You are currently viewing مشہور ڈرامہ نگار ،حبیب تنویر کی فکری و فنی جہات

مشہور ڈرامہ نگار ،حبیب تنویر کی فکری و فنی جہات

ابراہیم نثار اعظمی

مشہور ڈرامہ نگار ،حبیب تنویر کی فکری و فنی جہات

         حبیب تنویر یکم ستمبر ۱۹۲۳ء کو وسطی ہندوستان کے شہر رائے پور میں پیدا ہوئے اور اپنے کرئیر کا آغاز صحافت سے کیا۔ تنویر کو شاعری اور موسیقی کا بھی شوق تھا جس کی جھلک ان کے ڈراموں میں ہمیشہ نظر آئی۔حبیب تنویر ہمہ جہت شخصیت کے حامل تھے۔ وہ ڈرامہ نویس اور ہدایت کار ہی نہیں، ایک اچّھے اداکار، شاعر، موسیقار اور اسٹیج ڈیزائنر بھی تھیانھوں نے تھیٹر کی دنیا میں معروف ناموں کے بجائے لوک فن کاروں اور مقامی آرٹسٹوں کو موقع دیا اور اپنے ڈراموں میں ان گلیوں اور بازاروں کو اسٹیج بنایا جن سے جڑی ہوئی کہانی وہ بیان کر رہے تھے۔

         ۱۹۵۰ میں حبیب تنویر نے برطانیہ کا رُخ کیا اور وہاں ڈرامہ اور آرٹ کی تعلیم اور تربیت کے لیے داخلہ لے لیا۔ اسی زمانے میں انھیں جرمنی کے شہر برلن میں قیام کا موقع ملا، جہاں انھوں نے نام ور ڈرامہ نگار بیرتھولٹ بریشت کے ڈرامے دیکھے اور ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ بریشت نے ان کے فن پر گہرے اثرات مرتب کیے۔اس سلسلے میں رضوان الحق اپنے مضمون میں لکھتے ہیں :

                  ’’یہ بات 1954 کی ہے، جب اس ڈرامے کی داغ بیل پڑی، یہ وہ زمانہ تھا جب انگریزوں

                  سے آزادی ملے چند ہی برس ہوئے تھے اور عوام الناس کے خواب اور امنگیں جواں تھیں۔

                   حبیب تنویر اپنے زمانے کی نبض کو صحیح سے سمجھ رہے تھے۔ اس ڈرامے میں وہ تقریباً ڈیڑھ

                  سو سال قبل کے ایک شاعر اور اس کی شاعری کی بات کر رہے تھے۔ لیکن اس کے ذریعے

                  وہ اپنے زمانے کے جذبات کی عکاسی بھی کر رہے تھے۔ اس سے قبل ہندستانی تاریخ

                  و تہذیب میں کبھی بھی کسی ککڑی بیچنے والے کو، کسی لڈو بیچنے والے کو، کسی تربوز بیچنے والے کو

                  ، کسی پان بیچنے والے کو اورکسی مداری کا تماشا دکھانے والے کو وہ اہمیت نہیں ملی تھی جو آگرہ

                   بازار میں ملی، نظیر اکبرآبادی نے ان لوگوں کو اہمیت دی تھی لیکن خود انھیں نظر انداز کر دیا گیا

                   تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حبیب تنویر اپنے وقت کے ساتھ چل رہے تھے اور نظیر اکبرآبادی

                   اپنے وقت سے بہت پہلے آ گئے تھے۔ اگر یہ ڈراما آزادی سے قبل یا ترقی پسند تحریک شروع

                   ہونے سے قبل لکھا گیا ہوتا تو یقینا یہ اپنی موجودہ شکل میں نہ ہو کرکسی اور شکل میں ہوتا اور نہ اس

                   ڈرامے کو اس طرح ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا جس طرح اسے لیا گیا۔‘‘

                                    (اگرہ بازار کے آئینے میں حبیب تنویر کی شخصیت ۔از رضوان الحق )

          1959ء میں انھوں نے بھوپال میں ’’نیا تھیٹر‘‘ کے نام سے ایک تھیٹر کمپنی کی بنیاد رکھی۔ڈراما ’آگرہ بازار‘ بھی ایپک تھیٹر کی روایت سے موسوم ہے اور اسے اردو کے شاہکار ایپک ڈراموں میں اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ حبیب تنویر ڈراما ’’آگرہ بازار‘‘ کے پلاٹ کے متعلق لکھتے ہیں:

                  ’’میں نے پڑھ رکھا تھا کہ نظیرؔ راہ چلتے نظمیں کہاکرتے، اور چھوٹے پیشے والے لوگ اور

ٍ                بھکاری اکثر ان سے نظموں کی فرمائش کرتے، اور وہ ان کی بات کبھی نہ ٹالتے۔ خواہ یہ

                   افسانہ ہو یا حقیقت، مجھے یہ بات بہت اچھی لگی، اس سے میرے ڈرامے کو بہت مدد مل

                   رہی تھی اور کلام نظیرؔ پڑھنے کے بعد میں اس امر پر یقین لانے کے لئے بالکل تیار تھا۔

                                    ( حبیب تنویر، دورنگ،صفحہ: ۷۶۔، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی،سنہ اشاعت ۲۰۰۵)

         1959ء میں اُنہوں نے اپنی اہلیہ مونیکا مشرا کے ہمراہ بھوپال میں ’’نیا تھئیٹر‘‘ کے نام سے ایک تھئیٹر کمپنی کی بنیاد رکھی، جو اِس سال اپنی گولڈن جوبلی منا رہی ہے۔1975ء میں اُنہوں نے ’’چرن داس چور‘‘ کے نام سے ایک اور ڈرامہ لکھا، جو بے حد مقبول ہوا۔ اِس ڈرامے کے باعث اُنہیں 1982ء میں ایڈنبرا انٹرنیشنل ڈرامہ فیسٹی ول میں فرنج فرسٹس ایوارڈ سے نوازا گیا۔

         اُنہیں جو بے شمار اعزازات ملے، اُن میں 1969ء کا سنگیت ناٹک اکیڈمی ایوارڈ، 1983ء میں ملنے والا پدم شری اور سن 2002ء میں ملنے والا پدم بھوشن بھی شامل ہیں۔حبیب تنویر نے تقریباً نو فلموں میں اداکاری کی، جن میں رچرڈ ایڈنبرگ کی بنائی ہوئی فلم ’’گاندھی‘‘ بھی شامل ہے۔

         ایپک تھیٹر کا موجد تو پسکیٹر ہے لیکن اس کی ترویج و اشاعت میں سب سے نمایاں نام بِرتھالت بِریخت (Bertolt Brecht)کا ہے۔ جرمن نژاد بِریخت تخلیقی اسٹیج ہدایت کار اور عظیم ڈراما نویس ہونے کے ساتھ ہی بہت اچھا شاعر بھی تھا۔ اس نے ڈراما کے تعلق سے ارسطوئی نظریات کی تردید کی اور ایک نئی تکنیک اور انوکھی تمثیلی ہیئت پر اپنے نظریات کی بنیاد رکھی۔ بِریخت نے ایپک تھیٹر کی ایک ایسی مستحکم روایت قائم کی جو ڈراما کی دنیا میں ایک نیا موڑ ثابت ہوئی۔ ارسطو کے نظریہ تزکیہ نفس یعنی کتھارسس (Katharsis) سے بِریخت بالکل اتفاق نہیں کرتا ہے اس کا خیال ہے کہ ناظرین کے جذبات کو برانگیختہ کرنا ان کے ساتھ انصاف نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنے سے وہ ڈراما کے غلام بن جاتے ہیں اور غور و فکر کی صلاحیت سے محروم ہو کر ڈراما دیکھتے ہیں۔ بِریخت کا ماننا ہے کہ ناظرین اور ڈراما کے اداکاروں کے درمیان جو جذباتی ہم آہنگی پیدا ہو جاتی ہے اس کو ختم کیا جائے۔ اس کے لئے اس نے مختلف قسم کے آلات یا حربوں کا استعمال کرنا ضروری سمجھا جسے ’نظریہ بے تعلقی‘یعنی Alienation Effect کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ بِریخت کا خیال یہ تھا کہ تھیٹر جادو کی طرح ناظرین کے ہوش وحواس پر چھا جانے والی چیز نہیں جو انھیں جامد کر دے بلکہ تھیٹر زندگی کو حرکت دینے کا نام ہے اور زندگی کو متحرک کرنے میں اس کا نظریہ بہت معاون ثابت ہوا۔ بِریخت کے نظریہ سے روایتی تھیٹر کو کاری ضرب تو لگی لیکن تبدیلی چونکہ فطرت کا اصول ہے اس لئے بدلتے وقت اور حالات کے ساتھ ڈراما اور تھیٹر کی دنیا نے بھی نئی کروٹ لی اور بِریخت جیسے روایت شکن ڈراما نویس نے ڈراما کے ایک نئے رخ سے سامعین کو متعارف کرایا۔

         حبیب تنویر نے اپنے تھیٹر کے ذریعے ایسا تھیٹر تیار کیا کہ آپ ہریانہ کے کسی گاؤں کے لوگوں کو اگر شری رام سینٹر میں گھسا دیں وہ ان کے تھیٹر سے اتنا ہی لطف اندوز ہوں گے جتنا نیویارک اور لندن کا طبقہ اشرافیہ ان کا تھیٹردیکھ کر محظوظ ہوتا تھا۔یہ بے انتہا کمال کا کارنامہ ہے۔ کسی اور تھیٹر ڈائرکٹر کے پاس ایسا مواد رہا ہی نہیں انھوں نے تھیٹر کی ایسی زبان تخلیق کی جس میں میوزک اور سادگی کے ساتھ مزاح بھی تھا۔ حبیب صاحب میں تھیٹر کا وہ تام جھام بالکل نہیں تھا کہ اگر ان کے پاس پچاس عدد لائٹیں نہیں ہیں تو وہ تھیٹر نہیں کرسکتے۔

         ان کا شو گاؤں کے چوپال میں ہوسکتا تھا اور کسی میلے میں بھی،کسی بڑے سے بڑے اسٹیج، کالج اور آڈیٹوریم، آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایم میں بھی۔ میں نے ’چرن داس چور‘کا شو دہلی کے آئی آئی ٹی میں، بمبئی کے پرتھوی تھیٹر میں اور دہلی کالج میں بھی دیکھا ہے اور اس کا تاثر ہمیشہ یکساں ہی رہا ہے۔حبیب صاحب کے تھیٹر کی دوسری اہم چیز یہ ہے کہ انھوں نے گاؤں کے آدی باسی غیر تربیت یافتہ اداکاروں کو اسٹیج پرکھڑا کردیا۔

         ہندستان ہی نہیں بلکہ دنیا کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوکہ وہ لوگ جو کبھی اسکول نہیں گئے، بالکل ناخواندہ اور حد تو یہ کہ ٹھیک سے ہندی بھی نہیں بول سکتے تھے ایسے اداکاروں کو وہ اسٹیج پر لائے۔ میں ساٹھ کی دہائی کی بات کر رہا ہوں اس زمانے میں جب فوک کا کوئی نام لینے والا نہیں تھا، اس وقت تنویر صاحب نے پندرہ بیس سال تک ان آدی باسی اداکاروں کے ساتھ کام کیا اور بالآخر نہ صرف ہندستان بلکہ دنیا کی تمام جگہوں پر اپنا لوہا منوایا۔

         حبیب صاحب ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے۔ 1940 میں بمبئی میں اپٹا سے منسلک ہوگئے اور فٹ پاتھ فلم میں دلیپ کمار صاحب کے ساتھ کا م کیا اور بہت سارے ڈرامے اسٹیج کیے۔ وہ اردو کے نہایت عمدہ شاعر بھی تھے اور اپنا کلام بہت اچھے انداز میں سناتے تھے۔ حبیب صاحب جس بھی میدان میں جاتے وہاں اپنا نقش مرتسم کردیتے۔ 1950 میں جب کہ فارسی تھیٹر ختم ہوچکا تھا اور تھیٹر میں کوئی خاص اسکوپ نہیں رہ گیا تھا انھوں نے اپنے کیریئر کے لیے تھیٹر کا انتخاب کیا اور ثابت قدمی کے ساتھ اس پر قائم رہے۔

ڈراما میں حبیب تنویر نے جتنے بھی موضوعات کو پیش نظر رکھا ہے وہ سبھی سماجی معنویت کے حامل ہیں۔ سماج کے ہر ایک حصہ کو اور مختلف طبقے کے لوگوں کو اسٹیج پر ایک ساتھ پیش کرنا مشکل کام تھا اس کام کو پورا کرنے کے لئے حبیب تنویر نے جس مقام کا انتخاب کیا وہ ہے آگرہ کا ’کناری بازار‘ہے جہاں مختلف قسم کے لوگ موجود ہوتے ہیں تاکہ اس دور کی تصویر کشی با آسانی ہو سکے۔ مرزا ہادی رسواؔ نے بھی ناول ’’امراؤ جان ادا‘‘میں طوائف کے کوٹھے کو مرکز بنا کر لکھنوی تہذیب کے زوال کی جو تصویر کشی کی تھی اسی تکنیک پر حبیب تنویر نے بھی آگرہ کے ایک بازار کو مرکز بنا کر اپنا مقصد پورا کیا جہاں ہمیں نہ صرف ایک شاعر کے کلام کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے بلکہ واضح پس منظر سامنے ہونے کی وجہ سے اس کی اہمیت اور افادیت بھی ثابت ہوتی ہے۔ اس ضمن میں حبیب تنویر رقم طراز ہیں:

                  ’’میں ڈرامے کی بنیاد نظیرؔ کی زندگی کو نہیں، بلکہ اس کے کلام کو بنانا چاہتا تھا۔ ڈراما لکھنے

                   کے دوران یہ بات بھی ذہن میں آئی کہ نظیرؔ کو اسٹیج پر نہ لانا ہی بہتر ہوگا۔ اس سے نہ صرف

                  میرے موضوع کے بہت سے مرحلے طے ہوگئے، بلکہ میری تکنیک پر بھی اس کا اچھا اثر

                  پڑا، اور تکنیک اور موضوع کا گھتاؤ بڑھ گیا۔‘‘

                            ( حبیب تنویر، دورنگ،صفحہ: ۳۶۔، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی،سنہ اشاعت ۲۰۰۵

جاوید صدیقی کہتے ہیں :

                  ’’جس طرح ہم آغا حشر کشمیری کو ہندستان کا شیکسپئیر کہتے ہیں اسی طرح حبیب کو برتول بریخت کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا۔ برتول نے یورپ کے تھیئٹر کو ایک نئی زندگی اور نئی شکل دی اسی طرح حبیب نے ہندستانی تھیئٹر میں ایک نئے سسٹم کی شروعات کی۔ انہوں نے تھیئٹر کو حدود کی پابندی سے آزاد کیا۔ انہوں نے چھتیس گڑھ کے فوک ڈانسرز کے ساتھ کام کیا۔ ان کے ڈرامہ چرنداس چور جو پوری دنیا میں مشہور ہے اس کا اہم کردار ایک ان پڑھ ڈانسر تھا جسے حبیب نے تراشا۔ انہوں نے چھتیس گڑھ کے ڈرامہ فنکاروں کو ان کی ضروریات پورا کرنے کے لہے تنخواہ پر رکھا جو آج تھ کسی تھیئٹر گروپ نے نہیں کیا۔ حبیب واقعی ہمہ جہت شخصیت کے حامل تھے کیونکہ وہ نہ صرف ڈرامہنویس تھے بلکہ ہدایت کار، اچھے اداکار، شاعر، موسیقار اور سٹیج ڈیزائنر بھی تھے انہوں نے ان کے بعد کی پیڑھی یعنی ہم لوگوں کے لیے دروازے کھولے دراصل اگر ایک جملے میں ان کی تعریف کی جائے تو کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے عام آدمی کے لیے عام انداز میں ناٹک کھیلا جو بہت بڑی بات ہے۔

مشہور فلم ہدایتکار رمیش تلوار کہتے ہیں :

         ’’وہ تھیئٹر کے ایک ستون تھے۔ ان کا اپنا سٹائل تھا۔ وہ ایسے لوگوں سے اداکاری کروا لیتے تھے جن کے بارے میں لوگ گمان بھی نہیں کر سکتے تھے یا ان سے کام کروانے کی ہمت نہیں رکھتے تھے۔ جیسے ان کے مشہور ڈرامہ آگرہ بازار میں انہوں نے فقیر کا کردار ایک فقیر اور درزی کا کردار ایک درزی سے کروایا۔زبان پر انہیں قدرت حاصل تھی۔ ان میں تھیئٹر کی جو سمجھ بوجھ تھی وہ اب شاید ہی کسی میں ہو۔

ڈرامہ نویس حبیب تنویر کی ڈرامہ کا ذکر کرتے ہوئے شمع زیدی لکھتی ہیں :

                  ’’ان جیسا کوئی بھی تھیئٹر ڈائرکٹر ملنا مشکل ہے۔ دور دور تک اس کے آثار بھی دکھائی نہیں دیتے ہیں۔ ممبئی میں اپٹا کے ساتھ کام کرنے کے بعد انہوں نے میری والدہ قدسیہ بیگم کے ساتھ مل کر ‘ نیا تھیئٹر ‘ شروع کیا تھا۔ ان کے چند ڈرامے ایسے تھے جو ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے انہیں آپ تھیئٹر کی دنیا کا اثاثہ کہہ سکتے ہیں۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی تھیئٹر کے نام کر دی تھی۔ وہ اپٹا کے ساتھ رہے پھر دلی گئے جامعہ میں ہندستانی تھیئٹر بنایا۔ وہ انگلینڈ یورپ گھومتے پھرے۔ ان کی شخصیت میں تھیئٹر سمایا ہوا تھا اس لیے وہ وہاں بھی خاموش نہیں بیٹھے۔البتہ آخری وقتوں میں وہ فوک کی جانب راغب ہوئے۔ اور انہوں نے چھتیس گڑھی زبان میں کئی ڈرامے کیے۔

امراؤ کے مشہور اداکار فاروق شیخ حبیب تنویر کی ڈرامہ نگاری کے تعلق سے لکھتے ہیں ‘

                  ’’اس وقت مجھے عربی کی ایک شاعرہ کا شعر یاد آرہا ہے کہ ‘ میں ایسے دور میں جی رہی ہوں جب سب سر سر غائب ہو چکے ہیں اور دُمیں رہ گئی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بیب تنویر کی موت کے بعد ہم سب دمیں زندہ ہیں۔ ہندستانی تھیئٹر کا ایک مکمل باب آج حبیب صاحب کی موت کے بعد ختم ہو گیا۔ میں نے ان کے ساتھ کام نہیں کیا لیکن گاہے بگاہے ان سے ملا بھی ہوں اور ظاہر ہے کہ جب میں اس تھیئٹر کی دنیا سے منسلک ہوں تو ان کے ڈرامے دیکھے ہیں۔ ان کے ڈرامے ہمارے لیے ایک سبق ہیں۔تھیئٹر کی دنیا کا ہر طالب علم ان کے ڈرامے دیکھے بغیر فنکار بن ہی نہیں سکتا ہے۔ جس مقصد اور جس لگن کے ساتھ وہ تھیئٹر کرتے تھے وہ اب دکھائی ہی نہیں دیتا ہے۔ اس سطح کے جینئس فنکار اور انسان اب ناپید ہو چکے ہیں۔ وہ ہمارے دلوں میں اور تھیئٹر کی دنیا میں تاحیات زندہ رہیں گے۔

شیلی (ایم ایس سیتھیو کی بیٹی)

         میں نے اپٹا میں ان کا کام دیکھا ہے۔ اپنے بزرگوں سے سنا ہے۔ ہماری آج کی نسل حبیب صاحب کے ڈرامے دیکھ دیکھ کر اور سیکھ کر بڑی ہوئی ہے۔ میں اگر اپنے لفظوں میں ان کی موت کے خسارے کو بیان کرنا چاہوں تو کچھ اس طرح کر سکتی ہوں کہ پورا تھیئٹر ان کی ذات میں سمایا ہوا تھا وہ اپنے آپ میں ایک انسٹی ٹیوٹ تھے۔

کتابیات ۔

۱۔       حبیب تنویر، دورنگ،صفحہ: ۹۰، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی،سنہ اشاعت ۲۰۰۵ء

۲۔      اردو میں ایپک تھیٹر کا نمائندہ ڈرامہ ‘‘آگرہ بازار ‘‘مضمون از سفینہ سماوی ۔

۳۔      حبیب تنویر، دورنگ،صفحہ: ۳۸، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی،سنہ اشاعت۰۰۵ ۲

۴۔      تھیٹر کی دنیا کے کرم یوگی تھے حبیب تنویر۔محمود فارقی

۵۔      حبیب تنویر، دورنگ،صفحہ: ۷۱، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی،سنہ اشاعت ۲۰۰۵

۶۔      (اگرہ بازار کے آئینے میں حبیب تنویر کی شخصیت ۔از رضوان الحق )

***

Leave a Reply