہیں اور اگر کچھ نہ بھی دکھائی دے تو ایک عکس تو ابھر ہی آتا ہے۔
حواشی کی نظموں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ پہلی نظم سے آخری نظم تک پڑھ جائیے ایسا لگتا ہے جیسے پہلی نظم میں ہی اگلی نظم کی بنیاد ڈالی گئی ہے۔ آخری نظم تک یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہتا ہے۔ مثال کے طور پر اس بات کو سمجھنے کے لیے نظم ‘‘گندمی آواز’’، نظم ‘‘شیفررڈ روڈ:ایک مافوقی جغرافیائی تصویر’’ پڑھیں۔اختصار کے سبب ان دونوں نظموں سے ایک ایک اقتباس پیش ہے:
نظم: گندمی آواز
یہی وہ گندمی آواز ہے
جس کو بلاتا ہوں
گلی کے موڑ پر بیٹھا ہوا سادھو
بتاتا ہے کہ مجھ پر کوئی سایہ ہے
کبھی جب پوچھتا ہوں میں:
پھر وہ گندمی آواز؟؟
کہتا ہے:
مایا ہے۔
نظم:’’شیفررڈ روڈ:ایک مافوقی جغرافیائی تصویر”
سادھو نے
اشارے سے بتایا
اس طرف
دیکھا تو پایا
اس طرف۔یعنی
میں شیفررڈ روڈ پر تھا
فاصلے پر
اک عمارت
ایک دریچہ
دودھیا روشنی
اور گندمی آواز
نظم ‘‘گندمی آواز’’ میں شاعر نے ‘‘گندمی آواز’’ کو ایک استعارے کے طور پر استعمال کیا ہے، جس کی رہنمائی میں وہ چلنا تو چاہتا ہے مگر خود کو ناکام محسوس کرتا ہے لیکن جب وہ ایک سادھو کو اپنے احوال کہتا ہے تو سادھواسے بتاتا ہے کہ گندمی آواز کے زیر سایہ چلنا ہی تیرا مقدر ہے۔ نظم میں گندمی آواز، سادھو اور شاعر تینوں کرداروں کی صورت میں ابھرتے ہیں۔ گویا تمثیل کی صورت نکل آتی ہے۔ اب یہی ‘‘گندمی آواز’’جب اگلی نظم‘‘شیفرڈ روڈ ’’میں جلوہ افروز ہوتی ہے تو سینے کی آواز بن کر ابھرتی ہے اور سادھو کے بتائے گئے‘‘شش راہے ’’اور‘‘ سہ راہے’’میں اصل راستے کا انتخاب کرنے میں روشنی بن کر رہنمائی کرتی ہے۔
حواشی میں ایسی نظم ملنا مشکل ہے،جو اپنے قاری سے close reading کا تقاضا نہ کرتی ہو۔ ان نظموں کی تفہیم میں قرأت کا اہم رول ہے، اکثر نظمیں کہنے(اسٹوری ٹیلنگ) کی طرز پر کہی گئی ہیں جیسے کوئی مکالمہ چل رہا ہو، جس سے ان میں ڈرامائی عنصر نمایاں طور پر ابھر آتا ہے اور مجھے ٹی۔ایس ایلیٹ یاد آتے ہیں، جنھوں نے شاعری میں ڈرامائیت کی بات کی۔وہ اپنے مضمون ”شاعری کی تین آوازیں ” میں کہتے ہیں۔
1۔ پہلی آواز وہ جس میں شاعر خود سے بات کرتا ہے جو عموماً غنائی ہوتی ہے۔
2۔ دوسری آوازمیں شاعر سامعین سے خطاب کرتا ہے یہ خطابیہ شاعری ہوتی ہے۔
3۔ تیسری آواز میں شاعر ڈرامائی کردار بن کر ان کے ذریعے بولتا ہے۔
(ایلیٹ کے مضامین از مترجم جمیل جالبی، مضمون۔ شاعری کی تین آوازیں،صفحہ:۹۶)
ایلیٹ نے بالخصوص ان تین وسیلوں کو موضوع بنایا ہے ان کا خیال ہے کہ شاعر کے پاس یہ تین ذرائع ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔
یہی سبب ہے کہ شہرام سرمدی کی ہر نظم انفرادی طور پر توجہ کی متقاضی ہے۔ ان کی نظموں میں اکثر یہ تینوں پہلو بیک وقت ایک ساتھ نمودار ہوجاتے ہیں،بعض مرتبہ کم سے کم دو پہلو ایک ساتھ چلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔نظم‘‘ خاموشی کا احیا سے ’’ایک اقتباس دیکھیں:
تصرف آسمانی خامشی پُر کرنے والے
کاش یہ بھی سوچتے
جس روز خاموشی
صدا کی شکل میں آزاد ہوگی
یہ زمیں کس کس طرح برباد ہوگی
میں بھی بغداد میں جب تھا
تو دیکھا۔۔!!!
اک عجب ہنگامہ برپا تھا
سیہ چشم پرچم کے زیرِ سایہ
خاموشی کا احیا تھا
کہ نوحہ تھا؟
یہ نظم بحر ہزج مفاعیلن کے دستور پرکہی گئی ہے لیکن شاعر نے افاعیل کی آزادی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سہولت کے ساتھ اپنے طرز گفتگو میں بات کی ہے۔ پہلے stanza میں جہاں شاعر خود کلامی کی حالت میں اپنی بات شروع کرتا ہے کہ تصرف آسمانی یعنی اپنے آسمانی ہونے کا بھرم رکھنے والا انسان جو خاموشی کو پُر کرنے میں لگا ہوا ہے کیسی درد ناک صدا بن کر برباد ہو رہا ہے اس کو اس کا اندازہ بھی نہیں ہے۔وہیں دوسرے stanza میں آنکھوں دیکھا حال اسٹوری ٹیلنگ کی طرز پر بیان کرتا ہے۔ پہلے مصرع میں مدھم آواز میں کہتا ہے ‘‘میں ابھی بغداد میں جب تھا ’’پھر ایک دم سکتے کے ساتھ کہتا ہے‘‘ تو دیکھا!!!’’جس سے شاعر کی حیرانی کا شبہ ہوتا ہے اور وہ اپنے تذبذب کا اظہار کرتا ہے عجب ہنگامہ برپا تھا، یعنی ہر طرف خانہ جنگی کا عالم تھا۔ سیاہ پرچم کے زیر سایہ رہنا اسے جہاں ایک طرف حق بجانب لگ رہا تھا یعنی خامشی کا احیا لگ رہا تھا جو ابدی خامشی کی طرف اشارہ کر رہا تھا، وہیں یہ خیال بھی اسے ستارہا تھا کہ کہیں وہ غلط راہ پر تو نہیں ہے۔کہیں یہ اس کی تباہی کا نوحہ تو نہیں؟ اسی طرح ایک اور نظم’’پھر المترا نے کہا: ہم سے محبت کی بات کرو‘‘ایک مکالماتی نظم ہے ،جو خلیل جبران کی تصنیف ‘‘دی پروفٹ’’سے ماخوذ ہے۔اس نظم سے ایک اقتباس بطور مثال ملاحظہ کریں:
خلیل جبران: مجھے لگتا ہے
جیسے بال چھوٹے ہوں گے
چہرے کو تمہارے
ڈھانپ لیتے ہوں گے
(سن کر، می زیادہ اپنے لمبے بال کٹواتی ہے اور تصویر اک ارسال کرتی ہے)
خلیل جبران : تم نے دیکھا
می! میرا تصور کتنا سچا تھا
می زیادہ : محبت، آہ اس سے بھی سوا۔۔۔۔۔۔۔ جاناں!
اس نظم میں شاعر دو کرداروں ‘‘خلیل جبران’’اور‘‘می زیادہ’’کے ذریعے مکالماتی انداز میں عشق کی انتہا کے احساس کا پیکر بنایا ہے، خلیل جبران نے جیسا تصور اپنے محبوب کے پیکر کا بیان کیا می زیادہ نے وہی روپ اپنا لیا یعنی محبوب نے عاشق کی خواہش کو سر فہرست رکھا اور عشق اپنے معراج پر پہنچ گیا عاشق و معشوق ایک دوسرے میں کھوجاتے ہیں۔
ان نظموں میں مصرعوں کی ڈرافٹنگ قابل غور ہے۔اس سے قاری کو ایسا لگتا ہے جیسے شہرام سرمدی نے کوئی نئی ہیئت ایجاد کی ہے لیکن رکیے اس پر غور کیجئے تو آپ کو معلوم ہوگا اس مجموعے میں بارہ سے تیرہ نظمیں نظمِ معریٰ (جس میں آہنگ کی پابندی ہوتی ہے۔ قافیہ ردیف کی پابندی نہیں ہوتی)کی ہیئت میں شامل ہیں اوربقیہ نظمیں آزاد نظم کی ہیئت میں ہیں، جس میں مصرعوں میں ارکان کی آزادی کا استعمال نظموں کے معنیاتی نظام کے مطابق کیا گیا ہے۔گویا نظم نگار نے اپنی آزادی کا بھرپور استعمال کیا ہے۔ نظموں میں بندش اتنی چست ہے اگر ایک لفظ ادھر سے ادھر کردیا جائے یا کسی لفظ کی جگہ اس کا مترادف رکھ دیا جائے تو اس کا مضمون تباہ ہوجائے۔ ایک ایک لفظ اپنی آب و تاب کے ساتھ نظم کی کہانی کا حصہ ہے۔ جبکہ کچھ نظمیں ایسی بھی ہیں، جن میں قاری نثر کا شک ہوتا ہے کیونکہ وہ نثری انداز میں شائع کی گئی ہیں لیکن ان میں بھی بحور کے دستور، وقفوں اور قوموں کا استعمال معنیاتی نظام کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ان میں‘‘میں سمجھ نہیں سکا’’،‘‘یادداش ۃ’’،‘‘آعندلیب’’،‘‘حلف نامہ ’’اور‘‘جواد خواجہ کمبل پوش’’قابل ذکر نظمیں ہیں۔
حواشی میں بعض نظمیں ایسی ہیں، جن میں شاعر نے عربی کے فقروں، سنسکرت کے ماخذات اور مطالعہ میں رہنے والے علوم و تصانیف سے بھرپور استفادہ کیا ہے،جس کے سبب اسلوب میں کہیں کہیں بین المتونیت بھی در آئی ہے۔ بطور مثال نظموں سے دو اقتباس ملاحظہ کریں:
نظم: لاتفرقو
نبی آخر
ہدایت کر رہے ہیں
زین بن عامر ہوں،
عقبیٰ ابن ارقم ہوں
(وہ ارشادِ نبی; لَوکانَ بعدِی…..ہو
بیاں: مَن کُنتُ مولا۔۔۔۔۔۔۔ہو
بشارت ہے)
نظم: اُبُونتُو
افواہ تھی کہ در ہیں سمندر میں اس طرف
ایک ایک فرد ملتِ بیضا کا باشرف
لپکا مگر نتیجہ وہی ریزۂ خزف
Ubuntu: (افریقی فلسفہ : یعنی ”میں ہوں” صرف اس لیے کہ ہم ہیں)
حواشی کی نظموں کو پڑھ کر ایک خیال یہ بھی ذہن میں آتا ہے کہ شاعر زندگی کے مختلف گوشوں پر گہری نگاہ رکھتا ہے۔ کچھ نظمیں ایسی ہیں، جن میں شہرام سرمدی نے اپنی ادبی زندگی کے تجربات و مشاہدات کے مطابق اردو کی ادبی لابیوں اور ڈیپارٹ مینٹل سیاست کو موضوعِ گفتگو بنایا ہے۔ جن میں ‘‘چند نامطبوعہ تراشے’’،‘‘نادیدہ قاری کا بیان’’،‘‘عالمی گاؤں میں’’ اور ‘‘حلف نامہ’’ نظمیں قابل ذکر ہیں۔
نظم ‘‘توچیزے دیگری ’’والد کی یاد میں اور ‘‘آخری آدمی کا بیان’’ والدہ کی یاد میں ذاتی رشتوں پر مبنی جذبہ و احساس سے بھرپور نظمیں ہیں۔ حواشی میں نظموں کا ایک گوشہ‘‘دشتِ جنوں دیوانوں کا’’ کے نام سے درج ہے،جس میں شہرام سرمدی نے علی گڑھ کی روایت، تہذیب اور شخصیات وغیرہ کویاد کرتے ہوئے خراج عقیدت پیش کی ہے۔ جن میں ‘‘مجاز’’،‘‘مسعود ٹامی’’، ‘‘مجاہد بھائی کی یاد میں’’، ‘‘عبدالرحمن بجنوری’’،‘‘شہریار’’،‘‘روشنی گل ہونے کا منظر’’،‘‘ہوٹل حیات کے ٹی لاؤنج میں’’،‘‘بازآمد ’’ نظمیں شامل ہیں۔
میرے نزدیک ‘‘حواشی’’اردونظم میں ایک خوشگوار اضافہ ہے جس سے اردوشاعری کو نئی سمت حاصل ہوگی اور مستقبل میں ہم نظم کے نئے جوہر دیکھیں گے۔اب بھی اور باتیں ہوسکتی ہیں لیکن طوالت کے سبب اس مجموعے کے آخر میں درج تاریخ پر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔
‘‘ذکر از عکس در آئینہ حواشی، بپایان رسید’’
٭٭٭