You are currently viewing قصرِ سخن کا امین :قیصر الجعفری

قصرِ سخن کا امین :قیصر الجعفری

ارتکاز افضل(اورنگ آباد)

قصرِ سخن کا امین :قیصر الجعفری

         شہر ممبئی کویونہی عروس البلاد نہیں کہا جاتا اس شہر نے اپنی رعنائیوں اور رنگینیوں سے لاکھوں صاحب علم و فضل ،شاعر، ادیب،فنکار اورتجارت پیشہ حضرات کے مقدر سنوارےہیں بلکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہےکہ کئی افراد کے مقدر بگاڑے بھی ہیں۔ دراصل دنیا کے تمام بڑے شہروں ہی کی طرح ممبئی بھی ایک میٹرو پولیٹن شہرہے جہاںلوگ جھونپڑیوں،جھگیوں سے بالا خانوں تک اور نیم روشن بستیوں سے لے کرفائیو اسٹار ہوٹلس کی رونقوں سے دچار ہوتے ہیں۔ہر بڑا شہر اپنے بطن میں بے شمار چھوٹی چھوٹی بستیاں بسائے رکھتا ہے۔لوگ تلاشِ معاش ،بہتر مواقع کی تلاش میں اپنا نصیبہ سنوارنے کی غرض سے مختلف علاقو ں اور ریاستوں  سے جوق در جوق آتے ہیں اور اپنی قسمت آزماتے ہیں۔بنیادی طور پرماہی گیروں کی یہ بستی جب ممبئی بن گئی تو اس نے اپنے وسیع دامن میں ہر علاقے ،ہر گائوں اور ہر ریاست کے باشندے کو پناہ دی۔عام طور پر یہی ہوتا ہےکہ بڑے بڑے شہر داخلی ہجرت ہی کے توسط سے پھلتے پھولتے ہیں اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اپنے حدودِاربعہ سے نکل کر یہ شہرشاہراہوں تک پھیل جاتے ہیں۔ یہی کچھ صورت حال شہر ممبئی کی بھی ہے جہاں آکر ہر زبان کا بولنے والا ، ہر لکھنے والا اور ہر ثقافت کی ترجمانی کرنے  والاگروہ مل جائے گا۔لوگ اپنی اپنی ثقافتوں کی زنبیلیں پشت پر لادے خوابوں کی ایک چھوٹی سی دنیا سجائے شہروں کی طرف رخ کرتے ہیں اورزندگی کی تگ ودو میں لوٹنا بھول جاتے ہیں ۔لیکن ماضی کی وہ زنبیل جووہ اپنے انفرادی اور اجتماعی شعور میں بسائے رکھتے ہیں سو صورتوں سے عیاں بھی ہوتی رہتی ہے اور یہاں بھی ماضی سے ایک ناقابلِ منقطع ربط اور زمانۂ حال کی تگ و دوکبھی احساس زیاں پیدا کرتی ہے اور کبھی رائیگاں ہونے کا خدشہ لاحق ہوتا ہے ۔اگر ایک طرف یہ گو مگو کی کیفیت ناسٹیلجیا پیدا کرتی ہے تو دوسری طرف اسی کیفیت سے جہدِ مسلسل کا حوصلہ بھی ملتا ہے ۔بالخصوص وہ گروہ اور وہ لوگ جو جہد البقا کے ساتھ ساتھ اپنی علمی و ثقافتی میراث اپنے کاندھوںپر اٹھائےپھرتے ہیںان کا اضطراب اوراحساسِ کرب شدید ہوکر مختلف شکلوں میں یہاں وہاںچھلکنے لگتا ہے،کبھی فلمی نغموں میںتو کبھی نظموں اور غزلوں میں،کبھی افسانوں اورناولوںمیں،تو کبھی گیتوں اور موسیقی میں،اور انھیںیہ شہرِعروس البلاد انگیز کرنے کی بے شمار صورتیں نکال ہی لیتا ہے۔

         قیصر الجعفری شہر ممبئی کی کہکشاں کے وہ درخشاں ستارے ہیں جو عمر بھر جلتے بجھتے رہے اور اپنی بے پناہ شعری صلاحیتوں کے ذریعہ اس شہر کے ادبی افق کو درخشاں و تاباں کرتے رہے۔قیصر الجعفری نے انتہائی عسرت کے دن بھی دیکھے اور وہ جذباتی صدمے بھی سہے جن سے گزرنے کے بعد عام طور پر لوگوں کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے ۔’’رنگ حنا‘‘ سے لے کر’’اگر دریا ملا ہوتا‘‘ تک کا طویل شعری سفر قیصر الجعفری نے تنہا طے کیا۔یہ تنہائی سماجی یا معاشرتی نوعیت کی نہ ہوکر خالص دانشورانہ رہی۔انھیں اس بات کا قطعی دکھ نہیں کہ معاشرتی اعتبار سے انھوں نے کیا کھویا اور کیا پایا۔انھیں دکھ ان ثقافتی قدروں کی زوال آمادگی کا ہے  جو انسانی رابطوں،شرکتوںاور ہم آہنگی کی ضامن ہوتی ہیں۔شاید یہی وجہ ہےکہ قیصر الجعفری کی شعری لفظیات ہماری تہذیب اور ثقافت میں پیوست ہیں ۔گو کہ قیصر الجعفری کا شعری سفر کافی طویل اور کم و بیش پچہتر سالوں پر محیط ہے ،ان کے شعری سفر کا کوئی مرحلہ ایسا نظر نہیں آتا جہاں وہ بحیثیت شاعر تھک ہار کے یا ہمت ہار کے بیٹھ گئے ہوں بلکہ ’’ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی ‘‘کے مصداق اپنی شعری کائنات کو مزید سنوارتے اور سجاتے رہے۔قیصر الجعفری نے بہت عمدہ غزلیں،نظمیں اور بے شمار فلمی گیت بھی لکھے جواردو دنیا میں مشہور ہوکر قبولیت  عام سے سرفراز ہوئے۔ان کے اشعار اور نظمیں پڑھنے کے بعد بے اختیار یہ خیال آتا ہے کہ شعر گوئی قیصر الجعفری کے مزاج میںرچ بس گئی تھی۔نہ کسی شعر پر آورد کا گماں ہوتا ہے اور نہ کسی نظم پر صناعی کا ۔ جب کبھی شعر کہتے ہیں تو شعر تیر کی طرح دل میں ترازو ہوجاتا ہے اور جب نظم کہتے ہیں تو ایک سماں بندھ جاتا ہے۔’’رنگِ حنا ‘‘ کے تعلق سے جعفری صاحب نے کہا تھا کہ یہ مجموعہ دل آسودہ کے خوابوں کا پیکر تھا جب کہ ’’سنگ آشنا‘‘ایک ایسے فرد کی داستان ہے جو پرانے  خوابوں کے ڈھیر میں نئے خوابوں کی تلاش و جستجو کے لئے صرف اپنی ذات کے آس پاس گھوم رہا ہے۔جعفری صاحب کا یہ حوالہ محض اس غرض سے درج کیا گیا کہ ہم ان کے اپنے محسوسات سے واقف ہوں ۔یہاں یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ قیصر الجعفری ہمارےعہد کے ایک قادر الکلام شاعر ہیں لہٰذاعجز و انکساری ان کی گفتار و رفتار میں شامل ہے۔لہٰذانہ ’’رنگِ حنا‘‘ بقول قیصر الجعفری  محض مجموعہ دل آسودہ کے خوابوں کا پیکر اور نہ ہی ’’سنگ آشنا‘‘صرف ذات کے آس پاس گھومتا ہے اور یہی بات ان کے دیگر مجموعوں مثلاً’’اگر دریا ملا ہوتا‘‘،’’پتھر ہوا پھینکیں‘‘،’’دشت بے تمنا‘‘ اور ’’حرف تسلیم‘‘ وغیرہ پر بھی من و عن صادق آتی ہے۔

         قیصر الجعفری نے تمام عمرشعر وادب کی خدمت کی ۔ان کے اشعار میں رمزو اشاریت اور شائستگی اظہار کے درجنوں پیرائے جابجا بکھرے پڑے ہیں اور کبھی کبھار تو ایسا لگتا ہے کہ زبان وبیان اپنے تمام تر جواہر بے بہا لئے ان کے دربار میں سر تسلیم خم کرکے آکھڑی ہے اور گویا کہہ رہی ہو کہ ’’سر تسلیم خم ہے جو مزا ج یار میں آئے‘‘ چونکہ بنیادی طور پرقیصر الجعفری  کے مزاج  میںیک گونہ درویشانہ بے نیازی از خود موجود ہے ۔وہ اپنے اشعار کو نہ موضوع کا مطیع و فرمانبردار گردانتے ہیں اور نہ ہی زبان و بیان کی شائستگی سے غیر ضروری چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں۔اسی لئے عام روش کے خلاف ان کے اشعار داخلی ربط و تسلسل کا نادر نمونہ پیش کرتے ہیں اور کسی حال دو لخت نہیں ہونے پاتے۔’’رنگ حنا‘‘ سے قیصر الجعفری نے  اپنی شاعری کا آغاز کیا لیکن اپنے پہلے ہی مجموعے میں سردار جعفری سے یہ اعتراف کروالیا کہ:

 ’’ غمِ ذات کے بغیر غمِ کائنات کا احساس کسی شاعر کے لئے ممکن نہیں ہے لیکن غمِ کائنات سے فراراختیار کرکےغمِ ذات کے قلعے میں اسیر ہوجانا شاعری کے لئے نیک فال نہیں ہے۔مجھے خوشی ہے کہ قیصر الجعفری کی شاعری اس تاریک حلقہ کی گرفت سے باہر ہے۔‘‘

 ’’رنگ حنا‘‘کی ابتداءہی میں ایک خوبصورت قطعہ رکھ دیا ہے جو امیدِ نو کا ترانہ محسوس ہوتا ہے۔

سرشکِ خونِ تمنا متاعِ دیدہ ٔ تر

ترے لئے ہے نگارِ حیات ! رنج نہ کر

کبھی تو رنگِ حنا کے نصیب جاگیں گے

کبھی تو پھول کھلیں گے تری ہتھیلی پر

اس مجموعے میں نظمیں بھی ہیں غزلیں بھی اور زیریں سطح پر ایک نوجوان ذہن کی وہ کیفیات بھی ہیں جو رومان کو شعر کرتی ہیں۔ان کی نظموں اور غزلوں دونوں ہی میں عہدِ عنفوان کی سرمستی بھی ہے اور اس سے منسلک وہ تشویش اور اندیشے بھی جو تذکیر اور تانیث دونوںہی کے لئے مرحلۂ شوق سے گزرنے کے سبب پیدا ہوتے ہیں۔ان کی ایک طویل نظم’’شعلۂ حنا ‘‘کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:

غمِ حیات کی پرچھائیوں سے ڈرنا کیا!

میں زندگی کے نئے خواب بن کے آئی ہوں

اب اس دیار میں واپس بھی ہو نہیں سکتی

کہ اپنی پشت پہ دیوار چن کے آئی ہوں

اور آخری بند میںاپنی وفا اور غرور محبت کا واسطہ دیتے ہوئے ان الفاظ میں درخواست گزار ہے:

رہ حیات کے ساتھی ترا سہارا ہے

مری وفا مری جرأت کی آبرو رکھنا

ترے لئے میں زمانے کو چھوڑ آئی ہوں

مرے غرور محبت کی آبرو رکھنا

بظاہران غزلوں اور نظموں کے آہنگ واسلوب پرجاں نثار اختر،اختر الایمان اور علی سردار جعفری کے شعری اظہارولفظیات کا شائبہ گزرتا ہے اوریہ ایک فطری ردِ عمل ہے کہ  ۱۹۵۰ءکے بعد جوان ہونے والی اردو نسل ان شعراء کے اثر سے اپنا دامن چھڑا نہ سکی لیکن’’ رنگ حنا‘‘ہی میںقیصر الجعفری اپنامنفرد اسلوب بھی دریافت کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے تھے۔

         قیصر الجعفری کاشعری مزاج غزل کی روایت نے ڈھالا ہے لہٰذا زمان و مکاں کی سفاکی ،وقت کا جبر،اور جذبات و محسوسات کی گریز پائی ان کے شعری اسلوب میں جابجا جلوہ گر ہے۔زندگی کی بے ثباتی ہو،وقت کا جبر ہویا خواہشات و آرزوئوں کی بےوقعتی  قیصر الجعفری ان موضوعات کو اس طرح قلمبند کرتے ہیں کہ ہر شعر میںگویا معنی کا ایک کوندا سا لپکتا ہے ۔’’رنگ حنا‘‘کی غزلوں کے اشعار ملاحظہ ہوں:

وقت کی بوجھل پلکوں سے میں ٹپکا ہوں اک آنسوبن کر

پھیلوں تو بن جائوں زمانہ،سمٹوں تو ایک پل ہوجائوں

اس خار و خس کی دنیا میں لایا ہوںوقعت شعلے کی

بھڑکوں ،چمکوں ،رقص کروںاور نظروںسے اوجھل ہوجائوں

زندگی کے تئیںقیصر الجعفری کا رویہ بے باک بھی ہے اورپرشکوہ بھی۔لیکن ان کی طبیعت میں جاری و ساری ایک کیفیت گداز بھی موجود ہے جو انھیں سایۂ دار میں ایک سجدۂ بے باک پر آمادہ کرتی ہے۔انیسؔ و دبیرؔ ہی کی طرح ان کے اشعار میں جابجا کربلا، شہادت، فرات، یزیدجیسی تلمیحات موجود ہیں لیکن وہ معرکہ آرائی نہیں جو سرِ دارسجدہ طلب کرے۔لہٰذا غزل کی تمام تر تہذیب و شائستگی جو ہماری کلاسیکی روایت کی میراث ہے قیصرؔالجعفری نے نہ صرف اسے انگیز کیا بلکہ اس کے ساتھ نباہ کرنےکا قرینہ بھی تلاش کرلیا۔ اس روایت کی پاسداری ایک صبر آزما اور جاں گسل مرحلۂ شوق ہے بقول قیصرؔ الجعفری کہ :

پلکوں پہ سو چراغ جلاتے کھڑے رہے

ہم تند آندھیوں کے مقابل اڑے رہے

’’رنگ حنا‘‘کے برعکس قیصر الجعفری کایہ جاں نثارانہ انداز ’’سنگ آشنا‘‘،’’دشت تمنا‘‘اور ’’اگر دریا ملا ہوتا‘‘کی غزلوں میںمزید واضح طور پر نظر آتا ہے ۔’’دشت تمنا‘‘اور ’’سنگ آشنا‘‘کی غزلیں نہ صرف شعری اظہار کے بلوغیت کی مثالیں پیش کرتی ہیںبلکہ غزل کا روایتی اور پرشکوہ مزاج بھی ان میں درآتا ہے۔’’سنگ آشنا‘‘کی غزلیں ندرتِ اظہاراور خیال آرائی کی بہترین مثالیں پیش کرتی ہیں۔ان غزلوں میںیاس بھی ،رنج والم بھی اورحسرت و ارماں بھی ہے اور وہ جذبۂ جاں نثاری بھی جو سپردگی کو سرفرازی سمجھتا ہے۔زیر نظر اشعار ملاحظہ ہوں:

ہوگی جب دامن یوسف کی نمائش ہوگی

مصر قبضہ میں ہے جی بھر کے زلیخائی کر

بھیک بھی صرف محبت کی نظر لیتے ہیں

زندگی ہم سے فقیروں کی پذیرائی کر

جھلملاتے مری پلکوں پہ ستارے کب تک

اے شبِ غم!مرا سرمایۂ جاں تھا کتنا؟

مقتل کی سرزمین تھی یا کوئے مہوشاں

جتنے ستونِ دار تھےدلدار سے لگے

وہی مستی وہی شوخی وہی دیوانہ گری

میری غزلیں ہیںمگر رنگِ ادا ہے اس کا

شہر صلیب،کوئے بتاں،صحن میکدہ

جب گھر لٹادیا تو ٹھکانے بہت سے تھے

حرف بہار لکھ کر پیشانی سحر پر

ہم لوگ جارہے ہیں اک دوسرے سفر پر

بچا بچا کے رکھے تھے غزل کے نذرانے

خوشی ہوئی ہے ترے غم کے نام کرکے مجھے

پسِ ترکِ آرزو بھی یہی حالِ زار ہوتا

جو تجھے بھلا بھی دیتے ترا انتظار ہوتا

مذکورہ بالا اشعار کی رمز و اشاریت اس بات پر دال ہے کہ قیصرالجعفری نہ صرف لفظوں کو غزل کے مزاج کے عین مطابق برتنے کا سلیقہ رکھتے ہیں بلکہ وہ غزل کی اشاریت اور ایمائیت سے بھی پوری طرح واقف ہیں اور اسے ہر طرح سے انگیز کررکھا ہے۔اسی لئے ان اشعار میں بیان کی لطافت بھی ہے اور الفاظ کے برتنے کی ندرت بھی ۔

         واضح ہو کہ زلیخائی کا تصرف،دامن یوسف کو تو بے شماراشعار میں باندھا گیا ہے لیکن کسی شاعر نے زلیخائی کرنے کی استدعا نہیں کی یا پھر غزل کے نذرانوں کو غم یار کے نام منسوب کرنےکی مسرت یا مرحلۂ شوق میں ثابت قدمی کے عوض زندگی سے پذیرائی طلب کرنے اور ان کے علاوہ ایسے بے شمار لطیف اشارے ان کے اشعار میں جابجا موجود ہیں جو قارئین سے توجہ بھی طلب کرتے ہیں اور دادِ سخن بھی۔قیصر الجعفری نے پامال موضوعات کو اپنے اشعار میں خال خال ہی جگہ دی ہے۔وہ لفظیات جن سے غزل کی اشاریت تعبیر ہوتی ہے وہ کنائے اور رمز جو غز ل کے حسن کو دوبالا کرتے ہیں قیصر الجعفری انھیںاپنےاشعار میں اس قرینے سے برتتے ہیں کہ ان کی غزلوں یں غز ل کی روایتی آن بان اور تمکنت بھی باقی رہتی ہے اور خیال کا ایک تازہ و شگفتہ کوندا بھی لپکتا سا نظر آتا ہے۔ان کی ایک ہی غزل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے:

فراز دار رسن سے نظر بلند رہی

یہی ادا مرے قاتل کو ناپسند رہی

بہت دنوں مجھے زلف بتاں سے ربط رہا

بہت دنوں تجھے آوارگی پسند رہی

تمھیں نہ پاکے ملا ناز جستجو دل کو

شکست کھا کے محبت نیاز مند رہی

کسی کو فرصت لوح و قلم نہ تھی قیصر

ہمارے بعد جنوں کی کتاب بند رہی

اسی طرح ایک دوسری غزل کا زیر نظر شعر بھی غزل ہی کی ایک روایتی آن بان کا مظہر ہے:

شہر صلیب ،کوئے بتاں ،صحن میکدہ

جب گھر لٹا دیا تو ٹھکانے بہت سے تھے

 موضوعات اور اسلوب کے اعتبار سے غزل کا دامن اس قدر وسیع اور ارتقائی تاریخ اس قدر بسیط ہے کہ ہر وہ موضوع ، خیال، جذبہ اور احساس جو انسان کی جذباتی زندگی کو چھو کر گزرتا ہے غزل اسے اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہے۔ہماری کلاسیکی شعری روایت سے لے کر جدید ترین شعری اظہار تک ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو عہد بہ عہد ہماری جذباتی و ثقافتی وابستگیوں اور ان میں وقوع پذیر ہونے والے معمولی اور غیر معمولی تغیرات کا لطیف ترین اظہار غزل ہی سے وابستہ ہے۔شاید اسی لئے میرؔ نے،جنھیں عرف عام میںخدائے سخن تسلیم کیا جاتا ہے ،خود اپنے تعلق سے کہا تھا:

جلوہ ہے مجھی سے لب دریائے سخن پر

صد رنگ مری موج ہے میں طبع رواں ہوں

قیصر الجعفری کا ایک اور کارنامہ ان کی منظوم سیرۃ النبی’’چراغِ حرا‘‘ ہے رسول کریم ﷺ کی ذاتِ مبارک پر دنیا کی ہر اہم زبان میں لکھا گیا ہے اور ان تصانیف کی تاریخ اس قدر طویل ہے کہ ایک مختصر سے مضمون میں اس کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا اور پھر حضوراکرم ﷺکی ذات گرامی پر بے شمار شعراء نےنعتیں بھی لکھی ہیں میری دانست میں عبدالرحمن جامی کی نعت جس کے تعلق سے یہ روایت ہے کہ وہ نعت انھوں نے حضور اکرم ﷺکے روضے کی جالی کو پکڑکر اور روتے ہوئے لکھی تھی۔ رسول کریم ﷺکی ذات گرامی میں پیش کیا گیا عاجزانہ نذرانۂ عقیدت ہے۔اس نعت کا ایک شعر اس قدر معنی خیزاور نیاز مندانہ ہے کہ اسے پڑھتے ہوئے بے اختیار آنکھیں جذبات سےنم ہو جاتی ہیں ملاحظہ ہو:

چوں سوئے من گذرآئی من مسکیں ز ناداری

فدائے نقش نعلینت کنم جاں یا رسول اللہ

لہٰذا نعت گوئی اور سیرت کی متنوع مختلف اللسان اور مختلف الثقافت روایتوں کا ایک اہم جز ’’چراغ حرا‘‘ ہے ۔

         ’’چراغ حرا‘‘ کی ابتداء میں قیصر الجعفری نے اس بات کی وضاحت کردی کہ یہ طویل مثنوی غزلیہ طرزِ اظہار اور اسلوب میں لکھی گئی ہے۔ واقعات میں کہیں تفصیل سے تو کہیںاختصار سے کام لیا گیا لیکن واقعات رقم کرنے میں اس بات کا پورا خیال رکھا گیا کہ علمی اور تاریخی وسائل مستند ہوں اور صائب الرائے حضرات ان وسائل سے متفق ہوں۔’’چراغ حرا‘‘ دراصل دور ابراہیم سے لے کر بعثت نبویﷺ اور پھر وصال رسول اکرمﷺ تک کے تمام اہم واقعات مثلاً قیام حرا،دعوت،پیغام،ہجرت،غزوات پر ترتیب وار لکھا گیا ہے۔تاریخ و سیرت کے مختلف پہلوئوں کو  اس احترام اور عقیدت کے ساتھ نظم کیا گیا ہے کہ قیصر الجعفر ی کااسلوب  بھی نکھرا نکھرا سا نظر آتا ہے۔سیرت کے موضوع پر قلم اٹھانےکا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ زبان و بیان کی صحت کے ساتھ ساتھ اظہاراور الفاظ کی حرمت کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔ذراسی بھی بھول چوک سے عظمت و احترام کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے کے امکانات پیداہوسکتے ہیں۔ بڑی تحقیق اور کاوش کے بعدہی قیصر الجعفری نے قلم اٹھایا۔لہٰذا ابتداء سے لے کر اخیر تک قیصر الجعفری نےبڑی احتیاط اور جانفشانی کے ساتھ اس پروجیکٹ کو مکمل کیا۔چونکہ زبان و بیان پر قدرت رکھتے ہیں لہٰذا اس قدر سلیس اور رواں اشعار معرض وجود میںآئے ہیں کہ کہیں کسی شعرپر توارد یا آورد کا گمان تک نہیں گزرتا۔اس مثنوی نے قیصر الجعفری کی شعری خدمات کومزید دوبالا کردیا ہے۔ممبئی جیسے مصروف شہر میں رہتے ہوئے زندگی گزارنے کی تگ و دو کے تمام مشکل مراحل طے کرتے ہوئے قیصر الجعفری نے کوئی ایک کام نیک نیتی اور استقامت کے ساتھ کیا ہے تو وہ ہے اردو شعر و ادب کی پاسبانی۔ان کا لب ولہجہ ان کا اسلوب،ان کی فکر،ان کا اظہار بیان اوران کے موضوعات اردو شعری روایت کے دامن گلزار میں ہمیشہ پھولو ںکی طرح مہکتے رہیں گے۔ دراصل اچھی اور بڑی شاعری کا ایک وصفِ خاص یہ ہوتا ہے کہ شاعر اپنے جذبات ،محسوسات ،مشاہدات اور واردات وغیرہ کو اس چابکدستی سے شعر کا قالب عطا کرکے کہیں کسی تامل یا تردّد کا گمان نہ ہو اور پھر حرف و سخن کی عفت و حرمت کا بھی خیال رکھے۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات   قیصرؔ الجعفری کےکلام پر من وعن صادق آتی ہے۔اسی طرح کلام کی قرأت کے بعدبے اختیار یہ شعر زبان پر آجاتا ہے کہ :

زباں ز نکتہ فراموش و راز من باقیست

بضاعت سخن آخر شد و سخن باقیست

پیدائش: ۱۴ستمبر۱۹۲۶ء،جون پور

اصل نام:         زبیر احمد،قلمی نام قیصر الجعفری

وفات:           ۵؍اکتوبر ۲۰۰۵ء

والد:             قاضی صغیر احمد

                  نظر گنج،تحصیل چائل،ضلع الہ آباد

***

Leave a Reply