محسن خالد محسنؔ
لیکچرار، گورنمنٹ شاہ حسین ایسوسی ایٹ کالج،چوہنگ،لاہور
امامہ ریاست
سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ،اٹک
مستنصر حسین تارڑ کا ناول” راکھ“۔بعد از تقسیم ؛نومولود پاکستانی معاشرت کا تخریبی نوحہ۔خصوصی مطالعہ
Mustansar Hussain Tarar’s novel “Rakh”. Post-partition, the destructive cry of newly born Pakistani society .Special study
ABSTRACT
This paper critically examines the novel ash collection situation. In this paper, the novel Rakh has been thematically reviewed, and all the tragedies and events as a result of the partition of India have been reviewed. Hoye and Phar Rah Sahi Kasar were completed by the Indo-Pak wars of 1965 and 1971. The novel uses ash as a symbol that refreshes the great tragedy of East Bengal in the background, whose ashes still smear our faces today. All the events presented in this novel make one aware of the horrible past that the people of the past went through to come to Pakistan, and then the tragedy broke their backs like the fall of Dhaka. Along with water birds and pigeons, it has also been taken as a symbol that whenever these birds are seen in the sky, they definitely bring some kind of trouble with them.
Key words: partition of India, Pakistani society, urban life, Lahore, 1965; fall of Dhaka, 1971; East Pakistan tragedy; symbol; migration.
خلاصہ:یہ مقالہ ناول راکھ کی مجموعہ صورتحال کا تنقیدی محاکمہ کرتا ہے۔ اس مقالہ میں ناول راکھ کا موضوعی جائزہ لیا گیا ہے اور جملہ سانحات و واقعات کا تقسیمِ ہند کے نتیجے میں اجمالی جائزہ لیا گیا ہے۔ناول راکھ کی کہانی دراصل ان اجڑے ہوئے بے کس لوگوں پر مبنی ہے جو سب سے پہلے تقسیم ہند کا شکار ہوئے اورپھر رہ سہی کسر 1965ء اور1971ء کی پاک بھارت جنگوں نے پوری کردی۔ناول راکھ کو ایک علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے جو پس منظر میں مشرقی بنگال کے عظیم سانحے کو تازہ کرتی ہے اورجس کی راکھ سے ہمارے چہرے آج بھی اٹے ہوئے ہیں۔اس ناول میں پیش کیے جانے والے تمام واقعات انسان کو اس ہولناک ماضی سے آگاہ کرتے ہیں جس سے گزر کراس وقت کے لوگ پاکستان آئے اورپھر سقوط ڈھاکہ جیسے المیے نے ان کی کمر ایک بار پھر سے توڑ کر رکھ دی۔مصنف نے راکھ کے ساتھ ساتھ آبی پرندوں اورمرغابیوں کو بھی علامت کے طور پر لیا ہے کہ جب بھی یہ پرندے آسمان پر نظر آتے ہیں توضرورکوئی نہ کوئی مصیبت بھی ساتھ لاتے ہیں۔
کلیدی الفاظ:تقسیمِ ہند،پاکستانی معاشرت،شہری زندگی،لاہور،1965،سقوط ڈھاکہ،1971،سانحہ مشرقی پاکستان،علامت،ہجرت
راکھ میں مصنف نے جہاں ہمیں ہماری پچاس سالہ تاریخ سے روشناس کرایا ہے وہیں 1950ء کے لاہور اورجدید لاہور کا تانا بانا بھی بڑی خوبصورتی سے ملایا ہے اورساتھ ہی ساتھ یہاں ان لوگوں کی زندگیوں اوررہن سہن کو بھی اجاگر کیا ہے جو فلیٹوں میں رہتے ہیں۔اس ناول کی کہانی ہمیں ہماری زندگیوں کے دکھ سکھ ،ناکامی وکامیابی اورشادمانی سے بھی آگاہ کرتی ہے۔اس طرح راکھ میں پاکستان کی پچاس سالہ زندگی میں ہونے والے اتار چڑھاؤ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاشرتی نظام کےڈھانچے کی شکست وریخت خوب کھل کر قاری پرعیاں ہوتی ہے۔
اس ناول کو پڑھتے ہوے بارہا میرے ذہن میں یہ خیال جاگزیں ہوا کہ موضوعاتی لحاظ سے بے شک تارڑ صاحب کی اس ناول کے اجتماعی ڈھانچے میں گرفت مضبوط ہویانہ ہو لیکن اس ناول کے الفاظ اورنثراس قدر پیاری ہے کہ جو پڑھنے والے کو اپنے سحر سے آزاد نہیں ہونے دیتی۔ویسے بھی ایک ناول نگار کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایک دلچسپ کہانی کو اپنے ناول میں پیش کرے یعنی ایسی کہانی جس سے انسانوں کی دلچسپی ناول کے اختتام تک نہ ٹوٹے۔جیسے زندگی کی ابتدا ہوتی ہے پھر یہ اپنے درمیانی حصہ میں پہنچ کر بالآخر اپنے اختتام تک جاپہنچتی ہے بالکل یہی عمل ناول میں بھی وقوع پذیر ہوتا ہے۔
ایک کامیاب ناول وہ ہوتا ہے جو موضوع کے اعتبار سے آفاقی اقدار اورعام زندگی کی عکاسی کرے۔اس ناول کولکھتے ہوئے مصنف نے ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہماری زندگی سے متعلق حقیقتوں کو بالکل اصلی شکل میں پیش کیا ہے۔انسانی زندگی اوراس سے وابستہ مختلف مسائل کو پیچ در پیچ تعامل اورایک دوسرے سے مربوط رشتوں کے سلجھاؤ کے بغیر سمجھنا مشکل امر ہے۔ناول راکھ ایک طویل دورانیے کا قصہ ہے جس میں ایک عہد سانس لے رہا ہے۔اس کے کردار حقیقی لگتے ہیں جن میں اصل زندگی کی عکاسی نظرآتی ہے۔اگردیکھا جائے تومصنف نے کہیں بھی حقیقی زندگی سے بھاگنے کی کوشش نہیں کی بلکہ انھوں نے تخیل کو حقیقت سے جوڑ کر ان حقائق کا پتہ چلایا ہے جو قاری کی نظروں سے پوشیدہ ہوسکتے ہیں۔ اس ناول میں بیان کردہ واقعات میں ایک ترتیب پائی جاتی ہے اورہر واقعہ اپنی باری پر آتا ہے ۔ ناول نگار نے ارضی زندگی کی حقیقتوں کو محرومیوں اورمسرتوں میں بڑی خوبصورتی سے پرویا ہے۔
مستنصر حسین تارڑ نے اس ناول میں معاشرتی زندگی کو اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر بڑی باریکی سے حقیقی رنگ دیا ہے۔گوالمنڈی اورلکشمی مینشن کے منظرنامے کے پس منظر میں پچاس سال پہلے کے لاہور کی معاشرتی اورتہذیبی زندگی اوراس سے وابستہ مسائل سے قاری کو روشناس کروانے کی ایک بہترین کوشش کی گئی ہے۔اس حوالے سے ناول’’راکھ‘‘ کا یہ حصہ پڑھیئے:
“گوالمنڈی اورلکشمی مینشن دوالگ الگ دنیائیں تھیں۔اس دنیا میں سرشام نوجوان لڑکے مرکزی باغچے کے چار چغیرے فٹ پاتھ کے ساتھ فلیٹوں کو جانے والی سیڑھیوں کے تھڑوں پر بیٹھے فرینک سنا لڑا یا بنگ کراسے کے گیت منہ بگاڑ بگاڑ کرگاتے تھے۔نان کباب نہیں کھاتے تھے بلکہ ایک کباب کو نان لپیٹ کر اسے بطور برگرنوش کرتے تھے۔۔۔ سرشام مینشن کے باغچے کے گرد تھڑے آباد ہوتے جاتے اورفلیٹوں کی بالکونیوں میں کچی عمر کی لڑکیاں اوران کی شیپران خواتین براجمان ہو جاتیں۔ایک آدھ پھول یارقعے کا اوپر سے آنا اورآپ کے آس پاس لینڈ کر جانا کوئی غیر معمولی واقعہ نہ ہوتا۔” (۱)
جب ہندوستان تقسیم ہوا تو جو علاقے پاکستان کے پاس آئے ان میں بنگال بھی شامل تھاکیوں کہ اس میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اس طرح پاکستان دوحصوں پر مشتمل تھا یعنی مشرقی پاکستان اورمغربی پاکستان۔اب ہوا یہ کہ مشرقی پاکستان میں بنگال اورمغربی پاکستان میں سندھ،پنجاب،بلوچستان اورسرحد کے علاقے شامل تھے۔ اس کے علاوہ جو معاہدہ ہوا اس کے مطابق کشمیر بھی پاکستان کا ہی حصہ تھا ہاں یہ الگ بات کے انگریزوں اور ہندوؤں کی ملی بھگت سے آج تک کشمیر مکمل طور پر پاکستان کا حصہ نہ بن سکا ۔ چوں کہ قیام پاکستان ہندوؤں کو ایک آنکھ نہ بھاتا تھا یہی وجہ ہے کہ بھارت نے پاکستان کو کمزور کرنے اورنقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ بنگال مغربی پاکستان سے کچھ فاصلے پر ہونے کی وجہ سے یہاں کے مسائل اورخرابی حالات کی خبرعام لوگوں تک نہ پہنچ پاتی جس کی وجہ سے شروعات سے ہی بنگالیوں کو یہ گلہ تھا کہ ان کی حق تلفی کی جارہی ہے اورپھر جب قائداعظم نے پاکستان کی سرکاری اورقومی زبان اردو کو قرار دیا تو رہی سہی کسر بھی پوری ہوئی۔1952ء میں”بھاشا اندولن” کے نام سے جو لسانی تحریک شروع ہوئی تویہ بنگالیوں اورغیر بنگالیوں کے درمیان بڑے فاصلے کی وجہ بنی۔ دوسری طرف معاشی و اقتصادی حالات ،بنگالیوں کے احساس محرومی اور سیاسی اختلافات نے مصالحت اورہم آہنگی کی تمام راہیں بند کردیں۔
اس پر مزید ستم یہ ہوا کہ ہندو اساتذہ نے بنگالی نوجوانوں کے جذبات کو بھڑکا کر ان میں منفی رویوں کو ابھارا ۔اس کے علاوہ سیاست دان بھی کسی سے پیچھے نہ رہے اورصوبائی خود مختیاری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک دوسرے کو آنکھیں دکھانے لگے جس کا نتیجہ بنگال بنگالیوں کا ہے کے نعرے کی صورت میں نکلا۔اسی دوران ہندوستان نے پاکستان پر1965ء کی جنگ مسلط کی۔ فوج کی کمی کی وجہ سے مشرقی پاکستان نے خود کو غیرمحفوظ تصور کیا اس واقعہ نے ان کے دماغوں پرگہرے اثرات مرتب کیے۔قصہ مختصر یہ کہ پے درپے ہونے والے واقعات کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں ایک بڑی بغاوت نے جنم لیا جس کی وجہ سے مجیب الرحمان کو گرفتار کیا گیا لیکن حالات سنبھلنے کی بجائے مزید خراب ہوگئے اورنوبت خانہ جنگی تک آن پہنچی۔ ناول’’راکھ‘‘ کا یہ حصہ زیر غور ہے:
“ابھی کچھ برس پہلے کی بات تھی۔۔۔ راکھ کی اورلودیتے آسمان کی۔وہ بھاگ رہا تھا۔اندھا دھند روتا ہوا بھاگ رہا تھا۔۔۔ اس کی مسں نے کہا تھا کہ شہر میں فساد ہوگیا ہے اورصورت حال نازک ہو گئی ہے۔ وہ کیسے پوچھتا کہ یہ صور ت حال کیا ہوتی ہے اور اگر یہ نازک ہو جائے تو کیا ہوتا ہے۔اس نے مس کے کہنے پر بستہ اٹھایا اورسکول سے باہر نکل آیا اورباہر تمام بچوں کے عزیزواقارب انہیں لینے کے لیے آچکے تھے لیکن دوردور تک اس کا شناسا کوئی چہرہ دکھائی نہ دیتا تھا۔جب چوک بالکل خالی ہوگیا تو وہ تیز تیز چلنے لگا ایک بچے کے دھڑکتے خوف کے ساتھ اورسوکھے ہوئے حلق اورلڑکھڑاتی ٹانگوں کے ساتھ۔۔۔ اس سرکلر روڈ کے عین بیچ ایک شخص ہاتھ پاؤں پھیلائے لیٹاتھا اوراس کے سینے میں ایک چھرا پیوست تھا۔۔۔ اس نے اپنے اندر سے خون بہت زیادہ نکالا تھا اوراسے سڑک پر کچھ اس طرح بکھیرا تھا کہ وہ کسی دنیا کا نقشہ سا لگتا تھا۔” (۲)
بھارت نے پاکستان پر 1971ء کی جنگ ٹھونسنے سے پہلے پاکستان کے اندرونی معاملات میں شدید دخل اندازی کرکے مشرقی پاکستان کے لوگوں میں خوف ،دہشت اوربے اطمینانی پھیلانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔پاکستان کے ناگفتہ بہ سیاسی ،معاشرتی،مذہبی اوراقتصادی حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاک بھارت 1971ء کی جنگ لڑی گئی جس میں پاکستان کو انتہائی برے طریقے سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔جس کے نتیجے میں پاکستان کے دوٹکڑے ہوئے اوردنیا کے نقشے پر بنگلادیش ابھر کرسامنے آیا جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔بہت سی عالمی قوتوں کی ریاکاری ،ہمارے تضادات،کوتاہیوں اورغفلتوں نے ہمیں یہ دن دکھایا کہ جس کی وجہ سے ہم کٹ کرآدھے رہ گئے۔وہ عزت و مقام جو ہمیں قائداعظم کی کوششوں سے قیام پاکستان کی صورت میں ملا تھا خاک میں مل گیا۔ویسے بھی یہ تلخ حقیقت ہے کہ جب کسی قوم کو جنگی ہار کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو نہ صرف اس کا وقار مجروح ہوتا ہے بلکہ وہ قوم سناٹے کی زد میں آجاتی ہے۔ اگر ہم اس حوالے سے اپنی مثال سامنے رکھیں تو 1965ء کی جنگ میں جتنی عزت وشہرت ہم نے حاصل کی اس کے برعکس 1971ء کی جنگ کی ہارنے ہمارے منہ پر وہ تھپڑ رسید کیا جس کی گونج اورشدت آج بھی پاکستانی قوم کے گالوں پرمحسوس کی جاسکتی ہے۔ناول راکھ میں احساسات و جذبات کی پرکاری بھی بڑی عمدہ کی گئی ہے۔فسادات کی وجہ سے حالات کا دگرگوں ہونا اوراس دوران وقوع پذیر ہونے والے واقعات پرانسانی خیالات کی ترجمانی اس ناول میں کلیدی طور پر بیان کی گئی ہے۔اس ناول میں جہاں دیگر اعمال وافعال ،نظریات اورتحریکات چھپی ہوئی ہیں جو بڑی ترتیب سے سلسلہ بہ سلسلہ بیان ہوئی ہیں وہیں ہمیں غم،دکھ،درد اوررنج والم جیسی صورتحال بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔
مصنف نے عہد ماضی اورعہد حال کو بیان کرتے ہوئے بے حسی،جلاؤ گھیراؤ،صدمات ،آگ وخون اورناامیدی کو بڑی اہمیت دی ہے۔تارڑ صاحب ہمیشہ اس بات کا اعلان کرتے نظر آتے ہیں کہ ہمیں ہمارے ماضی سے بہت کچھ سیکھنا چاہیےکیوں کہ ہم نے اپنی ریاکاریوں،دھوکہ دہی،جھوٹ،منافقت وغیرہ سے بہت کچھ کھویا ہے اوراب ہماری بھلائی صرف راست بازی کو اپنانے اورماضی کی برائیوں کو چھوڑنے میں ہی پنہاں ہے اورجب تک ہم اللہ اوراس کے رسولﷺ کے بتائے ہوئے راستے کو اختیار نہیں کرتے تب تک ہم گھپ اندھیروں میں ہی سفر کریں گے اورمنزل ومقاصد کو پانے میں ہمیشہ ناکام وبے مراد ہی رہیں گے۔ہمیشہ ہمارے بزرگ ہمیں یہ سمجھاتے ہیں کہ ہم جو بھی بولیں سوچ سمجھ کر بولیں کیوں کہ ہماری گفتگو ہماری تربیت وتہذیب کا پتہ دیتی ہے اورمنہ سے بلاسوچے سمجھے نکلا کوئی بھی لفظ ہمیں کسی دلدل میں دھکیل سکتا ہے۔
اس ناول میں بھی ایک کردار ایسا دکھایا گیا ہے جس کے قول وفعل میں تضاد پایا جاتا ہے۔مصنف نے اس کردار کے ذریعے معاشرے کے ان لوگوں کی طرف اشارہ کیا ہے جو کہتے کچھ اورکرتے کچھ ہیں۔ایسے لوگ دنیا کی نظرمیں توبڑے پرہیز گار،پارسا اورصوم وصلوۃ کے پابند ہوتے ہیں لیکن اگران کے باطن میں جھانکا جائے توان سے بڑا منافق کوئی نہیں ہے۔اس ضمن میں ناول ’’راکھ‘‘ سے لیا گیا یہ اقتباس ملاحظہ کیجیئے:
“اورمشاہد کے کچے ذہن میں شک کی پنیری انہی دنوں میں بوئی گئی تھی۔اس کے گھروالے اورلاہور والے شاہ شہید کا قصہ بڑے فخر اورنم آلود آنکھوں کی عقیدت کے ساتھ بیان کرتے۔کیسے گروارجن نگر کے باہر ہندواورسکھ دوکانداروں نے اپنی دوکانوں کے چوبی دروازوں پرٹین کی چادریں چڑھا کر انہیں آتش زنی سے مکمل طور پر محفوظ کرلیا تھا۔ اورکس طرح رمضان کے مقدس مہینے میں کرفیو کے باوجود شاہ صاحب تھانیدار نے مسلمان نوجوان کے ایک گروہ کو ان دوکانوں کے دروازے توڑ کر انہیں لوٹ لینے کی اجازت دی تھی اورخود ہمہ وقت پہرہ دیتے رہے اوراس دوران کسی کافر کی گولی ان کے سینے کے آرپار ہوگئی اورجب جان کنی کے عالم میں لوٹ مار کرنے والے نوجوانوں نے ان کے حلق میں پانی کے چند قطرے ٹپکانےکی کوشش کی تو شاہ صاحب نے اشارے سے منع کردیا اورنحیف آواز میں فرمایا “میراروزہ ہے”۔سبحان اللہ کیا ایمان کی پختگی ہے۔” (۳)
مصنف نے اس ناول میں 1971ء کی جنگ کو باقاعدہ طور پر بیان نہیں کیا لیکن جتنا ذکر موجودہے اس سے بخوبی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس جنگ کے نتیجے میں ہم اپنی تاریخ کے اس کربناک المیے سے گزرے ہیں کہ جس نےآج تک ہمارے دل ودماغ کو جوار بھاٹا بنایا ہوا ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ دماغ میں ایک بھٹی سی تپی ہوئی ہے جس میں بہت سے مختلف سوالات اٹھتے ہیں اور کوئی جواب نہ پا کر ذہن کی دیواروں سے پٹخ کر رہ جاتے ہیں اور سوچ و فکر کا توازن بگا ڑ دیتے ہیں۔ناول نگار نے اس ناول میں سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے ہونے والے انتخابات کے سلسلہ میں ذوالفقار علی بھٹو ،حفیظ پیرزادہ،شیرپاؤ،غلام مصطفٰی کھر اورکئی دوسرے راہنماؤں کے جلسے جلوسوں کا ذکر بھی کیا جواپنی جیت کو یقینی بنانے کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کااجلاس بلائے جانے کے حوالے سے ذوالفقار علی بھٹو جوش وخروش پر مبنی ایک دھواں دھار تقریر کرتا ہے۔مشاہد اس تقریر میں وہ سب کچھ محسوس کرتا ہے جواس وقت ایک عام آدمی کے محسوسات تھے،دراصل مشاہد ہمارے معاشرے کا ایک ایسا فرد ہے جو ہمارے آس پاس دکھائی دیتا ہے۔
یہ ناول “راکھ” صرف راکھ کا ڈھیر نہیں بلکہ اس میں زندگی کی ایسی چنگاریاں بھی جلتی اور بجھتی نظرآتی ہیں جو ہماری اجتماعی زندگی کی اونچ نیچ کا احاطہ کرتے ہوئے غیرت وحمیت کو ہوا دیتی ہیں اوراپنی حرارت سے زندگی کو جلا بخشتی ہیں ۔اس ناول میں بہت سے معاشرتی مسائل کو بیان کرتے ہوئے مصنف نے چاروں اطراف گھٹن پر مبنی فضا اورماحول کو بیان کیا ہے اوربارہا ان اعمال وافعال کی طرف واضح اشارے بھی ملتے ہیں اوریہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ماضی میں ایسے بہت سے لوگ گزرے ہیں جو اپنی ضد اورہٹ دھرمی کےتحت دیگر انسانوں کے جذبات کو مجروح کرتے اورخود کو حرف بہ حرف درست سمجھتے تھے لیکن پھر تاریخ نے بھی یہ ثابت کیا کہ ایسے لوگ کبھی کوئی نمایاں مقام حاصل نہ کرسکے بے شک کہ انھوں نے اندھی حکمرانی قائم کرنے کی کوشش کی بھی تو کوئی مقصد حاصل نہ کرسکے اوربے مراد ہی رہے۔
ناول میں جابجا گمنامی اورگمراہی والی صورتحال کو بھی بیان کیا گیا ہے اوراس کے علاوہ مختلف اطراف میں پامالی اوررفتگی بھی نمایاں نظر آتی ہے۔پاکستان کو حسین اورپرامن سرزمین بنانے کا خیال اس وقت ریزہ ریزہ ہوگیا تھا جب ہمارے ملک کا ایک بازو کٹ کر بنگلادیش کے نام سے الگ ملک بنا اوریوں نام ونشان کو پانا محض ایک الف لیلوی داستان ثابت ہوا کیوں کہ مسئلہ یہ تھا کہ ملک کو عروج اوردائمی شناخت دینے کے لیے اعلیٰ وارفع اورعالمگیر سوچ کے حامل افراد کی ضرورت ہوتی ہے لیکن پاکستان کی بدنصیبی یہ ہے کہ اسے تو روز اول سے ہی ایسےلوگ اورحکومتیں میسر نہ آئیں اورحالات ہمیشہ سے دگرگوں ہی رہے۔مستنصرحسین تارڑ کی یہ تخلیق یعنی راکھ ایک ایسا نقش ہے جس میں ہم عہد ماضی کے حالات اورستم ظریفیاں دیکھ سکتے ہیں کہ ہمیں اورہمارے ملک کو کس کس طرح کون کون سی شخصیات نے لوٹا ۔یہا ں تک کہ ایک قوم کے نام پرحاصل ہونے والے ملک کو مختلف فرقوں میں تقسیم کرکے رکھ دیا اورحالات یہ ہیں کہ اب کوئی پٹھان ہے تو کوئی بلوچی ، کوئی پنجابی ہے تو کوئی مہاجر ، کوئی بہاری ہے تو کوئی سندھی، کوئی قبائلی ہے تو کوئی طالبان لیکن ناول نگار اس ناول میں پاکستانیوں کو پکار تا نظر آتا ہے اوریہ تلقین کرتا نظرآتا ہے کہ اب بھی وقت ہے ایک ہوجاؤ،متحدومنظم ہوجاؤ،تفرقوں کے بجائے ایک مضبوط قوم بن جاؤ۔
اگر عامرانہ اورسامراجی قوتوں کا مقابلہ کرنا چاہتے ہو اور اپنے تشخص کو بچانا چاہتے ہو تو پھر اپنے اندر سے نفرت،رعونت،بے حسی،دھوکہ،سازشیں اورگندگیاں نکال پھینکو۔خواب غفلت سے جاگو اورخود کو اوراپنے ملک کو بچالوکیوں کہ ملک اورآزادی ہے تو ہم بھی ہیں اورآزاد جینے کی اہمیت وقیمت ان باسیوں سے پوچھو جو بڑی قوتوں کے شکنجوں میں ہیں۔ورنہ وہ وقت آنے میں دیر نہیں کہ تم ان اقلیتوں کی مثال بن جاؤ گے جو اتنے کمزور وناتواں ہوتے ہیں کہ نہ خو داٹھ سکتے ہیں اورنہ دوسروں کو ابھرنے میں مدد دینے کے قابل ہوتے ہیں ۔اس ناول میں ایسے ہی پناہ گیروں اوردردر کی ٹھوکریں کھانے والوں کو ایک استعارہ کے طور پر سامنے لایا گیا ہے اوربتایا گیا ہے کہ انھیں دیکھ کر ملک کے بدعنواں عناصر عبرت پکڑیں کہ کیسے یہ لوگ اپنے گھروں اورخاندانوں سے محروم ہوئے۔اس حوالے سے ناول’’راکھ‘‘ کا یہ حصہ دیکھیئے:
“بندورام اسی گلی میں ایک ٹوٹی کھٹارا چارپائی پربیٹھا حقہ پیتارہتا تھا صرف ایک دھوتی میں ملبوس۔۔۔ پورے لاہور میں شائد وہ اکیلا ہندو تھا جو اس گلی میں چارپائی پربیٹھا حقہ پیتا تھا۔باقی سب جاچکے تھےاوران کی جگہ لینے کو ادھر سے لوگ آچکے تھے انہیں پناہ گیر کہاجاتا تھا ۔ان پناہ گیروں کی شکلیں ایسی تھیں کہ کوئی بڑے سے بڑا اداکار ان جیسی شکلیں بنانے پر قادر نہیں تھا۔ہزاروں برسوں سے کسی گھر میں رہنا۔۔۔ آس پاس کے ویرانوں کو قبروں سے آباد کرنا۔پھر ان گھروں کو ایک تنکا اٹھائے بغیر چھوڑنا۔پھر بھوک دکھ اوربیماری اٹھا کرچلتے جانا اوراپنی ماؤں کو ۔۔۔بیٹیوں کوبھی ننگے بدن دیکھنا ،بہت کچھ دیکھنا کچھ نہ کرسکنا۔۔۔بچوں کوکرپانوں میں پروئے دیکھنا اورکچھ نہ کرسکنا۔بھوک اوربیچارگی اورموت سے بے شرم ہوجانا۔۔۔تب جاکر کچھ ویسی شکل بنتی ہے جوان پناہ گیروں کی تھی۔یہ توبنائے نہ بنے۔” (۴)
پاکستان بننا بالکل ایسا ہی تھا کہ جیسے کوئی اپنے بہت زیادہ دیکھے گئے سہانے خواب کی تعبیر پالے لیکن پاکستان جیسے خواب کی تعبیر کے پس پردہ بہت سی قربانیاں بھی جڑی ہوئی ہیں جو صرف اس حصہ کے لوگوں نے ہی نہیں دیں جو بھارت بنا بلکہ جوحصہ پاکستان بنا اس میں رہنے والے ہندوؤں نے بھی اپنے گھر بار ،مال ومتاع اورجمے جمائے کاروبار چھوڑ کر ہندوستان جانے پردیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جہاں انسان پیدا ہوتا ہے اورپرورش پاتا ہے اس جگہ سے اسے قدرتی طور پر بڑا پیار ہوتا ہے۔اپنے آباؤ اجداد،اپنی سجی سجائی رہائش گاہ کو چھوڑنا بہت تکلیف دہ امر ہےکیوں کہ انسان بڑی مشکل سے اپنا گھر بناتا اورپھر اسے سنوارتا ہے یہی سبب اس کے فطری لگاؤکا باعث ہوتا ہے۔پاکستان بننے سے پہلے برصغیر میں ہندو،مسلمان اورسکھ بڑے پیار وخلوص کے ساتھ رہتے تھے ،کسی کے رہن سہن پر کوئی پابندی نہ تھی۔ان سب کے دکھ سکھ بھی سانجھے تھے اورغم وخوشیاں بھی۔ ہر طرح کے تہواروں میں ان سب کی شرکت بھی اکھٹی ہوتی تھی جو اس بات کا ثبوت تھی کہ ہر طرف امن وبھائی چارہ اورپرسکون ماحول ہے۔ہر ایک کی بہن بیٹی اورعزتوں کی حفاظت کرنا سب کی ذمہ داری تھی لیکن پھر پاکستان بنتے ہی یکایک ایسی ہوا بلکہ آندھی چلی کہ جس نے سب کچھ پارہ پارہ کردیا اورصدیوں ایک ساتھ رہنے والے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن گئے اورپھر بالآخر اپنا سب کچھ چھوڑ کر ہندوستان کے مسلمان پاکستان اور پاکستان کے ہندو ہندوستان اس یقین کے ساتھ ہجرت کرگئے کہ ایک دن حالات ٹھیک ہونے پر ضرور اپنے گھروں میں واپس آئیں گے لیکن وائے رے قسمت کہ ان لوگوں کی امیدیں کبھی بھر آ نہ سکیں اوریہ اپنے سجے سجائے گھروں ،زیوراوردیگرچیزوں کے ملنے کے خواب ہی دیکھتے رہے۔
ناول نگار نے اس ناول میں ایک ایسے علاقے کا ذکر بھی کیا ہے کہ جس کے رہنے والوں کو یہ یقین تھا کہ یہ علاقہ ہندوستان کے حصے میں آئے گا،جی ہاں یہ علاقہ کرشناں گلی کے نام سے موسوم تھا۔یہ صرف ایک گلی یا محلہ نہ تھا بلکہ اس میں ہندوؤں کی کثیر تعداد،ریلوے اسٹیشن ،بازار،حویلیاں،گودام،مکان غرض یہ کہ سبھی کچھ موجود تھا اوراس علاقے کو محفوظ کرنے کے لیے لوہے کے بڑے بڑے آہنی دروازے بھی موجود تھے جنہیں فسادات کے دنوں میں چاروں طرف سے تالے لگا کر بند کردیا گیا تھا تاکہ کوئی فسادی کرشناں گلی اوراس میں بسنے والے ہندوؤں کو نقصان نہ پہنچادے لیکن کب تک ایسا ہوسکتا تھا آخر کار اس علاقے کو بھی فسادات نے اپنی لپیٹ میں لے لیا جس کی وجہ سے ہندو آبادی رات کے اندھیرےمیں اپنی سجی سنوری گھر گرہستیاں چھوڑ کر اس یقین کے ساتھ نکلنے پرمجبور ہو گئی کہ ایک دن واپس آکر دوبارہ سے اپنی تمام چیزیں حاصل کرسکیں گے۔
قیام پاکستان،اس سے وابستہ ہجرت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاشرتی مسائل کی تاریخ اتنی کربناک ہے کہ جسے پڑھ کر ایک سخت پتھر دل انسان کی آنکھوں سے بھی آنسو بہہ نکلتے ہیں۔ یہ سب کچھ انسانی رونگٹے کھڑے کردینے کو کافی ہے کہ اس وقت کیا منظر ہوگا جب لوگ اپنی جنم بھومیوں کو چھوڑ کر جانے پر مجبور ہوئے ہوں گے یوں مانو کہ جیسے بیٹھے بٹھائے کوئی آفت آگئی ہو۔اس حوالے سےناول’’راکھ‘‘ میں کرشناں گلی کے ایک گھر کے اندر کا منظر ملاحظہ کیجئے:
“پہلی بار جب وہ ایک ایسے مکان کے اندر گیا تو ٹھٹک گیا۔باورچی خانے کے کونے میں چند ادھ جلی لکڑیاں تھیں۔چولہے پر ایک ہانڈی دھری تھی۔ گھڑوں میں پانی تھا۔ ایک کونے میں کوڑے کرکٹ کی ایک چھوٹی سی ڈھیری تھی اورپاس ہی ایک گنجا سا جھاڑو تھا۔جانے سے بیشتر انہوں نے صحن سے جھاڑو دیا تھا۔اس کے مکینوں کی سانسیں ابھی تک ہوا میں تھیں۔ اسے محسوس ہوا جیسے مخل ہوا ہے۔” (۵)
ناول راکھ میں مصنف نے قیام پاکستان ،ہجرت،لوگوں کے ذاتی تعلقات،مختلف علاقوں کی رونقیں،دوست و احباب کے آپس کے تعلقات اورعام معاشرتی زندگی کے نشیب وفراز کو بھی بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔یہ کہنا بے جانا نہ ہوگا کہ اس ناول میں تلخ و شیریں ہر دو طرح کی حقیقتوں کو ایسے پرویا گیا ہے جو محسوس بھی ہوتی ہیں اوردکھائی بھی دیتی ہیں۔ویسے بھی یہ ضروری ہے کہ ناول میں زندگی کی ترجمانی کی جائے اوراگر ایسا نہ کیا جائے تو ناول کی حیثیت سے اس کی عظمت ختم ہوجائے گی البتہ اگر یہاں کسی بات سے کوئی انحراف کیا جاسکتا ہے تو وہ میری نظر میں یہ ہوگا کہ زندگی کا دریا بغیر کسی رکاوٹ کے آزادانہ بہتا چلاجاتا ہے لیکن ناول میں نہ صرف اسے قابو کرلیا گیا بلکہ اسے فن کے سانچے میں ڈھال کر ایک مخصوص ڈگر پہ چلایا گیا ہے۔
اس ناول کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں معاشرتی مسائل کے حوالے سے چھوٹے سے چھوٹے واقعات کو بھی نظر انداز نہیں کیا اور ان کی اہمیت کو منا سب جگہ دی گئی ہے بلکہ مصنف نے جو کچھ دیکھا ہے وہ اس ناول کے ذریعے ہمارے سامنے کردیا تاکہ ہم بھی اپنی آنکھوں سے اس کو اسی طرح محسوس کریں۔ہمارے معاشرے میں مختلف طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں کیوں کہ یہ تو قانون فطرت ہے کہ کوئی انسان بھی دوسرے انسان سے شکل وشابہت اورعادات واطوار میں نہیں ملتا پھر خواہ ایک گھرمیں پلنے والے ایک ہی ماں باپ کی اولاد کیوں نہ ہوں۔
معاشرے میں کچھ طبقے ایسے بھی پائے جاتے ہیں جو بہت کسمپری کے حالات میں گزاراکرتے ہیں اوراکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ جب ایسے طبقے کے افراد اپنے بل بوتے پر پڑھ لکھ کر حالات کی سختیاں برداشت کرتے ہوئے کس بڑے عہدے پر فائز ہوبھی جائیں تو ان کے انداز میں رعونت آجاتی ہے اوروہ خود کو مالک کل سمجھتے ہوئے دوسرے کو اپنا زرخرید غلام سمجھنے لگتے ہیں۔ایسے لوگوں کے اندر سے قدرتی طور پر نرمی اورہمدردی کا جذبہ ختم ہوجاتا ہے اوران کا رویہ سرد مہر رہتا ہے۔ان لوگوں سے ہمدردی کی امید رکھنا عبث وبیکار ہےکیوں کہ اگر کسی کو ان سے کوئی کام پڑ جائے تو یہ کبھی کسی کی مدد نہیں کرتے اوراس کی وجہ ان کے ذہنوں میں پروان چڑھنے والا وہ جذبہ ہوتا ہے کہ جب ہماری مدد کسی نے نہیں کی تو ہم کسی کی مدد کیوں کریں لیکن اس کے برعکس ہمارے معاشرے میں کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو ہر ایک کے کام آتے ہیں، ہر ایک کی مدد کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ،دن ہو یا رات یہ لوگ مجبور وبے کس افراد کے کام آنے سے نہیں کتراتے اوربدلے میں کسی سے کوئی صلہ بھی نہیں مانگتے۔خدائی مددگار طرح کے ان لوگوں کے دل دوسروں کی مصیبتوں اورغموں کو دیکھ کر خون کےآنسو روتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے انہیں اتنا بڑا دل دیا ہوتا ہے کہ یہ اپنے گھر والوں کی پروا کیے بغیر بس ہر وقت دوسروں کی امداد کی فکر میں رہتے ہیں۔
ناول نگار نے معاشرے میں موجود ایسے ہی ایک انسان کا ذکر اس ناول میں بھی کیا ہے جس کا نام چوہدری اللہ داد ہے اورجو خود سخت حالات سے گزرنے کے بعد سخت ودرشت ہونے کی بجائے انتہائی نرم خوہوگیا اورجس کے دل و دماغ میں دور دور تک گناہ یا ثواب کا کوئی مذہبی تصور موجود نہ تھا یعنی اس کے باطن میں یہ لالچ نہ تھی کہ آج وہ دنیا میں نیکیاں کرے گا تو بدلے میں جنت کا حقدار بن جائے گا ۔اس حوالے سے ناول’’راکھ‘‘ سے لیا گیا یہ اقتباس دیکھئے:
“چوہدری اللہ داد ایک سلیف میڈ شخص تھااوراس کے باوجود دھیما اورنرم طبیعت کا تھا۔۔۔ وہ دراز قد ہونے کےباوجود ہمیشہ سرجھکا کر چلتا تھا اوراس کے جاننے والے کھانس کر اسے اپنی جانب متوجہ کرتے اورپھر سلام کرتے۔ ورنہ پاس سے گزر جاتے اس کی نرم دلی اس کی بیوی کے لیے ایک آزار تھی۔اگر اس نے اسٹیشن کے پاس فٹ پاتھ پر کسی بوڑھے کو لیٹا ہوا دیکھ لیا ہے تو وہ اذیت میں مبتلا ہوجائے گا۔کیااس بوڑھے نے کھانا کھایا ہے؟ پتہ نہیں رات گزارنے کے لیے اس کے پاس کوئی گرم کپڑا ہے یا نہیں؟کہیں وہ بیمار تو نہیں۔وہ بستر پر پڑا کروٹیں بدلتا رہتا اوراس کی بیوی جان جاتی کہ آج پھر کوئی بوڑھا ہے،کوئی بچہ ہے کوئی معذور ہے جو اسے سونے نہیں دیتا اوروہ آواز دے کر اسے متوجہ کرتی “میں نے کہا آپ اٹھیں اورپتہ کرآئیں”کیوں کہ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ جب تک وہ جا کر پتہ نہیں کرے گا اس کی تسلی نہیں ہوگی۔“ (۶)
جنگ،فسادات اورملک کا دو حصوں میں بٹ جانا یہ سب ایسے واقعات تھے جنھوں نے سیاسی اورجغرافیائی حالات کے ساتھ ساتھ یہاں کے باسیوں کو بھی ذہنی ،نفسیاتی اورجذباتی طور پر متاثر کیا تھا اورمعاشرتی اقدار وروایات اوراحساسات کو پاش پاش کر ڈالا تھا۔ ماضی اورحال سے منسلک یہ واقعات و حالات تاریخ کی المناکی کی عکاسی کرتے ہیں اورہمارے معاشرے کا حقیقی روپ ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔تقسیم ملک کے وقت جب ہر طرف افراتفری ،لوٹ مار اورنفسانفسی کا عالم تھا تب ہجرت کرنے والوں کے علاوہ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اپنی دھرتی ماں سے الگ نہ ہونا چاہتے تھے اور اپنی جگہوں پر مضبوطی سے قائم رہنا چاہتے تھے لیکن وقت نے انھیں بھی دن میں ہی تارے دکھادیئے۔
مصنف نے اس ناول کے ذریعے پاکستان کی پوری تہذیب اورتاریخ کے المیوں کو ہمارے سامنے پیش کیا۔پاکستان کی تشکیل میں کروڑوں انسانوں نے خون کی ندیاں عبور کرکے اس سرزمین پر قدم رکھے ، لاکھوں لوگ ہجرت کرکے پاکستان آئے اوراس دوران کربناک اورتکلیف دہ مراحل سے گزرے۔ ابھی ان لوگوں نے سرزمین پاکستان پرپوری طرح بسیرا بھی نہ کیا تھا کہ بھارت کی طرف سے مسلط کی جانے والی دوجنگوں 1965ء اور1971ء میں تاریخ نےایک بار پھر اپنے آپ کو دہرایا جس کے دشوار گزار اورتلخ مراحل نے ملک کے باشندوں کو ذہنی اورجذباتی طور پر کمزور کرکےرکھ دیا۔ ناول’’راکھ‘‘ میں ان حالات کی عکاسی کچھ ان الفاظ میں کی گئی ہے:
“سب مرے ہوئے ہیں۔انہوں نے ایک ایک کو بڑے آرام سے قتل کیا تھا۔جنہوں نے بھاگنے کی کوشش کی ان کو انہوں نے پلیٹ فارم پر یا پرے لائنوں پر جاپکڑا۔۔۔اس نے پہلی بار پلیٹ فارم سے پرے لاہوروالے پھاٹک کی طرف دیکھا۔وہاں ایک اورٹرین رکی ہوئی تھی۔لیکن اس میں لوگ زندہ تھے ۔بہت عجب ہے کہ دونوں ٹرینوں کی کھڑکیوں اوردروازوں میں ویرانی ہے اورکوئی نظر نہیں آتا اوراس کے باوجود لاہور سے آنے والی ٹرین مردہ نہیں لگتی ۔اوریہ ٹرین بغیر انجن کے جیسے سرکے بغیر ایک لاش۔۔۔” (۷)
ناول نگار نے دیگر کرداروں اورطبقوں کے ساتھ ساتھ اس ناول کے کچھ صفحات پر چوڑوں کی نسل کے حوالے سے بھی بات کی ہے جسے برکت مسیح عرف بکو کی ذات کے ذریعے سے بیان کیا ہے۔یہ بہ حیثیت ذات ایک چوڑا ہے جو اپنے کالے سیاہ رنگ کی وجہ سے دور سے ہی پہچانا جاتا ہے۔مصنف نے برکت کی زندگی کے جن اوراق سے پردہ اٹھایا ہے وہ اکثر وبیشتر ہمیں اس نسل میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔برکت اپنے والدین اورلاتعداد بہن بھائیوں کے ساتھ کامونکی میں رہتا ہے جہاں اورعیسائی بھی آباد تھے۔مصنف نے اس خاندان کے ذریعے دراصل ان غریب گھرانوں کو آشکارہ کرنے کی بھی کوشش کی ہے جہاں کھانے کو کچھ ہویا نہ ہو مگر بچوں کی اتنی بہتات ہوتی ہے کہ اگر ان میں سے کچھ دن ایک ادھ بچہ غائب بھی رہے تو ماں باپ اندازہ نہیں لگاسکتے۔
ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ امیر امیر سے امیر تر اورغریب غریب سے غریب تر ہی رہتا ہے اوراس کے علاوہ ہمارے ہاں بسنے والے عیسائی بے شک پڑھ لکھ کر کیوں نہ کسی اچھے مرتبے پرفائز ہو جائیں لیکن ہماری نظر میں وہ چوڑے اورپلید ہی رہیں گے۔ ان کے استعمال کے برتن بھی الگ رکھے جائیں گے اوران کے ساتھ بیٹھنا یا تعلقات رکھنا بھی عجیب نظروں سے دیکھا جائے گا۔بحیثیت مسلمان تو ہمارے مذہب نے ذات پات کے سارے تفرقے ختم کرڈالے لیکن پتہ نہیں ہم کیسے مسلمان ہیں جو اپنے دلوں سے ذات پات کی تقسیم اورمختلف ذاتوں کے حوالے سے کدورتوں کو آج تک نکال ہی نہ پائے۔
اس ناول میں برکت مسیح بھی ان افراد کی نمائندگی کرتا ہے جن کے بغیر ہماری سوسائٹی کے کام چل نہیں سکتے بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ بکو جیسے کردار ہمارے معاشرے کا اہم حصہ ہوتے ہوئے بھی قابل نفرت ہی رہتے ہیں۔ناول’’راکھ‘‘ میں اس کے کردار کی حقیقت اس طرح سے بیان کی گئی ہے:
“برکت مسیح عرف بکو کو”بکوساہ پکہ”بھی کہا جاتا تھاکیوں کہ پانی کے نیچے دیر تک رہنے کے لیے اس کا سانس بہت مضبوط تھا۔وہ اپنے ماں باپ اورلاتعداد بہن بھائیوں سمیت کامونکی کی عیسائیوں کی ٹھٹی میں رہتا تھا۔وہ اگر ایک ہفتہ بھی اپنے کچے کوٹھے سے غائب رہتا تو اس کی بے بے کو قطعی طور پر علم نہ ہوتا کہ اس کے بچوں میں سے ایک بچہ کم ہے۔سب بچے اپنی اپنی روٹی کے خود ذمہ دار تھے۔بکو کو اس کا پکا سانس روٹی دیتا تھا۔بڑے جوہڑ کے اردگرد جو مکان تھے ان کے مکینوں کو اس کی ضرورت پڑتی رہتی تھی۔بچے اکثر جوہڑ میں گھر کی چیزیں پھینک دیتے۔کبھی کوئی برتن،کھیتی باڑی کا کوئی اوزار۔۔۔ تیز ہوا سے کوٹھوں پرسوکھتے کپڑے بھی اُڑ کر جوہڑ میں چلے جاتے۔۔۔ ایک آٹھ سالہ چوڑے ننگ دھڑنگ کالے سیاہ بچے کے لیے اس سے بڑا لمحہ اورکیا ہوسکتا ہے کہ پورا قصبہ اس کی طرف دیکھتا ہو اورامیدبھری نظروں سے دیکھتا ہو۔” (۸)
ناول میں ہمیں جابجا پاکستانی سیاست دانوں کے مکروفریب اورلوٹ کھسوٹ بھی نظر آتی ہے جنہیں پاکستان کے بیوقوف عوام اپنی پریشانیوں کے حل کے لیے الیکشن جتوا کر ایوان بالا اورایوان زیریں میں اپنے نمائندگان کی حیثیت سے بھیجتی ہےمگر وہاں جاکر انھیں عوام بھول جاتی ہے اورصرف اپنے عیش وعشرت یاد رہتے ہیں۔اس کے علاوہ مصنف نے فوجی جرنیلوں کی پرآسائش زندگیوں کی بھی خوب عکاسی کرنے کے ساتھ ساتھ سفید کپڑوں کے اندر چھپے میل کو بھی منظر عام پر لانے کی جسارت کی ہے۔ناول راکھ پاکستانی قوم کے ایسے زوال کو ظاہر کرتا ہے جس کا زہریلا پن ان کی نس نس میں بھرا ہوا ہے اورجس میں غلطیوں اورکوتاہیوں کو طشت ازبام کرتے ہوئے اپنی شکست کو تسلیم کیا گیا ہے۔
اس ناول میں بیان کیے جانے والے تمام تر موضوعات ایک لطیف طنز کو عیاں کرتے ہیں جو قیام پاکستان کے وقت اوراس کے بعد ہونےوالی لوگوں کی ہجرت،انفرادی المیوں کا ظہور،جھوٹ،فریب،ریاکاری اوربناوٹی رویوں پر مشتمل سیاست اوربے ستمی کو ظاہر کرتا ہے۔بحیثیت قاری مجھے تارڑ صاحب کی اس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ ہمارے ملک میں طالب علموں کو جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے وہ لغو باتوں سے پر ہے جس کی وجہ سے مستقبل کے اثاثہ جات یعنی طلبا کے ذہنوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب ہم اصل تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو چکرا کررہ جاتے ہیں کہ اصل تاریخ آخر ہے کیا۔ہمارے معاشرے میں ازل سے دوطبقے فعال نظرآئے یعنی ایک نچلا طبقہ اوردوسرا اوپر والا طبقہ جسے عرف عام میں اشرافیہ کہا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو حرص و ہوس کی وجہ سے دوسروں کو تو کیا خاک پہچانیں گے بلکہ یہ خود اپنی پہچان بھی بھول چکے ہوتے ہیں اورجن کو اپنے مقاصد حاصل کرنے سے غرض ہوتی ہے پھر چاہے اس کے لیے وہ دوسروں کی جان ہی کیوں نہ لے لیں۔اشرافیہ سے وابستہ لوگ اپنی گندگی نچلے طبقے کے سرڈالنے سے بھی گریز نہیں کرتے اورانہیں اپنا غلام سمجھتے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو ہم نے یہ ملک اس لیے حاصل نہیں کیا تھا کہ یہاں ہمیشہ غریب عوام پِستی رہے اورامرا ان کی آزادی، امن و سلامتی ،پیدائشی حق اور آزادی سے سانس لینے جیسی نعمت پر قبضہ کرلیں اورہمارے معاشرے میں ہر وقت جنگ و جدل اورعصبیت کی ہوا لہراتی رہے بلکہ ملک پاکستان برابری کے حصول کے لیے حاصل کیا گیا تھا۔اس ناول کے بہت سے صفحات پر مصنف نے اس تلخ حقیقت کو نمایاں کیا ہے کہ معاشرے میں پائے جانے والے اشرافیہ جو درحقیقت ناسور ہیں وہ نہیں چاہتے کہ کوئی ادنیٰ طبقہ ان کی برابری کرے۔
ہمارے معاشرے میں ہر وقت دکھ ،درد ،غم اورمایوسی کے ساتھ ساتھ چاروں اورگندگیوں اورگمراہیوں کی فضا کو فروغ دیتے ہیں اورغاصب بن کر نہ صرف عوام کے حقوق پرڈاکہ ڈالتے ہیں بلکہ چھین ہی لیتے ہیں۔یہ لوگ معاشرے میں نفرتیں پیدا کرکے تعلیم کی کمی اوربے شعوری کے ماحول کو پروان چڑھاتے ہوئے انارکی اورانانیت کورواج دیتے ہیں۔اگرہم اپنے معاشرے کے مسائل کو مد نظر رکھ کر اس ناول کا مطالعہ کریں تو اس حوالے سے یہ ناول ہمیں یہ باور کراتا ہے کہ ملک میں اشرافیہ اس قدر اپنی جڑیں مضبوط کیے ہوئے ہے کہ یہ ان داتا خدا بنے ہوئے ہیں اورنہیں چاہتے کہ عام لوگوں تک بہترین تعلیم و تربیت ،فہم وفراست، علم و دانائی اورعدل و انصاف کی روشنی پہنچے تاکہ ان کی حکومت اوربادشاہی ہمیشہ قائم ودائم رہے اورغریب غربت وبے بسی کی چکی میں دفن ہوتارہے۔یہاں حیرت کا مقام تو یہ ہے کہ ظالم وجابر قسم کے لوگ عوام کو باربار دھوکہ دیتے ہیں بس نام ونسل بدلتی ہے لیکن کردار وہی رہتے ہیں اس کے باوجود غریب عوام ان کو نہیں پہچان پاتی اورہمیشہ ان کے چنگل میں پھنس جاتی ہے اورایسا کیوں ہے کہ یہ لوگ بیدار نہیں ہوتے یا ہوناہی نہیں چاہتے۔
مصنف کا کہنا ہے کہ راکھ سے وقتی طور پر چنگاریاں اٹھتی ہیں لیکن پھر سرد ہوجاتی ہیں۔ کاش کہ وہ وقت بھی جلد آئے کہ ہمارے ملک ومعاشرے کے ادنیٰ لوگ خواب غفلت سے جاگیں سچائی کو پہچانیں اور اپنے فرائض کے ساتھ ساتھ اپنے حقوق کو بھی جانیں اورظالم اشرافیہ سے برسرپیکار ہونے کی ہمت اپنے اندر پیدا کریں اورمعاشرے میں اپنی ایک پہچان اورشناخت بنائیں۔اس حوالے سے ناول ’’راکھ‘‘ کا یہ حصہ قابل غور ہے:
“یہ ناکام جنرل مجھ سے جنگوں کی بات کر رہا ہے۔جرم کی کیفیت اور اس کا احساس ہمیشہ موجود رہتا ہے۔نعروں کے شور میں بھی ایک شے ہوتی ہے ضمیر۔۔۔یا نہیں ہوتی۔۔۔ اوروہ مسلسل سرگوشیاں کرتا چلاجاتا ہے۔آئی بیٹ کہ ان کے کان پک چکے ہیں ایسی سرگوشیاں سن سن کر۔۔۔ یہ ان پر دھیان دیں تو کیونکر دیں۔۔۔ان کی آب و تاب اورروائیت زنگ آلود ہوتی ہے۔۔۔اوراس کے باوجود یہ مختار ہیں۔۔۔“ (۹)
ہمارے معاشرے میں اخلاقی قدروں کا زوال بھی رواں دواں نظر آتا ہے۔معاشرے کے کچھ طبقے مذہبی واخلاقی قدروں کی آڑ میں ہر وہ کام کرجاتے ہیں جو قانون سے بالاتر ہوتا ہے حالانکہ کہنے کو تو قانون سے افضل کوئی چیز ہوہی نہیں سکتی لیکن ہمارے ملک میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی مثال بالکل صادق آتی ہے۔یہ لوگ ظاہری طور پر تو اخلاقیات کے لبادے میں لپٹے نظر آتے ہیں لیکن اپنے مذموم مقاصد اورگھناؤنے کاروبار کو وسعت دینے کے لیے مذہب واخلاق کے نام پر معصوم لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔اونچے محلوں میں پرآسائش زندگیاں گزارنے اوراپنی موجودہ اورآنے والی نسلوں کے بہترین مستقبل کے لیے غریب عوام کے جذبات سے کھیلنا اورانھیں ان کی حقیقی خوشیوں سے محروم کرنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ان اجلے اوربے داغ چہروں کے مالک اشرافیہ جو کہ درحقیقت گندگی کے ڈھیر ہیں اورجن کے دامن گناہوں سے اٹے ہوئے ہیں اورجو اعلی عہدوںاورمقام ومرتبوں پرفائز ہیں کے ہاں اگر ہر خاص وعوام کے لیے خندہ پیشانی رکھی جاتی تب بھی ٹھیک تھا مگر ان کے ہاں جو رنگ رلیاں منائی جاتی ہیں اورجو شیطانی کھیل کھیلے جاتے ہیں انھیں بیان کرنے کے لیے زبان وقلم ساتھ دینے سے قاصر ہے۔
ناول راکھ میں ایسے لوگوں کے دونوں طرح کے روپ بیان کیے گئے ہیں یعنی مصنف سے تصویر کے دونوں رخ دکھائے ہیں۔ یعنی ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ یا یوں کہہ لیجیے کہ شکل مومناں کرتوت کافراں مگر شاید کافروں میں بھی بہت زیادہ انسانیت پائی جاتی ہے ان منافق لوگوں کی بہ نسبت جو دن کی روشنی میں عزت والی کرسیوں پر بیٹھے اپنے فرائض کی انجام دہی کررہے ہیں لیکن رات کی تاریکی میں ان کے محل نما اونچے ستونوں اورمحرابوں والے بنگلوں اورسوساٹیوں میں اخلاق سے گرے ہوئے مشاغل اپنے عروج پرہوتے ہیں اورانھیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا ۔
مزے کی بات تو یہ کہ قانون کے رکھوالے ہی قانون کے خلاف کام کرنے والوں کے محافظ بنے ہوتے ہیں۔خود کو تہذیب یافتہ ظاہر کرنے والے یہ لوگ عام عوام کا مذاق اڑاتے اوران کی ہتک کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔اس ناول میں جا بجا ایسے کرداروں اورلوگوں کے کالے کرتوتوں کو بیان کیا گیا ہے جس میں فوج سے لے کر بیوروکریٹ تک اورسیاست دانوں سے لے کر مافیا تک کو شامل کیا گیا ہے اوریہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح ملک کے پوش علاقوں میں راتوں کو ہنگامے کرنا،راتوں کو رنگین بنانا،شب چراغاں منانا اوران پر قانون کے محافظوں کی پہرہ داری وغیرہ ہوتی ہے۔پتہ نہیں وہ کون سی قوم تھی کہ جس کے لیے ہمارے بانی پاکستان قائداعظم نے الگ وطن کا مطالبہ کیا تھااور کروڑں لوگوں نے اپنی ہر چیز کی قربانیاں دیں تھیں۔سمجھ نہیں آتی کہ یہ قوم کس طرف جارہی ہے اوراس کا آخر نتیجہ کیا نکلے گا۔اس ضمن میں ملاحظہ کیجیے ناول’’راکھ‘‘ سے لیا گیامندرجہ ذیل اقتباس:
“فیصل مسجد سے ادھر نیوی قالونی کے نواح میں یہ اسلام آباد کا ایک پوش،بے حد معزز اورمہنگاترین سیکٹر تھا۔جسے بھری دوپہر میں گاؤں کے کچے گھر روشن ہوتے ہیں ایسے رات کے گیارہ بجے اس سیکٹرمیں یہ گھر سراسر روشن اوربے حد آباد تھا۔گیٹ کے قریب دوجیپیں کھڑی تھیں جن میں پولیس کے اہلکار ڈیوٹی پر تھے۔علاقے کا ایس ایچ او ذاتی طور پر نگرانی کر رہا تھاتا کہ خلل نہ پڑے۔کالیے نے اس کے سامنے مدعوئین کی فہرست رکھ دی تھی کہ۔۔۔ یہ آرہے ہیں۔۔۔ خلل نہیں پڑنا چاہیے اوروہ جیپیں لے کر آگئے تھے۔” (۱۰)
ہمارے ملک کا یہ ایک بہت بڑا معاشرتی مسئلہ ہے کہ جب سے یہ قائم ہوا تب سے لے کر آج تک اورنہ جانے کب تک ایسے لوگوں کو ملک کی بھاگ دوڑ چلانے کے لیے چنا گیا جن کا کوئی قابل فخر ماضی نہیں ہے اورجن کے باطن بھی ان گندے جوہڑوں کی طرح ہیں جن میں ہر وقت غلاظت کے ڈھیر ابلتے رہتے ہیں۔ہمارے یہ منتخب نمائندگان جو خود اخلاق سے عاری اوربولنے کی تمیز وتہذیب کا فقدان لیے ہوئے ہیں یہ ہمارے ملک کو ترقی کیادیں گےالبتہ دوسروں کی کردار کشی کرنا اوران کے لیے نازیباالفاظ کا استعمال کرنا ان کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو کسی نہ کسی طرح سےدولت کماکر باعزت لوگوں میں شمار ہونے لگے اورتہذیب یافتہ لوگوں میں بیٹھ کر تھوڑی بہت اعلیٰ اقدار وروایات سیکھ گئے لیکن جب بات چیت کریں گے تو اپنے اندازگفتگو سے یہ ضرور باور کرا دیں گے کہ وہ کس نسل وذات سے تعلق رکھتے ہیں ۔ویسے بھی کسی انسان کی پہچان اورشخصیت کا اندازہ تو اس کی گفتگو سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔پاکستانی شہری ہونے کی حیثیت سے اوراپنی آج تک کی گزری زندگی کے تجربات کومدِ نظررکھتے ہوئے میں آج تک یہ اندازہ نہیں لگا سکی کہ ہم عوام خود اپنے دشمن کیوں ہیں اورہمیشہ ہی لیڈروں کی لفاظی اورچکنی چپڑی باتوں میں آکر ہم کیوں غلط کا انتخاب کرتے ہیں۔
ہم یہ کہتے ہیں کہ غریب لوگ ناخواندہ طبقے ہمیشہ روٹی،کپڑا،مکان کی لالچ ودھوکے میں پھنستے ہیں لیکن اگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو خواندہ اورتربیت یافتہ افراد تو ادنیٰ طبقے سے زیادہ گئے گزرے ہیں جوسب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے دلدل میں ہر پانچ سال بعد چھلانگ لگاتے ہیں۔ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی جرات نہیں رکھتے، ہم تو خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں اور ہمیں تو خود اچھے برے کی تمیز نہیں ۔مثال کے طور پر اگر بازار میں کوئی چیز مہنگی ہوجاتی ہے تو بجائے اس کے کہ ہم اسے نہ خریدیں ہم اس کی ایسے ذخیرہ اندوزی شروع کردیتے ہیں کہ جیسے اس کے بغیر تو زندگی ہی ممکن نہیں ۔حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم تاجروں اوردوکانداروں کو منظم ہوکر سبق سکھائیں۔اسی طرح اگر رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا تو ہم اپنا کام کروانے اوراپنے سر سے عذاب اتارنے کے لیے دوگنی رشوت دے دیتے ہیں تو بتایئے کہ غلط کون ہے ہم یا پھر غلط کام کروانے والے ۔
انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے بہترین فیصلہ کرنے اورملکی ترقی کے لیےبہترین انسان کے چناؤ کے لیے عقل سے نوازا ہے مگر انسان ہمیشہ یہ بھول جاتا ہے کہ وہ اشرف المخلوقات بنایا گیا ہے مگرہم اس قدر بے پروا اوربے حس ہوچکے ہیں کہ چاہے ہم پر کوئی کتنے ہی ظلم وستم کے پہاڑ کیوں نہ توڑدے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔اسی وجہ سے تو چراغ دین جیسے لوگ ہمارے سر پر مسلط ہوجاتے ہیں لیکن میں یہاں یہ کہنا مناسب سمجھتی ہوں کہ انھیں ہم خود اپنے سروں پر بٹھاتے ہیں جن کی حیثیت خاک برابر بھی نہیں ہوتی۔چراغ دین اس ناول کا ایک ایسا کردار ہے جو ہمارے ملک کے بہت سے سیاست دانوں کے چہرے بے نقاب کرتا ہے۔ اس حوالے سے ناول’’راکھ‘‘ کا یہ حصہ دیکھیے جو بہت کچھ سمجھادینے کے لیے کافی ہے:
“سی ڈی حسین کے بارے میں مصدقہ افوہ تھی کہ پارٹیشن کے دنوں میں کامونکی ریلوے سٹیشن پرہندوؤں کی جوٹرین روک کر ملیا میٹ کی گئی تھی تو کئی روز تک کوئی جانور بھی لاشوں کی بوبرداشت کرنے کا اہل ہو کر ادھر جانے کے قابل نہ ہوتا تھا تو تب سی ڈی حسین ایسا دلیرتھا جو ادھر جاتا تھا۔۔۔کئی کہتے تھے کہ روزانہ جاتا تھا اور لاشوں کی جامع تلاشی لیتا تھا۔ کچھ کہتے تھے کہ نہیں صرف سرخ گھگھرے والی کوئی بڑھیا تھی جس کی کمر کے ساتھ کرنسی نوٹوں کی ایک پیٹی بندھی ہوئی تھی۔یہیں سے سی ڈی حسین کی عظمت کا آغاز ہوا تھا صرف ان دنوں وہ چراغ دین تھا۔” (۱۱)
ناول راکھ کے اکثر کردار تقسیم ہند پر نوحہ خواں ہیں۔تارڑصاحب نے ایسا اسلوب اپنایا ہے کہ گویا سب کچھ ان کے سامنے بلکہ ان کے ساتھ بھی ہوا ہو۔اس دور میں ہونے والی جنگ و جدل ، فسادات اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والا خوف وہراس اورلوگوں کے دل ودماغ اورچہروں پر ان تمام چیزوں کا واضح عکس غرض کہ ہر طرح کی صورت حال بڑی عمدگی سے بیان کی گئی ہے۔اگرہم اپنے آج یعنی دورحاضر کا مشاہدہ کریں تو لوگوں کے احوال و رویوں کو جانچنے پر ہمیں کہیں بھی اصلاح،انقلاب اورعزت نفس جیسے اعمالوں کا وجود نہیں ملتا بس چیخ وپکار اورمحض لفاظی سے وابستہ کردار نظرآتے ہیں۔ جس کی وجہ سے چاروں اطراف ہمارے ملک ومعاشرے میں ناامیدی اوراخلاقی ومذہبی قدروں کا زوال اورشکست دیکھنے کو ملتی ہے۔عہد ماضی کی اقدار ،قدرومنزلت ،تہذیب و تمدن امن وسکون ،کامرانی وخوشحالی،شان وشوکت،رعب داب اوراسی طرح کی اوربہت سی خصوصیات جو ہماری قوم کا خاصہ تھیں وہ ناپید ہوچکی ہیں اوران کی جگہ ہر طرف ہمارے معاشرے میں بے یقینی ،گمراہی اورطوائف الملوکی کا دور دورہ چھایا ہوا ہے۔ناول نگار نے ہر اس زاویے کا جائزہ لیا ہے کہ جسے پڑھ کرآنکھیں لہو رنگ ہوجاتی ہیں اوردل کرچی کرچی۔ہمارا معاشرہ بناوٹ اوردکھلاوے جیسی برائیوں سے پرہے۔
ہمارے دل ودماغ میں یہ باتیں بٹھا دی گئی ہیں کہ کافر،ہندو،سکھ،عیسائی چاہے وہ جتنے ہی اعلی اخلاقی قدروں سےمزین اورنیکی کے رستے اوراچھائیاں پھیلانے والے ہوں گے مگر ان کا ٹھکانہ دوزخ ہوگی لیکن ہم چوں کہ مسلمان ہیں اس لیے ہم پر تو سو گناہ بھی معاف ہیں اورہم جو مرضی کریں ہمارا ٹھکانہ جنت ہوگا۔ایسی سوچ کے مالک مسلمان یہ بھول جاتے ہیں کہ جنت کا ملنا صرف اورصرف اعمال اورنیتوں پر ہے۔اس ناول میں بھی اکثر وبیشتر ایسے کرداروں سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے جن کے ظاہر کچھ اورباطن کچھ ہیں۔اس ناول میں جہاں ان لوگوں کو عیاں کیا گیا ہے جو بے ضمیر ہوتے ہیں وہیں وہ لوگ بھی آشکارہ کیے گئے ہیں جو حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کرا پنے پیٹ کے دوزخ کو بھرنے کے لیے منافق یا بزدل تو نہیں بنتے ہاں البتہ بے غیرت بن کر حلال روزی کو حرام بنا دیتے ہیں۔اس حوالے سے ناول’’راکھ‘‘ سے لیا گیا اقتباس زیر غور ہے۔
“طبلے پر ایک زوردار تھاپ پڑی توکتورے نے بھی آنکھیں پوری کھول کر “وف”کہا۔وہ بھی سب کچھ دیکھ رہا تھا۔باہر جیپوں میں پولیس کے اہلکار اونگھ رہے تھے اوراندر بدنوں کی گرمی تھی اورموسیقی کا شور تھا اورنوٹ فضا میں سے ہیلی کاپٹروں کی طرح مسلسل اترتے تھے۔۔۔ کتورا آرام کرنا چاہتا تھا ذرا اونگھنا چاہتا تھا لیکن طبلے پر اکثر اس زور سے تھاپ پڑتی تھی کہ وہ چونک جاتا تھا اورجب وہ چونکتا تھا تو دیکھتا تھا کہ کوئی کمر میں ہاتھ ڈالے رقص کرتا ہے۔ کوئی اپنے آپ میں مگن اورمخمور ناچتا ہے اورکوئی وہسکی کی بوتل اپنے سرپر انڈ یلتا ہوابھیگتا ہے اورکشتیاں اس کے گرد ناچتی ہیں اوراسے چھیڑتی ہیں اوراس کی جیب میں ٹھنسے ہوئے نوٹ نکال کر موسیقاروں کی طرف اچھالتی ہیں۔۔۔ ان تینوں کے گھیرے دار لباس موسیقی اورمردوں کے شور میں ان کے جسم کے گرد لپٹتے تھےاورپھر اٹھتے تھے۔وہ ناچ تو قالین پررہی تھیں لیکن ان کے پاؤں سے دھول اٹھتی تھی جو ان کے گھومتے ہوئے لبادوں میں جاکر چکراتی اورچہروں کی جانب سفر کرنے لگتی۔دھول کا رنگ راکھ ایسا تھا،کتورے نے نوٹ کیا۔ (۱۲)
ناول راکھ کی ایک اہم خصوصیت جوبحیثیت راقمہ نے محسوس کی وہ یہ ہے کہ مصنف نے اس ناول میں جتنے بھی کرداروں سے ہمیں متعارف کروایا ہے وہ نہ صرف اپنی ذاتی حیثیت میں مکمل ہیں بلکہ ان تمام کا تعلق ہمارے معاشرے کے عوامی طبقے سے ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہر کردار نے اپنی اپنی جگہ معاشرتی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بڑی عمدگی سے واضح کیا ہے۔ ناول نگار نے کچھ کرداروں بالخصوص مشاہد کے ذریعے مغربی دنیا کے شب روز بھی اُجاگر کیے ہیں اور اس حقیقت کو بھی واشگاف الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ہمارے معاشرے سے تعلق رکھنے والی نوجوان نسل کو بہ غرض پڑھائی جب انگریزی ملکوں میں بھیجا جاتا ہے تو وہ وہاں کی چمک دمک اوررنگ رنگینیاں انھیں اس قدر متاثر کرتی ہیں کہ وہ اپنے آنے کا اصل مقصد بھول کر اسی ماحول کے پروردہ ہوجاتے ہیں اوروالدین کے وہ خواب جو انھوں نے اپنی آئندہ نسلوں کو سنورانے کے لیے دیکھے ہوتے ہیں وہ مٹی میں مل کررہ جاتے ہیں۔
مصنف نے ناول میں برگیتا جیسے کردار کے ذریعے اقلیتوں کے لیے جو ہمارے معاشرے کے لوگوں کے جذبات واحساسات ہیں انھیں بھی خوب کھل کر بیان کیا ہے ۔دراصل برگیتا جو کہ مشاہد کی بیوی ہے اس کا تعلق ہمارے معاشرے کے ایسے طبقے سے ہے جسے ہمارے ہاں کمتر سمجھا جاتا ہے،ساتھ ہی ساتھ ناول نگار نے بابواورفاطمہ کے روپ میں مذہب کی شکست دکھائی ہےکیوں کہ بابو ہندو اورفاطمہ مسلمان ہے مگر فاطمہ بابو کے عشق میں اس قدر اندھی ہوجاتی ہے کہ اس سے شادی سے پہلے ہندو مذہب اختیار کرلیتی ہے اوریوں نہ وہ دین کی رہی نہ دنیا کی کیوں کہ ہندو قوم تو ویسے بھی تعصب پرست ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ فاطمہ کے لاکھ یقین دلانے پر بھی انھوں نے اسے خالص ہندو نہ مانا اوریوں وہ ہندوستان سے نکالی گئی۔اسی طرح زاہد کا لیا بھی اس ناول کا ایک بھر پور اورمضبوط کردار ہے جس کے ذریعے معاشرے کے ان لوگوں کو نمایاں کیا گیا جو اپنی قسمت خود بناتے ہیں اوراپنی زندگی کے مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد اتنے زیرک ہو جاتے ہیں کہ اپنے تجربوں اورتجزیوں سے حالات و واقعات کی سچی تصویریں سامنے لاتے ہیں۔
یہ ضروری نہیں کہ پھیری لگانے والے کا بیٹا بھی پھیری والا بنے،مزدور کا بیٹامزدوربنے،دودھ والے کا بیٹا گوالا ہی بنے بلکہ جو لوگ خود اپنی قسمت بنانا چاہتے ہیں تو پھر قسمت بھی ان کا ساتھ دیتی ہے بالکل جیسے زاہد کالیا کی قسمت نے اس کا قدم قدم پر ساتھ دیا۔اس ناول میں بہت سی جگہوں پرعلامت نگاری کے اسلوب کو بھی اپنایا گیا ہےکیوں کہ جہاں ہم حق وسچ کو بیان نہ کرسکیں یا کہانی کے اندر کے بھید کو نہ جان پائیں یا باطنی کیفیات تک رسائی نا ممکن ہوجائے تو پھروہاں علامت نگاری کا گربہت مفید ہوتا ہے۔مزید برآں اس ناول میں بہت دفعہ مختلف حوالوں سے اس بات کو دہرایا گیا ہے کہ جن معاشروں میں شیطان صفت لوگ موجود ہوں تو وہاں زندگی تو مشکل ہوتی ہے مگر موت بھی بے وقعت ہوجاتی ہے اورہر جگہ ڈروخوف کے سائے آسیب کی طرح منڈلاتے رہتے ہیں اور ایسی صورتحال میں عوام ایسے خدائی مددگاروں کا شدت سے راہ تکتی ہے جو ان کے درد کی دوابنیں اوران کے زخموں پر مرہم رکھیں۔ ناول میں دوغلے لوگوں کو بھی بے نقاب کیا گیا ہے جو بہ ظاہر تو سادہ ومعصوم چہروں کے مالک ہوتے ہیں لیکن درحقیقت شیطان کے چیلے ہوتے ہیں۔بلاشبہ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو اپنے کالے کرتوتوں اورحیوانیت کو اپنی شرافت کی آڑ میں
“اوررستم ایک ایرانی گدھ تھا جو “ال گریکو” کے ایک مخصوص کونے میں سرشام آبیٹھتا تھا اورچہرے پر ایک بھید بھری دانائی طاری کر لیتا تھا،لاتعلق سا ہوکر سیاہ چشمے کے عقب میں اگرچہ اس کی گدھ آنکھیں دکھائی نہیں دیتی تھیں لیکن ہر سوتاکتی تھیں ۔سفید برساتی میں اورنفاست سے ترشی ہوئی فرنچ کٹ داڑھی میں وہ خاصا مدبر اورگہری سوچ میں ڈوبا ہوا لگتا تھا اورانھیں تب خبر ہوتی جب اس کا کونہ خالی ہوتا اوروہ کسی لڑکی کے ہمراہ دبے پاؤں بلکہ دبے پنجوں کافی بار سے نکل جاتا اورپھر اسے دبے پنچوں اپنے کمرے میں سمگل کرلیتا۔”(۱۳)
ناول نگار نے جہاں اس ناول میں ظلم وجبر ،استحصال اورانسانی زندگی سے وابستہ معاشرتی مسائل کو بیان کیا ہے وہیں ان کے قلم نے ماضی کے خدوخال پر بھی ایک بھرپور روشنی ڈالی ہے اورایسےلوگوں اورہستیوں کا ذکر کیا ہے جو سچ میں پاکستانی تاریخ کے ہیروتھے اورپاکستان کو ایک عظیم ملک بنانے میں ہر دستہ اول میں شامل تھے لیکن آج تاریخ ان کے ناموں سے بھی واقف نہیں کیوں کہ آج کے اس بدحال دور میں ہم ظاہری تماشوں اورنعروں کر ترجیع دیتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ کیا واقعی ہماری صفیں مضبوط ہیں یا اندر ہی اندر طاغوتی طاقتیں انھیں ضربیں لگا کر پارہ پارہ کرنے کے سازشوں میں مصروف ہیں۔مصنف اس ناول کے ذریعے یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ ہمارے ملک ومعاشرے میں جو شدت پسندی اورفرعونیت پیدا ہوچکی ہے ہمیں اس سے کیسے نجات ملے گی۔کب تک ہمارے ملک میں لڑائیوں اورجنگوں کے نام پر خون کی ہولی کھیلی جاتی رہے گی اوروہ وقت کب آئے گا جب ہمارے ملک یعنی پاکستان کو امن وسکون اورمعاشی استحکام نصیب ہوگا۔دوسروں کے لیے غلط سوچنے اورگڑھے کھودنے والے لوگ کیوں یہ بھول جاتے ہیں کہ سب سے پلٹ کران کے دامن میں بھی آئے گا۔
یہ ناول مختلف طرح کے سنگین معاشرتی مسائل کی داستانوں سے بھرا پڑا ہے جن میں سے کچھ کو تو مصنف نے ببانگ دہل اورکچھ کو اشاروں کنعاوں کے ذریعے بیان کیا ہے ۔برسوں پہلے بھی مسلمانوں کی اپنی نااہلی اورکوتاہیوں کی وجہ سے دو سو سال کی حکمرانی چھن کر انگریزوں کے ہاتھوں میں گئی تھی اورآج بھی کم وبیش ایسی ہی صورتحال ہے۔ہمارے معاشرے میں برسوں سے یہ ریت چلی آرہی ہے کہ اپنے گناہ دوسروں کے سرڈالو اوراپنے عیب چھپانے کے لیے الزام اپنے سے کم حیثیت لوگوں پر لگا دو لیکن آخر ایسا کب تک چلے گا کیا ہم کبھی سدھریں گے بھی یا نہیں۔اس ناول’’راکھ‘‘ میں ایسے ہی بہت سےاعمال وافعال کو برکت مسیح کے کردار کے ذریعے بیان کیا گیا ہے:
“آپ برکت مسیح ہو؟”مشاہد نے پوچھا بکو یکدم انسان سے قدموں میں لوٹنے والا ایک جانور ہوگیا۔آج تک جب بھی اس سے یہ سوال پوچھا گیا تھا کہ تم برکت مسیح ہو تو ہمیشہ اس پرکوئی نہ کوئی مصیبت نازل ہوتی تھی۔۔۔ کسی چوری کے شک میں تھانے میں حاضری۔۔۔ پھر چھتر کٹ اورمک مکا۔۔۔ یا پھرچوہدریوں کی بیگار ۔۔۔یا محکمہ ایکسائز والے پرمٹ پر شراب لے کر مسلمانوں کو بیچتے ہو۔۔۔ تو وہ ایسے تمام موقعوں پر قدموں میں لوٹنے والا جانور بن جاتا تھا صرف چاؤں چاؤں نہیں کرتا تھا باقی ہوبہو وہی بن جاتا تھا۔نہ بنتا تو اتنے انصاف پرست معاشرے میں زندہ کیسے رہتا۔” (۱۴)
اس ناول میں ہمیں پیارومحبت کے حوالے سے بھی مختلف قسم کے تجربات ،احساسات اورجذبات اکثر وبیشتر صفحات پر اپنی روشنی بکھیرتے ہوئے نظرآتے ہیں اور رشتوں کے حوالے سے مختلف کرداروں کے حالات زندگی کی خوب عکاسی بھی کی گئی ہے۔اگر ہم پیت وپریت کے ضمن میں بات کریں تو اس سلسلے کی مختلف کڑیاں باپ بیٹی کی صورت میں ہیں تو کہیں یک طرفہ محبت کا ذکر ملتا ہے۔کہیں عشق و جنون کی وہ حد دکھائی گئی ہے جہاں مذہب تک کو شکست دے دی گئی ۔ الغرض یہ کہ پیار، محبت، عشق،اخلاص،دوستی مختلف کرداروں کے مابین سنجوگ قیمتی ڈور بھی ہے اورایک حسین وزرین مرتبہ احساسات بھی۔
اس فن پارے میں گذشتہ عہد کی خوبصورت قدیم تاریخ بھی جگمگاتی نظر آتی ہے۔یادرہے کے ماضی اوراس سے وابستہ حالات وواقعات کسی بھی فرد،قوم اورمعاشرے کا ایک انمول اثاثہ ہوتے ہیں کیوں کہ ماضی کے بغیر حال اورحال کے بنا مستقبل کی بنت ممکن نہیں۔ گویا عہد ماضی ،عصر حال اوران کی دیواروں پربننے والا مستقبل آپس میں ہم آہنگ ہوتے ہیں۔بلاشبہ اگر ہم اپنی تاریخ،تہذیب وثقافت،روایت و عقائد اورورثہ کو مدنظر رکھتے ہوئے تعمیری سوچ اپنائیں تو ہمارا ملک ومعاشرہ بے پناہ ترقی کرتا ہوا،بہت سے تیز ترین ترقی یافتہ ممالک کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے کیوں کہ ہماری تاریخ میں ہمارا بے شمار گنجینہ موجود ہے جو آنے والی قوتوں اورنسلوں کے لیے سرمایا حیات ہے۔
ناول میں مشرقی پاکستان کا المیاتی حصہ اوروہ فسادات جو تقسیم ہند سے منسلک ہیں انھوں نے عوام کے ذہنوں اورسوچوں پر بہت گہرے اثرات مرتب کیے ہیں جنہیں تارڑ صاحب نے مختلف کرداروں بالخصوص مردان کے کردار کے ذریعے بیان کیا ہے۔اس ناول میں مردان فوج کا وہ شکست خوردہ سپاہی ہے جو مشرقی پاکستان کے سانحہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے اورجس کے منفی اثرات اس کے اعصاب کو شل کردینے کے لیے کافی ہیں۔ناول میں مردان ہی کے ذریعے ان فسادات کی عکاسی بھی کی گئی اوران فوجیوں کی حالت زار کی تلخ حقیقت کو بھی بیان کیا گیا جو 1971ء کی جنگ اوراس کے پہلے اوربعد کے پیدا ہونے والے حالات کی وجہ سے ہوئی۔اس وقت کے انتہا پسند لوگوں نے مشرقی پاکستان بالخصوص ڈھاکہ کے مختلف حصوں میں پھیل کر لوٹ مار ،آتش زدگی،غنڈہ گردی اورقتل وغارت کا جو بازار گرم کیا قلم ان واقعات کو بیان کرنے سے قاصر ہے ۔نسلی آویزش کو اس قدر عام کیا گیا کہ جو لوگ بنگالی نہ تھے ان کے گھروں کے باہر سرخ نشان لگادئیے گئے۔
قومی پرچم کی اس قدر توہین کی گئی کہ اسے نظرآتش کردیاگیا۔ڈھاکہ ریڈیو اورٹیلی ویژن سٹیشن سے بنگلادیش کا ترانہ زبردستی چلوایاگیا۔وہ لوگ جنہوں نے پاکستان بنتے دیکھا ،قتل وغارت ہونے،خون کی ندیاں بہنے اورلاکھوں بے گناہ و معصوم لوگوں کی جان ومال اورعزتوںکو لوٹ لینے کے بعد محبت کے جو چراغ روشن ہوئے انہیں مفاد و ہوس پرستوں نے سانحہ مشرقی پاکستان کو ہوادے کر پوری طرح گل کردیا اوریوں محبت کا گہوارہ بننے والا ملک اس سے قبل ہی نفرتوں کی آگ میں بھسم کردیا گیا ۔اس کے ساتھ ساتھ جنرل نیازی کا جنرل اڑوڑہ کے سامنے ہتھیار ڈال دینے کے بعد عوامی اورفوجی جنگی قیدیوں کا جو حشر کیا گیا اورجس طرح انھیں نشان عبرت بنایا گیا اسے نہ تو بحیثیت راقمہ میں یہاں بیان کرسکتی ہوں اورنہ ہی میرا قلم میرا ساتھ دیتا ہے ہاں البتہ پورا صوبہ جس طرح خوف وہراس اوردہشت گردی کی گرفت میں آیا اسے موقع بہ موقع ناول راکھ میں جس طرح سے تحریر کیا گیا اسے یہاں ضرور بیان کیا جاسکتا ہے۔
ناول کا جہاں ایک موضوع فسادات ،تقسیم ہند ،سقوط ڈھاکہ اورپاک بھارت جنگیں ہیں تو وہیں اس کا دوسرا موضو ع ان تمام واقعات کے نتیجہ میں انسانی درندگی اورمعاشرے پر پڑنے والے اثرات ہیں۔ انہی میں ایک کردار شوبھا کاہے جو ایک وار بے بی ہونے کے ساتھ ساتھ اس المیے کی طرف اشارہ ہے جس نے ایک ہی ملک کے درمیان صرف جغرافیائی سطح پر ہی حد بندی نہیں کی بلکہ ایک ہی ملک کے باسیوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کردیا۔شوبھا کا کردار سقوط ڈھاکہ سے پہلے بڑھنے والے تعلقات کے نتیجے میں پروان چڑھنے اورپھلنے پھولنے والا وہ وجود ہے جو اپنی شناخت کا متلاشی ہے اوردو ملکوں کی جغرافیائی حدود قیود کے درمیان اپنی پہچان اورحوالے کی تلاش میں دربدر بھٹک رہا ہے اوراس کے اندر جنم لینے والی احساس محرومی کا سبب بھی ہے۔شوبھا کی پیدائش اورشناخت کے حوالے سے ناول’’راکھ‘‘ کا یہ ٹکڑا ملاحظہ کیجئے:
“مہرانساء کا پیٹ سندر بن کے چیتے کا ہموار پیٹ نہیں تھا۔اس کے اندر شوبھا تھی،کس کی تھی؟کسی کی بھی۔ایک وار بے بی کا تعین نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کہاں سے آیا اورکہاں جائے گا۔۔۔ سر اس نے خود Admitکیا ہے کہ یہ بنگلادیشی ہے سر۔۔۔ اورسر آپ جانتے ہیں کہ کراچی میں اس ٹیم بہت زیادہ غیرقانونی بنگلادیشی ہیں سر حکومت انہیں پکڑ کر واپس بھیج رہی ہے۔یہ بھی واپس جائے گی سر۔۔ سرانہیں بالکل غلط فہمی ہوئی ہے سر۔۔۔ میں آغا خان میڈیکل کالج کی فائنل ائیر کی سٹوڈنٹ ہوں سر اورمیں پاکستانی ہوں۔۔۔ “تم بنگلادیشی نہیں ہو؟” نو سر ۔۔یس سر”صرف ہاف سر۔”وہ سردہواؤں میں زرد پتے کی کپکپاہٹ تھی۔” (۱۳)
ہر معاشرے میں اچھے برے دو طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔اگر ایک طرف ملک کو ترقی اورامن وسکون دینے والے لوگ ہیں تو دوسری طرف ان افراد کی بھی کمی نہیں جو انسان کی بربادی،انسانیت کی تذلیل،خواتین کی بے حرمتی کو اپنا نصب العین مانتے ہیں اورملک میں طوائف الملوکی پھیلانے کے ذمہ دار ہیں۔اس ناول میں جہاں گمراہ اورناکارہ لوگوں کی طرف اشارہ ہے وہیں انسانیت کی عزت وناموس سے کہلواڑ کرنے والے حیوان صفت رکھنے والے طاغوتی کارندوں کو بھی بے نقاب کیا گیا ہے ۔اس ناول میں مصنف نے کمال جرات سے جانوروں کے روپ میں پوشیدہ انسانوں کو بھی منظر عام پرلانے کی کوشش کی۔اس کے علاوہ ناول کے اختتامیہ صفحات پر بنگلادیشوں کی مکتی باہنی تحریک سے وابستہ مردوزن کا درد ناک قتل عام بھی آشکارہ کیا گیا ہے اوریوں ظلم وتشدد کی ایک اورداستان رقم کی گئی ہے اورساتھ ہی ساتھ ایک باپ کی اپنی بیٹی سے محبت اورشادی کے بعد ہونے والی جدائی کو سوچ کر جو جذبات ایک باپ کے ہوسکتے ہیں انہیں بھی تحریر کیا گیا ہے۔
اس ناول کے بارے میں اختتامی سطور لکھتے ہوئے نہ صرف دل خون کے آنسو رونے پر آمادہ ہے بلکہ الفاظ بھی ظلم وجبر کی داستان لکھنے کا مزید ساتھ دینے سے قاصر ہیں کیوں کہ یہ پورا ناول ہمارے ملک ومعاشرے کے ایک تکلیف دہ دور کی عکاسی کرتا ہے اورہماری شکست خوردہ تہذیب وتاریخ کی انتہائی المناک اوردکھ بھری داستان کو ظاہر بھی کرتا ہے اورہمیں اورہماری آنے والی نسلوں کو یہ کڑوا سچ بیان کرتا ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک کے ساتھ گذشتہ عہد کے نام نہاد اوراپنے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پرترجیع دینے والوں نے کس طرح اپنے ہی لوگوں کا ناحق خون بہایا اورہماری اورہماری سرحدوں کی حفاظت کرنے والوں نے ہی اس ملک کی بہنوں بیٹیوں کی عزتوں کو پامال کیا اورظلم وبربریت کا ایک ایسا اندو ناک کھیل کھیلا کہ جس کی مثال دنیا کی کسی تاریخ ،تہذیب اورمعاشرے میں نہیں ملتی۔الغرض یہ کہ ملک کو اپنے ہی ہوس ومفاد پرست ٹولے نے دولخت کرکے ایک ایسی راکھ عوام کے اوراپنے منہ پرمل دی کہ اگر آب زم زم سے بھی دھوئیں تو اس کی کالک کبھی صاف نہ ہوگی اوریہ داغ کبھی ملک کی پیشانی سے نہ اُترے گا۔
حوالا جات:
1۔مستنصر حسین تارڑ،،راکھ،(لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز ، 2012ء)، ص۔6
2۔مستنصر حسین تارڑ،،راکھ، ص۔22
3۔ایضاً، ص۔63، 64
4۔ایضاً، ص۔72
5۔ایضاً، ص۔73، 74
6۔ایضاً، ص۔101، 102
7۔ایضاً، ص۔104
8۔ایضاً، ص۔ 108
9۔ایضاً، ص۔119
10۔ایضاً، ص۔116، 117
11۔ایضاً، ص۔202
12۔ایضاً، ص۔218، 219
13۔ایضاً، ص۔484، 501
Reference in Roman Scripts:
1.Mastanser Hussain tarrh, , raakh, ( Lahore : sang mil pbli kishnz, 2012 hamza ), s. 6
2. Mastanser Hussain tarrh, , raakh, s. 22
3. ayzan, s. 63, 64
4. ayzan, s. 72
5. ayzan, s. 73, 74
6. ayzan, s. 101, 102
- ayzan, s. 104
8. ayzan, s. 108
9. ayzan, s. 119
10. ayzan, s. 116, 117
11. ayzan, s. 202
12. ayzan, s. 218, 219
13. ayzan, s. 484, 501
***