You are currently viewing مظہر امام : شخص اور شاعر

مظہر امام : شخص اور شاعر

  ڈاکٹر سید احمد قادری

  نیو کریم گنج۔ گیا ۔(بہار )

مظہر امام : شخص اور شاعر

    مظہر اما م بھی داغ مفارقت دے گئے۔ ریاست بہار کے ایک چھوٹے سے شہر دربھنگہ میں ۵ ؍ مارچ  ۱۹۳۰ء کو پیدا ہونے والا یہ فنکار پوری اردو دنیا میں اپنی شاعری کا جادو جگا کر ۳۰؍ جنوری ۲۰۱۲ء کو ابدی نیند سو گیا۔

   ابتدائی دنوں میں مظہر اما م ترقی پسند تحریک کے اسیر رہے ، اس اسیری نے انھیں جیل  تک پہنچا دیا ۔ فروری ۱۹۴۹ء میں مظہر امام منظرشہاب کے ساتھ  ریل کا چکّہ جام کرینگے ، کی پاداش میں گرفتار ہوئے، ہر چہار طرف ہنگامہ ہو گیا کہ دربھنگہ کے دو شاعر ، جو سیاسی کارکن کے علاوہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے سر گرم رکن ہیں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ان گرفتاری پر اس زمانے کے اخبارات میں  خوب خوب تحریروں اور تقریروں کا سلسلہ چلا ، کئی تجاویزیں منظور ہوئیں اور  بالا آ خر کچھ دنوں بعد ان کی رہائی  ہوئی۔  بعد میں انھیں یہ احساس ہوا کہ ترقی پسندی اب دم توڑ رہی ہے اور  جدید یت خیمہ زن ہونے والی ہے،  چنانچہ وہ بھی اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ  اس خیمہ میں آ گئے۔

   مظہر امام  نے ۱۹۴۳ء سے ہی شاعری شروع کر دی تھی۔  ابتدائی دنوں میں جوش ملیح آبادی سے  متاثر رہے، لیکن بعد میں  وہ  فیض، راشد، اخترالایمان اور فراق  وغیرہ کی شاعرانہ عظمت کے معترف ہوئے۔ شاعری کے ساتھ ساتھ انھوں نے اس دور میں کچھ افسانہ نگاری بھی کی۔ ان کا ایک افسانہ  ۱۹۴۸ء میں کراچی کے رسالہ ’’  مضراب  ‘‘  میں  ’’  آخر اس درد کی دوا کیا ہے  ‘‘  کے عنوان سے شائع ہواتھا ، اس زمانہ میں  ’’ مضراب  ‘‘  کی ادارت  شین مظفر پوری سنبھالے ہوئے تھے۔  ۱۹۵۱ء میں دربھنگہ  سے بی اے پاس کرنے کے بعد وہ کلکتہ پہنچے ، ایک اخبار ’’  کارواں  ‘‘  سے منسلک ہوئے، لیکن وہ اخبار ایک ہی ماہ کے اندر بند ہو گیا ، اس کے بعد دس روپئے ماہانہ کی ٹیوشن پر چند ماہ گزارے، مالی تنگ دستی منھہ کھولے کھڑی رہی،لیکن انھوں نے ہمّت ہاری، تگ و دو کا سلسلہ جاری رہا، اسی دوران انور عظیم ، جس اسکول میں معلم تھے ، وہ  اس اسکول کو چھوڑ کر دلّی روانہ ہونے لگے، تو وہ اس جگہ پر مظہر اما م کی پچھّتر روپئے ماہانہ پر تقررّی ہو گئی  ،اسی اسکول میں پرویز شاہدی ہیڈ ماسٹر تھے ، بعد میں اس اسکول میں حسن نعیم بھی مدرس کی حیثیت سے آ گئے ، دھیرے دھیرے  وہاں کی آب و ہوا انھیں خوب راس آنے لگی اور ادبی طور پر بھی وہ  بے حدفعال اور متحرک ہوگئے۔ کلکتہ سے وابستگی کے سلسلے میں  اپنے تاثر بیان کرتے ہوئے  مظہر امام  کہتے ہیں  ’’  ان کی آرزوؤں اور تمنّاؤں کی تشنگی اور سیرابی کا شہر ہے اور وہ اگر  کلکتہ  نہ جاتے تو ان کی زندگی میں ایک بڑا خلأرہ جاتا۔ ‘‘  علّامہ جمیل مظہری نے بھی مظہر امام کی شاعری کے تعلق سے اپنے ایک تاثر میں  کلکتہ کے ہی حوالے سے بات کی ہے ۔

 وہ کہتے ہیں ۔ ’’ابھی کل کی بات ہے کہ وہ ننھا ساسہما سہما دیا جو کلکتہ کی ادبی مجالس میں روشن ہوا تھا دیکھتے دیکھتے ستارہ بن کر اپنی روشنی دور دور تک پھیلانے لگا۔‘‘   مظہر امام اس اسکول میںدسمبر ۱۹۵۸ء تک ٹیچر کی حیثیت سے  رہے  اور اس اسکول کو اس وقت چھوڑا ، جب ان کی تقررّی  آل انڈیا ریڈیو ، کٹک میں ٹرانسمیشن ایکزیکیٹو کی حیثیت سے ہو گئی۔ ترقی کے منازل طیٔ کرتے ہوئے  وہ کلکتہ سے کٹک، کٹک سے گؤہاٹی، گؤہاٹی سے پٹنہ ریڈیو اور پٹنہ ریڈیو سے سری نگر دور درشن کے اسٹیشن ڈائریکٹر   کے عہدہ تک  پہنچے اور یہاں  سبکدوش ہو کر اپنے آبائی وطن دربھنگہ میں سکونت اختیار کرنے کی کوشش کی، لیکن یہاں ان کا دل نہیں لگا اور  وہ  دلّی جا کر بس گئے۔

      مظہر امام کا ادبی سفر گرچہ دربھنگہ سے ہی شروع ہو گیا تھا ، لیکن کلکتہ میں اپنی پہچان لی تھی  اور یہ پہچان دھیرے دھیرے نکھرتی چلی گئی اور ان کی شاعری  کا  خوبصورت  رنگ و آہنگ بہت نمایاں طور پر جھلکنے لگا ۔ پہلا شعری مجموعہ  ’’  زخم تمنّا  ‘‘   ۱۹۶۲ء میں منظر عام پر آیا ، جس کی شاعری ہوا کے خوشگوار جھونکے کی طرح سامنے آئی اور مظہر امام کے وجود کا احساس کرایا۔  دو سرا  شعری مجموعہ۱۹۷۴ء  میں ’’  رشتہ گونگے سفر کا  ‘‘  شائع  ہوا،   جس میں ان کی شاعری کی انفرادیت کی جھلک بہت  نمایاں تھی  اور اس پر ادبی حلقوں میں خاصی گفتگو بھی ہوئی اور تیسرے شعری مجموعہ’’  پچھلے موسم کا پھول  ‘‘  جو کہ ۱۹۸۸ء  میں منظر عام پر آیا ، اس  مجموعہ نے مظہر امام کی شاعری کی نہ صرف ا  نفرادیت  بلکہ عظمت کو مستحکم کر دیا ، اس حد تک کہ اس شعری مجموعہ کو ۱۹۹۶ء میں ساہتیہ اکاڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ اس شعری مجموعہ کے دونوں فلیپوں پر مسعود حسین خاں ، شمس ا لرحمٰن فاروقی ، راج نرائن راز، غیاث احمد گدّی ، حامدی کاشمیری  اور محمد یوسف ٹینگ نے مظہر امام کی شاعرانہ  صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے ان کے مخصوص رنگ تغزل اور منفرد  لب و لہجے کے نقوش کی بازیافت  اور اسلوب و اظہار کی پختگی پر اتفاق کیا ۔ اندرونی آٹھ صفحات پر آل ا حمد سرور نے  ’’  مظہر امام ؛ لفظ کے رمز شناش  ‘‘ کے عنوان سے مظہر امام کے افکار و خیال کی بلندی ٔ پرواز ی پر سیر حاصل گفتگو کی۔    مظہر امام کا آ خری  شعری ( نظموں  کا ) مجموعہ  ۱۹۹۲ء میں  ’’  بند ہوتا ہوا بازار  ‘‘  کے نام سے آیا ۔   مظہر امام  اپنی شاعری کے ابتدائی سفر میں حسن و عشق کے رومان پرور ماحول اور حسن و شباب کی خواب آور فضاؤں میں گم رہے لیکن جب جب مظہر امام زندگی کی تلخ حقیقتوں سے دوچار ہوئے تو زندگی کی تلخیوں کو گھونٹ گھونٹ پینے لگے ۔ وہ خود کہتے ہیں:

’’قومی اور بین الاقوامی انتشار نے ایقان و اعتماد کی دیواروں کو متزلزل کردیا ۔ زندگی کی عزیز قدریں ، آہستہ آہستہ فنا ہو رہی ، فریب، ریا ، تنگ نظری ، جانب داری اور خود غرضی کی بڑی کریہہ صورتیں سامنے آئیں ۔ احباب کی شفقتوں نے پرانے زخموں پر نمک پاشی بھی کی اور نئے زخموں کا اضافہ بھی کیا۔۔۔۔۔۔۔۔

         زندگی کی شکستوں اور تلخ تجربوں نے جن کی نوعیت ایک دوسرے سے قطعی مختلف تھی۔ میری روح میں یاس و تلخی کا زہر گھول  دیا ۔غالباً یہ میرے حق میں اچھا ہی ہوا کیونکہ اس کے بغیر شاید میں اپنے عہد کے مزاج سے ناآشنا اور اپنے ہم عصروں کے لئے اجنبی رہتا۔‘‘                                    (زخم تمنّا ،ص :۱۳)

         زندگی کی تلخیوں ، کربناکیوں، محرومیوں اور مایوسیوں سے مظہر امام متاثر ہوتے ہیں لیکن فرار حاصل نہیں کرتے ۔بلکہ وہ ان سے نبردآزما رہنے کا حوصلہ رکھتے  ہیں۔

روز ازل سے ترشیٔ حالات ہے نصیب

پھر بھی مئے حیات کا اترا نہیں خمار

٭

دوستوں سے ملاقات کی شام ہے

یہ سزا کاٹ کر اپنے گھر جاؤں گا

٭

سنّاٹے کے گہرے پن میں گم ہے اپنی بھی آواز

ڈھونڈ کے لاؤں کوئی دشمن اس سے دودو بات کروں

         مظہر امام کی شاعری عہد حاضر کی تمام تر کیفیات اور اس کے اسرارو رموز سے جڑی ہوئی ہے ۔ خوف اور عدم تحفظ کا احساس افسردگی، ،بے زاری ، بے بسی ، بے کیفی، بے چہرگی، درد و کرب، گھٹن شکستگی ذات کا کرب اور احساس تنہائی وغیرہ جو عصر حاضر کی دین ہیں ان کا اظہار پورے فنی حسن اور فکری بالیدگی کے ساتھ مظہرامام کے یہاںموجود ہیں ۔ ایسے لمحات کے اظہار میں مظہر امام کسی شاعر کی تقلید نہیں کرتے۔ بلکہ وہ جو دیکھتے اور جھیلتے ہیںانہیں بڑے خلوص اور اعتماد کے ساتھ  پیش کرتے ہیں ۔اور چونکہ مظہر امام نے اپنا لب و لہجہ ، اپنا اسلوب اور اپنی آواز کو خود تراشا ہے اس لئے ان کے فکرو احساس میں تنوع، لب و لہجہ اور اسلوب میں ایک ایسی انفرادیت جھلکتی ہے جن سے مظہر امام کو بہ آسانی پہچانا جاسکتا ہے ۔ شوخی، شائستگی اور شگفتگی بھی مظہر امام کے اہم اوصاف ہیں ،  مظہر امام کے یہ اشعار دیکھئے ۔

میں تو اس حشر تماشا میں خدا بن کے رہا

تو بھی اس بھیڑ میں ہوتا تو اکیلا ہوتا

٭

تیشہ اٹھا لیا ہے تو اب جو بھی زد میں آئے

اس راستے میں تیری عمارت بھی آئے گی

٭

جس سے کترا کے نکلتے رہے برسوں سر راہ

اس سے کل ہاتھ ملایاتو وہ اپنا نکلا

٭

خوشی سے آگ لگاؤ کہ اس محلّے میں

مرا مکان ہی نہیں تمہارا گھر بھی ہے

٭

دیواریں ہل رہی ہیں زماں و مکاں کی

گرتا ہوا یہ گھر کوئی آکر سنبھال دے

٭

         مظہر امام کے یہاں کوئی تاثر، کوئی کیفیت، کوئی خیال اور کوئی احساس آورد کا نتیجہ نہیں۔بلکہ ہر جگہ آمد ہی آمد ہے اور ان میں شعریت کے ساتھ ساتھ فکرو معنی کی تہہ در تہہ حسن ملتا ہے ۔بعض فکری پہلو مظہر امام کے یہاں ایسے ہیں جن پر فلسفہ کا گمان ہوتا ہے ۔لیکن       در حقیقت یہ فلسفہ نہیں ہے ،بلکہ حیات و کائنات کے دردو داغ ، جستجو و آرزو اور اس کے اسرار رموز ہیں ۔اور ان کیفیات کے اظہار و احساس کے لئے مظہر امام علامتوں استعاروں اور تشبیہوں کا بھی خوبصورت استعمال کرتے ہیں اور اپنے فکرو خیال کو گنجلک ،لایعنی اور ابہام سے بچاتے ہوئے گہری معنویت پیدا کرتے ہیں اور تراشے گئے استعارے علامتیں یا تشبیہیں اشعار میں جزو لاینفک کی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں ۔یہ کیفیتیں غزلوں کے ساتھ ساتھ نظموں میں بھی بڑے حسین انداز میں ملتی ہیں چند نمونے دیکھئے   ؎

  سوچتا ہوں کہ تجھے کون سا تحفہ بھیجوں؟

           اپنے ہونٹوں کی جلن ، اپنی نگاہوں کی تھکن!

           اپنے سینے کی گھٹن ، اپنی امنگوں کا کفن!

           جادۂ زیست پہ بکھرے ہوئے کانٹوں کی چبھن!

           عمر بھر کا سرمایہ یہی ہے اے دوست!

  (تحفہ)

میں بھٹکا ہوں

کتنے سرابوں میں صحراؤں میں

کئی کارواں مجھ سے آگے گئے

ان کے نقش پا ابھی مشتمل ہیں

  ابھی دھول نے ان پہ چادر بچھائی نہیں ہے

مجھ سے پیچھے

نئے کاروانوں کی گرد اڑرہی ہے

کچھ جیالے جوان

تازہ دم ، تیز رو

اور میں

وقت کی رہ گزر کا وہ تنہا مسافر

جو ہر قافلے سے الگ

رہ رؤں سے الگ

اجنبی سمت

یوں چل رہا ہے

کہ اس کے سوا کوئی صورت نہیں ہے

(رشتہ گونگے سفر کا)

ان کے علاوہ مظہر امام کی بعض نظمیں مثلاً پوسٹ نہ ہونے والا ایک خط ، ٹھہرے ہوئے لمحے سے پرے، چلوائے امام ، اے دوست، شعاع فردا کے راز دانو، خواب سچ بھی ہوتے ہیں، آنگن میں ایک شام ،اور گوشت کا نغمہ وغیرہ ایسی ہیں جن میں مظہر امام کی شاعری معیار کی بلندیوں پر نظر آتی ہیں۔مظہر امام پر ان کے ایک ہمعصر اور ہم وطن شاعر اویس احمد

 دوراں نے ماہنامہ ’ شاعر ‘ کے گوشئہ مظہر امام  کے صفحہ نمبر ۲۸ پر  ایک الزام لگایا ہے کہ  :

’’ہندوستان میں جدیدیت کے فروغ کے بعد وہ بہت سے اردو شعرا ء کی طرح ترقی پسند تحریک کے دھارے سے کٹ کر علیٰحدہ ہوگئے ۔ ان کی دانست میں ترقی پسندی فکرو نظر کے کٹرپن کا دوسرا نام تھا ۔ یہ چیز ان کے لئے شجر ممنوعہ بن گئی اور جدید شاعروں کے ساتھ ہوگئے ۔ اس سلسلے میں میرا ذاتی احساس یہ ہے کہ فکرو نظر کے کٹر پن کی بات محض ایک بہانہ تھی ۔ان کو اصل جدیدیت میں کشش نظر آئی ۔ آدمی نہایت ذہین اور نبّاض ہیں ۔اس لئے ان کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ اب جدیدیت کا ہی بول بالا ہوگا، اور ترقی پسندی رفتہ رفتہ ماند پڑ جائے گی۔ اس لئے تحفظ شہرت کی خاطر انہوں نے ادب کے ترقی پسند نظریہ کو خیرباد کہا اور جدید شعرا کی محفل میں چلے آئے۔‘‘

         میرا خیال ہے کہ مظہر امام پر یہ الزام غلط اور بے بنیاد ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مظہر امام نہ تو ’’تحفظ شہرت ‘‘ کے لئے ’’جدید شعراء‘‘ کی محفل میں آئے اور نہ ہی ترقی پسند تحریک کے کٹر پن کی وجہ کر ،بلکہ مظہر امام نے شاعری کی ارتقائی منزلوں کو طیٔ کیا ہے۔آج ہم جن حالات ، حادثات، واقعات سے گزررہے ہیں وہ یقینی طور پر کل نہیں تھے  یا آج جو ہیں وہ کل نہیں ہوں گے ۔ ترقی پسند تحریک کے زمانے میں جو سیاسی ، سماجی اور معاشرتی ڈھانچہ تھا وہ آج بدلی ہوئی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔اور پھر شاعر و ادیب تو وقت کا نباض ہوتا ہے ۔اپنے آس پاس کے ماحول یا پھر ذاتی احوال کو وہ بیان کرتا ہے ۔ موجودہ عہد میں ذات کا کرب ، تنہائی ، محرومی، مایوسی ، گھٹن، بے چہرگی ، ظلم، بربریت ، ناانصافی ، استحصال وغیرہ زندگی کے ہر مو ڑ پر موجود ہیں ۔ پھر ان سے شاعر کا متاثر ہونا بالکل فطری عمل ہے ۔اگر مظہر امام کی شاعری اور فکر و احساس میں عہد حاضر کی جھلکیاں موجود نہ ہوتیں اور وہ گل و بلبل ، حسن و عشق اور ہجر وصال کی باتیں کرتے ہوتے تو یقینی طور پر مظہر امام کی آج جو مقبولیت ہے وہ نہ ہوتی ۔بلکہ انہیں فرسودہ  قرار دے کر فراموش کردیا جاتا۔مظہر امام کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ انہوںنے بدلتے ہوئے وقت اورحالات کی عکاسی کی ہے اور اپنی فکری بصیرت اور فنی آگہی سے غزلوں اور نظموں میں نت نئے گل و بوٹے کھلائے ہیں اور عصری حسیت اور جدید تقاضوں کو پورا کیا ہے ۔اس کا اعتراف فراق گورکھپوری نے اس طرح کیا ہے۔

’’مظہر امام کی شاعری لطافت احساس اور طہارت فکر کی خوبصورت مثال ہے ان کے یہاں ایک چٹیلا پن اور نشاط آمیز دل گرفتگی ہے جو ان کے کلام کو انفرادیت بھی عطا کرتی ہے اور دل نوازی بھی۔‘‘

     فراق کے اس اعتراف نے مظہر امام کا یقینا حوصلہ بڑھایا اور اپنے شعری سفر کو مذید فعال اور کامیاب بنانے کے لئے انھوں نے اپنی شاعری میں تازگی ، شگفتگی ، روایت کی پاسداری ، جدید حسیت، عصری تقاضوں کا احساس ، فکری اور فنی آگہی و عرفان ، منفرد لب و لہجہ ، مخصوص اسلوب اور حیات و کائنات کے گہرے شعور کو  اس طرح رچایا  بسایا اور  ایسی فضا پیدا کردی کہ  آل احمد سرور جیسے نامور نقاد کو بھی یہ کہنا پڑا کہ :

’’مظہر امام ہمارے ان ممتاز شعراء میں سے ہیں جن کے یہاں عصری میلانات اور نئی حسیت کی عکاسی کے ساتھ اپنی ساری ادبی روایت کا عرفان بھی ملتا ہے ۔ ان کے یہاں غم و غصّہ یا بیزاری کے بجائے ایک سچے فنکار کا گھمبیر لہجہ ہے۔‘‘

آل احمد سرور کے بعد شمس الرحمن فاروقی نے بھی اعتراف کیا کہ؛

’’مظہر امام کو اپنے لہجے کی انفرادیت ثابت کرنے کے لئے کسی خارجی سہارے کی  ضرورت نہیں ہے بلکہ حیات و کائنات سے ان کا رشتہ ہی ایسا ہے کہ اس کا تصور کسی روایتی فکر سے وابستہ نہیں کیا جاسکتا۔‘‘

جدیدیت کے علمبردار نقادوں کے ساتھ ساتھ ترقی پسندنقاد بھی مظہر امام کی شاعرانہ عظمت کے اعتراف میں پیچھے نہیں رہے،  قمر رئیس نے لکھا تھا ؛

    ’’مظہر امام کی شاعری سلگتے ہوئے قلب ، دھڑکتے ہوئے ذہن ، دہکتے ہوئے شعور اور ہانپتے ہوخوابوں کی شاعری ہے ۔ایک بے پایاں درد ایک مستقل کرب ، جو ان کی ہی تخلیق میں چمک اٹھتاہے۔ وہی اس درد سے اس زندگی سے اور خود اپنی شاعری سے ان کے رشتوں کا شناختی نشان ہے۔‘‘

احتشام حسین جیسا نقاد بھی مظہر امام کی شاعرانہ تنوع اور تازگی کو پسند کیا تھا؛

     ’’ میں مظہر امام کی نظمیں اور غزلیں بڑے شوق سے پڑھتا ہوں ۔ اظہار بیان کی تازگی کی وجہ سے وہ فوراً اپنی جانب متوجہ کرلیتی ہیں۔ مظہر امام نے اشاریت اور سپاٹ اظہار کے درمیان ایک راستہ نکالا ہے ،جو نہ تو ابہام کی طرف جاتا ہے نہ فرسودگی کی جانب، بلکہ تازگی اور تنوع کا احساس دلاتا ہے ۔‘‘

         مابعد جدیدیت کے نقاد گوپی چند نارنگ بھی مظہر امام کی شاعری میںنئے تقاضوں کے معترف ہیں ، کہتے ہیں ؛

’’مظہر امام ہماری شاعری میں کسی دھماکے سے داخل نہیں ہوئے ۔ انہوں نے فکرو خیال کو خلوص و درد کی دھیمی آنچ میں تپا کر اپنے لئے رفتہ رفتہ جگہ پیدا کی ہے ۔ ان کی شاعری کا رخ نئے تقاضوں کی طرف ہے لیکن فنی سطح پر انہوں نے روایت سے اپنا رشتہ نہیں توڑا ۔

 اس سے ان کے اسلوب و اظہار میں ایک خوش آہنگی اور بے تکلفی آگئی ہے۔‘‘

ان چند خیالات کے بعد ایک بار پھر ہم مظہر امام کی شاعر انہ  وادیوں میں داخل ہوں تو ہمیں ایسے بے  حد خوبسورت اور با مٰنی اشعار دیکھنے کو ملتے ہیں، مثلاََ ؛

مرے سب خواب تاروں کی طرح ٹوٹے مگراس کا

گلوں کی  اوس میں  بھیگا  ہوا  پیکر نہیں  بدلا

٭

کیا پتہ تھا ایک دن تصویربن جا ئیں گے ہم

خامشی چپکے سے آئے گی صدا لے جائے گی

٭

نہ اتنی دور جایئے کہ لوگ پوچھنے لگیں

    کسی کو دل کی کیا خبر ، یہ ہاتھ تو ملا رہے

      دل و دماغ پر چھا جانے والے ایسے اشعار کہنے والے شاعر کی رحلت سے اردو شاعری کو یقینی طور پر ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ مظہر امام کی صدا ضرور گم ہو گئی ہے ، لیکن وہ اپنے اشعار میں تصویر مجسم بن کر ہمیشہ ہمیشہ ہمارے سامنے رہینگے۔

***

Leave a Reply