جدید اردو نظم مختصر تعارف

 

ڈاکٹر محمد جلیل اقبال خاکی

ریسرچ اسکالر جواہر لال نہرو یونیورسٹی نئی دہلی۔

جدید اردو نظم مختصر تعارف

شعر انسان کی تہذیبی  و معاشرتی  زندگی کے تجربات کا مرقع ہوتا ہے،ان ہی تجربات اور افکار کی روشنی میں جب کوئی تخلیق وجود میں آتی ہے تو وہ شاعری کا روپ اختیار کرتی ہے ۔ذہنی و فکری اور معاشرتی زندگی کا تنوع  زبان و ادب میں تنوع اور رنگا رنگی کی وجہ بھی، بائیں ہمہ شعر کے اندر بھی رفتار  زمانہ  اور انقلاب احوال کے  ساتھ تنوع  اور رنگا رنگی نیز جدت طرازی دیکھنے کو ملی،گویا شعرکو بھی ارتقائی ادوار سے گزرنا پڑاہے۔اس ارتقائی عمل کے دوران میں شعر نے اصناف شاعری کی مختلف شکلیں دیکھی ہیں ،مثال کے طور پر غزل،نظم،قصیدہ،مثنوی،رباعی وغیرہ۔ان ہی اصناف میں نظم ایک اہم صنف ہے جس کے بغیر اردو زبان میں شعر و ادب کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔

ارددو کی شعری اصناف میں غزل کے بعد جس صنف کو سب سے زیادہ شہرت و داد ملی وہ نظم ہے۔ نظم ایک فصیح و بلیغ صنف سخن ہے جس میں کسی بھی مضمون کو پیش کیا جا سکتا ہے ۔شاعر اپنے مافی الضمیر کو کسی عنوان کے تحت تسلسل کے ساتھ بیان کرتا ہے،اس میں وزن بحر و ردیف کی کوئی قید نہیں ہوتی،نظم کا جو تصور ہمارے ذہن میں قصیدہ،مثنوی،واسواخت،ہجو اور دیگر مماثل اصناف کے تعلق سے ہے جدید نظم ان میں ایک الگ شناخت رکھتی ہے ۔

جدید نظم اپنے وجود کی ابتدا سے لے کر آج تک تعمیرو ترقی کے جو سفر طے کیے ہیں،جن رحجانات،ادبی تحریکات اور بیان و اسلوب سے جو اثر ات لیے ہیں ان کی روشنی میں جدید نظم کی خصوصیات کا تعین کچھ اس طرح سے کیا جاسکتا ہے۔

بیانیہ کی کارگردگی افادیت و اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے لیکن شعر کی بنیادی ساخت استعارے، علامت،اور پیکر کی مرہون منت ہے ،اس لیے جدید نظم طریقہ کارکی سطح پر حاوی انداز میں صرف بیانیہ پر تکیہ نہیں  کرتی،جدید نظم  نے علامتی طریقہ کار کو باہر سے وارد کئے ہوے کسی فیشن یاکلٹ کے طور پر نہیں اپنایا،بلکہ علامتی طریقہ کار کو ہی اپنی خصوصیت بنا لیا،کیونکہ علامتی طریقہ کار تخلیقی عمل کے لیے جز لاینفک ہے۔

جدید نظم مضامین،موضوعات اور انسانی تجربات کے نقطہ نظر سے وسیع دائرہ عمل میں داخل ہو گئی،اور اب سیاسی ،اخلاقی اوردیگر

مضامین کے اعتبار سے کوئی مضمون یا تاثر اس کے لیے ممنوع نہیں رہا،سمندر کی سی وسعت اپنے اندر سمائے ہوے جدید نظم اپنی ارتقائی سفر پر گامز ن ہے۔

جدید نظم نے مشرقی و مغربی ادبی فکر کا امتزاج رکھتی ہے ،جدیدنظم گو شعرا نے ایک طرف سریلزم ،امپریشنزم،سمبلزم،داد ازم کیوبزم،امیجرازم  سے استفادہ اٹھاتے ہیں دوسری جانب وہ مشرقی فلسفہ زندگی ،ہندو دیومالائی اوراسلامی تہذیب و تمدن سے مانوس نظر آتے ہیں ۔جدید نظم نے ان تمام تاثرات کو اپنے اندر جذب کیا جو انسانی زندگی میں مختلف تجربات و حوادث کی شکل میں اس  کی زندگی میں داخل ہوئے،وہ فلسفہ کی شکل میں ہو یا ادبی تھیوری کی شکل میں نظم نے اسے اپنایا۔لیکن  جدید اردو نظم کا کوئی مخصوص تخلیقی طریقہ کار  کا رویہ ایسا نہیں جس کے باعث جدید نظم کےکسی سرمائے کے کسی حصے کو کسی مخصوص شاعر کو کلی طور پر یا جزوی طور پر اصطلاحی انداز میں کسی تحریک سے منسلک کیا جاسکے۔

ایجاز و اختصاراجمال جدلیاتی لفظ تہہ داری وہ اوصاف ہیں جو کسی بھی منظوم تحریر کو شعری سطح پر بال و پر بنانے کے لیے ناگزیر طور پر ضروری  ہیں،جدید نظم گو شعرا نے دیگر زبانوں کی اصناف سخن میں بہت تجربے کیے ہیں ان میں نظم معرایٰ،آزاد نظم،سانیٹ ترائیلے،نثری نظم،ہائیکو،ماہیا،اور دو ہا قابل ذکر ہیں ،یہ الگ بحث ہے یہ تجربے کس حد تک کامیاب ہیں  اور کس حد تک اردو زبان کے مزاج اور فطری آہنگ کے اعتبار سے ناکامیاب ۔بحر حال نظم معرایٰ اور آزاد نظم کے بعد نثری نظم بھی قبولیت سے سرفراز ہو چکی ہیں ۔

جدید نظم نے زبان کی شکست اورریخت، رسمی اور غیر رسمی آہنگ اور دیگر زبانوں کے الفاظ سے بھی استفادہ کیا ہے،لیکن اردو زبان کی روایت کو ایسا نظر انداز بھی نہیں کیاکہ زبان کو غیرمانوس،غیر مربوطاور غیر ہموار بنا کے رکھ دیا ہو ہے۔

جدید نظم 1867 سے لے دور حاضر تک عام طور پر سیاسی ،مذہبی اور غیر ادبی دخل اندازی سے آزاد رہی ہے،طے شدہ مضامین اور موضوعات اور ان غیر ادبی عناصر کے باعث جدید نظم میں مختلف وقفوں میں داخل ہوے جو ادب کو مخصوص مقاصد کے تحت ادب کو آلہ کار کے طور پر استعمال کرنا چاہتے تھے،اس نوع کی اردو نظم اسی تناسب میں کمزور ہوگئی جس تناسب میں یہ طے شدہ اور مصنوعی عناصر اس پر حاوی ہوگئے۔

اردو نظم زندگی کی تبدیلیوں کا ساتھ دیتی رہی ہے اور خود کو وقت اور حالات کے مطابق تبدیل کرتی رہی ابتدا سے لے کر حالی تک

اردو نظم  خارجی زندگی کی عکاسی اور شعر کی اجتماعی  رد عمل کی ترجمانی کرتی رہی،نظیر اکبر آبادی کی نظمیں بھی خارجی زندگی کی

 ترجمان رہی ہیں ،پر اردو  نظم پر ان کا یہ احسان کے انھوں نے روایت سے ہٹ کر  شاعری کو عوامی  زندگی کی دلچسپوں،ہنگاموں،عادات و اطوار،رسوم و رواج،خیالات و عقاید اور نفسیات کو اپنی نظموں میں پیش کیا۔

1857کے بعد نئی سیاسی صورت حال،نئی جذباتی فضااور مغرب کے بڑھتے ہوئے اثرات کے ساتھ جدید نظم نظم کا اغاز ہوا۔مولانا محمد حسین آزاد نے 1867انجمن پنجاب کے جلسے میں”نظم اور کلام موضوع کے عنوان ” سے جو تقریر فرمائی وہ جدید نظم کا منشور ہے۔حالی نے نیچرل شاعری کی طرف توجہ دلائی  اور نظم کے موضوعات میں ایک جدت لائی جس سے جدید نظم کی ہئیت و داخلیت میں تبدیلیاں رونما ہوئیں ۔آزاد اور ان کے رفقا کے زیر اثر جدید طرز کی نظمیں لکھی گئی،ان میں مناظر فطرت کا بیان سماجی حالات کی ترجمانی اور قومی شعور کی عکاسی پر زور  دیتا ہے۔

 ترقی پسند تحریک کے آغاز سے  ادبی دنیا میں  ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے یہ تحریک علی گڑھ تحریک کے بعد دوسری شعوری تحریک تھی۔اس تحریک نے اردو نظم کو ایک نئی سمت و رفتار عطا کی۔ترقی پسند شعرا نے بنیادی طور پر نطم کو ہی اپنے  اشتراکی خیالات کی ترسیل کا زریعہ بنایا، اس تحریک کا ایک بنیادی مقصد یہ تھا کہ ادب کو اجتماعی اورعوامی زندگی کا ترجمان ہو،اور واضح مقصد کے تحت عمل میں آئے۔اس مقصد کے پیش نظر اس تحریک نے ادب میں عوام کی زندگی اور ان کے بنیادی مسائل سے دلچسپی میں اہم رول ادا کیا اور معاشرتی زندگی کا آئینہ بنایا،ترقی پسند شعرا کے سامنے ایک واضح مقصد  تھا،اس لیے اس تحریک سے وابستہ اکثر و بیشتر شعرا نئے تجربات کرنے سے گریز کیا،وہ کسی بھی نئے تجربے کو افادی و مقصدی ادب کے لیے نقصان دہ سمجھتے تھے۔

ترقی پسند تخلیق کاروں کا عمومی رویہ فن کو نظر انداز کر تے ہوئے سارا زور فکر پر صرف کرنا تھا، دراصل وہ عوام کے مسائل کو عوام کی زبان میں عوام و حکومت دونوں کو پہچانا چاہتے تھے،نتیجتاً بیشتر ترقی پسند ادب پروپیگنڈہ بن کر رہ گیا۔ترقی پسند ادیب چونکہ ادب کو ایک سماجی عمل سمجھتے تھے،اس لیے انھوں نے فنکار کی آزادی سے اورداخلی احساسات سے زیادہ اجتماعی مشکلات و معاشرتی مسائل  کو اہمیت دی۔اس کے باوجود چند ترقی پسند شعرا ایسے بھی ہیں جن کا ہاں ان اصولوں سے انحراف کا رجحان بھی ملتا ہے،ان میں فیض،مخدوم،احمد ندیم قاسمی وغیرہ کے نام اہمیت کےحامل ہیں ۔

ترقی پسند تحریک کے زیر اثر تخلیق کی جانے والی نظم کے علاوہ  دوسرے رجحانات و میلانات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں،ان میں سب سے اہم اور غالب رجحان حلقہ ارباب ذوق تھا،اس سے وابستہ شعرا  ادب برائے ادب کے قائل تھے۔یعنی ادب کا کوئی مقصد نہیں بلکہ ادب بذات خود مقصود بالذات ہے ،اس سے وابستہ شعرا کا مزاج  بنیادی طور پر جدت اور انفرادیت کا حلقہ تھا،حلقہ ارباب  کے نزدیک جدت اور انفرادیت صرف موضوع ہی نہیں،بلکہ طریقہ اظہار بھی ضروری تھا۔حلقہ کے اندرون بھی بعض میلانات و  رجحانات کی نشاندہی کی جا سکتی ہے،مثلاً علامتی نظموں کا میلان اور جنسی و نفسیاتی نظموں کا میلان وغیرہ۔

حلقہ ارباب و ترقی پسند  کے عہد میں چند شعرا ایسے بھی تھے کہ جو کسی تحریک یا کسی ادبی رجحان سے منسلک نہ تھے اور اپنی انفرادی صلاحیتوں سے اردو نظم کو نئی سمت و رفتار عطا کیں،ان میں مجید امجد اور اخترالایماں کو اہمیت حاصل ہے  ۔ان شعرا کو کسی کے ساتھ جوڑا نہیں جا سکتا ان کا رویہ متوازن ہے جسے متوازن میلان بھی کہا جا سکتا ہے اس عہد میں نظم کی ہیئت کے تجربے بھی کیے گے۔

اردو نظم کی تاریخ پر روشنی ڈالیں تو اردو نظم کا باقاعدہ آغاز تو نظیر اکبر آبادی کی عوامی نظموں سے ہوتا ہے 1857کی پہلی ناکام جنگ آزادی کے بعد اردو نظم کی بنیادیں مضبوط ہونے لگیں تھیں ۔ایک لمبے سکوت کے بعد 1867 میں انجمن پنجاب کاقیام اس ضمن میں اہم پیش رفت کے طور  پر منظر عام پر آیا۔خواجہ الطاف حسین ،محمد حسین آزاد اور کرنل ہالرائڈ نے انجمن کے تحت مشاعرے منعقد کیے،انجمن کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں ایک متعین عنوان کے تحت مشاعرے ہوتے تھے ۔

اسماعیل میرٹھی،اکبرالہ آبادی،  چکبست اور اقبال کی صورت میں اردو نظم کے افق پر درخشاں ستارے کی مانند چمکنےلگے  اردو نطم کو باقی اصناف کے ساتھ ادب کے آسماں پر تابناک کیا۔اس دوران نظم میں فلسفیانہ افکار قدرتی مناظر اورہئیت کے تجربے دیکھنے کو ملے۔اس عہد میں کے سیاسی  وسماجی حالات کا جائزہ لیں ےتو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یورپ کے نشاة ثانیہ سے لے کر بیسویں صدی کی چوتھی دہائی تک کا زمانے میں پوری دنیا کسی نہ کسی طرح کے بحران کا شکار رہی ہے،سائنسی ایجادات ،صنعتی انقلاب اور نئے نئے علوم کے سبب نہ صرف نظریاتی اور تصوراتی سطح پر مسلمہ تہذیبی اور اخلاقی قدروں کے درمیان کشمکش کا سلسلہ جاری رہا ہے۔

پہلی جنگ عظیم سے قبل سیاسی سطح پر تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں تمام  نبرد آزما طاقتیں موٹے طور پر دو  خیموں میں بٹی ہوئی دکھائی دیتی ہیں،ایک طرف رجعت پسندی شہنشاہیت،عامریت،سامراجیت اور سرمایا داری تھی دوسری طرف حریت سوشل ازم اشتراکیت ااور امن دوستی کی تحریکیں تھیں ۔1917میں انقلاب روس میں اشتراکیت کی جیت اور شہنشاہیت وآمریت  کی شکست سے عالمی پیمانے پہ ایسے تمام لوگوں نے راحت کا سانس لیا جو دنیا  میں انسانیت کا پر چم بلند کرنا چاہتے تھے ۔یہیں سے زندگی کے ہر شعبہ میں  اشتراکیت نے اثر انداز کرنا شروع کر دیا۔ادب تو انسانی حیات کا عکس اور اس کا اشتراکیت سے متاثر نہ ہونا نہ ممکن

 تھا ۔

ترقی پسند تحریک سے منسلک شعرا نے نظم کو تقویت بخشی ۔شعری اصناف میں اشتراکی خیالا ت کی ترسیل کا بہترین جامہ نظم رہی ہے ،اس کی بنیادی وجہ  یہ کہ نظم میں مضامیں بیان کرنے کی وسعت ہے۔آزادی ہند میں اردو نظم کا اہم کردار رہا ہے۔ترقی پسند تحریک جو اشتراکیت ،اجتماعیت اور ادب میں مقصدیت کی حامل تھی،اس سے نظم کے موضوعاتی پہلو میں ایک انقلاب آیا اور بھوک و افلاس،سیاست،ٓزادی اور آدمیت جیسے معتبر مضامین کو بالخصوص نظم میں پیش کیا جانے لگا۔شعرا نے قید و بند وکی سعوبتیں برداشت کیں ،اس تحریک سے منسلک شعرا میں فیض احمد فیض، علی سردار جعفری مخدوم محی الدین،ساحر لدھیانوی،جوش ملیح آبادی کیفی اعظمی ،اخترالایمان ،کشور ناہید،فہمیدہ ریاض اور حبیب جالب اہمیت کی حامل ہیں ۔

ترقی پسند تحریک اردو ادب کے لیے ایک طوفانی تحریک تھی،بلا شبہ اس سے خارجی زندگی کا عمل تیز کر دیا تھا،چنانچہ اس تحریک کے متوازی ایک ایسی تحریک مائل بہ عمل نظر آتی ہے،جس نے نہ صرف خارج کو بلکہ انسان کے داخل کوکو بھی جھانک جھانک کر دیکھا،داخلی کشمکش اور اضطراب کو منظر عام پر لانے کے لیے حلقہ ارباب ذوق  کا کردار اہم ہے ۔ترقی پسند تحریک اور حلقہ ارباب فکری  سطح پر ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔ترقی پسندوں نے اجتماعیت پر زور دیاجب کہ حلقے والوں نے انسان کو اپنی شخصیت کی طرف متوجہ کیا،ایک کا عمل بلاواسطہ خارجی واور ہنگامی تھا اور دوسرے کا بلاواسطہ اور آہستہ ہے،حلقہ سے منسلک شعرا میں میراجی،ن م راشد ،یوسف ظفر،قیوم نظر،مختار صدیقی،منیر نیازی کے نام اہمیت کے حامل ہیں ۔

اردو نظم ایک لمبے عرصے تک ترقی پسند تحریک کی اثر اندازی  رہی اس کے ساتھ ہی حلقہ نے بھی اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں جو عصر حاضرمیں بھی اپنی عمدہ تخلیقات سے اردو نظم کی دامن میں تازگی جدت پیدا کر رہی ہیں۔ترقی پسند تحریک تقریباًپچیس سال تک ایک تحریک کی طرح متحرک رہی ۔ اشتراکی نظریہ اس کے بعد  تحریک کی صورت میں تو نہیں رہا پر متعدد شعرا و ناقد نے اشتراکی خیالات کو اپنی تخلیقات میں پیش کیے۔

اردو شعر وادب میں جدیدیت کی فکر بیسویں صدی کے  چھٹے دہے میں اثر انداز ہوئی جس سے اردو نظم بھی متاثر ہوئی ،علامتی اور تجریدی نظمیں تخلیق ہوئیں ،جدیدیت ایک طرز فکر ہے نہ کہ کوئی منظم تحریک،تو گویا اس کے اثرات بھی عارضی تھ ایک خاص وقت تک اس نظریئے کے تحت ادب تخلیق کیا جاتا رہا،ے اس کے بعد با بعد جدیدیت کی فکر منظر عام پر آئی ۔ نظم گو شعرا کی ایک  بڑی تعداد ہے جو ان فکری نظریات سے متاثر نظر آتے ہیں ۔جدید و مابعد جدید دور میں  ایسے شعرا بھی ہیں جو اپنے انفرادی طرز خیالات کے تحت نظمیں تخلیق کرتے رہے ہیں، ان میں افتحار عارف،امجد اسلام امجد،بیکل اتساہی،گلزار، خلیل الرحمن اعظمی،معین احسن جذبی،حنیف کیفی،احمد فراز،شہپر رسول،بلراج کومل،باقر مہدی،حامدی کاشمیری،فہیم شناس کاظمی،فہمیدہ ریاض ،فرحت احساس،جینت پرمار ،جون ایلیا،خالد عرفان،جاوید شاہین،افتحار اعظمی،ابن انشاٗ،مجید امجد ،ندا فاضلی،قتیل شفائی،پیغام آفاقی،قاسم یقوب،عبیداللہ علیم،پروین شاکر،نشتر خانقاہی،ستیہ پال آنند،ساقی فاروقی،ساغر نظامی ساراشگفتہ،ساغر خیامی،ساحر ہوشیار پوری،ساجدہ زیدی،رام چند مچندر بانی،تنویر انجم،زہرا نگاہ اور زبیر رضوی  کانام قابل ذکر ہے۔ جدید نظم اپنی پوری آب و تاب سے اپنا سفر جاری رکھے ہوے  ہے۔

***

Leave a Reply