You are currently viewing مرزا غالبؔ کے دینی عقائد

مرزا غالبؔ کے دینی عقائد

ڈاکٹر سیّد احمد قادری

 نیو کریم گنج ، گیا (بہار)

مرزا غالب کے یوم پیدائش پر

مرزا غالبؔ کے دینی عقائد

27 / دسمبر 1797 ء کو آگرہ میں پیدا ہونے والے مرزا غالبؔ کی شراب نوشی کے قصّے ، ڈومنی سے عشق کی داستان اور جوا کے سلسلے میں جیل جانے کے واقع سے پوری اردو دنیا واقف ہے ۔ روزہ نماز سے بھی یہ ہمیشہ دور ہی دور رہے، اس لئے ان کے حج و زکوٰۃ کا ذکر ہی بے جا ہے ۔ خود غالبؔ کو اپنی ان تمام برائیوں  اور خامیوںکا شدت سے احساس تھا اور اسی بنا پر یہ خود کو آدھا مسلمان کہا کرتے تھے ۔ ان کے چند اشعار اس سلسلے میں ملاحظہ ہوں    ؎

زندگی اپنی جو اس شکل سے گزری غالبؔ

ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے!

٭

ہوگا کوئی ایسا بھی کہ غالبؔ کو نہ جانے

شاعر تو وہ اچھا ہے پہ بدنام بہت ہے

٭

آتا ہے داغ حسرت دل کا شمار یاد!

مجھ سے مرے گناہ کا حساب اے خدا نہ مانگ

         ان تمام احساسات کے با وجود غالبؔ خود کو عشق و محبت اور رندی اور سرمستی سے الگ نہ کر سکے ۔ بلکہ مختلف انداز سے اپنے تجربات اور تفکرات کو اپنی شاعری میںبیان کرتے رہے۔ عشق کے متعلق غالبؔ فرماتے ہیں   ؎

عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالبؔ                   کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے!

اورپھر اس بات کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ  ؎

دھول دھپّا اس سراپا ناز کا شیوہ نہیں

ہم ہی کر بیٹھے تھے غالبؔ پیش دستی ایک دن

٭

عشق نے غالبؔ نکمّا کردیا

ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

ظالم شراب جو عمر بھر غالبؔ کے منہ سے نہ چھوٹی، اس کی تعریف انہوں نے خوب خوب کی ہے۔ یہ شراب انہیں کتنی عزیز تھی اسے ملاحظہ فرمائیں    ؎

قرض کی پیتے تھے مئے ، لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں

رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دَم ہے

رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے

لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہیں یہ بھی احساس تھا کہ     ؎

تو نے قسم مئے کشی کی کھائی ہے غالبؔ

تیری قسم کا کچھ اعتبار نہیں

         ایسی صورت میں اگر غالب کے دین و ایمان کا ذکر کیا جائے تو یہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ مرزا غالبؔ جن کی شخصیت اور شاعری ہماری ادبی تاریخ کا ایک اہم باب ہے اور ادبی شعور پر ہنوز حاوی ہے ،وہ اسلام پر پختہ یقین رکھتے تھے ۔ اور توحید وجودی کو اسلام کا اصل اصول اور رکن جانتے تھے ۔ اس امر کا ٹھوس ثبوت اس ایک واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ حالیؔ مرحوم نے ایک روز مرزا غالبؔ کی بزرگی ، استاذی ، کبر سنی اور شعری عظمت کو بالائے طاق رکھ کرنماز پنجگانہ اور فرضیت کی تاکید پر ایک لمبا چوڑا لکچر لکھ کر ان کے سامنے پیش کیا تو ان کا جواب تھا  :

  ’’ اس میں شک نہیں کہ میں موحّد ہو لیکن ہمیشہ تنہائی اور سکون کے عالم میں یہ کلمات میری زبان پر جاری رہتے ہیں۔ لا الہ الا اللہ لا موجوداً الّا اللہ لا موثر فی الوجود الا اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

         مرزا غالبؔ کا یہ دعویٰ غلط نہیں معلوم ہوتا ہے ۔جب یہ باتیں نظر سے گزرتی ہیں کہ مرزا نے جو کچھ پایا اسے خدائے برتر کا کرم سمجھا ۔انہیں اس بات کا بھی مکمل یقین تھا کہ تمام باتوں کا علم صرف خدا ہی کی ذات کو ہے ۔غالبؔ نے ’’قاطع برہان‘‘ کے اخیر میں چند فوائد لکھے ہیں ۔ان میں فائدہ اوّل کا ماحصل یہ ہے  :

  ’’میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں اور خدا کے سوا کوئی نہیں جان سکتا کہ ان باون برسوں میں اس نے کس قدر معنیٰ کے دروازے مجھ پر کھولے ہیں اور میری فکر کو کس درجے کی بلندی بخشی ہے۔‘‘

خدا پر ایمان کے بعد رسول اللہ اور خانہ کعبہ کی کس حد تک عزّت واحترام غالبؔ کے دل میں تھا اس کا اندازہ ان کے قید ہونے کے نا خوشگوار واقعہ کے بعد ان کے ایک خط سے لگایا جاسکتا ہے۔ لکھتے ہیں  :

 ’’ آرزو کرنا آئین عبودیت کے خلاف نہیں ہے ، میری آرزو ہے کہ اب دنیا میں نہ رہوں اور اگر رہوں توخانۂ کعبہ کی جائے پناہ اور آستانۂ رحمۃ للعالمین دیواروں کی تکیہ گاہ ہو۔‘‘

 مرزا غالبؔ مسلمانوں کی کسی ذلّت و رسوائی کی بات سن لیتے تو انہیں نہایت دکھ اور رنج ہوتا تھا۔ اس سلسلے میں ’’یادگار غالبؔ ‘‘ میں حالیؔ مرحوم فرماتے ہیں:

  ’’ مرزا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسلمانوں کی ذلّت کی کوئی بات سن پاتے تھے تو ان کو سخت رنج ہوتا تھا ۔ ایک روز میرے سامنے اسی قسم کے ایک واقعہ پر نہایت افسوس کرتے تھے اور کہتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔مجھ میں کوئی بات مسلمانی کی نہیں ۔پھر بھی میں نہیں جانتا کہ مسلمانوں کی ذلّت پر مجھ کو کیوں اس قدر رنج و تاسف ہوتا ہے۔‘‘

یہ باتیں ثابت کرتی ہیں کہ غالب،ؔ اللہ اور اس کے رسولؐ پر مکمل ایمان رکھتے تھے ۔ ساتھ ہی انہیں قرآن پر اعتقاد اوراس کے نظریات اور واقعات پر بھی یقین کامل تھا ۔اور یہی وجہ ہے کہ جہاں ان کی شاعری میں حسن پرستی ، جام و مینا ، حیات و موت ، صبر و اختیار اور سوز و ساز کے فلسفیانہ نظریات ملتے ہیں وہیں قرآنی نظریات ، معتقدات، واقعات اور عقاید سے متعلق تلمیحات بھی جا بجا ملتی ہیں۔ مثال کے طور پرگناہ و ثواب ، جنت و دوزخ ، حورو فرشتہ ، حشر و نشر ، حساب و کتاب کے تصورات اور حضرت یوسف علیہ السلام کا حسن اور زلیخا کا عشق ، حضرت خضر علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کی ملاقات ، حضرت ابراہیم علیہ السلام اور نمرود ، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور کوہ طور وغیرہ کے قرآنی واقعات سے بھی مرزا غالبؔ نے اپنے کلام میں رنگ بھرا ہے   ؎

گرتی تھی ہم پر برق تجلی نہ طور پر!

دیتے ہیں بادہ ظرف قدح خوار دیکھ کر

٭

کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب

آؤ نہ ہم بھی سیر کریں کوہ طور کی!

٭

         ان دونوں شعر میں غالبؔ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کوہِ طور پر خدا کی تجلی دیکھ کر غش کھانے کا ذکر کیا ہے ۔ حضرت آدم علیہ السلام کے جنت سے نکلنے کے دلچسپ واقعہ کو غالبؔ نے اپنے شاعرانہ اور شوخ انداز میں یوں پیش کیا ہے   ؎

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن

بڑے بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے

حضرت ابراہیم علیہ السلام پر نمرود کے ظلم و ستم کا قصہ قرآن مجید میں تفصیل سے موجود ہے ۔ غالبؔ نے اپنے ایک شعر میں اسے اس طرح بیان کیا ہے    ؎

کیا وہ نمرود کی خدائی تھی

بندگی میں میرا بھلا نہ ہوا

یوسف علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام کی جدائی اور پھر زلیخا کے عشق کی داستان کا بیان فارسی اور اردو کے شعراء نے اپنے اپنے انداز سے قلم بند کیا ہے لیکن غالبؔ کے کلام میں کتنی ندرت اور انفرادیت ہے،یہ دیکھئے ،کہتے ہیں   ؎

قید میں یعقوب نے لی گو نہ یوسف کی خبر

لیکن آنکھیں روزن دیوار و زنداں ہو گئیں

سب رقیبوں سے ہوں نا خوش پر زنان مصر سے

ہے زلیخا خوش کہ محو ماہ کنعاں ہو گئیں

٭

نہچھوڑی حضرت یوسف نے یاں بھی خانہ آرائی

سفیدی دیدۂ یعقوب کی پھرتی ہے زنداں پر

٭

یوسف اس کو کہوں اور کچھ نہ کہے خیر ہوئی

گر بگڑ بیٹھے تو میں لائقِ تعذیر بھی تھا

٭

ہنوز ایک پر تو نقشِ خیال یار باقی ہے

دل افسردہ گویا حجر ہے یوسف کے زنداں کا

٭

اللہ تعالیٰ کے یہاں روز حشر سزا اور جزا کا حساب کتاب ہوگا ۔یہ ایک قرآنی عقیدہ ہے ،جسے غالب ؔنے یوں پیش کیا ہے   ؎

ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد

یارب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے

قیامت کا تصور بھی قرآن میں موجود ہے اور اس تصور کا اظہار غالب نے اس طرح کیا ہے   ؎

جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے

کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور

خدا کے نیک بندوں کو جنّت میں حوریں ملیں گی اس کا ذکر قرآن حکیم میں ہے۔ تو غالبؔ نے اس سلسلے میں عرض کیا ہے   ؎

ایک خوں چکاں کفن میں کروڑوں بناؤں میں

پڑتی ہے آنکھ تیرے شہیدوں پہ حور کی

٭

تسکین کو ہم نہ روئیں جو ذوق نظر ملے

حوران خلد میں تیری صورت اگر ملے

٭

ان پری زادوں سے لیں گے خلد میں ہم انتقام

قدرت حق سے یہی حوریں اگر واں ہوگئیں

٭

حسن میں حور سے بڑھ کر نہیں ہونے کے کبھی

آپ کا شیوہ و انداز و ادا اور سہی

٭

سامنا حورو پری نے نہ کیا نہ کریں

عکس تیرا ہی مگر تیرے مقابل آئے

٭

غالبؔ جنت کی شراب طہور کے متعلق فرماتے ہیں   ؎

واعظ نہ پیؤ نہ کسی کو پلا سکو!

کیا بات ہے تمہاری شراب طہور کی

٭

انسان کی نیکی اور بدی کے سلسلے میں قرآن مجید میں کراماً کاتبین کا ذکر آیا ہے ۔اس قرآنی نظریہ کو مختلف شعرا نے مختلف انداز سے اپنے کلام میں پیش کیا ہے لیکن غالبؔ اس کا ذکر شکایت کے طور پر یوں کرتے ہیں  ؎

پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق

آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا

کافر اور گنہہ گار میں بیّن فرق ہے اور اس کا ذکر قرآن میں کئی جگہ آیا ہے اس سلسلہ میں غالبؔ فرماتے ہیں    ؎

حد چاہئیے سزا میں عقوبت کے واسطے

آخر گنہ گار ہوں کافر نہیں ہوں!

روز قیامت کے سلسلے میں قرآن مجید میں ذکر ہے کہ اس دن صور پھونکے جائیں گے حشر برپا ہوگا ،اور لوگوں کے اعمال کا حساب و کتاب ہوگا ۔ چنانچہ اس قرآنی عقیدہ کو غالبؔ نے اس شعر میں کچھ اس طرح پیش کیا ہے    ؎

لڑتا ہے مجھ سے حشر میں قاتل کہ کیوں اٹھا

گویا ابھی سنی نہیں آواز صور کی

والئے اگر مرا ترا انصاف حشر میں نہ ہو

اب تلک تو یہ توقع ہے کہ واں ہوجائے گا

جب تک کہ نہ دیکھا تھا قد یار کا عالم

میں معتقد فتنۂ محشر نہ ہوا تھا

نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں

شب فراق سے روز جزا یاد نہیں

قرآنی عقاید میں ایک عقیدہ یہ بھی ہے کہ ہر شخص کی موت کا ایک دن مقرر ہے، اس کا احساس غالبؔ کو بھی ہے فرماتے ہیں    ؎

موت کا ایک دن معیّن ہے

نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

غالبؔ کو اپنا ایمان کتنا عزیز تھا اس کا اظہار انھوں نے اپنے ایک شعر میں یوں کیا ہے   ؎

کیوں کر اس بت سے رکھوں جان عزیز

کیا نہیں ہے مجھے ایمان عزیز

اور چونکہ حضرت غالبؔ کو اپنے گناہوں کا شدت سے احساس ہے اور اپنے اعمال پر پریشانی بھی ، اس لئے مرزا غالبؔ کعبہ کا ذکر ان لفظوں میں کرتے ہیں    ؎

کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ

شرم تم کو مگر نہیں آتی

گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ کیا عجب مرزا غالب ؔ واقعی ولی ہوتے جو نہ بادہ خوار ہوتے۔

  غالبؔ خود فرماتے ہیں   ؎

یہ مسائل تصوف، یہ ترا بیان غالبؔ

تجھے ہم ولی سمجھتے ، جو نہ بادہ خوار ہوتا

***

Leave a Reply